خوفناک جزیرہ

خوفناک جزیرہ

قسط:16

سراج انور

پچھلی قسط کا خلاصہ :

دونوں دیوزاد نے جان اور اس کی ٹیم کو کھانے کے لیے ایک بڑی مچھلی پیش کی جو تقریباً آٹھ فیٹ لمبی تھی۔ کسی طرح ان سب نے گیلی لکڑیوں کو سلگا کر مچھلی بھونی اور اپنے اپنے پیٹ بھرے۔ پھر انہوں نے پینتالیس فیٹ لمبی سرنگ کھود کر جزیرے کی کھلی زمین پر قدم رکھا۔ وہاں انہیں ایک چٹان کے بالکل نیچے ایک غار نظر آیا، چوںکہ وہ لوگ بری طرح تھکے ہوئے تھے، اس لئے غار میں پہنچتے ہی فوراً سو گئے۔ صبح کو دونوں دیوزاد انہیں نہ پا کر بھڑک گئے اور تلاش کرتے ہوئے ان سب تک پہنچ گئے۔ دیوزاد ان سب کو اپنی گرفت میں لینے ہی والے تھے کہ ایک اور بےانتہا عظیم جثہ کا دیوزاد آ پہنچا جو ان دونوں کا باپ لگ رہا تھا۔ تقریباً ہزار فٹ لمبے ایک بہت بڑے راکٹ میں بیٹھ کر وہ تمام دیو وہاں سے آسمان میں پرواز کر گئے۔ جان اور اس کی ٹیم نے دوربین کے ذریعے عجیب قسم کی تراشی ہوئی چٹانیں دیکھیں جو دور سے بالکل انسانوں کے قد آدم مجسمے نظر آ رہی تھیں۔

۔۔۔ اب آپ آگے پڑھئے ۔۔۔

“پہلا تو یہ کہ ہم اس خطرے سے دور ہو جائیں گے۔” کبڑے نے جواب دیا۔ “جو اس جزیرے میں ایک بار پیش آ چکا ہے اور ہو سکتا ہے کہ پھر دوبارہ پیش آ جائے۔ دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ ہم سمندر میں دور جا کر اس جزیرے کا انجام دیکھیں گے۔ یہ دیکھیں گے کہ آیا یہ وہی جزیرہ ہے جو پندرہ دن بعد سمندر میں آہستہ آہستہ غرق ہو جاتا ہے یا کوئی دوسرا۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ طریقہ ہم سب کے حق میں بہتر ثابت ہو گا۔”

“لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ بزدلی ہے!” جان نے سنجیدگی سے کہا۔

“اگر یہ بزدلی ہے۔” کبڑے نے آگے بڑھ کر غصہ سے کہا “اگر یہ بزدلی ہے تو پھر میں بزدل ہی بننا چاہتا ہوں۔ آپ اگر ان بتوں کی طرف بڑھے تو میں سمندر میں کود کر اپنی جان دے دوں گا۔”

“تمہارے جان دینے یا نہ دینے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اس لئے تم کو اجازت ہے۔” جان نے خشک لہجے میں کہا۔

کہنے کو تو کبڑے نے سمندر میں کودنے کا نام لینا بہت آسان سمجھا تھا مگر جب جان نے اس کی اجازت دے دی تو سوچنے لگا اور پھر شاید ہمارے سامنے پہلی بار روتے ہوئے کہنے لگا۔

“میں نے عبدل کی بات مان کر زندگی میں سب سے بڑی حماقت کی ہے۔ میں اب مجبور ہوں۔ آپ جانتے ہیں نا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا۔ مجھے اپنی جان پیاری ہے۔ مگر۔ ۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ ۔ ” وہ مونہہ چھپا کر رونے لگا۔ ملاحوں کے چہرے بھی اتر گئے اور وہ بھی خاموشی سے زمین پر بیٹھ گئے یہ حالت دیکھ کر جان نے نرمی سے کہا۔

“میں تمہارا برا نہیں چاپتا چتین۔ میں خود بھی یہی چاہتا ہوں کہ جلد سے جلد اس جزیرے کو چھوڑ دوں۔ لیکن فرض کرو اگر یہ وہی جزیرہ ہوا جس کی ہمیں تلاش ہے تو پھر ہم کیا کریں گے؟ کیا سمندر میں دور کھڑے ہو کر ہم اس کے ڈوبنے کا تماشا دیکھیں گے؟ پورے پندرہ دن کے بعد یہ جزیرہ پھر سمندر سے باہر آئے گا۔ کیا ہم پندرہ دن تک سمندر میں لنگر ڈالے طوفان کا مقابلہ کرتے ہوئے اس کے ابھرنے کا انتظار کرتے رہیں گے۔؟ ہر گز نہیں نہ تو میں یہ خطرہ مول لے سکتا ہوں اور نہ ہی اپنا وقت ضائع کر سکتا ہوں۔”

“ٹھیک ہے۔” کبڑے نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ “اس وقت تو خیر ہم کنارے پر ہیں لکین فرض کیجئے اگر آگے چلتے چلتے ہم جزیرے کے بیچ میں پہنچ گئے اور پھر یہ جزیرہ آہستہ آہستہ ڈوبنے لگا تو کیا ہم بھاگ کر اپنے جہاز تک واپس آ سکیں گے! کیا ہم جزیرے کے بیچ میں ڈوب نہ جائیں گے؟”

“میرے عزیز بھلا ایسا کس طرح ہو سکتا ہے؟ اول تو ہم سب تیرنا جانتے ہیں اور تیرتے ہوئے اپنے جہاز تک جا سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جزیرے کے ڈوبنے کے بعد ہمارا جہاز خود بخود پانی میں آ جائے گا۔ جب کہ اس وقت اس کو پانی میں کھینچ کر لے جانا ہی کٹھن ہے۔ اس وقت ہم آسانی سے جہاز تک پہنچ کر سمندر میں سفر کر سکتے ہیں!”

بات معقول تھی اس لئے اس بار کسی نے جان کی بات نہ کاٹی اور سب “جیسے آپ کی مرضی” کہہ کر خاموش ہو گئے۔ میں نے کھنکھیوں سے کبڑے چتین اور ملاحوں کو دیکھا۔ ان تینوں کے چہرے اترے ہوئے تھے۔ ہماری نظر بچا کر چتین نے ملاحوں سے کچھ کہا بھی، مگر میں سمجھ نہ سکا کہ کہا کیا ہے؟ ہاں اتنا اب میں ضرور سمجھ گیا تھا کہ کبڑا ملاحوں سے مل کر پھر کوئی سازش کرنا چاہتا تھا۔ میرے ہوشیار رہنے کا وقت آ گیا تھا اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اپنے پستول کو ہر وقت ساتھ رکھوں۔۔۔ مگرافسوس ہمارا سب ساز و سامان جہاز میں ہی تھا اور جہاز جزیرے کی زمین پر آڑا پڑا ہوا تھا۔

کچھ دیر بعد جب جان بتوں کی طرف بڑھنے لگا تو میں نے کہا۔

“جناب میں کچھ کہنا چاہتا ہوں کیوں کہ میرے خیال میں آگے بڑھنے سے پہلے یہ بہتر ہو گا کہ ہم اپنی حفاظت کے لئے اپنے پستول بندوقیں اور دوسری چیزیں ساتھ لے لیں۔ اس وقت ہم بالکل نہتے ہیں اور ایسی حالت میں آگے بڑھنا خطرے سے خالی نہیں۔”

“کہتے تو ٹھیک ہو۔” جان نے سوچتے ہوئے کہنا شروع کیا۔ “فیروز! مگر ان پھٹی ہوئی پتلونوں اور قمیضوں کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی لباس بھی نہیں ہے قمیضیں بھی اب شاید اتار دینی پڑیں گی کیوں کہ گرمی کافی محسوس ہونے لگی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ گرمی یہاں اس قدر کیوں بڑھ گئی ہے؟”

“یہ مقام خط استوا سے قریب ہے اس لئے۔” جیک نے جواب دیا۔

“پھر بھی مگر اتنی گرمی!۔۔۔ میرے خیال میں اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہے۔ خیر اس کی بابت تو پھر سوچا جائے گا۔ میرا مطلب تو صرف یہ تھا کہ ننگے بدن پر چمڑے کی پیٹیاں لٹکانے سے ہماری کھال چھل جانے کا ڈر ہے مگر خیر اس کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ اس لئے آؤ پہلے ہم سامان نکال لیں۔” یہ کہہ کر جان جہاز کی طرف بڑھنے لگا اور ہم بھی اس کے پیچھے ہو لئے۔ جہاز کے اندر جانے کے بعد ہم اپنا اپنا ضروری سامان نکالنے لگے۔ دیکھا جائے تو یہ ہماری تیسری مہم کی تیاری تھی۔ خدا جانے ابھی ایسی کتنی مہمیں اور باقی تھیں! جب ہم جہاز سے نکل کر دوبارہ باہر آئے تو میں نے دیکھا کہ کبڑے نے اپنی کمر سے ایک ٹپکا باندھ رکھا ہے۔ میرے پوچھنے پر کہ وہ کیا چیز ہے، اس نے جواب دیا۔

“بات یہ ہے بیٹا کہ میں اب کافی بوڑھا ہو چکا ہوں۔ اس عمر میں ایسے سخت سفر کرنا اور اتنے عجیب و غریب خطروں سے دوچار ہونا میرے لئے بہت مشکل ہے۔ اس لئے اپنی کمر سے یہ کپڑا باندھ لیا ہے تاکہ چلتے وقت تھکن محسوس نہ ہو۔ ٹھیک ہے نا۔؟”

اب یہ ٹھیک تھا یا نہیں یہ تو مجھے معلوم نہ تھا۔ ویسے میں اتنا ضرور جانتا تھا کہ کبڑے کی نیت میں کچھ نہ کچھ کھوٹ ضرور ہے۔ اس لئے میں نے اس سے کہا۔

“ہو سکتا ہے کہ یہ ٹھیک ہو۔ لیکن میں نے بھی احتیاطاً پستول اپنے ہاتھ میں رکھ لیا ہے کیوں کہ مجھے کسی بھی وقت اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ کیوں ٹھیک ہے نا۔؟”

کبڑے نے میرا طنزیہ لہجہ سن کر اپنا مونہہ دوسری طرف پھیر لیا اور پھر بڑبڑانے لگا۔ اس کی اس حرکت کے ساتھ ہی وہ دونوں ملاح بھی مجھے گھور کر دیکھنے لگے۔ اب میں پورے طور پر سمجھ چکا تھا کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔ کبڑے نے ان دونوں ملاحوں کو اپنا ساتھی بنا لیا ہے اور اب یہ چاہتا ہے کہ جلد سے جلد ہم سے الگ ہو کر پھر اسی جگہ پہنچ جائے جہاں ہم نے خزانہ ڈھونڈا تھا اور اس طرح پورے خزانہ کا مالک بن جائے، سچ کہتا ہوں کہ یہ اندازہ لگا کر مجھے بڑی گھبراہٹ ہوئی۔ مجھے محسوس ہونے لگا کہ اب ہماری زندگیاں پھر خطرے میں ہیں اس لئے میں نے سوچ لیا چاہے کچھ ہو جائے، اس منحوس کبڑے کی اسکیم کو ہر گز کامیاب نہ ہونے دوں گا۔

آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اور پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے ہم اس مقام کی طرف بڑھنے لگے جہاں اب سے کچھ دیر پہلے وہ راکٹ کھڑا تھا اور جو نہ جانے زمین سے کتنے ہزار میل کی دوری پر نکل چکا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد ہم وہاں پہنچ گئے، راکٹ جس مقام سے اڑا تھا اب وہاں ایک گہرا گڑھا تھا۔ راکٹ کے نیچے سے جو شعلے نکلے تھے، یہ گڑھا دراصل انہوں نے ہی بنایا تھا۔ ہم گڑھے کو غور سے دیکھ ہی رہے تھے کہ یکایک چونک کر اسی جگہ ٹھٹھک گئے۔ ہماری نظریں گڑھے کے برابر ہی پڑی ہوئی ایک عجیب سی چیز پر گڑ کر رہ گئیں۔ یہ ایک نرالی قسم کا پہیہ تھا اور اس پہیے کے بیچ میں سے ایک اودی مائل نیلی روشنی نکل رہی تھی۔ ساتھ ہی یہ روشنی اس انداز سے گپ چپ کر رہی تھی، جیسے ستارے کرتے ہیں۔ ہم حیرت سے اس پہیے کو دیکھ ہی رہے تھے کہ اچانک اس روشنی نے رنگ بدلنے شروع کر دئے۔ پہلے اودی روشنی سبز ہوئی، پھر زرد اور سب سے آخر میں بے حد سرخ اتنی سرخ کہ اس پر ہماری نظر ہی نہ ٹھیرتی تھی، ہم تو جلدی سے گھبرا کر پیچھے ہٹ گئے، البتہ جان وہیں کھڑا رہا۔ وہ چوں کہ سائنس داں تھا اس لئے اسے اس چمکتی ہوئی چیز سے دل چسپی پیدا ہو گئی تھی!

اور پھر یکایک وہ بات دیکھنے میں آئی جس سے ہماری عقلیں دنگ رہ گئیں، اس پہئے میں سے ایک ہلکا سا سراٹا نکلنا شروع ہوا اور پھر یہ سراٹا آہستہ آہستہ بھرائی ہوئی آواز میں تبدیل ہونے لگا اور جلد ہی صاف انگریزی میں کسی نے کہا۔

“آپ حضرات سے میری ایک گزارش ہے اور وہ یہ کہ آپ جلد سے جلد اس جزیرے سے دور چلے جائیں۔ یہ بہت ضروری ہے۔”

“مگر۔۔۔ مگر آپ کون ہیں؟” جان نے پوچھا۔ “میں اتنا تو جان چکا ہوں کہ یہ ایک قسم کا لاؤڈ اسپیکر ہے جس سے آپ کی آواز آ رہی ہے مگر آپ ہیں کہاں؟”

“ہم اس وقت آپ سے ہزاروں میل دور خلا میں اڑ رہے ہیں۔ ابھی کچھ ہی دیر پہلے آپ ہمارے بچوں کی قید میں تھے آپ کو یاد ہے؟”

“جی ہاں یاد ہے۔ ہمیں شرارتی بچوں کی قید سے چھڑانے کا بہت بہت شکریہ۔” جان نے ہنس کر کہا “مگر آپ ہمیں واپس چلے جانے کو کیوں کہتے ہیں۔؟”

“اس لئے کہ اسی میں آپ کی بہتری ہے۔” آواز نے کہنا شروع کیا۔

“ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ تفصیل سے آپ کو سب کچھ بتائیں۔ مختصراً اتنا سن لیجئے کہ ہم سیارہ عطون سے آتے ہیں۔ یعنی وہ سیارہ جسے آپ زمین والے زہرہ کے نام سے جانتے ہیں۔ آپ کی دنیا کے اس جزیرے میں ایک خاص طاقت ہے جسے ہم سوبیا کہتے ہیں۔ سوبیا عطون میں نہیں ہوتی۔ مگر ہمارے لئے یہ وہی کام کرتی ہے جو آپ کی دنیا والوں کے لئے بجلی کرتی ہے۔ ہمارے کارخانے اور دوسری چیزیں سب اسی طاقت سے چلتی ہیں۔ اس جزیرے کے پتھروں میں چھپی ہوئی یہ طاقت ہمارے لئے کڑوڑوں سال تک کافی ہے۔ یہ طاقت اتنی حیرت انگیز ہے کہ پتھروں میں بھی جان ڈال سکتی ہے، جس مقام پر آپ آ گئے ہیں اس سے آگے بڑھنے پر ہماری حد شروع ہو جاتی ہے۔ ہم نے اس حد کے اندر اپنے کچھ پہرے دار مقرر کر رکھے ہیں جو آپ کو آگے بڑھنے سے روک سکتے ہیں اور ان پہرے داروں میں بھی وہی طاقت کام کر رہی ہے۔”

“مگر یہ طاقت کس جگہ چھپی ہوئی ہے؟” جان نے جلدی سے پوچھا۔ اس کی نظریں جزیرے میں ہر طرف گھوم رہی تھی۔

