by Abdul Muneeb | Apr 18, 2024 | ڈراؤنی کہانیاں, ناولز
قسط:21
سراج انور
پچھلی قسط کا خلاصہ :
جب فیروز اور دیگر لوگ اپنے جہاز پر سوار ہو گئے اور جہاز نے آگے بڑھنا شروع کر دیا تب ان لوگوں کو معلوم ہوا کہ جسے وہ جکنی سطح کا جزیرہ سمجھ رہے تھے وہ دراصل ایک بہت بڑی مچھلی تھی جس کی کمر پر سواور ہو کر فیروز نے سمندر میں کافی دیر تک سفر کیا۔ کئی راتیں اسی طرح سمندر کے سفر میں گزر گئیں حتیٰ کہ ان کے پاس کھانے پینے کا سامان بالکل ختم ہو گیا۔ جب ان سب کو محسوس ہوا کہ اب وہ مرنے کے قریب ہیں، تبھی انہیں دور ایک کثیف دھند نظر آئی اور جیسے جیسے وہ قریب پہنچنے لگے ، انہیں سمندر کی سطح پر مری ہوئی مچھلیاں نظر آنے لگیں۔ آخر کر وہ سب دھند سے گزر کر ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں سے نیلا آسمان انہیں نظر آنے لگا ۔۔۔
۔۔۔ اب آپ آگے پڑھئے ۔۔۔
خوف کے باعث اس نے اپنا مونہہ چھپا لیا۔ میں کیا بتاؤں کہ کیسا برا وقت تھا اچانک مجھے پیچھے سے دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ یہ جان اور جیک تھے جو ہماری چیخیں سن کر جاگ گئے تھے اور ہماری طرف آ رہے تھے۔ قریب آتے ہی انہوں نے ایک ساتھ گھبرا کر پوچھا۔
“کیا ہوا۔ کیا بات ہے؟ یہ کیسی چیخیں تھیں؟”
اور پھر انہیں بھی وہ حیرت ناک حقیقت معلوم ہو گئی جس کی وجہ سے میں خوف زدہ تھا۔ دھند چونکہ نظر نہ آتی تھی اور آسمان صاف تھا۔ اس لئے انہوں نے بھی جہاز کے کٹہرے سے نیچے جھک کر دیکھا اور پھر فورًا ہی گھبرا کر پیچھے ہٹ گئے۔ جان میں یہی ایک خوبی تھی کہ جب وہ خطرے کو سامنے دیکھ لیتا تھا تو پریشان بالکل نہ ہوتا تھا۔ ہاں خطرے سے پہلے اس کی پریشانی کی کچھ انتہا نہ ہوتی تھی۔!
“اب کیا ہو گا؟” جیک نے مری ہوئی آواز میں کہا۔
جان نے کچھ جواب نہ دیا۔ بس خاموشی سے کچھ سوچنے لگا۔ دیکھئے میں بھی کتنا بے وقوف ہوں کہ اب تک آپ کو وہ بات ہی نہیں بتائی جس کے باعث ہم چاروں گبھرا گئے تھے۔ مگر اسی سے آپ میری گبھراہٹ اور بےچینی کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ کئی سال کے بعد جب اپنی یہ عجیب داستان لکھتے ہوئے میں اتنا بوکھلا گیا ہوں تو اس وقت میرا کیا حشر ہوا ہو گا؟
بات دراصل بڑی حیرت انگیز ہے اور شاید کوئی اس کا یقین نہ کرے گا۔ ہمارا جہاز اس وقت ایک کافی اونچے پہاڑ کی چوٹی پر ٹکا ہوا تھا اور چوٹی پر قدرتی طور پر رکھی ہوئی دو بڑی اور مضبوط چٹانوں نے اسے سہارا دے رکھا تھا، اگر وہ چٹانیں نہ ہوتیں تو وہ کبھی کا تقریبًا پانچ سو فٹ کی گہرائی میں جا گرا ہوتا۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھئے کہ اس وقت ہم جزیرے کی سطح سے اندازاً ۵۰۰ فٹ بلند ایک پہاڑ کی چوٹی پر اپنے جہاز سمیت کھڑے تھے۔ ہم سے بہت دور، اور بہت نیچے نیلا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ نہ دھند تھی اور نہ کچھ اور۔ دور دور تک زمین ہی زمین تھی۔ درخت تھے، چٹانیں تھیں، نوکیلے پتھر تھے، مگر سب عجیب و غریب تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے یہ چیزیں قدرتی نہیں ہیں بلکہ کسی نے آرام سے بیٹھ کر بنائی ہیں۔ درختوں، پتھروں اور چٹانوں پر کاہی جمی ہوئی تھی اور زمیں پر ہر طرف کیچڑ ہی کیچڑ دکھائی دیتی تھی۔ یہ تھا وہ عجیب و غریب جزیرہ! اور یہ تھی وہ نرالی زمین جس کی تلاش میں ہم سرگرداں تھے۔
“آخر یہ کس طرح ممکن ہے؟” جیک نے ہلکی آواز میں کہا۔ میں نے اس کے لہجے کی کپکپاہٹ صاف طور پر محسوس کی۔
“ممکن تو ہے۔ یعنی جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں حقیقت ہی ہے۔”
جان نے ایک لمبا سانس لینے کے بعد کہا “اور میں تمہیں بتاتا ہوں کہ یہ سب کیسے ہوا۔ دراصل بات یہ ہے کہ ہمیں حساب لگانے میں غلطی ہو گئی اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ جزیرہ کل رات ہی کو سمندر میں سے نمودار ہو جائے گا تو اس کی نوبت ہی نہ آتی۔ دھند کے باعث ہمیں چاند بھی نظر نہ آیا تاکہ اس کو دیکھ کر ہی کچھ پتہ چلتا۔ جب ہم رات کو آرام کی نیند سو گئے تو جزیرہ بڑی آہستگی سے ابھرنا شروع ہوا اور ہمیں اس کا علم ہی نہ ہو سکا۔ بدقسمتی سے ہمارا جہاز اس جزیرے کے ایک اونچے پہاڑ کی چوٹی سے ٹکرایا تھا۔ پہلے ہم سمجھے تھے کہ وہ کوئی چٹان ہے، لیکن اب پتہ چلتا ہے کہ اس پہاڑ کی چوٹی تھی، جب جزیرہ ابھرا تو پہاڑ بھی اونچا ہوا، پہاڑ کے ساتھ ہی ہم بھی بلند ہوتے گئے اور اب اس حالت میں ہیں جو ہمارے سامنے ہے۔ یعنی جزیرے کی زمین سے تقریباً پانچ سو فٹ بلند۔”
“میں بھی یہی سمجھا تھا۔ آپ نے بالکل ٹھیک بات نوٹ کی۔” جیک نے آہستہ سے کہا۔ “مگر اب کیا ہو؟”
“اب سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اترنے کو تو ہم اس پہاڑ سے نیچے اتر سکتے ہیں۔ مگر جہاز کا کیا ہو گا۔؟ اسے کس طرح اتارا جائے گا۔ یہ بڑی ٹیڑھی کھیر ہے۔ اور اس کے لئے سب کو ہی سوچنا چاہئے۔” جان نے جواب دیا۔ بڑی دیر تک ہم خاموشی سے اس مسئلے پر غور کرتے رہے کہ جہاز کو اتنی بلندی سے کس طرح زمین پر اتارا جائے۔ جب کوئی حل سجھائی نہ دیا تو جان نے کہا۔
“جہاز کو تو یہیں چھوڑو اور خود نیچے اترنے کی کوشش کرو۔ ہمیں ابھی تک یہ بالکل معلوم نہیں کہ اس جزیرے میں آبادی بھی ہے یا نہیں! لیکن پھر بھی یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اپنی حفاظت کے ساتھ ساتھ ہم جہاز کی بھی حفاظت کریں کیوں کہ یہی ہماری واپسی کا سب سے بڑا سہارا ہے۔ اس کی حفاظت اس طرح ہو سکتی ہے کہ ہم اسے دوسروں کی نظر سے چھپائیں۔ اس مقصد کے لئے میں نے ایک طریقہ سوچ لیا ہے۔ پہاڑ کی اس چوٹی پر اگے ہوئے درختوں کی بڑی بڑی ٹہنیوں کو کاٹ کر، جہاز ان سے ڈھک دیں تاکہ وہ کسی کو نظر نہ آئے۔”
جان کی یہ بات ہمیں بے حد پسند آئی۔ جلدی جلدی ہم نے درختوں کی ٹہنیاں کاٹیں اور پھر جہاز کو ان ٹہنیوں کے پتوں سے بالکل ایسے ڈھک دیا کہ دور سے وہ کسی کو نظر نہیں آ سکتا تھا۔ اس کے بعد ضروری سامان، ہتھیار، اور دوسری چیزیں لے کر ہم چاروں موٹے موٹے رسوں کی مدد سے نیچے اترنے لگے۔ پہاڑ پر بہت زیادہ کاہی جمی ہوئی تھی۔ قدم بار بار پھسل رہے تھی، اگر ہم چاروں کی کمر سے رسے نہ بندھے ہوتے تو ہم میں سے کوئی نہ کوئی یقیناً اتنی بلندی سے ضرور نیچے گر پڑتا۔ ایک ایک قدم جما جما کر رکھتے ہوئے آخرکار ہم بڑی مشکل سے نیچے اتر آئے۔ زمیں پر قدم رکھتے ہی احساس ہوا کہ زمین پر دلدل سی ہے۔ ساتھ ہی اس دلدل پر عجیب قسم کی گھاس اگی ہوئی تھی۔ پورے جزیرے میں صرف ایک ہی رنگ نظر آتا تھا۔ سبز، ہر چیز سبز رنگ کی تھی اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ہر جگہ کاہی جمی ہوئی تھی! جزیرے میں صبح کے وقت بھی بہت گرمی تھی۔ زمین سے لگاتار ہلکی سی بھاپ اٹھ رہی تھی۔ جس جگہ بھی قدم رکھتے معلوم ہوتا کہ ہلکے گرم توے پر پاؤں پڑ گیا ہے ایسا لگتا تھا جیسے اس جزیرے کے نیچے آگ دہک رہی ہے۔ ہر سمت ایک ہیبت سی چھائی ہوئی نظر آتی تھی۔ نہ تو کوئی جانور دکھائی دیتا تھا اور نہ کوئی پرندہ۔ زندگی کے ذرا سے بھی آثار نہ تھے۔ یوں لگتا تھا کہ یہ جزیرہ درحقیقت کسی دوسری دنیا سے آیا ہے۔ ہماری دنیا کا نہیں ہے۔ کیوں کہ پہاڑ اور چٹانیں عجیب طرح کی تھیں اور درخت بھی ہماری دنیا جیسے نہ تھے۔ بس یوں سمجھئے کہ جیسے ہم خوابوں کے جزیرے میں آ گئے تھے۔
سب سے حیرت انگیز چیز جو ہمیں کچھ دیر بعد نظر آئی وہ یہ تھی کہ دور دور سے سمندری پرندے اس جزیرے کی طرف آتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ پہلے تو میں سمجھا کہ شاید میری نظر کا دھوکا ہے۔ یہ پرندے یوں ہی اس طرف آ رہے ہیں اور شاید جزیرے کے اوپر سے اڑ کر دوسری طرف نکل جائیں گے۔ مگر جب میں نے چاروں سمت گھوم کر دیکھا تو حیرت کے مارے گنگ ہو کر رہ گیا۔ چھوٹے بڑے ہر قسم کے پرندے اس جزیرے ہی کی طرف تیزی سے آ رہے تھے۔ جب میں نے جان کو یہ بات بتائی تو اسے بھی بہت تعجب ہوا۔ خدا جانے کیا آفت آنے والی تھی! اس لئے ہم احتیاطً جلدی سے چند جھاڑیوں کے پیچھے چھپ گئے۔ پرندے آہستہ آہستہ قریب آتے جا رہے تھے۔ تعداد میں وہ اتنے زیادہ تھے کہ جب وہ جزیرے کے اوپر آ گئے تو سورج کی روشنی مدھم پڑ گئی۔ جزیرے کے اوپر آتے ہیں انہوں نے نیچے اترنا شروع کیا اور پھر تیزی سے چٹانوں پر لگی ہوئی وہ کاہی کھانے لگے، جس کی عجیب سی بو ہمارے دماغ تک کو سڑائے دے رہی تھی۔ ہمیں یہ دیکھ کر بہت تعجب ہوا، مگر اس سے بھی زیادہ تعجب اس وقت ہوا جب ہم نے دیکھا کہ پرندے وہ کاہی کھا کر یکایک اپنا توازن کھو بیٹھے۔ وہ اب اس طرح اڑ رہے تھے جیسے کوئی زخمی پرندہ اڑتا ہے، ڈانواں ڈول! یعنی کبھی ادھر کبھی اُدھر۔ کئی تو جلدی سے دلدلی زمین پر جا کر بیٹھ گئے اور ایک بڑی تعداد بڑی مشکل سے درختوں کی ٹہنیوں پر اڑ کر بیٹھ گئی۔ بیٹھنے کے بعد بھی وہ ٹہنیوں پر اس طرح ڈول رہے تھے جیسے کہ انہوں نے افیون کھا لی ہو اور ان پر نشہ طاری ہو گیا ہو! میں نے یہ بھی دیکھا کہ ان میں سے بیش تر تو ہلنے جلنے سے اس حد تک معذور ہو گئے تھے کہ اگر کوئی دوسرا پرندہ کسی کے برابر میں آ کر بیٹھنے کی کوشش کرتا تو پہلا اسے جگہ ہی نہ دے دیتا تھا اور نتیجہ کے طور پر آنے والا پرندہ لہراتا ہوا درخت سے نیچے جا گرتا اور دوبارہ اٹھنے کی کوشش نہ کرتا!
یہ حالت دیکھ کر جان نے کہا “خدا جانے یہ کیا ماجرا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ پرندوں کو کیا ہو گیا ہے؟”
“٘میرا خیال ہے ہم کسی طلسمی ہوش ربا میں پھنس گئے ہیں!” میں نے آہستہ سے کہا۔
“شاید اس کاہی میں ہی یہ خاصیت معلوم ہوتی ہے کہ وہ پرندوں کو بے بس کر دیتی ہے۔” جیک نے اپنی رائے ظاہر کی۔
“سوال یہ ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے؟” جان نے کہا “کیا یہ سب کچھ ہماری وجہ سے ہو رہا ہے کہ ہم ان پرندوں کو اٹھا کر لے آئیں اور بھون کر کھا لیں یا پھر یہ کسی خاص طاقت کا کرشمہ ہے!”
“خدا ہی بہتر جانتا ہے۔” میں نے چاروں طرف نظر دوڑاتے ہوئے جواب دیا کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ میرا دماغ بھی اس سوال کا جواب دینے سے قاصر تھا۔۔۔ پرندے برابر اڑتے ہوئے آ رہے تھے اور کاہی کھا کھا کر مفلوج ہو رہے تھی۔ ہم حیرت سے چاروں طرف دیکھ رہے تھے کہ شاید اب کچھ ہو۔ مگر کچھ نہیں، پرندوں کے شور کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ دل کہہ رہا تھا کہ کوئی بہت ہی خوف ناک واقعہ پیش آنے والا ہے، مگر ہوتا کچھ نہ تھا۔ ایسی حالت میں انسان کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ جب طوفان کے آثار ہوتے ہیں تو جی چاہتا ہے کہ طوفان آ کر جلد سے جلد گزر جائے، مگر ایسا نہیں ہو رہا تھا۔ ہم لوگ ایک عجیب کشمکش میں گرفتار تھے اور چاہتے تھے کہ جو کچھ ہوتا ہے جلد سے جلد ہو جائے۔ یہی سوچتے سوچتے کہ شاید اب کوئی بات ہو شاید کوئی نئی بات معلوم ہو۔ دوپہر ہو گئی، دوپہر سے شام اور شام سے پھر رات! رات ہوتے ہی ہمیں اپنے سانس سینے میں گھٹتے ہوئے محسوس ہوئے۔ عجیب جگہ اندھیرا ہیبت ناک خاموشی، درختوں کی ٹہنیوں پر اونگھتے ہوئے پرندے، دور سے آنے والی سمندر کی خوف ناک سائیں سائیں۔۔۔! میں کیا بتاؤں کہ اس وقت ہماری کیا حالت تھی؟ خوف اتنا تھا کہ اگر پتہ بھی کھڑکتا تو ہم چوکنے ہو جاتے۔ اب جب وہ وقت یاد کرتا ہوں تو ہنسی آ جاتی ہے کیوں کہ ایک بار جب میں نے اندھیرے میں ملاح کا شانہ پکڑ کر کچھ کہنا چاہا تو وہ ایک ڈراؤنی چیخ مار کر اچھل پڑا۔ اس کی چیخ بار بار پہاڑیوں اور چٹانوں میں گونجتی رہی اور ہم احمقوں کی طرح باری باری جس طرف سے آواز آتی اس طرف دیکھتے رہے۔ مزے کی بات یہ کہ جزیرے میں اب صرف پرندوں کے پر پھڑپھڑانے کا ہلکا سا شور تھا اور ویسے ہر طرف ہو کا عالم تھا۔۔۔!
