ڈاچی

ڈاچی

پی سکندر کے مسلمان جاٹ باقر کو اپنے مال کی طرف حریصانہ نگاہوں سے تا کتے دیکھ کر اد کا نہ کے گھنے درخت سے پیٹھ لگائے نیم غنودگی کی حالت میں بیٹھا چوہدری نندو اپنی اونچی گھرگھراتی آواز میں للکار اٹھا رے رے اٹھے کے کرت ہے؟ اس کا چھ فٹ لمبا کیم شیم جسم سن ہو گیا اور بٹن ٹوٹ جانے کی وجہ سے موٹی کھاری کے کرتے سے اس کا چوڑا چکلا سینہ اور مضبوط کندھے صاف دکھائی دینے لگے۔ پاتر ذرا نزد یک آگیا۔ گرد سے بھری ہوئی کیلی داڑھی اور شرعی مونچھوں کے اوپر گڑھوں میں دھنسی ہوئی دو آنکھوں میں ایک لمحہ کیلئے چمک پیدا ہوئی اور ذرا مسکرا کر اس نے کہا اچی دیکھ رہا تھا چوہدری کیسی خوبصورت اور جوان ہے ۔ دیکھ کر بھوک مٹتی ہے ۔“ اپنے مال کی تعریف سن کر چوہدری نندو کا تناؤ کچھ کم ہوا۔ خوش ہو کر بولا ” کونسی ڈاچی ۔وہ پرلے سے چوتھی باقر نے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اوکانہہ کے ایک گھنے پیڑ کے سائے میں آٹھ دس اونٹ بندھے تھے انہی میں وہ جوان سانڈنی اپنی لمبی خوبصورت اور سڈول گردن بڑھائے پتوں میں منہ مار رہی تھی۔ مال منڈی میں ڈور ۔۔۔۔ جہاں تک نظر کام کرتی تھی، بڑے اونچے اونٹوں ، خوبصورت سانڈنیوں گدھے بھی تھے پر نہ ہونے ہی تھے پر نا ہونے کے برابر زیادہ تر تو اونٹ ہی تھے بہاول نگر کے ریگستانی علاقے میں ان کی کثرت ہے بھی قدرتی اونٹ ریگستان کا جانور ہے اس لیے ریتلے علاقے میں آمد و رفت کھیتی باڑی اور بار بر داری کا کام اس سے ہوتا ہے۔ پرانے وقتوں میں جب گائیں دس دس اور بیل روپے میں مل جاتے تھے تب بھی اچھا اونٹ پچاس سے کم میں ہاتھ نہ آتا تھا اور اب بھی جب اس علاقے میں نہر آگئی ہے اور پانی کی اتنی قلت نہیں رہی ۔ اونٹ کی وقعت کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھی ہی ہے اور سواری کے اونٹ دو دوسو سے تین تین سو تک پائے جاتے ہیں۔ ذرا آگےبڑھ کر باقر نے کہا۔ سچ کہتا ہوں چوہدری اس جیسی خوبصورت سانڈنی مجھے ساری منڈی میں دکھائی نہیں دیتی مسرت سے بندہ کا سینہ دگنا ہو گیا بولا ” ایک ہی کے او یہ تو سنگلی پھوڑی ہیںہوں تو انہیں چارہ پھانسی نیر یا کروں۔آہستہ سے باقر نے پوچھا ” بیچو گے اسے؟“ٹھی بیچنے نئی تو لایا ہوں “ ہندو نے ذرا ترشی سے کہاتو پھر بتاؤ کتنے کو دو گے“ باقر نے پوچھا۔نندو نے باقر پر سر سے پاؤں تک ایک نگاہ ڈالی اور ہنستے ہوئے بولا تنے چاہی مجے کا تیرے دھنی ہیئی مول لیسی مجھے چاہیے“ باقر نے ذرا سختی سے کہا۔نندو نے ذرا بے پروائی سے سر ہلایا ۔ اس مزدور کی یہ بساط کہ ایسی خوبصورت ڈاچی مول لے ۔ وہ آبولا توں کی لیسی“ باقر کی جیب میں پڑے ہوئے ڈیڑھ سو کے نوٹ جیسے باہر اچھل پڑنے کو بےقرار ہو اٹھے ۔ ذرا جوش سے اس نے کہا ” تمہیں اس سے کیا کوئی لے تمہیں تو اپنی قیمت سے غرض ہے تم مول بتاؤ ؟نندو نے اس کے بوسیدہ کپڑوں، گھٹنوں سے اٹھے ہوئے تہہ بند اور نوح کے وقت سے بھی پرانے جوتے کو دیکھتے ہوئے ٹالنے کی غرض سے کہا جاتو اشی وشی مول لے آئی

ایہنگومول تو آٹھ بیسی سوں گھاٹ کے نہیں۔”ایک لمحہ کیلئے باقر کے تھکے ہوئے جسم میں مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ اسے ڈر تھا کہ چوہدری نہیں اتنا مول نہ بتادے جو اس کی بساط سے باہر ہو لیکن اب جب اپنی زبان ہی سے اس نے ایک سو ساٹھ بتائے تو اس کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔ ڈیڑھ سو تو اس کے پاس تھے ہی اگر اتنے پر بھی چوہدری نہ مانا تو دس روپے کا اس سے ادھار کر لے گا ۔ بھاؤ تاؤ کرنا تو اسے آتا نہ تھا۔ جھٹ سے ڈیڑھ سو کے نوٹ نکالے اور نو کے آگے پھینک دیئے ۔ بولا ” من لو ان سے زیادہ میرے پاس ایک پائی نہیں اب آگے تمہاری مرضی ہندو نے باول نا خواستہ نوٹ گنتے شروع کیے لیکن گنتی ختم ہوتے ہی اس کی آنکھیں چمک اٹھیں ۔ اس نے تو باقر کو ٹالنے کی غرض سے ایک سو ساٹھ بتایا تھا۔ اس سانڈنی کے تو ایک سو چالیس پانے کا خیال اسے خواب میں بھی نہیں تھا دل کی خوشی کو دل ہی میں دبا کر اور باقر پر احسان کا بوجھ لادتے ہوئے نندو بولا سانڈنی تو میری دوسو کی ہے ۔ پن جاسکی مول میاں تنے دس چھانڈیا اور یہ کہتے کہتے اس نے اٹھ کر سانڈنی کی رسی باقر کے ہاتھ میں دے دی ۔ ایک لمحہ کیلئے اس وحشی صفت انسان کا دل بھی بھر آیا ۔ یہ سانڈنی اس کے یہاں ہی پیدا ہوئی اور پلی بڑھی تھی ۔ آج پال پوس کر اسے دوسرے کے ہاتھ میں سونچتے ہوئے اس کے دل کی کچھ ایسی ہی حالت ہوئی جولڑ کی کو سرال بھیجتے وقت باپ کی ہوتی ہے ۔ آواز اور لہجے کو ذرا نرم کر کے اس نے کہا ” آسانڈ سو ہری رہ میری ہے تو انہیں رہٹری میں نہ گیرو یہی ایسے ہی جیسے خسر داماد سے کہہ رہا ہو میری لڑکیلاڈوں پلی ہے دیکھنا اسے تکلیف نہ ہو ۔“ خوشی کے پروں پر اڑتے ہوئے باقر نے کہا ” تم فکر نہ کرو۔ جان دے کر پالوںگا۔نندو نے نوٹ انٹی میں سنبھالتے ہوئے جیسے سوکھے ہوئے گلے کو ذرا تر کرنے کیلئے گھڑے سے مٹی کا پیالہ بھرا۔ منڈی میں چاروں طرف دھول اڑ رہی تھی۔ شہروں کے مال منڈیوں میں بھی جہاں بیسیوں عارضی نلکے لگ جاتے ہیں اور سارا سارا دن چھڑکاؤ ہوتا رہتا ہے۔ جہاں دھول کی کمی نہیں ہوتی پھر اس ریگستان کی منڈی میں تو دھول ہی کی سلطنت تھی۔ گنے والے کی گنڈیریوں پر حلوائی کے حلوے اور جیلیبیوں پر اور خوانچے والے کے دہی پکوڑوں پر غرض سب جگہ دھول نظر آتی تھی گھڑے کا پانی ٹانچیوں کے ذریعے نہر سے لایا گیا تھا پر یہاں

آتے آتے کیچڑ جیسا گدلا ہو گیا تھا۔ نندو کا خیال تھا نتھر نے پر پیئے گا پر گلا کچھ سوکھ رہا تھا ایک ہی گھونٹ میں پیالے کو ختم کر کے نندو نے اس سے بھی پینے کیلئے کہا ، باقر آیا تھا تو اسے غضب کی پیاس لگی ہوئی تھی پر اب اسے پانی پینے کی فرصت کہاں تھی۔ رات ہونے سے پہلے پہلے وہ اپنے گاؤں میں پہنچ جانا چاہتا تھا۔ ڈاچی کی ری پکڑے ہوئے گردو غبار کو جیسے چیرتا ہوا وہ چل یک خوبصورت اور جوان ڈاچی خریدنے کی آرزو تھی پڑا۔ باقر کے دل میں بڑی دیر سے ایک خوبصورت اور جوان ڈ ذات سے وہ کمین تھا۔ اس کے آباؤ اجداد کمہاروں کا کام کرتے تھے لیکن اس کے باپ نے اپنا قدیم پیشہ چھوڑ کر مزدوری سے اپنا پیٹ پالنا شروع کر دیا تھا اور باقر بھی اسی پیشہ کو اختیار کیے ہوئے تھا۔۔ مزدوری وہ زیادہ کرتا ہو یہ بات نہ تھی ۔ کام سے ہمیشہ اس نے جی چرایا تھا اور چراتا بھی کیوں نہ۔ جب اس کی بیوی اس سے دو گنا کام کر کے اس کے بوجھ کو ہٹانے اور اسے آرام پہنچانے کیلئے موجود تھی۔ کنبہ بڑا تھا نہیں ایک وہ ۔، ایک اس کی بیوی اور ایک منفی سی بچی ۔ پھر کس لیے وہ جی ہلکان کرتا ؟ لیکن یہ فلک پیر ۔۔۔۔۔ اس نے اسے سکھ سے نہ بیٹھنے دیا ۔ اس کو نیند سے بیدار کر کے اسے اپنی ذمہ داری محسوس کرنے کیلئے مجبور کر دیا ۔ اسے بتا دیا کہ زندگی میں سکھ ہی نہیں آرام ہی نہیں اس میں دکھ بھی ہے محنت اور مشقت بھی ہے۔ پانچ سال ہوئے اس کی وہی آرام دینے والی عزیز بیوی گڑیا سی ایک لڑکی کو چھوڑکر اس جہاں سے رحلت کر گئی ۔ مرتے وقت اپنے سوز کو اپنی پھیکی اور اداس آنکھوں میں بھر کر اس نے باقر سے کہا تھا ” میری رضیہ اب تمہارے حوالے ہے اسے تکلیف نہ ہونے دینا اس کے ایک فقرے نے باقر کی زندگی کے رخ کو پلٹ دیا تھا اپنی شریک حیات کی وفات کے بعد وہ اپنی بیوہ بہن کو اس کے گاؤں سے لے آیا تھا اور اپنی آنکسی اور غفلت کو چھوڑ کر اپنی مرحوم بیوی کی آخری آرزو کو پورا کرنے میں جی جان سے منہمک ہو گیا تھا ۔ یہ ممکن بھی کیسے تھا کہ وہ اپنی اس بیوی کی جسے وہ روح کی گہرائیوں کے ساتھ محبت کرتا تھا جس کی موت کا غم اس کے دل کے نا معلوم پر دوں تک چھا گیا تھا جس کے بعد عمر ہونے پر بھی مذہب کی اجازت ہونے پر بھی رشتہ داروں کے مجبور کرنے پر بھی اس نے دوسری شادی نہ کی تھی اپنی اس بیوی کی آخری کاخواہش کو بھلا دیتا۔وہ دن رات جان توڑ کرکام کرتا تا کہ اپنی مرحوم بیوی کی اس امانت کو ۔۔۔ اپنی اس ننھی سی گڑیا کو طرح طرح کی چیزیں لا کر دے سکے۔ جب بھی کبھی وہ منڈی سے آتا تھی

