ضمیر کی آواز کب تک چھپاؤ گے

ضمیر کی آواز کب تک چھپاؤ گے

ضمیر کی آواز کب تک چھپاؤ گے
خود اپنے آپ کو کب تک بھلاؤ گے

یہ آئینہ ہے، جھوٹ سہہ نہیں پائے گا
سچائی کو کب تک دغا دکھاؤ گے

ہر ایک لمحہ گواہ ہے تمہارے ساتھ
اپنے ہی سائے کو کب تک لڑاؤ گے

دنیا کے فیصلے بدل بھی جائیں مگر
ضمیر کا بوجھ کب تک اٹھاؤ گے

فریبِ ذات میں کچھ دیر کا مزہ ہے
سچ سے کب تک خود کو بہلاؤ گے

آئینہ دل کا صاف رکھو ہمیشہ منیب
ورنہ خودی کو خود کب تک چھپاؤ گے

عبدالمنیب

لاہور

لاہور

حُسنِ لاہور کی قسم مرے دوست

تُجھ کو بُھولیں تو کافروں میں ہوں

تعلق

تعلق

میں آدھا تیرے پاس آیا ہوں

آدھا وہیں رہ گیا

ہوں میں ایسا تعلق ہوں

جو بنتے بنتے کہیں رہ گیا ہوں

شہزاد سلیم

تری اک نظر کے سوا

تری اک نظر کے سوا

میں آ رہا ہوں تری سمت اور کچھ بھی نہیں
امید تجھ سے مجھے تیری اک نظر کے سوا

مری اِن آنکھوں نے کیا کچھ نہیں ہے دیکھا مگر
نہیں ہے دیدنی شے کوئی تجھ کمر کے سوا

وہم کے سائے دل پہ

وہم کے سائے دل پہ

وہم کے سائے دل پہ چھائے ہوئے ہیں
خواب سب جیسے دھندلائے ہوئے ہیں

ہر اک قدم پر ہے بے یقینی کا عالم
راستے خود سے گھبرائے ہوئے ہیں

حقیقتوں کا عکس ہے یا کوئی فریب
آنکھوں میں منظر لرزائے ہوئے ہیں

سوچوں کے در پہ دستک دے رہی ہے
باتیں جو دل میں دبائے ہوئے ہیں

کبھی خوشی کا گمان ہوتا ہے
دکھ بھی ساتھ مسکرائے ہوئے ہیں

وہم کا پردہ اتارے تو جانیں منیب
ہم جو خود کو چھپائے ہوئے ہیں

افق پہ دھندلا سا چاند

افق پہ دھندلا سا چاند

حالات کے افق پہ دھندلا سا چھایا ہے
ہر سمت بے یقینی کا موسم دکھایا ہے

چپ چاپ ہیں فضائیں، خاموش ہے جہاں بھی
اندیشوں نے دلوں پہ پہرا بٹھایا ہے

وقت کے ہاتھ میں بھی زنجیریں سی پڑی ہیں
خوابوں کے قافلوں نے رستہ گنوایا ہے

ہر سوچ کے دریچے پہ تالے ہیں سوالوں کے
حقیقتوں نے دھوکے کا نقشہ بنایا ہے

یہ دور ظلمتوں کا، کب روشنی دکھائے؟
امید کا چراغ بھی کس موڑ آیا ہے

دنیا کے فیصلوں میں وفا کم نظر آئی
ہر شخص نے یہاں پر خود کو ستایا ہے

نہ کوئی چارہ گر ہے، نہ کوئی راہبر ہے
دل نے ہر اک قدم پہ صدمہ اٹھایا ہے

آنکھوں میں روشنی تھی، اب خواب جل چکے ہیں
یہ وقت کس مقام پہ ہم کو لے آیا ہے

تقدیر کے اندھیروں میں رستے ہوئے سوال
ہر حال میں نصیب نے بس امتحان پایا ہے

پھر بھی امید باقی ہے دل کے دریچوں میں
منیب دکھوں کے درمیاں بھی چراغ جلایا ہے