“ان پتھر کے بتوں کے نزدیک جو اس وقت آپ سے دو برط یعنی آپ کے حساب سے دو فرلانگ کے فاصلے پر ہیں۔” آواز نے کہنا شروع کیا۔۔۔ “میں آپ کو پھر آگاہ کرتا ہوں کہ آپ واپس چلے جائیں۔ کل آدھی رات کو یہ جزیرہ پانی میں غرق ہونا شروع ہو جائے گا اور تب آپ کا یہاں سے نکلنا بہت مشکل ہو گا۔”

“بہت اچھا ہم چلے جائیں گے مگر میں آپ سے دو باتیں اور پوچھنا چاہتا ہوں۔” جان نے کہا۔ وہ گھومتے ہوئے پہیہ کو غور سے دیکھ رہا تھا۔

“جلدی کہئے، کیوں کہ جلد ہی وہ مقام آنے والا ہے جب کہ آواز کی یہ لہریں آپ تک نہیں پہنچ سکیں گی۔ اور میں آپ سے بات نہیں کر سکوں گا۔”

“میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ اس جزیرے کے پانی میں غرق ہونے کا راز کیا ہے؟” جان نے پوچھا۔

“یہ ہمارے بنائے ہوئے خاص پروگرام کے ساتھ ڈوبتا اور ابھرتا ہے۔ وہ طاقت سوبیا پندرہ دن تک پانی میں ڈوبے رہنے سے زیادہ قوت حاصل کرتی ہے اور پھر پندرہ دن بعد پانی سے اوپر آنے پر پچاس ہزار گنا طاقت بن جاتی ہے، ایسا سمجھ لیجئے کہ یہ ایک قسم کی بیٹری چارجنگ ہے جو ہم عطون میں بیٹھ کر ریڈیائی لہروں کے ذریعے کرتے ہیں۔ مگر آپ بے فکر رہئے ہم آپ کی دنیا کو غرق کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ ہاں اگر ہم چاہیں تو ایسا کر سکتے ہیں۔ مگر ہم عطونی لوگ بہت امن پسند ہیں، اس لئے ایسا کبھی نہیں کریں گے۔ اچھا اب دوسرا سوال؟”

“دوسرا سوال یہ ہے۔” جان نے بڑی بےتابی سے کہا “براہ کرم مجھے بتائیے کہ کیا آپ نے اس جزیرے میں کوئی خوفناک مکھی دیکھی ہے۔۔۔؟”

“اس جزیرے میں نہیں ہاں البتہ اس سے آگے ایک جزیرہ ہے جسے پہلے ہم نے اپنے مقصد کے لئے ڈوبنے اور ابھرنے والا جزیرہ بنایا تھا لیکن۔۔۔” اسی آواز نے جواب دیا، مگر جان کو اب کان لگا کر سننا پڑا کیوں کہ آواز ہلکی ہوتی جا رہی تھی۔ “بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ سوبیا وہاں بہت کم مقدار میں ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں اس خوفناک پرندے سے بھی سابقہ پڑا جسے۔ ۔ ۔ ۔ آپ ۔ ۔ ۔ ۔ مکھی ۔ ۔ ۔ ۔ “

اس کے بعد ایک زوردار زناٹے کی آواز آئی اس عجیب سے لاؤڈ اسپیکر کی روشنی اچانک غائب ہو گئی اور پھر فوراً ہی ایک کڑک و چمک کے ساتھ اس میں آگ لگ گئی۔ معلوم ہوتا تھا کہ زہروی باشندے اب ہماری زمین سے بہت ہی دور پہنچ چکے تھے اس لئے ان کی آواز بھی ہلکی ہوتے ہوتے بالکل ختم ہو گئی تھی جب ریڈیائی لہریں ختم ہو گئیں تو اس لاؤڈ اسپیکر میں آگ لگ گئی تاکہ ہم زمین کے رہنے والے ان کے راز سے واقف نہ ہو سکیں!

ہم کچھ دیر تک تو سہمے ہوئے کھڑے رہے اس کے بعد جان نے کہا۔

“اب بولئے کیا خیال ہے؟ کیا ہمیں آگے جانا چاہئے؟”

“بے شک جانا چاہئے۔” جیک نے جواب دیا۔ “ہو سکتا ہے کہ ان بتوں کے قریب جا کر ہمیں بھی اس طاقت کا پتہ مل جائے جسے وہ زہروی سوبیا کہہ رہا تھا۔ جب دوسری دنیا کے رہنے والے ہماری دنیا کی ایک دھات سے ایسی طاقت پیدا کر لیتے ہیں جو ہماری ایٹمی طاقت سے کہیں زیادہ اچھی ہے تو کیا ہم دنیا والے اپنی اس دھات سے کام نہیں لے سکتے؟ لہذا بہتر یہی ہو گا کہ ہم آگے چلیں۔ کیوں کہ میرے خیال میں وہ دیو ہمیں آگے بڑھنے سے صرف اس لئے روک رہا تھا کہ کہیں ہم دھات کے اس ذخیرے پر قبضہ نہ کر لیں۔!”

“ٹھیک کہتے ہو جیک میرا بھی یہی خیال ہے۔ ویسے تمہاری کیا رائے ہے فیروز؟” جان نے پوچھا۔

“جو آپ سب چاہیں وہ ٹھیک ہی ہے۔” میں نے جواب دیا۔

“مگر میں آگے نہیں جاؤں گا مسٹر جان۔” کبڑے نے گھبرا کر کہا۔

“جیسے تمہاری مرضی چیتن! تم بے شک یہیں کھڑے ہو کر ہماری واپسی کا انتظار کر سکتے ہوں۔” جان نے کہا۔

“جی نہیں میں اس شخص کا اعتبار نہیں کر سکتا۔” میں نے اپنا پستول نکال کر اس کا رخ کبڑے کی طرف کر کے کہا۔ “تم ہمارے ساتھ چلو گے کیوں کہ تمہارا انداز اور برتاؤ میری نظر میں ٹھیک نہیں ہے۔ تم جو چاہتے ہو وہ میں ہر گز نہ ہونے دوں گا۔ تم چاہتے ہو کہ واپس جا کر ہمارے سامان پر قبضہ کر لو اور جہاز کو کسی نہ کسی طرح سمندر میں لے جا کر واپس ہندوستان چلے جاؤ؟ جی نہیں، ہم لوگ ایسی کچی گولیاں نہیں کھیلے ہیں۔ تم ہمارے ساتھ ہی چلو گے، ہم اگر مریں گے تو تمہیں ساتھ لے کر ہی مریں گے۔”

میں نے دیکھا کہ جان میری یہ باتیں سن کر مسکرانے لگا۔ البتہ کبڑے اور ملاحوں کے چہروں پر زردی چھا گئی۔

“تو کیا تم زبردستی کرو گے۔؟” کبڑے نے خوف بھرے لہجے میں کہا۔۔۔ وہ بے چینی اور اضطراب کے عالم میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔

“یقیناً۔ جس شخص پر ہمیں اعتبار نہ ہو، اس کے ساتھ یہی کرنا پڑے گا۔ کیا سمجھے۔” جیک نے جواب دیا۔

کبڑا یہ سن کر خاموش ہو گیا اور کچھ دیر تک سوچتے رہنے کے بعد کہنے لگا کہ “اچھا میں تیار ہوں۔ میں آپ کے ساتھ ہی چلوں گا۔”

اس کے بعد ہم نے احتیاطاً اپنے پستول نکال کر ہاتھوں میں لے لئے، چاروں طرف گھوم پھر کر دیکھا کہ کوئی خطرہ تو نہیں ہے اور جب اطمینان ہو گیا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے تو آگے بڑھنا شروع کیا۔ جزیرے کی یہ زمین عجیب قسم کی تھی۔ بعض دفعہ تو ہمیں ایسا محسوس ہوا جیسے نیچے کی زمین ہلی ہو۔ مگر پھر یہ سوچ کر کہ خطرے کے وقت عجیب سے خیالات دماغ میں آتے ہی ہیں، ہم نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی اور آگے ہی آگے بڑھتے چلے گئے۔ آدھ گھنٹے کے لگاتار سفر کے بعد ہم ان چٹانوں کے قریب پہنچ گئے، جو دور سے انسانی شکل کی دکھائی دیتی تھیں۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ حالاں کہ ان کے ناک، کان، اور مونہہ نہیں تھے مگر اس کے باوجود وہ بت جیسے دکھائی دیتے تھے۔ ان بتوں کے صرف چہرے ہی زمین سے اوپر تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے کسی ماہر سنگ تراش نے پتھر کی بڑی بڑی چٹانوں کو جوڑ کر انہیں بنایا ہو۔ جان نے بتایا کہ امریکہ میں نیشنل پارک میں چٹانوں پر ایسے مجسمے بنے ہوئے ہیں اور ان میں امریکہ کے پہلے صدر لنکن کا بت بھی ہے۔ میں سمجھا کہ زہروی لوگوں نے اسی طرح کے یہ بت بنا دیئے ہیں۔ مگر اب خیال آتا ہے تو جسم کانپ جاتا ہے۔ کسے معلوم تھا کہ اب ہمارے ساتھ کیا واقع پیش آنے والا ہے؟

جاری ہے……

خوفناک جزیرہ

خوفناک جزیرہ

قسط:15

سراج انور

پچھلی قسط کا خلاصہ :

وہ دیوزاد تھے جنہوں نے جان اور اس کے ساتھیوں کو ایک جگہ پتھروں کا پیالہ بنا کر انہیں قید کر ڈالا۔ دیوزادوں نے جان اور فیروز کو پکڑ کر بیس فیٹ لمبے ایک راکٹ میں بٹھا دیا اور راکٹ فضا میں پرواز کر گیا۔ ایک طویل سفر کے بعد آہستہ آہستہ وہ راکٹ پھر اسی جگہ آ کر ٹک گیا جہاں سے وہ اڑا تھا۔ دونوں کی صحیح سلامت واپسی پر دیوزاد بےانتہا خوش ہو کر ہاتھی کی آواز جیسی چنگھاڑیں مارنے لگے۔ پھر انہوں نے ٹیم کی خوب گت بنائی۔ تمام افراد کو چلا پھرا کر دیکھا، خوب دوڑایا، ملاحوں کو اشارے سے پانی میں تیرنے کے لئے کہا، ان سب سے کرتب دیکھے اور آخر میں انہیں باری باری اٹھا کر اسی قید خانے میں پہنچا دیا۔ وہ تو غنیمت ہوا انہوں نے ٹیم کو جہاز تک جانے کی اجازت دے دی تھی، جہاں سے کھانے پینے کا بہت سا سامان نکال لیا گیا، بعد میں یہی سامان دیوزادوں نے اٹھا کر قید خانے میں رکھ دیا۔ ان کے اچھے برتاؤ سے سب کو ڈھارس بندھی اور یقین ہو گیا کہ دیوزاد انہیں نقصان پہنچانا نہیں چاہتے۔

۔۔۔ اب آپ آگے پڑھئے ۔۔۔

“بھاگ چلیں۔” جان نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا “کیسی بچوں کی سی باتیں کرتے ہو جیک۔ بھلے آدمی ہم ان سے بچ کر کہاں جا سکتے ہیں اور فرض کر لو کہ ہم بھاگ بھی گئے تو اپنے جہاز کو سمندر میں کس طرح ڈالیں گے؟ کیا ہم سب مل کر جہاز اٹھا سکتے ہیں! میرے خیال میں ہر گز نہیں۔ اور پھر یہ جہاز ساحل سے اس وقت یقیناً چار فرلانگ کے فاصلے پر کھڑا ہے۔ تم نے اسے کھینچنا بھی چاہا تو کیا اتنی دور تک کھینچ لو گے۔؟”

جان واقعی ٹھیک کہہ رہا تھا۔ ہماری آزادی میں یہ سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ کبڑا بڑی دیر سے خاموش تھا۔ مگر اس وقت چونکہ اس کی جان پر بن رہی تھی اس لئے بولا۔

“اس سے بہتر تو یہ ہے کہ ہم سمندر ہی میں ڈوب جائیں یہ دیو تو پتہ نہیں ہماری کیسی گت بنائیں گے؟”

ایک ملاح نے اس کی ہاں میں ہاں ملا کر کہا “ڈوبیں کیوں صاحب۔ اگر ہم بچ گئے تو اس جزیرے سے کوئی درخت کاٹ کر اس کی کشتی بنا لیں گے۔ کشتی بنانا ہم دونوں کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ درخت کے تنے کو اندر سے کھوکھلا کر کے اس کی ایک معمولی سی کشتی آسانی سے بنائی جا سکتی ہے۔۔۔”

“چاہے تمہاری کشتی کچھ دن بعد بیچ سمندر میں جا کر ڈوب ہی کیوں نہ جائے۔ نہیں یہ طریقہ غلط ہے، اس سے تو اسی جگہ گھٹ گھٹ کر مر جانا بہتر ہے۔” جیک نے جلدی سے جواب دیا۔ اس کے لہجے میں نا امیدی صاف جھلک رہی تھی۔

میں خاموشی سے ان سب کی باتیں سن رہا تھا آخر میرے دماغ میں بھی اچانک ایک ترکیب آئی۔ میں نے جان سے کہا۔

“میرے خیال میں ایک طریقہ آزاد ہونے کا ہو سکتا ہے۔”

“وہ کون سا؟” سب نے ایک ساتھ پوچھا۔

“بارود اور چاقوؤں کی مدد سے ایک لمبی سی سرنگ بنائی جائے یہ سرنگ ہمارے اس قید خانے سے کوئی آدھے فرلانگ کی دوری پر جا کر نکلے۔ ہم اس سرنگ کے راستے قید خانے سے باہر نکل سکتے ہیں اس سرنگ پر دوسرا بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ قید خانے سے سرنگ میں داخل ہونے کا راستہ ہم اوپر سے کسی طرح ڈھک کر سرنگ میں چھپ جائیں گے۔ دیو سمجھیں گے کہ ہم کسی طرح نکل بھاگے ہیں۔ وہ ہمیں پورے جزیرے میں تلاش کرتے پھریں گے، مگر ہم ان کے ہاتھ نہیں آ سکیں گے انہیں اس کا کیا علم کہ ہم نے سرنگ بنا لی ہے اور ہم اس میں چھپے بیٹھے ہیں۔ آزاد ہو جانے کے بعد جہاز کو سمندر میں واپس لے جانے کے بارے میں سوچنا بعد کی بات ہے۔”

سب ہی نے میری اس تجویز کو پسند کیا اور اسی وقت سرنگ کے کھودنے کا کام شروع ہو گیا۔ ملاحوں نے کھدائی کا کام اپنے ذمے لے لیا۔ جیک نے مٹی باہر نکالنے کا اور کبڑے نے اس مٹی کو زمین پر پھیلانے کا۔ مٹی ہم اس لئے زمین پر پھیلانا چاہتے تھے کہ اگر دیو آ جائیں اور اندر جھانک کر دیکھیں گے تو انہیں مٹی کے ڈھیر نظر نہ آئیں۔۔۔ کوئی دو گھنٹے کی لگاتار محنت کے بعد ہم لوگ صرف دس ہی فٹ لمبی سرنگ کھود سکے۔ کھودتے کھودتے جب ہم تھک جاتے تو کچھ دیر آرام کر لیتے اس کے بعد پھر فوراً اپنا کام شروع کر دیتے۔ شام کے پانچ بجے تک ہم نے تقریباً تیس فٹ لمبی سرنگ کھود لی۔ آگے کام جاری رکھنے کا ارادہ تھا کہ یکایک ہمیں پھر ہاتھی کی سی چنگھاڑیں سنائی دیں۔ ہم سمجھ گئے کہ وہ دونوں پھر آ پہنچے۔ اس لئے جلدی جلدی ہم سرنگ کے مونہہ پر بیٹھ گئے تاکہ انہیں کچھ نظر نہ آئے۔ جلد ہی ان کے قدموں کی دھب دھب سنائی دی، اور پھر انہوں نے اندر جھانک کر دیکھا۔ میں نے انہیں دیکھ کر خوشی سے تالیاں بجائیں۔ تالیوں کی آواز سن کر وہ بہت خوش ہوئے اور خود بھی تالیاں بجانے لگے۔ کچھ دیر تک یہی تماشا ہوتا رہا۔ آخر ان میں سے ایک نے جھک کر کوئی چیز اٹھائی اور پھر اسے ہمارے قید خانے میں پھینک دیا۔ وہ چیز دراصل ایک تقریباً آٹھ فٹ لمبی مچھلی تھی اور اس وقت تک زندہ تھی۔ اپنے خیال میں انہوں نے ہمیں یہ چھوٹی سے چھوٹی مچھلی دی تھی۔ مگر درحقیقت ہم سب کے لئے یہ کافی تھی۔ اپنی زندگی میں اتنی لمبی مچھلی میں نے شاید ہی کبھی دیکھی ہو!

