مجھے کوئی خوشی نہیں ہوتی تھی

مجھے کوئی خوشی نہیں ہوتی تھی

ہونے کو تو ہوتا تھا لیکن کچھ خاص نہیں ہوتا تھا مجھے
ترے بعد کسی کے مرنے کا بھی احساس نہیں ہوتا تھا مجھے

کچھ کہنے سے پہلے بھی صاحب وہ اتنا سوچا کرتا تھا
کچھ کر بھی اگر جاتا تھا تو وشواس نہیں ہوتا تھا مجھے

جب جب چھٹی ہوتی تھی مجھے وہ پاس بلا لیا کرتی تھی
اور میں اتنا چھوٹا تھا جب، کچھ پاس نہیں ہوتا تھا مجھے

ترے بعد کسی کے ہونے کی مجھے کوئی خوشی نہیں ہوتی تھی
غم بھی کوئی ملتا تھا مجھ کو تو راس نہیں ہوتا تھا مجھے

ایسا نہیں تیرے بعد کوئی دھوکہ نہیں دیتا تھا مجھ کو
ہاں یہ ہے کہ تیرے بعد مگر احساس نہیں ہوتا تھا مجھے

ترکِ محبت

ترکِ محبت

بھلے ہی جسم کو زخموں سے بھر دیا جائے
ارادہ ترکِ محبت کا کیوں کیا جائے

شریکِ جرم نہیں ہوں مگر یہ ڈر ہے مجھے
کہ ہمنوائی میں مجھ کو نہ دھر لیا جائے

کہا تھا کس نے کہ دیجے جنوں کا درس مجھے
ہُوا ہوں چاک گریباں تو اب سیا جائے

پیالہ ہاتھ میں لینا ہی مے گساری ہے
بھلے ہی اُس سے نہ اک گھونٹ بھی پیا جائے

جہاں پہ آ کے سبھی رہ تمام ہوتے ہیں
سفر شروع وہیں سے نہ کیوں کیا جائے

جو وجہِ زیست تھی وہ اب تو جا چکی وانی
تو کس کے رحم و عنایت پہ اب جیا جائے

بھلے ہی جسم کو زخموں سے بھر دیا جائے
ارادہ ترکِ محبت کا کیوں کیا جائے

شریکِ جرم نہیں ہوں مگر یہ ڈر ہے مجھے
کہ ہمنوائی میں مجھ کو نہ دھر لیا جائے

کہا تھا کس نے کہ دیجے جنوں کا درس مجھے
ہُوا ہوں چاک گریباں تو اب سیا جائے

پیالہ ہاتھ میں لینا ہی مے گساری ہے
بھلے ہی اُس سے نہ اک گھونٹ بھی پیا جائے

جہاں پہ آ کے سبھی رہ تمام ہوتے ہیں
سفر شروع وہیں سے نہ کیوں کیا جائے

جو وجہِ زیست تھی وہ اب تو جا چکی وانی
تو کس کے رحم و عنایت پہ اب جیا جائے

ورنہ کیا کیا نہیں کہ تم سے کہیں

ورنہ کیا کیا نہیں کہ تم سے کہیں

ورنہ کیا کیا نہیں کہ تم سے کہیں
وہ ہمارا نہیں کہ تم سے کہیں

یہ بھی اچھا نہیں کہ چپ بیٹھیں
یہ بھی اچھا نہیں کہ تم سے کہیں

بات یہ ہے کہ کچھ دنوں سے چین
ہم کو آتا نہیں کہ تم سے کہیں

لاکھ چاہے گا دل کہیں تم سے
ہم سے ہوگا نہیں کہ تم سے کہیں

جو خلا ہے تمہارے بعد کا دوست
اب بھرے گا نہیں کہ تم سے کہیں

ہم کو جانا ہے اک سفر پر اور
لوٹ آنا نہیں کہ تم سے کہیں

عشق ہے تم سے مانتے ہیں ہم
دل دوانہ نہیں کہ تم سے کہیں

ہم نے اب کے یہیں پہ رہنا ہے
بھاگ جانا نہیں کہ تم سے کہیں

نام پر اُس کے یہ ہمارا دل
اب دھڑکتا نہیں کہ تم سے کہیں

راس آتا ہے ہم کو رقصِ جنوں
راس لیلا نہیں کہ تم سے کہیں

دیکھتے ہیں تمہارے خالی کان
اور جھمکا نہیں کہ تم سے کہیں

کچھ دنوں سے ہمارے من میں بھی
کچھ بھی ہوتا نہیں کہ تم سے کہیں

تم سے کہنا ہمارے حق میں کبھی
کام آتا نہیں کہ تم سے کہیں

حالِ دل کہنا تم سے لازم ہے
کار فرما نہیں کہ تم سے کہیں

چاہتے ہیں کئی طرح سے تمہیں
ایک رشتہ نہیں کہ تم سے کہیں

درد ہوتا ہے ہم کو بھی وانی
لیکن اتنا نہیں کہ تم سے کہیں

چہرہ آفتاب

چہرہ آفتاب

وہ خوش جمال نہ ہو چہرہ آفتاب نہ ہو
مگر کسی میں اسے دیکھنے کی تاب نہ ہو

اگرچہ اُس کا ارادہ ہو کامیابی کا
مگر وہ اپنے ارادے میں کامیاب نہ ہو

نہ ہوں شمار دیے جائیں اتنے زخم ہمیں
ستم ہو اتنا کہ جس کا کوئی حساب نہ ہو

نچوڑتا رہوں تجھ لب سے میں شرابِ حیات
سو کر دعا کہ ترا ذائقہ خراب نہ ہو

وہ خوش بدن کہ تمنا ہو جس کو چھونے کی
خدا کرے کہ کبھی تجھ کو دستیاب نہ ہو

کہ کاٹنی ہی نہ پڑ جائے عمر بھر کی سزا
کسی سے جرمِ محبت کا ارتکاب نہ ہو

بچو جو تم کو نگل جائے ایسی خلوت سے
اور ایسی بزم سے جس میں کوئی شراب نہ ہو

حسین بھی ہو ذہانت بھی خوب ہو لیکن
تمام عمر کسی کا وہ انتخاب نہ ہو

وہ شخص جس کو محبت نہیں ہوئی ہو کبھی
اور ایک باغ کہ جس میں کوئی گلاب نہ ہو

مجھے سفر کی اجازت تو مل گئی وانی
مگر یہ ڈر ہے کہ اب راستہ خراب نہ ہو

شب بیداریوں کی خیر ہو

شب بیداریوں کی خیر ہو

تشنہ لب ساری شب،
وجہِ, شب بیداریوں کی خیر ہو
کیا کہا؟
بد دعا؟؟
ارے نہیں!
خدا آباد و سلامت رکھے انہیں،
یعنی آستیں کے پالوں کی خیر ہو

سر پہ ماضی کی گٹھڑی اٹھائے

سر پہ ماضی کی گٹھڑی اٹھائے

سر پہ ماضی کی گٹھڑی اٹھائے
آنکھوں میں ہجر کا منظر چھپائے
محبت فقط سود ہے اور کچھ بھی نہیں
اور اس قرض کے سوا گزارہ بھی نہیں
اسکی سیاہ آنکھ سے کوئی درد بہا جاتا ہے
کہ ازل سا لمبا غم لیئے
ناخنوں پہ کچھ آخری دم لیئے
تیری صورت کو تصور کیئے جاتا ہے
کوئی شخص یوں ہی زندگی جیئے جاتا ہے