رضیہ اس کی ناگوں سے لپٹ جاتی اور اپنی بڑی بڑی آنکھیں اس کی گرد سے آئے ہوئے ے پر جما کر پوچھتی ” ابا میرے لیے کیا لائے ہو ۔ تو وہ اسے اپنی گود میں لے لیتا اور کبھی معالی اور کبھی کھلونوں سے اس کی جھولی بھر دیتا ۔ تب رضیہ اس کی گود سے اتر جاتی اور اپنی سہیلیوں کو اپنی مٹھائی اور کھلونے دکھانے کیلئے بھاگ جاتی ۔ یہی گڑیا سی لڑکی جب آٹھ برس کی ہوئی تو ایک دن چل کر اپنے ابا سے کہنے لگی ابا ہم تو ڈاچی لیں گے ۔ ابا ہمیں ڈاچی لے دوبھولی معصوم لڑکی اسے کیا معلوم کہ وہ ایک مفلس اور قلاش مزدور کی لڑکی ۔ ہے جس کیلئے سانڈنی خریدنا تو کجا اس کا تصور کرنا بھی گناہ ہے ۔ روکھی ہنسی کے ساتھ باقر نے اسے گود میں اٹھا لیا اور بولا تو تو خود ڈاچی ہے” پر رضیہ نہ مانی اس دن مشیر مال اپنی سانڈنی پر چڑھ کر اپنی چھوٹی سی لڑکی کو آگے بٹھائے اس کاٹ میں کچھ مزدور لینے آئے تھے۔ منی رضیہ کے ننھے سے دل میں ڈاچی پر سوار ہونے کی زبر دست خواہش پیداہ اٹھی تھی اور اسی دن سے باقر کی رہی سہی غفلت بھی دور ہوگئی تھی ۔ اس نے رضیہ کو ٹال تو دیا تھا پر دل ہی دل میں اس نے عہد کر لیا تھا کہ چاہے جو بھی ہو وہ رضیہ کیلئے ایک خوبصورت ڈاچی ضرور مول لے گا اور تب اسی علاقے میں جہاں اس کی آمدنی کی اوسط مہینہ بھر میں تین ۔ آنہ روزانہ بھی نہ ہوتی تھی، وہیں اب آٹھ دس آنے ہو گئی ۔ دور دور کے دیہات میں اب وہ مزدوری کیلئے جاتا ۔ کٹائی اور بجائی کے دنوں میں دن رات جان لڑا تا فصل کا شتا دانے نکالتا کھلیانوں میں اناج بھرتا نیرا ڈال کر کپ بناتا بجائی کے دنوں میں ہل چلاتا پلیاں بنا تا ترائی کراتا ۔ ان دنوں اسے پانچ آنے سے آٹھ آنے تک روزانہ مزدوری مل جاتی ۔ جب کوئی کام نہ ہوتا تو علی صبح اٹھ کر آٹھ کوس کی منزل مار کر منڈی پہنچتا اور آٹھ دس آنے کی مزدوری کر کے ہی واپس لوٹتا۔ ان دنوں میں وہ روز چھ آنے بچاتا آ رہا تھا ۔ اس معمول میں اس نے کسی طرح کی ڈھیل نہ آنے دی تھی ۔ اسے جیسے جنون سا ہوگیا تھا۔ بہن کہتی با تراب تو تم بالکل ہی بدل گئے ہو پہلے تو کبھی تم نے اس طرح جی توڑ کر با ت نہ تھی بار رہتا اور کہتا تم چاہتی ہو میں تمام عمر اس طرح لکھتا بیٹا ر ہوں“ بہن کہتی کیا مجھے کوتو میں ہیں کہتی لیکن صحت گنوا کر دھن جمع کرنے کی صلاح بھی نہیں دے سکتی ۔ ایسے وقت ہمیشہ باقر کے سامنے اس کی مرحوم بیوی کی تصویر کھینچ جاتی۔ اس کی

آخری آرزو اس کے کانوں میں گونج جاتی اور وہ صحن میں کھیلتی ہوئی رضیہ پر ایک پیار کی نظر ڈال کر ہونٹوں پر پر سوز مسکراہٹ لیے ہوئے پھر اپنے کام میں لگ جاتا اور آج ۔۔۔۔ آن ڈیڑھ سال کی کڑی مشقت کے بعد وہ مدت سے پالی ہوئی اپنی اس آرزو کو پوری کر سکتا تھا۔ سانڈنی کی رسی اس کے ہاتھ میں تھی اور سرکاری کھانے کے کنارے وہ چلا جا رہا تھا۔ شام کا وقت تھا اور مغرب میں غروب ہوتے ہوئے آفتاب کی کرنیں دھرتی کی سونے کا آخری دان دے رہی تھیں ۔ ہوا میں کچھ جنگی آگئی تھی اور کہیں دور کھیتوں میں ٹھیٹر کی ٹیہوں ٹیموں کر کے اڑ رہی تھی ۔ باقر کے تصور میں ماضی کے تمام واقعات ایک ایک کرکے آرہے تھے ۔ ادھر ادھر سے کئی کسان اپنے اونٹ پر سوار جیسے پھر کہتا ہوا نکل جاتا اور بھی کبھی کھیتوں سے واپس آنے والے کسانوں کے لڑکے چھکڑے پر رکھے ہوئے گھاس کے گھٹوں پر بیٹھے بیلوں کو پکارتے کسی دیہاتی گیت کا ایک آدھ بند گاتے یا چھکڑے کے پیچھے بندھےہوئے خاموشی سے چلے آنے والے اونٹوں کی تھو تھینوں سے کھیلتے چلے آتے تھے ۔ باقر نے جیسے خواب سے بیدار ہو کر مغرب کی طرف غروب ہوتے آفتاب کودیکھا اور پھر سامنے کی طرف ویرانے میں نظر دوڑائی ۔ اس کا گاؤں ابھی بڑی دور تھا ۔ مسرت سے پیچھے کی طرف دیکھا اور چپ چاپ چلی آنے والی سانڈنی کو پیار سے پچکار کر وہ اور بھی تیزی سے چلنے لگا۔ کہیں اس کے پہنچنے سے پہلے رضیہ سو نہ جائے ۔ اسی خیال سے مشیر مال کا کاٹ نظر آنے لگی ۔ یہاں سے اس کا گاؤں نزدیک ہی تھا ۔ یہی کوئی دوکوس ۔۔۔۔۔ باقر کا چال دھیمی ہوگئی اور اس کے ساتھ ہی تصور کی دیوی اپنی رنگ برنگی کوچی سے اس کے دماغ کی قرطاس پر طرح طرح کی تصویریں بنانے لگی۔ باقر نے دیکھا کہ اس کے گھر پہنچتے ہی تھی رضیہ مسرت سے ناچ کر اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئی ہے اور پھر ڈاچی کو دیکھ کر اس کی بڑی بڑا آنکھیں حیرت اور مسرت سے بھر گئی ہیں۔ پھر اس نے دیکھا وہ رضیہ کو اپنے آگے بٹھا ۔سرکاری کھانے کے کنارے کنارے ڈاچی پر بھاگا جا رہا ہے ۔ شام کا وقت ہے ۔ مست ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے اور کبھی کبھی کوئی پہاڑی کو اپبڑے بڑے پروں کو پھیلائےاپنی موٹی آواز سے ایک دوبار کائیں کائیں کر کے اوپر اڑتا ہم جاتا ہے۔ رضیہ کی خوشی کا وار پار نہیں۔ وہ جیسے ہوائی جہاز میں اڑی جارہی ہے۔ پھر اسے بولا محسوس ہوا جیسے وہ رضیہ کو لیے بہاولنگر کی منڈی میں کھڑا ہے تبھی رضیہ بھونچکی سی ہے حیران سی

کھڑی وہ ہر طرف اناج کے ان بڑے بڑے ڈھیروں کو بے انتہا چھکڑوں کو اور قصر حیرت میں تم کر دینے والی ان بے شمار چیزوں کو دیکھ رہی ہے۔ ایک دکان پر گراموفون بجنے لگتا ہے کڑی کے اس ڈبے سے کس طرح گانا نکل رہا ہے کون اس میں چھپا گا رہا ہے یہ سب باتیں راضیہ کی سمجھ میں نہ آئیں اور یہ سب جاننے کیلئے اس کے دل میں جو اشتیاق ہے وہسے پکا پڑتا ہے۔اپنے تصور کی دنیا میں محو وہ کاٹ کے پاس سے گزرا جا رہا تھا کہ اچانک کچھ خیال آجانے ۔ سے وہ رکا اور کاٹ میں داخل ہو گیا ۔ مشیر مال کی کاٹ ابھی کوئی بڑا گاؤں نہ تھا ادھر کے سب گاؤں ایسے ہی ہیں ۔ زیادہ ہوئے تو تمہیں چھپر ہو گئے۔ کڑیوں کی چھت کا یا مکی ایتوں کا مکان بھی اس علاقہ میں نہیں خود باقر کی کاٹ میں پدرہ گھر تھے گھر کہاں سرکنڈوں کی جھگیاں تھیں ۔ مشیر مال کی کاٹ بھی ایسی ہی ہیں پچیس جھگیوں کی بستی تھی ۔ صرف مشیر مال کا مکان کچی اینٹوں سے بنا تھا ۔ لیکن چھت اس پر بھی سرکنڈوں ہی کی تھی ۔ نا تک بڑھتی کی جھگی کے سامنے وہ رکا۔ منڈی جانے سے پہلے وہ اس کے ہاں ڈاچی کا گدرا بننے کیلئے دے گیا تھا اسے خیال آیا کہ اگر رضیہ نے ڈاچی پر چڑھنے کی ضد کی تو وہ اسے کیسے ٹال سکے گا۔ اسی خیال سے وہ پیچھے مڑ آیا تھا ۔ اس نے نائک کو دو ایک آواز میں دیں اندر سے شاید اس کی بیوی نےجواب دیا۔گھر میں نہیں منڈی گئے ہیں ۔“ باقر کی آدھی خوشی جاتی رہی ۔ وہ کیا کرے؟یہ نہ سوچ سکا نا تک اگر منڈی گیا ہے تو گدرا کیا خاک بنا کر گیا ہو گا لیکن پھر اس نے سوچا شاید بنا کر رکھ گیا ہوگا ۔ اس نے پھر آواز دی ۔ میں ڈاچی کا پالان بنانے کے لئے کہہ گیا تھا۔” جواب ملا۔ ہمیں نہیں معلوم ۔ باقر کی سب خوشی جاتی رہی ۔ گورے بغیر وہ ڈاچی لے کر کیا جائے۔ نانک ہوتا تو اس کا پالان اگر نہ بنا ہوتا کوئی دوسرا ہی اس سے مانگ کر لے جاتا ۔ اس خیال کے آتے ہی اس نے سوچا چلو مشیر مال سے مانگ لیں اس کے تو اتنے اونٹ رہتے ہی کوئی نہ کوئی پرانا پلان ہوگا ہی ابھی اسی سے کام چلا لیں گے تب تک نا تک گدرا بنا کر دےگا یہ سوچ کر وہ مشیر مال کے گھر کی طرف چل پڑا۔نے کافی دولت جمع کر لی تھی اور اپنی ملازمت کے دوران میں مشیر مال صاحب ۔ جب ادھر نہ نکلی تو اپنے اثر ورسوخ سے ریاست ہی کی زمین میں کوڑیوں کے مول کئی مربعے

