Lucid dreams

Lucid dreams

روشن خواب اس وقت ہوتے ہیں جب خواب دیکھنے والے کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ خواب دیکھ رہے ہیں اور اکثر خواب کے مواد کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ روشن خواب دیکھنے کی صحیح وجوہات ابھی تک پوری طرح سے سمجھ میں نہیں آئی ہیں، لیکنتحقیق بتاتی ہے کہ اس کا تعلق ان سے ہو سکتا ہے:1. دماغ کی کیمسٹری نیورو ٹرانسمیٹر جیسی نوریپائنفرینسیروٹونن اور ایسٹیلکولین خواب دیکھنے میں حصہ ڈال سکتےہیں۔ 2 نیند کا مرحلہ واضح خواب عام طور پر REM نیند کے دورانہوتے ہیں، جب دماغ کی سرگرمی بیدار ہونے کی طرح ہوتی ہے۔3 خود آگاہی خود کی عکاسی ذہن سازی اور حقیقت کی جانچحقیقت کی جانچ کی مشق سے خواب دیکھنے کے امکانات بڑھسکتے ہیں۔4 دماغ کے علاقے پریفرنٹل کورٹیکس عارضی لابس اور بصریپرانتستا جیسے علاقوں میں ایکٹیویشن خواب دیکھنے میں شاملہو سکتی ہے۔5 جینیات کچھ لوگ قدرتی طور پر جینیاتی عوامل کی وجہسے خواب دیکھنے کا زیادہ شکار ہو سکتے ہیں۔6 مشق اور تربیت خوابوں کا جریدہ رکھنا، حقیقت کی جانچکرنا اور مراقبہ جیسی تکنیکیں خوابوں کی تعدد کو بڑھا سکتی ہیں۔7 نیند کا معیار مناسب نیند لینا مستقل نیند کے شیڈول کوبرقرار رکھنا اور نیند کے معیار کو بہتر بنانے سے خواب دیکھنے کےامکانات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔یاد رکھیں روشن خواب دیکھنے میں مشق صبر اور لگن کیضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ روشن خوابوں کو تلاش کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو نیند کا مستقل شیڈول تیار کرنے خوابوں کا جریدہ رکھنے اور حقیقت کی جانچ کی مشق کرکے شروعات کریں