سورج اب آہستہ آہستہ سمندر کی طرف جھک رہا تھا۔ نہ جانے اچانک کیا بات ہوئی کہ انہوں نے جلدی سے پلٹ کر سورج کو دیکھا اور پھر ایک دوسرے سے آپس میں کچھ باتیں کیں اور گھبرا کر واپس چلے گئے۔ ہم نے اطمینان کا سانس لیا اور سرنگ کا کام ادھورا چھوڑ کر مچھلی پر پل پڑے مگر اب یہ سوال پیدا ہوا کہ بغیر لکڑیوں کے ہم مچھلی کو آگ پر کس طرح بھونیں؟

“ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔” جان نے کہنا شروع کیا “ہم لوگ سرنگ کھود کر اس قید خانے سے باہر نکل جائیں اور جزیرے سے سوکھی ہوئی لکڑیاں چن کر لائیں۔ اس کے بعد سرنگ میں بیٹھ کر مچھلی بھونیں۔ شام ہو رہی ہے۔ سرنگ کھودتے کھودتے رات ہو جائے گی اور رات کو یہ کام آسانی سے ہو سکے گا۔”

جان کی یہ تجویز سب کو پسند آئی اور ہم پھر سے اپنے کام میں جت گئے۔ جلد ہی ہم نے پندرہ فٹ لمبی سرنگ اور بنا لی اس طرح پینتالیس فٹ لمبی سرنگ جب جزیرے کی زمین میں سوراخ بنا کر اوپر کی طرف نکلی تو ہم نے جزیرے کی کھلی زمین پر قدم رکھا۔ چاند نکل آیا تھا اور اس کی ہلکی روشنی میں ہر چیز صاف نظر آ رہی تھی۔ ہمیں لکڑیاں ملیں ضرور مگر سب کی سب سیلی ہوئی تھیں۔ جان نے بتایا کہ دھوپ کے نکلنے کے بعد بھی یہ لکڑیاں گیلی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یقیناً یہاں رات کو پانی آ جاتا ہو گا یا پھر ہو سکتا ہے کہ شاید یہ وہی جزیرہ جس کی ہمیں تلاش ہے۔ کیوں کہ وہ جزیرہ بھی چاند رات کو سمندر میں سے ابھرتا ہے اور پندرہ دن تک پانی کے اوپر رہتا ہے!

مجبوراً ہم نے وہی گیلی لکڑیاں اکٹھی کیں اور سرنگ میں آ کر بڑی مشکل سے وہ مچھلی بھون کر کھائی۔ جب پیٹ بھر گیا تو جسم میں طاقت آ گئی اور وہیں آگ کے قریب بیٹھ کر ہم آپس میں مشورہ کرنے لگے۔ ہر ایک اس وقت یہی سوچ رہا تھا کہ اب کیا ہو گا؟

جیک نے بہت سوچ بچار کے بعد کہا “میرا خیال ہے کہ ہمیں اس سرنگ ہی میں چھپ کر بیٹھ رہنا چاہئے۔ اس طرح دو فائدے ہوں گے۔ پہلا تو یہ کہ ہم ان دیو نما انسانوں کا کھلونا نہیں بن سکیں گے اور دوسرا یہ کہ کسی آتے جاتے جہاز کو ہاتھ ہلا کر یا سگنل دے کر ہم اسے اپنی مدد کے لئے بلا سکیں گے۔۔۔”

“دوسرا خیال ٹھیک ہے” میں کے کہا “کیوں کہ سرنگ میں چھپے رہنے سے بھی نقصان ہے۔”

“کیسا نقصان۔۔۔؟” جیک نے دریافت کیا۔

“نقصان یوں ہے کہ ہمیں نہ پا کر وہ دیو غصے میں آ جائیں گے اور اگر کسی نے ہماری سرنگ کے اوپر کوئی چٹان وغیرہ گرا دی تو ہمارے لئے بڑی مشکل ہو گی۔ سرنگ اندر سے کھوکھلی ہوا کرتی ہے۔ چٹان کے گرنے سو وہ اندر سے دب جائے گی اور تب ممکن ہے ان پر ہمارا راز فاش ہو جائے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہم کسی غار ہی میں پناہ لیں۔”

جان نے میری اس تجویز سے اتفاق کیا اور پھر ہم رات کے اندھیرے میں، چٹانوں کی آڑ لیتے ہوئے، ادھر ادھر غور سے دیکھتے ہوئے کسی غار کی تلاش میں نکلے۔ بڑی جان توڑ کوشش کے بعد ایسا ایک غار مل گیا۔ مگر یہ غار ایک چٹان کے بالکل نیچے تھا اور سمندر اس کے دہانے سے بالکل لگ کر بہہ رہا تھا۔ ہم نے مجبوراً اسی غار کو اپنے لئے پسند کیا۔ ٹارچ یہاں بہت کام آئی۔ ہم نے اسے جلا کر پہلے غار کو دیکھا۔ نہایت صاف ستھرا غار تھا۔ اس میں قدم رکھنے کے بعد ہم نے اطمینان کا سانس لیا۔ چوں کہ ہم بری طرح تھکے ہوئے تھے، اس لئے غار میں پہنچتے ہی فوراً سو گئے۔

ہماری آنکھ اس وقت کھلی جب کہ سمندر کے پانی نے اندر غار میں آ کر ہمارے جسموں کو گیلا کر دیا۔ شاید یہ تیز ہوا کا کرشمہ تھا۔ ہوا نے سمندر میں پھر زبردست طوفان پیدا کر دیا تھا لہریں بوکھلائی ہوئی آتیں اور غار میں جگہ ڈھونڈنے میں ناکام رہ کر پھر واپس چلی جاتیں۔ اس وقت صبح کے پانچ بج رہے تھے۔ جاگنے کا وقت تو ویسے بھی ہو گیا تھا۔ لیکن اگر لہریں ہمیں اس طرح آ کر نہ اٹھاتیں تو شاید ہم سوتے ہی رہتے۔ ڈرتے ڈرتے ہم لوگ غار میں سے باہر آئے۔ ہمارے سب کپڑے (اگر آپ انہیں چیتھڑے سمجھیں تو بہتر ہو گا) بھیگ چکے تھے اور اب غار میں جگہ بھی نہیں رہی تھی۔ باہر آتے ہی ایک عجیب نظارہ ہمارے دیکھنے میں آیا۔ وہ دونوں دیو غصے میں بھرے ہوئے تھے اور ہمارے قید خانے کے پتھر اٹھا اٹھا کر ادھر ادھر پھینک رہے تھے۔ ہم جانتے تھے کہ ہمیں قید خانے میں نہ پا کر وہ یہی کریں گے۔ ہم خاموشی سے ایک چٹان کی اوٹ میں کھڑے ہوئے ان کی حرکتیں دیکھ رہے تھے۔

ہمیں ایک ایک جگہ تلاش کرنے کے بعد آخرکار وہ جلدی جلدی پورے جزیرے میں چکر لگانے لگے۔ ان کے ایک قدم کا فاصلہ تقریباً آدھے فرلانگ کا تھا۔ جلد ہی ان میں سے ایک اس جگہ آ گیا جہاں ہم چھپے ہوئے تھے۔ اس وقت ہم لوگوں نے ڈر کے مارے اپنے سانس تک روک رکھے تھے اور سب کے سب چٹان سے بالکل چھپکلی کی طرح چپک کر رہ گئے تھے۔ جہاں تک میں سمجھ سکتا ہوں اس دیو نے شاید ہمیں سونگھ کر پہچانا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے نزدیک ہم زمین کے انسانوں کے جسموں سے کوئی خاص بو نکلتی ہو حقیقت شاید یہی تھی کیوں کہ اس نے جھک جھک کر ہمیں ہر طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ میں دل میں سوچ رہا تھا کہ برے پھنسے۔ اگر اس وقت ہم غار ہی میں ہوتے تو یہ کم بخت ہمیں پھر کسی طرح بھی نہ پا سکتا تھا! مگر یہاں کھلے میدان میں کسی بھی وقت ان کی نظروں میں آ جانے کا خطرہ تھا۔!

اور پھر آخر کار یہ خطرہ ہمیں پیش آ ہی گیا۔ اس نے ہمیں دیکھ لیا اور غصے کے مارے اس نے بڑے زور کی چنگھاڑ ماری اور پھر فوراً ہی ہمیں پکڑنے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ “بھاگو! بھاگو۔” یہ کہہ کر جیک سب سے پہلے اس کی ٹانگوں کے نیچے سے نکل کر بھاگنے لگا۔ دیو اسے بھاگتے دیکھ کر یکایک اس کی طرف پلٹ گیا۔ حالانکہ وہ اپنی پوری قوت سے بھاگ رہا تھا مگر دیو نے ایک قدم بڑھایا تو جیک اس کے دونوں قدموں کے درمیان میں آ گیا دوسرا دیو جیک کو پھنستے ہوئے دیکھ کر ہماری طرف متوجہ ہوا اور پھر آہستہ آہستہ اس نے ہماری طرف اپنا ہاتھ بڑھانا شروع کیا۔

اس وقت وہ سخت غصے میں تھے کیوں کہ ہم نے ان کی مہربانیوں کا نا جائز فائدہ اٹھایا تھا۔ کسے معلوم تھا کہ وہ ہمیں پکڑ کر کیا سلوک کرتے؟ اب جب وہ وقت یاد آتا ہے تو روح لرز جاتی ہے اور سارے جسم میں سنسنی سی دوڑنے لگتی ہے اور میں بڑی دیر تک سوچتا رہتا ہوں کہ کتنے حیرت انگیز اور بھیانک حالات سے مجھے گزرنا پڑا تھا۔! دیو کا ہاتھ اب جان تک پہنچ چکا تھا۔ جیک نے تو خیر بھاگنے کی ہمت بھی کر لی تھی مگر ہم اب بالکل بے بس تھے۔ ہمارے ایک طرف سمندر تھا، دوسری طرف چٹانیں اور تیسری جانب دیو۔ ہم بھاگ ہی نہیں سکتے تھے۔ ملاح بری طرح چیخ رہے تھے اور کبڑا چتین بار بار دیوتاؤں کو یاد کر رہا تھا۔ میں اس زمانے میں بہت زیادہ بہادر تو تھا نہیں اس لئے خوف کے مارے میں نے بھی اپنی آنکھیں بند کر لیں۔

یکایک ایک بہت ہی زور کی چنگھاڑ سنائی دی۔ اتنے زور کی کہ ان دونوں دیوؤں کی چنگھاڑ اس کے آگے کچھ بھی نہیں تھی۔ پتھر لڑھکنے لگے چٹانیں ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگیں اور جزیرے کی زمین لرزنے لگی۔ ہم نے گردن اونچی کر کے دیکھا۔ اور ہم نے جو کچھ دیکھا اس کے بیان کرنے کو الفاظ نہیں ملتے۔ بس یوں سمجھئے کہ ہمارے اوسان خطا ہو گئے اور جسم کی قوت اچانک ختم ہو گئی۔ ایک تیسرا لیکن سب سے بڑا دیو چٹانوں کے پیچھے سے نمودار ہوا اور آگے بڑھ کر اس نے ایک دیو کا ہاتھ پکڑ لیا، گویا منع کرنا چاہتا ہو کہ ہمیں نہ پکڑے پہلے دونوں دیو اس کے مقابلے میں بچے نظر آتے تھے۔ وہ دونوں سہم گئے اور خوف زدہ نظروں سے آنے والے دیو کو دیکھنے لگے۔ ہم خاموش کھڑے ان تینوں کو دیکھ رہے تھے۔ آنے والے دیو نے فوراً آگے بڑھ کر ان دونوں دیوؤں کو اپنی گود میں اٹھا لیا اور ہمیں بڑی خاموش لیکن رحم بھری نگاہوں سے دیکھنے کے بعد وہ واپس چلا گیا۔

تب ہمیں معلوم ہوا کہ جن دیوؤں کی ہم قید میں تھے دراصل وہ دونوں تو بچے تھے اور اسی لئے وہ بچوں کی سی حرکتیں کر رہے تھے۔ ہمیں کھلونا سمجھ کر کھیلنا، ہمارے کرتب دیکھ کر خوش ہونا۔ ہمیں اپنے کھلونے (راکٹ) میں بٹھا کر ہوا میں اڑانا اور تالیاں بجانا، یہ سب بچوں کی سی ہی باتیں تو تھیں! جان نے ہمیں بتایا کہ یقیناً آنے والا دیو ان دونوں کا باپ تھا اور انہیں چند انسانوں کو پریشان دیکھ کر فوراً آ گیا اور ہمیں نٹ کھٹ بچوں کی شرارتوں سے بچا لیا۔ اس کے چلے جانے کے بعد ہم بھی جلدی جلدی ایک اونچی چٹان پر چڑھ گئے۔ تاکہ دیکھیں کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں رہتے ہیں۔ چٹانیں پہلے دیوار بنی ہوئی تھیں اور ان کی وجہ سے ہمیں پہلے جو نہیں دکھائی دیتا تھا وہ بلندی پر آنے کے بعد اب دکھائی دینے لگا۔

ہمارے بالکل سامنے تقریباً ہزار فٹ لمبا ایک بہت بڑا راکٹ کھڑا تھا اس راکٹ کے دروازے کے قریب تیسرے دیو جیسے چار دیو اور کھڑے تھے، جب بچوں کا باپ انہیں گود میں لئے ہوئے دروازے کے اندر داخل ہو گیا تو وہ چاروں بھی جلدی سے راکٹ میں چڑھ گئے۔ کچھ ہی دیر بعد راکٹ کا نچلا حصہ شعلے اگلنے لگا اور پھر ایک زوردار آواز کے ساتھ راکٹ پلک جھپکتے ہی میں کئی سو فٹ اوپر چلا گیا، چند سیکنڈ تک وہ ہمیں آسمان میں دکھائی دیتا رہا اور پھر تارا بن کر نظروں سے غائب ہو گیا۔ راکٹ کے غائب ہو جانے کے بعد ہم نے اطمینان کا لمبا سانس لیا اور پھر جزیرے پر ایک نظر ڈالی۔ جزیرہ بالکل سنسان تھا۔ آبادی کا ذرا سا بھی نشان نہیں تھا۔ لیکن ایک چیز ایسی تھی جس نے ہم کو حیرت زدہ کر دیا۔ اور وہ چیز کافی فاصلے پر نظر آ رہی تھی۔ درحقیقت یہ عجیب قسم کی تراشی ہوئی چٹانیں تھیں اور اتنی دور سے بالکل انسانوں کے قد آدم مجسمے نظر آتی تھیں۔ جان نے دوربین نکال کر انہیں بغور دیکھا اور پھر حیرت سے کہنے لگا۔

“تعجب ہے کسی صورت سے یقین نہیں آتا۔ کہیں میری نظریں دھوکا تو نہیں کھا رہیں؟”

“کیا بات ہے؟” ہم نے اشتیاق سے ایک ساتھ پوچھا۔

“یہ چٹانیں بڑی خوبی اور مہارت سے انسانوں کی شکل جیسی تراشی گئی ہیں مجسمے ملنا تو خیر حیرت کی کوئی بات نہیں تعجب تو اس پر ہوتا ہے کہ اس ویران جگہ پر یہ مجسمے کیسے آ گئے، اور پھر ایسا لگتا ہے جیسے یہ مجسمے چھوٹے بڑے پتھروں کو جوڑ کر بنائے گئے ہوں کیوں کہ ان میں جوڑ بھی نظر آتے ہیں۔”

“جوڑ۔۔۔؟” میں نے تعجب سے کہا۔

“ہاں فیروز!” جان نے جواب دیا “ان میں جوڑ موجود ہیں اور میرے خیال میں یہ پتھر کے بت ان لوگوں نے بنائے ہیں جو ابھی آسمان میں اڑ کر گئے ہیں؟”

“ہو سکتا ہے۔” میں نے سوچتے ہوئے جواب دیا۔ “لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ جزیرہ وہی ہے جو چاند رات کو سمندر میں سے نمودار ہوتا ہے تو ان بتوں پر کاہی ضرور جمی ہونی چاہئے۔ جیسے کہ یہاں کی بہت سی چٹانوں پر جمی ہوئی ہے ذرا غور سے دیکھئے کہ کیا ان پر کاہی ہے؟”

جان نے یہ سوچ کر دوربین پھر آنکھوں سے لگائی اور اچانک اس نے مجھے حیرت سے دیکھا اور کہا۔

“نہیں فیروز، تم نے ٹھیک سوچا۔ ان بتوں پر کاہی بالکل نہیں ہے۔”

“اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ وہ جزیرہ نہیں ہے جس کی ہمیں تلاش ہے۔۔۔” جیک نے کہا۔

“مگر پتھر کے ان بتوں کا راز ابھی تک ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔؟” میں نے خوف زدہ نظروں سے اس طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

“اور میرا مشورہ یہ ہے کہ ہمیں یہ راز سمجھنے کی کوشش بھی نہ کرنی چاہئے۔” کبڑے نے جلدی سے کہا۔ “اور جلد سے جلد اس خطرناک جگہ سے دور چلے جانا چاہئے۔”

“بالکل ٹھیک ہے، بالکل ٹھیک ہے۔” ملاحوں نے بھی ایک ساتھ کہا ان کے مطلب کی بات جو تھی!