زمین حاصل کر لی تھی اب ریٹائرڈ ہو کر یہی آ رکھے ہوئے تھے امدنی بھی کر رہے تھے کئی نوکر خوب تھی اور مزے سے بسر ہو رہی تھی ۔ پر سفید صافہ نہ گلے میں سفید قمیص اس پر سفید جاکٹ اور کمر میں دو دھیا جیسا سفید تہ بند مرد سے آئے باقر کو دیکھ کر انہوں نے پوچھا ۔ کہو باقر کدھر سے آرہے ہو؟ باقر نے جھککر سلام کرتے ہوئے کہا۔ منڈی سے آرہا ہوں مالک ۔“یہ ڈاچی کس کی ہے؟“میری ہی ہے مالک ابھی منڈی سے لا رہا ہوں۔“کتنے کو لائے ہو؟“باقر نے چاہا کہہ دے آٹھ میسی کو لایا ہوں ۔ اس کے خیال میں ایسی خوبصورت ڈاچی دوسو میں بھی سنتی تھی ۔ پر دل نہ مانا بولا حضور مانگتا تو آٹھ جیسی تھا پر سات بیسی ہی کولے آیا ہوں۔“مشیر مال نے ایک نظر ڈاچی پر ڈالی ۔ وہ خود دیر سے ایک خوبصورت کی ڈاچی اپنی سواری کیلئے لینا چاہتے تھے۔ ان کے پاس ڈاچی تو تھی پر اسے گذشتہ سال سیمک ہو گیا تھااور اگر چه نیل وغیرہ دینے سے اس کا روگ تو دور ہو گیا تھا پر اس کی چال میں وہ مستی وہ لچک نہرہی تھی ۔ یہ ڈاچی ان کی نظر میں بچ گئی تھی ۔کیا سڈول اور متناسب اعضاء ہیں، کیسا سفیدی مائل بھورا بھورا رنگ ہے ۔ کیاپلچاتی لبی گردن ہے بولے ” چلو ہم سے آٹھ جیسی لے لو ہمیں ایک ڈاچی کی ضرورت بھیہے دس تمہاری محنت کے رہے ۔“باقر نے پھیکی ہنسی کے ساتھ کہا حضور ! بھی تو میرا چاؤ بھی پورا نہیں ہوا ۔“مشیر مال اٹھ کر ڈاچی کے گردن پر ہاتھ پھیرنے لگے تھے ” واہ کیا اصیل جانورہے بظاہر بولے ”چلو پانچ اور لے لو اور انہوں نے نوکر کو آواز دی تورے ابے او نورے نو کرنوں سے میں بیٹھا بھینسوں کیلئے پٹھے کر رہا تھا۔ گنڈا سا ہاتھ ہی میں لیے ہوئے بھاگا آیا۔مشیر مال نے کہا یہ ڈاچی لے جا کر باندھ دو کہو کیسی ہے۔؟“سانورے نے حیران سے کھڑے باقر کے ہاتھ سے رہی لے لی اور سر سے پاؤں ۔ تک ایک نظر ڈاچی پر ڈال کر بولا ” خوب جانور ہے اور یہ کہ کو نو ہرے کی طرف چل پڑا ۔“

تب مشیر مال نے انٹی سے ساٹھ روپے کے نوٹ نکال کر باقر کے ہاتھ میں دیتے ہوئے مسکرا کر کہا ابھی یہ رکھ لو ۔ باقی بھی ایک مہینے تک پہنچا دوں گا ہو سکتا ہے تمہاری قسمت کے پہلے ہی آجائیں اور بغیر کوئی جواب سنے وہ تو ہرے کی طرف چل پڑے نو را پھر چارہ کر نے لایا تھا دور ہی سے آواز دے کر انہوں نے کہا “بھینس کا چارہ رہنے دے پہلے ڈاچی کیلئے گورے کا نیرا ڈال بھو کی معلوم ہوتی ہے ۔ کرشن چکش کا چاندا بھی طلوع نہیں ہوا تھا ویرانے میں چاروں طرف کہرا سا چھایا ہوا تھا سر پر دو ایک تارے جھانکنے لگے تھے اور ببول اور کا نہو کے درخت بڑے بڑے سیاہ دھبے بن رہے تھے ۔ ساٹھ روپے کے نوٹوں کو ہاتھ میں لئے اپنے گھر سے ذرا فاصلے پر ایک جھاڑی کی اوٹ میں بیٹھا باقر اس مدھم ٹمٹماتی روشنی کی شعاع کو دیکھ رہا تھا جو سرکنڈوں سے چھن چھن کر اس کے گھر کے آنگن سے آرہی تھی ۔ وہ جانتا تھا رضیہ جاگ رہی ہوگی ۔ اس کا انتظار کر رہی ہوگی اور وہ یہ سوچ رہا تھا کہ روشنی بجھجائے اور رضیہ سو جائے تو وہ چپ چاپ گھر میں داخل ہو ۔

ایک تھا بادشاہ

ایک تھا بادشاہ

ایک تھا بادشاہ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ ۔ بادشاہ کا نام اسادا تھا۔ جب اسادا بوڑھا ہو گیا تو اسے یہ فکر دامنگیر ہوئی جیسے کہ ہر بادشاہ کو ہوتی ہے کہ کہیں راج پاٹ اس کے ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ شاہ اسادا سوچ سوچ کر ہار گیا کہ کون سا طریق کار اختیار کرے۔ چونکہ بادشاہ تھا لہٰذا کسی سے مشورہ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ دل کی بات کسی سے کہہ نہیں سکتا تھا۔ بادشاہ لقمان کے اس کوے کے مصداق ہوتا ہے جو منہ میں پنیر کا ٹکڑا پکڑے درخت پر بیٹھا ہو۔ درخت کے نیچے مشیر وزیر کھڑے یک زبان ہو کر کہہ رہے ہوں ” شاہ عالم آپ کتنے خوش گفتار ہیں ۔ بولتے ہیں تو پھول جھڑتے ہیں، پھول جھڑیں یا نہ جھڑیں پنیر کا ٹکڑا منہ میں ہو تو کیسے بات کرے۔ شاہ اسادا کا وزیر بڑا با تدبیر تھا۔ جیسے وزیر ہمیشہ ہوتا ہے۔ اس حد تک با تدبیر تھا کہ بادشاہ خود اس کی با تدبیری سے خوف زدہ تھا۔وزیر بادشاہ کی فکرمندی کو بھانپ گیا۔ ایک روز موقع پا کر تخلیے میں بولا عالی جاہ میری گردن کاٹنے کا حکم صادر فرمائیے“ بادشاہ یہ سن کر بہت حیران ہوا بولا ” تم نے کون سا جرم کیا ہے کہ میں ایسا حکم صادر کروں۔وزیر بولا ” شاہ عالم اگر بادشاہ سلامت کی پیشانی پر فکر مندی کی سلوٹیں موجود ہوں تو اسے ایسے چھپاؤ کہ برتاؤ کے کسی در بچے سے جھانکنے نہ پائے اور اگر جھا کے تو پھر چھپانا سعی

