پہلی جھلک یورپ کی

پہلی جھلک یورپ کی

کتاب تعارف

کتاب:- “پہلی جھلک یورپ کی” ( سفر نامہ)

دیکھ لے اس چمن دہر کو دل بھر کے نظیرؔ

پھر ترا کاہے کو اس باغ میں آنا ہوگا

نظیرؔ اکبرآبادی

چند روز پہلے ”کتاب نامہ‘‘ کے مدیر، میرے عزیز دوست محترم ثاقب بٹ نے ایک خوب صورت اور دل چسپ سفر نامہ پر مشتمل کتاب ”پہلی جھلک یورپ کی‘‘ ارسال کی جسے پڑھ کر یورپ کے چھ ممالک کی سیر سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا اور بہت سی نئی تاریخی باتوں کا علم ہوا۔

سفر نامہ کی روایت اور تاریخ، سفر سے جُڑی ہوئی ہے اور تحریر لکھنے والے کے اسلوب سے ہم وہی کچھ دیکھ سکتے ہیں جو سفرنامہ نگار ہمیں دکھائے گا۔ وہ جتنی سادہ بیانی اور روانی سے کام لے گا، اسی قدر قاری سفر کی لطافتوں سے محظوظ ہو سکیں گے اور اس کتاب کو پڑھتے ہوئے میں بھی بے حد محظوظ ہوا ہوں۔

اس کتاب کے مصنف نامور محقق، دانشور، معلم، افسانہ نویس، سفرنامہ نگار اور ”کتاب نامہ‘‘ کے مدیرِ منتظم حسنین نازشؔ دیدہء بینا رکھتے ہیں۔ جہانوں کے اندر نئے جہانوں کی کھوج لگانے اور ایک خاص نُقطہ نظر سے موتی چننے کے بعد ان کو لڑی میں پرو کر سفرنامہ بنا دینے کے ہنر سے شناسا بھی ہیں۔ علم و ادب سے تعلق رکھتے ہیں اور ساتھ ہی سیاحت کا مشغلہ اپنائے ہوئے ہیں جس کی بدولت دنیا کی سیر کرنے میں مگن رہتے ہیں اور اس وقت بھی امریکا میں موجود ہیں اور ہمیں ”امریکا ڈائری‘‘ سے مستفید کر رہے ہیں.

حسنین نازشؔ کے یورپ کے سفر نامے پر مشتمل زیر تبصرہ کتاب ”پہلی جھلک یورپ کی‘‘، مثال پبلیشرز، فیصل آباد بہت اہتمام نے شائع کی ہے جو 263 صفحات پر مشتمل ہے۔ سرورق سمیت کتاب کی تزئین بہت عمدہ انداز میں کی گئی ہے۔ عمدہ معیار کا صفحہ استعمال کیا گیا ہے جس سے کتاب میں موجود لکھت میں مزید نکھار پیدا ہوگیا ہے۔

جناب حسنین نازشؔ یورپ کے مختلف ممالک میں گھومنے پھرنے کے لیے اپنے ایک دوست زاہد زمان کے ہمراہ نکلتے ہیں. وہ اپنے اس سفر نامے میں ان ممالک کے مشاہدات، واقعات اور تجربات کو تحریر میں لاتے ہیں، ساتھ ہی اس سفر کے دوران پیدا ہونے والی قلبی کیفیات واحساسات کوبھی سادہ اور آسان الفاظ میں بیان کرتے ہیں. گمان ہوتا ہے کہ قاری خود ان کے ساتھ گھوم کر وہ مناظر دیکھ رہا ہے جو مصنف زیرِ تحریر لاتا ہے۔ ان کی مزاجی کیفیت، قوتِ مشاہدہ اور اندازِ تحریر قاری کو بیٹھے بیٹھے یورپ کی سیر کروا دیتی ہے۔

سفر نامہ ”پہلی جھلک یورپ کی‘‘ میں قاری جہاں نیدر لینڈز، جرمنی، آسٹریا، سوئٹزر لینڈ، فرانس اور بلجئیم میں موجود مشہور سیاحتی مقامات کی سیر سے لطف اندوز ہوتا ہے وہیں مصنف ان جگہوں کی تاریخی اہمیت سے بھی روشناس کرواتے ہیں جس سے بہت ہی کم لوگ واقف ہوتے ہیں. وہ سفر کے دوران اور ان ممالک میں پیش آنے والے واقعات، مختلف سیاحوں اور مقامی لوگوں سے ہونے والی ملاقاتیں اور وہاں مشاہدے میں آنے والی سیاحتی جگہوں کی تاریخی اہمیت کو دلچسپ اور دلفریب انداز میں پیش کرتے ہیں، جن میں ایمسٹرڈیم کی سائیکلنگ کا مشاہدہ، ہاسٹل کے چھوٹے سے کمرے میں کئی لوگوں کے ساتھ قیام اور دوست کے نیند میں خراٹے مزاحیہ انداز میں بیان کرتے ہیں. ایمسٹرڈیم کے بازارِ حسن میں رات کی رنگینیوں میں مگن سیاحوں کے عجیب و غریب حرکات و حالات اور وہیں موجود خوب صورت اور دل نشین ”ایناہ‘‘ سے پہلی اور پھر دوسری ملاقات کا قصہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے. وہاں جنس کا عجائب گھر، پھولوں کی سب سے بڑی منڈی کی سیر، جنتی اور چکیوں والے گاؤں کا تذکرہ جو آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو سکون دیتا ہے۔

کتاب میں جرمن شہر میونخ کے محل سرائے کی سیر کے ساتھ یہودیوں کے دشمن ہٹلر سے ملاقات بھی کروائی جاتی ہے، ہٹلر سے ملاقات پڑھتے ہوئے بہت سی معلومات میں اضافے ہوتا ہے، پھر مصنف فرانس پہنچ کر رومانوی دریائے سین کے کناروں پر محبت کے جذبات میں کھو جاتے ہیں. فتح کی محراب، لوور میوزیم کی تعمیر، تاریخ اور اس میں موجود حیرت انگیز فن پاروں کو خوب صورتی سے متعارف کرواتے ہیں. نپولین کے مزار پر جاکر ہمیں اس کی عشق کی داستان سے لے کر سپہ سالار اور پھر فرانس کا حکمران بننے تک کا پورا سفر دل چسپ حقائق کے ساتھ سناتے ہیں. بلجئیم میں پہنچ کر بین الاقوامی سیاحتی مرکز ”اٹومیم‘‘ کی سیر کروانے کے ساتھ ساتھ اس کی تاریخ سے روشناس کرواتے ہیں. پھر آخر میں ”واٹر لُو کے میدان‘‘ میں لے جا کر نپولین کی آخری جنگ کروا دیتے ہیں اور نپولین کو قید کرواکر خود مصنف خوب صورت یادوں اور تحائف کے ساتھ وطن واپس لوٹ آتے ہیں۔ اس سارے سفر میں، اس کتاب کے ذریعے مَیں مصنف کا ہم سفر رہا ہوں. بلاشبہ یہ سب پڑھتے ہوئے مجھ پر ایسا سحر طاری ہوا تھا کہ کتاب کے مکمل ہونے کا احساس تک نہ ہوا ۔

کتاب میں شامل ڈاکٹر صبا جاوید، ڈاکٹر محمد امتیاز، پروفیسر محمد اکبر خان، مدیر ”کتاب نامہ‘‘ ثاقب محمود بٹ، نامور ادیب و شاعر نسیم سحر اور ڈاکٹر مقصود جعفری کی معلوماتی اور تعارفی تحاریر نے اس سفرنامہ کو چار چاند لگا دیے ہیں.

حسنین نازشؔ کے اس سفرنامہ “پہلی جھلک یورپ کی ” کی خاصیت یہ ہے کہ اس کے مطالعہ سے قاری کو اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی اور وہ اس میں دلچسپی لیتے ہوئے ایک دو نشست میں ہی اسے آخر تک پڑھنے پر مجبور ہر جاتا ہے. اس کی بالخصوص وجہ مصنف کا اندازِ تحریر ہے کہ وہ قاری کو بوریت محسوس کروائے بغیر تمام تاریخی اور سیاحتی شہروں کا احوال بہترین انداز میں بیان کرتے ہوئے کتاب مکمل کرلیتے ہیں.

المختصر میں سفرنامہ نگار کو داد دیتا ہوں کہ انہوں نے اس سفرنامے کو بہتر انداز میں پیش کرنے کا بھرپور جتن کیا اور کامیاب بھی ہوئے۔ نفیس طرزِ تحریر سے مزین اس سفرنامہ کی زبان عام فہم ہے کہ ہر کوئی اس کو بآسانی پڑھ کر لطف اندوز ہوسکتا ہے۔ علاوہ ازیں علمی، ادبی اور معلوماتی لحاظ سے بھی یہ سفرنامہ ایک مکمل معلوماتی کتاب ہے جس کی اشاعت پر مصنف سمیت ناشر داد کے مستحق ہیں.

حسنین نازشؔ کا یہ سفرنامہ ”پہلی جھلک یورپ کی‘‘ ضرور پڑھیے کیوں کہ:

”ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں‘‘

ہم صبح سے ڈرنے والے ہیں

ہم صبح سے ڈرنے والے ہیں

ہم صبح سے ڈرنے والے ہیں

کیا واقعتہ” بچھڑنے والے ہیں

رات سے پہلے سو جاتے ہیں

ہم خوابوں میں مرنے والے ہیں

کوئی بھی تو مکان نہیں ہے پھر بھی

ہم اس کھنڈر سے گزرنے والے ہیں

میری چوکھٹ پہ بیٹھے بھی جگنو

تیری دہلیز پہ مرنے والے ہیں

میں عشق و محبت سے اک روز مکر جاؤں گا

ہم بزرگوں سے ڈرنے والے ہیں

خوفناک جزیرہ

خوفناک جزیرہ

قسط 24

آخری قسط

تحریر سراج انور

پچھلی قسط کا خلاصہ :

اس خوفناک جزیرے کی عجیب و غریب مخلوق دیوزاد مکھی کو ختم کرنے کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے فیروز مکھی کے راستے میں کھڑا ہو گیا تھا۔ اور اوپر سے جان اور جیک نے لرزتی چٹان کو دھکے دے کر نیچے لڑھکا دیا جو ٹھیک مکھی کے پیٹ پر جا گری۔ مکھی کا پیٹ پھٹتے ہی پیٹ میں سے گرم گرم لاوا نکل کر ہر طرف بہنے لگا جس طرف بھی لاوا گیا، اس نے ہر چیز کو جلا کر خاک کر دیا۔ فیروز زمین پر گر کر بےہوش ہو چکا تھا اور لاوا بہتے بہتے فیروز کے قریب پہنچنے والا تھا کہ ملاح نے بہادری اور تیزرفتاری سے دوڑتے ہوئے جا کر فیروز کو بچا لیا۔

اب سوال یہ تھا کہ مکھی کی آنکھیں کس طرح نکالی جائیں۔۔۔؟!