What is Hypnotism

What is Hypnotism

ہنوس (Hypnos) نیند کے یونانی دیوتا کا نام تھا۔ اس لئے وہ جو نیند پیدا کرے اسے بمپومز (Hypnosis) کہا گیا۔ جبکہ عام طور پر اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ وہ مہارت جس سے دوسروں کے ذہن اور جسم پر اثر انداز ہو کر اسے سلا دیا وہ . جائے یا اس حد تک اس میں غنودگی پیدا کر دی جائے کہ وہ اپنی قوت ارادی تقریبا کھو بیٹے ہندی میں اسے ولی کون و دیا (Vishikiyan Vidya) کہا جاتا ہے اور اس سے مراد وہ علم ہے جس سے دوسروں کو اپنے مکمل کنٹرول میں کر لیا جاتا ہے۔ اس علم کی نیاد ابتدائی طور پر ہندوستان میں اپنی ذہنی قوت کو مرتکز کرنے کے لئے رکھی گئی تھی اور کہ دوسروں پر اثر انداز ہونے کے لئے۔ ہندوستان میں پریکٹس کرنے والوں نے س علم کو اپنی ذہنی صلاحیت بڑھانے اور سوچ کو مرتکز (Concentrate) کرنے کے ہیں جس لئے ہی استعمال کیا۔ انہوں نے اس کو ایسے تصور کیا کہ یہ خدا کا ایک ایسا تحفہ – سے وہ انسانوں کو سمجھ اور پہچان سکتے ہیں۔ ہندو جوگیوں نے اس علم کو فروغ دیتے ہوئے اس کو اپنی ذات کو پہچاننے کے لئے استعمال کیا۔ انہوں نے اس کو اپنے اندر کے انسان اور روح کو اور پوشیدہ رازوں کو پہچاننے کے لئے استعمال کیا اور اپنے آپ کو مکمل طور پر رب کائنات کی تابعداری میں وقف کر دیا۔ ہندوستانی عالم ہمیشہ یہی یقین رکھتے رہے کہ جسم سے دماغ کی طاقت زیادہ ہے اور تو بیچ یہ دی کہ کیا یہی چیز نہیں ہے جس نے انسانوں کو جانوروں سے افضل درجہ دیا۔ انہوں نے دیکھا کہ کیسے ہاتھی کو ایک چھوٹا سا نو کیلا آلہ کنٹرول کر لیتا ہے۔ اور خوفناک شیر کو صرف اک چھوٹے سے خنجر سے مارا جا سکتا ہے۔ ہم نے جو اپنی کہانیوں میں کئی دفعہ یہ بھی پڑھا ہے کہ بہت کیسے جوگی بزرگ جنگلوں میں گئے اور جب واپس آئے تو ان کی دینی طاقت ؟ بڑھ چکی تھی۔ آخر یہ کیسے انہوں نے حاصل کر لی کیونکہ جنگل میں تو ایسا کچھ نہیں تھا کہ جو ان کی اس سلسلے میں مدد کرتا۔ جنگل میں کوئی استاد تھا نہ کوئی سامان اور نہ کوئی دوسرا ذریعہ حقیقت میں وہ ایسا کرتے تھے کہ اپنی مذہبی قوت کو مرتکز کرنے کی صلاحیت بڑھا لیتے تھے۔ وہ کسی درخت کے نیچے بیٹھ جاتے اور گھنٹوں کسی ایک خاص نقطے کو گھورتے رہتے اس سے وہ اپنے دماغ کو ٹریننگ دیتے تھے کہ جو ذہن کہے گا وہی کرنا پڑے گا۔ ہم میں جس چیز کی کمی ہے وہ صرف یہ ہے کہ ہم کسی چیز پر اپنی زہنی طاقت کو مرتکز نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے ہم صورت حال کو صیح طور پر جانچنے اور پرکھنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اگر ہم یہ صلاحیت حاصل کر لیتے ہیں تو کسی بھی ایسی چیز پر نقل کر سکتے ہیں جس کو ہمارا دماغ چنے ۔ اس لئے ہندوستانی سوچ میں ذہنی قوت کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔لیکن اس کے برعکس مغرب بیرونی عناصر کو زیادہ ترجیح دیتا ہے۔ انہوں نے کبھی بھی روح اور جسم کے پیچیدہ سوالات کے جوابات معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے کبھی یہ سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ جسم اور روح پیدا کیسے ہوتے ہیں اور نہ انہوں نے انسان کے اردگرد موجود حلقے کو وسعت دینے کی ضرورت محسوس کی۔ وہ صرف ریت و روایات، کھانے پینے کی عادات اور مہذب ہونے اور شائستگی کو ہی فروغ دیتے رہے۔ بے شک و شبہ مغرب میں صرف یہ ہی خیال کیا جاتا تھا کہ انسان صرف وہ ہی بن سکتا ہے جس کا وہ خود ارادہ کرے۔ وہ یقین کرتے ہیں کہ انسان کا روح سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی کچھ اس سے لینا دینا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انسان کی ذہنی قوت سکڑ گئی۔ جب اس نے اپنی عملداری میں کم محسوس کی تو انہوں نے اپنی بادشاہت بڑھانے کے لئے دوسروں پر حاوی ہونے کی کوششیں شروع کر دیں۔ لیکن جلد ہی انہیں احساس ہو گیا کہ اس طرح کی بنیادی چیزوں سے ذہنی سکون حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ جس کے باعث اب وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ظاہرانہ ٹھاٹھ باٹھ اور شائستگی سے سکون حاصل نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی یہ طاقت کے ظالمانہ استعمال سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح اب مغرب میں پہلی دفعہ یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ یہ صرف دماغ ہی ہے جو وقت اور جگہ کا صیح احاطہ کر سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ دماغ ہی ہے جو انسان کو ودیعت ہوتی ہے اور اس کی یہ بہتر طاقت اس کے عمل کو کنٹرول کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے آدمی ہنستا اور آہ و زاری کر پاتا ہے اور وہ باتیں بھی کر جاتا ہے جن کی بنیاد فی الوقت نظر نہیں آتی۔ اپنے مشاہدات سے کئی دفعہ وہ ایسی باتیں بھی کر جاتا ہے جن میں آنے والے واقعات کی جھلک ہوتی ہے، جن کو اب مغرب بھی ماننے لگا ہے۔ لیکن یہ خوبی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان اپنی دینی قوت کو مرتکز کر پاتا ہے، جس سے اس کا باطن بیدار ہوتا ہے، جس میں وقت کا ادراک کرنے کی حس ہوتی ہے۔ سائنس میں ابھی تک کسی ایسی طاقت کا نہ تو کوئی ثبوت دیا جا سکا ہے اور نہ اس کی توجیح لیکن مشرق میں یہ سب گتھیاں بہت پہلے سلجھائی جا چکی ہیں اور پنڈتوں جوتشیوں اور صوفیوں پر یہ سب چیزیں آشکارا ہیں۔ لیکن ان سب مشاہدات اور تجزیات کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایسے الفاظ میں لکھ دیتے ہیں جن کو سمجھنا مشکل ہے۔ ترجمہ کرنے میں یا تو ان کے معنی تبدیل ہو جاتے ہیں یا وہ سمجھ میں نہیں آتے۔ ہم کچھ ابتدائی کوششیں کر کے نتیجہ تو اخذ کر لیتے ہیں لیکن ان کی درمیانی کڑیاں غائب ہی رہتی ہیں۔ جیسے جیسے ان نیک اور پارسا لوگوں نے دماغ اور انسانی نفسیات کا مطالعہ کیا ان کو خوشگوار حیرت ہوئی کہ دماغ کے دو حصے ہیں ایک وہ جو بظاہر نظر آتا ہے اور دوسرا دماغ کا اندرونی حصہ ، یعنی شعور اور لاشعور ہمارا باہر والا دماغ یعنی شعور ہر لمحے دنیاوی حالات و واقعات کا جائزہ لے رہا ہوتا ہے اور جب یہ کام نہیں کر رہا ہوتا یعنی انسان سو رہا ہو اور دماغ حالات و واقعات کا جائزہ نہ لے سکے تو اندر والا دماغ یعنی لاشعور بہت تیزی سے کام کرنے لگتا ہے۔ اگر چہ ایسا ہر ہرگز نہیں ہے کہ لاشعور اس وقت کام نہیں کر رہا ہوتا جب انسان جاگ رہا ہوتا ہے، ہو لیکن ہمیں لاشعور کے کام کرنے کا اس وقت زیادہ احساس نہیں ہو پاتا بالکل اسی طرح لاشعور کے اس وقت زیادہ احساس اسی طرح یہ تھے کہ دن کی روشنی میں ہے کام کا احساس ہوتا ہے جس وجہ سے ہم جیسے کہ دن کی روشنی میں ہم ستارے نہیں دیکھ پاتے۔ اسی طرح جب ہم سو رہے ہوتے ہیں تو ہمیں لاشعور کے کام کرنے کا احساس ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہم خواب دیکھتے ہیں۔ ایسے وقت لاشعور کی اڑان اتنی اونچی چلی جاتی ہے کہ وہ ایسی چیزیں بھی ہیں تو سوالات کا وہ دیکھ لیا ہے جن کو ہم نے پہلے بھی نہیں دیکھا ہوتا۔ کبھی بھی وہ ایسے واقعات بھی دیکھ لیتا ہے جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا ۔ یہ وہ حالت ہوتی ہے جس کو خواب کہتے ہیں اور ان کا کچھ حصہ تو وہ ہوتا ہے جو واقعات گزر چکے ہوتے ہیں اور کچھ وہ ہوتے ہیں جو بیتے تو نہیں ہوتے لیکن ہمارے شعور میں موجود واقعات کا تسلسل ہوتے ہیں۔ ایسے میں دماغ کی وہ حس آنے والے واقعات کا سامنا کرا دیتی ہے۔ یوں لاشعور کا کردار بہت اہم ہو جاتا ہے کیونکہ لاشعور کو ماضی اور مستقبل کی جھلکیاں دیکھنے میں بالکل وقت نہیں ہوتی ۔ کئی دفعہ وہ ایسے واقعات بھی دیکھ لیتا ہے جو کبھی آنکھوں کے سامنے سے گزرے ہی نہیں ہوتے۔ لیے کئی واقعات ہمیں انسانی تاریخ میں رقم مل جاتے ہیں۔ ایک دفاعی امریکہ کے صدر ابراہم لنکن نے خواب دیکھا کہ ان کا قتل ہو گیا ہے۔ اس کی لاش وائٹ ہاؤس میں پڑی ہے جس پر سفید کپڑا پڑا ہوا ہے اور اس کی بیوی اور خاندان کے افراد اس کی موت پر سوگ منا رہے ہیں۔ خواب میں اس نے اپنے قاتل کو بھی دیکھا اور یہ نوٹ کیا کہ جس وقت قتل ہو رہا تھا وہ وائٹ ہاؤس کے ایک کمرے سے نکلا تھا۔ پہلے وہ ایک جگہ رکا اور پھر لنکن کی طرف آیا اور جیسا کہ لنکن نے خواب میں دیکھا کہ وہ فوراً ہی مر گیا۔یہ خوفناک خواب دیکھ کر لنکن فورا ہی جاگ گیا اور دیکھا کہ وہ پسینے میں بھیگا ہوا تھا۔ پھر بھی اس نے بہت احتیاط سے جو بھی باتیں خواب میں دیکھی تھیں اپنی ڈائری میں لکھ لیں۔ اس نے یہ تمام باتیں جو خواب میں دیکھی تھیں اپنی بیوی کو بھی بتائیں بشمول وقت، تاریخ اور جگہ کہ جب اس نے اپنے آپ کو قتل ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ آپ کو شاید یقین نہ آئے لیکن تمام تر احتیاطوں کے باوجود لیکن اپنی موت سے نہ بچ سکا جو بالکل اسی انداز میں آئی جیسا کہ اس نے خواب میں دیکھا تھا۔یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس سے ان لوگوں کو بھی جو ہر بات کی تو بیچ چاہتے ہیں یقین کرنا پڑا کہ لاشعور کتنی عجیب اور حیران کن حد تک کارکردگی کا اہل ہے۔ مغربی ماہر نفسیات نے ان واقعات کو تفصیل میں لانے کے بعد ان کا سراغ لگانے کی کوششیں شروع کر دیں کہ اس قسم کے واقعات کیسے اور کیوں ہوتے ہیں۔ اسی سراغ اور سائنسی ریسرچ کا نتیجہ آخرکار مسمریزم اور ہپناٹزم کی شکل میں سامنے آیا۔ ہپناٹزم کی تعریف عام طور پر یہ کی جاتی ہے کہ یہ وہ عمل ہے جس سے دوسروں پر مصنوعی نیند طاری کر دی جاتی ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہ ایسی پیدا کردہ مصنوعی حالت ہے جسمیں معمول کے دماغ کا کچھ حصہ کام کر رہا ہوتا ہے۔ اس لئے ہپناٹزم سے مراد وہ نیند ہے جو ایک ہپناٹزم کرنے والا اپنے معمول میں پیدا کرتا ہے جس میں معمول اپنے باہر والی دنیا سے بے خبر ہو جاتا ہے لیکن وہ تمام کام کرتا ہے جس کا حکم ہپناٹائز کرنے والا اپنے معمول کو دیتا ہے یعنی یہ وہ طریقہ ہے جس میں ایک آدمی دوسرے کی اس طرح مدد کرتا ہے کہ وہ باہر کی حقیقتوں سے نکل آئے اور اس کی رہنمائی میں وہ گہرائی میں جا کر خیالات کو جذب اور مرتکز کر سکے اور اس عمل کے دوران معمول کو ہپناٹائز کرنے والا جو بھی ہدایت دیتا ہے وہ اپنے خیالات کو اسی کے مطابق مرکوز کر لیتا ہے اور یہ معمول کی وہ حالت ہے جس میں وہ اپنی توجہ اپنے خیالات و واقعات کو صرف ہپناٹائز کرنے والے شخص کے کہنے کے مطابق ہی رکھتا ہے۔ نیند میں خیالات کو مکمل مرتکز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ حقیقت میں ہم سب روز مرہ زندگی میں کبھی نہ کبھی اس کا سامنا ضرور کرتے ہیں۔ جب کبھی ہم اپنے خیالات میں گم ہوتے ہیں یا بہت زیادہ پسندیدہ ٹیلیویژن پروگرام دیکھ رہے ہوں تو باہر کے حالات کو بھول جاتے ہیں۔ بے شک ہم سن بھی رہے ہوتے ہیں اور دیکھ بھی رہے ہوتے ہیں لیکن اس حالت میں ہمیں اگر کوئی آواز بھی دے تو سنائی نہیں دیتی۔

