by RH | Nov 5, 2024 | تجزیہ, تحریریں
وفا شعار عورت مینارہ محبت کیوں ہے
کیونکہ۔۔
وہ اپنی ہی راکھ میں آرزؤں کا محل تیار کرتی ہے
اس کے سچے جذبوں میں اس قدر استقامت ہوتی ہے
کہ۔۔
حوادث زمانہ اس کے جنت کدے کو مسمار نہیں کر سکتے
اس عورت کو خراج تحسین پیش کیجئے جو۔۔
آتش ہائے شوق اور موسمی مزاجوں کی صورت گر ہوتی ہے
اپنے لہو میں رقص کرتی محبت کی گردش کو تھمنے نہیں دیتی
وہ
ایک سمندر بن کر اپنی لہروں کو میٹھی نیند سونے بھی نہیں دیتی
البتہ
صبر اس کی جبلت کا حسن ہوتا ہے
کوئی کج ادا جب پارسائی کے باوجود اس کے گلے میں ذلت کا طوق ڈالتا ہے
تب بھی آخری حد تلک اس کی چاہت اور اضمحلال کی لہریں محبوب کے خاردار دل پر دستک دیتی رہتی ہیں
مگر
وہی شخص جب اس کی نظروں سے گر جائے تو وہ۔۔
پلٹ کر اسے دیکھنا نسائیت کی توہین سمجھتی ہے
البتہ عورت کا غیور ہونا بھی شرط ہے
خالددانش
by RH | Oct 13, 2024 | International, تحریریں
خالد دانش
کس قدر دلکش منظر تھا جب میری روح پر تمھاری محبت نازل ہو رہی تھی
اور
میں وجدانی کیفیت میں ستاروں کو سمندر میں گرتے دیکھ کر عجب کیف سے سرشار ہو رہا تھا
کہ۔۔اک صدا گونجی
یہ ستارے غسل محبت کو اترے ہیں تاکہ ان کی ٹھنڈک سمندر کی پاتال میں بکھری حدت میں ضم ہو کر اس کی لہروں کو دھمال سے روک دیں۔۔
اے موسم گرما کے دلکش چاند
اے روشن جگنو
اے جنگلوں میں کھلے گلاب
اے حسیں چاندنی
اے شجر محبت
اے نسخہ کیمیا
آو ! ہم ماہی خور پرندوں کا روپ دھار کر سطح سمندر پر رقص کناں ہو جائیں
تاکہ
غسل محبت کرتے ستاروں کا عشقیہ آلاپ پائے تکمیل کو پہنچے
دیکھو ! سمندر کے آخری کنارے پر سورج رنگ بدل رہا ہے ، اس سے قبل کہ اندھیرا دبیز ہو جائے ، ہمیں اک دوجے کی آنکھوں میں محبت کی کشادگی دیکھنی ہے پھر۔۔
پلکوں کے کواڑ بند کر لیں گے تاکہ کوئی رہزن ہماری آنکھوں میں جھانک بھی نہ سکے
کیونکہ۔۔ہم ایک دوسرے کے لیے گوندھے گئے ہیں ، دوسرا سہن ہو نہیں سکتا۔۔
یہ شرک ہم دونوں کرنا نہیں چاہتے
یہ شرک ہم سے ہو نہ پائے گا۔۔
by RH | Oct 13, 2024 | International, تحریریں
خالددانش
عشق
پہاڑوں سے ہوتا ہوا جنگلوں
صحراوں
سمندری
اور
زمینی فاصلوں کو نہیں گردانتا
عشق تو بس اپنے محبوب کی بارگاہ میں سجدہ ریز رہنا ہی پسند کرتا ہے۔۔
اور۔۔
یہ دل تمھیں نہ چاہے۔۔
تمھارے عشق میں غرقان نہ رہے۔۔
تو آگ لگے ایسے دل کو۔۔
مجھے پھر اس خون کے لوتھڑے سے کیا غرض۔۔۔