۔۔۔ اب آپ آگے پڑھئے ۔۔۔

“۔۔۔ ترکیب عمدہ تھی اس لئے ہم نے اس پر فوراً عمل کیا اور نتیجہ کے طور پر ہم نے مکھی کا سر اپنی طرف کھینچ لیا۔ جب سر ہمارے قریب آ گیا تو ہم نے اس کی آنکھوں کو غور سے دیکھا۔ آنکھیں کیا تھیں۔ دو بہت بڑے بڑے گول نگینے سے تھے اور ان نگینوں میں ہزاروں رنگ نظر آتے تھے، کسی طرف سے بھی دیکھنے کے بعد یہ رنگ پلٹنے لگتے تھے۔ بڑی دیر تک ہم ان شیشوں کو حیرت سے دیکھتے رہے اور پھر ملاح نے ایک تیز خنجر سے وہ قیمتی آنکھیں سر میں سے نکال لیں۔ ان آنکھوں کو حفاظت سے اپنے ساتھ لے کر ہم جلدی جلدی آگے بڑھے۔

ملاح پانی کے اس ذخیرے کے قریب رک گیا جو پہلے ہمیں گرم لگا تھا مگر پینے کے لائق تھا۔ جب میں نے پوچھا کہ وہ کیوں رک گیا ہے؟

تو اس نے کہا کہ جتنی جلدی ہو سکے ہم جہاز میں سے پانی کے ڈرمز لے کر آئیں تاکہ پینے کا پانی یہاں سے جمع کر سکیں۔ مزے کی بات تو یہ ہے فیروز، کہ جس ملاح پر ہم پہلے حکم چلایا کرتے تھے، اب وہی خود ہم پر حکم چلا رہا تھا اور ہم بغیر چوں چرا کئے اس کی ہر بات مان رہے تھے۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ہمارا محسن تھا اور اس نے کچھ دیر پہلے ہماری جانیں بچائی تھیں۔

خیر ہم جلدی جلدی پہاڑ پر چڑھے، جہاز میں سے دو ڈرم نکالے میں نے جھانک کر تمہیں دیکھا، تم اس وقت تک بےہوش پڑے ہوئے تھے۔ یہ سمجھ کر کہ تم جلد ہوش میں نہ آؤ گے، ہم ڈرمز لے کر پہاڑ سے نیچے آئے، ملاح نے ڈرمز میں پانی بھرا اور پھر ایک ڈرم اپنے کندھے پر رکھ کر وہ پہاڑ پر چڑھنے لگا۔ قصہ مختصر یہ کہ اس طرح ہم نے زیادہ سے زیادہ ڈرام پانی سے بھر لئے۔ جس وقت ملاح آخری ڈرم لے کر پہاڑ پر چڑھ رہا تھا، یکایک زمین زور سے ہلی اور نہ جانے کیا بات ہوئی کہ ہمارے دیکھتے دیکھتے اچانک جزیرہ ڈانواں ڈول ہونے لگا۔ پہاڑ پر چڑھتے چڑھتے ہم نے غور سے جزیرے کی زمین کو دیکھا تو بہت اچنبھا ہوا۔ بپھرتے ہوئے سمندر کا پانی آہستہ آہستہ زمین کی طرف بڑھ رہا تھا۔ مطلب یہ کہ جزیرہ ڈوب رہا تھا!”

“وقت سے پہلے ہی ڈوب رہا تھا۔؟” میں نے حیرت سے دریافت کیا۔

“ہاں فیروز! وقت سے پہلے ہی، اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ سب اس خوف ناک مکھی کے اچانک مر جانے سے ہوا تھا۔” جان نے تمباکو کے لمبے کش لگانے کے بعد کہا۔

“جب جزیرہ سمندر میں ڈوبنے لگا تو اس کے ساتھ ہی ہمارا جہاز بھی آہستہ آہستہ نیچے آنے لگا۔ جہاز ابھی تک پہاڑ کی چوٹی پر ٹکا ہوا تھا۔ جب یہ پہاڑ بھی سمندر میں ڈوب گیا تو ہمارا جہاز بھی آپ ہی آپ پانی کی سطح سے لگ گیا۔ ہم تینوں نے مل کر جلدی جلدی بادبان کھولے اور لمبے لمبے بانسوں کی مدد سے جہاز کو پہاڑ کی چوٹی سے دور ہٹا دیا۔ ہم چوٹی سے بانس لگا کر زور لگاتے اور جہاز اپنی جگہ سے تھوڑا کھسک جاتا اور آخرکار اس طریقے سے جہاز چوٹی سے ہٹ کر پورا کا پورا پانی میں آ گیا۔۔۔ کوشش ہم نے یہی کی کہ جلد سے جلد اس موت کے جزیرے سے دور چلے جائیں اور اس میں کامیاب بھی ہو گئے۔ راستے میں ہم نے تمہاری مرہم پٹی کی اور اگلے دن سورج کی پہلی کرن کو مکھی کی آنکھوں سے گزار کر یہ سونا اور ہیرے بنائے۔ لو یہ دیکھو۔”

اتنا کہہ کر جان نے مجھے چند ہیرے اور سونے کا ایک ٹکڑا دکھایا۔ اس نے بتایا کہ ہیرے تو چند چھوٹے پتھروں سے بنے ہیں اور سونا ایک ٹوٹے ہوئے چاقو کے پھل سے۔ یہ چیزیں دیکھ کر میری حیرت کی کچھ حد نہ رہی۔ اب تک تو میں یہی سمجھتا رہا تھا کہ مکھی کی آنکھوں والی کہانی میں کچھ سچائی نہیں ہے۔ ولیم نے کتاب میں جو کچھ لکھا ہے وہ بالکل جھوٹ ہے، مگر حقیقت میرے سامنے تھی اور اب میں اسے کسی بھی طرح نہیں جھٹلا سکتا تھا !

آپ کو یہ بتانا تو اب بالکل بےکار سا لگتا ہے کہ ہم لوگ کس طرح ہندوستان کے ساحل کومورن تک پہنچے۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ ہزاروں مشکلیں جھیلتے، طوفانوں سے لڑتے، نت نئی بلاؤں کا مقابلہ کرتے آخرکار دس ماہ بعد کومورن پر اترے۔ تب ہمیں اتنی خوشی ہوئی کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ کپڑے اتنے پھٹے ہوئے تھے کہ ہم اس حالت میں بستی کے اندر نہیں جا سکتے تھے۔ مجبوراً ملاح کو بھیجا۔ وہ ہمارے لئے سونے کی ایک چھوٹی سی ڈلی کے بدلے ایسا لباس لے آیا ہے جسے پہن کر ہم انسان نظر آنے لگے (یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ سونے کی ڈلی دراصل مکھی کی آنکھوں ہی کا کرشمہ تھی)۔

چند دن اسی بستی میں آرام کرنے کے بعد ہم نے اپنے گھوڑے لئے اور ساتھ ہی بستی سے چند بڑے بڑے مضبوط تھیلے بھی خرید لئے، اس کے بعد ہم اس مقام کی طرف روانہ ہوئے جہاں اب سے کافی دن پہلے خزانہ دریافت کیا تھا۔ چوں کہ اب ہم تازہ دم تھے اس لئے جلد ہی اس خوف ناک جنگل میں داخل ہو گئے۔ جہاں دوبارہ داخل ہونے کی تمنا ہم میں سے کسی کو نہ تھی۔ کیونکہ اس جنگل میں ہمارے ساتھ بڑے عجیب حادثے پیش آ چکے تھے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو یہ لکھتے ہوئے میرا دل اب بھی کانپ رہا ہے کہ خزانے کے زمین دوز دروازے کے اوپر ہی ایک انسانی ڈھانچہ مونہہ کھولے، بڑی بے بسی کی حالت میں پڑا ہوا ملا اور وہ ڈھانچہ عبدل کے سوائے اور کسی کا نہیں تھا۔۔۔!

وہ انسان جو کبھی بڑھ چڑھ کر باتیں بناتا تھا اب مٹھی بھر خاک اور سوکھی ہوئی ہڈیوں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ کیسی عبرت کا مقام تھا! جیک اور ملاح نے مل کر وہ زمین پھر کھودی، راستہ دوبارہ صاف کیا اور ہم نے وہ خزانہ ایک بار پھر حاصل کر لیا۔ ہمارے دل خوشی سے پر تھے۔ بوریاں تو موجود تھیں ہی اس لئے خزانہ بوریوں میں بھرنے کے بعد ہم واپس کومورن پہنچ گئے۔ یہاں ہم نے اپنے گھوڑے بیچ دیئے اور دو ملاح اور حاصل کئے۔ ہمارے ساتھ جو ملاح تھا اس نے ہم سے درخواست کی تھی کہ اب وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ ہی رہنا چاہتا ہے چوں کہ اس نے ہماری مدد بھی بہت کی تھی اس لئے ہم نے اس کی یہ التجا قبول کر لی۔

کومورن سے روانہ ہونے پر جان کو ایک عجیب و غریب بیماری لاحق ہو گئی۔ شاید سمندر میں زیادہ عرصے تک رہنے کی وجہ تھی یا پھر اس کا بڑھاپا۔ اس بیماری کے باعث وہ کافی کمزور ہو گیا تھا۔ کیوں کہ خشکی کا راستہ بہت مشکل اور تکلیف دہ تھا اس لئے ہم نے جان بوجھ کر سمندری راستہ اختیار کیا تھا۔ خیال یہ تھا کہ اس بات کا فیصلہ کرنے کے لئے کہ آئندہ ہمیں کیا کرنا ہو گا، ہم بمبئی پہنچ کر ہی سوچیں گے۔ اور پھر وہیں اس کا فیصلہ کریں گے اور سوچیں گے کہ خزانے کا کیا کیا جائے؟

مختصر یہ کہ بمبئی پہنچنے کے بعد ہم ایک ہوٹل میں مقیم ہو گئے۔ قسمت کی خوبی دیکھئے کہ میں پہلے دلی کے ایک ہوٹل میں بیرا تھا مگر اب بمبئی کے ایک عالیشان ہوٹل میں کسی بگڑے ہوئے رئیس کی طرح بڑے کروفر سے رہ رہا تھا۔ یہاں آ کر ہم نے خزانے کے کئی حصے کئے۔ حکومت کو اس کا حصہ دینے کے بعد بھی ہمارے پاس اتنا بچا تھا کہ ہماری ہزار پشتیں بھی اپنی زندگیاں آرام سے گزار سکتیں تھیں۔ جان اور جیک نے فیصلہ کیا کہ چند ہفتے وہ اسی ہوٹل میں مقیم رہیں گے، پھر اس کے بعد امریکا جانے کا پروگرام بنائیں گے۔ ہم اب غریبوں اور محتاجوں کی بھی اتنی مدد کر رہے تھے کہ ہر طرف ہمارا شہرہ ہو گیا، بڑے بڑے لوگ ہم سے ملنے آنے لگے۔ میں خوب سمجھ رہا تھا کہ یہ لوگ ہم سے ملنے نہیں بلکہ ہماری بے شمار دولت سے ملنے آ رہے ہیں۔

ایک دن کا ذکر ہے کہ میں اور جان ہوٹل کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ہمارا بیرا آیا اور میرے سامنے ادب سے جھک کر کہنے لگا :

“جناب آپ سے ایک شخص ملنا چاہتا ہے۔ حکم دیں تو یہیں بلا لوں۔”

میں نے جواب طلب نظروں سے جان کو دیکھا اور ان نظروں کا مطلب سمجھ کر جان نے بیرے سے کہا۔

“نہیں۔ ہم فیروز کے کمرے میں چلتے ہیں، وہیں بلا لاؤ۔”

بیرا سر جھکا کر واپس چلا گیا اور پھر ہم دونوں بھی اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گئے، جیک شاید کہیں گیا ہوا تھا۔ اس لئے وہ ہماری ہونے والی گفتگو میں شامل نہ ہو سکا۔ ہم ابھی اپنے کمرے میں آ کر بیٹھے بھی نہیں تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ جان کے “کم ان” کہنے پر دروازہ کھلا اور بیرا ایک ادھیڑ عمر شخص کو اپنے ساتھ لئے ہوئے اندر داخل ہوا۔ بغیر کسی سلام و دعا کے وہ شخص بڑی تیزی سے میری طرف ہاتھ پھیلا کر بڑھا۔ اور پھر “میرے بچے” کہہ کر مجھ سے زبردستی لپٹ گیا۔ میں نے بڑی مشکل سے خود کو چھڑایا اور پھر اس سے بولا:

“آپ کون ہیں اور کیوں مجھ سے بغل گیر ہو رہے ہیں؟”

“مجھے معلوم تھا میرے بچے کہ تم مجھے نہیں پہچانو گے۔ ارے میاں میں جمال ہو جمال۔ تمہارا چچا۔”

حیرت کا ایک شدید حملہ مجھ پر ہوا۔ خود جان کی بھی یہی حالت تھی۔ شاید وہ اس اجنبی کی گفتگو سمجھ گیا تھا۔ جیسا کہ میں آپ کو پہلے بتا آیا ہوں وہ دنیا کی تقریباً سب ہی زبانیں تھوڑی تھوڑی ضرور جانتا تھا۔

“چچا۔۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں جناب، کیا واقعی آپ فیروز کے چچا ہیں؟” اس نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں پوچھا۔

جان کی زبانی اتنا سنتے ہی وہ شخص زار و قطار رونے لگا۔ ہم اس کی شکل تکے جاتے تھے اور وہ روئے جاتا تھا، کافی دیر تک یہ ڈرامہ ہوتا رہا۔ آخر مجھے خود ہی اس کو خاموش کرنا پڑا۔ میں نے کہا:

“تعجب ہے کہ مجھے آج تک معلوم نہ سکا کہ میرا کوئی چچا بھی ہے؟ جس وقت میں روٹی کے دو ٹکڑوں کو محتاج تھا اور ایک ہوٹل میں بیراگری کر رہا تھا اس وقت آپ کہاں تھے؟”

“آہ فیروز، میرے بیٹے۔ میرے دل پر چرکے مت لگاؤ۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ تم پر کیا بیتی ہے؟ میں جاپان گیا ہوا تھا۔” اس شخص نے پھر مجھے گلے لگانے کی کوشش کی مگر میں پیچھے ہٹ گیا۔ اور اسے تیز نظروں سے گھورتے ہوئے بولا۔

“چلئے مان لیتا ہوں کہ ایسا ہی ہے۔ مگر اب آپ میرے پاس کیا لینے آئے ہیں؟”

“کیا لینے آیا ہوں؟” اس نے حیرت سے کہا : “بیٹا تمہیں اپنے ساتھ لے جانے آیا ہوں!”