گو یہ اپنی طور پر کم ہونے کی حالت کچھ دیر ہی رہتی ہے اور پھر ہم حقیقت کی دنیا میں واپس آ جاتے ہیں۔ لیکن عارضی طور پر کم ہونے کی اس حالت کو ہم ہپناٹزم کی حالت سے دے سکتے ہیں۔ کبھی لوگ حالات و واقعات کو اتنا تکلیف دہ پاتے ہیں کو اپنے حالات اور ذہنوں وغیرہ سے تنگ آ کر ان سے اپنے آپ کو کونی طور پر باہر لانا چاہتے ہیں۔لیکن یہ وہ حالت ہے جس میں معمول ہپناٹائز کرنے والے کے احکامات کو بغیر کسی ہچکچاہٹ اور سوچے بغیر کہ اس کے اثرات کیا ہوں گے قبول کرتا ہے۔ اس حالت میں پچھلی کی طرح تمام احکامات کی تعمیل کرتا ہے اور بالکل اسی طرح کرتا ہے جیسے کرنے کو اسے کہا جاتا ہے۔ معمول ایک قسم کا ہپناٹائز کرنے والے شخص کے دماغ ز کا حصہ بن جاتا ہے اسی طرح سنتا ہے اسی طرح سوچتا ہے وہی کرتا ہے جو ہپناٹائزر اسے کہتا ہے۔ یہ سکتہ کی وہ کیفیت ہے جس میں ہوتا تو وہ بے ہوش ہے لیکن جسم کام کر رہا ہوتا ہے۔ ہپناٹائز کرنے والا اس حالت میں چاہے تو اس کا درد بھی دور کر سکتا ہے یا درد میں مبتلا کر سکتا ہے۔ وہ معمول کو کہہ کر کوئی کام کروا بھی سکتا ہے اور اسے کوئی کام کرنے سے روک بھی سکتا ہے۔ معمول ہپناٹائز کرنے والے کے ہاتھ میں صرف کوئی اوزار یا کوئی کھلونا بن کر رہ جاتا ہے۔یہی وہ وجہ ہے جس کے لئے ہپناٹزم پر اکثر تنقید کی جاتی ہے لیکن دوسرے علوم کی طرح اس سے نیک اور برے دونوں کام لئے جا سکتے ہیں۔ ایک ماہر نفسیات اسے استعمال کر سکتا ہے کہ اس مریض کی کھوئی ہوئی یادداشت واپس آ جائے۔ ایک ڈاکٹر اس کو درد اور دوسری بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کر سکتا ہے ایک مجرم ہپناٹائزر اس کو اپنے غلط مقاصد کے لیے بھی استعمال کر سکتا ہے جس میں صرف اس کا اپنا فائدہ ہی ہو لیکن ایسے لوگ بھی موجود ہیں کہ ایک معمول کو جب ایسے کام کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی جو اس کی مرضی کے خلاف تھا تو وہ ٹرانس سے باہر آگئے اور وہ کام کرنے سے انکار کر دیا۔ سوائے بہت گہری نیند کے Deepest) (Trance – باقی صورتوں میں ایک حد تک ہی معمول ( مرد یا عورت ) کو اس کی مرضی کے خلاف کام کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے اور وہ اس حد سے آگے نہیں جائیں گے۔ اس لیے یہ نظریہ کہ اپنا نائز کرنے والا اپنے معمول سے ہر کام کروا سکتا ہے چاہے وہ کام کتنا ہی غلط کیوں نہ ہو غلط فہمی پر مشتمل نظر آتا ہے۔اگر چہ کئی دفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ بہت مضبوط ہپناٹسٹ نے ایک کمزور ارادے کے شخص کو کنٹرول کر لیا لیکن فی الوقت جب آگاہی کے ایسے مختلف طریقے مود ہیں جن سے ذہن کو مضبوط کیا جا سکتا ہے ایسا ممکن نہیں ۔ وہ دن چلے گئے جب اس علم کو کچھ جاننے والے عام لوگوں کو بے وقوف بنا کر ان کا استحصال کرتے تھے۔ اس علم کے نام پر اب فراڈ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے برخلاف کئی ملکوں کی پولیس اسے عادی مجرموں سے اقبال جرم کرانے کے لیے بھی استعمال کرتی ہے۔ ہپناٹزم ایک فطری عمل ہے جس میں ہپناٹزم کا ماہر دوسرے شخص کی مدد کرتا ہے کہ وہ ہپناٹائز نیند کی حالت حاصل کر لے۔ وہ صرف رہنمائی کرتا ہے جب کہ اصل کام معمول خود کرتا ہے۔ ہپناٹائز کرنے والا اس صورت میں کچھ بھی نہیں کر سکتا اگر معمول کسی کام کو کرنے کے لئے آمادہ نہ ہو۔ ہپناٹسٹ اپنے علم کا ماہر ہوتا جبکہ ہم اس کے بارے میں زیادہ علم نہیں رکھتے لیکن پریکٹس کے بعد ہم اپنی رہنمائی خود کر سکتے ہیں اور ہپناٹائز کرنے کے مقاصد حاصل کرنے کے لئے مدد کر سکتے ہیں۔ اس مرحلے پر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو ہپناٹزم کی نیند ہے وہ دینی اس کمزوری کی حالت نہیں ہے۔ آئیں پہلے یہ وضاحت کر لیں کہ ہماری دینی قابلیت ہے کیا ؟ وہ عام طور پر لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو ذہنی طور پر صرف 1 کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں اور دوسرے وہ جو اپنی زہنی صلاحیت کو مرتکز کر سکتے ہیں۔ پہلی قسم کے لوگ ہر کام کر سکتے ہیں لیکن مکمل ماہر کسی کام کے نہیں ہوتے۔ وہ جہاں کہیں بھی جاتے ہیں حالات کا فوراً اور اک کر لیتے ہیں۔ فطرتی طور پر وہ باہر کی طرف دیکھنے والے (Extrovert) ہوتے ہیں۔ جیسے ہی وہ آپ کے ڈرائنگ روم میں داخل ہوں گے وہ آپ کے مرتبے کا اندازہ لگا لیں گے جس میں صوفہ، قالین اور دوسری وہاں موجودہ چیزیں مدد کرتی ہیں۔ آپ جب آ کر ان کو اپنا تعارف کرائیں