تم دور رہ کر بھی اگر اس دل کی مکیں
آنکھوں کی مکیں ہو
سانسوں کی مکیں ہو
دھڑکن کی مکیں ہو۔۔۔
تب تو یہ دل ہمارا ہے
تمھارا ہے۔۔
by RH | Oct 13, 2024 | International, تحریریں
خالددانش
وہ جو جنگلوں میں گونجے تو جنگلوں کو گلستاں کر دے۔۔
سوکھی ہوئی شاخ کو اپنی نازک انگلیوں کا لمس بخشے تو ہرا کر دے۔۔
سنو۔۔
روح کے درد عبث شل ہو چکے تھے
قلب آشفتہ
آنکھوں تلے سیاہ داغ
پلکوں پر جال عنکبوت
پھر
اک آواز کی روشنی میری رگوں میں پیوست ہوئی
گویا
سماعتوں میں شبنمی قطرے
شفا بن کر اتر گئے
اب
اس آواز کو تراش کر
معطر مجسم میں لکھوں گا
تب
بٹھا کر سامنے
نازک ہونٹوں پر رقصاں مسکراہٹ کو جادو ہی لکھوں گا
لب و لہجے کو خوشبو
اور
اس خوشبو کو گل طاؤس
گل لالہ
اور گل تسبح میں لکھوں گا
دراز گیسوؤں کو سائباں
ضو فشاں آنکھوں کو جام حیات لکھوں گا
لبوں کو پنکھڑی گلاب
ستواں ناک کو بہار
اور
مرمریں گال خوشبو بھرا گلاب لکھوں گا
آخر کار
اس پیکر جمال سے اٹھتی مہک کو سمیٹ کر نقرئی گلدان لکھوں گا
ہو جب لب کشا
تو انداز تکلم کو سمپورن راگ لکھوں گا
جب اتروں جھیل آنکھوں میں
ان ساعتوں کو قوس قزح کا رنگ لکھوں گا
جب کھنکنا کر ہنس پڑے وہ
تو
اسے مترنم جھرنوں کی لیکار لکھوں گا
by RH | Oct 13, 2024 | International, تحریریں
خالد دانش
پیکر تراشی گرچہ میرا منصب نہیں
میں تو بس اپنے قلبی احساسات و کیفیات کی تصویر کشی کرنے کا مکلف ہوں
آج میں اک حور شمائل سے اپنی اٹوٹ محبت کی سچی داستان رقم کرنے جا رہا ہوں
جو ہم دونوں کے معاملات مہر و محبت اور واردات عشق کی لازوال و معطر روداد ہے۔۔
جب لفظوں میں نغمگی
ساز
سوز
جذبات
خلوص
اور
سچائی کی آمیزش ہو جاتی ہے تو اک پاکیزہ جذبہ۔۔۔
محبت۔۔معرض وجود میں آتا ہے۔۔
محبت وہ نور و تجلیات کی بارش ہے جو دل کے ویرانوں میں بہار بن کر برستی ہے۔۔
ہمہ وقت محبوب کی چاہت کے راگ معجزاتی طور پر سنائی دینے لگتے ہیں۔۔
پھر دوجسم ایک جان ہو کر تیز و تند ہواوں میں اڑان کا لطف اٹھاتے ہیں۔۔
دنیا سے بے خبر صنم کی پرستش
اور
اک دوجے کی مسحور کن آواز سے بکھرے پھولوں سے روح کی تراوٹ کا سامان کرتے ہیں۔۔
آج میرے دل میں خیال آیا کہ وہ اپنی محبت کو راز رکھنا چاہے تو اسے حق ہے
مگر
میں اپنی ازلی و ابدی محبت کے لطیف جذبے و محسوسات کو سپرد قلم کر ہی دوں۔۔۔
میرے باطن میں پوشیدہ محبوب کے جمال کا احساس اک ایسی جھلملاتی شمع کی مثل روشن ہے
جس کی کرنیں میرے دل کو منور کر چکی ہیں۔۔۔