جھاڑیوں کے پیچھے آخر، ہم کب تک چھپے رہتے۔ لہذا اس جگہ سے نکل کر چھپتے چھپاتے آہستہ آہستہ ایک بہت بڑی چٹان کے نیچے جا پہنچے۔ جان نے ٹارچ جلا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ چٹان کے نیچے ایک کافی بڑا اور لمبا غار ہے۔ غار کے اندر روشنی ڈالنے سے پتہ چلا کہ وہ اتنا بڑا ہے کہ ہم چاروں اس میں آرام سے رات گزار سکتے ہیں۔ جیک سب سے پہلے اس کے اندر داخل ہوا اور پھر ہم تینوں بھی ایک ایک کر کے اندر آ گئے۔ جان نے روشنی ہر طرف ڈالنے کے بعد اطمینان کر لیا اور پھر بولا۔
“رات بسر کرنے کے لئے یہ جگہ بہت اچھی ہے۔ کیوں کہ یہاں ہم ہر طرح کے خطرے سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔”
“مگر غار کا یہ مونہہ تو کھلا ہی رہے گا!” جیک نے جلدی سے کہا۔
“غار کے برابر ہی باہر ایک بہت بڑا پتھر پڑا ہوا ہے۔ اسے غار کے مونہہ پر لگا دو۔ ملاح سے کہو کہ وہ اس کام میں تمہاری مدد کرے۔” جان نے جواب دیا اور پھر جیک اور ملاح نے مل کر فوراً یہ کام کر دیا۔
میں خاموشی سے غار کا مونہہ پتھر سے بند ہوتے دیکھتا رہا۔ لیکن اچانک مجھے ایک بات سوجھی۔ اور میں نے جان سے کہا۔
“مگر سب سے بڑے دو خطرے تو ابھی اور بھی باقی ہیں۔ ان سے بچنے کی بھی تو ترکیب سوچئے۔ یعنی پہلی تو وہ خوف ناک مکھی، چلئے مان لیا کہ اس سے بچنے کے لئے ہم غار میں چھپ گئے ہیں اور غار کے مونہہ پر پتھر بھی رکھ دیا ہے مگر یہ پتھر ہمیں نقصان بھی تو پہنچا سکتا ہے۔ ہمیں جزیرہ کی زمین تو اب نظر آتی ہی نہیں۔ باہر کا حصہ سب چھپ گیا۔ لہذا فرض کر لیجئے کہ راتوں رات اگر یہ جزیرہ سمندر میں غرق ہو گیا تو پھر۔۔۔ پھر ہم کیا کریں گے۔؟”
“اتنا خطرہ تو ہمیں مول لینا ہی پڑے گا فیروز!” جان نے کہنا شروع کیا، “اول تو جزیرہ رات کو غرق ہو گا نہیں اور فرض کر لیا جائے کہ ہو بھی جاتا ہے تو پھر ہمارا سب سے پہلا کام یہ ہو گا کہ ہم پتھر ہٹا کر تیرتے ہوئے اس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے کی کوشش کریں جس پر ہمارا جہاز ٹکا ہوا ہے۔”
بات بالکل ٹھیک تھی۔ واقعی اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ بھی نہیں تھا۔ زمین صاف کرنے کے بعد ہم اسی حالت میں ننگے بدن لیٹ گئے زمین گیلی تھی مگر ہم لوگوں نے اتنی تکلیفیں اٹھائی تھیں کہ اب کوئی سی بھی تکلیف نظر میں نہ جچتی تھی۔ نیند بری طرح آ رہی تھی۔ اس لئے وہ گیلی زمین بھی ہمیں اس وقت مخمل کا فرش معلوم ہوئی۔ لیٹتے ہی فوراً سب کی آنکھ لگ گئی۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ ہم کتنی دیر سوئے؟ میں اپنے بارے میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ مشکل سے دو گھنٹے ہی سویا ہوں گا کہ اچانک ایک پراسرار سرسراہٹ سن کر میری آنکھ کھل گئی۔ گھبرا کر میں نے ادھر ادھر دیکھا۔
حالاں کہ غار میں گھپ اندھیرا تھا۔ مگر اس اندھیرے میں بھی مجھے غار سے باہر ایک تیز روشنی نظر آئی۔ روشنی کبھی تیز ہو جاتی اور کبھی آہستہ آہستہ ہلکی ہوتے ہوتے ختم ہو جاتی۔ پھر تیز ہوتی اور پھر ہلکی۔ اس کے ساتھ ہی ایک عجیب آواز۔ ایسی آواز جسے میں الفاظ میں کسی بھی صورت سے بیان نہیں کر سکتا، مجھے سنائی دے رہی تھی۔ یوں سمجھئے کہ مٹی کے تیل سے جلنے والے اسٹو میں سے جس قسم کا سراٹا نکلتا ہے۔ بس ہو بہو ویسی ہی آواز تھی ساتھ ہی مجھے یوں محسوس ہوا جیسے غار سے باہر طوفان آیا ہوا ہے۔ درختوں کے پتوں کے آپس میں ٹکرانے سے جو شور پیدا ہوتا ہے، اسی قسم کا تیز شور سنائی دے رہا تھا اور اس کے علاوہ کسی چیز کے گھسٹ کر چلنے کی آواز بھی آ رہی تھی۔ دھڑکتے دل کو قابو میں کئے اور سانس روکے ہوئے میں وہ آوازیں سن رہا تھا۔ اتنی ہمت بھی نہ تھی کہ جان یا جیک میں سے کسی کو جگا لوں۔ خوف اتنا تھا کہ شاید ہی کبھی زندگی میں دل میں اتنا خوف پیدا ہوا ہو۔۔۔! سہمی ہوئی نظروں سے بس میں اسی سمت دیکھے جا رہا تھا جہاں وہ روشنی جل اور بجھ رہی تھی۔ بڑی دیر تک میں اسی طرح لرزتا اور کانپتا رہا اور پھر اچانک ایک تیز سیٹی مجھے سنائی دی۔ بڑی تیز اور ہیبت ناک! بالکل ایسی جیسی کہ آج کل ہماری ریلوں کے انجن کی سیٹی ہوتی ہے۔ اس آواز کو سنتے ہی میں اچھل پڑا اور میں نے جلدی سے جان کے سرہانے سے ٹارچ اٹھا کر جلا لی۔ اچانک وہی آواز پھر آئی۔ اب کے وہ اتنی تیز تھی کہ جان بھی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اور مجھے جاگتے ہوئے دیکھ کر پوچھنے لگا۔
“کیوں فیروز کیا بات ہے کیوں جاگ رہے ہو۔ یہ آواز کیسی تھی؟”
آواز پھر آئی۔ مگر اس بار وہ کافی دور سنائی دیتی تھی۔ جان کی آواز سن کر جیک اور ملاح بھی جاگ گئے تھے اور پھٹی پھٹی نظروں سے ہم دونوں کو دیکھ رہے تھے۔ میرے قلم میں طاقت نہیں کہ اپنی اس وقت کی حالت کو ٹھیک طرح لکھ سکوں۔ بلاوجہ میں اپنا ڈر ظاہر کر کے آپ سب کو جو میری آپ بیتی پڑھ رہے ہیں، خوف زدہ نہیں کرنا چاہتا۔ یوں سمجھئے کہ ہم چاروں دم سادھے خاموش بیٹھے رہے حتی کہ پو پھٹنے لگی اور اب وہ عجیب سی آوازیں وہ سراٹا اور شور سب ختم ہو گیا۔ سب طرف ایک سکون سا چھایا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ جان نے غار کے دروازے کے پاس جا کر ایک جھری میں سے باہر جھانکا اور جب اسے اطمینان ہو گیا کہ باہر کوئی خطرہ نہیں ہے تو ہم سے کہا کہ پتھر ہٹا کر اب ہمیں اس غار سے باہر نکلنا چاہئے۔
پتھر ہٹایا گیا اور پھر ہم دبے پاؤں باہر آئے۔ سورج سمندر کے اندر سے نکل رہا تھا مگر ہوا میں تپش ابھی سے تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ کہیں قریب ہی کوئی بھٹی سلگ رہی ہے۔ اوپر نیچے ہر طرف دیکھتے اور کسی انجانے خطرے کی بو سونگھتے ہوئے ہم غار سے کچھ دور آگے بڑھ گئے اور پھر ہم نے وہ چیز دیکھی جس سے ہماری عقلیں دنگ ہو گئیں۔ کسی بھی درخت کی ٹہنی پر یا زمین پر اب کوئی سا بھی پرندہ نظر نہ آتا تھا۔ اگر آتا بھی تو جلا ہوا۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی نے آگ پر بھونا ہو! اس کے علاوہ جن ٹہنیوں پر پرندے بیٹھے ہوئے تھے وہ بھی اب بالکل کوئلہ بن گئی تھیں۔ آس پاس کی گھاس اور جھاڑیاں سب کی سب جلی ہوئی تھیں اور حالت یہ تھی کہ ابھی تک ان میں سے دھواں نکل رہا تھا۔ جیسے ہی میری نظر نیچے زمین پر پڑی، خوف کی وجہ سے ایک سنسنی سی دوڑ گئی۔ زمین پر دس گز کی دوری پر دو بڑے بڑے سے گڑھے نظر آ رہے تھے۔ قریب جا کر دیکھنے سے معلوم ہوا کہ وہ گڑھے کم از کم تین فٹ گہرے ہیں۔ میری عقل تو یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ آخر راتوں رات یہ گڑھے زمین میں کس طرح پیدا ہو گئے؟ شاخیں کس طرح جل گئیں اور پرندے غائب ہو گئے۔ میں جان سے اس کا سبب پوچھنے ہی والا تھا کہ اس نے خود کہنا شروع کر دیا
جاری ہے….
by Abdul Muneeb | Apr 18, 2024 | ڈراؤنی کہانیاں, ناولز
قسط – 20
سراج انور
پچھلی قسط کا خلاصہ :
فیروز ایک مچھلی کو پکڑنے کے چکر میں سمندر میں گر گیا ، چونکہ مچھلی کے کانٹے والی ڈور اس کی کمر سے بندھی ہوئی تھی لہذا مچھلی کی تیز رفتاری میں وہ بھی سمندر کے سینے پر بہتا چلا گیا اور جلد ہی بادبانی جہاز اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ کچھ وقفے کے بعد مچھلی کی قوت آہستہ آہستہ ختم ہو گئی اور فیروز نے رسی کو چاقو سے کاٹ کر خود کو آزاد کروا لیا۔
سمندر میں مسلسل تیرتے تیرتے جب فیروز کے بازو شل ہو گئے اور وہ ڈوبنے کے قریب ہی تھا کہ اچانک اس کا جسم کسی سخت چیز سے ٹکرایا۔ اپنی بند ہوتی ہوئی آنکھوں کو زور لگا کر کھولا اور غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ کسی جزیرے کے کنارے سے ٹکرا گیا ہے۔ مگر جزیرے کی زمین بے حد چکنی تھی اور اس زمین پر نہ کوئی درخت تھا اور نہ چٹانیں اور نہ ہی کہیں مٹی نظر آتی تھی۔ کچھ دیر بعد بہت دور کے فاصلے پر فیروز کو کسی جہاز کے مستول نظر آنے لگے۔
وہ انہی کا جہاز تھا۔ قریب پہنچ کر جہاز نے لنگر ڈالا اور ملاح نے حفاظتی کشتی سمندر میں اتاری اور پھر اس کشتی میں جان اور جیک دونوں سوار ہو کر فیروز کے پاس آ گئے۔ جان نے فیروز کو گلے سے لگا لیا اور دونوں رونے لگے۔
پانی کی امید میں ملاح نے جان کے اشارے پر زمین کھودنے کے لئے کدال زمین میں ماری مگر پھر اچانک وہ سب گھبرا کر پیچھے ہٹ گئے۔ زمین میں سے ایک فوارہ ابل پڑا مگر پانی کا نہیں، بلکہ گاڑھے گاڑھے خون کا فوارہ!
۔۔۔ اب آپ آگے پڑھئے ۔۔۔
مگر اتنا سمجھ ضرور آ گیا تھا کہ خطرہ ہے اس لئے جلدی جلدی ہم لوگ کشتی میں بیٹھے اور دو دو آدمیوں نے مل کر ایک ساتھ چپو چلائے تب کہیں تین منٹ کے اندر اندر جہاز تک پہنچے۔ رسی کی سیڑھی کے ذریعے جوں توں کر کے ہم اوپر چڑھے اور پھر کشتی کو اوپر کھینچ لینے کے بعد ہم نے اس ہلتے ہوئے جزیرے کو دیکھا جو اب اور بھی تیزی سے ہل رہا تھا اور اس کی زمین سے خون کا وہ فوارہ لگاتار بلند ہوتا جا رہا تھا۔ خون کا فوارہ جتنا اونچا ہو رہا تھا، جزیرہ اتنی ہی تیزی کے ساتھ ہل رہا تھا۔ ہم دم بخود کھڑے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ ملاح بھی بالکل گم صم تھا۔ اچانک اسے ہوش آیا اور اس نے جلدی سے بادبان کھول دئے۔ جہاز آہستہ آہستہ اس ہلتے ہوئے جزیرے سے دور ہونے لگا۔ کچھ ہی دیر بعد جزیرہ بری طرح ہلنے لگا۔ اور ہمارے سامنے وہ پہلی بار سمندر میں سے اوپر ابھرنے لگا چند منٹ میں وہ اتنا اونچا ہو گیا کہ ایک چھوٹی سی چٹان معلوم ہونے لگا اور تب مجھے اس جزیرے کا وہ حصہ نظر آیا جو اب تک میری نگاہوں سے پوشیدہ تھا۔ یہ حصہ پانی میں ڈوبا ہوا تھا اور جب ابھرا تو مجھے ایک حیرت انگیز چیز نظر آئی یعنی ایک بہت بڑا سر، جس میں دو آنکھیں چمک رہی تھیں اور اس سر کے آگے ایک بہت خوف ناک مونہہ تھا جو بار بار کھل اور بند ہو رہا تھا۔ خوف کے مارے میری ٹانگیں لرزنے لگیں اور میں جلدی سے ڈیک پر بیٹھ گیا۔
حقیقت اب معلوم ہوئی تھی۔ جس جزیرے پر میں نے ایک رات اور آدھا دن گزارا تھا۔ وہ دراصل جزیرہ نہیں بلکہ کوئی بہت بڑی سمندری مچھلی تھی!
اتنے عرصے تک میں اس کی کمر پر بھاگتا رہا اور اسے خبر بھی نہ ہوئی۔ لیکن میرے خیال میں اسے خبر ضرور ہوئی ہو گی۔ اسے میرا وزن بھی ضرور محسوس ہوا ہو گا۔ مگر جس طرح انسان اپنے جسم پر مکھی کا کوئی وزن محسوس نہیں کرتا، ایسے ہی اس دیوزاد مچھلی نے مجھے سمجھا ہو گا۔ یعنی اس کے لئے میرا وزن ایک مچھر کے برابر ہو گا۔ یہ خیال آتے ہی کہ میں کافی دیر تک اس خطرناک مچھلی کی کمر پر رہا، مجھے ڈر کے مارے چکر آ گیا۔ خود کو سنبھال کر جب میں نے سامنے دیکھا تو وہ مچھلی پانی میں بری طرح تڑپ رہی تھی۔ اس کی دم دائیں بائیں اتنے زور سے پڑتی تھی کہ سمندر کا پانی کئی سو فٹ اوپر اچھل جاتا تھا۔ جس مقام پر وہ تھی وہاں درحقیقت طوفان آیا ہوا تھا۔ ہم نے خدا کا شکر ادا کیا کہ بچ گئے۔ اگر ہمارا جہاز اسی جگہ کھڑا ہوا ہوتا تو یقیناً ہم جہاز سمیت کبھی کے سمندر میں غرق ہو گئے ہوتے۔ تڑپتے تڑپتے وہ مچھلی بے جان سی ہو گئی اور پھر ہمیں پتہ نہیں کیا ہوا۔ کیوں کہ ہمارا جہاز اب اس سے اتنا دور ہو چکا تھا کہ ہمیں دوربین سے بھی یہ دیکھنے میں دشواری پیش آ رہی تھی کہ وہاں کیا ہو رہا ہے؟
بڑی دیر تک تو ہم خاموش بیٹھے رہے۔ ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے بھی گھبراہٹ ہوتی تھی۔ حلق خشک تھے۔ سمندر کا پانی صرف دو دو قطرے پینے کے باعث زبان کی نوک جگہ جگہ سے کٹ گئی تھی۔ اس لئے خاموش رہنا ہی بہتر تھا۔ مگر خاموش رہنے سے گبھراہٹ اور بڑھتی تھی۔ اس لئے میں نے آہستہ سے یہ خاموشی توڑتے ہوئے کہا۔
“مجھے تو رہ رہ کر ڈر لگتا ہے، اب سوچتا ہوں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اگر وہ مچھلی راتوں رات مجھے لے کر سمندر میں بیٹھ جاتی تو میں کیا کرتا!”