گے وہ پہلے ہی بہت کچھ آپ کے بارے میں جان چکے ہوں گے۔ وہ کئی چیزوں کے بارے میں نہیں جانتے ہوں گے لیکن اپنے کام کے ماہر ہوں گے۔ وہ آپ کو 39 قسم کے پودوں کے بارے میں بتا سکتے ہیں اور آپ کو یہ باور کرانے کی کوشش کریں گے کہ ان کا علم اور تجربہ بہت وسیع ہے اور وہ ہر چیز کو بہت تفصیل میں جا کر دیکھتے (Pipevision) ہیں۔ اس سلسلے میں بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ اس سلسلے میں دو بھائیوں کی مثال دی جاسکتی ہے جو شکاری تھے ہر وقت تیر کمان ہاتھ میں لئے تیر کمان میں چڑھاتے ہوئے رہتے ایک دن اُن میں سے ایک بھائی کو اُن کے استاد نے کہا کہ کیا آپ وہ درخت دیکھ سکتے ہو اور اس کے گرد کا علاقہ ؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں میں دیکھ سکتا ہوں اور پھر کہا کہ میں آپ کو دیکھ رہا ہوں ۔ بھائی کو، اپنے جسم کو، وہ درخت اور اس پر بیٹھا ہوا پرندہ۔ پھر استاد نے دوسرے بھائی سے پوچھا کہ آپ درخت پر کیا دیکھ سکتے ہو؟ کون سا درخت جناب! دوسرے بھائی نے پوچھا اور پھر کہا کہ اس پرندے کے دھندلے عکس کے علاوہ تو کچھ نظر نہیں آ رہا۔ جو میں بالکل صاف دیکھ سکتا ہوں وہ اس پرندے کی آنکھ ہے اور جب استاد نے حکم دیا دوسرا بھائی اس پرندے کی آنکھ کا درست نشانہ لگانے میں کامیاب ہو گیا۔ استاد نے نشانہ لگانے کے لئے پہلے بھائی کو کہا ہی نہیں کیونکہ اسے یقین تھا کہ وہ اس میں ناکام ہو جائے گا۔ یہاں پہلا بھائی اس پہلی قسم کے لوگوں سے تعلق رکھتا تھا جیسا کہ پہلے وضاحت سے بتایا جا چکا ہے جبکہ دوسرے شاگرد کا تجربہ بہت وسیع تھا اور وہ عمل پر یقین رکھتا تھا۔ ہپناٹزم کی اصطلاح میں یہ دوسری قسم کے لوگ زیادہ آسانی سے ہپناٹائر ہو جاتے ہیں۔ یعنی عملی مشاہدہ کرنے والے اور اپنے مشاہدے میں ہی رہنے والے حالانکہ ہپناٹائز حالت کو ایک قسم کی نیند ہی کہا جاتا ہے لیکن حقیقت میں یہ نیند نہیں ہوتی۔ اس کے برخلاف یہ تو آگاہی اور جاگنے کی وہ حالت ہے جس میں روح کی غیر مرئی طاقت بھی شامل ہو جاتی ہے۔ بظاہر معمول اس میں سویا ہوا نظر آتا ہے لیکن اندرونی طور پر وہ زیادہ جاگ رہا ہوتا اور زیادہ چست ہوتا ہے۔ انسانی ذہن کے کام کرنے کے طریقے کو جاننے کے لئے علم نفسیات کے بہت زیادہ مشاہدے کی ضرورت ہے۔ صدیوں سے یہ جانا جاتا ہے کہ لاشعور (Sub Conscious Mind)کبھی بھی نہیں بھولتا شعوری (Conscious Mind) طور پر ذہن جو تاثرات لیتا ہےوہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مٹتے جاتے ہیں جبکہ لاشعور اپنے مشاہدات مستقبل میں استعمال کے لئے ہمیشہ محفوظ رکھتا ہے۔ اس کی واضح مثال وہ اوائل عمری کی یادداشت ہوتی ہے جو کبھی ذہن سے نہیں نکلتی اور اکثر اوقات عصر حاضر کے ماڈرن لوگوں ، روایات پسند اور توجیح پسند لوگوں کے درمیان گرما گرم بحث کا موضوع بھی بن جاتی ہے۔ کچھ تو بیچ پسند یہ بھی کہتے ہیں کہ لاشعور میں جو یاداشتیں ہوتی ہیں وہ اس وقت سے ہوتی ہیں جب بچہ ابھی ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے۔ اس چیز کا کوئی ٹھیٹ جس سے یہ بات ثابت یا جھٹلائی جا سکے موجود نہیں ۔ ہم کبھی کبھار ایسے لوگوں سے بھی ملتے ہیں جو کہتے ہیں کہ کچھ اجنبی جگہیں ہمیں ایسے لگتی ہیں جیسے پہلے بھی ان جگہوں پر آئے ہوئے ہیں اور یہ جگہیں ہمیشہ دریا یا ندی کے نزدیک ہوتی ہیں۔ تو بیچ پسند یہ کہتے ہیں کہ جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو وہ ایک پانی کے تھیلے میں ہوتا ہے : اس لئے یہ بات اس وقت سے لاشعور میں بیٹھ جاتی ہے جب کہ بچہ ماں کے پیٹ میں تھا اور وہ بڑا ہو کر پانی بہنے والی چیزوں یعنی ندی یا دریا کے پاس جاتا ہے تو اس کالا شعور ان کو ایسے محسوس کراتا ہے جیسے وہ جگہ اس کی جانی پہچانی ہے۔ ان کی اس بات سے یہ چیز بھی ثابت ہوتی ہے کہ لاشعور اس وقت کی یادداشت بھی محفوظ رکھتا ہے جب کہ وہ ماں کے پیٹ میں تھا اور پوری طرح ذہن بن بھی نہیں پایا تھا۔لاشعور (Sub Consious) کے پاس کچھ ایسی زیادہ یادداشت اور چیزوں کو سمجھنے کی طاقت ہوتی ہے جس کا تجزیہ اور توجیح مکن نہیں۔ لاشعور کو وقت اور جگہ کی قید بھی نہیں ہوتی۔ وہ ماضی اور مستقبل دونوں میں جھانک سکتا ہے اس لئے کبھی کبھی ایسی غیر معمولی مستقبل بینی بھی کر لیتا ہے جیسے کہ اس نے صدر لنکن کے سلسلے میں کی۔ ہپناٹائز کرنے والا اس طاقت کا استعمال کرتا ہے معمول کو اس چیز کا احساس دلائے بغیر کہ اس کا لاشعور استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس لئے صبر ، قوت، ارادہ اور لگا تار کوشش ہپناٹزم کی بنیادی ضروریات میں سے ہیں جس سے اس کی پوشیدہ طاقتیں ظاہر ہو جاتیں جاتا ہے جو وہ چاہتا ہے اور اس کے عمل سے اس کی زندگی بہت زیادہ بہتر ہو جاتی ہے۔ اگر چہ ہپناٹزم کا معجزانہ استعمال چاہے یہ اچھائی کے لئے ہو یا برائی کے لئے ہپناٹزم حاضر میں انسانی علم نے بہت زیادہ بہت پرانے زمانے سے کیا جا رہا ہے۔ عصر حاضر :وسعت اختیار کر لی ہے لیکن پھر بھی ہپناٹزم کا خزانہ، جادو اور مقناطیسیت کے بہت سے پہلو ابھی بھی دریافت ہونے باقی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ صرف علم پر منحصر نہیں ہے اس کے لیے موزوں حس، تجربے اور گہرے مشاہدے کی ضرورت ہے ہپناٹزم روح کی جسم پر حکمرانی قائم کرتا ہے۔ اندرونی صلاحیت پر عمل کرنے کی قابلیت اور انسان میں موجود مقناطیسیت کو بڑھاتا ہے۔ اس لئے ہپناٹزم نفسیات کا وہ عمل ہے جس میں بہت زیادہ کمال چاہئے۔لیکن اس قسم کے علوم میں ان پر مضبوط یقین کا ہونا ضروری ہے اور یہ وہ چیز ہے جو ہپناٹزم کو بنیاد فراہم کرتا ہے۔