لا حاصل ہے اور عالم پناہ بادشاہ سلامت کو سعی لاحاصل زیب نہیں دیتی ۔اب بادشاہ کیلئے کوئی چارہ نہ رہا بولا ” وزیر با تدبیر ہم چاہتے ہیں کہ جیتے جی راج پاٹ اپنے بڑے بیٹے کو سونپ کر اپنے فرض سے سبکدوش ہو جا ئیں ۔ وزیر نے جواب دیا ”عالی جاہ اس میں فکر مندی کی کیا بات ہے۔ حکم دیجئے تعمیل ارشاد ہوگی۔“ہے؟بادشاہ نے کہا وزیر با تدبیر ہم جاننا چاہتے ہیں کہ اس بارے میں تمہاری کیا رائے وزیر بولا۔ بادشاہ عالم ویسے تو حکم پر سر تسلیم خم ہے لیکن سیانے کہتے ہیں کہ بادشاہ کا بیٹا نہیں ہوتا شہزادہ ہوتا ہے اور شہزادے کا باپ نہیں ہوتا بادشاہ ہوتا ہے آگے آپ مالک ہیں۔یہ سن کو بادشاہ گھبرا گیا لیکن خاموش رہا۔وزیر نے اپنی بات جاری رکھی۔ کہنے لگا عالی جاہ شہزادہ ساجھانا گزشتہ آٹھ سال سے یورپ میں یونیورسٹی آف ویسٹرن آرٹس اینڈ سائنس میں زیر تعلیم ہے۔ شہزادے کی تاج پوشی کا اعلان کرنے سے پہلے ان کا عندیہ معلوم کرنا مناسب رہے گا۔ حکم ہو تو شہزادہ سلامت کو بلانے کیلئے ایلچی روانہ کر دیا جائے۔شہزادے کی آمد کے بعد بادشاہ اور وزیر یہ جان کر حیران رہ گئے کہ وہ کسی صورت بادشاہ بننے پر رضا مند نہ تھا۔ اس میں شہزادے کا کوئی قصور نہ تھا سالہا سال مغربی یونیورسٹی میں تعلیم و تربیت پانے کے بعد وہ بادشاہ کے نام سے ہی الرجک ہو چکا تھا۔ میں نہیں چلتا ۔ وزیر بولا ۔ شہزادہ سلامت آپ کتاب وشنید کے چکر میں آچکے ہیں ۔ یہ کتابی علم جو درسگاہوں میں رائج ہے عملی زندگی شہزادے نے جواب دیا۔ محترم وزیر بادشاہ پرانے زمانے کی چیز ہے۔ وہ مدت سے مر چکا ہے۔ آپ مجھے بادشاہ بنا کر مرحوم و مغفور نہ کریں میں زندہ رہ کر زندگی چاہتا ہوں وزیر بولا ”شہزادہ عالی یہ کہنا کہ بادشاہ مر چکا ہے ایک کتابی خوش فہمی ہے۔ عملی زندگی میں وہ آج بھی جوں کا توں زندہ و پائندہ ہے۔ میں جانتا ہوں کہ بادشاہ نے بھیس بدل لیا ہے کہیں نمائندے کا سوانگ رچائے بیٹھا ہے کہیں سامراجی طاقتوں کے خلاف نعرے لگا رہا ہے کہیں خدمت خلق کا روپ دھارے ہوئے ہے۔ شہزادہ سلامت یاد رکھیے کہ بھیس بدلنے سے کردار نہیں بدلتا ۔یہ بھیس بدلنے کی رسم بھی نئی نہیں ۔ بادشاہ نے کہا ” بلکہ صدیوں پرانی ہے۔ پرانے زمانوں میں بھی بادشاہ بھیس بدل کر شہر میں گھوما کرتے تھے تا کہ عوام سے رابطہ قائم ہو۔وزیر نے بادشاہ کی بات کائی بولا گستاخی معاف عالم پناہ لیکن یہ وضاحت ضروری ہے کہ بادشاہ عوام سے رابطہ پیدا نہیں کرتے بلکہ کوشش کرتے ہیں کہ ایسا طرز عمل اپنائیں کہ عوام سمجھیں کہ وہ ان سے رابطہ پیدا کرنے کے خواہش مند ہیں ۔ بادشاہ نے بات کا رخ بدلنے کیلئے کہا۔ شہزادہ ساجھا نا تم اپنے چچا آدورا کی مثال سامنے رکھو۔“چا تو بادشاہ نہ تھا۔ سا جھانا بولا ” وہ تو عوام کے منتخب نمائندے تھے۔ بے شک بے شک ۔ آپ درست فرماتے ہیں۔ شہزادہ سلامت وزیر با تدبیر نے ہامی بھری ۔ عوام آج بھی یہی سمجھتے ہیں کہ شاہ آدورا بادشاہ نہ تھا اور وہ کوئی کام عوام کی مرضی پوچھے بغیر نہ کرتے تھے عالی جاہ بادشاہ کی کامیابی کا راز یہی ہے کہ وہ بادشاہ تو ہو لیکن عوام اسے بادشاہ نہ سمجھیں .بے شک بے شک ۔ بادشاہ نے وزیر پر تحسین بھری نظر ڈالی ۔ وزیر نے سلسلہ کلام جاری رکھا بولا ” شاہ آدور ا عوام کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے لیکن ان کی نظر میں ایسا جادو تھا کہ وہ محبت سے بھری ہوئی نظر آتی تھی۔ جب وہ زبان کی لاٹھی چلاتے تو عوام فرط محبت سے دم ہلانے پر مجبور ہو جاتے ۔“ شہزادہ اپنے چا کا پرستار تھا۔ وزیر کی بات سن کر اسے دھچکا لگا بولا ” بادشاہ سلامت!سفر کی کوفت کی وجہ سے میں بہت تھک گیا ہوں اجازت ہو تو ذرا آرام کرلوں ۔ ظاہر ہے کہ شہزادے پر پند و نصیحت کا کوئی اثر نہ ہوا تھا۔ وہ مغربی رنگ میں رنگا ہوا ایک نو جوان تھا۔ اسی رات جب بادشاہ ملکہ اکلیمہ کے پاس پہنچا تو وہ ایک ہی نظر میں تاڑ گئی کہ سارنگی کے تار ڈھیلے پڑے ہوئے ہیں۔ ملکہ اکلیمہ بڑی سیانی تھی۔ ویسے تو ہر عورت سیانی ہوتی ہے۔ چونکہ اسے ایک ڈھکے چھے ظل الٰہی کے ساتھ رہنا سہنا پڑتا ہے۔ رہنا کم سہنا زیادہ لیکن ملکہ تو ایک ننگ دھڑنگ قل انہی کے زیر سایہ رہتی تھی۔ اس لئے کچھ زیادہ ہی سیانی تھی۔ اس کیلئے زندگی گویا شطرنج کی بساط تھی۔ پتا نہیں ایسا کیوں ہوتا ہے؟ پر ایسا ہوتا ضرور ہے ۔ کشش ثقل کی ، کشش ثقل کی روک نہ ہو تو بوٹا اگ نہیں سکتا، بندشوں کے کانٹے نہ ہوں تو گلاب کا پھول کھل نہیں سکتا۔ خیر بادشاہ کو دیکھتے ہی ملکہ سمجھ گئی کہ پیشانی کی سلوٹوں میں دبی ہوئی بات ہونٹوں پر اترنے والی ہے لہذا وہ رنگ روپ ناز نخرے کے پیادے چلانے میں مصروف ہوگئی۔جس طرح عورت کا کام یہ ہوتا ہے کہ مرد سے معتبری کا چھلکا اتار کر اندر سے کھلنڈرا بچہ نکال لے۔ اسی طرح ملکہ کا کام یہ ہوتا ہے کہ ظل الٰہی کا پتھر توڑ کر اندر کا انسان باہر نکالے انسان باہر نکلا تو اس نے ساری بات ملکہ سے کہہ دی۔شاہ کی بات سن کر ملکہ بولی عالی جاہ بادشاہت ایک میوہ ہے۔ ایک بار اس کا سواد چکھ لو تو منہ کو لگ جاتا ہے۔ پھر چھڑانے سے نہیں چھوٹتا اگر آپ چاہتے ہیں کہ شہزادہ بادشاہ بنا قبول کرلے تو پہلے اس میں بادشاہ بننے کی آرزو پیدا کیجئے ۔ پھل کا سواد چکھائیے۔ چاٹ لگائیے۔سواد کیسے چکھا ئیں؟“ بادشاہ نے پوچھا۔پہلے اسے جلسے جلوسوں میں لے جائیں ۔ محل سے نکلے تو توتیاں(ساز) بجیں۔ بازاروں سے گزرے تو سیکورٹی کی موٹریں چلاؤں چلاؤں کرتی ہوئی آگے آگے دوڑیں ٹریفک بند ہو جائے ۔ پولیس والے راستے روک کر کھڑے ہو جائیں راہ چلتوں کو روک کر زبردستی دو رو یہ کھڑے کر دیں۔ جیسے وہ خیر مقدم کیلئے گھر سے نکلے ہوں تا کہ شہزادہ سمجھے کہ وہ لوگ نہیں پروانے ہیں۔ جلسوں میں پرجوش استقبال ہو۔ زندہ باد کے نعرے لگیں۔ پھول برسائے جائیں۔ ہار پہنائے جائیں۔ فوٹو گرافر تصویریں کھینچیں؟ اخبار شہ سرخیاں سجائیں تصویریں لگائیں ریڈیو اور ٹی وی والے ان مصور خبروں کو دہرا دہرا کر ناظرین و سامعین کو مفرح کریں لیکن شہر ہے شاہ عالم ملکہ رک گئی ” پہلے اچھی طرح سوچ سمجھ لیجئے۔ کیا شہزادے کا بادشاہ بنانے کا فیصلہ مناسب ہے؟“ر اس پر بادشاہ کی پیشانی پر بل پڑ گئے بولا کیا مطلب ہے تمہارا ملکہ اکلیمہ !” ملکہ بولی عالی جاہ اگر شہزادے کے منہ کو بادشاہت کا سواد لگ گیا تو وہ بادشاہ بننے کیلئے اتنا بے صبرا ہو جائے گا کہ آپ نہ بنائیں گے تو بھی بننے کے خواب دیکھے گا اور بن گیا تو وہ بیٹا بن کر نہیں جیے گا۔ ظل الٰہی سیانے کہتے ہیں شیر اس وقت تک شیر نہیں بنتا جب تا تک اسکے منہ کو انسان کا خون نہ لگ جائے ۔ اس پر بادشاہ چپ ہو گیا۔ سوچ میں پڑ گیا۔ بہر صورت بادشاہ نے حکم صادر کر دیا کہ شہزادے کو جلسے جلوسوں میں گھمایا پھرایا جائے ۔ وزیر با تدبیر بولا ” عالی جاہ اگر نشر و تشہیر مقصود ہے تو بہتر ہوگا کہ آپ ذرائع ابلاغ کے محکمے والوں سے مل کر اپنا عندیہ بیان کریں ۔ذرائع ابلاغ کا سربراہ بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو بادشاہ نے برسبیل تذکرہ پوچھا آپ کا محکمہ کیا کام کرتا ہے؟ اس پر سر براہ گھبرا گیا بولا ” شاہ عالم جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔“شاہ نے امان دے دی تو وہ بولا ” عالی جاہ ہمارے دو کام ہیں۔ ایک یہ کہ بادشاہ کو حقیقت حال کی خبر نہ ہونے پائے ۔ دوسرے یہ کہ عوام میں یہ گمان پیدا کیا جائے کہ انہیں صورتحال سے باخبر رکھا جا رہا ہے۔“بادشاہ کی سمجھ میں بات نہ آئی بولا ۔ بات ہمارے پلے نہیں پڑی ۔“اس پر سر براہ کی باچھیں کھل گئیں بولا عالی جاہ یہی ہمارا کام ہے کہ بات کہہ دی جائے لیکن پلے نہ پڑے۔ عالی جاہ ہم پر اعتماد کیجئے ہم ٹیکنیکل ایکسپرٹ ہیں۔ کام خوش اسلوبی سے سر انجام دیں گے صرف یہ فرما دیجئے کہ مقصود کیا ہے ۔ ؟پیدا ہو۔ سربراہ یہ سن کر گھبرا گیا بولا شاہ عالم یہ تو ایک خطرناک بات ہوگی ۔ اسکے علاوہ یہ بادشاہ نے جواب دیا ” ہم چاہتے ہیں کہ شہزادے کے دل میں بادشاہ بننے کی آرزو طریق کار پرانا ہے۔ جدید طریقہ یہ ہے کہ عوام پر زور مطالبہ کریں کہ شہزادہ گدی سنبھال لے ان کے اس پرزور مطالبے سے مجبور ہو کر شہزادہ تخت نشینی پر رضا مند ہو جائے ۔“