“واقعی بڑا حیرت ناک واقعہ ہے فیروز!” جان میری بات کی تائید کرتے ہوئے بولا۔
“سمندروں میں اس سے بھی بڑی مچھلیاں ہوا کرتی ہیں۔ میں صرف سنتا ہی تھا مگر آج دیکھ بھی لیا۔” میں نے خوف کی ایک پھریری لے کر کہنا شروع کیا۔
“اب بھی جب اس لیس دار کھال کا خیال آ جاتا ہے، جس پر لیٹا ہوا تھا تو سچ متلی ہونے لگتی ہے۔”
میری یہ بات سن کر جیک نے مسکرا کر کہا۔
“تم تو صرف یہی باتیں سوچ رہے ہو، لیکن میرا خیال کسی اور ہی طرف ہے۔ غور سے سنو۔ اب مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ جہاز کے پیچھے مچھلی کے ساتھ رسی سے لٹکتے ہوئے جب تم مخالف سمت میں بہہ گئے تھے تو پھر بعد میں ہمارے سامنے کیسے آ گئے؟”
“ہاں واقعی یہ بات تو میری سمجھ میں بھی نہیں آئی۔ آپ بتائیے!۔۔۔” میں نے حیرت سے کہا اور جیک کی باتیں توجہ سے سننے لگا۔
“بڑی آسان سی بات ہے۔ تم سجھتے رہے کہ تم جزیرے پر ہو وہ ایک ہی جگہ کھڑا ہوا ہے۔ مگر اب جب کہ یہ بات صاف ہو گئی ہے کہ وہ جزیرہ نہیں بلکہ ایک بہت بڑی مچھلی کی کمر تھی تو حقیقت سمجھ میں آ جاتی ہے، تم ایک ہی جگہ نہیں رکے رہے۔ بلکہ بڑی معقول رفتار کے ساتھ سمندر میں بہتے پھرے ہو مچھلی ایک اچھی رفتار سے سمندر میں گھوم کر ہمارے جہاز کے سامنے ہم سے پہلے پہنچ گئی تھی۔ جس وقت تم اپنی پتلون ہوا میں لہرا رہے تھے اس وقت بھی وہ تیر رہی تھی۔ دراصل وہ کسی وقت بھی ایک جگہ نہیں رکی، ہر لمحہ وہ تیرتی ہی رہی۔ اور تم اس کی کمر پر سوار اسی رفتار سے سمندر میں چلتے رہے۔ چوں کہ مچھلی بہت بڑی تھی اس لئے تم یہ محسوس نہیں کر سکے کہ وہ تیر رہی ہے۔ اسے یوں سمجھو، جیسے کہ ہماری زمین گھوم رہی ہے مگر ہمیں محسوس نہیں ہوتا۔۔۔ بہرحال جو کچھ ہوا وہ تو ہوا، ہمیں اب خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس بلا سے نجات ملی۔”
“تم ٹھیک کہتے ہو جیک۔” جان نے ایک لمبا سانس لینے کے بعد کہا۔ “واقعی ایسا ہی ہوا ہے۔ درحقیقت ہم ایک بہت بڑی مصیبت میں گرفتار ہونے سے بال بال بچ گئے اور اب وقت آ گیا ہے جب کہ سوچنا چاہئے کہ وہ جزیرہ اب کیسے تلاش کیا جائے؟ مگر نہیں، میں اتنا خود غرض بننا نہیں چاہتا۔ میں نے تم لوگوں کو خواہ مخواہ مصیبتوں کے غار میں دھکیل دیا ہے۔ میری وجہ سے تم بھی تکلیفیں جھیل رہے ہو اس لئے اب میں یہ سوچ رہا ہوں کہ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ ہم واپس کومورن چلے چلیں اور اس خوفناک سفر کو اسی مقام پر ختم کر دیں؟” جیک نے یہ سن کر جلدی سے جواب دیا “واہ یہ آپ کیا سوچ رہے ہیں۔ یہ تو ہمت ہار دینے والی بات ہوئی مسٹر جان۔”
میں نے بھی سینہ تان کر کہا۔ “نہیں ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہئے، اتنے خطروں سے مقابلہ کرنے کے بعد، اب جب کہ صرف ایک آخری خطرہ باقی رہ گیا ہے اس طرح پیچھے ہٹ جانا میرے خیال میں اچھی بات نہیں۔”
“خیر ارادہ تو میرا یہی تھا۔ مگر تم لوگوں کی تکلیف کے خیال سے ارادہ تبدیل کرنا پڑا۔ اب جیسا تم کہتے ہو، میں وہی کروں گا۔” جان نے خوش ہو کر کہا۔ “لہذا اب ہمارا کام یہ ہے کہ اس جزیرے کو تلاش کرنا ہے جو ہماری آخری منزل ہے اور جس کی پہچان یہ ہے کہ اس کے آس پاس کا پانی گرم ہے۔”
جیک کچھ دیر تک خاموش رہا اور پھر بولا “اسے تلاش کرنے کا کام میرے ذمے چھوڑئیے۔ میں آج ہی ملاح کو ہدایت کر دیتا ہوں کہ وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد پانی میں تیرتا رہے۔ جہاں اس کے بدن کو پانی گرم لگے، فوراً مجھے بتائے۔ اس کے علاوہ ہم دوربینوں کی مدد سے پانی کی سطح کو بھی دیکھتے رہیں گے۔ جس مقام پر بھاپ اٹھتی ہوئی نظر آئے گی، سمجھ لیں گے کہ اس کے قریب ہی وہ جزیرہ ہے۔”
“بالکل ٹھیک تجویز ہے، میرے خیال میں اس سے بہتر کوئی طریقہ ہو بھی نہیں سکتا لہذا ہم ایسا ہی کریں گے۔ جان نے اتنا کہہ کر دوربین پھر اپنی آنکھوں سے لگا لی۔
میں نے کمر سیدھی کرنے کے لئے تختے سے ٹیک لگا لی اور گزرے ہوئے واقعات پر خاموش بیٹھ کر غور کرنے لگا۔ جیک ملاح کو ہدایات دینے کے لئے باہر ڈیک پر چلا گیا اور جان نے اپنے تھیلے میں سے ایک موٹی سی کتاب نکال کر اسے پڑھنا شروع کر دیا۔ ملاح اپنا خوف دور کرنے کے لئے بلند آواز سے کوئی ایسا گانا گا رہا تحا جس کے الفاظ میری سمجھ میں نہ آتے تھے۔ جہاز آہستہ آہستہ ایک نا معلوم منزل کی طرف چلا جا رہا تھا۔ شام ہو رہی تھی اور پرندوں کی آوازیں اس خاموشی میں بڑی پیاری لگ رہی تھیں۔ جلد ہی رات ہو گئی اور ہر طرف ایک سکون سا چھا گیا۔ جیک اور جان دونوں سر جوڑ کر آپس میں کچھ مشورہ کرنے لگے۔ اپنے ساتھ انہوں نے مجھے بھی شامل کرنا چاہا، مگر میں اب اس قدر تھکا ہوا تھا کہ اپنی جگہ سے اٹھنا بھی مجھے دو بھر معلوم ہوتا تھا۔ خدا جانے کب تک وہ دونوں اسی طرح باتیں کرتے رہے۔ کیوں کہ جب میری آنکھ کھلی تو سورج کی کرنیں میرے مونہہ پر پڑ رہی تھیں۔
اسی طرح ایک ایک کر کے کئی راتیں آئیں اور گزر گئیں۔ جہاز اسی طرح طوفانی لہروں کے تھپیرے کھاتا سمندر کے سینے پر تیرتا ہوا نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ گیا! ہم یہ بھی بھول گئے کہ وہ پراسرار جزیرہ کب سمندر میں سے نمودار ہوا کرتا ہے؟ کھانے کا سامان بالکل ختم ہو چکا تھا۔ پانی کا اب ایک قطرہ بھی ہمارے پاس نہیں تھا۔ حلق سوکھ چکے تھے۔ ہاتھ پیروں میں سکت نہ رہی تھی۔ جہاز خود بخود جس طرف اس کا دل چاہتا مڑ جاتا۔ کیوں کہ ملاح تھک کر اس قدر چور ہو چکا تھا کہ اب وہ بادبانوں کی رسیاں بھی نہیں کھول سکتا تھا۔ یہ حالت تھی ہماری۔ ہم نے سمجھ لیا تھا کہ بس اب ہم چند ہی گھنٹوں کے مہمان ہیں۔!
اور پھر یہ اسی دن کا واقع ہے کہ ہم ادھ مرے سے، جہاز کے کٹہرے کا سہارا لئے بیٹھے تھے کہ یکایک ملاح بری طرح چلایا۔ جان نے اسے حیرت سے دیکھا تو وہ کسی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ اس کی انگلی کی سیدھ میں جب ہم نے نظر جما کر دیکھا تو سمندر کی لہروں پر چند چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کو مرا ہوا پایا۔ نگاہ جب آگے بڑھی تو سمندر کے درمیان ایک جگہ ہمیں ہلکی سی کہر دکھائی دی۔ بالکل ایسی ہی جیسے دھواں سردی کھا کر جم گیا ہو۔ ملاح نے جان کا حکم پا کر جلدی سے بادبانوں کا رخ پھیر کر جہاز کا مونہہ اس طرف کر دیا جہاں وہ کہر نظر آئی تھی اور پھر ہمارا جہاز آہستہ آہستہ اس طرف روانہ ہوا جہاں شاید ایک بہت بڑا خطرہ چھپا ہوا ہماری راہ دیکھ رہا تھا!
جیسے جیسے ہم کہر کی طرف بڑھتے گئے، کہر کا حجم بھی بڑھتا گیا۔ دور سے ہمیں یہ ایک چھوٹی سے لکیر نظر آتی تھی مگر اب معلوم ہوتا تھا کہ میلوں تک پھیلا ہوا یہ عجیب سا دھواں سمندر کے سینے پر ایک دیوار بن کر کھڑا ہوا ہے۔ ہم ٹکٹکی لگائے سامنے دیکھ رہے تھے۔ دل بری طرح دھڑک رہے تھے، سانس بہت تیز ہو گئے تھے اور کسی بھی وقت ہم ایک بھیانک حادثے سے دو چار ہونے کے لئے خود کو تیار کئے ہوئے کھڑے تھے۔ سمندر کے پانی پر مری ہوئی مچھلیوں اور دوسرے سمندری جانوروں کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ اس لحاظ سے میری یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی تھی کہ جزیرے کے آس پاس کا پانی کافی گرم ہو گا۔ اس کی تصدیق ملاح پانی میں ہاتھ ڈال کر پہلے ہی کر چکا تھا۔ کسی خطرے کے آنے سے پہلے دل کی جو حالت ہوا کرتی ہے وہی ہو بہو ہماری تھی۔ سانس سینے میں گھٹے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔ چہروں کا رنگ زرد پڑ گیا تھا اور بالکل خاموش اور چپ چاپ کھڑے ہم حیرت زدہ نظروں سے دھوئیں کی اس دیوار کو دیکھ رہے تھے جو دم بہ دم ہمارے قریب ہوتی جا رہی تھی۔ جان اور جیک نے اپنے پستول ہاتھوں میں لے لئے میں بھی دوڑ کر اپنا ریوالور نکال لایا اور اب ایک طرح سے ہم اس ان جانے خطرے کا مقابلہ کرنے کو تیار ہو گئے تھے!
وہ دھواں اب ہم سے مشکل سے کوئی تیس گز رہ گیا تھا۔ ملاح نے بادبان قابو میں کر رکھے تھے۔ کیوں کہ اس کا خیال تھا کہ اسے کسی بھی وقت جہاز کے لوٹانے کا حکم مل سکتا ہے۔ آہستہ آہستہ جہاز اس دھوئیں کی طرف بڑھتا گیا اور پھر آخرکار دھوئیں کی چادر عبور کر کے اس سے آگے بڑھ گیا۔ اچانک ایک عجیب قسم کی بو ہمیں محسوس ہوئی۔ ایسا لگتا تھا جیسے کہ ہم گہرے بادلوں سے ڈھک گئے ہوں۔ دس فٹ دور کی چیز بھی آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے کے باوجود دکھائی نہ دیتی تھی۔ سفید دودھیا رنگ کا دھواں ہر طرف چھایا ہوا تھا اور چوں کہ اس جگہ کا پانی کافی حد تک گرم تھا۔ لہذا پانی سے ہلکی ہلکی سی بھاپ بھی اٹھ رہی تھی۔ جہاں ہمیں اس بات کی خوشی تھی کہ ہم منزل مقصود تک آ گئے ہیں، وہیں یہ ڈر بھی تھا کہ دیکھئے اب قسمت کیا گل کھلاتی ہے؟
جہاز برابر آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ ہمیں اپنے ہر طرف ایک دھند سی نظر آتی تھی۔ سورج کی تیز روشنی بھی اس دھند کے پار نہیں گزر رہی تھی، اس لئے دن کے بارہ بجے بھی ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کہ شام ہو گئی ہو! جان نے ملاح کو حکم دیا کہ وہ سب بادبان کھول دے تاکہ ہم جلد سے جلد اس مقام سے آگے بڑھ سکیں، کیوں کہ اس جگہ دم سینے میں گھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ملاح نے حکم کی تعمیل تو کی مگر جہاز کی رفتار بڑھنے کی بجائے اور گھٹ گئی۔ جان نے جب ملاح سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ وہ بالکل نہیں جانتا کہ سب بادبانوں کے کھول دینے کے بعد جہاز اتنا آہستہ کیوں چل رہا ہے؟
لیکن پھر جلد ہی اس کی وجہ بھی معلوم ہو گئی۔ کیوں کہ چلتے چلتے جہاز اچانک پانی کے اندر کسی چیز سے ٹکرایا اور پھر چند ہچکولے لے کر رک گیا۔ ہم نے جلدی سے نیچے جھانک کر دیکھا تو خوشی کے مارے دل دھڑکنے لگا۔ جہاز کے نچلے حصے کے آس پاس کچھ ہرے پتے نظر آ رہے تھی۔ جان نے ہمیں بتایا کہ دراصل ہم اس خوف ناک جزیرے کی زمین پر پہنچ گئے ہیں۔ ہمارا جہاز کسی چٹان سے ٹکرا کر رک گیا ہے اور چٹان پر یقیناً درخت بھی اگے ہوئے ہیں۔ اس بات کا جب مکمل یقین ہو گیا تو ملاح نے بادبان اتار کر لنگر ڈال دیا اور پھر ہم سہمے ہوئے انداز سے آنکھیں پھاڑ کر ادھر ادھر دیکھنے لگے۔!