لوح عشق

لوح عشق

یوں تو بہت سے القابات سے نوازا گیا مجھ کو
مگر اپنا آخری نام تو میں نے حُسین رکھا ہے
یوں تو سبھی حرف اس کے لوح عشق ہیں مجھکو
مگر تیرے آخری خط کا عنوان کوفیوں کا خط رکھا ہے

آتش ہائے شوق

آتش ہائے شوق

وفا شعار عورت مینارہ محبت کیوں ہے
کیونکہ۔۔
وہ اپنی ہی راکھ میں آرزؤں کا محل تیار کرتی ہے
اس کے سچے جذبوں میں اس قدر استقامت ہوتی ہے
کہ۔۔
حوادث زمانہ اس کے جنت کدے کو مسمار نہیں کر سکتے

اس عورت کو خراج تحسین پیش کیجئے جو۔۔
آتش ہائے شوق اور موسمی مزاجوں کی صورت گر ہوتی ہے

اپنے لہو میں رقص کرتی محبت کی گردش کو تھمنے نہیں دیتی
وہ
ایک سمندر بن کر اپنی لہروں کو میٹھی نیند سونے بھی نہیں دیتی

البتہ
صبر اس کی جبلت کا حسن ہوتا ہے

کوئی کج ادا جب پارسائی کے باوجود اس کے گلے میں ذلت کا طوق ڈالتا ہے

تب بھی آخری حد تلک اس کی چاہت اور اضمحلال کی لہریں محبوب کے خاردار دل پر دستک دیتی رہتی ہیں

مگر
وہی شخص جب اس کی نظروں سے گر جائے تو وہ۔۔
پلٹ کر اسے دیکھنا نسائیت کی توہین سمجھتی ہے

البتہ عورت کا غیور ہونا بھی شرط ہے

ڈاچی

ڈاچی

پی سکندر کے مسلمان جاٹ باقر کو اپنے مال کی طرف حریصانہ نگاہوں سے تا کتے دیکھ کر اد کا نہ کے گھنے درخت سے پیٹھ لگائے نیم غنودگی کی حالت میں بیٹھا چوہدری نندو اپنی اونچی گھرگھراتی آواز میں للکار اٹھا رے رے اٹھے کے کرت ہے؟ اس کا چھ فٹ لمبا کیم شیم جسم سن ہو گیا اور بٹن ٹوٹ جانے کی وجہ سے موٹی کھاری کے کرتے سے اس کا چوڑا چکلا سینہ اور مضبوط کندھے صاف دکھائی دینے لگے۔ پاتر ذرا نزد یک آگیا۔ گرد سے بھری ہوئی کیلی داڑھی اور شرعی مونچھوں کے اوپر گڑھوں میں دھنسی ہوئی دو آنکھوں میں ایک لمحہ کیلئے چمک پیدا ہوئی اور ذرا مسکرا کر اس نے کہا اچی دیکھ رہا تھا چوہدری کیسی خوبصورت اور جوان ہے ۔ دیکھ کر بھوک مٹتی ہے ۔“ اپنے مال کی تعریف سن کر چوہدری نندو کا تناؤ کچھ کم ہوا۔ خوش ہو کر بولا ” کونسی ڈاچی ۔وہ پرلے سے چوتھی باقر نے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اوکانہہ کے ایک گھنے پیڑ کے سائے میں آٹھ دس اونٹ بندھے تھے انہی میں وہ جوان سانڈنی اپنی لمبی خوبصورت اور سڈول گردن بڑھائے پتوں میں منہ مار رہی تھی۔ مال منڈی میں ڈور ۔۔۔۔ جہاں تک نظر کام کرتی تھی، بڑے اونچے اونٹوں ، خوبصورت سانڈنیوں گدھے بھی تھے پر نہ ہونے ہی تھے پر نا ہونے کے برابر زیادہ تر تو اونٹ ہی تھے بہاول نگر کے ریگستانی علاقے میں ان کی کثرت ہے بھی قدرتی اونٹ ریگستان کا جانور ہے اس لیے ریتلے علاقے میں آمد و رفت کھیتی باڑی اور بار بر داری کا کام اس سے ہوتا ہے۔ پرانے وقتوں میں جب گائیں دس دس اور بیل روپے میں مل جاتے تھے تب بھی اچھا اونٹ پچاس سے کم میں ہاتھ نہ آتا تھا اور اب بھی جب اس علاقے میں نہر آگئی ہے اور پانی کی اتنی قلت نہیں رہی ۔ اونٹ کی وقعت کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھی ہی ہے اور سواری کے اونٹ دو دوسو سے تین تین سو تک پائے جاتے ہیں۔ ذرا آگےبڑھ کر باقر نے کہا۔ سچ کہتا ہوں چوہدری اس جیسی خوبصورت سانڈنی مجھے ساری منڈی میں دکھائی نہیں دیتی مسرت سے بندہ کا سینہ دگنا ہو گیا بولا ” ایک ہی کے او یہ تو سنگلی پھوڑی ہیںہوں تو انہیں چارہ پھانسی نیر یا کروں۔آہستہ سے باقر نے پوچھا ” بیچو گے اسے؟“ٹھی بیچنے نئی تو لایا ہوں “ ہندو نے ذرا ترشی سے کہاتو پھر بتاؤ کتنے کو دو گے“ باقر نے پوچھا۔نندو نے باقر پر سر سے پاؤں تک ایک نگاہ ڈالی اور ہنستے ہوئے بولا تنے چاہی مجے کا تیرے دھنی ہیئی مول لیسی مجھے چاہیے“ باقر نے ذرا سختی سے کہا۔نندو نے ذرا بے پروائی سے سر ہلایا ۔ اس مزدور کی یہ بساط کہ ایسی خوبصورت ڈاچی مول لے ۔ وہ آبولا توں کی لیسی“ باقر کی جیب میں پڑے ہوئے ڈیڑھ سو کے نوٹ جیسے باہر اچھل پڑنے کو بےقرار ہو اٹھے ۔ ذرا جوش سے اس نے کہا ” تمہیں اس سے کیا کوئی لے تمہیں تو اپنی قیمت سے غرض ہے تم مول بتاؤ ؟نندو نے اس کے بوسیدہ کپڑوں، گھٹنوں سے اٹھے ہوئے تہہ بند اور نوح کے وقت سے بھی پرانے جوتے کو دیکھتے ہوئے ٹالنے کی غرض سے کہا جاتو اشی وشی مول لے آئی