جان نے پلٹ کر کبڑے کو دیکھا اور پھر کہا “چتین، تم اتنے بہادر ہو کر ایسی باتیں کرتے ہو!”

“ان باتوں سے بہادری کا کوئی تعلق نہیں۔ عقل مندی کا تقاضا ہے کہ جان بوجھ کر خطرے کے مونہہ میں کودنا مناسب نہیں۔ میں نہ تو بزدل ہوں اور نہ ہی خطروں میں کودنے سے گبھراتا ہوں۔ میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ ہم جلد سے جلد اس منحوس جزیرے سے دور چلے جائیں کیوں کہ ایسا کرنے سے کم از کم دو فائدے ہوں گے۔”

“کون سے فائدے ہوں گے؟” جان نے جلدی سے پوچھا.

جاری ہے…..

خوفناک جزیرہ

خوفناک جزیرہ

– قسط:14

سراج انور

پچھلی قسط کا خلاصہ :

ایک چھوٹے سے جہاز کے سہارے سمندر کے سفر پر جان اور اس کی ٹیم نکل پڑی۔ راستے میں جان نے بتایا کہ کس طرح اس کے باپ ولیم نے ایک ایسا جزیرہ تلاش کیا جو چاند رات کے بعد آدھے مہینے تک پانی کے اوپر رہتا ہے اور اسی جزیرے میں وہ کرشماتی مکھی پائی جاتی ہے۔ سفر میں انہیں پانچ دن بیت چکے تھے کہ اچانک اسی رات سمندر میں طوفان آ گیا اور جہاز لہروں کے تھپیڑے کھاتا ہوا کسی نامعلوم سمت چل پڑا۔ پھر اچانک ان سب کو لگا کہ جیسے کوئی طاقت جہاز کو سمندر سے اوپر اٹھا رہی ہے اور وہ کسی ترازو کے پلڑے کی طرح آہستہ آہستہ اوپر اٹھتا جا رہا تھا۔ جہاز اس وقت سطح سمندر سے کئی سو فٹ بلند تھا اور آہستہ آہستہ روشنی کے ایک راستے پر چلتا ہوا اس طرف بڑھ رہا تھا جہاں سے وہ تیز روشنی آ رہی تھی۔ جان نے اندیشہ ظاہر کیا کہ کسی بہت بڑی سائنسی طاقت نے انہیں کھلونا بنا لیا ہے اور وہ طاقت کسی دوسرے سیارے کی ہے۔ جہاز ان پہاڑوں کے نزدیک پہنچ گیا جن کے درمیان سے سورج کی روشنی سے بھی تیز شعاع نکل رہی تھی اور پھر فیروز نے دیکھا کہ وہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہل رہے تھے، ان کی لمبی لمبی ٹانگیں بھی تھیں اور ہاتھ بھی۔

۔۔۔ اب آپ آگے پڑھئے ۔۔۔

نہ جانے یہ منظر دیکھ کر میں بے ہوش کیوں نہ ہوا۔ حالانکہ کبڑا اور چاروں ملاح چیخیں مار کر بےہوش ہو چکے تھے! کچھ دیر بعد مجھے محسوس ہوا کہ ہمارا جہاز کسی کے بہت بڑے ہاتھ میں ہے۔ میں نے کھڑکی میں سے جھانک کر باہر دیکھا تو خوف کے مارے چکر آ گیا۔ سطح سمندر سے کم از کم سو فٹ کی بلندی پر ہمارا جہاز کسی دیوزاد کی صرف تین انگلیوں والے ہاتھ میں تھا۔ غور سے دیکھنے پر ایک عجیب قسم کا سبز پردہ مجھے کھڑکی کے آگے ہلتا ہوا نظر آیا اور جب یہ پردہ ذرا دور ہٹا تو معلوم ہوا کہ بغیر بالوں کا ایک لمبوترا سر ہے جس میں اندر کو دھنسی ہوئی دو آنکھیں ہیں۔ میں جسے سبز پردہ سمجھا تھا دراصل وہ اس دیو نما انسان کی آنکھ تھی۔ ہری آنکھ!

سچ بات تو یہ ہے کہ اپنی یہ کہانی لکھتے ہوئے وہ ڈر اور خوف میں اپنی تحریر میں پیدا نہیں کر سکتا جو درحقیقت اس وقت میرے دل میں پیدا ہوا تھا۔ صدمے برداشت کرنے کی دل کو اب عادت سی ہو گئی تھی، اس لئے یہ نئی قسم کا صدمہ بھی جھیل گیا۔ میں نے جو کچھ باہر دیکھا تھا وہ جان کو بتا ہی رہا تھا کہ ہمارے کمرے کی چھت ایک زوردار آواز سے اڑ گئی اور پھر ہاتھی کی ٹانگ سے بھی کئی گنی موٹی دو انگلیوں نے جیک کو کمر سے پکڑ کر اوپر اٹھا لیا۔ اس غریب نے بہت چیخیں ماریں، بہت مدد کے لئے چلایا۔ مگر سب بے کار۔ ہم میں سے کوئی بھی اسے بچا نہ سکا۔ بندوقیں اور پستول تو ایسے دیو کو مارنے کے لئے بالکل بے کار سی چیز تھے اور پھر ہمیں معلوم بھی نہ تھا کہ وہ ہمارا کیا حشر کرے گا۔ اس لئے وقت سے پہلے کوئی حماقت کرنا اپنی موت کو آپ دعوت دینے کے برابر تھا۔ ابھی ہم دونوں اپنے بچاؤ کی ترکیب سوچ ہی رہے تھے کہ وہی دو انگلیاں پھر نمودار ہوئیں اور اس بار بےہوش کبڑے کو اٹھا لے گئیں۔ ہم دونوں نے سمجھ لیا کہ بس اس کے بعد اب ہماری باری ہے۔ جہاز میں سے نیچے کودنا بھی بیکار تھا، کیوں کہ اتنی بلندی سے جزیرے پر گرنے سے ہم کسی بھی طرح زندہ نہیں رہ سکتے تھے۔ جہاز میں اور کوئی جگہ بھی چھپنے کی نہیں تھی اس لئے مجبوراً خود کو تقدیر کے سپرد کر کے ہم خاموش کھڑے رہے۔ کچھ منٹ بعد وہی انگلیاں پھر اندر آئیں اور توقع کے مطابق جان کو اٹھا کر لے گئیں۔ میں نے سوچ لیا کہ اب میری باری ہے۔ چاروں ملاح چونکہ باہر تھے، اس لئے وہ یقیناً پہلے ہی اٹھا لئے گئے ہوں گے۔ اچانک مجھے ایک خیال آیا۔ بارود کا ایک چھوٹا سا ڈبہ اور ٹارچ اٹھا کر میں نے اپنے سفری تھیلے میں ڈال لی اور پھر تھیلا اپنے کندھے سے لٹکا لیا۔ جب ان انگلیوں نے مجھے پکڑ کر اٹھایا تو میں نے محسوس کیا کہ انہوں نے اس بات کا خیال ضرور رکھا کہ مجھے ہلکے سے پکڑیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں دب کر مر جاؤں!

صبح ہونے والی تھی اور ہلکی سی روشنی اب جزیرے پر پھیلنے لگی تھی۔ ڈر کے مارے میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں کیوں کہ میں نے محسوس کیا کہ وہ انگلیاں مجھے پکڑ کر کسی سمت میں لے جا رہی تھیں۔ اگر میں پھسل کر نیچے گر جاتا تو میری ہڈی پسلی کا بھی پتہ نہ چلتا۔ جب میں نے آنکھیں کھولیں تو میرے پاؤں زمین سے لگ چکے تھے۔ فوراً ہی ان انگلیوں نے مجھے چھوڑ دیا۔ جان، جیک، بےہوش کبڑا اور چاروں ملاح مجھے اپنے سامنے کھڑے نظر آئے، میں نے دیکھا کہ بڑے بڑے پہاڑ کے پتھروں کو اوپر تلے رکھ کر ان دیو نما انسانوں نے ایک پیالہ سا بنا دیا ہے اور ہمیں اس پیالے میں چھوڑ دیا ہے۔ پتھروں کا پیالہ اس لئے بنایا گیا تھا کہ ہم کہیں نکل کر بھاگ نہ سکیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم بھاگ نہیں سکتے تھے کیوں کہ اگر ہم پتھروں پر چڑھ کر بھاگنا بھی چاہتے یا کسی سوراخ سے نکلنے کی کوشش بھی کرتے تو پتھروں کے اپنی جگہ سے ہل کر نیچے لڑھکنے کا خطرہ تھا۔ اور تب نتیجہ ظاہر تھا۔ ہم پتھروں سے کچلے جا سکتے تھے!

ایک بڑے سوراخ میں سے جھانکنے کے بعد معلوم ہوا کہ سورج آہستہ آہستہ بلند ہو رہا ہے۔ اس روشنی میں ہم نے ایک دوسرے کی شکل دیکھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے ہمارا سارا خون کسی نے نچوڑ لیا ہے! سب کے چہرے پیلے پڑے ہوئے تھے۔ جیک جیسے طاقت ور آدمی کا کالا چہرہ بھی اس وقت سفید تھا۔ سب ہی کے کپڑے بری طرح پھٹ چکے تھے۔ جیک کو کالے کپڑے پہننے کی عادت تھی مگر کومورن کے نزدیک والی بستی سے بڑی مشکل سے اسے اپنی ناپ کی عجیب سی قمیض اور پتلون منگوا کر پہننی پڑی تھی۔ یہ کپڑا مٹیالے رنگ کا تھا اور تب کپڑے کے رنگ میں اور جیک کے چہرے کے رنگ میں کوئی فرق نہیں تھا! ہم پر مصیبت ہی ایسی پڑی تھی کہ اب ہر ایک کو اپنی ہی فکر تھی۔ جان کے یہ پوچھنے پر کہ میرے تھیلے میں کیا ہے، جب میں نے اسے بارود اور ٹارچ کے بارے میں بتایا تو وہ بہت خوش ہوا اور کہنے لگا۔

“تمہاری زیادہ تعریف تمہیں مغرور نہ بنا دے، اس لئے اب میں تعریف نہ کروں گا۔ صرف اتنا کہوں گا کہ یہ کام تم نے بہت عقل مندی کا کیا ہے۔ اس عجیب و غریب مخلوق سے ٹکر لینے کے لئے بارود بہت ضروری چیز ہے۔ اب میں تم سب سے ایک بات اور کہہ دوں۔ یہ دیو جو کچھ کہے اسے ضرور ماننا۔ ہم اس کی خوشامد کر کے ہی بچ سکتے ہیں ورنہ اور کوئی طریقہ اس مصیبت سے نجات پانے کا نہیں ہے۔”

“مگر۔ مسٹر جان یہ ہے کون؟” جیک نے پوچھا۔

“اس کا جواب میں پہلے ہی دے چکا ہوں۔” جان نے کہنا شروع کیا۔

“سائنس اور اس کے ماننے والوں کا ہماری دنیا نے ہمیشہ مذاق اڑایا، ہم کہتے رہے کہ اڑن طشتریوں کا وجود ہے، مگر لوگوں نے نہیں مانا۔ ہم نے یہ بھی کہا کہ زمین کی طرح دوسرے بہت سے سیاروں میں زندگی ہے مگر بہت کم لوگوں نے یقین کیا۔ ہم چاند پر بھی پہنچ گئے۔ وہاں کی مٹی اپنے ساتھ لائے، پھر ہم نے مریخ پر کمند ڈالی۔ اس کی تصویریں حاصل کیں اور دنیا کو بتایا کہ مریخ پر زندگی نہیں ہے۔ مگر لاتعداد سیارے ابھی باقی رہ گئے ہیں۔ زہرہ، نیپچون، مشتری، زحل وغیرہ۔ ان کے بارے ہم کچھ نہ جان سکے۔ میرے خیال میں یہ مخلوق بھی کسی ایسے ہی سیارے کی ہے۔ یہ میں ابھی نہیں بتا سکتا کہ یہ قوم اس جزیرے میں آباد ہے یا کچھ عرصہ کے لئے عارضی طور پر یہاں آئی ہے! ویسے اندازہ یہ ہے کہ یہ دیو نما انسان اس جزیرے میں نہیں رہتے۔ کیوں کہ اگر رہتے ہوتے تو ان کے کئی کئی سو فٹ اونچے مکان میرے اور دوسرے جہاز رانوں کی نگاہوں سے ہرگز نہیں چھپ سکتے تھے۔”

جان کچھ اور کہنا ہی چاہتا تھا کہ یکایک ہاتھی کی چنگھاڑ سے ملتی جلتی ایک آواز آئی۔ آواز میں اتنی گونج تھی کہ ہمارے پیالے نما قید خانے کا ایک پتھر اس گونج سے نیچے گر گیا۔ مگر شکر ہے کہ اندر نہیں گرا۔ اس کے بعد کسی کے دبے دبے پاؤں رکھ کر آگے آنے کی چاپ سنائی دی اور پھر پیالے میں اندھیرا ہو گیا۔ میں نے اوپر دیکھا تو یہ ان دونوں عجیب انسانوں کے سر تھے، جن کی وجہ سے روشنی اندر آنی بند ہو گئی تھی۔ میں بڑی دیر تک ان دونوں کو دیکھتا رہا۔

سچ، بڑی خوف ناک اور ہیبت ناک شکلیں تھیں۔ سر لمبوترا تھا۔ پیشانی کے نیچے ہی دو بڑی بڑی لیکن بغیر پتلی کی سبز آنکھیں تھیں، ناک سرے سے ندارد تھی۔ ناک کی جگہ صرف چوہے جیسی تھوتھنی سی تھی اور اس تھوتھنی کے نیچے مونہہ، بالکل مچھلی کے مونہہ جیسا۔ چہرہ بالکل سرخ تھا، سر اور کندھوں کے درمیان گردن کا نام و نشان تک نہ تھا۔ جب وہ مونہہ کھول کر حیرت سے ہمیں دیکھ رہے تھے تو میں نے اندازہ لگایا کہ ان کے مونہہ میں ایک بھی دانت نہیں تھا۔ ہاتھوں میں صرف تین تین انگلیاں تھیں اور بازوؤں کی مچھلیاں بہت زیادہ تنی ہوئی تھیں۔ جسم بالکل ننگا تھا اور کپڑوں کی بجائے ایک کھال سی ان کے نچلے جسم پر منڈھی ہوئی تھی۔ یہ تھے وہ عجیب انسان!