“یہی ہماری آخری منزل ہے۔” جان نے کچھ سوچ کر کہنا شروع کیا:
“اس جزیرے میں ہی کہیں وہ مکھی رہتی ہے، جس کی گرمی کے باعث سمندر کا اتنا حصہ بے حد گرم ہے اور گرمی ہی کی وجہ سے پانی میں سے لگاتار بھاپ اٹھ رہی ہے۔ یہی بھاپ دور سے ہمیں دھواں نظر آتی تھی۔ پہلے ہمارا جہاز جزیرے پر اگے ہوئے درختوں سے الجھتا ہوا آگے بڑھتا رہا۔ اسی لئے اس کی رفتار ہلکی تھی۔ لیکن اب جس وقت یہ جزیرہ سے اوپر ابھرے گا، ہم لوگ بھی پانی کی سطح کے ساتھ ساتھ نیچے ہوتے جائیں گے اور جزیرے کی زمین سے لگ جائیں گے۔ جب ہمارے قدم زمین کو چھو لیں گے تب ہم سوچیں گے کہ پھر ہمیں کیا کرنا ہے۔ فی الحال تو ہمیں یہ سوچنا ہے کہ جزیرہ کب ابھرے گا اور آخر کب تک ہم اس گہری دھند میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے رہیں گے۔؟”
“اگر حساب لگایا جائے تو جزیرہ کل یا پرسوں رات کو سمندر میں سے ابھرے گا۔” جیک نے جواب دیا۔
“اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں دو تین دن تک اس گندی فضا میں اور سانس لینا پڑے گا۔” جان نے سوچتے ہوئے کہا۔ “اچھا۔ خیر یہی سہی، اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ بھی تو نہیں ہے۔ ہم اپنے کیبن کے اندر بیٹھ کر ہی یہ عرصہ گزاریں گے۔” جان یہ کہہ کر کیبن میں چلا گیا۔۔۔ اور اس کے پیچھے پیچھے ہم دونوں بھی گئے۔ اندر جا کر پھر آپس میں بحث ہونے لگی۔ جیک کہہ رہا تھا کہ جزیرے کے بلند ہونے پر اگر وہ خوف ناک مکھی نظر آ گئی تو اس سے بچنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ یہ ہمیں ابھی سے سوچ لینا چاہیے۔ جان نے اس کا جواب یہ دیا کہ جب تک ہم میں سے کسی کو یہ معلوم نہ ہو جائے کہ مکھی کیسی ہے، کتنی بڑی ہے، اس کی کیا خاصیتیں ہیں، ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کتابوں کے ذریعے ہمیں اس کے بارے میں پوری واقفیت ضرور ہے۔ مگر ابھی تک ہم نے اسے اپنی آنکھوں سے تو نہیں دیکھا؟ اس لئے پہلے سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ کافی دیر تک اس قسم کی باتیں ہوتی رہیں۔ چونکہ اب جزیرے تک آ جانے کے بعد ہمیں کوئی خطرہ نظر نہ آتا تھا، اس لئے جلد ہی ہم اپنے بستروں میں جا لیٹے۔ دھند گہری ہوتی جا رہی تھی اور اندھیرا بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ اس سے ہم نے اندازہ لگایا کہ شام ہو رہی ہے اور رات آنے والی ہے۔ آنکھیں آپ ہی بند ہونے لگیں۔ اور پھر ہم گہری نیند سو گئے۔
صبح جب میری آنکھ کھلی تو سورج کی پہلی کرنیں کیبن کے اندر آ رہی تھیں۔ میں نے کھڑکی میں سے جھانک کر باہر دیکھا تو ملاح ابھی تک سو رہا تھا۔ جان اور جیک بھی اپنے اپنے پستولوں پر ہاتھ رکھے میٹھی نیند کے مزے لے رہے تھے۔ میرے جی میں آئی کہ باہر چل کر دھند کے پار کچھ دیکھنا چاہیئے۔ شاید کوئی ایسی خاص بات معلوم ہو جائے جو آگے پیش آنے والے واقعات اور خطرات کو دور کر سکے۔ یہ سوچ کر میں نے آہستہ سے دروازہ کھولا اور باہر ڈیک پر آ گیا۔ مگر یہ دیکھ کر مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ سمندر پر سے وہ دھند اب غائب تھی اور دور دور تک نیلا آسمان دکھائی دے رہا تھا۔ جوش اشتیاق میں میں اور آگے بڑھا۔ مجھے یقین تھا کہ جہاز ابھی تک اسی چٹان کے سہارے کھڑا ہوا ہو گا اور درختوں کی پتیاں نظر آ رہی ہوں گی۔ دل نے خواہش کی کہ اب یہ دیکھنا چاہئے کہ بغیر دھند کے وہ چیزیں کیسی نظر آتی ہیں؟ یہ خواہش پوری کرنے کی خاطر میں نے جھک کر نیچے دیکھا۔۔۔ مگر آہ، یہ کیا۔۔۔؟ خوف کے باعث میرے حلق سے ایک گھٹی ہوئی چیخ نکلی اور میں سہم کر جلدی سے پیچھے ہٹ گیا۔ میرے جسم پر لرزہ طاری تھا اور کمزوری کے باعث ٹانگیں لڑکھڑا رہی تھیں۔
میری چیخ سن کر ملاح بھی جاگ پڑا۔ مجھے اس حالت میں دیکھ کر جلدی سے وہ میرے پاس آیا، میں نے ہاتھ کے اشارے سے کہا کہ وہ بھی جھک کر دیکھے۔ اس نے جب خود جھک کر جہاز کے نیچے دیکھا تو دہشت کی وجہ سے وہ بھی چلانے لگا
جاری ہے….
by Abdul Muneeb | Apr 18, 2024 | ڈراؤنی کہانیاں, ناولز
قسط ۔۔19
سراج انور
خوفناک جزیر
جزیرہ پچھلی قسط کا خلاصہ :
جزیرہ جب پانی میں غرق ہونے لگا تھا تب جان اور اس کی ٹیم کے افراد جہاز پر سوار ہو گئے اور جہاز تیرتا ہوں بھنور سے دور نکل گیا۔ پھر وہ چند لوگ سمندر میں دوبارہ سفر پر مجبور ہو گئے۔ ان کے پاس کھانے سامان ختم ہونے کے قریب تھا۔ اس لیے انہوں نے سمندر کے پرندے اور مچھلیاں پکڑیں اور اپنی بھوک مٹائی۔ دور دور تک خشکی کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔ کھانا کھانے کے بعد انہیں پیاس بری طرح لگ رہی تھی اور جو پانی ان کے پاس تھا، اسے برے وقت کے لئے محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔ اس لئے انہیں کسی نہ کسی جزیرے کی سخت ضرورت تھی، کوئی ٹاپو یا چھوٹی سی زمین بھی مل جاتی تو وہاں زمین کھود کر پانی نکال سکتے تھے، مگر سمندر کے سینے پر زمین نام کی کوئی چیز دور دور تک دکھائی نہ دیتی تھی ۔۔۔
۔۔۔ اب آپ آگے پڑھئے ۔۔۔
بادبان کے ستون سے سہارا لے کر وہ خاموش بیٹھ گیا اور ایک ہی سمت ٹکٹکی لگائے دیکھتا رہا۔ میں یہ سوچ کر کہ اس طرح اگر میں خود بھی خاموش رہا تو یقیناً پاگل ہو جاؤں گا، ملاح سے اس کا وہ مچھلیاں پکڑنے والا ہارپون لے کر جہاز کے دوسرے سرے پر پہنچ گیا۔ ہارپون کے ساتھ ملاح نے ایک رسی بھی باندھ دی تھی تاکہ نیزہ سمندر میں پھینکنے کے بعد واپس کھینچا جا سکے۔ میں نے عقل مندی یہ کی کہ وہ رسی اپنی کمر کے گرد باندھ لی۔ دل میں یہ سوچا کہ بڑی مچھلی ہی کا شکار کروں گا۔ اگر مچھلی اتفاق سے وزنی ہوئی اور اس نے رسی کھینچنی چاہی تو ہاتھوں کے بجائے میں اپنے جسم کا زور لگا کر اسے جہاز پر کھینچ لوں گا۔ بظاہر ترکیب بہت عمدہ تھی اور اس میں کوئی خدشہ بھی نہیں تھا۔ اس لئے میں نیزہ تان کر جہاز کے کونے پر کھڑا ہو گیا اور نیلے سمندر میں جھانکنے کی کوشش کرنے لگا۔ چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کو میں جان بوجھ کر نظر انداز کر دیتا تھا۔ میری نظر تو صرف بڑی مچھلیوں پر تھی۔ کچھ ہی دیر بعد مجھے ایک بڑی مچھلی کا سر نظر آیا، پوری طاقت سے میں نے ہارپون اس کی طرف پھینکا۔ خوش قسمتی سے میں نے رسی کمر سے باندھ رکھی تھی۔ کی تھی عقل مندی مگر ثابت ہوئی بے وقوفی۔ مچھلی نے تڑپ کر زور سے ایک جھٹکا مارا اور اس جھٹکے کی وجہ سے میں لہراتا ہوا سمندر میں جا گرا۔ گرتے گرتے بھی میں نے چلا کر مدد کے لئے آواز دی۔ اور پھر اس کے بعد معلوم نہیں کیا ہوا کیوں کہ پانی میں گرتے ہی میرے اوسان جواب دے گئے تھے، جب یہ اوسان بحال ہوئے اور مجھے ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ میں سمندر کے سینے پر بڑی تیز رفتاری سے بہتا ہوا چلا جا رہا ہوں۔ مچھلی مجھے کھینچ رہی ہے اور میں ایک تیز رفتار اسٹیمر کی مانند اس کے پیچھے لگا ہوا ہوں، پانی کے چھپاکے اڑ رہے ہیں اور میری آنکھیں کھاری پانی کی وجہ سے جلنے لگیں ہیں۔ بڑی مشکل سے آنکھیں کھول کر میں نے گردن موڑ کر پیچھے کی طرف دیکھا۔ ہائے کیا بتاؤں کہ دل کی کیا حالت ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ ہمارے بادبانی جہاز کا دور دور بھی پتہ نہیں تھا۔!
میری بے بسی اور بد نصیبی کا تصور کیجئے۔ اچھے اچھوں کا پتّا ایسے مقام پر پانی ہو جاتا ہے۔ مگر خطروں کی چکی میں پس کر اب میں ہیرہ بن چکا تھا، اس لئے اس وقت بھی میں نے اپنے حواس قائم رکھے۔ خدا سے صرف یہ دعا مانگتا رہا کہ مچھلی سمندر کی تہہ میں نہ بیٹھ جائے اوپر ہی اوپر تیرتی رہے۔ یہ دعا میں نے یوں مانگی تھی کہ اگر خدانخواستہ مچھلی تہہ میں جانے کی کوشش کرتی تو میں کسی بھی صورت سے نہیں بچ سکتا تھا۔ لیکن اگر وہ پانی کے اوپر ہی تیرتی رہتی تو میرے بچاؤ کی کچھ نہ کچھ صورت ضرور تھی۔ اور وہ صورت صرف یہ تھی کہ میں نے جلدی سے اپنی کمر میں لٹکا ہوا چاقو میان سے نکال لیا اور اندازے سے اپنی کمر سے بندھی ہوئی رسی کو کاٹنا شروع کر دیا۔ رسی پانی سے بھیگ کر سخت ہو گئی تھی، ہزار کوشش کے باوجود بھی وہ نہ کٹ سکی میرا ہاتھ شل ہو گیا تھا۔ آنکھیں بند تھیں، مگر میں کوشش کئے جا رہا تھا۔ جتنی بار بھی میں نے کوشش کی ناکامی ہی کا مونہہ دیکھا۔ میں نے سوچ لیا کہ بس اب موت یقینی ہے، سوائے خدا کی ذات کے اور کون ہے جو اس وقت میری مدد کرے گا؟ اپنے دردناک انجام کو یاد کر کے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے، آنکھوں میں آنسو آ گئے اور میں نے ہمت ہار کر خود کو تقدیر کے سپرد کر دیا۔
مگر تقدیر کھڑی ہنس رہی تھی۔ خدا کو منظور تھا کہ میں زندہ رہوں۔ چوں کہ مچھلی کے سر میں نیزہ گڑا ہوا تھا اس لئے تکلیف کی وجہ سے وہ تیزی سے بھاگ رہی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد میں نے اندازہ لگا لیا کہ مچھلی کی قوت بھی آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی تھی۔ تیزی سے بھاگنے کی بجائے اب وہ بہت سست رفتاری سے آگے بھاگ رہی تھی۔ اور یہ رفتار بھی برابر کم ہوتی جا رہی تھی، کم ہوتے ہوتے رفتار آخر کار بالکل نہیں کے برابر رہ گئی۔ اب میں سمندر کی سطح پر بالکل چت لیٹا ہوا تھا۔ میں نے سوچا کہ بھاگ دوڑ تو ختم ہو چکی ہے۔ لہذا اطمینان سے چاقو کی دھار رسی پر آزمائی جائے۔ اور پھر ایسا کرتے ہی جلد ہی میں اس عجیب بندھن سے آزاد ہو گیا۔ آزاد ہوتے ہی میں نے تیرنا شروع کر دیا اور تیرتے تیرتے میں نے گلا پھاڑ پھاڑ کر پانچ چھ بار جان کو پکارا، مگر جان کا کہیں پتہ ہوتا تو جواب ملتا۔ جہاز کے بادبان بھی دور دور تک دکھائی نہ دیتے تھے۔ آزاد ہونے کے بعد بھی میں بے بس و لاچار تھا۔ کیوں کہ اتنے بڑے سمندر میں آخر میں کب تک تیر سکتا تھا۔ پھر بھی جان بچانا فرض تھا۔ ذرا سی ہمت و کوشش سے یہ جان بچ سکتی تھی۔ لہذا ہمت کر کے میں نے آہستہ آہستہ تیرنا شروع کر دیا کچھ معلوم نہ تھا کہ کدھر جا رہا ہوں۔ نہ سمت کا پتہ تھا نہ رخ کا۔ بس ہاتھ پاؤں مارنے سے غرض تھی۔ شام ہو رہی تھی اور جوں جوں سورج دم توڑ رہا تھا، میری سانسیں بھی جواب دیتی جا رہی تھیں اور جب چاروں سمت گہرا اندھیرا چھا گیا تو میرا دل بھی اندر ہی اندر ڈوب گیا حالت یہ تھی کہ میں دھاڑیں مار مار کر روتا جاتا تھا اور تیرتا جاتا تھا۔ خدا جانے کب تک یہ حالت رہی۔ ہاتھ پاؤں اب اکڑ گئے تھے۔ جسم کی طاقت ختم ہو گئی تھی۔ رہی سہی ہمت نے جواب دے دیا تھا میرے بازو شل ہو گئے تھے اور میں ڈوبنے کے قریب ہی تھا کہ اچانک میرا جسم کسی سخت چیز سے ٹکرایا۔ بند ہوتی ہوئی آنکھوں کو زور لگا کر کھولا اور غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ میں کسی جزیرے کے کنارے سے ٹکرا گیا ہوں۔ زمین۔۔۔۔! بجلی کی سی تیزی کے ساتھ یہ لفظ میرے دماغ سے ٹکرایا اور میرے سوئے ہوئے اعضا میں اس نے یکایک چستی پیدا کر دی میں نے گھبرا کر کنارے کو پکڑنا چاہا مگر ہاتھ پھسل گیا، جتنی بار میں نے کوشش کی ہاتھ پھسل پھسل گیا۔ خدا جانے یہ کیسی زمین تھی جس کے کنارے اس قدر چکنے تھے! ڈوبتے کو تنکے کا سہارا میں نے سوچا، اب جب کہ یہ چکنی زمین مجھے مل گئی ہے تو کیا میں اس زمین پر قدم نہ رکھ سکوں گا۔ نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ جب خدا نے مجھے ایک موقع دیا ہے تو اس سے فائدہ اٹھانا بے حد ضروری ہے۔ یہ سوچتے ہی میں نے ایک آخری زوردار کوشش اور کی اور پھر اس کوشش میں کام یاب بھی ہو گیا۔ زمین پر قدم رکھتے ہی میں نے آگے دوڑنا شروع کر دیا۔ ڈر یہ تھا کہ کہیں یہ زمین کھو نہ جائے، مگر بھاگتے بھاگتے دس پندرہ مرتبہ پھسلا اور گر پڑا۔ زمین بے حد چکنی تھی، اس لئے میں نے اٹھ کر آہستہ آہستہ قدم جما کر چلنا شروع کر دیا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اس زمین پر نہ کوئی درخت تھا اور نہ چٹانیں اور نہ ہی کہیں مٹی نظر آتی تھی۔ خدا جانے یہ کیسی زمین تھی؟
چاند آہستہ آہستہ بلند ہو رہا تھا۔ اور اس کی ہلکی روشنی میں زمین اب مجھے پوری طرح نظر آ رہی تھی بالکل سیدھی اور سپاٹ زمین، جو مشکل سے دو فرلانگ مربع ہو گی یا پھر اسے ایک چھوٹا سا ٹاپو کہہ لیجئے۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ کہیں یہ وہی ڈوبنے ابھرنے والا جزیرہ نہ ہو! مگر فوراً ہی یہ خیال ذہن سے صاف ہو گیا۔ کیونکہ جیسا کہ مجھے معلوم تھا، وہ جزیرہ تو پورے کا پورا سمندر میں غرق ہو گا۔ اور صرف چودھویں رات کو سمندر میں سے نمودار ہو گا۔ یہ سوچ کر میں آرام سے زمین پر بیٹھ گیا۔ تھکن بری طرح سوار تھی، جان اور جیک سے بچھڑنے کا غم بھی تھا، اس لئے ہوا نے جب لوریاں دیں تو میری آنکھیں بند ہو گئیں اور پھر مجھے دنیا و جہاں کی کوئی خبر نہ رہی۔
جب میری آنکھ کھلی تو سورج کافی اوپر چڑھ چکا تھا۔۔۔ میں گھبرا کا جلدی سے اٹھ بیٹھا۔ پیاس بے حد لگ رہی تھی، اس لئے مجبوراً میں نے کنارے پر جا کر سمندر کے کھاری پانی کا صرف ایک گھونٹ پیا۔ کھارا پن تو محسوس ہوا مگر حلق تر ہو گیا۔ اس کے بعد میں جہاں بیٹھا تھا پھر وہیں واپس آ گیا۔ واپس آتے آتے بھی ایک دو بار پھسلا۔ زمین کو غور سے دیکھا تو پتہ چلا کہ گہرے سرمئی رنگ کی عجیب سی چکنی اور سپاٹ زمین ہے نہ کہیں سے اونچی نہ نیچی۔ نہ کوئی گڑھا نہ کوئی کنکر! خدا جانے میں کون سے غیر آباد جزیرے میں آ گیا تھا۔ ایسے جزیرے میں جہاں نہ گھاس تھی نہ مٹی۔ عجیب سی لیس دار زمین تھی، اگر قدم جما کر اور سنبھل کر نہ چلتا تو دھڑام سے چاروں شانے چت!
