لوح عشق

لوح عشق

یوں تو بہت سے القابات سے نوازا گیا مجھ کو
مگر اپنا آخری نام تو میں نے حُسین رکھا ہے
یوں تو سبھی حرف اس کے لوح عشق ہیں مجھکو
مگر تیرے آخری خط کا عنوان کوفیوں کا خط رکھا ہے

وہ بیٹھتی ہے دریچے میں رات ہوتے ہی

وہ بیٹھتی ہے دریچے میں رات ہوتے ہی

پڑھائی کرنے کے ہی درمیان کھینچتی ہے
کبھی کبھی تو وہ لڑکی یوں دھیان کھینچتی ہے

وہ بیٹھتی ہے دریچے میں رات ہوتے ہی
اور اُس کے بعد ستاروں کے کان کھینچتی ہے

ہزار جان بھی قربان شاہ زادی پر
کہ جس ادا سے وہ مجھ پر کمان کھینچتی ہے

یوں کھینچتے ہیں مجھے تیرے جھمکے اپنی طرف
کسی نمازی کو جیسے اذان کھینچتی ہے

کلیجے اُن کے چباتی ہے بعد میں وانی
کہ واعظوں کی وہ پہلے زبان کھینچتی ہے

~غالب برہان وانی

مجھ کو گر میں مل جاتا

مجھ کو گر میں مل جاتا

مجھ کو گر میں مل جاتا
انکھیں ہنستی دل کھل جاتا

خوابوں کے نگر میں، کچھ روشنی ملتی
اندھیروں میں جلتا، وہ دیا بن جاتا

یہ دل کی بےقراری، کب تھمے گی آخر
کاش کوئی سمجھتا، میرا راز بن جاتا

چاہتیں جو ادھوری ہیں، وہ پوری ہو جاتیں
گر نصیب میں ہوتا، ایک لمحہ سکون بن جاتا

دل کی ہر خلش کو، آرام مل ہی جاتا
زخم بن نہ پاتے، گر ہوتا کوئی مرہم مل جاتا

اب تلاش میں ہوں اُس پل کی، جو کھو گیا مجھ سے
مجھ کو گر میں مل جاتا، میرا دل کھل جاتا

عبدالمنیب

میں عشق کو بیاں کرنے سے قاصر ہوں

میں عشق کو بیاں کرنے سے قاصر ہوں

میں عشق کو بیاں کرنے سے قاصر ہوں
یہ دردِ دل ہے، جس سے میں عاجز ہوں

لفظوں میں سمیٹوں تو کیسے اس کو
وہ ایک آگ ہے، اور میں خاکستر ہوں

ہر ایک پل میں تڑپ ہے، خاموشی سی
پر لبوں پہ خاموشیوں کا عارض ہوں

جو دکھ ہے، وہی دل کی دوا بھی ہے
میں خود اپنے ہی درد کا باعث ہوں

عشق کا رنگ کہاں لفظوں میں ڈھلے گا
میں خواب ہوں، اور اُس کیلیے لاحاصِل ہوں

سمندرِ دل میں طوفان چھپائے ہوئے ہے منیب
میں عشق کو بیاں کرنے سے قاصر ہوں

عبدالمنیب

ادائے ناز حسن کی، کیا بات ہو گئی

ادائے ناز حسن کی، کیا بات ہو گئی

ادائے ناز حسن کی، کیا بات ہو گئی
دل کی ہر ایک دھڑکن تیری ساتھ ہو گئی

وہ اک نظر جو پڑی ہے نگاہِ یار سے
زمانہ حسن و عشق کی سوغات ہو گئی

ہر اک قدم پہ جیسے ہو جلوہ تیرا سجا
یہ زندگی بھی تیرے نام کی بات ہو گئی

لبوں پہ تیرے مسکان کا جلوہ تھا ایسا
کہ شب کی رات بھی مثلِ برسات ہو گئی

ادائے ناز نے دل کو جیت لیا اس طرح
کہ دنیا بھی حسیں اور دل کی ذات ہو گئی

تمہاری حسین زلفیں ، تمہارے ناز و ادا
ہر اک ادا میں جیسے کوئی بات ہو گئی

عبدالمنیب

یادِ ماضی کی گلی میں پھر سے آیا ہوں

یادِ ماضی کی گلی میں پھر سے آیا ہوں

یادِ ماضی کی گلی میں پھر سے آیا ہوں
غموں کی دھند میں خود کو ڈھونڈنے آیا ہوں

وہ لمحے جو گزر گئے تھے خاموشی سے
آج پھر ان کے سائے میں بیٹھنے آیا ہوں

کھو گئی ہیں ہنسی، وہ بچپن کی باتیں
اسی گزرے ہوئے وقت کو سوچنے آیا ہوں

رنگین خواب جو ٹوٹے تھے اک پل میں
ان خوابوں کی کرچیاں پھر جوڑنے آیا ہوں

وہ چہرے، وہ محبتیں جو بچھڑ گئیں
یادوں کے ساحل پر انہیں پانے آیا ہوں

ہر موڑ پہ ایک قصہ درد کا ملا
اسی دکھ کی گلی میں، میں رکنے آیا ہوں

اب دل میں بس یادوں کا شور باقی ہے
منیب اسی خاموش دل کو سننے آیا ہوں

عبدالمنیب