ہمیں دیکھ کر انہوں نے خوشی کی چنگھاڑیں ماریں اور پھر ایک نے اپنا ہاتھ اندر ڈال کر دو بےہوش ملاحوں کو ایک ساتھ اٹھا لیا۔ ملاحوں کو اپنی ہتھیلی پر لٹا کر انہوں نے ہلا جلا کر دیکھا اور پھر یہ سوچ کر کہ یہ “کھلونے” تو خراب ہو گئے ہیں، انہوں نے دونوں ملاحوں کی ٹانگیں پکڑ کر انہیں دور پھینک دیا بالکل اس طرح جیسے ہم چوہے کی دم پکڑ کو انہیں دور پھینک دیتے ہیں۔ خوف کے مارے میری چیخیں نکل گئیں۔ جان اور جیک نے جلدی سے پتھروں کا سہارا لے لیا۔ دونوں ملاحوں کی اس عبرت ناک موت سے ہمیں بہت رنج پہنچا۔ مگر کر بھی کیا سکتے تھے؟

وہ دوںوں اب پھر اندر جھانک رہے تھے۔ میں سمجھ گیا کہ اب شاید دونوں بےہوش ملاحوں اور کبڑے چتین کی باری ہے۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کروں؟ خدا کی ذات پر مجھے پورا بھروسہ تھا۔۔ مجھے یہ بھی معلوم تھا وہ مصیبت کے وقت اپنے بندوں کی ضرور مدد کرتا ہے، اور پھر سچ بات تو یہ ہے کہ خدا نے ہی میرے دل میں وہ خیال پیدا کیا، جس نے بعد میں ہم سب کی زندگیاں بچا لیں، میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر اپنی چھاگل میں سے پانی نکال کر دونوں ملاحوں اور کبڑے کے چہرے پر چھڑکا ایسا کرنے سے وہ فوراً ہوش میں آ گئے اور ان کے ہوش میں آتے ہی میں نے آہستہ سے کہا۔

“خبردار دوبارہ بےہوش ہونے کی کوشش مت کرنا، ورنہ برا حشر ہوگا، ڈرو مت اور ہمت سے کام لو۔”

ملاح پھٹی پھٹی خوفزدہ نظروں سے اس مخلوق کو دیکھنے لگے۔ کبڑا بھی لرزتا کانپتا جان کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ دونوں دیو اب حیرت سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ آخر ان میں سے ایک نے جھک کر باہر سے کوئی چیز اٹھا کر اپنی ہتھیلی پر رکھ لی۔ میں نے غور سے دیکھا تو وہ ایک مردہ ملاح تھا۔ اپنے ساتھی کا یہ حشر دیکھ کر ملاحوں نے چیخیں مارنی چاہیں مگر جان نے انہیں ڈانٹ دیا اور وہ خاموش کھڑے لرزتے رہے۔

ہتھیلی پر ملاح کو لٹانے کے بعد ان میں سے ایک نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا اور اشارے سے مجھ سے میری چھاگل مانگی۔ میں نے فوراً دے دی۔ چھاگل کی ڈاٹ اپنے ناخن سے کھول کر اس نے پانی مردہ ملاح پر چھڑکا۔ مگر پانی آب حیات ہوتا تو مردہ زندہ ہو جاتا۔ وہ غریب تو مر چکا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ اس طرح ملاح زندہ نہیں ہوا تو اس نے پھر اسے پہلے کی طرح ٹانگ پکڑ کر ایک طرف پھینک دیا۔ ملاحوں نے پھر بری طرح چیخیں ماریں۔ چیخوں کی آواز سن کر اس دیو نے پلٹ کر ہمیں دیکھا اور پھر وہ دونوں آپس میں اسی ہاتھی جیسی چنگھاڑ والی آواز سے باتیں کرنے لگے۔ میں اسے باتیں ہی کہوں گا کیوں کہ شاید یہی ان کی زبان تھی! مجھے خطرہ ہوا کہ کہیں وہ ناراض نہ ہو جائیں۔ اس لئے میں نے جلدی سے نٹوں کے سے کرتب دکھانے شروع کر دئے۔ کبھی اچھلتا، کبھی ہاتھوں کے بل چھلانگیں لگاتا اور کبھی قلابازیاں کھاتا۔ میری ان حرکتوں سے وہ اتنے خوش ہوئے کہ تالیاں بجا بجا کر قہقہے لگانے لگے۔ میں بیان نہیں کر سکتا کہ کیسی ہیبت ناک آوازیں تھیں اور کتنی خوفزدہ کرنے والی ہنسی تھی! اب تو چوں کہ ہم ان کے رحم و کرم پر تھے اس لئے خاموش کھڑے رہے۔

خوب دل کھول کر ہنس لینے کے بعد ان میں سے ایک نے اپنا ہاتھ ہمارے قید خانے میں ڈال کر ہتھیلی پھیلا دی اور اشارے سے مجھ سے کہا کہ میں ہتھیلی پر چڑھ جاؤں۔ اس کی دیکھا دیکھی دوسرے نے بھی اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا اور جان کو اشارہ کیا کہ وہ بھی اس کی ہتھیلی پر آ جائے۔ جان نے گھبرا کر مجھے دیکھا اور میں نے مسکرا کر آہستہ سے جواب دیا :

“انہیں خوش کرنے کا اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں، جو یہ کہیں وہ مان لیجئے۔ یہ آپ کے ہی الفاظ ہیں اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے کیوں کہ اگر ہم نے ان کا کہنا نہ مانا تو یہ ہمارا وہی حشر کر سکتے ہیں جو پہلے ملاحوں کا ہوا ہے۔”

“ٹھیک کہتے ہو۔” جان نے اتنا کہا اور ہتھیلی پر چڑھ گیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس کو اوپر چڑھنے میں کبڑے نے مدد دی اور جیک مجھے اپنے کندھوں پر کھڑا کر کے ہتھیلی تک لے آیا، تب میں کود کر ہتھیلی پر چڑھا۔

ہتھیلی کی اونچائی کا اندازہ آپ خود لگا لیجئے۔ اب وہ وقت یاد کرتا ہوں تو ہنسی آ جاتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اسکول میں گلیور کی کہانی پڑھا کرتے تھے کہ وہ کس طرح بونوں کے ملک میں پہنچا اور پھر اس کے بعد دیوؤں کے دیش میں۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ ایک دن میں خود بھی جیتے جاگتے دیوؤں کے جزیرے میں پہنچ جاؤں گا۔

خیر، تو اپنی ہتھیلیوں پر اٹھا کر وہ دونوں مجھے اور جان کو پیالے سے باہر لے گئے۔ میں یقیناً اس وقت ڈیڑھ سو فٹ کی بلندی پر تھا۔ سب سے پہلے میں نے ملاحوں کو دیکھا کہ وہ کس حالت میں ہیں؟ اور ان کی حالت وہی تھی جس کی مجھے توقع تھی۔ ان کی ہڈی پسلی ایک ہو گئی تھی۔ جان نے انہیں دیکھ کر جلدی سے اپنے سینے پر صلیب کا نشان بنایا اور پھر دوبارہ ہتھیلی سے چپک گیا۔

ہمیں ہاتھوں پر اٹھائے ہوئے وہ دونوں دیوزاد نیچے زمین پر بیٹھ گئے۔ پھر ایک نے قریب ہی پڑا ہوا اپنا ایک بکس کھول کر تقریباً بیس فٹ لمبا ایک راکٹ نکالا۔ راکٹ کا دروازہ کھول کر انہوں نے ہم دونوں کو باری باری اس کے اندر چھوڑ دیا اور پھر راکٹ انہوں نے زمین پر سیدھا کھڑا کر دیا۔ کھڑکی میں سے جھانک کر میں نے دیکھا کہ وہ اب بجلی کے چند تار بکس کے کسی خانے میں سے نکالنے میں مصروف تھے، ان کے ہاتھوں میں ایک چھوٹا سا ڈبہ تھا جس میں کچھ ہینڈل اور بٹن سے لگے ہوئے تھے۔ یکایک ان میں سے ایک نے ہمیں دیکھ کر ایک ہینڈل گھما کر کوئی بٹن دبایا اور تب فوراً ہی ہمارے راکٹ کو ایک زوردار جھٹکا محسوس ہوا اور پھر میں نے دیکھا کہ وہ آہستہ آہستہ زمین سے اوپر اٹھنے لگا!

میرے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں کہ اپنی اس وقت کی پریشانی کے بارے میں کچھ لکھ سکوں۔ جان تو دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر بیٹھ گیا مگر میں برابر کھڑکی سے لگا ہوا باہر جھانکتا رہا۔ راکٹ بہت ہی تیزی سے آسمان کی طرف جا رہا تھا۔ جزیرہ مجھے اب بالکل چھوٹا سا نظر آنے لگا تھا۔ کچھ ہی سیکنڈ بعد راکٹ بادلوں میں چھپ گیا لیکن رفتار وہی رہی۔ ٹھیک تو میں بتا نہیں سکتا لیکن میرا خیال ہے کہ ہم دونوں اس راکٹ میں تقریباً بیس ہزار فٹ کی بلندی پر گئے۔ ہمارے سانس اب گھٹنے لگے تھے۔ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے سانس لینے کے لئے ہمیں پورا مونہہ کھولنا پڑتا تھا سردی اتنی ہو گئی تھی کہ جسم کپکپانے لگا تھا اور دانت آپس میں بجنے لگے تھے۔

پہلے تو میرا خیال تھا کہ شاید ہم دونوں اسی عجیب سی مخلوق کی دنیا میں جا رہے ہیں۔ اپنی بےبسی کا خیال کر کے دل رو رہا تھا کہ جانا کہاں تھا اور جا کہاں رہا ہوں۔ مگر پھر اچانک راکٹ کی رفتار گھٹنے لگی اور وہ اوپر جانے کی بجائے اب آہستہ آہستہ نیچے اترنے لگا۔ مجھے یقین تھا کہ راکٹ لازمی طور پر جزیرے کی کسی چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے گا۔ مگر ایسا نہ ہوا، آہستہ آہستہ وہ راکٹ پھر اسی جگہ آ کر ٹک گیا جہاں سے وہ اڑا تھا۔

“تم کچھ سمجھے۔؟” جان نے مجھ سے کہا :

“یہ راکٹ اس قسم کا ہے جو ریڈیو کی لہروں سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور جہاں تک میں سمجھ سکتا ہوں یہ کھلونا راکٹ ہے یا پھر ان لوگوں کے کسی بہت بڑے راکٹ کا نمونہ۔ بہرحال یہ تو اب نیچے اترنے پر ہی پتہ چلے گا۔”

فوراً ہی ہمارے راکٹ کا دروازہ کھلا اور پھر ایک چھوٹا سا زینہ۔ ان دیوؤں میں سے ایک نے اپنی دو انگلیوں سے پکڑ کر دروازے سے لگا دیا۔ ہم جب اس زینے سے نیچے اتر رہے تھے تو وہ دونوں خوشی سے تالیاں بجا رہے تھے اور ان تالیوں کی آواز سے ہمارے کانوں کے پردے پھٹے جا رہے تھے نیچے اترتے ہی ہم نے دیکھا کہ جیک، کبڑا اور دونوں ملاح بھی پیالے نما قید خانے سے باہر کھڑے ہمیں حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ ان دیوؤں کے چہروں پر اس وقت بہت زیادہ خوشی تھی۔ بار بار وہ ایک دوسرے سے ہاتھ ملا کر ویسی ہی ہاتھی کی آواز جیسی چنگھاڑیں مار رہے تھے۔

دو بجے تک ان دونوں نے ہماری خوب گت بنائی ہمیں چلا پھرا کر دیکھا ملاحوں کو اشارے سے پانی میں تیرنے کے لئے کہا۔ ہمیں خوب دوڑایا ہم سب سے کرتب دیکھے اور آخر میں ہمیں باری باری اٹھا کر اسی قید خانے میں پہنچا دیا وہ تو غنیمت ہوا انہوں نے ہمیں ہمارے جہاز تک جانے کی اجازت دے دی تھی اور ہم نے اس میں سے کھانے پینے کا بہت سا سامان نکال لیا تھا بعد میں یہی سامان انہوں نے اٹھا کر ہمارے قید خانے میں رکھ دیا تھا۔ ان کے اچھے برتاؤ سے ہماری ڈھارس بندھی اور ہمیں یقین ہو گیا کہ وہ ہمیں نقصان پہنچانا نہیں چاہتے۔ ہم نے آرام سے بیٹھ کر کھانا کھایا اور پھر پتھروں سے کمر لگا کر باتیں کرنے لگے۔ سب سے پہلے جیک نے کہا۔

“مسٹر جان، میرے خیال میں وہ دونوں کہیں دور چلے گئے ہیں، کیوں نہ ہم یہاں سے بھاگ چلیں

جاری ہے

خوفناک جزیرہ

خوفناک جزیرہ

– قسط:13

سراج انور

پچھلی قسط کا خلاصہ :

ہوانگ ہو نامی چینی لڑکے کی سربراہی میں دونوں ڈاکو اور جان کی ٹیم نے شہنشاہ چی ای تھاؤ کے خزانے کی تلاش میں آگے سفر جاری رکھا۔ پماکوٹی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر ہوانگ ہو نے دونوں ڈاکوؤں کو ایک جگہ کی کھدائی کا حکم دیا۔ پندرہ فیٹ کا گڑھا کھودنے کے بعد انہیں ایک صندوق دکھائی دیا جس میں صرف نصیحت پر مبنی ایک کاغذ تھا۔ بھیروں سنگھ نے اس دوران چینی لڑکے پر کدال چلا کر اسے زخمی کر ڈالا اور لڑکا زخم کی تاب نہ لا کر چل بسا مگر لڑکے کی زہریلی مکڑی نے دونوں ڈاکوؤں کو ڈنک مار کر ختم کر دیا۔ جان کی ٹیم پہاڑ سے نیچے اتر کر اپنے سفر پر آگے روانہ ہوئی۔ ماہی گیروں کی ایک بستی میں پہنچ کر انہوں نے ایک چھوٹا سا جہاز خریدا اور بستی سے چند ملاحوں کو بطور ملازم ساتھ لیا اور سمندر کے سفر کے لیے تیار ہو گئے۔

۔۔۔ اب آپ آگے پڑھئے ۔۔۔

“پھر بھی آخر کیا کہتے ہیں؟”

” وہ کہہ رہے ہیں کہ تم موت کے مونہہ میں جا رہے ہو ۔ بھگوان کرے کہ تم زندہ واپس آؤ۔” یہ کہہ کر کبڑے نے ایک جھرجھری سی لی مگر جان نے بے پروائی سے جواب دیا۔

“کوئی بات نہیں ، مرنا تو سب کو ایک دن ہے ہی پھر موت سے کیا ڈرنا!” اتنا کہہ کر وہ جہاز میں بنے ہوئے ایک چھوٹے سے کیبن میں داخل ہو گیا، اور اس کے پیچھے پیچھے ہم بھی اندر آ گئے۔ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں چار بستر لگے ہوئے تھے اور ضرورت کی ہر چیز موجود تھی ، جو ایک کمرے میں ہونا چاہئے ۔ ہم ابھی بیٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ جہاز ہلنے لگا اور تب ہم نے سمجھ لیا کہ ہم اب ایک ایسے بھیانک سفر پر روانہ ہو چکے ہیں، جس کے بارے میں ہمیں کچھ علم نہیں کہ کب ختم ہوگا ۔ اور جس سے بچ کر ہم واپس بھی آئیں یا نہیں؟

تقریباً چار بجے ہم بحری پولیس کو مطمئن کرنے کے بعد آگے بڑھے۔ ہمارا قیمتی وقت بحری پولیس نے بہت ضائع کیا ۔ ہزاروں باتیں پوچھی گئیں اور ہزاروں جگہ اندراج کیا گیا کہ ہم کون ہیں اور کہا جا رہے ہیں؟