ایہنگومول تو آٹھ بیسی سوں گھاٹ کے نہیں۔”ایک لمحہ کیلئے باقر کے تھکے ہوئے جسم میں مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ اسے ڈر تھا کہ چوہدری نہیں اتنا مول نہ بتادے جو اس کی بساط سے باہر ہو لیکن اب جب اپنی زبان ہی سے اس نے ایک سو ساٹھ بتائے تو اس کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔ ڈیڑھ سو تو اس کے پاس تھے ہی اگر اتنے پر بھی چوہدری نہ مانا تو دس روپے کا اس سے ادھار کر لے گا ۔ بھاؤ تاؤ کرنا تو اسے آتا نہ تھا۔ جھٹ سے ڈیڑھ سو کے نوٹ نکالے اور نو کے آگے پھینک دیئے ۔ بولا ” من لو ان سے زیادہ میرے پاس ایک پائی نہیں اب آگے تمہاری مرضی ہندو نے باول نا خواستہ نوٹ گنتے شروع کیے لیکن گنتی ختم ہوتے ہی اس کی آنکھیں چمک اٹھیں ۔ اس نے تو باقر کو ٹالنے کی غرض سے ایک سو ساٹھ بتایا تھا۔ اس سانڈنی کے تو ایک سو چالیس پانے کا خیال اسے خواب میں بھی نہیں تھا دل کی خوشی کو دل ہی میں دبا کر اور باقر پر احسان کا بوجھ لادتے ہوئے نندو بولا سانڈنی تو میری دوسو کی ہے ۔ پن جاسکی مول میاں تنے دس چھانڈیا اور یہ کہتے کہتے اس نے اٹھ کر سانڈنی کی رسی باقر کے ہاتھ میں دے دی ۔ ایک لمحہ کیلئے اس وحشی صفت انسان کا دل بھی بھر آیا ۔ یہ سانڈنی اس کے یہاں ہی پیدا ہوئی اور پلی بڑھی تھی ۔ آج پال پوس کر اسے دوسرے کے ہاتھ میں سونچتے ہوئے اس کے دل کی کچھ ایسی ہی حالت ہوئی جولڑ کی کو سرال بھیجتے وقت باپ کی ہوتی ہے ۔ آواز اور لہجے کو ذرا نرم کر کے اس نے کہا ” آسانڈ سو ہری رہ میری ہے تو انہیں رہٹری میں نہ گیرو یہی ایسے ہی جیسے خسر داماد سے کہہ رہا ہو میری لڑکیلاڈوں پلی ہے دیکھنا اسے تکلیف نہ ہو ۔“ خوشی کے پروں پر اڑتے ہوئے باقر نے کہا ” تم فکر نہ کرو۔ جان دے کر پالوںگا۔نندو نے نوٹ انٹی میں سنبھالتے ہوئے جیسے سوکھے ہوئے گلے کو ذرا تر کرنے کیلئے گھڑے سے مٹی کا پیالہ بھرا۔ منڈی میں چاروں طرف دھول اڑ رہی تھی۔ شہروں کے مال منڈیوں میں بھی جہاں بیسیوں عارضی نلکے لگ جاتے ہیں اور سارا سارا دن چھڑکاؤ ہوتا رہتا ہے۔ جہاں دھول کی کمی نہیں ہوتی پھر اس ریگستان کی منڈی میں تو دھول ہی کی سلطنت تھی۔ گنے والے کی گنڈیریوں پر حلوائی کے حلوے اور جیلیبیوں پر اور خوانچے والے کے دہی پکوڑوں پر غرض سب جگہ دھول نظر آتی تھی گھڑے کا پانی ٹانچیوں کے ذریعے نہر سے لایا گیا تھا پر یہاں

آتے آتے کیچڑ جیسا گدلا ہو گیا تھا۔ نندو کا خیال تھا نتھر نے پر پیئے گا پر گلا کچھ سوکھ رہا تھا ایک ہی گھونٹ میں پیالے کو ختم کر کے نندو نے اس سے بھی پینے کیلئے کہا ، باقر آیا تھا تو اسے غضب کی پیاس لگی ہوئی تھی پر اب اسے پانی پینے کی فرصت کہاں تھی۔ رات ہونے سے پہلے پہلے وہ اپنے گاؤں میں پہنچ جانا چاہتا تھا۔ ڈاچی کی ری پکڑے ہوئے گردو غبار کو جیسے چیرتا ہوا وہ چل یک خوبصورت اور جوان ڈاچی خریدنے کی آرزو تھی پڑا۔ باقر کے دل میں بڑی دیر سے ایک خوبصورت اور جوان ڈ ذات سے وہ کمین تھا۔ اس کے آباؤ اجداد کمہاروں کا کام کرتے تھے لیکن اس کے باپ نے اپنا قدیم پیشہ چھوڑ کر مزدوری سے اپنا پیٹ پالنا شروع کر دیا تھا اور باقر بھی اسی پیشہ کو اختیار کیے ہوئے تھا۔۔ مزدوری وہ زیادہ کرتا ہو یہ بات نہ تھی ۔ کام سے ہمیشہ اس نے جی چرایا تھا اور چراتا بھی کیوں نہ۔ جب اس کی بیوی اس سے دو گنا کام کر کے اس کے بوجھ کو ہٹانے اور اسے آرام پہنچانے کیلئے موجود تھی۔ کنبہ بڑا تھا نہیں ایک وہ ۔، ایک اس کی بیوی اور ایک منفی سی بچی ۔ پھر کس لیے وہ جی ہلکان کرتا ؟ لیکن یہ فلک پیر ۔۔۔۔۔ اس نے اسے سکھ سے نہ بیٹھنے دیا ۔ اس کو نیند سے بیدار کر کے اسے اپنی ذمہ داری محسوس کرنے کیلئے مجبور کر دیا ۔ اسے بتا دیا کہ زندگی میں سکھ ہی نہیں آرام ہی نہیں اس میں دکھ بھی ہے محنت اور مشقت بھی ہے۔ پانچ سال ہوئے اس کی وہی آرام دینے والی عزیز بیوی گڑیا سی ایک لڑکی کو چھوڑکر اس جہاں سے رحلت کر گئی ۔ مرتے وقت اپنے سوز کو اپنی پھیکی اور اداس آنکھوں میں بھر کر اس نے باقر سے کہا تھا ” میری رضیہ اب تمہارے حوالے ہے اسے تکلیف نہ ہونے دینا اس کے ایک فقرے نے باقر کی زندگی کے رخ کو پلٹ دیا تھا اپنی شریک حیات کی وفات کے بعد وہ اپنی بیوہ بہن کو اس کے گاؤں سے لے آیا تھا اور اپنی آنکسی اور غفلت کو چھوڑ کر اپنی مرحوم بیوی کی آخری آرزو کو پورا کرنے میں جی جان سے منہمک ہو گیا تھا ۔ یہ ممکن بھی کیسے تھا کہ وہ اپنی اس بیوی کی جسے وہ روح کی گہرائیوں کے ساتھ محبت کرتا تھا جس کی موت کا غم اس کے دل کے نا معلوم پر دوں تک چھا گیا تھا جس کے بعد عمر ہونے پر بھی مذہب کی اجازت ہونے پر بھی رشتہ داروں کے مجبور کرنے پر بھی اس نے دوسری شادی نہ کی تھی اپنی اس بیوی کی آخری کاخواہش کو بھلا دیتا۔وہ دن رات جان توڑ کرکام کرتا تا کہ اپنی مرحوم بیوی کی اس امانت کو ۔۔۔ اپنی اس ننھی سی گڑیا کو طرح طرح کی چیزیں لا کر دے سکے۔ جب بھی کبھی وہ منڈی سے آتا تھی