یہی وجہ ہے کہ میری سوچ
فکر
علم
ادب
فن
اور
شاہکار تحریروں میں وہی جلوہ گر رہتی ہے۔
اس کے خدو خال پر کیا لکھوں
کہ حسن کا بیکراں سمندر ہے
جس کی زلفوں سے میئسر ہے مجھے چاندنی سی ٹھنڈک
آنکھیں اس کی مہ کے پیالوں جیسی
اور
سیف الملوک جھیل کا اک عکس حسیں ہو جیسے
ہونٹ ایسے کہ جنھیں دیکھ کر پنکھڑی گلاب کی بھی شرماتی ہے
شبنمی وجود
تتلیوں کا رنگ جس کا پیراہن
اور
جسے پریاں بھی ہوائی بوسے دیں۔۔
میرا محبوب تو بس ایسا ہے
انمٹ محبت پر مختصر تحریر جس کا ایک ایک لفظ چاندنی سے دھلا ہے۔۔۔
by RH | Oct 13, 2024 | International, تحریریں
خالددانش
میں روشنائی کی دوات میں ڈوبا ہوا پریمی جب ہزاروں میل کی مسافت پر تشریف فرما اپنی پریمکا کی آنکھوں کی بارگاہ میں ممتاز حضوری کا شرف حاصل کرتا ہوں تو وجدانی کیف سے سرشار ہو کر ان طلسماتی آنکھوں پر معطر قصیدہ لکھنے کا قصد کرتا ہوں
اور
سفید کاغذ پر ان روش چراغوں کی لو منعکس کرتے ہوئے نفس کی گہرائیوں میں اتر کر سوچتا ہوں کہ۔۔
پریم ہی وہ پاوتر جذبہ ہے جو نہ صرف روح سے کذب کو نوچ کر پھینک دیتا ہے بلکہ۔۔
پریم وہ پاوترتا ہے جو شعلوں کا روپ دھار کر روح کے اندھیروں کو اجالوں میں بدلتی ہے اور پھر دل شفاف موتیوں کی مثل چمکتا دکھائی دیتا ہے
سنو جانان ! تمھاری دلکش ، دلنشیں اور نشیلی آنکھیں میری کفایت نفسی کی ضامن بن کر جب مجھ پر اسرار کے در کھولتی ہیں تب کچھ ابہام نہیں رہتا
اور
یوں میں تمھاری شراب آنکھوں کا جام حلق سے اتار کر انھیں جام حیات لکھتا ہوں۔۔
معصوم آنکھیں
جن میں بانکپن رقص کرتا ہے
گہرا سمندر
شہد سی مٹھاس جس میں ہے
محبت کا قرار
شفا کا نسخہ
محبت کا گمان آنکھیں
میرا آئینہ بھی ہیں
مے کا پیالہ
نشے میں غرقان یہ آنکھیں
رہزن ہیں
مرے دل پہ قابض ہیں
تیری یہ نیم باز آنکھیں
حیا کا حسن
شرم سے جھکی جھکی آنکھیں
سراپا حجاب
میرے دل کی کتاب آنکھیں
کوئی پوچھے
تو بتلا دوں
یہ ہیں سیف الملوک جھیل سی آنکھیں
مترنم آبشار جیسی ہیں
گلاب چہرے پر نقاب
حسن یار کرے کمال
چمکتی آنکھوں کا جمال
شرح حیات
جادوئی حصار
نور جمال
مہکتا اک گلاب
آنکھ وہ جھپکے
تو
سحر ہو جائے
موند لے گر آنکھ
دل پر چھائے کالی گھٹا
کواڑ کھولے
پلکوں کو جنبش دے
سکوں
میرے دل کو تب آئے
سنو جانان !
تمھاری حسین آنکھیں تو
حضور آنکھیں
جناب آنکھیں
سوال آنکھیں
جواب آنکھیں
شوق وصال آنکھیں
روح پرور ہیں
مصوری کا کمال آنکھیں
میری زندگی بھی ہیں