اسٹیمر کے بجائے یہ چھوٹا سا جہاز بہت مفید ثابت ہوا ۔ اس لئے کہ اسٹیمر کے لئے ہمیں تیل بہت مقدار میں اپنے ساتھ رکھنا پڑا ۔ ایسے لمبے سفر کے لئے کتنا تیل جمع کرنا ہوتا اس کا اندازہ میری بجائے آپ خود لگائیے۔ میں تو صرف اتنا سمجھ سکتا ہوں کہ تیل کے ڈرمز سے ہی پورا اسٹیمر بھر جاتا اور ہمارے لئے ذرا سی بھی جگہ نہ رہتی۔ بادبانی جہاز بہتر یوں تھا کہ ایک تو اس کے لئے کسی تیل کی ضرورت نہیں پڑتی تھی دوسرے اس میں جگہ بھی کافی تھی۔

جہاز کی رفتار اس وقت پندرہ ناٹ فی گھنٹہ تھی۔ چھ بج رہے تھے اور سورج اب چھپ رہا تھا میں چونکہ قدرتی مناظر کا بہت دلدادہ ہوں اس لئے کمرے سے نکل کر باہر آ گیا ۔ پورا سمندر اس وقت پگھلا ہوا سونا معلوم ہو رہا تھا ۔ سمندری پرندے بڑی تیزی سے اپنے آشیانوں کی طرف اڑ رہے تھے ۔ ہوا ہلکی ہو گئی تھی ، اس لئے ملاح بادبانوں کا رخ بدلنے میں مصروف تھے ۔ سمندر بالکل خاموش تھا ۔ لہریں بہت کم اٹھ رہی تھیں ۔ ہر طرف پانی ہی پانی دکھائی دیتا تھا ۔ سچ بات یہ ہے کہ اس طرح مجھے جہاز کی رفتار کا بھی صحیح اندازہ نہیں ہو رہا تھا ۔ ریل میں تو یہ ہوتا ہے کہ برابر سے گزرتے ہوئے ٹیلی فون کے کھمبے اور درخت اس کی رفتار بتاتے رہتے تھے ۔ مگر یہاں پانی میں آس پاس کچھ بھی نہ تھا ، مجھے بھلا کیا معلوم تھا کہ جس سمندر کو میں اس وقت اتنی دلچسپی سے دیکھ رہا ہوں ، وقت آنے والا ہے کہ وہ اتنا خطرناک ہو جائے گا کہ مجھے اس سے بچنے کے لئے صرف موت ہی سب سے زیادہ آسان راستہ نظر آئے گی۔

میں نیچے کمرے میں جانے ہی والا تھا کہ جیک اور جان دونوں دوربینیں لئے ہوئے اوپر آ گئے، جان بھی ڈوبتے ہوئے سورج کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور ہم سے کہنے لگا۔

“سمندر اس وقت بہت حسین لگ رہا ہے ۔ لیکن یہی سمندر چودہویں رات کو بپھر جاتا ہے۔ اس میں بڑا زبردست جوار بھاٹا آتا ہے اور جہاز ڈانواں ڈول ہو جاتے ہیں ۔ اور پھر اسی رات کو سمندر میں کہیں سے وہ جزیرہ نمودار ہوتا ہے جو درحقیقت ہماری منزل مقصود ہے۔”

“مسٹر جان! میرے خیال میں اب وقت آ گیا ہے کہ آ پ ہمیں تمام باتیں تفصیل سے بتائیں” جیک نے آہستہ سے کہا: “کیوں کہ بغیر کچھ جانے بوجھے ہم وقت پڑنے پر آپ کی مدد کس طرح کر سکتے ہیں؟”

“بالکل ٹھیک ہے” جان نے کھنکار کر کہنا شروع کیا: “سنانے کو تو میں سنا دوں، مگر کہانی الف لیلی یا طلسم ہوش ربا جیسی ہے۔ مجھے بھی یقین نہ آتا اگر میں نے ایک جہاز راں سے اس جزیرے کا نام نہ سنا ہوتا۔ اس کا نام ولیم تھا ۔ ایک بار اس پانی پر سفر کرتے وقت اسے جزیرہ چاگس سے آگے جانے پر ایک بہت بڑا جزیرہ خود بخود پانی میں سے ابھرتا ہوا نظر آیا، ولیم نے فوراً لنگر ڈال دئیے اور اس جزیرے پر جا اترا ۔ وہیں اس نے وہ مکھی دیکھی جس کی ہمیں بھی تلاش ہے ۔ اور جس کی بابت کبڑا چیتن تم کو سب کچھ بتا ہی چکا ہے۔ ولیم ایک بہت اچھا سائنس داں تھا۔ اس نے اندازہ لگایا کہ یہ جزیرہ چاند رات کے بعد آدھے مہینے تک پانی کے اوپر رہتا ہے ، اس کے بعد پھر آہستہ آہستہ پانی میں غرق ہونا شروع ہوجاتا ہے ، ساتھ ہی اپنے مختلف آلات سے اس نے یہ بھی معلوم کیا کہ مکھی کی آنکھوں میں کیا تاثیر ہے ۔ پورے چودہ دن اس جزیرے میں گزارنے کے بعد آخر ولیم مکھی کے بارے میں ایک ایک بات معلوم کر کے پھر اپنے جہاز میں بیٹھ گیا ۔ اور سالوں بعد امریکہ پہنچا ۔ اپنے سفر کے حالات اس نے ایک کتاب میں لکھے تھے اور اسی کتاب سے مجھے یہ باتیں معلوم ہوئی ہیں۔”‘

“مگر آپ نے ان باتوں کا یقین کیسے کر لیا، ہو سکتا ہے کہ یہ باتیں غلط بھی ہوں؟” میں نے اتنا سن کر جان سے پوچھا۔

“یقین کیوں نہ کرتا، اپنے باپ کا کون یقین نہ کرے گا۔ ولیم میرا باپ تھا” اتنا کہہ کر جان خاموش ہو گیا۔ کچ دیر تک لہروں کو دیکھتا رہا اور پھر بولا:

“خزانے کی بابت مجھے کیسے پتہ چلا یہ بتانے سے کچھ فائدہ نہیں۔ کیونکہ خزانہ اب ہم پا ہی چکے ہیں ۔ ہمیں تو اب یہ سوچنا ہے کہ آگے ہمارے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے؟”

یہ سنتے ہی میرا دل دہل گیا۔ سورج کبھی کا غروب ہو چکا تھا ، اور ہر طرف اندھیرا پھیل گیا تھا۔ صرف پانی کی ہلکی سی آواز آ رہی تھی ورنہ ہر طرف خاموشی تھی ۔ میرا دل آپ ہی آپ اندر بیٹھا جا رہا تھا ، کسی آنے والے طوفان سے پہلے سمندر بالکل پرسکون ہوتا ہے ۔ مجھے سمندر کی یہ خاموشی بری لگ رہی تھی ۔ میرا جی چاہتا تھا کہ لہریں اٹھیں اور جہاز تیز چلے مگر جہاز تو اس وقت تیز چلتا جب کہ ہوا بھی ہوتی ۔ نہ جانے کس طرح یہ منوں وزنی جہاز سمندر کے سینے پر چل رہا تھا ۔ جب ہم واپس کمرے میں آئے تو کبڑا اپنے بستر پر لیٹا ہوا کچھ سوچ رہا تھا ۔ ہمیں آتا دیکھ کر وہ اٹھ گیا اور بڑی بےقراری سے پوچھنے لگا۔

“اب ہم کتنی دور آ گئے ہوں گے؟”

“میرے حساب سے صرف چند انچ ، یوں سمجھو کہ میلوں لمبے فاصلے کے لحاظ سے چند انچ ۔ یوں سمجھوکہ میلوں لمبے فاصلے کے لحاظ سے چند انچ آئے ہیں۔ جان نے جواب دیا۔

“مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔ نہ جانے کیا ہونے والا ہے؟” کبڑا واقعی خوفزدہ تھا۔

“بے وقوفی کی باتیں مت کرو، جان ہتھیلی پر رکھنے کے بعد ہی ایسا سفر کیا جاتا ہے۔” جیک نے ڈانٹا: “اس طرح تم دوسروں کو بھی ڈرا دو گے۔”

رات بغیر کسی خاص واقعہ کے گزر گئی ۔ جان تمام رات ملاحوں کے پاس قطب نما لئے بیٹھا رہا اور انہیں راستہ بتاتا رہا ۔ ہم تینوں یعنی میں، کبڑا اور جیک سوتے رہے۔ صبح کے وقت سمندری پرندوں کی چیخوں نے ہمیں جگایا۔ بےتابی اتنی تھی کہ اس امید پر تیزی سے دوڑتے ہوئے باہر آئے کہ ہو سکتا ہے کہ کوئی نئی بات معلوم ہو!

باہر آکر دیکھا تو جان ایک تختے کا سہارا لئے سو رہا تھا ، اور چاروں ملاح اپنی زبان میں کوئی عجیب سا گیت گا رہے تھے ۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اس وقت جان کو جگانا نہیں چاہتا تھا ۔ وہ رات بھر کا جاگا ہوا تھا اس لئے ہم نے سوچ لیا کہ اسے آرام کرنے دیا جائے ، ملاحوں کو صحیح سمت بتا کر اور انہیں چند ہدایتیں دے کر ہم جہاز کے دوسرے کونے میں آ بیٹھے اور خاموش بیٹھ کر یہ سوچنے لگے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے؟

کرنا بھی کیا تھا سوائے اس کے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور جہاز کے اس کونے سے اس کونے تک بار بار چکر لگاتے رہیں اسی طرح سوچتے سوچتے رات ہو گئی۔ اور پھر ایک رات کیا، ایک ایک کر کے چار راتیں گزر گئیں مگر ہمارا سفر برابر جاری رہا۔ اس عرصے میں جان اپنے ناپ تول کے اوزار لئے بیٹھا رہا اور قطب نما سے ملاحوں کا راستہ بتاتا رہا۔ سچ تو یہ ہے کہ میں اب سمندری سفر سے اکتا چکا تھا ۔ نہ ختم ہونے والا پانی، اوپر آسمان اور ہمارا ڈگمگاتا ہوا جہاز یہی اب میری دنیا تھی ۔ اس چھوٹے سے جہاز میں چلتے پھرتے اب میں تھک گیا تھا اور چاہتا تھا کہ جلد سے جلد میرے پاؤں زمین سے لگیں ۔ مگر زمین۔۔۔ ہائے یہ زمین اب کہاں تھی؟

کومورن کی کسی قریبی بستی سے چلتے ہوئے اب ہمیں پانچ دن گزر چکے تھے ۔ اکتوبر کی دس تاریخ تھی اور ہندی مہینے کے حساب سے چاند رات 19 تاریخ کو پڑتی تھی ۔ مطلب یہ کہ ہمیں آٹھ دن اور آٹھ راتیں اسی طرح پانی میں چلنا تھا۔ پھر کہیں جا کر اس جزیرے کا تصور کرنا چاہئے تھا اس وقت سے پہلے جزیرے کے بارے میں سوچنا بھی حماقت سے کم نہیں تھا، میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ سمندر کے بیچ یہ آٹھ دن کس طرح گزاروں گا۔ مگر یہ دن گزارنے کا سامان بھی قدرت نے کر دیا اور ایسے خوفناک طریقے سے کہ اب کے وہ وقت یاد آتا ہے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

کوئی خاص بات نہیں تھی مگر شام ہی سے ہوا ذرا تیز ہو گئی تھی ۔ اکتوبر کی راتیں ویسے بھی سرد ہوتی ہیں، اوپر سے پانی میں بھیگی ہوئی یہ ہوائیں ایسا لگتا تھا جیسے لا تعداد سوئیاں جسم میں چبھی جا رہی ہیں۔ سورج بھی ٹھٹھرتا ہوا غروب ہو رہا تھا ۔ آسمان پر ایک بھی پرندہ نظر نہ آتاتھا ۔ اگر اکا دکا کوئی دکھائی بھی دیتا تو بالکل کٹی ہوئی پتنگ کی طرح جس طرف ہوا چاہتی اسے بہا کر لے جاتی ۔ ہمارے جہاز کا بھی یہی حال ہونے لگا ۔ ملاحوں نے جلدی جلدی بادبان اتار لئے اور خوفزدہ نظروں سے آسمان کو تکنے لگے ۔

لہروں کا زور بڑھتا ہی جا رہا تھا اور سمندر کا پانی آہستہ آہستہ اوپر اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ آسمان بالکل کالا ہو گیا تھا ، اور لہریں بار بار اپنا خوفناک منہ کھول کر جیسے ہمیں نگلنے کے لئے اوپر لپکتی تھیں۔ جلد ہی طوفان شروع ہو گیا ، ایسا طوفان جو میں نے زندگی بھر کبھی نہ دیکھا تھا۔ کئی کئی سو فٹ اونچی لہریں اٹھتیں اور جہاز کے اوپر سے ہوکر گزرجاتیں۔ ہم اپنے کمرے میں جامنوں کی طرح گھل رہے تھے ۔ جہاز کے بائیں طرف ڈولنے سے ہم تیزی کے ساتھ کمرے کی دائیں دیوار سے جا ٹکراتے اور دائیں طرف ڈولنے سے بائیں دیوار سے ۔کبھی جہاز چکر کھانے لگتا تو ہم بھی لٹو کی طرح گھومنے لگتے ۔ ملاح ایسی خوفناک حالت میں بھی اپنے اوسان کو قابو میں رکھے ہوئے تھے ۔ وہ جہاز کو بچانے کے لئے ادھر ادپر بھاگے بھاگے پھر رہے تھے ۔ حالانکہ جہاز میں بارش کے پانی کے نکلنے کے لئے نالیاں بنی ہوئی تھیں ۔ مگر سمندر کا پانی جب اوپر سے گزرتا تو جہاز پانی سے بھرجاتا۔ تب ملاحو ں کو بالٹیوں سے پانی نکالنا پڑتا ۔ طوفان بڑھتا ہی جا رہا تھا ۔ ایسی زبردستش آوازیں پیدا ہو رہی تھیں کہ ہم چیخ چیخ کر بھی ایک دوسرے سے بات نہ کر سکتے تھے ۔ کھڑے ہونے کی کوشش کرتے تو تو پھر جلدی سے گر پڑتے اور گرتے ہی بینگن کی طرح لڑھکنے لگتے۔

خدایا! یہ کیسا عذاب تھا ؟ ایسی آفت تو میں نے زندگی میں کبھی نہ جھیلی تھی۔ مجھے کچھ معلوم نہ تھا کہ جہاز کس سمت میں جا رہا ہے ۔ یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں کسی سمندری چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش نہ ہو جائے، مگر اس وقت ہم کر بھی کیا سکتے تھے ، ملاح ہار چکے تھے اور جہاز لہروں کے تھپیڑے کھاتا ہوا کسی نامعلوم سمت کی طرف جا رہا تھا ۔ رات کے دو بجے تک ہمارا یہی حشر رہا ۔ کمرے کی چیزوں سے ٹکراتے ٹکراتے ہمارے نئے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹ گئے تھے ۔ مونہہ چوٹیں کھاتے کھاتے سوج گئے تھے۔ اور ہاتھ پیروں سے خون رس رہا تھا ۔ اوروں کے بارے میں تو کچھ کہہ نہیں سکتا ہاں اپنے بارے میں اتنا بتا سکتا ہوں کہ ایک بار جہاز کسی طوفانی لہر کی وجہ سے بری طرح ڈگمگایا تو میرا سر دیوار سے ٹکرایا۔ چوٹ اتنی سخت تھی کہ پھر مجھے معلوم نہ ہوسکا کہ میں کہاں ہوں ؟ بس ایسا محسوس ہوا کہ آہستہ آہستہ کسی خوفناک اندھیرے غار میں گرتا جا رہا ہوں !