رضیہ اس کی ناگوں سے لپٹ جاتی اور اپنی بڑی بڑی آنکھیں اس کی گرد سے آئے ہوئے ے پر جما کر پوچھتی ” ابا میرے لیے کیا لائے ہو ۔ تو وہ اسے اپنی گود میں لے لیتا اور کبھی معالی اور کبھی کھلونوں سے اس کی جھولی بھر دیتا ۔ تب رضیہ اس کی گود سے اتر جاتی اور اپنی سہیلیوں کو اپنی مٹھائی اور کھلونے دکھانے کیلئے بھاگ جاتی ۔ یہی گڑیا سی لڑکی جب آٹھ برس کی ہوئی تو ایک دن چل کر اپنے ابا سے کہنے لگی ابا ہم تو ڈاچی لیں گے ۔ ابا ہمیں ڈاچی لے دوبھولی معصوم لڑکی اسے کیا معلوم کہ وہ ایک مفلس اور قلاش مزدور کی لڑکی ۔ ہے جس کیلئے سانڈنی خریدنا تو کجا اس کا تصور کرنا بھی گناہ ہے ۔ روکھی ہنسی کے ساتھ باقر نے اسے گود میں اٹھا لیا اور بولا تو تو خود ڈاچی ہے” پر رضیہ نہ مانی اس دن مشیر مال اپنی سانڈنی پر چڑھ کر اپنی چھوٹی سی لڑکی کو آگے بٹھائے اس کاٹ میں کچھ مزدور لینے آئے تھے۔ منی رضیہ کے ننھے سے دل میں ڈاچی پر سوار ہونے کی زبر دست خواہش پیداہ اٹھی تھی اور اسی دن سے باقر کی رہی سہی غفلت بھی دور ہوگئی تھی ۔ اس نے رضیہ کو ٹال تو دیا تھا پر دل ہی دل میں اس نے عہد کر لیا تھا کہ چاہے جو بھی ہو وہ رضیہ کیلئے ایک خوبصورت ڈاچی ضرور مول لے گا اور تب اسی علاقے میں جہاں اس کی آمدنی کی اوسط مہینہ بھر میں تین ۔ آنہ روزانہ بھی نہ ہوتی تھی، وہیں اب آٹھ دس آنے ہو گئی ۔ دور دور کے دیہات میں اب وہ مزدوری کیلئے جاتا ۔ کٹائی اور بجائی کے دنوں میں دن رات جان لڑا تا فصل کا شتا دانے نکالتا کھلیانوں میں اناج بھرتا نیرا ڈال کر کپ بناتا بجائی کے دنوں میں ہل چلاتا پلیاں بنا تا ترائی کراتا ۔ ان دنوں اسے پانچ آنے سے آٹھ آنے تک روزانہ مزدوری مل جاتی ۔ جب کوئی کام نہ ہوتا تو علی صبح اٹھ کر آٹھ کوس کی منزل مار کر منڈی پہنچتا اور آٹھ دس آنے کی مزدوری کر کے ہی واپس لوٹتا۔ ان دنوں میں وہ روز چھ آنے بچاتا آ رہا تھا ۔ اس معمول میں اس نے کسی طرح کی ڈھیل نہ آنے دی تھی ۔ اسے جیسے جنون سا ہوگیا تھا۔ بہن کہتی با تراب تو تم بالکل ہی بدل گئے ہو پہلے تو کبھی تم نے اس طرح جی توڑ کر با ت نہ تھی بار رہتا اور کہتا تم چاہتی ہو میں تمام عمر اس طرح لکھتا بیٹا ر ہوں“ بہن کہتی کیا مجھے کوتو میں ہیں کہتی لیکن صحت گنوا کر دھن جمع کرنے کی صلاح بھی نہیں دے سکتی ۔ ایسے وقت ہمیشہ باقر کے سامنے اس کی مرحوم بیوی کی تصویر کھینچ جاتی۔ اس کی

آخری آرزو اس کے کانوں میں گونج جاتی اور وہ صحن میں کھیلتی ہوئی رضیہ پر ایک پیار کی نظر ڈال کر ہونٹوں پر پر سوز مسکراہٹ لیے ہوئے پھر اپنے کام میں لگ جاتا اور آج ۔۔۔۔ آن ڈیڑھ سال کی کڑی مشقت کے بعد وہ مدت سے پالی ہوئی اپنی اس آرزو کو پوری کر سکتا تھا۔ سانڈنی کی رسی اس کے ہاتھ میں تھی اور سرکاری کھانے کے کنارے وہ چلا جا رہا تھا۔ شام کا وقت تھا اور مغرب میں غروب ہوتے ہوئے آفتاب کی کرنیں دھرتی کی سونے کا آخری دان دے رہی تھیں ۔ ہوا میں کچھ جنگی آگئی تھی اور کہیں دور کھیتوں میں ٹھیٹر کی ٹیہوں ٹیموں کر کے اڑ رہی تھی ۔ باقر کے تصور میں ماضی کے تمام واقعات ایک ایک کرکے آرہے تھے ۔ ادھر ادھر سے کئی کسان اپنے اونٹ پر سوار جیسے پھر کہتا ہوا نکل جاتا اور بھی کبھی کھیتوں سے واپس آنے والے کسانوں کے لڑکے چھکڑے پر رکھے ہوئے گھاس کے گھٹوں پر بیٹھے بیلوں کو پکارتے کسی دیہاتی گیت کا ایک آدھ بند گاتے یا چھکڑے کے پیچھے بندھےہوئے خاموشی سے چلے آنے والے اونٹوں کی تھو تھینوں سے کھیلتے چلے آتے تھے ۔ باقر نے جیسے خواب سے بیدار ہو کر مغرب کی طرف غروب ہوتے آفتاب کودیکھا اور پھر سامنے کی طرف ویرانے میں نظر دوڑائی ۔ اس کا گاؤں ابھی بڑی دور تھا ۔ مسرت سے پیچھے کی طرف دیکھا اور چپ چاپ چلی آنے والی سانڈنی کو پیار سے پچکار کر وہ اور بھی تیزی سے چلنے لگا۔ کہیں اس کے پہنچنے سے پہلے رضیہ سو نہ جائے ۔ اسی خیال سے مشیر مال کا کاٹ نظر آنے لگی ۔ یہاں سے اس کا گاؤں نزدیک ہی تھا ۔ یہی کوئی دوکوس ۔۔۔۔۔ باقر کا چال دھیمی ہوگئی اور اس کے ساتھ ہی تصور کی دیوی اپنی رنگ برنگی کوچی سے اس کے دماغ کی قرطاس پر طرح طرح کی تصویریں بنانے لگی۔ باقر نے دیکھا کہ اس کے گھر پہنچتے ہی تھی رضیہ مسرت سے ناچ کر اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئی ہے اور پھر ڈاچی کو دیکھ کر اس کی بڑی بڑا آنکھیں حیرت اور مسرت سے بھر گئی ہیں۔ پھر اس نے دیکھا وہ رضیہ کو اپنے آگے بٹھا ۔سرکاری کھانے کے کنارے کنارے ڈاچی پر بھاگا جا رہا ہے ۔ شام کا وقت ہے ۔ مست ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے اور کبھی کبھی کوئی پہاڑی کو اپبڑے بڑے پروں کو پھیلائےاپنی موٹی آواز سے ایک دوبار کائیں کائیں کر کے اوپر اڑتا ہم جاتا ہے۔ رضیہ کی خوشی کا وار پار نہیں۔ وہ جیسے ہوائی جہاز میں اڑی جارہی ہے۔ پھر اسے بولا محسوس ہوا جیسے وہ رضیہ کو لیے بہاولنگر کی منڈی میں کھڑا ہے تبھی رضیہ بھونچکی سی ہے حیران سی