جہاز میں ایک آرام یہ تو تھا کہ میں کوئی بھی چیز آگ پر بھون کر کھا سکتا تھا۔ مگر اس جزیرے پر نہ تو لکڑی تھی نہ آگ۔ پھر بھلا بھوک کس طرح مٹ سکتی تھی؟ پیٹ کی دوزخ کو تو بھرنا ضروری تھا۔ اس لئے جزیرے پر پڑی ہوئی چند مچھلیوں کو میں نے کچا کھانے کی کوشش کی۔ مشکل سے صرف ایک لقمہ کھایا ہو گا کہ متلی ہونے لگی اس لئے مچھلیاں وہیں پھینک دیں۔ طبیعت بڑی گھبرا رہی تھی۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کروں۔ جس طرف نظر اٹھا کر دیکھتا تھا پانی ہی پانی دکھائی دیتا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ آخر کس طرح اس مصیبت سے نجات حاصل کروں گا؟ جگہ ایسی تھی کہ آس پاس دوسرا کوئی جزیرہ بھی نظر نہ آتا تھا اور یہ جزیرہ جس پر میں اس وقت کھڑا ہوا تھا، میرے خیال میں شاید دینا کا سب سے عجیب اور حیرت انگیز جزیرہ تھا۔ میں نے بہت سے مقامات پر چٹانیں دیکھی ہیں مگر یہ چٹانیں یا ٹاپو تو ان سب سے بالکل جدا تھیں! اس کے بارے میں آپ پہلے ہی پڑھ چکے ہیں۔ بہرحال سب کچھ خدا پر چھوڑ کر میں آرام سے زمین پر بیٹھ گیا۔ دل میں سوچ لیا کہ اگر میرا آخری وقت آ گیا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے مرنے سے نہیں روک سکتی اور اگر مجھے زندہ رہنا ہی ہے تو پھر آگ کے شعلوں میں بھی میرا بال بیکا نہیں ہو سکتا۔ خاموشی سے بیٹھ کر میں سمندر کے ہلکورے لیتے ہوئے پانی کو دیکھنے لگا۔ لہریں جدا جدا ہو کر آپس میں پھر مل جاتی تھیں۔ دل نے یہ دیکھ کر خواہش کی کہ کاش میں بھی دوبارہ اپنے ساتھیوں سے مل جاؤں۔! لہروں پر نظر جما کر میں نے سامنے اس مقام کو دیکھنا شروع کیا جہاں سمندر آسمان سے مل رہا تھا اور پھر اس جگہ کو دیکھتے ہی میرے جسم میں اچانک خوشی کی ایک تھرتھری سی پیدا ہو گئی۔ خون میں جوش پیدا ہو گیا اور میں جلدی سے کھڑا ہو کر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس چیز کو دیکھنے لگا۔ نظر نے کہا وہم ہے مگر دل نے گواہی دی کہ جو کچھ دیکھ رہا ہوں وہ حقیقت ہے واقعی بہت دور کے فاصلے پر مجھے کسی جہاز کے مستول نظر آ رہے تھے۔ اور وہ مستول آہستہ آہستہ لمبے ہوتے جا رہے تھے۔ اس بات سے میں سمجھ گیا کہ جہاز میری ہی طرف آ رہا ہے۔ مستولوں کے بعد اس کے بادبان دکھائی دینے لگے۔ جغرافیہ کی کتابوں میں آپ نے یہ پڑھا ہی ہو گا کہ سمندر میں دور سے نظر آنے والے جہازوں کے سب سے پہلے مستول ہی نظر آتے ہیں۔ دراصل زمین گول ہونے کا یہ سب سے بڑا ثبوت ہے جوجغرافیہ داں ہمیں دیتے ہیں۔ یہ اندازہ لگا کر کہ جہاز اسی طرف آ رہا ہے، میرا دل خوشی سے بھر گیا۔ خوش کے مارے میں عجیب عجیب حرکتیں کرنے لگا۔ اچھل اچھل کر دیکھا۔ کبھی جزیرے میں اس طرف سے اس طرف تک بھاگا، ہاتھ ہلائے اور زور زور سے مدد کے لئے چلایا اور پھر جہاز جلد ہی مجھے پورا نظر آنے لگا۔ یہ دیکھ کر میری خوشی دوگنی ہو گئی اور نہ جانے کیسے مجھ سے وہ حرکت سر زد ہو گئی، کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے، مگر کیا کروں، جب تک میں وہ بات آپ کو نہ بتاؤں گا تب تک آپ میری بےتابی اور بےچینی کا اندازہ لگا ہی نہیں سکتے۔۔۔ یہ سوچ کر کہ جہاز والوں کی نگاہ مجھ پر پڑ جائے میں نے جلدی سے اپنی پھٹی ہوئی پتلون اتار ڈالی (قمیض تو پہلے ہی سے غائب تھی) اس بات کا بھی خیال نہیں کیا کہ میں اس وقت بالکل ننگا ہوں، کیسی شرم اور کیسی حیاء! جان پر بن رہی تھی اس لئے پتلون ہاتھ میں پکڑ کر میں نے اسے زور زور سے ہلانا شروع کر دیا۔ جزیرے کے اس سرے سے اس سرے تک پتلون کو ہاتھ میں لہراتا ہوا بالکل ننگا بھاگنے لگا۔ میری یہ بات پڑھ کر ہو سکتا ہے کہ آپ کو ہنسی آئے، لیکن میری حالت کا تصور کیجئے اور انصاف سے کہئے کہ کیا میں ایسا کرنے میں حق بجانب نہیں تھا؟
میری خوشی کا کچھ مت پوچھئے، جب میں نے یہ دیکھا کہ جہاز کے بادبانوں کا رخ پلٹا جا رہا ہے تاکہ جہاز جلد سے جلد مجھ تک پہنچ سکے۔ جوں جوں جہاز میری طرف آ رہا تھا، مجھ میں جوش بھرتا جا رہا تھا۔ دل میں سوچ رہا تھا کہ خدا جانے یہ کون لوگ ہیں؟ ویسے جہاز تو بالکل ہمارے جہاز جیسا ہے۔ خدا کرے وہی ہو! پندرہ منٹ بعد جہاز اتنا قریب آ چکا تھا کہ میں اس پر کھڑے ہوئے لوگوں کو ہلتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ فوراً ہی مجھے خیال آیا کہ میں ننگا ہوں۔ جلدی سے میں نے پھٹی ہوئی پتلون پہنی اور بے تابی سے ان لوگوں کو دیکھنے لگا۔ جہاز جب ایک فرلانگ کے فاصلے پر آ گیا تو میں جان اور جیک کو ڈیک پر بڑی بے چینی سے اپنی طرف دیکھتے ہوئے پایا۔ ان دونوں کو دوبارہ پا کر پہلے تو خوشی کے مارے میری چیخیں نکل گئیں اور پھر دل میں اچانک ایسا جذبہ پیدا ہوا کہ میں دھاڑیں مار مار کر رونے لگا روتا جاتا تھا اور ان دونوں کو دیکھتا جاتا تھا۔ جہاز اب اتنے قریب آ چکا تھا کہ میں نے جان کو بلند آواز میں یہ کہتے سنا۔
“روؤ مت فیروز! ہم آ گئے ہیں۔”
مگر میرا رونا بند نہیں ہوا۔ شاید یہ خوشی کا حد سے بڑھ جانا تھا جو میرے آنسو تھمنے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔ میری نظروں کے سامنے جہاز نے لنگر ڈالا اور ملاح نے حفاظتی کشتی سمندر میں اتاری اور پھر اس کشتی میں جان اور جیک دونوں سوار ہو کر میری طرف آنے لگے۔ مگر میری وہی حالت تھی کہ لگاتار روئے جا رہا تھا۔ جیسے ہی کشتی جزیرے کے کنارے پر لگی جان فوراً اس میں سے چھلانگ لگا کر جزیرے پر آ گیا اور پھر دوڑ کر اس نے مجھے اپنے سینے سے لگا لیا۔ ساتھ ہی اس نے بھی بری طرح رونا شروع کر دیا۔ کچھ دیر بعد جیک بھی میرے قریب آ کر کھڑا ہو گیا اور میرا شانہ تھپتھپا کر بولا “اب مت روؤ فیروز! خدا کا شکر ہے کہ تم ہمیں مل گئے۔ ورنہ ہم تو سمجھ بیٹھے تھے کہ تم سے کبھی ملاقات نہیں ہو گی۔”
جان نے اسی طرح روتے ہوئے کہا “فیروز! میرے بیٹے، تہمارے کھو جانے کے بعد تمہاری قدر معلوم ہوئی۔ کیا بتاؤں کہ میں کتنا بے چین رہا ہوں، بیٹے آج مالک اور نوکر میں سے امتیاز مٹ گیا۔ تم پارٹی میں ملازم بن کر شامل ہوئے تھے۔ لیکن تم نے میرے دل میں اتنا گھر کر لیا ہے کہ میں تم سے جدا ہو کر ایک پل بھی سکون سے نہیں رہ سکتا۔ میرے بچے تمہیں دوبارہ پا کر ایسا لگتا ہے جیسے میری کھوئی ہوئی دولت مجھے مل گئی ہے۔۔۔ تمہارے کھو جانے کے بعد تو زندگی مجھ پر حرام ہو گئی تھی فیروز!”
جان نے جب بہت تسلی دی تب کہیں جا کر میرے آنسو تھمے۔ اسی کشتی میں بیٹھ کر ہم دوبارہ جہاز میں پہنچے اور وہاں جا کر میں نے ان سب کو اپنی کہانی سنائی۔ پوری داستان سن کر وہ بھی حیرت زدہ رہ گئے۔ ملاح نے کچھ مچھلیاں بھونیں جنہیں کھا کر میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور پھر دوبارہ باتیں ہونے لگیں۔ جیک نے ایک بڑی عجیب بات کہی۔
“جہاں تک مجھے یاد ہے تم جہاز کی مخالفت سمت گرے تھے اور اس لحاظ سے جہاز کے پیچھے ہی پیچھے پانی میں بہتے چلے گئے تھے۔ ہمارا جہاز اگر شمال کی طرف جا رہا تھا تو تم جنوب کی طرف۔ پھر آخر تم ہم سے پہلے اس مقام پر کیسے پہنچ گئے جہاں اب ملے ہو!”
“یہ تو میں نہیں جانتا۔ خدا معلوم کیا بات ہے؟”
“ہاں یہ واقعی اچنبھے کی بات ہے جیک۔” جان نے سوچتے ہوئے کہا۔
“خیر اسے چھوڑو، میرے خیال میں اب ہم اس جزیرے کو کھود کر پینے کا پانی ضرور نکال لیں اور اپنے ڈرامز میں بھر لیں۔ یہ رات اس جزیرے پر بسر کر کے ہم کل صبح پھر روانہ ہو جائیں گے۔ تم یہیں ٹھیرو۔ میں اور جیک ملاح کو لے جزیرے پر جاتے ہیں اور وہاں زمین کھودنا شروع کر دیتے ہیں۔” میں نے ضد کی “اب میں اکیلا نہیں رہوں گا، مجھے ڈر لگتا ہے اب تو میں آپ کے ساتھ ہی رہوں گا۔ اس لئے میں بھی ساتھ چلوں گا۔” میری یہ بات سن کر جان مسکرایا اور پھر مجھے ساتھ لے کر دوبارہ جزیرے پر گیا۔
جزیرے پر پہنچنے کے بعد وہ بھی تعجب میں رہ گیا۔ ایک دو مرتبہ پھسل کر گرا بھی اور پھر اٹھ گیا۔ چند قدم چلنے کے بعد وہ کہنے لگا۔
“یہ کیسی عجیب زمین ہے فیروز۔ چکنی، لیس دار اور بالکل سپاٹ، نہ کوئی گھاس نہ درخت، چلتے ہوئے قدم بھی پھسلنے لگتے ہیں۔ آخر، تم کس طرح اس پر چل پھر لئے۔؟”
“چلا کہاں جناب، پہلے پہلے تو میں بھی خوب گرا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے مخمل پر پھر رہا ہوں۔”
“ہاں مجھے بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ خیر ہمیں اس سے کیا لینا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کھودنے پر اس میں پانی بھی نکلتا ہے یا نہیں؟”
ملاح نے اس کے اشارے پر زمین کھودنے کے لئے کدال زمین میں ماری مگر پھر اچانک ہم سب گھبرا کر پیچھے ہٹ گئے۔ زمین میں سے ایک فوارہ ابل پڑا مگر پانی کا نہیں، بلکہ گاڑھے گاڑھے خون کا فوارہ! خوف اور دہشت کے مارے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے، کیوں کہ اب وہ جزیرہ آہستہ آہستہ ہل رہا تھا۔ خون کا فوارہ دوبارہ زمین پر گر کر سمندر میں جا کر مل رہا تھا اور سمندر کے آس پاس کے پانی کو سرخ کر رہا تھا۔ جزیرہ اب زور سے ہلنے لگا۔ جان نے یہ دیکھتے ہی زور سے چلا کر کہا۔ “تیزی سے کشتی کی طرف بھاگو۔”
ہم سر پر پاؤں رکھ کر بری طرح بھاگے۔ عقل کام نہ کرتی تھی کہ آخر یہ بلا کیا تھی؟
جاری ہے..
by Abdul Muneeb | Apr 18, 2024 | ڈراؤنی کہانیاں, ناولز
قسط – 18
سراج انور
پچھلی قسط کا خلاصہ :
رات ہونے پر جان اور اس کے ساتھی پتھر کے بتوں کے پاس جگہ صاف کر کے سو گئے۔ مگر آدھی رات کو فیروز کی نیند ہشیار ہو گئی اور اس نے دیکھا کہ کبڑا اور ایک ملاح پتھر کے بتوں کے پاس والی مشینوں کے قریب جا رہے ہیں۔ پھر کبڑے نے مشینوں کے تین ہینڈلوں کو کھینچ ڈالا اور ایک عجیب واقعہ یہ رونما ہوا کہ پتھر کے ان بتوں میں انسانی جان آ گئی اور وہ چلنے لگے۔ دہشت کے مارے کبڑا اور ملاح نے بھاگنا چاہا تو ایک بت نے انہیں اپنے ہاتھ میں پکڑ کر مسل ڈالا اور وہ دونوں وہیں ختم ہو گئے۔ پھر ایک زوردار آواز کے ساتھ روشنی کا جھماکا ہوا اور پتھر کے بت اپنی جگہ تھم گئے۔ لیکن جزیرہ آہستہ آہستہ پانی میں ڈوبنے لگا۔۔۔ جان نے سب کو خبردار کیا اور سب مل کر جہاز کی طرف دوڑنے لگے اور جب وہ جہاز تک پہنچے تو جزیرہ مکمل طور پر پانی میں ڈوب گیا ۔۔۔
۔۔۔ اب آپ آگے پڑھئے ۔۔۔
۔۔۔ اور جب ہم نے دیکھا کہ اب سوائے تیرنے کے اور کوئی چارہ نہیں ہے تو ہم تیرنے لگے جہاز بھی پانی کے زور سے اب آہستہ آہستہ سیدھا ہو رہا تھا۔ ہم تیرتے ہوئے اس تک پہنچنے کی کوشش کرنے لگے اور پھر جلد ہی پورا جزیرہ پانی میں غرق ہو گیا۔ اتنی دیر میں ہم نے جہاز کے کناروں کو مضبوطی سے پکڑ لیا تھا اس لئے ہم بھی ڈوبنے سے بچ گئے۔ ورنہ جزیرے کے ڈوبنے سے اچانک پانی میں ایک زبردست بھنور پیدا ہونے لگا تھا، اگر ہم پانی ہی میں تیر رہے ہوتے تو کبھی کے اس بھنور میں پھنس گئے ہوتے۔ پھنس تو خیر اب بھی گئے تھے مگر اتنے بڑے جہاز کی موجودگی نے ہمیں بچا لیا حالاں کہ جہاز بھی بھنور میں پھنسا ہوا ڈگمگا رہا تھا۔
خدا کو ہمیں زندہ رکھنا منظور تھا۔ اس لئے جہاز تیرتا ہوا بھنور سے دور نکل آیا۔ جہاز سے لٹکتے ہوئے رسوں کی مدد سے ہم اوپر چڑھے اور آخری ملاح نے جلدی جلدی بادبان کھول دیئے۔ جیک نے بھی اس کا ہاتھ بٹایا اور پھر آدھ گھنٹے کے اندر اندر ہم خطرے سے باہر ہو گئے۔ ایسا لگتا تھا جیسے میں نے کوئی بھیانک خواب دیکھا ہو۔ میں بار بار مڑ کر اس مقام کو دیکھ رہا تھا جہاں کچھ دیر پہلے ایک جزیرہ تھا مگر اب وہاں کچھ بھی نہ تھا سوائے جھاگ اڑاتے ہوئے پانی کے! کچھ دیر بعد ذرا سکون ہوا اور جہاز اپنی ہلکی رفتار سے سمندر میں چلنے لگا تو میں سوچنے لگا کہ اب تک ہمارے ساتھ کیا حالات پیش آئے ہیں! پرانی باتوں کو یاد کر کے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ یکایک جان کو پہلی بار یہ خیال آیا کہ جتنے آدمی تھے وہ سب جہاز میں آ گئے یا نہیں؟ اور جب اس نے دیکھا کہ کبڑا اور ایک ملاح جہاز میں موجود نہیں ہے تو فوراً گھبرا کر بولا۔
“چتین اور دوسرا ملاح کہاں ہے فیروز؟”
یہ سن کر ملاحوں کے چوتھے ساتھی نے بھی حیرت سے چاروں طرف دیکھا مگر کبڑا اور تیسرا ملاح ہوتا تو کہیں نظر آتا کیونکہ ان دونوں کی تو لاشیں بھی سمندر کی مچھلیاں کھا چکی تھیں۔۔۔!