آپ عوام کو رضا مند کیسے کریں گے؟“ شاہ نے پوچھا۔ عالی جاہ سربراہ بولا ”عوام رضا مند ہوں نہ ہوں لیکن یہ بھی تو خیال فرمائے کہ عوام کو مطالبات کرنے سے دلچسپی ہے اور یہ گمان کہ شہزادے نے ان کی خواہشات پر تسلیم خم کر دیا ہے ان کیلئے کتنی تسکین کا باعث ہوگا ۔“ تو جناب دفتر پہنچ کر سربراہ نے احکامات جاری کر دیئے کہ فی الفور ایسے اقدامات کئے جائیں کہ شہزادہ عوام کی آنکھوں کا تارا بن جائے۔ اس پر محکمہ کے کارکن فورا حرکت میں آگئے ۔ شہزادے کی تصاویر کھینچی گئیں آرٹسٹوں نے ان تصاویر میں رنگ بھرے۔ آنکھوں میں سیکس اپیل پیدا کی۔ ساجھانا کی سپاٹ آنکھوں میں گلیڈ آئی چمکنے لگی کھلی اور خالی پیشانی پر مردانہ گھوری آ بیٹھی سیدھے ہونٹ خم آلود ہو گئے ۔ اس کے بعد اخباروں اور رسائل کے نام ایک سرکلر آرڈر روانہ کیا جس میں ان تصویروں کی کاپیاں ملفوف تھیں تاکہ ان تصاویر کے علاوہ شہزادے کی کوئی اور تصویر کو جو بھی لڑکی دیکھتی اسے ایسا لگتا جیسے شہزادہ اس کی طرف دیکھ رہا ہو اور اس کی نگاہوں میں اس کیلئے ایک خاص الخاص پیغام ہو۔اس کے فورا بعد شہزادے کا ایک انٹرویو چھپا جے محکمے والوں نے مرتب کیا تھا۔ایک سوال کے جواب میں شہزادے نے کہا کہ میں شاہی خاندان کی لڑکی سے نہیں بلکہ عوامی در کنگ وومن سے شادی کروں گا میں ذات پات عہدے مرتبے کا قائل نہیں البتہ لڑکی سمارٹ ہو ذہین ہو کلچرڈ ہو ضروری نہیں کہ خد و خالی یا گوری ہو۔“اس اعلان کے بعد شہزادے کے جلسوں اور جلوسوں میں لڑکیوں کی تعداد میں اس قدر اضافہ ہو گیا کہ مینا بازار کا شبہ پڑنے لگا۔ادھر وزیر با تدبیر نے شاہ کی خدمت میں گزارش کی کہ عالی جاہ جلسے جلوسوں کا پروگرام لانگ رینج پروگرام – ہے۔ فوری نتائج کے لئے کے لئے مناسب ہوگا کہ شہزادے کو سمجھانے بجھانے کیلئے ایک ٹیوٹر مقرر کر دیا جائے جسے عرف عام میں کمپئین کہا جائے تا کہ شہزادہ بدظن نہ ہو میری رائے میں یہ کمپئن مغربی رنگ میں رنگا ہوتا کہ شہزادے پر اثر انداز ہو سکے۔ اس مقصد کیلئے محکمہ تعلقات عامہ نے یونیورسٹی کے بہت سے پروفیسروں سے انٹرویو کیے اور آخر میں ایک ادھیڑ عمر کی ڈیپلومیٹک ریلیشنز کی ڈاکٹر مادام زیوری کو منتخب کر لیا گیا۔ فائل اپروول کیلئے مادام کو بادشاہ کی خدمت میں حاضر کر دیا گیا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ محترمہ آج کل بادشاہ کیلئے سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے۔ مادام بولی عالی جاہ آج کے دور میں شاہوں کیلئے صرف ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ ہے پاور پالیٹکس کا مسئلہ“ شاہ نے کہا ”بی بی بندھے سکے الفاظ میں بات نہ کر یہ بتا کہ پاور پالیٹکس سے تیری کیا مراد ہے۔؟“ مادام بولی عالی جاہ دنیا میں بادشاہوں کیلئے صرف ایک ہی مسئلہ ہے جو باوا آدم سے آج تک جوں کا توں قائم و دائم ہے اور وہ ہے لاٹھی اور بھینس کا مسئلہ۔ پہلے یہ مسئلہ افراد تک محدود تھا پھر قبیلوں تک جا پہنچا اور آج کل اقوام پر حاوی ہو چکا ہے ۔وہ کس طرح ؟ شاہ نے مزید کریدا ۔مادام نے جواب دیا ” شاہ عالم آج کی دنیا میں کچھ تو میں لاٹھی تو میں ہیں، باقی بھینس تو میں ہیں۔ لاٹھی قوموں کی خواہش ہے کہ زیادہ سے زیادہ بھینسوں کو ہانک کر اپنے گلے میں لے جائیں۔ ان کا دودھ پئیں کھال سے اپنے لئے جوتے بنائیں۔ عالی جاہ ہر بھینس کی خواہش ہے کہ وہ اپنے تحفظ کیلئے کسی لاٹھی قوم کو اپنالے لیکن در پردہ ہر بھینس قوم چاہتی ہے کہ وہ بھی لاٹھی قوم بن جائے ۔ ” وہ کیوں؟“ بادشاہ نے پوچھا۔ مادام نے جواب دیا ” عالی جاہ قدرت کا اصول ہے کہ اگر تم لاٹھی نہیں بنو گے تو یقیناً بھینس بنا لیے جاؤ گے۔“ وزیر با تدبیر جو اس دوران میں خاموشی سے مادام کی باتیں سنتا رہا تھا بولا ” مادام یہ بتائیے کے بادشاہ کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟“مادام بولی محترم بادشاہ خود ایک لاٹھی ہے جو بظاہر عوام کو سہارا دیتی ہے لیکن در پردہ انہیں ہانکتی ہے بادشاہ یہ سن کر بہت خوش ہوا اور اس نے مادام کو شہزادے کا کمپین مقرر کر دیا۔ جب بادشاہ کی والدہ راج ملکہ کو مادام کی تعیناتی کا علم ہوا تو اس نے احتجاج کیا بولی بیٹے تم نے مادام کو شہزادے کا ساتھی بنا کر اچھا نہیں کیا ۔بادشاہ نے جواب دیا ”والدہ محترم ہم نے مادام کو اس کیلئے متعین کیا ہے کہ وہ شاہ راج ملکہ کا اشارہ سمجھ گیا بولا ”والدہ محترم مادام ادھیڑ عمر کی عورت ہے۔ شہزادے کو سمجھائے بجھائے ۔“ شہزادے کی ماں بجا ہے۔“یہی تو ہے راج ملکہ بولی ”اگر وہ تو جوان ہوتی تو کوئی اندیشہ نہ تھا ماں بجا عورت گود میں ڈالنے کا گر جانتی ہے بیٹا شہزادے کو راہ راست پر لانا کچھ مشکل نہ تھا۔ اس کا بیاہ کر دیتے۔ شہزادہ چاہے بادشاہ بننے پر رضا مند نہیں لیکن اس کی بیوی ملکہ بننے پر چل جاتی پھر کوئی مسئلہ ہی نہ رہتا ۔“ بادشاہ نے کہا آپ بجا فرماتی ہیں۔ ہم جلد از جلد شہزادے کے بیاہ کے انتظامات کر دیں گے۔ اس پر راج ملکہ مطمئن ہوگئی ۔ ۔ ۔ ادھر شہزادے کو علم تھا کہ مادام اس کی اتالیق مقرر کی گئی ہے تا کہ اسے سمجھائے بجھائے۔ اس لئے اس نے مادام سے سرد مہری اختیار کرلی ۔ مادام نے اس کی سرد مہری کو درخور اعتنا نہ سمجھا اور ایسا رویہ اختیار کر لیا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ شہزادہ آخر نوجوان تھا کچا تھا ایکروز پھوٹ پڑا۔ مادام سے کہنے لگا۔ ” مجھے پتا ہے آپ مجھے سمجھانے بجھانے پر مامور ہو گئی ہیں۔ ہاں مادام نے اثبات میں سر ہلایا ” شاہ عالم ہی سمجھتے ہیں کہ میں شہزادہ سلامت کو سمجھانے بجھانے پر مامور ہوں ۔یہ سن کر شہزادہ بوکھلا گیا بولا اور آپ کیا بجھتی ہیں۔“مادام بولتی میں نہیں چاہتی کہ آپ بادشاہ بننے پر رضا مند ہوں ۔“ شہزادے نے حیرت سے مادام کی طرف دیکھا ۔ مادام نے اپنی بات جاری رکھی بولی “شہزادہ سلامت یہ بڑے بوڑھے ہم نوجوانوں کے راستے کی رکاوٹ ہیں شہزادہ سلامت میں جدید تعلیم سے آراستہ ہوں مروجہ رسمی خیالات سے باغی ہوں ۔ حیرت سے شہر دانے کی آنکھیں اہل آئیں بولا ” پھر آپ نے میری اتالیق بننا کیوں منظور کیا ؟مادام نے جواب دیا ” پیارے شہزادے مجھے آپ سے بے پناہ ہمدردی ہے۔ آپ کو بڑے بوڑھوں کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ رکھنے کا صرف یہی طریقہ تھا کہ میں آپ کی اتالیق بن جاؤں ۔ شہزادے کی آنکھوں میں حیرت کی جگہ تحسین جھلکی اور وہ سرک کر مادام کے قریب تر ہو گیا اس کے ارد گرد ایک ممتا بھری گود پھیل گئی ۔۔۔ پھیلتی گئی پھیلتی گئی حتیٰ کہ مسلط و محیط ہو گئی۔تین مہینے کے بعد اخبارات کے پہلے صفحے پر سیاہ حاشیے کے اندر جلی حروف میں خبر چھپی کہ شاہ اسادا شہزادہ سا جھانا اور ان کی اتالیق کے ہمراہ سیر و تفریح کیلئے ہل اسٹیشن کی طرف جارہے تھے کہ راستے میں اتفاقا کار کا دروازہ کھل گیا شاہ کار سے نیچے پھسل کر گھاٹی میں گر گئے شاہ اسادا کی آخری وصیت کے مطابق اور عوام کے پر زور مطالبے پر شہزادہ سا جھانا اور ملکہ مادام زبوری کی تاج پوشی کی رسم سات دن کے سوگ کے بعد ادا کی جائے گی۔

بونے کی انگوٹھی

بونے کی انگوٹھی

زمانہ گزرا کسی ملک میں ایک گاؤں تھا جس میں ایک کسان اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کی بیٹی کا نام لالہ رخ تھا اور وہ پندرہ سولہ سال کی ایک نہایت حسین و جمیل لڑکی تھی۔ وہ بہت با اخلاق اور ہر کسی کے دکھ درد میں کام آنے والی لڑکی تھی۔ لالہ رخ گھر کے کاموں میں اپنی ماں کا ہاتھ بھی بٹاتی تھی اور مرغیوں کی دیکھ بھال بھی کرتی تھی۔ ان کاموں سے فارغ ہو کر وہ اپنی بکریوں کو قریبی جنگل میں چرانے کے لیے لے جاتی۔ بکریاں تو جنگل میں گھاس اور جھاڑیوں میں لگے پتے کھانے لگتیں اور لالہ رخ کسی مٹی کے ٹیلے پر بیٹھ کر ان کی رکھوالی کرتی اور اس بات کا دھیان رکھتی کہ کوئی بکری زیادہ دور نہ نکل جائے۔ اسے جنگل میں جا کر اس کی کھلی فضا میں بکریوں کو چرانے میں بڑا مزہ آتا تھا۔