“جی شکریہ۔ تکلیف کی ضرورت نہیں، مجھے آپ کے ساتھ نہیں جانا۔ لہذا اب آپ تشریف لے جا سکتے ہیں!”

“مگر بیٹا۔ آخر تمہیں ۔۔۔”

وہ شخص اتنا ہی کہنے پایا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ جان نے فون اٹھایا اور پھر آپریٹر کی بات سن کر بولا: “انہیں بھی بھیج دیجئے۔”

“کون ہے؟” میں نے جان سے پوچھا۔

“دیکھتے جاؤ کیا ہوتا ہے۔ اس کا نام دنیا ہے۔ فیروز! تمہارے ایک دوسرے چچا آ رہے ہیں۔”

میں ابھی حیرت سے جان کو دیکھ ہی رہا تھا کہ دروازہ کھلا اور ایک نوجوان آدمی، بہترین سوٹ پہنے اندر داخل ہوا۔ مجھے دور سے ہی انگریزی ملی اردو میں بولا۔

“ہیلو ڈیر فیروز۔ ہاؤ ڈو یو ڈو۔ تم کیسے ہو؟ میٹ می۔ آئی آیم یؤر انکل۔”

میں جان کو دیکھ کر مسکرایا اور پھر جان نے انگریزی میں ہی ان حضرت سے کہا۔

“آپ فیروز کے چچا ہیں۔۔۔؟”

“یقیناً۔ میں ہی فیروز کا چچا ہوں۔”

“مگر کون سے چچا ہیں؟ پہلے، دوسرے، تیسرے یا چوتھے۔؟”

“کیا مطلب؟” انہوں نے چونک کر پوچھا “جنٹلمین! ہم صرف دو بھائی ہیں۔ وہ مجھ سے بڑے تھے اور میں چھوٹا۔”

“خوب! تو پھر آپ انہیں بھی پہچانئے۔”

جان نے پہلے آنے والے میرے ‘چچا’ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا “یہ بھی فیروز کو اپنا بھتیجا کہتے ہیں!”

“واہ جناب، یہ اچھی رہی۔ یہ کوئی طریقہ ہے۔ فیروز میرا بھتیجا ہے، کمال ہے کہ اب دوسرے لوگ بھی اس کے چچا بن کر آنے لگے۔!”

اتنا کہہ کر وہ صاحب میرے پہلے “چچا” سے لڑنے لگے۔ ہم دونوں خاموش بیٹھے ان کی نوک جھونک دیکھتے رہے اور جب یہ لڑائی بڑھتی ہی گئی تو میں نے اکتا کر ان سے کہا:

“خاموش رہئے، صاحبان! لڑئیے مت اور براہ کرم فوراً یہاں سے تشریف لے جائیے، میں ایک یتیم لڑکا ہوں اور جہاں تک مجھے معلوم ہے میرا کوئی چچا نہیں ہے، اس لئے آپ دونوں یہاں سے فوراً نکل جائیے۔”

وہ دونوں حیرت سے میرا مونہہ تکنے لگے۔ انہوں نے کچھ کہنے کے لئے مونہہ کھولا ہی تھا کہ جان نے انہیں ڈانٹ دیا اور وہ لرزتے کانپتے باہر چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد جان سوچ میں پڑ گیا۔ آخر کچھ دیر بعد بولا:

“یہ تو بڑی مصیبت ہوئی فیروز۔ اس طرح تو روزانہ کوئی نہ کوئی تمہارا چچا یا ماموں بن کر آنے لگے گا۔ آخر ایسے لوگوں سے ہم کس طرح نجات حاصل کریں گے۔ ویسے ایک بات ہے فیروز۔۔۔!”

“فرمائیے کون سی؟”

“تم نے تو آج تک مجھے بھی اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا کہ تم کون ہو، اور تمہارے والدین کون تھے، ان کا پیشہ کیا تھا؟”

“والدہ کے بارے میں تو میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔” میں نے سوچتے ہوئے کہنا شروع کیا:

“میں بہت چھوٹا سا تھا جب کہ ان کا انتقال ہو گیا تھا۔۔۔ ہاں بس مجھے اتنا یاد ہے کہ تین یا چار سال کی عمر تک میں ایک بہت بڑے اور صاف ستھرے مکان میں رہتا تھا۔ ایک عورت تھی جو شاید میری آیا تھی۔ وہ مجھے بڑے لاڈ و پیار سے رکھتی تھی اور مجھے میرے والد کے قصے مزے لے لے کر سناتی تھی۔”

“والد کے قصے!” جان نے حیرت سے کہا “اس کا مطلب ہوا کہ تم نے اپنے والد کو نہیں دیکھا؟”

“جی ہاں یہی سمجھئے۔ صرف دو تین بار دیکھا تھا۔ پانچ چھ سال کی عمر میں ایسی باتیں یاد کسے رہتی ہیں۔ میری عمر اتنی ہی تھی۔ ہلکا سا نقشہ میرے ذہن میں محفوظ ہے۔ وہ ایک لمبے تڑنگے آدمی تھے اور ان کی مونچھیں بھی تھیں۔ شاید وہی میرے والد ہوں گے۔”

“پھر وہ کہاں گئے۔۔۔؟” جان نے جلدی سے پوچھا۔

“پتہ نہیں کہاں گئے، میں کہہ نہیں سکتا۔”

“تو تم دلی کے ہوٹل میں کس طرح ملازم ہوئے؟”

“مجھے اتنا یاد ہے کہ اس بوڑھی عورت نے مجھے ایک گھر میں بھیج دیا تھا۔ جہاں بچے ہی بچے تھے۔ ان بچوں کے ماں باپ بھی نہیں تھے۔ اس وقت تو مجھے معلوم نہ تھا کہ اس گھر کو کیا کہتے تھے، ہاں مگر اب میں جانتا ہوں کہ وہ یتیم خانہ تھا اور اسی یتیم خانے سے بعد میں مجھے دلی کے اس ہوٹل میں بیرا بنا کر بھیج دیا گیا۔ بس یہی میری کہانی ہے۔”

اتنا کہہ کر میں افسردہ ہو گیا۔ دل میں عجیب عبجیب خیالات آنے لگے۔ ماں اور باپ جنہیں میں نے بہت ہی کم دیکھا تھا مجھے یاد آ گئے۔ دل سے ایک ہوک سی اٹھی اور آپ ہی آپ میری آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں۔ میں پھر اتنا بے تاب ہوا کہ مونہہ چھپا کر بری طرح رونے لگا۔ یہ دیکھ کر جان نے جلدی سے اٹھ کر مجھے اپنے سینے سے لگا لیا۔ میرے آنسو پونچھے اور کہنے لگا۔

“گھبراؤ مت فیروز! میرے بیٹے، میں کل بمبئی کے سب یتیم خانوں میں جاؤں گا۔ اور خدا نے چاہا تو تمہارے والد کے بارے میں بہت کچھ پوچھ کر آؤں گا۔ تم اپنا دل چھوٹا مت کرو اور آرام کرو۔”

آرام تو اب مجھے کرنا ہی تھا۔ کیوں کہ اب میں اتنا دولت مند تھا کہ میری پوری زندگی عیش و آرام میں گزر سکتی تھی۔ مگر جسے سکون کہتے ہیں، وہ مجھے میسر نہیں تھا۔ لوگوں کے کہنے سے بار بار یہ بات دل میں کھٹکتی تھی کہ آخر میں کون ہوں؟

میرے ماں باپ کون تھے؟

میرے والد زندہ ہیں یا مر گئے؟

ہر وقت بس میں یہی بیٹھا ہوا سوچتا رہتا۔ بہت سے لوگ مجھ سے ملنے آئے، مگر میں نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا۔ مجھے یقین تھا کہ ان میں سے بیشتر میرے چچا، ماموں، بھائی یا دور کے رشتے کے عزیز ہوں گے۔ کچھ چندہ مانگنے آئے ہوں گے اور کچھ مجھے اپنے کلب کا ممبر بنانے۔ زندگی اسی طرح گزر رہی تھی کہ ایک دن جان ایک بوڑھی عورت کو اپنے ساتھ لئے ہوئے میرے کمرے میں آیا۔ عورت لاٹھی ٹیک کر چل رہی تھی۔ اس کی کمر جھکی ہوئی تھی اور وہ بہت زیادہ عمر رسیدہ تھی۔

“فیروز! یتیم خانوں میں پوچھ گچھ کے بعد میں نے تہماری آیا کو ڈھونڈ نکالا ہے۔ دیکھو یہی تمہاری وہ آیا ہیں جو تمہیں بچپن میں بہت پیار کرتی تھیں؟ آؤ ان سے ملو۔”

“فیروز بیٹا! تو کہاں ہے۔ میرے پاس آ، مجھے بہت کم دکھائی دیتا ہے میرے لال۔” عورت نے لرزتی آواز میں کہا۔

لفظ تو سن کر ہی میں سمجھ گیا کہ درحقیقت وہ میری آیا ہے۔ خوشی کے مارے کپکپاتا ہوا میں اس کے پاس پہنچا۔ میری شکل خوب غور سے دیکھنے کے بعد اس نے مجھے اپنے سینے سے لگا لیا اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔

“میرے چاند! میں نے تجھ پر کتنے ظلم ڈھائے ہیں۔ ہائے، میں بھی کتنی کمبخت ہوں کہ تجھے پال نہ سکی۔ مجھ نصیبوں جلی نے تجھے یتیم خانے میں داخل کرا دیا۔ مگر بیٹے اللہ گواہ ہے کہ میرے پاس کھانے کے لئے ایک دانہ بھی نہ تھا۔ تو میرے پاس رہتا تو فاقوں سے مر جاتا میرے بچے۔۔۔!”

