by RH | Oct 4, 2024 | International, تحریریں
نثر پارہ
مصنف : خالد دانش
میں آن واحد میں اس مہذب خوشبو پر فریفتہ ہو گیا
ایسی خوشبو
جو مری حالت نفسی کو تغیر سے بچانے کی موجب بن گئی
وہ مجھے نرمی سے چھوا کرتی
اور
کبھی میرے خلاف شورش بھی بپا کرتی
مکالمہ کرتی تو اس کے ہونٹوں پر نیل پڑ جاتے
آخرکار وہ میرے اعصاب کو شعلہ زن کرنے کے لیے حد سے بڑھ گئی
گویا
وہ میرے پہلو میں اک بدلی کی طرح آ پہنچی
میں تذبذب کا شکار ہو گیا
نہیں۔۔میں بکھر نہیں سکتا
غیور مرد ایسے وحشی حملے کا آلہ کار نہیں بن سکتا
اک ہوک اٹھی
اک صدا گونجی
برستے کیوں نہیں
اس ریگ صحرا کو سیراب کیوں نہیں کرتے
میں نے سرگوشی کی
تم
اپنی کتاب حیات میں گر مجھے فرومایہ بھی رقم کر دو
تب بھی میں مردانہ فضیلت کو پامال نہیں کر سکتا
تم سے محبت کا جرم تسلیم کرتا ہوں
مگر
اس سزا کے لیے ضمیر اجازت نہیں دیتا
جب تھک جاؤ گی
اور
پلٹ کر پیچھے دیکھو گی
تو میری پاکیزہ محبت کے فضائل پر رشک کرو گی۔۔
رشک کرو گی
by RH | Oct 4, 2024 | International, تحریریں
مصنف : خالد دانش
حسن و جمال سے آنکھوں کو ٹھنڈک اور
روح کو سکون اس وقت ملتا ہے
جب
من پسند عورت کا دیدار مقدر ہو جائے
مجھے اپنی حساسیت کا بخوبی اندازہ ہے
میری پختہ سوچ کبھی رنگوں ، موسمی مزاجوں ، خوشبوؤں اور حالات کے تغیر و تبدل سے اپنی سمت نہیں بدلتی۔۔
خوبی ہے یا خامی مجھے نہیں جاننا
ایک ہی ڈگر پر چلنے والے ، آسمان کو نہیں زمین کو دیکھ کر چلتے تاکہ انھیں کبھی ٹھوکر نہیں لگے
خدارا ! بیک وقت کئی کئی موسموں سے لطف اندوز ہونا ترک کر دیجئے
یہ جذبۂ محبت کی توہین ہے
خیر !
آج گوشۂ تنہائی میں اس کی تصویر نے پر یکبارگی سے زمانہ طفل کے بہت سے در وا کر دئیے۔۔
میں گھنٹوں اس کا منتظر رہتا
اسکول سے چھٹی کی ٹن ٹن ٹن سنائی دیتی تو
دل زور زور سے دھڑکنے لگتا
وہ قدم باہر نکالتی
تو
بے ساختہ لبوں پر بسم اللہ کا ورد خوشبو بکھیر دیتا
وہ
ٹانگے میں پچھلی جانب سوار ہوتی
اور
میں تھوڑے فاصلے پر سائیکل آہستہ آہستہ چلاتا ہوا اپنی پلکوں سے اس کے معصوم و پاکیزہ وجود کا طواف کرتا
سبز ، سرخ ، بنفشی رنگ ، روشنی اور خوشبوئیں مجھ میں سمٹ جاتیں ، اتر جاتیں
ایسا لگتا کہ
جیسے پھل دار درختوں کے ٹھنڈے سائے تلے سفر کر رہا ہوں
اس کی آنکھیں مجھ پر مسکان کا چھڑکاؤ کرتیں
یوں زمانہ بیت گیا
پھر
یوں ہوا کہ۔۔
میٹرک کے بعد سینکڑوں دن کالج کے باہر انتظار بلکہ۔۔
کرب و درد میں گزارے
ہم بچھڑ گئے ، شاید کبھی نہ ملنے کے لیے
مگر
میں آج بھی پر امید ہوں
بس
ایک کسک ہے جو تا عمر رہے گی
by RH | Oct 4, 2024 | International, تحریریں
مصنف : خالد دانش
قبول ہے
قبول ہے
قبول ہے
تین بار اثبات میں سر کو جنبش دینا
گویا
محبت کی نئی کائنات تخلیق کرنا
پھر۔۔
رات کی لطف آمیز دستک
سکوت ٹوٹ گیا
اک گہرا الاؤ
جسم کی غار سے اٹھتی صدائیں
اور
ان صداؤں کی بازگشت
میں سنگ مرمر کے شجر سے چاندنی کشید کرنے لگا
ہموار
دلکش
دلنشیں
اور
معطر راہگزر
ہر ڈالی ہر پات پر اپنے ہونٹوں سے دستک دیتا ہوا
میں روشن جھلملاتی غار کے دوسرے کنارے پر جانے کا قصد کرنے لگا