ایک دن سورج ڈھلنے سے پہلے وہ اپنی بکریوں کو ہانک کر جنگل سے گھر کی جانب آ رہی تھی کہ راستے میں اسے زمین پر کوئی چمکیلی چیز نظر آئ۔ اس نے اٹھا کر دیکھا تو وہ ایک ننھی سی سنہری انگوٹھی تھی جس پر سرخ رنگ کا ایک نگینہ بھی جڑا ہوا تھا۔ لالہ رخ نے ادھر ادھر دیکھا کہ شاید اسے وہ شخص نظر آجائے جس کی یہ انگوٹھی تھی مگر آس پاس کوئی بھی نہ تھا۔ اس نے انگوٹھی کو اپنی اوڑھنی کے پلو میں باندھ لیا اور سوچا کہ اگر اس انگوٹھی کا مالک کبھی مل گیا تو وہ اسے اس کے حوالے کردے گی۔

اس کے بعد وہ پھر بکریوں کو ہانکتی ہوئی گھر کی جانب چل پڑی۔ ابھی وہ گھر سے کچھ فاصلے پر تھی کہ راستے میں ایک درخت کے نیچے اسے ایک چھوٹا سا بونا بیٹھا نظر آیا۔ اس کے چہرے پر اداسی تھی اور آنکھوں میں آنسو بھرے ہوۓ تھے۔ لالہ رخ کو اسےیوں اداس دیکھ کر بہت ترس آیا اور وہ اس کے پاس آکر بولی۔ “کیا میں آپ کی کچھ مدد کرسکتی ہوں۔ آپ غمزدہ نظر آ رہے ہیں”۔

بونے نے ایک آہ بھری اور اداس لہجے میں بولا۔ “تم تو کیا میری مدد تو کوئی بھی نہیں کرسکتا۔ اتنی بڑی زمین ہے، وہ نہ جانے میری جیب سے کہاں گر گئی ہے۔ جب میں جھک کر دریا سے پانی پی رہا تھا تو ہوسکتا ہے وہ دریا میں گر پڑی ہو”۔

اس کی بات سن کر لالہ رخ ہنس پڑی۔ “کہیں آپ کی انگوٹھی تو نہیں کھو گئی ہے؟” اس نے ہنستے ہوۓ سوال کیا۔

اس کی بات سن کر بونا حیرت سے اچھل پڑا۔ “لڑکی تمہیں کیسے پتہ چلا کہ میری انگوٹھی کھو گئی ہے؟” اس نے حیرانگی سے پوچھا۔

“مجھے کچھ دور زمین پر سے ایک انگوٹھی ملی تھی اور میں نے آپ کی باتوں سے اندازہ کرلیا تھا کہ یہ آپ ہی کی ہوگی”۔ لالہ رخ نے اپنی اوڑھنی کے پلو سے انگوٹھی نکال کر بونے کے حوالے کرتے ہوۓ کہا۔ بونا خوش ہوگیا ۔ اس نے انگوٹھی لے کر احیتاط سے اپنی جیب میں رکھ لی اور لالہ رخ سے بولا۔ “یہ ایک بہت ہی قیمتی انگوٹھی ہے۔ اسے بیچ کر تمہیں بہت ساری رقم مل سکتی تھی۔ مگر تم ایک اچھی اور نیک دل لڑکی ہو اور تمہارے دل میں ذرا سا بھی لالچ نہیں ہے۔ میں تمہارا شکر گزار ہوں۔ یہ انگوٹھی میں نے اپنی پیاری بیوی کو تحفے میں دینے کے لیے لی تھی”۔

“میں خوش ہوں کہ آپ کی انگوٹھی آپ کو مل گئی ہے”۔ لالہ رخ نے کہا۔🌹

بونے نے مسکرا کر اس کی بات سنی اور اپنے تھیلے میں سے چاندی کی ایک ڈبیہ نکال کر اسے لالہ رخ کو دیتے ہوۓ بولا۔ “لڑکی۔ میں تمہاری نیکی کا انعام تو نہیں دے سکتا کیوں کہ اس وقت میرے پاس کوئی قیمتی چیز نہیں ہے۔ ہاں جنگل سے گذرتے ہوۓ ایک جادوگرنی کے گھر کی کھڑکی کے نیچے سے مجھے یہ ڈبیہ ملی تھی۔ اس میں ایک بیج ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ جادو کا بیج ہوگا۔ گھر جا کر اسے زمین میں بو دینا۔ ہوسکتا ہے اس میں سے ایسا درخت نکل آئے جس میں بجائے پھلوں اور پھولوں کے سونے چاندی کی اشرفیاں لگتی ہوں۔ اگر ایسا ہوگیا تو مزے آجائیں گے۔ تم امیر ہوجاؤ گی”۔

لالہ رخ نے ڈبیہ لے کر بونے کا شکریہ ادا کیا ۔ بونے نے اپنے منہ میں دونوں ہاتھوں کی ایک ایک انگلی ڈال کر زور سے سیٹی بجائی۔ سیٹی کی آواز سنتے ہی سامنے کی جھاڑیوں میں ہلچل سی مچی اور ان میں سےبونے سے کچھ بڑے قد کا ایک گھوڑا نکل کر آیا اور اس کے پاس کھڑا ہو کر ہنہنانے لگا۔ اس کے منہ میں گھاس دبی ہوئی تھی جسے وہ مزے لے لے کر کھا رہا تھا۔ بونے نے لالہ رخ کو خدا حافظ کہا اور اپنے چھوٹے سے گھوڑے پر سوار ہو کر لمحہ بھر میں ہی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔

لالہ رخ خوش خوش گھر آئ۔ گھر آ کر اس نے بکریوں کو ان کے کھونٹوں سے باندھ دیا۔ پھر اس نے صحن میں ایک اچھی سی جگہ دیکھ کر زمین کھودی اور اس میں وہ جادو کا بیج دبا دیا۔ بیج دبانے کے بعد اس نے اس پر تھوڑا سا پانی بھی چھڑک دیا اور اپنے دوسرے کاموں میں مصروف ہوگئی۔ تھوڑی دیر بعد کسان بھی کھیتوں پر سے گھر لوٹ آیا۔ رات ہوگئی تھی۔ کسان، اس کی بیوی اور لالہ رخ نے کھانا کھایا اور سونے کے لیے بستروں پر لیٹ گئے۔

اگلی صبح جب لالہ رخ اٹھی تو اس نے اس جگہ جہاں بیج بویا تھا وہاں ایک مٹر کا پودا دیکھا۔ لالہ رخ کو بہت حیرت ہوئی۔ ایک تو اس بات پر کہ ایک ہی رات میں مٹر کا پودا زمین سے کیسے نکل آیا اور اتنا بڑا ہوگیا۔ دوسری حیرت اسے اس بات پر تھی کہ اس پودے کی شاخ میں ایک مٹر کی پھلی بھی لگی ہوئی تھی۔ وہ سمجھ گئی کہ جادو کے بیج کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔

اس نے جلدی سے مٹر کی پھلی پودے سے توڑ ی اور اسے چھیل کر دیکھنے لگی۔ اسے چھیلا تو اندر مٹر کے دانے نہیں تھے بلکہ ایک بہت ہی چھوٹا سا لڑکا آنکھیں بند کیے لیٹا تھا۔ لالہ رخ ڈرپوک لڑکی نہیں تھی اس لیے وہ اس عجیب و غریب چھوٹے سے لڑکے کو دیکھ کر ذرا بھی نہیں ڈری۔ اس نے جلدی سے اس لڑکے کو پھلی سے نکال کر اپنی ہتھیلی پر رکھ لیا اور اسے غور سے دیکھنے لگی۔ پھلی سے نکلتے ہی لڑکے کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔

“میں کہاں ہوں؟” لڑکے نے حیرت سے آنکھیں جھپکاتے ہوۓ پوچھا۔ “شائد میں دیووں کی دنیا میں پہنچ گیا ہوں۔ اتنی بڑی لڑکی تو میں نے آج تک نہیں دیکھی “۔

“تم میری ہتھیلی پر ہو ننھے لڑکے۔ میں دیو نہیں ہوں عام انسان ہی ہوں۔ تم ہی بس بہت چھوٹے سے ہو”۔ لالہ رخ نے مسکراتے ہوۓ کہا۔ وہ اس ننھے لڑکے کو دیکھ کر خوش ہو گئی تھی۔ اس نے دل میں سوچ لیا تھا کہ وہ اس لڑکے کو اپنے گھر میں ہی رکھے گی۔

“مجھے بھوک لگ رہی ہے”۔ لڑکے نے کہا۔ “کیا مجھے کھانے کو کچھ ملے گا؟”🌹

لالہ رخ نے کہا۔ “تم کیا کھاؤ گے۔ مجھے بتا دو۔ جو کی روٹی اور مکھن تو تم کھا نہیں سکو گے۔ جو کی روٹی تو بہت بڑی ہوتی ہے”۔

“کیا تم اخروٹ کا حلوہ بنا سکتی ہو؟” لڑکے نے جلدی سے پوچھا۔

“بنا تو میں لوں گی مگر اس کے لیے مجھے اخروٹ لینے کے لیے پہاڑوں پر جانا ہوگا۔ ہمارے گھر میں اخروٹ نہیں ہیں”۔ لالہ رخ نے کہا۔

“ٹھیک ہے۔ مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو”۔ لڑکے نے کہا۔ وہ لڑکے کو ہاتھ میں لے کر اپنی ماں کے پاس پہنچی اور اس کے متعلق بتایا۔ مٹر کی پھلی سے نکلنے والے لڑکے کو دیکھ کر اس کی ماں ڈر گئی۔ اتنا چھوٹا سا لڑکا تو اس نے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔

اس کا خوف محسوس کرکے لڑکے کا ہنستے ہنستے برا حال ہوگیا۔ وہ اپنی ہنسی روکنے کی کوشش کرتے ہوۓ بولا۔ “آپ اتنی بڑی ہو کر مجھ سے ڈر گئی ہیں مگر میں اتنا چھوٹا ہونے کے باوجود بھی آپ سے نہیں ڈرا۔ ہا ہا ہا!”