کھڑی وہ ہر طرف اناج کے ان بڑے بڑے ڈھیروں کو بے انتہا چھکڑوں کو اور قصر حیرت میں تم کر دینے والی ان بے شمار چیزوں کو دیکھ رہی ہے۔ ایک دکان پر گراموفون بجنے لگتا ہے کڑی کے اس ڈبے سے کس طرح گانا نکل رہا ہے کون اس میں چھپا گا رہا ہے یہ سب باتیں راضیہ کی سمجھ میں نہ آئیں اور یہ سب جاننے کیلئے اس کے دل میں جو اشتیاق ہے وہسے پکا پڑتا ہے۔اپنے تصور کی دنیا میں محو وہ کاٹ کے پاس سے گزرا جا رہا تھا کہ اچانک کچھ خیال آجانے ۔ سے وہ رکا اور کاٹ میں داخل ہو گیا ۔ مشیر مال کی کاٹ ابھی کوئی بڑا گاؤں نہ تھا ادھر کے سب گاؤں ایسے ہی ہیں ۔ زیادہ ہوئے تو تمہیں چھپر ہو گئے۔ کڑیوں کی چھت کا یا مکی ایتوں کا مکان بھی اس علاقہ میں نہیں خود باقر کی کاٹ میں پدرہ گھر تھے گھر کہاں سرکنڈوں کی جھگیاں تھیں ۔ مشیر مال کی کاٹ بھی ایسی ہی ہیں پچیس جھگیوں کی بستی تھی ۔ صرف مشیر مال کا مکان کچی اینٹوں سے بنا تھا ۔ لیکن چھت اس پر بھی سرکنڈوں ہی کی تھی ۔ نا تک بڑھتی کی جھگی کے سامنے وہ رکا۔ منڈی جانے سے پہلے وہ اس کے ہاں ڈاچی کا گدرا بننے کیلئے دے گیا تھا اسے خیال آیا کہ اگر رضیہ نے ڈاچی پر چڑھنے کی ضد کی تو وہ اسے کیسے ٹال سکے گا۔ اسی خیال سے وہ پیچھے مڑ آیا تھا ۔ اس نے نائک کو دو ایک آواز میں دیں اندر سے شاید اس کی بیوی نےجواب دیا۔گھر میں نہیں منڈی گئے ہیں ۔“ باقر کی آدھی خوشی جاتی رہی ۔ وہ کیا کرے؟یہ نہ سوچ سکا نا تک اگر منڈی گیا ہے تو گدرا کیا خاک بنا کر گیا ہو گا لیکن پھر اس نے سوچا شاید بنا کر رکھ گیا ہوگا ۔ اس نے پھر آواز دی ۔ میں ڈاچی کا پالان بنانے کے لئے کہہ گیا تھا۔” جواب ملا۔ ہمیں نہیں معلوم ۔ باقر کی سب خوشی جاتی رہی ۔ گورے بغیر وہ ڈاچی لے کر کیا جائے۔ نانک ہوتا تو اس کا پالان اگر نہ بنا ہوتا کوئی دوسرا ہی اس سے مانگ کر لے جاتا ۔ اس خیال کے آتے ہی اس نے سوچا چلو مشیر مال سے مانگ لیں اس کے تو اتنے اونٹ رہتے ہی کوئی نہ کوئی پرانا پلان ہوگا ہی ابھی اسی سے کام چلا لیں گے تب تک نا تک گدرا بنا کر دےگا یہ سوچ کر وہ مشیر مال کے گھر کی طرف چل پڑا۔نے کافی دولت جمع کر لی تھی اور اپنی ملازمت کے دوران میں مشیر مال صاحب ۔ جب ادھر نہ نکلی تو اپنے اثر ورسوخ سے ریاست ہی کی زمین میں کوڑیوں کے مول کئی مربعے

زمین حاصل کر لی تھی اب ریٹائرڈ ہو کر یہی آ رکھے ہوئے تھے امدنی بھی کر رہے تھے کئی نوکر خوب تھی اور مزے سے بسر ہو رہی تھی ۔ پر سفید صافہ نہ گلے میں سفید قمیص اس پر سفید جاکٹ اور کمر میں دو دھیا جیسا سفید تہ بند مرد سے آئے باقر کو دیکھ کر انہوں نے پوچھا ۔ کہو باقر کدھر سے آرہے ہو؟ باقر نے جھککر سلام کرتے ہوئے کہا۔ منڈی سے آرہا ہوں مالک ۔“یہ ڈاچی کس کی ہے؟“میری ہی ہے مالک ابھی منڈی سے لا رہا ہوں۔“کتنے کو لائے ہو؟“باقر نے چاہا کہہ دے آٹھ میسی کو لایا ہوں ۔ اس کے خیال میں ایسی خوبصورت ڈاچی دوسو میں بھی سنتی تھی ۔ پر دل نہ مانا بولا حضور مانگتا تو آٹھ جیسی تھا پر سات بیسی ہی کولے آیا ہوں۔“مشیر مال نے ایک نظر ڈاچی پر ڈالی ۔ وہ خود دیر سے ایک خوبصورت کی ڈاچی اپنی سواری کیلئے لینا چاہتے تھے۔ ان کے پاس ڈاچی تو تھی پر اسے گذشتہ سال سیمک ہو گیا تھااور اگر چه نیل وغیرہ دینے سے اس کا روگ تو دور ہو گیا تھا پر اس کی چال میں وہ مستی وہ لچک نہرہی تھی ۔ یہ ڈاچی ان کی نظر میں بچ گئی تھی ۔کیا سڈول اور متناسب اعضاء ہیں، کیسا سفیدی مائل بھورا بھورا رنگ ہے ۔ کیاپلچاتی لبی گردن ہے بولے ” چلو ہم سے آٹھ جیسی لے لو ہمیں ایک ڈاچی کی ضرورت بھیہے دس تمہاری محنت کے رہے ۔“باقر نے پھیکی ہنسی کے ساتھ کہا حضور ! بھی تو میرا چاؤ بھی پورا نہیں ہوا ۔“مشیر مال اٹھ کر ڈاچی کے گردن پر ہاتھ پھیرنے لگے تھے ” واہ کیا اصیل جانورہے بظاہر بولے ”چلو پانچ اور لے لو اور انہوں نے نوکر کو آواز دی تورے ابے او نورے نو کرنوں سے میں بیٹھا بھینسوں کیلئے پٹھے کر رہا تھا۔ گنڈا سا ہاتھ ہی میں لیے ہوئے بھاگا آیا۔مشیر مال نے کہا یہ ڈاچی لے جا کر باندھ دو کہو کیسی ہے۔؟“سانورے نے حیران سے کھڑے باقر کے ہاتھ سے رہی لے لی اور سر سے پاؤں ۔ تک ایک نظر ڈاچی پر ڈال کر بولا ” خوب جانور ہے اور یہ کہ کو نو ہرے کی طرف چل پڑا ۔“

تب مشیر مال نے انٹی سے ساٹھ روپے کے نوٹ نکال کر باقر کے ہاتھ میں دیتے ہوئے مسکرا کر کہا ابھی یہ رکھ لو ۔ باقی بھی ایک مہینے تک پہنچا دوں گا ہو سکتا ہے تمہاری قسمت کے پہلے ہی آجائیں اور بغیر کوئی جواب سنے وہ تو ہرے کی طرف چل پڑے نو را پھر چارہ کر نے لایا تھا دور ہی سے آواز دے کر انہوں نے کہا “بھینس کا چارہ رہنے دے پہلے ڈاچی کیلئے گورے کا نیرا ڈال بھو کی معلوم ہوتی ہے ۔ کرشن چکش کا چاندا بھی طلوع نہیں ہوا تھا ویرانے میں چاروں طرف کہرا سا چھایا ہوا تھا سر پر دو ایک تارے جھانکنے لگے تھے اور ببول اور کا نہو کے درخت بڑے بڑے سیاہ دھبے بن رہے تھے ۔ ساٹھ روپے کے نوٹوں کو ہاتھ میں لئے اپنے گھر سے ذرا فاصلے پر ایک جھاڑی کی اوٹ میں بیٹھا باقر اس مدھم ٹمٹماتی روشنی کی شعاع کو دیکھ رہا تھا جو سرکنڈوں سے چھن چھن کر اس کے گھر کے آنگن سے آرہی تھی ۔ وہ جانتا تھا رضیہ جاگ رہی ہوگی ۔ اس کا انتظار کر رہی ہوگی اور وہ یہ سوچ رہا تھا کہ روشنی بجھجائے اور رضیہ سو جائے تو وہ چپ چاپ گھر میں داخل ہو ۔