تیری دھلیز پہ عشق کا کاسہ لیئے ہارا ہوا شخص

تیری دھلیز پہ عشق کا کاسہ لیئے ہارا ہوا شخص

تم ہو کسی شاہ کی دستار میں بُنوایا ہوا ریشم
میں کسی سودائی کی برسوں پرانی اُدھڑی ہوئی شال

تم جو میسر بھی ہوئے تو فقط آنکھوں کی دریچوں میں رہے
میں کہ تیری دھلیز پہ عشق کا کاسہ لیئے ہارا ہوا شخص

کتنے افکار ہیں کہ وقت کے زنداں میں ہیں صدیوں سے اسیر
کتنے الفاظ اور کہ لبِ شکوہ کی طرف ترستے ہوئے دیکھے ہیں

تم کہ دنیا کے رنگ و روغن میں ہی کھوئے رہتے ہو
میں کہ تیرے رنگ میں ہر رنگ بے آشنا ہوا صدیوں کا اسیر

وقت کے فیصلوں سے کوئی گلہ نہیں کرتے

وقت کے فیصلوں سے کوئی گلہ نہیں کرتے

وقت کے فیصلوں سے کوئی گلہ نہیں کرتے

ایک ٹھوکر لگ جانے سے نظروں سے گرا نہیں کرتے

جو راستہ چن لیا سو چن لیا

پھر منزلوں کو بھی ہم ملا نہیں کرتے

خود کا اگر ہو نقصان تو کوئی بات نہیں

سر جھکا کر ضمیر کا سودا نہیں کرتے

کرنے کو بہت کچھ ہے اس جہاں میں لیکن

محبت کے سوا کوئی کام ہم کیا نہیں کرتے

ویسے تو بہت سلجھے ہوئے ہیں ہم

سلجھے ہوئے لوگوں سے الجھا نہیں کرتے

ضدی تو ہوں اس درجہ تر منیب

ضد میں اجاؤں تو خود کی بھی سنا نہیں کرتے

ہم صبح سے ڈرنے والے ہیں

ہم صبح سے ڈرنے والے ہیں

ہم صبح سے ڈرنے والے ہیں

کیا واقعتہ” بچھڑنے والے ہیں

رات سے پہلے سو جاتے ہیں

ہم خوابوں میں مرنے والے ہیں

کوئی بھی تو مکان نہیں ہے پھر بھی

ہم اس کھنڈر سے گزرنے والے ہیں

میری چوکھٹ پہ بیٹھے بھی جگنو

تیری دہلیز پہ مرنے والے ہیں

میں عشق و محبت سے اک روز مکر جاؤں گا

ہم بزرگوں سے ڈرنے والے ہیں

سنا ہے آج مجھ سے وہ بچھڑ جاۓ گا

سنا ہے آج مجھ سے وہ بچھڑ جاۓ گا

سنا ہے آج مجھ سے وہ بچھڑ جاۓ گا
مجھ سے بچھڑ کر پر وہ کدھر جاۓ گا

دل میں غم ہے سانس پھولی ہے اسکی
مجھ سے اور بھاگے گا تو مر جائے گا

سہانی ہوا چلتی ہے جب جب تم ملتے ہو
ایسی رت میں چاند بھی مجھ سے جل جایے گا

وعدہ کرو بچھر کر مجھ سے مجھ کو یاد رکھو گے
وعدہ تو وعدہ ہے وعدوں سے وہ مقر جایے گا

تلافی غم کی ہوتی ہے محبت کی نہیں
محبت کر وفا کر مقام زندگی بن جایے گا

میری زندگی میں شام ہونے سے پہلے لوٹ آنا
منیب وگرنہ دل پی ایک بوجھ رہ جایے گا

عبدالمنیب

یاد ائیں گے

یاد ائیں گے

ہمارے ساتھ بیتے لمحے کبھی تو یاد ائیں گے
کلیوں کی مہک میں جب مہکو گے تو ہم یاد ائیں گے

ہماری زندگیوں میں مقام نقطہ بدل جائے گا
تم نکھر جاؤ گے ہم بکھر جائیں گے

کچھ فرض فرضی ہیں اس دنیا کے
جب ادا ہوں گے تو ہم یاد ائیں گے

یادوں کا تسلسل ٹوٹ نہ جائے کہیں
دم لینے کو ٹھہرو گے تو ہم یاد ائیں گے

کہیں تو نام لکھا ہوگا میرا
کہیں تو ذکر چھڑا ہوگا میرا

کئی راہوں میں کئی آہوں میں دیکھو گے تو ہم یاد ائیں گے

یہ راہ محبت بہت خاردار ہے
کئی درد تمہیں پہنائے جائیں گے

تمہیں عشق کی سولی پر ہم یاد ائیں گے

یہ بازار سجا ہے نگینوں کا
مفلسوں کا سفینوں کا

غلاموں کی نیلامی میں ہم نظر ائیں گے
ہم سے جب بچھڑو گے تو بہت یاد ائیں گے

بہت سالوں بعد تمہارے بالوں میں جب چاندی اتر جائے
یا وقت کی رفتار سے تمہاری کمر جھک جائے

ایک دن ہم تمہیں یاد أئیں گے

راتوں سے ملاقات میں خلل نہ کرنا
چاند سے کوئی بحث کا موقع زائل نہ کرنا

ستارے جب ٹوٹ کر آئیں گے تو ہم یاد ائیں گے

اظہار محبت میں کبھی دیر مت کرنا
میری طرح آنے میں دیر مت کرنا

سرہانے جب انسوں سے بھیگ جائیں گے
تو ہم یاد ائیں گے

عبدالمنیب

کہانیوں کا اختتام آ جائے گا

کہانیوں کا اختتام آ جائے گا

کہانیوں کا اختتام آ جائے گا
ایک دن آپ کا بھی نام آ جائے گا

ضبط ٹوٹے گا جب تحیر کا
ایک خوف کا مقام آ جائے گا

معلوم ہے تم رازوں کو رکھو گے پوشیدہ
پھر بدگمانی میں میرا نام ا جائے گا

ہنستے ہنستے ہی صحیح رویا تو میں بھی ہوں
انسوؤں کا یہ باب بھی ایک دن دھل جائے گا

ایک ہوا چلی اور موسم بدل گیا
موسم کی طرح ایک دن تو بھی بدل جائے گا

سرخ گلاب اپنی شاخ سے جب ٹوٹتا ہے
آسمان سے جب امید کا کوئی تارا ٹوٹتا ہے
من چلا جب جب عشق میں مچلتا ہے
تب میری انکھوں سے تیرا نام لیا جائے گا
کہانی کا اختتام کیا جائے گا
عبدالمنیب