یہ دراصل خدا کا انصاف تھا اس نے ایک ظالم شخص کو کیسی عبرت ناک سزا دی؟ پتھر کے ہاتھوں سے کچلوا کر اسے سمندر کی تہہ میں ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا۔ اب بھلا کسے معلوم تھا کہ پندرہ دن کے بعد وہ جزیرہ ابھرے گا بھی یا نہیں؟ کیوں کہ زہروی باشندے کے بتائے ہوئے پروگرام کے مطابق تو وہ جزیرہ آنے والی آدھی رات کے وقت ڈوبنا چاہئے تھا۔ مگر اب تو وہ پورے چوبیس گھنٹے پہلے ڈوب گیا تھا! اس کا مطلب یہی ہوا کہ زہروی باشندوں نے ریڈیائی لہروں کے ذریعہ اسے وقت سے پہلے ڈبو دیا۔ جب وہ اس جزیرے کو اپنی مرضی کے مطابق پہلے سے ڈبو سکتے ہیں تو اسے ایک نامعلوم عرصے کے لئے پانی میں رکھ بھی سکتے ہیں!
“تم کیا سوچ رہے ہو فیروز! بتاؤ آخر کبڑا کہاں ہے؟” جیک نے مجھے جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا۔
“کبڑا اب کبھی نہیں آئے گا۔ اس کو اس کے کئے کی سزا مل گئی۔۔۔۔” میں نے آہستہ سے جواب دیا :
“وہ اب بہت دور چلا گیا ہے۔”
“کیا مطلب۔۔۔؟” جان نے چونک کر پوچھا۔
اور تب میں نے انہیں شروع سے آخر تک سب باتیں تفصیل سے بتا دیں۔ جوں جوں وہ کبڑے کی حیرت انگیز داستان سنتے جاتے تھے اتنے ہی ان کے چہرے زرد پڑتے جاتے۔ ملاح غریب تو بالکل ادھ مرا ہو کر بیٹھ گیا۔ بڑی دیر تک خاموشی رہی آخر جان نے ہلکی آواز میں کہنا شروع کیا۔
“سوبیا کے ذخیرے پر قبضہ کرنے کے بعد وہ احمق ہم سب کو باری باری ختم کر دیتا۔ فیروز ٹھیک کہتا ہے۔ یقیناً اس کی یہی اسکیم ہوگی مگر خدا کو یہ منظور نہیں تھا۔ کیوں کہ کبڑے کی قسمت میں لکھا ہی یہ تھا کہ وہ ایک پتھر کے دیوزاد کی مٹھی میں آ کر کچلا جائے۔ بہرحال جو ہونا تھا وہ ہو گیا اب سوچنا یہ ہے کہ آگے کیا کرنا چاہئے؟”
جیک کچھ دیر تک خاموش رہ کر سوچتا رہا اور پھر آہستہ سے بولا :
“پروگرام کے مطابق اب ہمیں وہ جزیرہ تلاش کرنا چاہئے، جہاں پہنچ کر ہمارا یہ سفر ختم ہو جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ جزیرہ اس مقام سے کہیں قریب ہی ہوگا۔ اس کے بارے میں بھی یہی مشہور ہے کہ چاند رات کو وہ سمندر میں سے ابھرتا ہے، مگر آج کے چاند کو دیکھ کر پتہ لگتا ہے کہ چودھویں رات کم از کم دس دن بعد آئے گی یہ دس دن ہم کہاں اور کس جگہ گزاریں گے! دراصل یہی سوچنا ہے۔”
“جگہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔” میں نے درمیان میں کہا:
“ہم زمین پر نہیں سمندر میں ہیں اور دس دن کا یہ عرصہ ہمیں یقیناً سمندر کی سطح ہی پر گزارنا ہوگا۔”
“تم بھی ٹھیک کہتے ہو فیروز۔۔۔” جان نے دوربین اپنی آنکھوں سے ہٹانے کے بعد کہا:
“مگر اس کے علاوہ اور بھی بہت سی باتیں ہیں جن کے بارے میں ہمیں سوچنا ہے۔ دس دن تو ہم سمندر ہی میں ادھر ادھر گھومتے ہوئے گزار دیں گے، لیکن دیکھنا یہی ہے کہ یہ دن ہم کیسے گزاریں گے؟ ہمارے پاس کھانے کے لئے بہت کم سامان ہے۔ پانی کے پیپے بھی اب خالی ہو چکے ہیں۔ پینے کا پانی کہاں سے آئے گا اور ہم کھائیں گے کیا؟ یہ سب سے بڑا سوال ہے۔ سمندر کا پانی پینے کے لائق تو ہوتا نہیں، دیکھو کتنی بڑی بدنصیبی ہے کہ پانی کے سینے پر چلتے ہوئے بھی ہم پانی سے محروم ہیں!”
“اگر اس جزیرے کے علاوہ کوئی اور جزیرہ نظر آ جائے تو بات کچھ بن سکتی ہے۔ ہم اس جزیرے کی زمین کھود کر اس میں سے پینے کا پانی نکال سکتے ہیں۔ بدقسمتی تو یہ ہے مسٹر جان کہ ایسا جزیرہ ہمیں مل بھی گیا تھا، مگر وہاں ایسے عجیب و غریب واقعات پیش آئے کہ پانی تلاش کرنے یا زمین کھود کر پانی نکالنے کا خیال بھی ذہن میں نہ آ سکا۔” جیک نے مایوس لہجے میں کہا:
“خیر تمہیں چاہئے کہ ہمت نہ ہارو۔ میرا دل کہہ رہا ہے کہ پانی ہمیں ضرور ملے گا اور کھانے کے لئے ہم جزیرے کے جنگلی پھلوں کو استعمال کر سکتے ہیں۔ دُعا یہ مانگنی چاہئے کہ وہ جزیرہ، جس کی ہمیں تلاش ہے، اب ہمیں جلد سے جلد نظر آ جائے۔” جان نے سب کو تسلی دے کر کہا۔ جب کہ وہ خود ناامید نظر آ رہا تھا۔
تسلی ملنے سے دل کو ڈھارس تو ہوئی لیکن میں سوچنے لگا کہ پہلے جزیرے کی طرح کیا اس جزیرے پر ہمیں اتنی مہلت مل جائے گی کہ ہم پانی تلاش کر سکیں اور جنگلی پھلوں سے اپنا پیٹ بھر سکیں۔ کیوں کہ جیسا کہ میری یہ بھیانک داستان پڑھنے والوں کو معلوم ہے۔ پہلے جزیرے کے بارے میں ہمارا خیال یہی تھا کہ وہاں ہم اطمینان کا سانس لے سکیں گے۔ مگر کیا ایسا ہوا۔۔۔؟ سبز آنکھوں والے دیوؤں اور چٹانوں کے بنے ہوئے محافظوں نے ہمارا ناک میں دم کر دیا تھا۔ پھر بھلا اب ہم یہ کس طرح سوچ سکتے تھے کہ آئندہ ملنے والے کسی جزیرے پر ہم آرام سے رہ سکیں گے اور ہمیں وہاں کوئی حادثہ پیش نہ آئے گا؟ یہ سوچ کر میں نے جان سے اپنے دل کی بات بتاتے ہوئے مری ہوئی آواز میں کہا۔
“دیکھئے کیا ہوتا ہے۔ ابھی تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ خدا کرے کہ اب جو بھی جزیرہ ہمیں ملے وہاں ہم مطمئن ہو کر اتر سکیں۔”
“تمہارا خدشہ درست ہے فیروز۔” جان نے کہنا شروع کیا:
“میں اچھی طرح سمجھ رہا ہوں کہ تم کیا سوچ رہے ہو۔ اس جزیرے پر دیوزاد مکھی کا سب سے بڑا خطرہ ہے۔ سوچنا یہ ہے کہ اسے کس طرح تلاش کیا جائے اور اس سے کیسے بچا جائے۔ کیوں کہ یہ تو تم دوںوں کو معلوم ہی ہے کہ مکھی بہت بڑی ہے اور اس کے نتھنوں سے شعلے نکلتے ہیں۔ میرے والد ولیم نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ شعلے پتھر تک کو پگھلا دیتے ہیں۔ پھر بھلا ہم انسانوں کی کیا حقیقت ہے؟”
“جب وہ مکھی اتنی خطرناک ہے تو پھر ہم اسے پکڑیں گے کس طرح؟” میں نے پوچھا۔
“فیروز نے ٹھیک سوال کیا ہے۔” جیک نے تعریفی نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا:
“بہتر ہوگا کہ آپ اس خوفناک مکھی کے بارے میں ہمیں اور تفصیل سے بتائیں۔ کیونکہ ابھی تک ہمارے پاس پوری معلومات نہیں ہیں۔”
“تفصیل میں اس سے زیادہ اور کیا بتا سکتا ہوں جو پہلے بتا چکا ہوں۔ کتاب میں اتنا ہی درج ہے جو میں نے تمہیں سنایا ہے۔ وہ درست ہے یا غلط یہ تو وہیں جزیرے میں چل کر پتہ لگے گا۔ رہا اس سوال کا جواب کہ ہم اسے کس طرح پکڑیں گے؟ تو بس میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ ابھی میرے ذہن میں اس کا کوئی جواب نہیں ہے، آگ ہمیشہ پانی سے بجھتی ہے مگر یہاں الٹا معاملہ ہے۔ وہ خطرناک مکھی سمندر میں رہتی ہے اور جزیرے کے ساتھ ہی پانی میں غرق ہو جاتی ہے۔ اسے پکڑنے یا مارنے کا طریقہ سوچنا کچھ آسان نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جب ہم اس جزیرے پر پہنچیں، خدا ہمارے دل میں خود ہی کوئی ایسی بات ڈال دے جس کی مدد سے ہم مکھی کو ہلاک کر سکیں۔”
یہ بڑی ناامیدی کا وقت تھا۔ اب تک میں سمجھتا آیا تھا کہ جان اس مکھی کو ختم کرنے کا کوئی نہ کوئی طریقہ جانتا ہے۔ مگر خود اس کی زبانی یہ سن کر کہ اسے خود بھی نہیں معلوم کہ مکھی کس طرح ہلاک ہوگی، میرا جسم سن ہو گیا۔ ہاتھ پیروں کا دم سا نکلتا ہوا معلوم ہوا اور میں بالکل ہی خاموش ہو گیا۔ دل ہی دل میں خدا سے دعا مانگنے لگا کہ وہ ہمیں آنے والی مصیبتوں سے بچائے!