میری کم رفتاری تمھیں پسند نہ تھی
ٹھہر جانا تمھیں گوارا نہ تھا
کبھی ہاتھ تو کبھی گلے میں نازک بانہیں ڈال کر
تمھارا مجھے ہریالی پر دوڑتے رہنے کی تاکید کرنا
اففففففففففففف خدایا
صرف میرا نام ہی جنون نہیں
نکاح لازم
کہ
اس کے بعد ہی محبت ، حقیقی محبت میں ڈھل کر جنون کی بلندیوں کے سفر پر روانہ ہوتی ہے
by RH | Oct 4, 2024 | International, تحریریں
مصنف : خالد دانش
تم ایک گھٹیا آدمی ہو
جس کا اعتبار
مجھ پر سیاہ حقیقت آشکار کر گیا
وہ منحوس لمحہ
وہ گہرا گھاؤ
کس طرح بھول پاؤں گی
میں مانتی ہوں
مجھ سے خطا سرزد ہوئی
مجھے بھی سزا ملنی چاہیے
مگر
اب تمھاری منشا کے مطابق
میں اپنی کوکھ میں اترے چاند کے
ٹکڑے ٹکڑے نہیں کر سکتی
میں اسے تمھارے ظلم کی داستان سنا کر
تمھیں تہہ خاک ملا کر
تمھارے وجود سے تعفن کے اٹھتے ہی
خود تختہ دار تک چلی جاؤں گی
اور
زور زور سے چلاؤں گی
کوئی عورت حدفاصل عبور نہ کرے
وگرنہ کوئی مکار
تمھارے صلب میں بھی عار کاشت کرے گا
تمھیں دھتکارے گا
قصوروار بھی تمھیں ٹھہرائے گا
مجھے دیکھو
سبق سیکھو
میرا کفن تیار ہے
مگر
میں وقت آنے پر اسے پہنوں گی
اور
یہی میرا عروسی لباس ہو گا
by RH | Oct 4, 2024 | International, تحریریں
مصنف : خالد دانش
تمھارے خدشات کی کتاب کو دم بستہ عبادت گردان کر صفحہ در صفحہ پڑھ چکا ہوں
اور
تمھاری آنکھوں کی مترنم جھیل میں اتر کر مطالعے کا اعزاز بھی حاصل کر چکا ہوں
رات کی تاریکی میں جب کبھی سگریٹ کا گہرا کش لیتا ہوں تو یکایک وہ دھواں تمھارے پاکیزہ وجود کا مجسمہ تراش دیتا ہے پھر۔۔
میں تمھاری ہتھیلی پر کنداں لکیروں میں الجھ جاتا ہوں
اور فیصلہ کرتا ہوں کہ۔۔
میں تمھیں دل کی غار میں بٹھا کر تمھاری پوجا کرتا رہوں اور صدیاں بیت جائیں
لیکن
تمھیں اپنا لمس عطا نہ کروں کہ۔۔
میری انگلیوں کے پوروں سے کہیں تمھارا موم بدن جھلس نہ جائے۔۔
کیونکہ
میں طاہر برق ہوں۔۔
by RH | Oct 4, 2024 | International, تحریریں
مصنف ; خالددانش
آج عقیدت کی حدت آمیز روشنی نے میرے دل کی سرنگ کو پرنور کر دیا۔۔
میری بھٹکی ہوئی آہیں باد صبا کی ٹھنڈک سے سانسوں سے الجھ کر یکبارگی سے سلجھ گئیں۔۔اور
میں جو مسکرانا بھول کر الفاظ کی گہرائیوں میں اترنا اور حرف و معنی کی لہروں کے ساتھ تیرنے پر بضد تھا کہ۔۔
اس کی انگلیوں کے پوروں پر سجی حنا نے الفاظ کا شائستہ و شگفتہ روپ دھار کر مجھ منتشر کو یکجا کر دیا۔۔
شاید میری روح صدیوں سے مخاطب کے اس ارتکاب کی منتظر تھی
اور پھر اس کے پاکیزہ و مشرقی وجود نے میرے دل میں شمع فروزاں کر ہی دی۔۔
سنو! میرے تعظیمی کلمات پر ایمان رکھنا کہ۔۔
آج جوں ہی سفید کاغذ پر تمھارا باوقار مجسم تصویر کرنے کی جسارت کی تو حروف خوشبو میں بدل گئے اور تم مثل گلاب میرے کاندھے پر سر رکھ کر ، آنکھیں موند کر لمحے بھر کو سو گئیں۔۔
میری مجال نہیں کہ تمھیں چھو کر بیدار کروں ، تمھارے حسین خوابوں اور تصورات میں خلل ڈال سکوں۔۔
بس یہ سمجھ لو کہ۔۔
ہم یونہی نہیں ملے کوئی تو ہے جو ہمیں اک دوجے کا مونس و غمگسار بننے کے لیے۔۔کن۔۔کہہ چکا ہے۔