اتنا کہہ کر وہ پھر رونے لگی۔ میں خود بھی اس سے لپٹ کر رو رہا تھا۔ جب ہم دونوں کے دلوں کا بوجھ ہلکا ہوا تو جان نے عورت سے کہا۔

“اماں۔۔۔ اب تو تم نے پہچان لیا کہ یہ فیروز ہے۔ تم راستے میں کہتی تھیں کہ اس کے سینے پر ایک کالا داغ ہے، میں دیکھ چکا ہوں کہ وہ داغ واقعی اس کے سینے پر ہے۔ فیروز تم انہیں وہ داغ بھی دکھا دو۔”

میں نے سینہ کھول کر آیا کو وہ داغ دکھایا تو وہ پھر مجھ سے لپٹ کر رونے لگی۔ جان کے بار بار یہ کہنے پر کہ وہ میرے والد کے بارے میں بتائے، بڑھیا نے کہنا شروع کیا:

“فیروز کسی معمولی خاندان سے نہیں ہے صاحب، بلکہ اس کی رگوں میں نوابی خون دوڑ رہا ہے۔ اس کے دادا نواب تھے اور کلکتہ میں ان کی بہت بڑی جائداد تھی۔ اس کے والد بہت پڑھے لکھے آدمی تھے انہوں نے امریکہ میں ڈاکٹری کی تعلیم پائی تھی اور بڑے عرصے کے بعد بمبئی لوٹے تھے۔ بمبئی ہی میں ان کی شادی ایک بوہرے سیٹھ کی لڑکی سے ہوئی۔ شادی کے بعد ہی جنگ شروع ہو گئی۔ اس کے والد بہت بڑے سرجن تھے اس لئے انہیں بھی لڑائی پر جانا پڑا۔ تب ہی فیروز پیدا ہوا۔ اس کی پیدائش کے دو مہینے کے بعد اس کی ماں ایک بیماری میں مر گئی۔ اور ننھے فیروز کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے گئی۔ تب میں نے اسے پالا پوسا اس کے والد صرف دو بار اسے دیکھنے آئے تھے، اور پھر ان کا پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں گئے۔ میں سمجھتی ہوں کہ وہ جنگ میں کام آ گئے ہوں گے۔”

یہ خبر سن کے میرے دل کو ایک دھچکا لگا۔ مگر یہ انکشاف میرے لئے خوشی کا باعث تھا کہ میں ایک اعلی خاندان سے تعلق رکھتا ہوں۔ بڑھیا نے سانس لے کر پھر کہنا شروع کیا۔

“میں اتنی بے وقوف تھی کہ میں نے قانون کی مدد لئے بغیر فیروز کو گھبرا کر یتیم خانے میں داخل کرا دیا۔ میں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ وہ ایک بہت بڑی جائداد کا مالک ہے اور اسے یتیم خانے میں داخل ہونے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، میں تو بس اپنی غریبی سے عاجز تھی۔ پریشان تھی اسی لئے یہ عجیب کام کر بیٹھی۔”

“مگر اماں، فیروز کے والد کا نام کیا تھا۔ یہ تم نے نہیں بتایا؟”

“کرنل پرویز تھا ان کا نام۔ وہ بہت خوب صورت اور بہادر ۔۔۔”

“کرنل پرویز۔۔۔!” جان نے چونک کر کہا:

“اور تم نے کہا ہے کہ انہوں نے امریکہ میں تعلیم حاصل کی تھی؟”

“جی ہاں۔ میں کیا بتاؤں کتنے اچھے آدمی تھے وہ۔”

“فیروز۔۔۔۔!” جان نے اپنے دونوں ہاتھ میری طرف پھیلاتے ہوئے کہا :

“فیروز میرے بچے، تمہارے نقلی چچا تو تمہیں بہت سے ملے مگر اب اپنے اصلی چچا سے بھی مل لو۔”

“کیا مطلب یہ۔۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟” میں نے تعجب سے کہا۔

“کاش مجھے پہلے سے معلوم ہوتا! مگر خدا کی مرضی بھی یہی تھی۔ میرے بیٹے، تمہارے والد کو میں نے اچھی طرح دیکھا ہے۔ کیوں کہ وہ میرے ساتھ ہی کالج میں پڑھتے رہے ہیں۔ آؤ میرے سینے سے لگ جاؤ۔”

میں حیرت سے ایک ایک کو دیکھ رہا تھا۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ کیا قصہ ہے۔ جان نے مجھے گلے لگانے کے بعد سب باتیں تفصیل سے بتائیں۔۔۔

والد صاحب کے بارے میں ہر چھوٹی سے چھوٹی بات تک مجھے بتائی۔ اس نے بتایا کہ والد کافی عرصے تک واشنگٹن کے ایک کالج میں اس کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے رہے تھے اور دونوں بہت ہی اچھے دوست تھے۔ جان نے مجھ سے وعدہ کیا کہ اس کے پاس والد کی جو تصویریں ہیں ان میں سے بہت سی وہ مجھے بھیج دے گا۔ آخر میں اس نے کہا:

“مجھے فخر ہے فیروز کہ تم ایک بہت اچھے خاندان سے ہو۔ پہلے تمہاری باتیں سن سن کر میں حیرت کیا کرتا تھا کہ ایک معمولی سا لڑکا آخر کس طرح ایسی عقل مندی کی باتیں کر سکتا ہے! مگر مجھے اب کوئی حیرت نہیں ہے۔ تم اس باپ کے بیٹے ہو جو کالج میں ہمیشہ اول آیا کرتا تھا، جو بے حد بہادر اور ذہین تھا اور اس کی یہ ذہانت اور بہادری ہی تمہارے اندر پائی جاتی ہے۔”

یہ ہے وہ عجیب و غریب داستان جسے پڑھتے ہوئے کئی بار آپ نے اپنے دل میں کہا ہوگا کہ یہ نا ممکن ہے۔۔۔!

مگر یہ حقیقت ہے اور مجھ پر بیتی ہے۔ ان واقعات کو بیتے ہوئے اب عرصہ ہو گیا ہے۔ اس وقت میں اپنے عالیشان کمرے میں بیٹھا ہوا یہ کہانی لکھ رہا ہوں۔ میری بیوی دوسرے کمرے میں بیٹھی ہوئی میری ننھی سی بچی کے لئے اونی سوئٹر بن رہی ہے۔۔۔ میرے دادا اور میرے والد کی جتنی بھی جائداد تھی اس کا اب میں تنہا مالک ہوں۔ اس کے ساتھ ہی میری اپنی ایک جہاز کمپنی بھی ہے، میرے جہاز دور دراز کے ملکوں میں آتے جاتے ہیں۔ یہی اب میرا کاروبار ہے اور خدا کا شکر ہے کہ میری ایمان داری کی بدولت یہ کام خوب چل رہا ہے، جہاں تک میں سمجھتا ہوں مجھے یہ عزت صرف اس وجہ سے ملی ہے کہ میں ہمیشہ دوسروں کا وفادار رہا۔ میں نے کبھی لالچ اور بے ایمانی نہیں کی۔

جان کے بارے میں مجھے اتنا اور بتانا ہے کہ مکھی کی آنکھیں حفاظت سے بند کر کے وہ انہیں اپنے ساتھ امریکہ لے گیا۔ رہے جیک اور ملاح، تو جیک تو جان کے ساتھ ہی امریکہ چلا گیا تھا۔ ملاح جس کا نام کرشنا سوامی ہے، اب میرے ساتھ ہی ہے اور میرے کام کو چلاتا ہے، ایک طرح سے وہ میرے کام میں میرا سب سے بڑا مددگار بنا ہوا ہے۔

جان آج کل واشنگٹن میں اندھے بچوں اور بیواؤں کا ایک اسکول چلا رہا ہے۔ اس خوف ناک مکھی کی آنکھوں کی مدد سے اس نے بہتیرے بچوں کی آنکھوں کو روشنی عطا کی ہے، اور ہزاروں بیواؤں کی مالی امداد بھی کی ہے۔ اب بھی اس کے خط میرے پاس آتے رہتے ہیں اور ان خطوں کو پڑھ کر ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دنیا میں صرف مجھ سے، میری بیوی زرینہ اور بچی نجمہ سے محبت کرتا ہے۔ کئی بار وہ بذریعہ ہوائی جہاز امریکہ سے بمبئی آیا اور مجھ سے مل کر گیا۔ اس سے بچھڑتے وقت مجھے ہمیشہ ایسا محسوس ہوا جیسے میں اپنے حقیقی باپ سے جدا ہو رہا ہوں!

ایک خوش خبری اور سنئے۔ چند دن پہلے ہی مجھے جان کا خط ملا ہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ اس نے اپنی تمام دولت میری ننھی نجمہ کے نام لکھ دی ہے۔ میرے نام اس لئے نہیں لکھی کہ اب اسے مجھ سے زیادہ میری بچی نجمہ پیاری ہے۔

مجھے اب دنیا میں کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ میری محنت، ہمت اور وفاداری نے مجھے وہ کچھ دے دیا جو شاید کسی شہنشاہ کو بھی نہ ملا ہوگا۔ دولت، عزت، شہرت اور دنیا بھر کے عیش و آرام۔۔۔ مجھ سے زیادہ خوش نصیب شاید ہی اس دنیا میں کوئی ہو!

میرے حیرت انگیز، خوفناک اور طویل سفر نے مجھے یہی سبق دیا ہے کہ اگر ہم مصیبتوں سے نہ گبھرائیں، ہر حال میں خدا سے لو لگائے رکھیں، ڈر اور خوف کو دل کے قریب بھی نہ آنے دیں۔ ہمت، ایمان داری اور محنت سے ہر کام کریں تو خدا ہماری مدد ضرور کرے گا اور ہم ایک ایسے درجے پر پہنچ جائیں گے کہ دنیا رشک کرے گی۔ میری مثال آپ کے سامنے موجود ہے۔

اچھا اب اجازت چاہوں گا۔ دوسرے کمرے سے زرینہ مجھے سوئٹر کا نمونہ پسند کرنے کے لئے بلا رہی ہے اور میں دو گھنٹے سے یہی کہہ رہا ہوں کہ بس ایک منٹ میں آیا۔

اب چلتا ہوں، خدا حافظ

خوفناک جزیرہ

خوفناک جزیرہ

قسط:23

سراج انور

پچھلی قسط کا خلاصہ :

جیک اور اس کی ٹیم نے دیوزاد خوفناک مکھی کی پناہ گاہ ڈھونڈ لی تھی اور اب وہ لوگ اس مکھی کو ختم کرنے کا منصوبہ بنانے لگے۔ منصوبے کے ایک حصے کے طور پر جیک کی ہدایت پر ان لوگوں نے کاہی کے علاقے میں جگہ جگہ آگ لگا دی جس سے شام کے وقت کاہی کھانے والے پرندے آگ کے سبب ان چٹانوں پر اتر نہ سکے اور کاہی کھائے بغیر وہ تمام چیختے چلاتے لوٹ گئے۔چونکہ خوفناک مکھی انہی کاہی کھا کر مدہوش ہوئے پرندوں کا شکار کرنے رات کے وقت اپنے ٹھکانے سے باہر نکلتی تھی ، اور اس بار جب وہ باہر نکلی تو اسے ایک بھی پرندہ نظر نہ آیا ۔۔۔

۔۔۔ اب آپ آگے پڑھئے ۔۔۔

روشنی اتنی تیز تھی کہ ہم ایک ایک چیز صاف طور پر دیکھ سکتے تھے۔ پیروں کے بعد ایک لمبی سی سونڈ دکھائی دی، اسی سونڈ میں سے وہ تیز شعلہ بار بار نکل رہا تھا۔ شعلہ اندازً اس کی ناک سے پندرہ گز دور تک پہنچتا تھا اس خطرناک مکھی کے پیر آگے جا کر ایک پنجہ سا بن جاتے تھے۔۔۔ بالکل کبوتر کے پیروں کی طرح اور اپنے اسی پنجے کو دلدلی زمین میں گاڑتی ہوئی وہ آہستہ آہستہ اوپر آ رہی تھی۔ جلد ہی ہمیں اس کا سر بھی نظر آ گیا، کیا بتاؤں کہ یہ سر کتنا بڑا تھا! دہلی کی جامع مسجد کے پہلو والے گنبد سے بس ذرا سا ہی چھوٹا ہو گا۔ اس سر میں اس کی دو لمبوتری آنکھیں خون کی طرح سرخ نظر آتی تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے آنکھوں کی جگہ دو بڑے انگارے جڑے ہوئے ہوں۔ ہم لوگ چٹان کی اوٹ میں دبکے ہوئے خاموشی سے اسے دیکھ رہے تھے اور اب وہ پوری طرح غار سے باہر آ چکی تھی!

اس کا جسم بہت لمبا تھا۔ خیال تو یہ تھا کہ ہاتھی سے بڑی ہو گی، مگر اب جب آنکھوں سے دیکھا تو حقیقت کھلی وہ دراصل وھیل مچھلی سے بھی لمبی تھی۔ اس کے جسم میں آگ دہک رہی تھی، کیوں کہ جسم بالکل سرخ تھا۔ خدا کی قدرت کی کیا تعریف کی جائے! کیسے کیسے جانور اس نے دنیا میں پیدا کر دیئے ہیں! غار سے باہر آنے کے بعد مکھی نے وہی تیز سیٹی جیسی آواز نکالنی شروع کر دی اور کچھ دیر کے لئے آرام کرنے لگی۔ آپ نے ہوائی اڈے پر کسی ہوائی جہاز کو اڑنے سے پہلے ضرور دیکھا ہو گا۔ وہ پہلے ایک جگہ کھڑا رہ کر سیٹی کی سی آواز نکالتا ہے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد اڑتا ہے۔ یہی حال اس مکھی کا تھا مگر ہمیں ابھی معلوم نہ ہو سکا تھا کہ وہ اڑتی بھی ہے یا نہیں۔ اس کے دو بہت بڑے پر نظر تو آ رہے تھے۔ مگر ابھی تک ہم نے اسے ان پروں سے کام لیتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ اچانک کچھ دیر بعد اس میں حرکت ہوئی۔ سیٹی کی آواز اور تیز ہو گئی اور پھر اس کے دونوں بڑے پر تیزی سے ہلنے لگے۔ پروں کے ہلنے کے ساتھ ہی آس پاس کے درخت بری طرح لرزنے لگے، مٹی اڑنے لگی، ایسا لگتا تھا جیسے طوفان آ گیا ہو۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے وہ ہوا میں بلند ہو کر اڑنے لگی۔ مگر وہ زیادہ اونچی نہیں اڑ رہی تھی۔ مشکل سے زمین سے کوئی پانچ گز اونچی ہو گی اور بس۔!