لڑکا تھا تو چھوٹا سا مگر باتیں مزے کی کرتا تھا۔ اس کی بات سن کر لالہ رخ کی ماں مسکرانے لگی اور اس کا خوف دور ہوگیا– لالہ رخ نے اپنی ماں سے کہا۔ “آج میں بکریوں کو جنگل میں نہیں لے جاؤں گی، انھیں یہیں چارہ ڈال دوں گی۔ مجھے پہاڑوں پر جا کر وہاں سے اخروٹ لینا ہیں تاکہ اس ننھے لڑکے کے لیے حلوہ بنا سکوں”۔

“ٹھیک ہے۔ مگر خوب دیکھ بھال کر جانا۔ وہاں پر بڑے خطرات ہوتے ہیں۔ تم واپس آؤ گی تو میں اس لڑکے کا ناریل کے چھلکے سے بستر بنا کر رکھوں گی اور اس کے چھوٹے چھوٹے کپڑے اور جوتے بھی بناؤں گی۔ مجھے یہ لڑکا بہت پسند آیا ہے۔ اگر یہ بڑا ہوتا تو میں تمہاری شادی اس سے کر دیتی”۔ اس کی ماں نے مسکرا کر کہا۔

اپنی شادی کا سن کر لالہ رخ کا چہرہ مارے شرم کے گلابی ہوگیا اور وہ مٹر کی پھلی والے لڑکے کو لے کر جلدی سے کمرے سے نکل گئی۔ کسان تو منہ اندھیرے ہی کھیتوں پر کام کرنے کے لیے نکل گیا تھا اس لیے وہ اس لڑکے سے نہیں مل سکا تھا۔ تھوڑی دیر بعد لالہ رخ نے اپنے باپ کا گھوڑا اصطبل سے نکالا، لڑکے کو ایک چھوٹی سی جالی والی مخملی تھیلی میں رکھ کر تھیلی کو اپنے گلے میں لٹکایا اور گھوڑے پر سوار ہو کر پہاڑوں کی جانب روانہ ہوگئی۔

پہاڑوں کے پاس پہنچ کر وہ تھوڑی دیر سستانے کے لیے ایک جگہ درختوں کی گھنی چھاؤں میں بیٹھ گئی۔ گھوڑے کو اس نے ایک درخت سے باندھ دیا تھا۔ اس نے لڑکے کو تھیلی سے نکال کر اپنے ہتھیلی پر رکھ لیا۔ وہ دلچسپی سے چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔ لالہ رخ نے کہا۔ “اب ہم یہاں سکون سے کچھ دیر بیٹھتے ہیں، تم مجھے اپنے متعلق بتاؤ کہ تم کون ہو اور اس مٹر کی پھلی میں کیسے پہنچے؟۔ مجھے تو یہ سب جادو کی باتیں لگ رہی ہیں”۔

لڑکے نے کہا۔ “تم ٹھیک سمجھی ہو۔ یہ سب ایک ظالم جادوگرنی کا کیا دھرا ہے۔ ٹہرو میں شروع سے تمہیں پوری کہانی سناتا ہوں۔ میرا نام دلاور ہے۔ میں بھی عام لڑکوں کی طرح تھا اور اپنے ماں باپ کے ساتھ ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ ایک دفعہ گاؤں میں وبائی امراض پھوٹ پڑے جس سے میری ماں اس دنیا سے چل بسی۔ اس وقت میں کوئی آٹھ سال کا تھا۔ کچھ دنوں بعد میرے باپ نے دوسری شادی کرلی۔ سوتیلی ماں کا سلوک میرے ساتھ اچھا نہ تھا۔ وہ ذرا ذرا سی بات پر مجھے دھن کر رکھ دیتی تھی اور شام کو جب میرا باپ گھر آتا تو اس سے میری سچی جھوٹی شکایتیں کرتی۔ ان شکایتوں کو سن کر میرا باپ غصے میں آ جاتا اور میری پٹائی شروع کر دیتا۔ ان ہی حالات میں سالوں گزر گئے اور میں اٹھارہ سال کا ہوگیا۔ ایک روز میری سوتیلی ماں کی شکایت پر میرا باپ اتنا ناراض ہوا کہ پہلے تو اس نے مجھے خوب مارا پیٹا پھر مجھے گھر سے نکال دیا اور مجھ سے کہا کہ اب میں کبھی اسے اپنی شکل نہ دکھاؤں۔ میرا اس دنیا میں کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ میں پریشانی کے عالم میں ایک طرف کو چل پڑا۔ مجھے کچھ پتہ نہیں تھا کہ میں کدھر جا رہا ہوں۔ چلتے چلتے میں ایک جنگل میں پہنچ گیا۔ وہاں میں نے ایک عجیب سا پراسرار سیاہ رنگ کا محل نما ایک گھر دیکھا۔ مجھے زوروں کی بھوک لگ رہی تھی۔ میں نے سوچا کہ شائد مجھے اس گھر سے کھانے کی کوئی چیز مل جائے۔ میں اس گھر میں داخل ہوگیا۔ ہر طرف سکوت طاری تھا۔ ایک کمرے میں میں نے ایک نہایت بدصورت جادوگرنی کو دیکھا، وہ ایک پلنگ پر پڑی بے خبر سو رہی تھی۔ سامنے ایک اور کمرہ تھا جس کے دروازے پر جیل جیسی سلاخیں لگی ہوئی تھیں اور ان کے پیچھے کچھ بچے موجود تھے۔ سب بچے خوفزدہ اور سہمے ہوۓ تھے۔ میں ان کے قریب گیا تو ان میں سے ایک بچے نے سرگوشی کے انداز میں کہا۔ “خدا کے لیے یہاں سے بھاگ جاؤ۔ اگر جادوگرنی اٹھ گئی تو وہ تمہیں بھی ہمارے ساتھ قید کردے گی”۔🌹

میں نے انھیں تسلی دی اور پوچھا کہ وہ لوگ کون ہیں اور یہاں کیسے آئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ جادوگرنی ان بچوں کو پکڑ کر لے آتی ہے جو اپنی امی ابّا کو بتائے بغیر اپنے گھروں سے دور دور گھومنے پھرنے نکل جاتے ہیں۔ ہم بھی ایسے بچے تھے اس لیے اس نے ہمیں پکڑ لیا اور اپنے گھر لے آئ۔ یہ جادوگرنی ہم سے اپنے گھر کے سارے کام کرواتی ہے اور جب کام ختم ہوجاتے ہیں تو ہمیں اس کمرے میں بند کرکے باہر سے کنڈی لگا کر خود مزے سے سو جاتی ہے۔

ان بچوں کی کہانی سن کر مجھے بہت افسوس ہوا۔ میں نے ان کی مدد کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں نے اس جیل خانے کی کنڈی کھول کر سب بچوں کو آزاد کردیا اور ان سے کہا کہ وہ یہاں سے بھاگ کر سیدھے اپنے گھر جائیں۔ میں نے انھیں یہ تاکید بھی کی کہ آئندہ وہ اپنے ماں باپ کو بتائے بغیر کہیں نہ جائیں۔ انہوں نے وعدہ کرلیا اور خوش خوش وہاں سے بھاگ گئے۔ ان کے جانے کے بعد میں بھی وہاں سے نکلنے کے لیے پلٹا مگر کیا دیکھتا ہوں کہ وہ جادوگرنی وہاں آگئی ہے۔ بچوں کو جیل میں نہ پا کر وہ سمجھ گئی کہ میں نے انھیں آزاد کردیا ہے۔ وہ غصے سے لال بھبھوکا ہوگئی۔ اس نے اپنے دانت کٹکٹائے اور قہر بھری آواز میں بولی۔ “تو نے ان بچوں کو یہاں سے نکال کر مجھ پر بڑا ظلم کیا ہے۔ میں ان بچوں سے اپنے گھر کے سارے کام کرواتی تھی اب وہ تمام کام مجھے خود کرنا پڑیں گے۔ لڑکے تجھے اس حرکت کی سزا ضرور ملے گی۔ میں تجھے جادو کے زور سے بالکل چھوٹا سا بنا کر مٹر کے بیج میں بند کردوں گی۔ پھر اس بیج کو ایک ڈبیہ میں بند کر کے اپنے گھر سے باہر پھینک دوں گی۔ اگر تیری قسمت اچھی ہوئی تو کوئی اس بیج کو ڈبیہ میں سے نکال کر زمین میں بو دے گا۔ اس میں سے مٹر کا ایک پودا نکلے گا جس میں ایک پھلی لگی ہوگی اور اس پھلی میں تو گہری نیند سو رہا ہوگا۔ ہاں اگر کوئی نیک دل لڑکی تجھے پھلی سے نکال کر اخروٹ کا حلوہ بنا کر تجھے کھلائے گی تو تب ہی تو اپنی اصلی شکل میں آ سکے گا۔ جو لوگ مجھے تنگ کرتے ہیں اور غصہ دلاتے ہیں میں ان کو ایسی ہی عجیب و غریب اور انوکھی سزائیں دیتی ہوں”۔ یہ کہہ کر جادوگرنی نے ایک خوفناک قہقہہ لگایا اور منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ کر مجھ پر پھونکا پھر مجھے کچھ پتہ نہیں کہ میرے ساتھ کیا ہوا”۔

لالہ رخ دلاور کی کہانی بہت دلچسپی سے سن رہی تھی۔ کہانی ختم ہوئی تو وہ بولی۔ “دلاور۔ تم فکر مت کرو۔ میں تمہیں اخروٹ کا حلوہ بنا کر کھلاؤں گی تاکہ تم پر سے جادو کا اثر ختم ہو جائے۔ ویسے تمہاری دکھ بھری کہانی سن کر میرا دل بھر آیا ہے۔ تم نے بہت دکھ اٹھائے ہیں۔ اب اطمینان رکھو، تم ہمارے گھر میں ہمارے ساتھ ہی رہنا۔ وہاں تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی”۔

اس کے بعد وہ اٹھی، پہاڑ کے دامن میں اخروٹ کے درخت تھے۔ اس نے درختوں سے اخروٹ توڑے اور دلاور کے ساتھ واپس گھر آگئی۔ اس کی ماں نے کھانا تیار کر رکھا تھا مگر لالہ رخ کو ذرا سی بھی بھوک نہیں تھی۔ وہ تو یہ چاہ رہی تھی کہ جلد سے جلد اخروٹ کا حلوہ بنائے اور دلاور کو کھلادے ۔ اس نے دلاور کو زمین پر چھوڑ دیا تھا اور وہ باورچی خانے میں بھاگا بھاگا پھر رہا تھا۔

لالہ رخ نے ایک چھوٹی سی ہنڈیا کو دھو دھا کر اس میں مکھن ڈال کر سوجی بھونی۔ پھر اس میں کشمش، پستے، کھوپرا اور پہاڑ پر سے لائے ہوۓ اخروٹ ڈالے۔ حلوے کی خوشبو پورے گھر میں پھیلی ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر میں حلوہ تیار ہوگیا۔ لالہ رخ نے امرود کا ایک پتہ لیا اور اسے گول گول کاٹ کر ایک چھوٹی سی پلیٹ بنائی اور اس میں حلوہ ڈال کر اس پر چاندی کے ورق لگائے اور پلیٹ دلاور کے سامنے رکھ دی۔ گھر میں اتنا چھوٹا کوئی چمچ تو تھا نہیں کہ وہ اس سے حلوہ کھا سکے، اس لیے ماہ رخ نے امرود کے پتے کے موٹے ڈنٹھل سے ایک چھوٹا سا چمچ بھی بنا دیا تھا۔ دلاور نے اس چمچ سے حلوہ کھانا شروع کردیا۔ حلوہ بہت مزے کا تھا – دلاور نے ڈنٹھل والے چمچ میں تھوڑا سا حلوہ لے کر لالہ رخ کو بھی کھلانا چاہا۔ اس کی اس حرکت پر لالہ رخ ہنس پڑی اور بولی۔ “یہ میں نے تمہارے لیے بنایا ہے۔ تم ہی کھاؤ”۔