شاید رات کے چار بجے کا وقت تھا کہ مجھے ہوش آیا۔ ممکن تھا کہ میں کافی دیر تک بے ہوش پڑا رہتا اگر ملاحوں کی چیخیں میرے کانوں میں نہ پڑتیں اور کبڑے چتین کی بار بار دیوتاؤں کو پکارنے کی آوازیں مجھے نہ سنائی دیتیں۔ ساتھ ہی مجھے ایسا لگا جیسے کوئی طاقت جہاز کو سمندر سے اوپر اٹھا رہی ہے پہلے تو میں سمجھا کہ شاید کسی خطرناک لہر نے جہاز کو اوپر اچھال دیا ہے۔ مگر ایسا بالکل نہ تھا۔ جہاز بالکل نہیں ڈگمگا رہا تھا۔ لیکن وہ کسی ترازو کے پلڑے کی طرح آہستہ آہستہ اوپر اٹھتا جا رہا تھا۔ میں نے حیرت سے جان اور جیک کو دیکھا تو وہ بھی خاموش کھڑے تھے۔۔۔ یوں لگتا تھا جیسے انہیں سکتہ ہو گیا ہو! میرے حواس آہستہ آہستہ قابو مں آتے جا رہے تھے۔ پہلے میرا خیال تھا کہ شاید میں خواب دیکھ رہا ہوں۔ مگر پھر مکمل طور پر ہوش میں آ جانے کے بعد یہ حیرت ناک بات مجھے معلوم ہوئی کہ جہاز سچ مچ ہوا میں اوپر اٹھ رہا ہے اور ساتھ ہی ایک نہایت تیز روشنی، ایسی روشنی جس کے آگے شاید سورج بھی پانی بھرے، ہمارے جہاز کے چاروں طرف چھائی ہوئی ہے۔ تعجب کی بات یہ تھی کہ جب یہ روشنی کھڑکی سے گزر کر میری آنکھوں پر پڑی تو میری آنکھیں بالکل نہیں چندھیائیں! کافی اوپر اٹھ جانے کے بعد جہاز اب آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا۔ بالکل ہوائی جہاز کی طرح۔ میں نے کھڑکی سے جھانک کر نیچے دیکھا تو ڈر کے مارے میری چیخ نکل گئی۔ ہمارا جہاز اس وقت سطح سمندر سے کئی سو فٹ بلند تھا اور آہستہ آہستہ روشنی کے ایک راستے پر چلتا ہوا اس طرف بڑھ رہا تھا جہاں سے وہ تیز روشنی آ رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ روشنی اسے اپنی طرف کھینچ رہی ہو۔ میں نے جلدی سے اس مقام کو دیکھا جہاں سے روشنی آ رہی تھی اور جو اندازہ میں نے اس وقت لگایا وہ بعد میں بھی ٹھیک ثابت ہوا۔ روشنی کسی سرچ لائٹ جیسی چیز میں سے نکل رہی تھی اور یہ سرچ لائٹ دو بڑے بڑے پہاڑوں کے درمیان میں تھی اور وہ بڑے پہاڑ کسی قریب کے جزیرے ہی میں تھے۔

“ہم کہاں جا رہے ہیں سر؟ اور یہ کیا چیز ہے؟” میں نے جلدی سے گھبرا کر جان سے پوچھا۔

“ہم کہاں جا رہے ہیں!” جان نے چونک کر کہا :

“یہ میں ابھی کچھ نہیں بتا سکتا، ہمارا جہاز اپنے راستے سے ہٹ گیا ہے۔ پھر بھی میں اتنا ضرور بتا سکتا ہوں کہ اس وقت ہم کسی نا معلوم لیکن بہت بڑی طاقت کے پنجے میں پھنس گئے ہیں کیوں کہ ایسی کوئی شعاع جو کئی سو من وزنی اس جہاز کو ہوا میں اٹھا لے دنیا میں آج تک دریافت نہیں ہو سکی۔ ہمیں اب خود کو حالات کے سپرد کر دینا چاہئے۔ ہمارے حق میں یہی بہتر ہے۔”

“مگر آخر یہ ہے کیا۔؟” کبڑے نے کپکپاتے ہوئے پوچھا۔

“میں نے کہا نا کہ میں کچھ نہیں بتا سکتا۔” جان نے کہا:

“کچھ دیر بعد خود ہی پتہ چل جائے گا۔ مگر اتنا میں ہر ایک کو بتائے دیتا ہوں کہ اپنی مرضی سے کوئی کام نہ کیا جائے۔ جو میں کہوں اسے مانا جائے۔ کیوں کہ ہم کسی معمولی طاقت کے اثر میں نہیں ہیں بلکہ کسی بہت بڑی سائنسی طاقت نے ہمیں کھلونا بنا لیا ہے اور وہ طاقت۔۔۔۔”

اتنا کہہ کر جان خاموش ہو گیا۔ مگر ہم نے بے تابی سے پوچھا :

“کون ہے وہ طاقت؟”

“وہ کم از کم اس دنیا کی نہیں معلوم ہوتی، بلکہ کسی دوسرے سیارے کی ہے۔” جان نے آہستہ سے جواب دیا۔

میں بیان نہیں کر سکتا کہ یہ سن کر جسم کس بری طرح لرزا ہے۔ طوفان نے پہلے ہی ادھ مرا کر دیا تھا۔ لیکن یہ سن کر تو ایسا لگا جیسے ہمارے جسموں میں طاقت ہی نہیں ہے۔ میں اپنے آپ ہی جہاز کے تختے پر بیٹھ گیا۔ حالانکہ اس میں میرے ارادے کو کوئی دخل نہ تھا۔ جہاز برابر اس رفتار سے اس نامعلوم روشنی کی طرف کھنچا چلا جا رہا تھا۔ خدا جانے وہ روشنی کیا تھی اور کون سے جزیرے میں تھی۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے اور جیسا کہ جان نے مجھے بعد میں بتایا تھا، طوفان ہمیں 15 ڈگری عرض البلد کے قریب لے آیا تھا۔ خط استوا اس مقام سے بےحد قریب ہے۔ مگر جغرافیہ دانوں کے حساب سے خط استوا کے نزدیک یا دور ایسا کوئی جزیرہ نہیں ہے جو اب ہمیں نظر آ رہا تھا۔

جلد ہی ہمارا جہاز ان پہاڑوں کے نزدیک پہنچ گیا جن کے درمیان سے سورج کی روشنی سے بھی تیز شعاع نکل رہی تھی۔ میں نے غور سے ان پہاڑوں کو دیکھا اور دیکھتے ہی چیخ مار کر جان سے لپٹ گیا، کیوں کہ وہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہل رہے تھے۔ ان کی لمبی لمبی ٹانگیں بھی تھیں اور ہاتھ بھی…

جاری ہے…..

خوفناک جزیرہ

خوفناک جزیرہ

– قسط:12

سراج انور

پچھلی قسط کا خلاصہ :

آفت سنگھ اور بھیروں نامی دونوں ڈاکوؤں کے ساتھ جان کی ٹیم نے سفر جاری رکھا۔ ڈاکوؤں نے انہیں دھمکی دی تھی کہ اگر وہ بغاوت کریں گے تو اس کی سزا موت ہوگی۔ خزانہ مل جانے کے بعد وہ آزاد کر دئیے جائیں گے۔ پھر ان دو ظالم اور بدمعاش آدمیوں نے انہیں چوبیس گھنٹے تک بےحد پریشان کیا اور ان سے بےتحاشا کام لیا۔ راستے میں اچانک ان کا سابقہ سمندری بگولے سے پڑا جس کے سبب وہ سب مشکلات میں گھر گئے۔ طوفان ٹلا تو ان کے سامنے ہوانگ ہو نامی ایک ایسا چینی لڑکا کھڑا تھا جس کے قبضے میں ایک نہایت زہریلی مکڑی تھی۔ اسی مکڑی کے بل پر اس لڑکے نے دونوں ڈاکوؤں پر قابو پایا اور انہیں اپنی تابعداری پر مجبور کر دیا۔

۔۔۔ اب آپ آگے پڑھئے ۔۔۔

بس اس وقت اس کی حالت دیکھنے کے لائق تھی، یوں لگتا تھا جیسے کسی نے اس کے قدم زمین میں گاڑ دئیے ہیں۔ وہ بالکل ساکت ہو گیا ، ایسا معلوم ہوتا تھا گویا اس کا خون کسی نے نچوڑ لیا ہو، وہ ڈر کے مارے ہل بھی نہیں رہا تھا ، کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مکڑی ہلتے ہی ڈنک مار دے !

“بولو۔۔۔ اب کیا کہتے ہو، میرے اشارے پر یہ مکڑی تمہارے ڈنک مار سکتی ہے، اس کی چالاکی بھی تم نے دیکھ لی کہ یہ کتنی پھرتیلی ہے ، تمہارے چھ کارتوس بے کار گئے” چینی لڑکے نے ان دونوں کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔ بھیروں تو جیسے گونگا بن گیا تھا ۔ اس چھوٹے سے چینی لڑکے کی غیر معمولی طاقت کا اندازہ اسے اب ہوا تھا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ کسی معمولی آدمی سے اس کی ٹکر نہیں ہے بلکہ ہوانگ ہو سے مقابلہ کرنا لوہے کے چنے چبانے جیسا ہے، ادھر میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ اگر یہ لڑکا بھی ہماری پارٹی میں شامل ہو جائے تو کتنا اچھا رہے گا ۔ ممکن ہے اس کی پالتو مکڑی ہمیں کبھی کوئی کام دے جائے ، میں نے جب جان سے یہ مشورہ کیا تو وہ بولا۔

“خاموش رہو ، اور ان کے کسی معاملے میں دخل مت دو۔ “

“دفینہ مل جانے کے بعد میں تمہیں صرف چوتھائی حصہ دوں گا۔ ” ہوانگ ہو نے بھیروں سے کہا:

“بولو، کیا تمہیں یہ سودا منظور ہے؟ “

بھیروں سر جھکا کر کچھ دیر سوچتا رہا، آخر بولا:

“ہاں مجھے منظور ہے ۔ “

“اور اگلا چوتھائی ان لوگوں کو جنہیں تم نے گرفتار کر رکھا ہے ۔ “

“مجھے یہ بھی منظور ہے” بھیروں نے آہستہ سے کہا مگر اچانک یہ بات سن کر جان نے جلدی سے کہا۔

“نہیں، نہیں، ہمیں کوئی خزانہ نہیں چاہئے ۔ “

“تم نے دیکھا ان شریف لوگوں نے کیا کہا؟ “

ہوانگ ہو نے تعریفی نظروں سے جان کو دیکھتے ہوئے کہا:

“جن لوگوں کو علم ہوتا ہے کہ خزانے اور دفینے کتنی مصیبت اور پریشانی لاتے ہیں وہ انہیں پسند نہیں کرتے ، خیر یہ تو میری مرضی ہے کہ میں کس کو کیا دوں ، میں چاہوں تو اکیلا ہی اس خزانے تک پہنچ سکتا ہوں، مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ کس جگہ دبا ہوا ہے ، میری مکڑی مجھے اس مقام کا پتہ بتا دے گی، میں تم سے وہ جگہ کھدواؤں گا جو کنوئیں جیسی ہے ، جنوبی ہند کے ان مقامی لوگوں کی زبان میں پما کنوئیں کو اور کوٹی پہاڑ کو کہتے ہیں ۔ وہ پہاڑ ایک کنوئیں جیسا ہے ۔ تم دیکھ ہی لو گے ۔ اب مجھے یہ بتاؤ کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ شہنشاہ چی ای تھاؤ نے اتنی دور آ کر اپنا خزانہ پماکوٹی پر کیوں دبایا؟ “

“نہیں۔۔ ہمیں نہیں معلوم” آفت سنگھ اور بھیروں ے ایک ساتھ جواب دیا۔

“شہنشاہ چی ای تھاؤ جب معمولی آدمی تھا تو اس نے مہاتما بدھ کو ماننا چھوڑ دیا۔ اتفاق سے اسی زمانے میں اسے عروج ہوا اور وہ بادشاہ بن گیا ۔ وہ یہ سمجھا کہ بھگوان کوئی چیز نہیں ، خدا کا کوئی وجود نہیں جو کچھ بھی ہوں میں ہوں، یہ تمام دولت میں نے اپنے ہی بل بوتے پر حاصل کی ہے۔ بس اس کا یہ سوچنا تھا کہ اسی دن اس کا زوال شروع ہو گیا ، اسے کسی نے چین میں رہنے نہیں دیا۔ بغاوت ہو گئی اور وہ بھاگ کر یہاں آ گیا۔ اس نے ایک عقل مندی یہ کی کہ جس جگہ بھی گیا اپنی نشانیاں چھوڑتا گیا، جب وہ مر گیا تو اس کی انہیں نشانیوں سے اس کے وارثوں کو اس کا پتہ چلا ۔ میں اس کا جائز وارث ہوں ، اور مجھے یہ معلوم ہے کہ اس نے اپنا خزانہ پماکوٹی کی چوٹی پر دبا دیا تھا ۔ بس میں وہ خزانہ لینے آیا ہوں اور جیسا کہ میں نے تم سے کہا ہے کہ تم خزانہ کھودنے میں میری مدد کرو گے ۔ بولو منظور ہے؟ “

“منظور ہے، مجھے ہر بات منظور ہے” بھیروں گڑگڑا کر بولا:

“مگر۔۔۔ مگر بھگوان کے لئے اس مکڑی کو تو ہٹاؤ۔ “

ہوانگ ہو نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور مکڑی بھیروں کے شانے پر سے کود کر اس کی ہتھیلی پر جا بیٹھی ۔ یہ بڑا عجیب و غریب لڑکا تھا ، سچ تو یہ ہے کہ وہ تقریباً میری ہی عمرکا تھا ۔ مگر میں اس سے ڈرنے لگا ، مجھے اس کی مکڑی سے بھی خوف محسوس ہونے لگا تھا، بعد میں جان ہم سے مشورہ کرنے لگا ۔ اس کا خیال تھا کہ ہمیں لڑکے کا ساتھ تو دینا چاہئے مگر خزانے کے سلسلے میں کوئی لالچ نہیں ظاہر کرنا چاہئے ، اگر خزانے کا ایک چوتھائی حصہ ہمیں مل گیا تو اسے ہم قبول کر لیں گے ، اگر نہیں ملا تو ہم اصرار بھی نہیں کریں گے ، کیوں کہ ایک بے حد قیمتی اور نایاب خزانے کو ہم پچھلے کھنڈرات میں چھوڑ آئے ہیں، وہ خزانہ ہوانگ ہو والے خزانے سے بہت بڑا ہے ، اور ہمارے لیے وہی کافی ہے ۔

وہ رات اسی مقام پر بسر ہوئی اور ہوانگ ہو کی مکڑی رات بھر اس کا پہرہ دیتی رہی ، اور صبح کے وقت اس نے مکڑی کو دوبارہ سیپ میں بند کرلیا ۔ سچ تو یہ ہے کہ بھیروں اور آفت سنگھ اتنے خوفزدہ تھے کہ انہوں نے بھاگنے یا لڑکے کو مار ڈالنے کی ذرا بھی کوشش نہیں کی ، سورج ابھی پوری طرح نکلا بھی نہیں تھا کہ ہمارا قافلہ سب ساز و سامان کے ساتھ پما کوٹی کی طرف روانہ ہو گیا، ہم دیکھ بھال کر آگے قدم بڑھانے لگے، جنگل میں ایک عجیب قسم کی بو پھیلی ہوئی تھی ، اور چاروں سمت ایک پراسرار اور گہرا سناٹا حاوی تھا ، دل خواہ مخواہ تیزی سے سینوں میں دھڑک رہے تھے، ہم جتنا آگے بڑھتے، جھاڑیاں گھنی ہوتی جاتیں اور گنجان جنگل کو دیکھ کر سب کا کلیجہ منہ کو آ رہا تھا ۔ صرف ہوانگ ہو ہی تھا جو بڑی ہمت اور ہوشیاری سے آگے بڑھ رہا تھا ۔ رہے ہم تو ہم تو اس وقت ان تینوں کے رحم و کرم پر تھے، جو وہ چاہتے وہی ہو رہا تھا، جان کا مشورہ تھا کہ ہمیں بھاگنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ اس کے خیال میں یہی ہمارے حق میں بہتر تھا۔