یہ دیکھ کر ہم نے خدا کا شکر ادا کیا کہ ہم جس پہاڑ پر کھڑے ہوئے تھے وہ کافی اونچا تھا۔ اگر نیچا ہوتا تو ہم مکھی کی تیز نظروں سے ہر گز نہ بچ سکتے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ وہ اڑتی ہوئی ان دو پہاڑوں ہی کی طرف آ رہی تھی۔ جلدی سے ہم پہاڑ کی چوٹی پر ٹکی ہوئی چٹان کے نیچے دبک گئے اور اور مکھی دو پہاڑوں کے درمیان سے گرزتی ہوئی اس طرف جانے لگی جہاں ہم نے آگ لگائی تھی مکھی کے اس طرف جاتے ہی جان نے گھبرا کر کہا۔

“بس اب عمل کا وقت آ گیا ہے۔ وہ دوڑ کا مقابلہ میں نے اسی وقت کے لئے کرایا تھا۔ بد قسمتی سے فیروز اس مقابلے میں اول آیا تھا۔ مگر فیروز کو موت کے مونہہ میں جھونکنا مجھے پسند نہیں۔ وہ بچہ ہے، اسے زندگی گزارنی ہے۔ مگر میں نے اپنی زندگی کے دن پورے کر لئے ہیں، اس لئے میں ہی اب پہاڑ سے نیچے جاتا ہوں۔”

“کیا کہہ رہے ہیں آپ۔ یعنی اس کا مطلب کیا ہے۔۔۔؟” میں نے تعجب سے پوچھا۔

“مطلب۔۔۔ ہاں مطلب بھی مجھے ضرور بتانا چاہئے۔” جان نے کہنا شروع کیا۔ “دیکھو فیروز میں نے دراصل یہ سوچا ہے کہ مکھی جہاں اس وقت گئی ہے وہاں اسے کوئی پرندہ نظر نہ آئے گا۔ وہ بھوکی ہو گی اس لئے سب جگہ کی خاک چھاننے کے بعد مجبورًا وہ واپس اپنے غار میں چلی جائے گی۔ اس مکھی کی خاصیت ہے کہ وہ زیادہ دیر تک سمندر سے اوپر نہیں رہ سکتی۔۔۔ میں نے یہ سوچا ہے کہ میں پہلے پہاڑ کے نیچے اتر کر کھڑا ہو جاتا ہوں۔ ان دونوں پہاڑوں سے کم از کم چالیس گز دور کھڑے ہونے سے یہ فائدہ ہو گا کہ مکھی کے غار سے بھی قریب رہوں گا اور سمندر سے بھی۔ پہاڑ سے نیچے اس کے سامنے کھڑے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے مکھی پہاڑوں کے درمیان سے نہ گزرے تو مجھے دیکھ کر لازمی طور سے وہ پہاڑوں کے بیچ میں سے گزرے گی۔ اب غور سے سنو کہ کرنا کیا ہے۔ مکھی جب اپنے غار یا گھر کی طرف واپس آ رہی ہو گی تو لازمی تھکی ہوئی ہو گی۔ اس لئے ہو سکتا ہے کہ وہ یا تو زمین پر گھسٹتی ہوئی چلے یا زمین سے بہت ہی تھوڑے فاصلے پر اڑے۔ تم لوگوں کا کام یہ ہو گا کہ پہاڑ کی ٹکی ہوئی اس بڑی چٹان کو زور سے ہلانا شروع کر دو۔ اور کوشش یہ کرو کہ جیسے ہی وہ مکھی مجھے دیکھ پہاڑوں کے درمیان آ جائے یہ چٹان اس کے جسم پر جا کر گرے۔ میرے خیال میں یہی طریقہ اسے ختم کرنے کا ہو سکتا ہے۔

یہ سنتے ہی میرے پیروں تلے کی زمین نکل گئی۔ کیوں کہ اس میں تو خطرہ ہی خطرہ تھا!

لیکن اگر ہمارا نشانہ خطا ہو گیا تو؟” جیک نے جلدی سے کہا “مطلب یہ کہ چٹان مکھی پر نہ گری تو۔؟

“تو یہ کہ میں تیز دوڑتا ہوا سمندر میں جا کر گھس جاؤں گا اور تیرتا ہوا اس طرف نکل آؤں گا جہاں ہم نے آگ لگائی ہے۔ جان نے جواب دیا۔

مگر آپ تیز کس طرح دوڑیں گے؟ آپ تو مقابلہ میں پہلے ہی دم توڑ چکے تھے!” جیک نے کہا۔ “نہیں مسٹر جان یہ کام میں کروں گا، میں نیچے جاتا ہوں۔”

“نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔” میں نے چلا کر کہا “انصاف سے کام لیجئے۔ دوڑ میں اول میں آیا تھا، اس لئے یہ معرکہ بھی مجھے ہی سر کرنا ضروری ہے، پھر دوسری بات یہ کہ چٹان آپ تینوں مل کر جلدی ہلا سکیں گے۔ میں ہوں گا تو اس میں وقت لگے کا کیونکہ میں عمر میں کم ہوں اور کم طاقت ور ہوں اس لئے اب میں نیچے جاتا ہوں۔”

اس سے پہلے کہ جان اور جیک مجھے روکتے، میں تیزی سے پہاڑ کی ڈھلان کی طرف بھاگا۔ انہوں نے مجھے بہتیری آوازیں دیں۔ مگر میں نے کسی کی ایک نہ سنی اور نیچے اترتے اترتے پکار کر کہا۔

“مجھے مت روکئے سر۔ بحث میں وقت صرف ہو گا، ایسا نہ ہو کہ وہ مکھی واپس آ جائے۔”

یہ کہہ کر میں جلدی جلدی پہاڑ سے نیچے اترنے لگا اور پھر کچھ ہی دیر بعد میں ان دونوں پہاڑوں سے چالیس گز کی دوری پر کھڑا تھا مجھے وہاں دیکھ کر مجبوراً جان، جیک اور ملاح اس ہلتی ہوئی چٹان پر دونوں ہاتھ رکھ کر کھڑے ہو گئے۔ طوفان بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ سیٹی تیز سے تیز ہوتی جا رہی تھی۔ بڑی ہیبت ناک آوازیں آ رہی تھیں خوف کے مارے میرا رؤاں رؤاں لرز رہا تھا۔ میں کہہ نہیں سکتا کہ میری کیا حالت تھی، پسینے چھوٹے ہوئے تھے اور جسم کپکپا رہا تھا۔ میں نے یہ سوچ لیا تھا کہ اگر عین وقت پر چٹان مکھی کے جسم پر نہ گری تو میرا خاتمہ یقینی ہے۔ مکھی پندرہ گز دور ہی سے مجھے جلا کر خاک کر ڈالے گی۔ یہ سوچتے ہی میں نے ڈبڈبائی آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھا۔ آسمان کی طرف نظر کرتے ہی میرے آنسو بہنے لگے اور میں بے اختیار سجدے میں گر گیا۔ میرا دل خدا تعالی سے خاموش دعا مانگ رہا تھا۔ میں نے ایک لفظ مونہہ سے نہ نکالا، مگر دل دعا مانگتا رہا آنسو بہتے رہے اور پھر اچانک یوں لگا کہ میرا جسم کپکپانا بند ہو گیا ہے۔ دل میں نہ جانے کہاں سے طاقت آ گئی۔ ایسا معلوم ہوا کہ اس وقت اگر سامنے سے ہاتھی بھی آ جائے تو اسے چٹکی سے مسل کر رکھ دوں گا۔! اچانک دھب دھب کی تیز آواز مجھے سنائی دی۔ ساتھ ہی ایسا دھماکا بھی سنائی دیا جس کی وجہ سے زمین لرزنے لگی۔۔۔ میں جلدی سے کھڑا ہو گیا، کیونکہ سامنے دو پہاڑوں کے بیچ میں سے مجھے وہ خوف ناک مکھی زمین پر چلتی ہوئی اپنی طرف آتی دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے پہاڑ کی چوٹی پر نظر اٹھا کر دیکھا تو جان نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ ہوشیار! اور پھر وہ تینوں مل کر چٹان کو ہلانے لگے۔ مکھی ویسے تو آہستہ چل رہی تھی، لیکن کبھی کبھی چلتے چلتے پھدک کر آگے بڑھ آتی تھی۔ چٹان برابر تیزی سے ہل رہی تھی۔۔۔ مکھی قریب آتی جا رہی تھی اور میں نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے، چپ چاپ کھڑا اسے دیکھ رہا تھا اور پھر وہی ہوا جو جان نے کہا تھا۔ مکھی نے مجھے دیکھ کر زور کی پھنکار ماری اور میری طرف تیزی سے بڑھنے لگی۔ میں سینہ تانے اسے گھور رہا تھا۔ چٹان اور زور زور سے ہل رہی تھی۔ میں نے صرف اتنا دیکھا کہ مکھی جیسے ہی پہاڑوں کے بیچ میں پہنچی، اوپر سے چٹان لڑھک کر اس کی طرف گرنے لگی اور مکھی زور سے پھدک کر میری طرف آئی اور پھر۔۔۔۔ پھر مجھے معلوم نہیں کہ کیا ہوا؟ دہشت کی وجہ سے میں بے ہوش ہو کر زمین پر گر گیا۔۔۔!

جب مجھے ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ میں اپنے بادبانی جہاز کے ڈیک پر چت لیٹا ہوا ہوں۔ چمکیلی دھوپ نکل رہی ہے۔ ہر طرف سکون سا ہے اور جان مجھ پر جھکا ہوا غور سے مجھے دیکھ رہا ہے، مجھے ہوش میں آتے دیکھ کر اس نے خدا کا شکر ادا کیا اور پھر جیک کو آواز دی۔ جیک اندر کیبن میں سے دوڑتا ہوا آیا اور میرے قریب بیٹھ کر میرے سر کو سہلانے لگا اس کی آنکھوں میں خوشی کی چمک تھی۔ جب اس نے میرے سر کو سہلایا تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے سر میں پٹی بندھی ہوئی ہے اور سر میں ہلکی سی تکلیف بھی محسوس ہو رہی ہے۔ یہ اندازہ لگا کر میں نے بڑی کمزور آواز میں پوچھا۔

“میرے سر پر پٹی کیوں بندھی ہوئی ہے۔۔۔ مجھے کیا ہوا؟”

“گھبراؤ مت فیروز۔” جان نے میرا سر تھپتھپا کر جواب دیا۔ “اب تم بالکل ٹھیک ہو۔ بات یہ ہے کہ تم گر گئے تھے اور تمہارا سر ایک پتھر سے ٹکرایا تھا۔ گرتے ہی تم بے ہوش بھی ہو گئے تھے اور پورے تیس گھنٹے تک بے ہوش رہے۔ آج تم ہوش میں آئے ہو، خدا کا شکر ہے کہ اب تم بالکل ٹھیک ہو جاؤ گے۔ تمہارے دماغ کو گرمی پہنچانے کی ضرورت تھی اس لئے ہم نے تمہیں دھوپ میں لٹا رکھا ہے۔”

“اوہ! یہ بات ہے۔” میں نے کمزور آواز میں کہا۔ اچانک مجھے وہ دیوزاد مکھی یاد آ گئی۔ خوف کے باعث میرا جسم لرزنے لگا اور میں خوف زدہ آواز میں چلایا “مکھی۔ وہ مکھی کہاں ہے۔؟”

جیک نے جان کو معنی خیز نظروں سے دیکھنے کے بعد کہا “فیروز اپنے دماغ پر زور مت ڈالو۔ فی الحال اتنا سمجھ لو کہ تم مکھی کے حملے سے بچ گئے ہو۔ جب تم بالکل تندرست ہو جاؤ گے تو ہم تمہیں ایک ایک بات بتا دیں گے۔”