جیک نے کافی دیر خاموش رہنے کے بعد ایک لمبی سی ٹھنڈی سانس بھری اور پھر مرے ہوئے لہجے میں بولا۔
“مکھی کو ہلاک کرنے کا طریقہ معلوم ہو سکتا ہے، مگر پہلے ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ اس مکھی میں کیا کیا خاصیتیں ہیں۔ آپ کے کہے ہوئے الفاظ کے مطابق مکھی کی خاصیتیں یہ ہیں کہ وہ ایک دیوزاد قسم کی بہت بڑی مکھی ہے، جس قسم کے دیوؤں سے بچ کر ہم آ رہے ہیں، اندازاً انہیں کے سیارے کی مکھی معلوم ہوتی ہے۔ آپ نے اس کا قد اونٹ جتنا بتایا ہے مگر خیال میں اس سے بھی بڑی ہوگی۔ لمبائی میں گینڈے سے لمبی اور ہاتھی سے بھی زیادہ موٹی ہے۔ یہ آپ نے ہی کہا ہے کہ اس کے پر دو بڑے ہوائی جہاز جیسے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب وہ اڑتی ہوگی تو آس پاس کے علاقے میں زبردست طوفان آ جاتا ہوگا اور درخت ہوا کے زور سے زمین سے اکھڑ جاتے ہوں گے۔ اس کی ناک سے لمبے لمبے شعلے نکلتے ہیں، جس سے ظاہر ہوا کہ وہ جہاں اڑتی ہوگی، وہاں آگ بھی لگ جاتی ہو گی! وہ سمندر میں رہتی ہے اور چودھویں رات کو جب کہ چاند پورا ہوتا ہے وہ جزیرہ سمندر میں سے ابھرتا ہے اور مکھی شکار کی غرض سے ہوا میں اڑتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جزیرے میں اسی کی جسامت کے جانور بھی کافی تعداد میں ہوں گے جن کا وہ شکار کرتی ہے۔ لیکن آپ کہتے ہیں کہ جزیرے میں کوئی جانور نہیں ہے۔ ان سب باتوں کو دیکھتے ہوئے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اس کا پکڑنا آسان نہیں ہے۔ شکار وہ کس چیز کا کرتی ہے، اس کے بارے میں ہمیں کچھ نہیں معلوم۔ ظاہر ہے کہ جانوروں کا شکار نہیں کرتی ہوگی۔ کیوں کہ جانور تو اس جزیرے میں نہیں رہ سکتے جو پندرہ دن بعد سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔ اس لئے ہماری عقل اس معاملہ میں بالکل بے بس ہے کہ وہ کیا کھاتی ہے اور کیا شکار کرتی ہے؟”
جیک نے اتنا کہنے کے بعد لمبا سانس لیا، اور میں چونکہ بہت دیر سے ایک بات کہنے کے لئے بے چین تھا، اس لئے موقع ملتے ہی میں نے جلدی سے کہا:
“ایک بات میں آپ کو ٹھیک ٹھیک بتا سکتا ہوں سر۔ اور وہ یہ کہ ہم اب اس جزیرے کو آسانی سے تلاش کر سکتے ہیں۔”
“کیسے۔۔۔۔؟” تقریباً سب ہی نے اشتیاق سے پوچھا۔
“اتنی خطرناک اور آتشی مکھی سمندر میں جس جگہ رہتی ہوگی اس جگہ کا پانی یقیناً گرم ہوگا۔ اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں گرم ہی نہیں بلکہ کھولتا ہوا ہوگا۔ لہذا اس مقام پر بھاپ ضرور دکھائی دینی چاہئے۔”
میری یہ بات سن کر جان نے جوش کے عالم میں میری کمر تھپتھپائی اور خوش ہو کر بولا “تم نے واقعی ایک کام کی بات معلوم کی ہے۔ اس طرح یقیناً ہم وہ جزیرہ تلاش کر لیں گے۔”
جیک نے بھی خوشی ظاہر کرتے ہوئے کہا:
“حقیقت یہ ہے کہ یہ بات تو ہم نے سوچی ہی نہیں تھی، واقعی اب جزیرہ تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے، ہاں البتہ مکھی کو مارنے میں بڑی مصبیت کا سامنا کرنا پڑے گا۔”
“اس کی بھی کوئی نہ کوئی ترکیب سوجھ ہی جائے گی وقت پر۔۔۔” جان نے دوربین آنکھوں سے لگا کر دور کسی مقام کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
“جس طرح لوہا لوہے کو کاٹتا ہے، ہو سکتا ہے کہ آگ کو ختم کرنے کے لئے آگ ہی کام میں آئے۔ میرے ذہن میں مکھی کو ختم کرنے کا ایک ہلکا سا خاکہ ہے تو سہی، مگر جب تک میں اس کے بارے میں پوری طرح سوچ نہیں لیتا اور خود مطمئن نہیں ہو جاتا، تمہیں بتانے سے کچھ فائدہ نہیں۔”
ملاح خاموش بیٹھا ہوا ہماری باتیں سن رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے اب اسے کسی بات کا خوف نہیں ہے۔ خطروں میں رہ کر اس کا خوف ایک حد تک دور ہو چکا تھا اور اب وہ کوئی نئی بات سن کر چونکتا نہیں تھا۔ شام ہو رہی تھی اس لئے ہم تینوں نیچے کیبن میں چلے گئے، کھانے کا سامان اب بہت کم رہ گیا تھا، اس لئے ہم نے بہت تھوڑی مقدار میں کھانا کھایا اور تھوڑا سا کھانا ملاح کے لئے لے کر جیک اوپر چلا گیا۔ ہم تھکے ہوئے تھے، مدت کے بعد تنہائی اور اطمینان نصیب ہوا تھا اس لئے ہم فوراً ہی سو گئے اور پھر اس کے بعد معلوم نہیں کیا ہوا۔ ہاں جب آنکھ کھلی تو سورج آہستہ آہستہ سمندر میں سے طلوع ہو رہا تھا۔ پانی بالکل پر سکون تھا۔ ہلکی ہلکی لہریں اٹھ رہی تھیں اور جہاز آہستہ آہستہ ہوا کے زور سے کسی نامعلوم سمت میں چلا جا رہا تھا۔ ملاح سو رہا تھا اور جہاز کا رخ پلٹنے والے آلے کا ڈنڈا جیک کے ہاتھ میں تھا۔ وہ رات بھر جاگتا رہا تھا اس لئے اس کی آنکھیں نیند کی وجہ سے سرخ ہو رہی تھیں۔ جان نے سب سے پہلا کام تو یہ کیا کہ دوڑ کر آلے کا ڈنڈا اپنے ہاتھ میں لے لیا اور جیک سے کہا کہ وہ اب سو جائے۔ جب جیک وہیں ڈیک پر تختے کا سہارا لے کر سو گیا تو جان نے ملاح کو جگایا وہ جلدی سے ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اور فوراً اس بات کی معافی مانگنے لگا کہ وہ بغیر اجازت لئے سو گیا تھا مگر جان نے کہا کہ کوئی بات نہیں، تم بھی تھک گئے ہوگے۔
کھانا چوں کہ اب کم رہ گیا تھا اس لئے جان نے ملاح کو اس کام پر لگا دیا کہ وہ سمندر سے مچھلیاں پکڑنے کی کوشش کرے۔ ساتھ ہی اس نے مجھے ایک چھوٹا سا جال دیا یہ ایسا جال تھا جس سے بچے تتلیاں وغیرہ پکڑا کرتے ہیں اور کہا کہ اگر ہو سکے تو میں سمندر کے اوپر اڑنے والے پرندوں کو پکڑنے کی کوشش کروں۔ کام بے شک مشکل ہے مگر ہو سکتا ہے کہ کوئی نہ کوئی پرندہ پھنس ہی جائے، اس طرح مچھلی کے علاوہ ہم بھنا ہوا گوشت بھی کھا سکیں گے! تازہ گوشت کھانے کو میں بھی بہت ترس رہا تھا کیوں کہ سمندر میں سفر کرتے ہوئے ہم ڈبوں میں بند کیا ہوا گوشت کھاتے رہے تھے۔ اس لئے میں نے فوراً جال ہاتھ میں لے لیا اور پرندوں کو پکڑنے کی کوشش کرنے لگا، ادھر ملاح نے ایک نوکیلے نیزے کی مدد سے سمندری مچھلیاں پکڑنی شروع کر دیں۔ جیسے ہی کوئی مچھلی سمندر کی سطح پر آتی، وہ نیزہ زور سے اس کی طرف پھینکتا اور نیزہ مچھلی کو چھید کر رکھ دیتا یہ نیزہ ایک قسم کا ہارپون بن گیا تھا جسے بڑی مچھلیوں کے شکاری عموماً استعمال کرتے ہیں۔ بڑی مشکل اور اچھل کود کے بعد میں نے بھی صرف ایک لمبی چونچ والا پرندہ پکڑا۔ خدا جانے اس کا نام کیا تھا؟ بہرحال وہ پرندہ تو ضرور تھا۔ ہم یہ خوراک لے کر نیچے کیبن میں آئے اور لکڑی کے خالی ڈبوں کو توڑ توڑ کر ان سے ایندھن کا کام لیا۔۔۔ مچھلیاں اور پرندہ بھون کر کھا لینے کے بعد ہم پھر اوپر آ گئے۔ جان نے دوربین لگا کر چاروں طرف دیکھا مگر خشکی کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔ کھانا کھانے کے بعد پیاس بری طرح لگ رہی تھی اور جو پانی ہمارے پاس تھا ہم اسے برے وقت کے لئے محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔ اس لئے ہمیں کسی نہ کسی جزیرے کی سخت ضرورت تھی، کوئی ٹاپو یا چھوٹی سی زمین بھی ہمیں مل جاتی تو ہم وہاں زمین کھود کر پانی نکال سکتے تھے، مگر سمندر کے سینے پر زمین نام کی کوئی چیز دور دور تک دکھائی نہ دیتی تھی!
پیاس کے مارے میرے حلق میں کانٹے پڑے جا رہے تھے۔ زبان اتنی خشک ہو گئی تھی کہ باتیں کرتے وقت تالو سے چپک کر رہ جاتی تھی۔ ہر ہر قدم پر مصیبت، ہر گھڑی آفت و الجھن۔ سکون کس چڑیا کا نام ہے؟ راحت کسے کہتے ہیں؟ یہ ہمیں بالکل معلوم نہ تھا۔ حالاں کہ جان ایسے خطرناک سفر میں بھی جواں مردی اور ہمت سے کام لے رہا تھا۔ مگر صرف میں ہی یہ دیکھ رہا تھا کہ اس کے چہرے پر بے چینی اور بے اطمینانی بری طرح چھائی ہوئی تھی ہم لوگ کہیں زیادہ نہ سہم جائیں اس لئے وہ اپنی پریشانی کو ظاہر نہیں کر رہا تھا۔ مگر اس کے ہر انداز اور ہر بات سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ بے حد پریشان ہے۔ بادبان کے ستون سے سہارا لے کر وہ خاموش بیٹھ گیا اور ایک ہی سمت ٹکٹکی لگائے دیکھتا رہا
جاری ہے…
by Abdul Muneeb | Apr 18, 2024 | ڈراؤنی کہانیاں, ناولز
قسط ۔۔17
سراج انور
پچھلی قسط کا خلاصہ :
جان نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ تمام ساتھیوں کے ہمراہ چٹانوں والے مجسموں کے پاس جا کر ان کا راز معلوم کرے گا۔ مگر اچانک ایک جگہ انہیں ایک نرالے قسم کا پہیہ نظر آیا جس میں سے آواز آ رہی تھی۔ اس آواز نے انہیں انتباہ دیا کہ وہ سب اس جزیرے سے نکل جائیں کیونکہ کل آدھی رات کو یہ جزیرہ پانی میں غرق ہونا شروع ہو جائے گا اور تب ان سب کا یہاں سے نکلنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ آواز نے مزید بتایا کہ وہ لوگ سیارہ زہرہ سے آتے ہیں اور ہماری دنیا کے اس جزیرے میں ایک خاص طاقت ہے جنہیں وہ سوبیا کہتے ہیں۔ سوبیا زہرہ میں نہیں ہوتی مگر ان کے لئے یہ وہی کام کرتی ہے جو ہماری دنیا والوں کے لئے بجلی کرتی ہے۔ جان کے سوال کرنے پر اس آواز نے بتایا کہ وہ خوفناک مکھی ساتھ والے دوسرے جزیرے پر ہے۔ آدھ گھنٹے کے لگاتار سفر کے بعد جان اور اس کے ساتھی ان چٹانوں کے قریب پہنچ گئے، جو دور سے انسانی شکل کی دکھائی دیتی تھیں۔
۔۔۔ اب آپ آگے پڑھئے ۔۔۔
ہر طرف گھوم کر ہم نے پتھر کے ان بتوں کا جائزہ لیا۔ باقی سب ساتھی تو انہیں قریب پہنچ کر دیکھتے رہے، مگر میں صرف ایک ہی بات سوچتا رہا۔ بتوں کی گردنوں کے قریب کی چٹانیں جگہ جگہ سے اکھڑی ہوئی تھیں۔ بار بار سوچتا تھا کہ آخر اس کا مطلب کیا ہے؟ کیا وہ خاص طاقت سوبیا ان بتوں کی گردنوں کے نیچے دفن ہے! اگر ہاں توپھر زہرہ کے دیو یقیناً ان بتوں کی گردنیں ہاتھ سے پکڑ کر اٹھا لیتے ہوں گے۔ ان کے نزدیک یہ سر ایک قسم کا ڈھکنا یا ڈاٹ تھے جو سوبیا کے مونہہ پر لگی ہوئی تھی۔ ان لوگوں کے لئے تو خیر ان بتوں کا سر پکڑ کر اٹھانا بہت آسان ہوتا ہو گا، لیکن ہمارے لئے تقریباً نا ممکن تھا۔ کئی ٹن وزنی چار بتوں کے سروں کو اٹھانا ہمارے بس کا کام نہیں تھا۔
ایک طرف بیٹھ کر میں یہی سوچتا رہا کہ کس طریقے سے بتوں کے یہ سر ہٹائے جائیں۔ اس عرصے میں جان دوسروں کے ساتھ ادھر ادھر سوبیا کے ذخیرے کو تلاش کرتا رہا۔ مگر وہ ذخیرہ شاید اس کو کہیں بھی نہ ملا تھا اور ملتا بھی کیسے؟ جہاں سوبیا موجود تھی، وہ جگہ تو میں نے تلاش کر لی تھی۔ اپنی دریافت کا حال سنانے کے لئے میں جان کو آواز دینے ہی والا تھا کہ اچانک جیک کی تیز آواز مجھے سنائی دی۔
“فیروز یہاں آؤ، جلدی۔”
میں دوڑتا ہوا اس طرف پہنچا جہاں جیک اور جان حیرت سے ایک مقام کو دیکھ رہے تھے۔ میں نے بھی جب اس طرف دیکھا تو حیرت کے مارے میری آنکھیں بھی کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ میرے سامنے ایک عجیب قسم کا غار تھا اور اس غار کے چاروں طرف ایک جنگلا سا ہوا تھا۔ غار کے برابر ہی کچھ نرالی قسم کی مشینیں لگی ہوئی تھیں اور ان مشینوں میں ریلوے پلیٹ فارم پر سگنل گرانے کے ہینڈل جیسے کچھ اسٹینڈ سے لگے ہوئے تھے۔ یقیناً یہ سب ان زہروی لوگوں کا ہی بنایا ہوا تھا۔ میرے لئے چوں کہ وہ چیزیں نئی تھیں اس لئے میں ان کا صحیح نام بھی نہیں لے سکتا۔ یوں سمجھئے کہ وہ مشینیں اس قسم کی تھیں جو ہم میں سے کسی نے بھی دنیا کے کسی بھی حصے پر نہیں دیکھی تھیں! غار کے قریب جا کر اس کے اندر جھانکنے سے معلوم ہوا کہ غار کا مونہہ پلاسٹک جیسی دھات سے ڈھکا ہوا ہے اور اس کی تہہ میں خون کے رنگ جیسی کسی دھات کے ٹکڑے پڑے ہوئے ہیں اور اس دھات میں سے ہلکی اودی روشنی خارج ہو رہی ہے!
تو یہ تھی وہ سوبیا دھات! عطون یعنی زہرہ کے رہنے والے اسی دھات کو حاصل کرنے کے لئے ہماری دنیا میں آتے تھے۔ سوبیا کے لئے مشینیں انہوں نے لگائی تھیں اور چوں کہ وہ مشینیں ہمارے لئے نئی تھیں لہذا بغیر جانے بوجھے ہم کسی بھی مشین کو چھیڑتے ہوئے گھبرا رہے تھے۔ خدا جانے کیا واقعہ پیش آ جائے؟ شام ہونے والی تھی اور اب ڈوبتے ہوئے سورج کی روشنی میں پتھر کے وہ چار بت بہت خوفناک لگ رہے تھے، جان نے بہت دیر کے سوچ بچار کے بعد مشینوں کو دور سے جانچتے ہوئے کہا۔ “یہ مشینیں ہمارے لئے نئی ہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ فی الحال یہاں اس چٹان کے نیچے رات بسر کی جائے اور پھر صبح مشینوں کو غور سے دیکھ کر یہ معلوم کیا جائے کہ ہم سوبیا دھات کو کس طرح حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر ہم ایٹمی طاقت کے بجائے یہ نئی طاقت دریافت کر لیں تو پوری دنیا میں تہلکہ مچ جائے گا اور ہمارا نام بھی ہو جائے گا ہم اربوں روپے کے مالک ہو جائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ سب میری اس رائے سے اتفاق کریں گے۔”
“آپ کا خیال بالکل درست ہے ہم رات کو اسی مقام پر سو جاتے ہیں۔”
اتنا کہہ کر جیک چٹان کے نیچے کی جگہ کو صاف کرنے لگا۔ ملاحوں نے بھی اس کی دیکھا دیکھی جگہ کو صاف کیا اور پھر طے یہ پایا کہ جہاز میں سے بستر وغیرہ نکال کر لے آیا جائے۔ مگر جان اس تجویز کا مخالف تھا۔ وہ کہنے لگا کہ اس طرح وقت بھی ضائع ہو گا اور ہم سب پھر الگ ہو جائیں گے، ایسی جگہ یہ ضروری ہے کہ ہم ہر وقت ساتھ ہی رہیں۔
مجبوراً اسی جگہ ہم نے اپنی کمر ٹکائی۔ تھکن اتنی سوار تھی کہ آنکھیں خود بخود بند ہوئی جاتی تھیں۔ ملاحوں اور کبڑے نے تو لیٹتے ہی اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ رات کا اندھیرا اب آہستہ آہستہ چاروں طرف پھیلنے لگا تھا۔ میں چٹان سے کمر لگائے لگاتار ان پتھر کے بتوں کو دیکھے جا رہا تھا جو رات کی سیاہی میں اور بھیانک دکھائی دے رہے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ نہ جانے اب کیا ہو گا۔ ہم نکلے کس کام سے تھے اور پھنس کہاں گئے؟ سوبیا دھات کے بارے میں سوچ کر خوشی بھی ہوئی اور افسوس بھی۔ خوشی تو اس لئے ہوئی کہ اتنی قیمتی دھات دریافت کر لی جائے گی اور افسوس یوں کہ زہروی باشندے کے منع کرنے کے باوجود بھی ہم اس عجیب دھات کے ذخیرے تک آ گئے تھے۔ شاید کسی خطرے کی وجہ سے اس نے ہمیں سوبیا کے قریب جانے سے منع کیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت تک تو وہاں کچھ زیادہ خطرہ نہیں تھا مگر سوال یہ تھا کہ اس جزیرے سے نکلنے کے بعد جب ہم اس جزیرے میں پہنچیں گے جہاں وہ خوفناک مکھی موجود ہے تو پھر کیا ہو گا؟ جس خوفناک جانور کا مقابلہ زہرہ کے رہنے والے دیو نہ کر سکے، کیا ہم کر لیں گے؟ ایسا ہی کچھ سوچتے سوچتے میری بھی آنکھ لگ گئی!