چار گھنٹے کے بعد ہم پما کوٹی کے دامن میں کھڑے تھے ، یہ پہاڑ بالکل سیدھا تھا، ہوانگ ہو کے حکم پر آفت سنگھ نے اس پر چڑھنے کی بار بار کوشش کی مگر ہر مرتبہ پھسل کر نیچے آ رہا۔ آخر جان کے کہنے پر میں نے اسے مضبوط رسی سامان میں سے نکال کر دی ، رسی کی مدد سے جیک چند ہی منٹ میں اوپر پہنچ گیا اور پھر ایک ایک کر کے ہم رسی کو پکڑ کر اوپر چڑھنے میں کامیاب ہو گئے۔ میں نے دیکھا کہ پہاڑ کی چوٹی بہت خطرناک نظر آتی تھی، اس چوٹی پر صرف ایک درخت تھا بالکل سوکھا ہوا درخت جس کی ٹہنیاں یوں لگتی تھی جیسے موت کے لمبے لمبے ہاتھ ہوں جو اب لپکے اور تب لپکے، درخت کے نیچے ایک انسانی ڈھانچہ پڑا ہوا تھا ، اسے دیکھ کر یہ جگہ دوزخ کا ایک سنسان کونہ دکھائی دیتی تھی۔ ہمارے دل بری طرح دھڑک رہے تھے ، اور ہاتھ پیروں کا دم سا نکلا ہوا تھا ۔ سب کے چہروں پر وحشت برس رہی تھی ، یوں لگتا تھا جیسے ابھی کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔

“یہی وہ جگہ ہے جہاں لازوال دولت کسی اجنبی مسافر کی برسوں سے راہ تک رہی ہے۔ “

ہوانگ ہو نے کہنا شروع کیا:

“اسی مقام پر کہیں نہ کہیں بے شمار دولت دفن ہے ، جو صرف قسمت والوں ہی کو ملا کرتی ہے، یا پھر ان لوگوں کو ملتی ہے جن کے دل صاف ہوتے ہیں ، نیت میں کوئی کھوٹ نہیں ہوتا ۔ یاد رکھو، یہ بہت مقدس جگہ ہے، شہنشاہ تھاؤ نے مرنے سے پہلے مہاتما بدھ سے توبہ کی تھی اور مرتے وقت اسے مہاتما کے درشن بھی ہوئے تھے ، بس میں نے بہت باتیں کر لیں ، اب فوراً دو کدالیں لے کر تم دونوں کھدائی شرو ع کر دو۔”

آخری فقرے اس نے بھیروں اور آفت سنگھ کو مخاطب کر کے کہے، مرتے کیا نہ کرتے ، دونوں نے کدالیں زمین پر بجانی شرو ع کر دیں۔ خزانہ پانے کی خوشی میں دونوں کا خوف غائب ہو چکا تھا ، اور بھیروں کی نگاہوں میں پھر پہلے جیسی شیطانی چمک پیدا ہو گئی تھی ، آفت سنگھ کا تو بس نہ چلتا تھا ، کہ ایک سیکنڈ میں گڑھے کی مٹی اٹھا کر باہر پھینک دے۔ دونوں کے جسم پسینے سے بھیگ چکے تھے ۔ اور وہ برابر زمین کھودے جا رہے تھے ، آدھ گھنٹے کی جاں توڑ محنت کے بعد آخر کار ایک ایسا صندوق نظر آیا جس پر چینی نقش و نگار بنے ہوئے تھے ، اسے دیکھتے ہی ان تینوں میں یکایک زبردست جوش پیدا ہو گیا البتہ جان اور جیک بالکل بے تعلق خاموش کھڑے رہے، کبڑے کی آنکھوں میں بھی حرص نظر آنے لگی، رہا میں تو میں آپ سے سچ کہتا ہوں مجھے ایسے خزانوں سے ذرہ برابر بھی دلچسپی نہیں تھی۔

بھیروں اور آفت سنگھ نے ہوانگ ہو سے کہا کہ وہ صندوق کا ڈھکنا خود اٹھائے اور دیکھے کہ اس میں کیا ہے ۔ یہ سن کر لڑکا رسی کی مدد سے سنبھل سنبھل کر گڑھے میں اترا۔ یہ گڑھا کھد جانے کے بعد تقریباً پندرہ فٹ کا ہو گیا تھا ،جب وہ نیچے پہنچا تو ہم نے بھی اس کنوئیں میں جھانکا۔ میں نے دیکھا کہ ہوانگ ہو ڈھکنا اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے، بھیروں اور آفت سنگھ خاموش کھڑے تھے ، اچانک میں نے دیکھا کہ بھیروں کا کدال والا ہاتھ اوپر اٹھ رہا تھا ، ہوانگ ہو کو جھکے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں نفرت پیدا ہو گئی اور پھر اس نے کدال پوری قوت سے اٹھا کر لڑکے کی کمر میں پیوست کر دی ، وہ ایک زبردست چیخ مار کر پیچھے کی طرف گرا اور ایسا کرتے وقت صندوق کا ڈھکنا کھول گیا ، ہم نے اوپر سے دیکھا کہ صندوق میں شہنشاہ چی ای تھاؤ کے بیش قیمت کپڑے نظر آ رہے تھے ۔ بھیروں نے مرتے ہوئے لڑکے کی کوئی پرواہ نہ کی بلکہ دونوں ہاتھوں سے اس نے صندوق کا سامان باہر نکالنا شروع کر دیا ۔ ہوانگ ہو ادھ کھلی آنکھوں سے اس کی یہ حرکت دیکھ رہا تھا ، خزانہ تو کیا صندوق میں سے ایک چھوٹا سا سکہ بھی برآمد نہیں ہوا ۔ البتہ چینی زبان میں لکھی ہوئی ایک کاغذ پر چند سطریں ضرور نکلیں ، بھیروں ڈاکو اپنی ناکامی سے پاگل ہو گیا تھا ، اس نے مرتے ہوئے لڑکے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور بولا:

” او بےوقوف بتا یہ کیا لکھا ہے؟ بعد میں آسانی سے مر لیجیو۔ “

“ہوانگ ہو مسکرایا، اس نے وہ تحریر پڑھی اور اٹک اٹک کر جو کچھ بتایا وہ میں نیچے لکھتا ہوں، اس نے کہا:

” یہی تو وہ دس خزانے ہیں جن کی ہر انسان کو تلاش رہتی ہے ، سنو خزانے کا پہلا انمول موتی یہ ہے کہ ہمیشہ بزرگوں کا ادب کرو، دوسرا یہ کہ کسی کو حقیر نہ سمجھو، تیسرا یہ کہ کمزوروں کا خیال رکھو ، اور ان پر ہاتھ نہ اٹھاؤ، چوتھا یہ کہ دولت سے دور رہو، یہ انسان کو اپنوں سے دور کر دیتی ہے، پھر پانچواں یہ کہ سب کے ساتھ بھلائی کرو، چھٹا یہ کہ مصیبت میں خدا کو یاد کرو ۔ ساتواں یہ کہ عبادت کرو ، یہ برائیوں سے دور رکھتی ہے ۔ آٹھواں خزانہ یہ کہ چھوٹوں سے محبت کرو، نواں یہ کہ لالچ سے دل نہ بھرو اور دسواں خزانہ یہ کہ اپنی موت کو ہمیشہ یاد رکھو۔ “

ہوانگ ہو نے اتنا کہنے کے بعد بڑی مشکل سے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے اپنی سیپ نکالی اور اس کا ڈھکنا کھول دیا۔ ایسا کرتے ہی مکڑی تو آزاد ہو گئی مگر ہوانگ ہو ہمیشہ کے لیے موت کی قید میں جا بسا۔ مجھے اس چینی لڑکے پر ترس آ رہا تھا۔ اس غریب کو بھی کیا معلوم تھا کہ خزانہ دراصل دس انمول ہدایتیں ہوں گی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہدایات درحقیقت سمجھدار انسان کے لیے خزانے سے کسی طرح کم نہ تھیں۔ اچانک ایک بھیانک چیخ اس کنویں میں گونجی اور اس چیخ کے بعد دوسری چیخ۔ ہم نے جلدی سے جھانک کر دیکھا تو بھیروں اور آفت سنگھ کے جسم پانی بن کر بہہ رہے تھے ۔ مکڑی نے ہوانگ ہو کا انتقام لے لیا تھا۔

اور اب ہمارا بھی اس مقام پر کھڑے رہنے سے کوئی فائدہ نہ تھا ، لہذا ہم نیچے اترنے لگے، پماکوٹی پہاڑ سے اترنے کے بعد ہم واپس اسی مقام پر یعنی پالام کوٹہ گئے ، جہاں پر بھیروں نے ہمیں گرفتار کیا تھا ۔ جان نے یہ طے کیا کہ ہم ایک دن وہاں گزاریں اور پھر اپنے اس سفر پر روانہ ہوں جس کے لئے ہم بمبئی سے روانہ ہوئے تھے۔

سفر ۔۔۔۔ سفر ۔۔۔۔۔ ہر وقت کا سفر!

۔۔۔۔۔۔ سچ تو یہ ہے کہ میں اب اس سفر سے عاجز آ گیا تھا ، میری جگہ کوئی اور ہوتا تو کبھی کا اپنی جان چھڑا کر بھاگ چکا ہوتا۔ مگر ایک تو نئے نئے واقعات میں حصہ لینے کا شوق اور دوسرے میرا عہد۔ اس لئے میں مجبور تھا کہ سفر میں ساتھ رہوں ۔ راستے میں کیا ہوا؟ رات بھر ہم کس طرح چلتے رہے، کیا کیا مشکلات پیش آئیں؟ میرے خیال میں مجھے یہ سب آپ کو بتانے ضرورت نہیں، کیوں کہ میں بے کار سی باتوں سے اپنی اس داستان کو بلا وجہ لمبا نہیں کرنا چاہتا ۔ بس مختصراً یوں سمجھ لیجئے، ہم رات کے چار بجے کے قریب ماہی گیروں کی ایک بستی میں پہنچ گئے ۔

یہ سب لوگ بالکل ننگ دھڑنگ تھے اور ان کا رنگ بھی بالکل کالا تھا ، زبان ایسی بولتے تھے جو کم از کم میرے لئے عجیب تھی ۔ خدا جانے ملیالم تھی تامل تھی یا کیا۔ بہرحال جان ،جسے دعویٰ تھا کہ دنیا کی بہت سی زبانیں سمجھ سکتا ہے ، اس زبان کو بالکل نہیں جانتا تھا ۔ بستی والے پہلے تو ہمیں پاگل سمجھ کر بھاگ گئے ۔ مگر جب ہم نے اشاروں سے انہیں قریب بلایا تو ڈرتے ڈرتے پاس آئے ، ایسا لگتا تھا جیسے وہ ہمیں ڈاکو سمجھ رہے ہوں ، کیوں کہ بندوق دیکھ کر ہر کوئی یہی سوچ سکتا تھا۔ ممکن ہے کہ بھیروں اور آفت سنگھ نے کبھی ان لوگوں کو پریشان کیا ہو ، اسی لئے وہ ہم سے ڈر گئے تھے ۔ بڑی مشکل سے ہم نے انہیں سمجھایا کہ ہمیں کپڑے چاہئیں۔ ایک بوڑھا ماہی گیر ہمیں اپنے ساتھ لے کر بستی کے اندر گیا اور پھر ہمیں ایک جھونپڑی کے اندر چلنے کا اشارہ کیا۔

جھونپڑی کے اندر ایک بہت ہی بوڑھا شخص ناریل کی چٹائی پر بیٹھا ہوا تاڑی پی رہا تھا۔ ہمیں دیکھ کر وہ جلدی سے کھڑا ہو گیا ۔ پیشتر اس کے کہ ماہی گیر اس سے کچھ کہتا ، کبڑے چیتن نے آگے بڑھ کر ایک عجیب زبان میں اس سے باتیں شروع کر دیں۔ ہمیں بڑی حیرت ہوئی اور ساتھ ہی یہ تشویش بھی کہ خدا جانے یہ کم بخت اس اجنبی سے کیا کہہ دے؟ بڑی مشکل کا سامنا تھا ۔ ہم ان لوگوں کی ایک بات نہ سمجھ سکتے تھے اور وہ آپس میں برابر باتیں کئے جا رہے تھے۔ ڈر یہ تھا کہ کہیں کبڑا انہیں اپنا ہمدرد نہ بنالے ۔ اگر ایسا ہوگیا تو پھر ہم کہیں کے نہ رہیں گے ۔ کافی دیر تک باتیں کرتے رہنے کے بعد بوڑھا ہم سے مخاطب ہوا ، پہلے تو اس نے ہم سب کو اوپر سے نیچے تک بڑے غور سے دیکھا ، اور پھر جان سے انگریزی میں بولا۔

“آپ کا ساتھی کہہ رہا ہے کہ آپ کو سمندر میں کسی نامعلوم جزیرے پر جانا ہے اور اس کے لئے آپ کو کسی اسٹیمر یا کشتی کی ضرورت ہے؟”

بوڑھے کی زبان سے انگریزی سن کر ہم بہت خوش ہوئے اور ساتھ ہی یہ سوچ کر اطمینان بھی ہوا کہ کبڑا ابھی تک ہمارا وفادار ہے کیوں کہ اگر وفادار نہ ہوتا تو ہمیں پھنسانے کا اس کے لئے یہ بہترین موقع تھا۔ جان نے آگے بڑھ کر کہا۔

“جی ہاں ، ہمیں اسٹیمر یا کشی کی سخت ضرورت ہے ۔ کیا مل سکے گی؟”

“مل جائے گی ، مگر سمندری پولیس آپ کو ضرور پریشان کرے گی۔۔۔” بوڑھے نے کہا۔

“آپ اس کی فکر مت کیجئے ، پاسپورٹ کے علاوہ میرے پاس حکومت ہند کا خاص اجازت نامہ بھی موجود ہے ۔”

“بس تو پھر ایک تیز رفتار بادبانی جہاز چار ملاحوں کے ساتھ آپ کو مل سکتا ہے ۔ یہ ہماری بستی کا جہاز ہے آپ کو ضرورت ہے تو آپ لے لیجئے اور اس کی قیمت دے دیجئے۔”

مختصر یہ کہ سب باتیں مکمل طور پر طے ہو جانے پر وہ چھوٹا سا جہاز ہم نے خرید لیا ۔ پروگرام یہ تھا کہ ہم لوگ صبح کو روانہ ہو جائیں گے ۔ اب شام ہو رہی تھی اس لئے اب ہم نے آرام کرنے کی ٹھانی ، تاکہ صبح کو سمندری سفر کے لئے تازہ دم ہو جائیں ۔ سب ضروری کام کرنے کے بعد جب ہم آرام کرنے کے لئے لیٹے تو میں دل ہی دل میں کبڑے کے بارے میں سوچتا رہا ۔مانا کہ اب وہ شریف بن گیا تھا اور اب ہمیں اس سے کوئی خطرہ بھی نہیں تھا، لیکن جو شخص ایک بار اپنے بھیانک روپ میں میرے سامنے آ چکا ہو، کیا پھر کبھی وہ دوبارہ ویسا ہی روپ اختیار نہیں کر سکتا ! میرا دل بار بار گواہی دیتا تھا کہ یہ شخص ابھی تک خطرناک ہے اور ہمیں اس سے ہر وقت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔

اگلے دن وہ ملاح جو اب ہمارے ملازم تھے صبح گیارہ بجے ہمارے پاس آ گئے اور ہم سے کہا کہ سفر شروع کرنے کے لئے وہ ہر وقت تیار ہیں، اور ضرورت کا سب سامان جہاز پر لاد دیا گیا ہے، اس لئے بہتر ہوگا کہ سفر ابھی شروع کر دیا جائے ۔ ہم تو تیار تھے ہی اس لئے اپنا اپنا سامان اٹھا کر بستی سے باہر نکلے ۔ اس وقت ہم پیدل ہی چل رہے تھے ، کیوں کہ اپنے خچر ہم نے بستی کے بوڑھے شخص کی امانت میں دے دئیے تھے ۔ ارادہ تھا کہ اگر زندہ رہے اور واپس آئے تو لے لیں گے۔ حالانکہ ہم نے اپنے سفر کا مقصد کسی کو بھی نہ بتایا تھا ، پھر بھی لوگوں نے سمجھ لیا کہ ہم کسی خطرناک مہم پر جا رہے ہیں ۔ اس لئے ان لوگوں نے ہمیں جہاز پر بیٹھتے دیکھ کر زور زور سے نعرے لگانے شروع کر دئیے۔

جان نے کبڑے سے پوچھا: “تمہیں تو معلوم ہوگا کہ یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟”

“جی ہاں معلوم ہے، مگر بتاتے ہوئے میرا دل کانپتا ہے۔” کبڑے نے گھبرائی ہوئی آواز میں جواب دیا۔

جاری ہے….