میں چوں کہ سب حال جاننے کے لئے بہت بےتاب تھا اس لئے میں نے جلدی سے کہا “نہیں نہیں اب میں بالکل ٹھیک ہوں۔ خدا کے لئے مجھے سب کچھ بتائیے آخر یہ ماجرہ کیا ہے؟ وہ جزیرہ کہاں گیا۔ وہ مکھی کیا ہوئی اور اب ہم کہاں جا رہے ہیں؟”

جان نے جواب دیا “اچھا تو پھر تم اندر چل کر لیٹ جاؤ۔ ہلو جلو مت اور بولو بھی کم۔ تب میں تمہیں پوری باتیں سناؤں گا۔”

میں نے اس کی بات مانتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کی۔ ان دونوں نے مجھے سہارا دیا اور پھر اندر کیبن میں لے جا کر میرے بستر پر لٹا دیا۔ اس کے بعد جان نے اپنا پائپ سلگایا اور دھواں چھت کی طرف چھوڑتے ہوئے کہنے لگا۔

“باتیں بڑی عجیب ہیں فیروز! مختصراً تمہیں بتاتا ہوں۔ جب تم ہمارا کہنا نہ مانتے ہوئے پہاڑ سے نیچے اترنے لگے تو مجھے بڑی گھبراہٹ ہوئی۔ پہاڑ پر کاہی جمی ہوئی تھی اور ہر لمحہ تہمارے نیچے پھسل جانے کا خطرہ تھا، مگر اس سے بھی بڑا خطرہ وہ تھا جس سے مقابلہ کرنے کے لئے تم نیچے جا رہے تھے۔ ہمارے دلوں کی عجیب حالت تھی۔ ہمارے سامنے تم موت کے مونہہ میں جا رہے تھے اور ہم کچھ نہ کر سکتے تھے، اتنا وقت ہی نہیں تھا کہ ہم تمہیں زبردستی اوپر کھینچ کر لاتے۔ مکھی آہستہ آہستہ پہاڑ کی طرف بڑھتی آ رہی تھی۔ میں دل ہی دل میں خود کو ملامت کر رہا تھا کہ بڑا بہادر ہوں! خود تو جان بچا کر پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا ہوں اور ایک چھوٹا سا لڑکا موت سے ٹکر لینے نیچے جا رہا ہے۔ مگر وقت اتنا نازک تھا کہ سوچنے سمجھنے کی نہیں بلکہ عمل کی ضرورت تھی۔ آخر مجبور ہو کر ہم عمل کے لئے تیار ہو گئے۔ جب ہم نے دیکھا کہ تم پہاڑوں سے کافی دور جا کر مکھی کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو گئے ہو، تو ہم تینوں نے اس چٹان کو ہلانا شروع کر دیا۔۔۔ جو چٹان انگلی لگانے سے ہلنے لگی تھی وہ اب ہم تینوں کے زور لگانے سے بری طرح ہلنے لگی۔ مکھی پھنکاریں مارتی ہوئی تہماری طرف بڑھتی چلی آ رہی تھی۔ چوں کہ وہ بہت زیادہ تھکی ہوئی اور شاید بھوکی بھی تھی۔ اس لئے ہوا میں اڑ نہیں سکتی تھی۔ اگر خدانخواستہ اڑنے لگتی تو پھر ہمارا خدا ہی حافظ تھا۔ اس نے صرف تمہیں ہی دیکھا تھا اس لئے تمہاری ہی طرف بڑھنے لگی۔ ہم لوگوں کے ہاتھ پاؤں کا دم سا نکل رہا تھا۔۔۔ سوچ رہے تھے کہ اگر چٹان بر وقت اس پر جا کر نہ گری تو ہم تم سے ہاتھ دھو لیں گے۔ کیوں کہ مکھی کے قریب آ جانے کے بعد تم تیزی سے سمندر کی طرف نہیں بھاگ سکتے تھے لہذا مکھی اپنے شکار کو بھاگتے دیکھ کر ایک زوردار حملہ ضرور کرتی۔ خیر ہم چٹان کو ہلاتے رہے اور جب وہ دیوزاد مکھی دونوں پہاڑوں کے درمیان میں پہنچ گئی۔ تو ہم نے چٹان زور لگا کر گرا دی۔ ہماری خوش قسمتی تھی اور خدا کا کرم کہ چٹان بالکل اس کے پیٹ پر جا کر گری۔ بڑے زور کے چھپاکے اڑے۔ اور اس کے پیٹ میں سے گرم گرم لاوا نکل کر ہر طرف بہنے لگا جس طرف بھی لاوا گیا، اس نے ہر چیز کو جلا کر خاک کر دیا۔ چھوٹی چھوٹی چٹانیں تو اس لاوے میں اس طرح پگھل گئیں، جیسے چینی پانی میں گھل جاتی ہے۔ مکھی مر رہی تھی اور وہ اپنی دم زور زور سے زمین پر پٹخ رہی تھی۔ اس کی ناک سے نکلنے والے شعلے اب مدہم ہوتے جا رہے تھے اور لاوا بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ ہم نے تمہیں بے ہوش ہو کر زمین پر گرتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ اور اب ہمیں یہ خدشہ ہونے لگا تھا کہ لاوا کہیں بڑھتے بڑھتے تم تک نہ پہنچ جائے! سچ بات تو یہ ہے کہ اس موقع پر میں ملاح کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہ ایک لفظ کہے بغیر تیزی سے پہاڑ کے نیچے اترنے لگا۔ جب وہ پہاڑ کے نیچے پہنچ گیا تو ہم نے دیکھا کہ لاوا آہستہ آہستہ پہاڑ کو چاروں طرف سے گھیر رہا ہے۔ مگر اس سے پہلے کہ لاوا پہاڑ کو گھیرتا ملاح ایک چھلانگ لگا کر لاوے کے اوپر سے گزر گیا اور پھر چٹانوں کی آڑ لیتا ہوا دوڑ کر تم تک پہنچ گیا۔ لاوا آہستہ آہستہ تمہاری طرف بڑھ رہا تھا۔ اس نے جلدی سے تمہیں اٹھا کر اپنے کاندھے پر ڈالا اور دوڑتا ہوا اس طرف پہنچنے کی کوشش کرنے لگا جہاں لاوا ابھی تک نہیں آیا تھا۔ تمہیں لاوے سے بچاتا ہوا آخرکار وہ وہاں پہنچ گیا جہاں ہم نے پہلے پہل ایک غار میں رات گزاری تھی۔ لاوا اس مقام تک کسی صورت سے بھی نہیں پہنچ سکتا تھا۔”

“اور آپ پہاڑ سے کس طرح نیچے اترے؟” میں نے ایک ٹھنڈا سانس لینے کے بعد پوچھا۔

“ہم دونوں پہاڑ پر کھڑے مکھی کو اپنا سر زمین پر پٹختے دیکھتے رہے۔ سورج پوری طرح آسمان پر نکل کر چمک رہا تھا اور ہم کھڑے سوچ رہے تھے کہ اب کیا کریں؟ کوئی چھ گھنٹے اسی طرح کھڑے کھڑے گزر گئے۔ آخرکار کافی دیر کے بعد ہمیں ملاح کی شکل دکھائی دی۔ وہ اپنے ساتھ موٹے موٹے رسے لئے ہوئے آ رہا تھا۔ ہمیں یقین ہو گیا کہ ملاح لازمی طور پر اپنے جہاز میں پہنچا ہو گا اور وہیں سے یہ رسے نکال کر لایا ہو گا۔ اس نے ہمیں نیچے اترنے کا اشارہ کیا۔ جب ہم پہاڑ کے نیچے پہنچ گئے تو ہم نے دیکھا کہ کسی صورت سے بھی ہم زمین پر قدم نہیں رکھ سکتے تھے۔ لاوے نے پہاڑ کو ہر طرف سے گھیر رکھا تھا اور اس میں سے بلبلے اور بھاپ اٹھ رہی تھی! یہ دیکھ کر ملاح نے دور سے چلا کر کہا کہ وہ رسہ ہماری طرف پھینکتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ رسے کا ایک سرا پہاڑ پر اگے کسی درخت سے باندھ دیں۔ ہم نے ایسا ہی کیا اور ملاح نے بھی رسے کا دوسرا سرا پہاڑ سے کافی فاصلے پر اگے ہوئے ایک دوسرے درخت سے باندھ دیا۔ اس کے بعد اس نے ہم سے کہا کہ رسے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر لٹکتے ہوئے ہم آگ کا یہ دریا پار کریں۔

آخر ہمیں اس کا کہنا ماننا ہی پڑا کیوں کہ اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ بھی نہیں تھا۔ ہمارے نیچے گرم گرم لاوا ابل رہا تھا اور ہم اس کے اوپر رسے سے لٹکتے ہوئے گزر رہے تھے۔ مختصر یہ کہ ملاح کی عقل مندی سے ہم نے اس لاوے کے دریا سے نجات پائی۔ ملاح کے پاس پہنچے تو اس نے مجھ سے کہا کہ وہ تمہیں جہاز کے اندر کیبن میں چھوڑ آیا ہے۔ غار اسے محفوظ معلوم نہیں ہوا ساتھ ہی وہ مکھی کا سر کاٹنے کے لئے کلہاڑا بھی لیتا آیا ہے۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ مکھی کا گنبد نما سر کس طرح کٹے گا جب کہ لاوا اس کے چاروں طرف کھول رہا تھا؟ تو اس نے ایک بڑی اچھی ترکیب بتائی اس نے کہا کہ وہ دوسرے رسے کا ایک پھندا سا بنائے گا۔ پہلا رسہ تو دونوں درختوں سے بندھا ہوا تھا اور وہ کسی صورت سے نہیں کھل سکتا تھا۔ کیوں کہ اسے کھولنے کے لئے ہمیں پھر پہاڑ پر جانا پڑتا۔ اس لئے اس دوسرے رسے کا پھندا دور کھڑے کھڑے وہ مکھی کے سر کی طرف پھینکے گا پھندا اگر مکھی کے سر پر اٹھے ہوئے دو سینگوں میں جا کر پھنس گیا تو وہ ہم دونوں کی مدد سے زور لگا کر مکھی کو اپنی طرف کھینچ لے گا

جاری ہے….

خوفناک جزیرہ

خوفناک جزیرہ

قسط – 22

سراج انور

پچھلی قسط کا خلاصہ :

ان لوگوں کا جہاز اس وقت ایک کافی اونچے پہاڑ کی چوٹی پر ٹکا ہوا تھا اور چوٹی پر قدرتی طور پر رکھی ہوئی دو بڑی اور مضبوط چٹانوں نے اسے سہارا دے رکھا تھا، اگر وہ چٹانیں نہ ہوتیں تو وہ کبھی کا تقریباً پانچ سو فٹ کی گہرائی میں جا گرا ہوتا۔ دوسرے الفاظ میں اس وقت وہ لوگ جزیرے کی سطح سے اندازاً 500 فٹ بلند ایک پہاڑ کی چوٹی پر اپنے جہاز سمیت کھڑے تھے۔ ان سے بہت دور، اور بہت نیچے نیلا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ نہ دھند تھی اور نہ کچھ اور۔ دور دور تک زمین ہی زمین تھی۔ ان لوگوں نے درختوں کی ٹہنیاں کاٹیں اور پھر جہاز کو ان ٹہنیوں کے پتوں سے بالکل ایسے ڈھک دیا کہ دور سے وہ کسی کو نظر نہیں آ سکتا تھا۔ اس کے بعد ضروری سامان، ہتھیار، اور دوسری چیزیں لے کر موٹے موٹے رسوں کی مدد سے نیچے اترنے لگے۔

کچھ دیر بعد چھوٹے بڑے ہر قسم کے پرندے اس جزیرے ہی کی طرف تیزی سے آنے لگے، جزیرے کے اوپر آتے ہیں انہوں نے نیچے اترنا شروع کیا اور پھر تیزی سے چٹانوں پر لگی ہوئی وہ کاہی کھانے لگے، کاہی کھا کر وہ سب اونگھنے اور مدہوش ہو کر گرنے لڑکھڑانے لگے۔ دوسری طرف جان اور اس کے ساتھی چٹان کے نیچے ایک کافی بڑے اور لمبے غار میں پہنچ کر سو گئے۔ اچانک رات کے آخری پہر فیروز ایک تیز سیٹی طرز کی آواز پر اٹھ بیٹھا۔ پو پھٹنے پر جب وہ غار سے باہر نکلے تو انہوں نے دیکھا کہ کسی بھی درخت کی ٹہنی پر یا زمین پر اب کوئی سا بھی پرندہ نظر نہ آتا تھا۔ اگر آتا بھی تو جلا ہوا۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی نے آگ پر بھونا ہو! اس کے علاوہ جن ٹہنیوں پر پرندے بیٹھے ہوئے تھے وہ بھی اب بالکل کوئلہ بن گئی تھیں۔ آس پاس کی گھاس اور جھاڑیاں سب کی سب جلی ہوئی تھیں۔

۔۔۔ اب آپ آگے پڑھئے ۔۔۔

“اف خدا۔ یہ ہے وہ خوف ناک مکھی!”