اندازاً بتا سکتا ہوں کہ شاید اس وقت رات کے بارہ بجے ہوں گے میری آنکھ نہ جانے کیوں کھل گئی شاید میری کمر میں کوئی کنکر چبھ رہا تھا، یا پھر خدا نے مجھے اپنی حفاظت کرنے کے لئے جگا دیا ہو گا۔ آپ کو میری وہ پرانی عادت یاد ہو گی جس کے بارے میں میں پیچھے لکھ آیا ہوں۔ یعنی جاگنے کے بعد بھی آنکھیں بند رکھنی اور پھر آہستہ آہستہ کر کے کھولنی۔ بس ایسا ہی میں نے اس وقت بھی کیا۔ آنکھیں آہستہ سے کھول کر میں نے دیکھا کہ کوئی دھیرے دھیرے جان کی طرف جا رہا ہے۔ فوراً ہی آنکھیں پوری طرح کھول کر میں نے اچھی طرح دیکھا تو معلوم ہوا کہ کبڑا ہے! وہ جان کے پاس جا کر خاموش کھڑا ہو گیا اور پھر ہاتھ کا اشارہ کر کے کسی کو اپنی طرف بلایا۔ اب کے میں نے دیکھا کہ ایک ملاح آپستہ سے اٹھ کر بلی جیسے بے آواز قدم رکھتا ہوا اس کے پاس پہنچ گیا۔ اب دراصل عمل کا وقت آ گیا تھا۔ میں نے بغیر ہلے جلے آہستہ سے اپنا پستول ہاتھ میں لے لیا اور انتظار کرنے لگا کہ کبڑا اب کیا کرتا ہے؟ میرا خیال تھا کہ اس کی کمر میں بندھے ہوئے ٹپکے میں یقیناً کوئی دھاردار چھری ہو گی جس سے وہ جان کو ختم کرنا چاہتا ہو گا۔ مگر یہ دیکھ کر میری حیرت کی کوئی حد نہ رہی کہ وہ ملاح کو خاموش رہنے کا اشارہ کر کے اور جان کو سوتا ہوا پا کر ملاح کے ساتھ سوبیا دھات کے ذخیرے کی سمت میں جانے لگا۔!
اب کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں رہی تھی۔ کبڑے کا ارادہ صاف ظاہر تھا۔ وہ ہماری لا علمی میں اس قیمتی خزانے کو حاصل کرنا چاہتا تھا جو ہم نے حال ہی میں دریافت کیا تھا۔ بجائے اس کے کہ میں ان دونوں کو اس حرکت سے باز رکھتا، میں بھی ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ دراصل میں دیکھنا چاہتا تھا کہ کبڑا کیا کرتا ہے؟ چٹانوں کی آڑ لیتا اور ان کی نظروں سے بچتا ہوا میں جلد ہی اس جگہ پہنچ گیا جہاں وہ دونوں کھڑے تھے اور جہاں وہ نرالی قسم کی مشینیں تھیں۔ مگر پھر یہ دیکھ کر حیرت کی وجہ سے میرے جسم میں سنسنی دوڑ گئی کہ اب ان مشینوں سے کچھ ہی فاصلے پر پتھر کا بنا ہوا ایک لمبا تڑنگا بت کھڑا ہوا ہے۔ میں نے اپنے ذہن پر بہت زور ڈالا اور یہ سوچنے کی بہت کوشش کی کہ کیا شام سے پہلے وہ بت اس جگہ موجود تھا؟ مگر اس وقت میرا ذہن اتنا بے کار ہو چکا تھا کہ کوئی معقول جواب نہ دے سکا۔ میں یہ سوچ کر مطمئن ہو گیا کہ شاید وہ بت وہاں پہلے ہی سے موجود ہو گا اور جلدی میں ہم لوگوں کی نظر اس پر نہ پڑی ہو گی۔ تھوڑا آگے بڑھ کر میں نے چاند کی خاصی تیز روشنی میں اس بت کو غور سے دیکھا۔ اونچائی میں وہ بت کم از کم ساٹھ فٹ اونچا تھا۔ اس کی بناوٹ ایسی تھی کہ بڑا ہیبت ناک نظر آتا تھا۔ اس کے ہاتھ پاؤں سب کچھ تھے، میں اس کے مقابلے میں بالکل چیونٹی نظر آتا تھا۔ ڈر یہ تھا کہ اگر خدانخواستہ وہ بت مجھ پر گر پڑتا تو میں یقیناً سرمہ بن جاتا۔!
میری طرح شاید کبڑا بھی یہ سوچ کر حیرت زدہ تھا کہ وہ بت وہاں کس طرح آ گیا۔ مگر پھر وہ بھی یہ سمجھ کر کہ غالباً اس کی نظر کا دھوکا ہے، ملاح کو ساتھ لے کر آگے بڑھنے لگا۔ میں نے یہ مناسب سمجھا کہ چٹان کے پیچھے کھڑے رہ کر اس کی حرکتیں دیکھتا رہوں اور پھر موقع ملنے پر اس کا مقابلہ کروں! کبڑا آہستہ آہستہ پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہوا ان مشینوں کے قریب پہنچا جہاں بہت زیادہ گیئر لگے ہوئے تھے۔ ان گیئرز کے برابر ہی وہ غار تھا جیس میں دہکتی ہوئی سوبیا تھی۔ کبڑے نے پہلے تو غار کے اندر جھانک کر دیکھا اور پھر ان گیئرز کے قریب پہنچا۔
کبڑے کی بیوقوفی کا یہ سے بڑا ثبوت تھا۔ اگر کسی سمجھ دار شخص کو دہکتا ہوا انگارہ اٹھانا ہوتا ہے تو وہ اسے کسی چیز سے پکڑ کر اٹھاتا ہے مگر کبڑے کو یہ بالکل معلوم نہ تھا کہ دھات کس قسم کی ہے اور اگر اس نے اسے حاصل بھی کر لیا تو اسے لے کر کس طرح جائے گا؟ سچ ہے عقل مند وہی ہے جو آنے والے برے وقت کے بارے میں پہلے ہی سے سوچ لے! انسان کتنا لالچی ہے! اپنا مطلب حاصل کرنے کے لئے خواہ مخواہ خطرے میں کود پڑتا ہے اور ایسے موقعوں پر اسے اپنی جان کی بھی پروا نہیں ہوتی۔ کبڑے کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اس نے پہلے تو گیئرز کو چھو کر دیکھا اور پھر بغیر جانے بوجھے آہستہ سے ایک گیئر کھینچ لیا۔ کٹ کی آواز آئی میرا خیال تھا کہ فوراً ہی کچھ نہ کچھ ہو گا۔ مگر کچھ بھی نہ ہوا۔ کبڑا شاید اس سے مطمئن ہو گیا اور پھر اس نے آگے بڑھ کر دوسرا گیئر کھینچا۔ اس بار بھی کوئی خاص واقعہ نہ ہوا، البتہ ایک ہلکی سی گڑگڑاہٹ سنائی دینے لگی۔
اس گڑگڑاہٹ کو سن کر میں نے چاروں طرف غور سے دیکھا۔ یہ ہلکی سی آواز دراصل کسی نظر نہ آنے والے خطرے کا پیش خیمہ تھی! اپنا سانس روکے ہوئے میں حیرت سے اس پتھر کے لمبے بت کو دیکھے جا رہا تھا۔ اور مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے سوبیا دھات کا یہ عجیب محافظ یقیناً اپنا فرض ادا کرے گا۔ اتنی دیر میں کبڑا تیسرے گیئر کا ہینڈل بھی کھینچ چکا تھا۔ اچانک ایک زوردار کڑاکا ہوا اور پھر وہ پورا علاقہ ایک عجیب سی روشنی میں نہا گیا اور اس روشنی میں یکایک میری نظر پتھر کے اس بت پر پڑی۔ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ خوف کے مارے میری گھگی بندھ گئی ایسا لگا جیسے میرا سارا خون کسی نے نچوڑ لیا ہے۔ ہاتھ پیروں میں جان نہ رہی اور میں نے جلدی سے چٹان کا سہارا لے لیا۔ ملاح اور کبڑا، سہمے ہوئے اس بت کو دیکھ رہے تھے اور۔۔۔۔۔! اور وہ پتھر کا بت اب آہستہ آہستہ اپنی جگہ سے ہل رہا تھا! اس میں اچانک زندگی پیدا ہو گئی تھی۔ اس نے پہلا قدم بڑھایا۔ اب اس کا ایک ایک حصہ بالکل انسانوں کی طرح کام کر رہا تھا! چال میں لڑکھڑاہٹ ضرور تھی مگر مونہہ اوپر اٹھائے ہوئے بڑے خوف ناک انداز میں وہ لگاتار آگے بڑھ رہا تھا۔
میں نے بچپن میں محلے کے ایک بوڑھے سے دیوپری کی کہانیاں سنی تھیں۔ تب میں سن سن کر سہمتا تھا، اس وقت مجھے کیا معلوم تھا کہ میں خود بھی اسی قسم کی کہانیوں کا کردار بن جاؤں گا! میں نے جلدی سے پلٹ کر کبڑے کو دیکھا۔ دہشت کے باعث وہ جس جگہ کھڑا تھا وہیں کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔ ملاح نے نہ جانے کیسے خود میں ہمت پیدا کر لی کہ زمین سے ایک موٹا سا پتھر اٹھا کر اس نے پتھر کے اس جیتے جاگتے دیو پر پھینک دیا اور وہ پتھر اس بت میں اس طرح سما گیا جیسے تالاب میں کوئی چھوٹا سا کنکر ڈوب جاتا ہے! مگر اس حرکت کا اثر بہت غلط ہوا، پتھر کا وہ خوف ناک بت اب ملاح کی طرف متوجہ ہو گیا اور اپنا ہاتھ بڑھا کر اس نے ملاح کو اپنی مٹھی میں دبوچ لیا اور پھر جو ہونا چاہئے تھا وہ ہوا۔ غریب ملاح کا کچومر نکل گیا۔ کچھ دیر تک تو وہ اس بت کی مٹھی میں لٹکا ہوا بے بسی سے اپنی ٹانگیں ہلاتا رہا اور اس کے بعد اس کا بھی وہی انجام ہوا جو اس کے پہلے دو ساتھیوں کا ہو چکا تھا۔
یہ حالت دیکھ کر کبڑے نے بڑی خوف ناک چیخیں ماریں اور پھر بری طرح سر پر پیر رکھ کر بھاگا۔ مگر بھاگتے بھاگتے بھی اس کے ٹھوکر لگی اور وہ مونہہ کے بل زمین پر گر گیا۔ پتھر کے جان دار بت نے اسے بے بس پا کر جلدی سے جھک کر اٹھا لیا اور پھر اپنی مٹھی میں دبا کر۔ ۔ ۔ ۔ اف خدا! آگے لکھتے ہوئے بھی میرا کلیجہ مونہہ کو آتا ہے!۔۔۔ میں بیان نہیں کر سکتا کہ کبڑے نے کیسی سہمی ہوئی چیخیں ماریں، کس بری طرح وہ چلایا اور مدد کے لئے کس کس انداز سے اس نے آوازیں دیں۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنی مونہہ چھپا لیا تھا۔ اس لئے اس کے عبرت ناک انجام کو نہیں دیکھ سکا۔ ابھی وہ بت کبڑے کو اپنے ہاتھ میں مسلنے میں مصروف ہی تھا کہ میں کسی قسم کی آواز پیدا کئے بغیر تیزی سے جان کی طرف بھاگا۔
ایسا لگتا تھا کہ جان خود بھی وہ زبردست کڑاکا سن کر اور اس عجیب سی روشنی کو دیکھ کر جاگ چکا تھا اور میری ہی طرف بھاگا ہوا چلا آ رہا تھا۔ اس کے پیچھے پیچھے جیک اور چوتھا ملاح تھا۔ میں انہیں اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ میرے رک جانے کی وجہ دراصل کچھ اور تھی کیوں کہ ایک حیرت انگیز اور عجیب بات میرے دیکھنے میں یہ آئی کہ پتھر کے وہ چاروں بت اب آہستہ آہستہ ان تینوں کے پیچھے آ رہے تھے۔ ان بتوں سے گزرتی ہوئی میری نظر پھر ان چٹانوں کی طرف گئی جہاں یہ بت گڑے ہوئے تھے مگر آپ میری حیرت کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ چٹانیں اب بالکل خالی تھیں۔ البتہ دو اور بت دوسری چٹانوں میں سے اس طرح اوپر نکل رہے تھے جس طرح کوئی شخص پانی میں سے آہستہ آہستہ ابھرتا ہے۔
فوراً ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ اس وقت ہم سخت خطرے میں گھرے ہوئے ہیں۔ کوئی انسان ہوتا تو اس سے دو دو ہاتھ بھی کر لیتے مگر پتھر کے ان دیوؤں سے مقابلہ کرنے کا خیال بھی مشکل تھا۔ میرے پیچھے صرف ایک بت مصری ممیوں کی طرح لڑکھڑاتا ہوا آ رہا تھا اور میرے بالکل سامنے سے ایک نہ دو پورے چھ پتھروں کے دیو ہلکے ہلکے قدم بڑھاتے ہوئے چلے آ رہے تھے! جان نے بھی پیچھے مڑ کا انہیں دیکھ لیا تھا اور وہ خود بھی خوف زدہ دکھائی دیتا تھا۔ ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کریں اور کدھر بھاگیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہماری حماقت تھی کہ زہروی باشندوں کے منع کرنے کے باوجود بھی ہم خواہ مخواہ ان چٹانوں تک آ گئے تھے۔ اب سوائے خدا کے ہمیں کوئی نہیں بچا سکتا تھا!
ہمارے تیز دوڑنے کے باوجود بھی وہ بت ہم سے بہت قریب تھے، اسی طرح سینہ تانے اور بغیر نیچے دیکھے وہ ہماری طرف بڑھتے چلے آ رہے تھے۔ یکایک مجھے جان کی آواز سنائی دی۔
“سب لوگ جتنی تیزی سے ہو سکے اپنے جہاز کی طرف بھاگیں۔”
یہ الفاظ سنتے ہی میں اپنے پیچھے آنے والے بت کو دھوکا دے کر کنی کاٹ گیا اور دائیں طرف مڑ کر پوری قوت سے جہاز کی طرف بھاگنا شروع کر دیا۔ میرے ساتھ ہی دوسرے لوگ بھی بھاگے۔ جان کتنی عزیز چیز ہوتی ہے! ہم اسے بچانے کے لئے اتنی تیزی سے بھاگ رہے تھے کہ زندگی میں شاید کبھی نہ دوڑے ہوں گے۔ راستے میں ٹھوکریں بھی لگیں۔ گر بھی پڑے مگر پھر اٹھ کر بھاگنے لگے۔ ہم تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ اچانک پھر ویسا ہی زوردار کڑاکا ہوا۔ پورا جزیرہ اس عجیب سی روشنی میں نہا گیا۔ اور سب سے زیادہ یہ روشنی ان ساتوں پتھر کے بتوں پر پڑی۔ بھاگتے بھاگتے٥ میں نے پیچھے مڑ کا دیکھا تو بڑا اچنبھا ہوا کیونکہ روشنی پڑتے ہی یکایک بت اپنی جگہ پر رک گئے اور انہوں نے ہمارا تعاقب کرنا بند کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ الٹے قدموں سوبیا دھات کے ذخیرے کی طرف جانے لگے۔ ہم چاروں طرف سے انہیں واپس جاتے دیکھتے رہے اور پھر کچھ ہی دیر بعد وہ بت اپنی اپنی جگہوں پر جا کر پتھر کی چٹانوں میں اس طرح دھنس گئے جیسے وہ چٹانیں نہ ہوں مٹی کے تودے ہوں!
اور جب وہ اپنی جگہوں پر جم گئے تو اچانک مجھے پورا جزیرہ ہلتا ہوا محسوس ہوا۔ چونکہ میں دلی کے ہوٹل میں کام کرتے وقت ہزاروں بار لفٹ میں اوپر سے نیچے آ چکا تھا اس لئے فوراً ہی مجھے ایسا لگا جیسے یہ جزیرہ بھی لفٹ بن گیا ہے اور دھیرے دھیرے نیچے کی طرف جا رہا ہے۔ شاید جان نے بھی یہ بات نوٹ کر لی کیونکہ پھر وہ فوراً ہی چیخا۔
“جلدی اپنے جہاز کی طرف بھاگو۔ جزیرہ غرق ہو رہا ہے۔”
یہ سنتے ہی جیسے ہمارے جسم بجلی بن گئے۔ ایک بار پھر پوری رفتار سے ہم نے اپنے جہاز کی طرف دوڑنا شروع کر دیا۔ جہاز تک پہنچتے پہنچتے میں نے دیکھا کہ پانی اب آہستہ آہستہ جزیرے کی زمین پر آنے لگا تھا۔ اور یہ اس بات کی نشانی تھی کہ جزیرہ اب کچھ ہی دیر بعد پانی میں غرق ہو جانے والا ہے۔ پانی بڑی تیزی کے ساتھ اوپر آ رہا تھا اور پھر آخر ایک وقت ایسا آ گیا جب کہ ہم آدھے آدھے دھڑ تک پانی میں ڈوب گئے اور ۔۔۔
جاری ہے..