“کہاں ہے۔؟” ہم تینوں نے ایک ساتھ گبھرا کر پوچھا۔

“ابھی تو نہیں ہے، مگر رات کو وہ ضرور آئی تھی۔ زمین میں پڑے ہوئے یہ گڑھے دراصل اس کے پیروں کے نشان ہیں۔ نشانوں کی گہرائی سے تم اس کے وزن کا اندازہ لگا سکتے ہوں۔ ساتھ ہی یہ بھی نوٹ کرو کہ ہر پیر کی موٹائی کتنی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہاتھی نے اپنے پاؤں جگہ جگہ رکھے ہیں۔ خیر اب میری سمجھ میں سب کچھ آ گیا ہے۔”

“کیا سمجھ میں آ گیا ہے؟” جیک نے دریافت کیا۔

“اس جزیرے کی کاہی پرندے بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ مگر کاہی میں کچھ ایسی نشہ کی خاصیت ہے کہ پرندے یہ کاہی کھاتے ہی بےہوش ہو جاتے ہیں۔ تب رات کو وہ خوف ناک مکھی شعلے اگلتی ہوئی اپنے غار میں سے باہر نکلتی ہے اور ان پرندوں کو چٹ کر جاتی ہے۔ پہلے میں سوچا کرتا تھا کہ اتنی بڑی دیوزاد مکھی بھلا کس طرح اڑتی ہو گی۔؟ مگر اب یہاں آ کر اس بات کا اندازہ ہوا کہ وہ اڑ نہیں سکتی۔ البتہ مینڈک کی طرح کچھ فاصلے تک پھدک ضرور سکتی ہے۔ جو مکھی اڑ کر اپنا شکار تلاش نہ کر سکے اس کے لئے قدرت نے خوراک حاصل کرنے کا یہ انوکھا انتظام کر دیا ہے کہ پرندے دور دور سے اس کا شکار بننے کے لئے خود بخود کھچے چلے آتے ہیں!”

“شاید ہم بھی اسی لئے آ گئے ہیں۔” ملاح نے خوف سے لرزتے ہوئے کہا “کہ اس دیوزاد مکھی کی خوراک بنیں۔”

“احمق نہ بنو۔” جان نے اسے ڈانٹا “ہم اس مکھی سے چھٹکارا حاصل کرنے کا طریقہ سوچ لیں گے۔ فی الحال تو یہی بہتر ہے کہ ہم رات کو اپنے اس غار میں سے کہیں باہر نہ نکلیں۔ ہمارے حق میں یہی سب سے اچھا ہے۔ دن کو ہم پورے جزیرے میں گھوم کر اس مکھی کا گھر تلاش کریں گے اور پھر اسے ختم کرنے کا طریقہ ڈھونڈ نکالیں گے۔ ہمیں یہ کام چودہ دن کے اندر اندر کرنا ہے۔ کیا میری اس بات کو سب سمجھ گئے؟”

“جی ہاں سمجھ گئے۔ اب چوں کہ دن نکل آیا ہے لہذا آئیے اب اس مکھی کا گھر تلاش کر لیں۔” میں نے کہا۔

“میرا بھی یہی خیال ہے۔” جان نے میری بات کی تائید کرتے ہوئے کہا۔ “مگر ایک بات پہلے سب سن لیں، اور وہ بات یہ ہے کہ اگر اتفاق سے ہمارا سامنا اس مکھی سے ہو گیا تو سب سے پہلا کام ہمیں یہ کرنا ہو گا کہ پوری طاقت سے دوڑتے ہوئے سمندر کا رخ کریں گے۔ سمندر کے اندر پہنچ کر ہی ہم اس سے محفوظ رہ سکتے ہیں ورنہ اور کوئی طریقہ اس سے بچنے کا نہیں ہے۔”

ہم نے اپنی گردنیں ہلا کر جان کو بتایا کہ ہم ایسا ہی کریں گے۔ اس کے بعد ہم آہستہ آہستہ جزیرے کی دوسری سمت میں چلنے لگے۔ بار بار مڑ کر اِدھر اُدھر دیکھتے بھی جاتے تھے کہ کہیں کوئی خطرہ تو نہیں ہے۔ ہمارے ہاتھوں میں پستول تھے۔ دل بری طرح دھڑک رہے تھے اور ہمارے جسموں سے پسینہ پانی کی طرح بہہ رہا تھا۔ سب ننگے جسم تھے۔ پتلونیں نیکر بن چکی تھیں اور اب یہ نیکر بھی چیتھڑے بن گئے تھے۔ کوئی ہمیں اس وقت دیکھتا تو یقیناً یہی سمجھتا کہ ہم آج سے لاکھوں سال پہلے کے جنگلی انسان ہیں جو تہذیب سے بالکل نا آشنا تھے اور جنہوں نے کپڑے پہننا بھی نہ سیکھا تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ اس سفر میں میرے پاس کیمرہ نہیں تھا ورنہ آپ اس موقع کی ہُوبہُو تصویریں دیکھ سکتے تھے (اب بھی اپنے تخیل کی مدد سے میں نے ایک مصور سے خاص خاص موقعوں کی تصویریں بنوائیں ہیں) خیر تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ ہم پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے برابر آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ جس طرف اس خطرناک مکھی کے پیروں کے گڑھے جا رہے تھے ہمارا رُخ بھی اسی طرف تھا۔

کچھی ہی دیر بعد ہمیں اپنے سامنے دو اونچے پہاڑ دکھائی دیئے۔ ان پہاڑوں کے درمیان ایک راستہ تھا۔ راستہ کیا بلکہ گلی کہہ لیجئے اسے جس طرح گلی کے دونوں طرف اونچے مکان ہوتے ہیں اسی طرح یہ دو پہاڑ تھے۔ مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ دائیں طرف کے پہاڑ کی چوٹی پر ایک بہت بڑی چٹان ٹھیری ہوئی تھی۔ ایک تو یہ معلوم کرنے کا شوق کہ یہ چٹان چوٹی پر کس طرح جمی ہوئی ہے، دوسرے یہ سوچ کر کہ ممکن ہے اس پہاڑ پر چڑھ کر ہمیں اس خوف ناک مکھی کا غار نظر آ جائے، ہم نے یکایک پہاڑ کی طرف بھاگنا شروع کر دیا اور پھر چاروں اس پہاڑ پر چڑھنے لگے۔ پہاڑ کافی اونچا تھا اور ہم چاروں بڑی دقت کے بعد اس پر چڑھے دقت یوں ہوئی کہ اس پہاڑ پر بھی کاہی جمی تھی جس کی وجہ سے پھسلن تھی۔ مگر ایک لمبی رسی کو اپنی کمروں سے لپیٹ کر ہم اوپر چڑھتے ہی گئے۔ جان سب سے پہلے وہاں پہنچا اور رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ اس کے بعد ہم بھی آہستہ آہستہ اوپر پہنچ گئے۔

وہاں پہنچ کر ہم نے دور دور تک نظر دوڑائی۔ کافی فاصلے پر نیلا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ ہوا میں گرمی بڑھتی ہی جا رہی تھی اس خوفناک مکھی کے پیروں کے نشان جس سمت میں جا رہے تھے، ہم نے ادھر اٹھا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ ہم سے کافی دور۔ تقریباً چار فرلانگ کے فاصلے پر ایک بہت بڑا اور گہرا گڑھا ہے اور یہ عجیب سے نشان اسی گڑھے میں جا کر غائب ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی گڑھے میں سے بھاپ بھی اٹھ رہی تھی۔ کبھی کبھی یہ بھاپ آگ کی لپٹ میں بھی بدل جاتی تھی۔ یہ دیکھ کر جان نے ہمیں بتایا کہ دراصل وہ خطرناک مکھی اسی گڑھے میں رہتی ہے۔ صبح کے وقت وہ گڑھے سے باہر آتی ہے اور پرندوں کو اپنی ناک سے نکلنے والے شعلوں سے بھون کر کھا جاتی ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ جب تک ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لیں، اسے ختم کرنے کا طریقہ ہمارے ذہن میں نہیں آ سکتا۔ اس لئے بہتر ہے کہ ہم اپنے غار میں واپس چلیں اور اگلے دن اس مکھی کو کسی چٹان کی آڑ میں چھپ کر دیکھیں۔ اتنا کہہ کر جان نے سہارے کے لئے اپنا ہاتھ اس چٹان سے لگایا جو اس پہاڑ کی چوٹی پر ادھر ٹکی تھی۔ اچانک ایک زوردار گڑگڑاہٹ ہوئی اور وہ چٹان اس طرح ہلنے لگی جیسے ربڑ کی بنی ہوئی ہو۔ ہم حیرت سے کھڑے اسے ہلتے ہوئے دیکھتے رہے۔ کم از کم دس منٹ تک وہ اسی طرح ہلتی رہی۔ مگر پھر ہم نے زیادہ دیر وہاں کھڑے رہنا مناسب نہ سمجھا اور چٹان کو ہلتا چھوڑ کر پہاڑ سے نیچے اترنے لگے اور کچھ ہی دیر بعد ہر سمت کنکھیوں سے دیکھتے ہوئے ہم واپس اپنے غار میں آ گئے۔

راستے ہی میں ہم نے کچھ مرے ہوئے پرندے چن کر اٹھا لئے تھے اور جھاڑیوں میں سے آگ لے لی تھی۔ اس لئے غار میں پہنچنے کے بعد ہم نے پرندے بھون کر کھائے۔ اتفاق سے مجھے کچھ بھنی ہوئی مچھلیاں زمین پر پڑی ہوئی مل گئیں۔ میں نے مرے ہوئے پرندے نہیں کھائے بلکہ ان مچھلیوں کو کھا کر پیٹ کی آگ بجھائی۔ بھوک بے حد لگ رہی تھی اس لئے دو منٹ ہی میں میرے تینوں ساتھیوں نے سولہ پرندوں کا صفایا کر ڈالا۔ غار کے باہر ہی ایک گڑھے میں پینے کا پانی بھرا ہوا تھا۔ یہ پانی کسی سوت سے آ رہا تھا۔ اس کا اندازہ ہم پہلے ہی لگا چکے تھے اور ہم نے یہ پانی پیا بھی تھا۔ اس لئے مچھلیاں اور پرندے کھانے کے بعد ہم نے خوب سیر ہو کر پانی پیا۔ پانی گرم تو تھا مگر پیاس بجھ گئی تھی۔ پانی پینے کے بعد جان نے کہا۔

“اس مکھی کو ختم کرنے کا ایک نرالا اور انوکھا طریقہ مجھے سوجھ گیا ہے۔”

“کون سا طریقہ؟” سب نے ایک ساتھ پوچھا۔

“ہو سکتا ہے کہ خدا نے میرے دل میں یہ بات ڈالی ہو۔ اگر وہ طریقہ کار آمد ہو گیا تو ہم بغیر کسی محنت اور تکلیف کے اس خوف ناک مکھی کو ختم کر سکتے ہیں ہمیں صرف یہ کرنا ہے کہ آج شام کو جو پرندے اس جزیرے کا رخ کریں اور جیسا کہ ظاہر ہے کہ وہ ضرور شام کو اس طرف کاہی کھانے آئیں گے تو ہم انہیں اس جزیرے میں بسیرا نہ کرنے دیں اور کوشش کریں کہ وہ کاہی نہ کھائیں۔۔۔۔”

“مگر یہ کس طرح ممکن ہے!” جیک نے تعجب سے کہا۔ “پرندے تو ہزاروں کی تعداد میں ہیں!”

“ممکن تو ہے۔ ہمیں شام ہوتے ہیں درختوں کی لکڑیاں جمع کر کے ان میں آگ لگا دیںی چاہئے پرندے خواہ کتنی ہی تعداد میں ہوں مگر آگ دیکھ کر کوئی پرندہ بھی اس طرف کا رخ نہ کرے گا۔۔۔” جان نے جواب دیا۔

“مگر اس کا فائدہ کیا ہو گا۔؟” میں نے پوچھا۔

“یہ میں اس وقت بتاؤں گا۔ فی الحال تو یوں سمجھو کہ میں ایک جوا کھیل رہا ہوں۔ اگر جیت گیا تو واہ وا۔ ورنہ موت تو ہر حالت میں سامنے کھڑی دکھائی دے رہی ہے۔۔۔” جان نے سامنے کی طرف صاف میدان کو دیکھتے ہوئے کہا “ابھی وقت ہے، اس لئے سب سے پہلے ایک کام اور کرنا ہے آؤ میں تمہیں بتاؤں۔”

اتنا کہہ کر وہ ہمیں اس میدان میں لے گیا اور سب کو قطار میں کھڑے ہونے کو کہا۔ بعد میں خود بھی اسی قطار میں کھڑا ہو گیا۔ پھر کہنے لگا “ہمیں اس وقت دوڑ کا مقابلہ کرنا ہے۔”

“کیا مطلب۔ آپ کہیں مذاق تو نہیں کر رہے!” جیک کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

“مذاق نہیں جیک، میں سنجیدہ ہوں۔ یوں سمجھو کہ ہمارے پیچھے وہ خوفناک مکھی آ رہی ہے اور ہمیں بھاگ کر اپنی جان بچانی ہے۔ کون ہم میں سے تیز دوڑ کر آگے بھاگ جاتا ہے، یہی دیکھنا ہے۔” سچ بات تو یہ ہے کہ مجھے خود بھی یہ عجیب بات سن کر اتنی حیرت ہوئی کہ شاید کبھی نہ ہوئی ہو گی۔ کیا واقعی یہ مذاق کا موقع تھا! مگر جان کی شکل دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس معاملہ میں بالکل سنجیدہ ہے۔ ہم نے کچھ کہنا چاہا مگر اس نے اس کا موقع ہی نہ دیا۔ اور آخرکار مجبوراً ہمیں یہ دوڑ کا مقابلہ کرنا ہی پڑا۔ ایک دو تین کہہ کر ہم چاروں بڑی تیزی سے سامنے کی طرف بھاگے اور پھر بھاگتے ہی چلے گئے جان تو بےچارہ جلد ہی تھک گیا۔ اس کے بعد ملاح ہانپنے لگا۔ صرف میں اور جیک آگے بھاگتے گئے، مگر جیک میں اور مجھ میں بڑا فرق تھا۔ مانا کہ وہ بہت طاقت ور تھا، مگر میرے مقابلے میں تیز نہ بھاگ سکا اور پھرجلد ہی مجھ سے پیچھے رہ گیا۔ جان کی آواز سن کر ہم واپس آئے تو دیکھا کہ وہ بہت افسردہ بیٹھا ہوا ہے۔

“کیا بات ہے سر، کیا آپ کو میرے جیتنے کا رنج ہوا۔؟” میں نے آتے ہی پوچھا۔

“ہاں رنج ہوا ہے۔ فیروز! میں نہیں چاہتا تھا کہ تم اس دوڑ میں اول آتے مگر کیا کر سکتا ہوں، ہماری تقدیر!”

“آخر بات کیا ہے مسٹر جان، آپ معّموں میں باتیں کیوں کر رہے ہیں؟” جیک نے پوچھا۔

“بات سنانے کی نہیں۔ جب عمل کا وقت آئے گا تو تم میری دور اندیشی کے ضرور قائل ہو جاؤ گے؛ میں چاہوں تو تمہیں ابھی سب طریقہ سمجھا دوں مگر اب وقت نہیں ہے، شام ہو رہی ہے اور ہمیں جلد از جلد اس مقام پر آگ جلا کر کہیں چھپ جانا چاہئے۔ یہ تو ہم معلوم کر ہی چکے ہیں کہ مکھی صرف اسی مقام پر آتی ہے جہاں ہم کھڑے ہوئے ہیں اور جس کے آس پاس کی چٹانوں پر وہ کاہی جمی ہوئی ہے۔ اس لئے آگ ہمیں تقریباً پچاس گز کے قطر میں جلانی پڑے گی۔”

“مگر اس طرح تو ہمارا وہ غار بھی لپیٹ میں آ جائے گا جہاں ہم رات بسر کریں گے۔” جیک بولا۔

“یقیناً ایسا ہو گا۔” جان نے جواب دیا “مگر ہم آج رات وہاں سوئیں گے ہی نہیں بلکہ اس پہاڑ کی چوٹی پر آرام کریں گے، جس کے اوپر وہ ہلتی ہوئی چٹان رکھی ہے۔ ہم آج غار میں پناہ نہ لیں ہمارے حق میں یہی بہتر ہے۔ اگر خدا کو منظور ہوا تو کل دن میں ہم اس خوف ناک مکھی سے نجات حاصل کر لیں گے۔۔”

“یہ تو سب سے اچھی بات ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو پھر ہم اس جزیرے سے جلد سے جلد نکل جائیں گے۔” جیک نے کہا۔

“اس غلط فہمی میں مت رہو جیک۔” جان نے کہا “ہمیں پورے تیرہ دن یہاں اور گزارنے پڑیں گے۔ جزیرے کے ڈوبنے کا انتظار ہر حال میں کرنا پڑے گا۔ کیوں کہ اس کے ڈوبنے کے بعد ہی ہمارا جہاز واپس پانی کی سطح سے لگ سکتا ہے۔”

قدم قدم پر مشکلات کھڑی تھیں۔ آفتوں اور مصیبتوں نے ہمیں ہر طرف سے گھیر لیا تھا۔ خدا ہی بہتر جانتا تھا کہ ہمارا کیا حشر ہونے والا تھا۔ عقل کام نہ کرتی تھی اور نہ جانے کیوں ایک گبھراہٹ سی ہر شخص پر حاوی تھی، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو چکی تھی جو ایک کہہ دیتا تھا وہ سب مان لیتے۔ یہی وجہ تھی کہ ہم نے جان کا کہنا مان لیا تھا! مختصر یہ کہ جلدی جلدی ہم نے مل کر لکڑیاں کاٹیں۔ گھاس پھوس اکٹھا کیا۔ ہر چیز گیلی تھی اس لئے بڑی مصیبتوں کے بعد ہم نے آگ جلائی اور پھر اس آگ کو دور دور پھیلا دیا تاکہ شام کو ہر سمت دھواں ہی دھواں بھر جائے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہماری محنت اکارت نہ گئی۔ آگ جل گئی اور لپٹیں اٹھنے لگیں۔ ادھر سورج نے بھی سمندر میں اپنا مونہہ چھپانا شروع کر دیا۔ یہ دیکھ کر جان نے کہا۔

“اپنا سامان اٹھا کر اب اس پہاڑ کی طرف چلو۔”

جان کا حکم مان کر ہم نے اپنا سامان اٹھایا اور پھر احتیاط سے ہر طرف دیکھتے بھالتے اس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے، جہاں وہ دوسرا ہلتا ہوا چھوٹا پہاڑ ٹکا ہوا تھا۔ یہاں اتنی جگہ ضرور تھی کہ ہم دیوزاد اور خوف ناک مکھی کی نظر سے چھپ کر آرام کر سکتے تھے۔ ابھی ہم نے وہاں اپنا سامان رکھا ہی تھا کہ جان نے مجھ سے کہا کہ میں اس مقام کو دیکھوں جہاں ہماری لگائی ہوئی آگ بھڑک رہی ہے۔

پرندے اب آہستہ آہستہ ہر سمت سے اس جزیرے میں کاہی کھانے کے لئے آ رہے تھے۔ میرا خیال تو یہ ہے کہ شاید سورج ڈوبنے کے بعد ہی اس کاہی کی مہک ہوا کے ذریعے ہر طرف پھیلتی ہو گی اسی لئے پرندے شام کو آتے تھے! جزیرے کی طرف آتے ہی وہ آگ دیکھ کر اوپر پھڑپھڑاتے رہے۔ مگر نیچے اترنے کی ہمت کسی میں نہ ہوئی۔ سورج ڈوبتا جا رہا تھا اور پرندے برابر آتے جا رہے تھے۔ مگر ان میں سے ایک پرندہ بھی نیچے نہیں اترتا تھا۔ آخر کار رات ہو گئی۔ پرندے واپس لوٹنے لگے۔ مگر ان کی بے قراری بڑھتی ہی گئی۔ واپس جاتے ہوئے انہوں نے اتنا شور کیا کہ پورا جزیرہ گونج گیا۔ کچھ دیر بعد جان نے دوربین لگا کر دیکھا اور ہمیں بتایا کہ اب آسمان پر ایک بھی پرندہ نہیں ہے!

“اب کیا ہو گا۔؟” میں نے جان سے دریافت کیا۔

“اب یہ ہو گا فیروز کہ۔” جان نے سب کو باری باری دیکھتے ہوئے کہا “کہ رات ہم اسی چوٹی پر بسر کریں گے، مگر صبح کے چار بجے جاگ جائیں گے اور تب ہم اس خوف ناک مکھی کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے کیوں کہ اپنا شکار کھانے کے لئے وہ ضرور اپنے گھر میں سے نکل کر ان پہاڑوں کے درمیان سے ہوتی ہوئی اس مقام تک جائے گی جہاں آگ جل رہی ہے۔ شکار نہ پا کر وہ بہت بے چین ہو گی اور پورے جزیرے میں ماری ماری پھرے گی۔ آخر تنگ آ کر وہ واپس اپنے غار میں جانے کی کوشش کرے گی اور تب ہی ہم اسے مار ڈالیں گے۔”

“مگر کس طرح مار ڈالیں گے؟” جیک نے پوچھا۔

“پہلے میں مکھی دیکھ لوں۔ مارنے کا طریقہ پھر بتاؤں گا۔ وقت سے پہلے میں اس لئے کچھ کہنا نہیں چاہتا کہ ممکن ہے میرا سوچا ہوا غلط ثابت ہو جائے۔”

رات ہم نے اسی چوٹی پر بسر کی اور پھر شاید صبح کے چار بجے ہی کا وقت تھا کہ جان نے ہم سب کو جگا دیا اور اشارے سے کہا ہم بالکل چپ رہیں اور اس غار کو دیکھیں جہاں مکھی کا گھر ہے۔ ہم آنکھیں ملتے ہوئے اس مقام کی طرف دیکھنے لگے جہاں مکھی کا گھر تھا اور جہاں اب ہلکی سی روشنی ہو رہی تھی۔ آہستہ آہستہ روشنی بڑھنے لگی۔ اور پھر بڑھتے بڑھتے اتنی تیز ہو گئی کہ ہمیں چندھیا کر اس طرف دیکھنا پڑا۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے اچانک ایک تیز شعلہ آسمان کی طرف لپکا۔ اور پھر وہی ریل کے انجن جیسی تیز سیٹی سنائی دی۔ بڑی تیز گڑگڑاہٹ کی خوف ناک آواز آنے لگی۔ غار میں سے بار بار وہی شعلہ سا باہر لپکنے لگا۔ ہمارے دلوں کا اس وقت بس خدا ہی حافظ تھا۔ ہمارے اس سفر کا سب سے بڑا خطرہ اب ہمارے سامنے تھا۔ جو کچھ بھی ہماری قسمت کا لکھا تھا، بس اب چند سیکنڈ کے اندر ہی اندر ہو جانے والا تھا!

شعلہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد غار سے باہر لپکتا تھا۔ ساتھ ہی اوپر کا حصہ روشن ہوتا جا رہا تھا۔ ایسے لگتا تھا جیسے کوئی آتش فشاں پھٹنے والا ہے۔ ہم آنکھیں پھاڑے حیرت سے اس مقام کو دیکھے جا رہے تھے اور پھر ہمارے دیکھتے دیکھتے ہاتھی کے پیروں سے بھی موٹے دو پیر اس غار سے باہر آئے

جاری ہے…