لالہ رخ کی ماں بھی وہیں بیٹھی تھی۔ لالہ رخ نے مسکرا کر اس سے کہا۔ “ماں۔ اب دلاور ٹھیک ہوجائے گا”۔

“خدا کرے ایسا ہی ہو۔ میں تو حیران ہوں کہ دنیا میں اتنے چھوٹے چھوٹے سے لڑکے بھی ہوتے ہیں۔ میں تو ڈر رہی تھی کہ اسے مرغی ٹھونگ مار کر نہ کھا جائے یا بلی اسے اپنے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے نہ لے جائے”۔

لالہ رخ نے اپنی ماں کو دلاور کی پوری داستان شروع سے آخر تک سنا دی۔ اس کی ماں یہ تمام باتیں سن کر دنگ رہ گئی اور دلاور کی سوتیلی ماں، ظالم باپ اور جادوگرنی کو برا بھلا کہنے لگی۔ اچانک وہ دونوں چونک گئیں۔ کھلی کھڑکی سے دھنک کے سات رنگوں کی روشنی اندر آنے لگی اور دلاور کو اپنے حصار میں لے کر اس کے گرد چکر کاٹنے لگی۔ یہ روشنی اتنی تیز تھی کہ لالہ رخ اور اس کی ماں کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ جب روشنی کے تین چکر پورے ہوگئے تو اس روشنی میں سے سترہ اٹھارہ سال کا ایک نہایت حسین و جمیل لمبے قد کا نوجوان لڑکا برآمد ہوا اور اس کے ساتھ ہی رنگ برنگی روشنی غائب ہوگئی۔ لڑکے نے مسکراتے ہوۓ کہا۔ “لالہ رخ۔ میں دلاور ہوں۔ مجھ پر سے جادو کا اثر ختم ہوگیا ہے”۔

لالہ رخ یہ سن کر خوش ہوگئی۔ اس کی ماں بھی حیرت بھری نظروں سے دلاور کو دیکھے جا رہی تھی۔ وہ کسی شہزادے کی طرح خوبصورت تھا۔ اتنی دیر میں کسان بھی دوپہر کا کھانا کھانے گھر آگیا۔ اس نے دلاور کو دیکھا تو اپنی بیوی سے اس کے متعلق پوچھا۔ اس کی بیوی نے ساری کہانی اسے بھی سنا دی۔ کسان کو جب تمام باتیں پتہ چلیں تو وہ بہت حیران ہوا۔ سب نے مل کر کھانا کھایا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ اب دلاور ان کے ساتھ ہی رہے گا۔ وہ بھی بخوشی راضی ہوگیا۔

جب کسان دوبارہ کھیتوں پر چلا گیا تو دلاور، لالہ رخ اور اس کی ماں تینوں باتوں میں مصروف ہوگئے۔ دلاور نے لالہ رخ کی ماں سے کہا۔ “بس اب تو میرے دل میں ایک ہی خوف ہے”۔

لالہ رخ اور اس کی ماں اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگیں۔ جب اس نے مزید کچھ نہیں کہا تو لالہ رخ کی ماں نے پوچھا۔ “دلاور بیٹا۔ کیسا خوف؟”

“یہ ہی کہ آپ اپنی بات نہ بھول جائیں”۔ دلاور نے جھوٹ موٹ کی اداسی سے کہا۔

“کونسی بات؟” لالہ رخ کی ماں نے حیرت سے پوچھا۔

وہ ہی بات جو آپ نے آج صبح کی تھی کہ اگر یہ بڑا ہوتا تو میں اس کی شادی لالہ رخ سے کردیتی”۔

لالہ رخ تو یہ سن کر شرما گئی مگر اس کی ماں ہنس کر بولی۔ “جب میں نے ایک بات کہہ دی تو کہہ دی۔ میں اسے کیوں کر بھولوں گی”۔

تھوڑے دنوں بعد دلاور اور لالہ رخ کی شادی ہوگئی۔ دلاور اب گھر بار والا ہوگیا تھا۔ اس کو گھر چلانے کے لیے کوئی کام تو کرنا ہی تھا اس لیے وہ کسان کے ساتھ کھیتوں پر جانے لگا۔ وہ بہت محنتی اور جفاکش لڑکا تھا۔ وہ کھیتوں پر صبح سے شام تک کام کرتا۔ پہلے کسان اپنے کھیتوں میں سبزیاں وغیرہ ہی اگاتا تھا مگر دلاور نے گندم، گنّا، جو، باجرہ اور مختلف قسموں کی دوسری فصلیں بھی اگانا شروع کردی تھیں جن کو بیچ کر کسان کو بہت سارے پیسے ملنے لگے۔ اتنے پیسے تو اس نے زندگی بھر نہیں کمائے تھے۔ ان پیسوں کو جمع کر کر کے تھوڑے ہی دنوں میں انہوں نے ایک بڑا سا گھر بھی بنا لیا اور پھر سب ہنسی خوشی زندگی کے دن گزارنے لگے۔

ختم شد

وزیر شہزادہ

وزیر شہزادہ

ایک بادشاہ کے دو بیٹے تھے۔ بڑے بیٹے کا نام شعیب اور چھوٹے کانام زوہیب تھا۔ اگرچہ شعیب تھا تو بڑا مگر وہ بہت سیدھا سادہ تھا اور اس میں زیادہ عقل و شعور بھی نہ تھا۔ جب کہ چھوٹا بیٹا زوہیب اس سے زیادہ عقلمند اور سمجھدار تھا۔بادشاہ اس بات پر کڑھا کرتا تھا کہ اس کے بڑے بیٹے میں وہ صلاحیتیں نہیں ہیں جو کہ ایک ولی عہد میں ہونا چاہئیں۔

گرمیوں کی ایک دوپہر کا ذکر ہے۔ بادشاہ اپنی ملکہ کے ساتھ کمرے میں بیٹھا تھا۔ ملکہ نے محسوس کیا کہ بادشاہ کچھ فکرمند ہے۔ اس نے کہا۔ “ہم آپکے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھ رہے ہیں۔ نصیب دشمناں طبیعت تو ٹھیک ہے؟”بادشاہ نے کہا۔ “ملکہ ہماری طبیعت تو ٹھیک ہے مگر ہم ایک بات کی طرف سے بہت فکرمند ہیں اور ہماری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ہم کیا کریں”۔

ملکہ بولی۔ “مناسب سمجھیں تو ہمیں بتائیے کہ آپ کو کس بات کی فکر ہے۔ ہو سکتا ہے ہم ناچیز کوئی مشوره دے سکیں”۔

بادشاہ نے کہا۔ “ہم نے سوچا ہے کہ ہم تخت و تاج اپنے کسی بیٹے کو سونپ کر خود یاد الہیٰ میں مصروف ہوجائیں۔ شہزادہ شعیب اگرچہ ہمارا بڑا بیٹا ہے مگر ہمیں امید نہیں کہ وہ کاروبار مملکت کو ٹھیک طرح سے چلا پائے گا۔ ہم یہ تاج چھوٹے شہزادہ زوہیب کو دینا چاہتے ہیں۔ وہ نہایت سمجھدار اور عقلمند ہے۔ ہمیں امید ہے کہ وہ بادشاہ بن گیا تو ہمارے ملک کے لیے بہت اچھا ثابت ہوگا”۔

ملکہ نے کہا۔ “جہاں پناہ۔ شعیب اور زوہیب دونوں میرے بیٹے ہیں، مجھے ان دونوں میں کوئی خامی نظر نہیں آتی کیونکہ میں ان کو ایک ماں کی نظر سے دیکھتی ہوں، اس نظر سے نہیں دیکھتی جس سے آپ دیکھتے ہیں۔ پھر بھی مجھے امید ہے کہ آپ جو بھی فیصلہ کریں گے وہ اچھا ہوگا”۔

“تو پھر ٹھیک ہے۔ اس ملک کا اگلا بادشاہ ہمارا چھوٹا شہزادہ زوہیب ہی ہوگا”۔ بادشاہ نے کہا اور پھر خاموش ہو کر کچھ سوچنے لگا۔

بادشاہ کا ایک وزیر شہباز تھا۔ وہ نہایت خوشامدی، چاپلوس اور بادشاہ کی ہر بات میں ہاں میں ہاں ملانے والا شخص تھا۔ اس کی ان حرکتوں سے بادشا یہ سمجھتا تھا کہ وہ اس کا جان نثار اور وفادار ہے مگر وہ ایسا ہرگز نہیں تھا۔ خوشامدی اور چاپلوس لوگ لالچی بھی ہوتے ہیں، اور ایسے لوگوں سے بچ کر رہنے میں ہی عافیت ہے۔ مگر بادشاہ اپنے سیدھے پن کی وجہ سے اس کی چالاکیوں سے بے خبر تھا۔

وزیر شہباز کے دل میں لالچ اور ہوس اتنی بڑھ گئی تھی کہ وہ تخت پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھنے لگا۔ اپنے اس خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے وہ سائے کی طرح بادشاہ کے پیچھے لگا رہتا تھا۔ اس وقت بھی وہ بادشاہ کے کمرے کے باہر ایک کھڑکی کے قریب کھڑا بادشاہ اور ملکہ کی گفتگو سن رہا تھا۔ اسے جب بادشاہ کے فیصلے کا علم ہوا تو وہ خوش ہو گیا اور اسے ایسا لگا جیسے اس کی منزل قریب آگئی ہے۔ بادشاہ کے اس فیصلے سے دونوں بھائیوں میں چقپلش شروع ہوجاتی اور مکار وزیر ان دونوں کو آپس میں لڑوا کر اس کا فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔

وہ یہ تمام باتیں سن کر اسی وقت کوتوال کے پاس پہنچا۔ کوتوال اس کا دوست تھا اور وہ بھی اسی کی طرح ایک چالاک اور عیار شخص تھا۔

اس نے کوتوال سے کہا۔ “ہماری کامیابی قریب ہے۔ تم تیار رہنا۔ دونوں شہزادوں میں جھگڑا شروع ہونے والا ہے۔ بادشاہ چھوٹے شہزادے کو تخت و تاج دینا چاہتا ہے۔ ہم بڑے شہزادے کو اپنے ساتھ ملا لیں گے اور بغاوت کرکے اسے تخت پر بیٹھا دیں گے۔ اس کے بعد اس کو بھی راستے سے ہٹانا کوئی مشکل بات نہ ہوگی۔ اس کو راستے سے ہٹا کر میں تخت پر قبضہ کر کے بادشاہ بن جاؤں گا اور پھر تمہیں اپنا وزیر بنا لوں گا۔ تمہیں اس معاملے میں میرا ساتھ دینا ہوگا”۔

اس کی باتیں سن کر کوتوال مسکرانے لگا اور بولا۔ “حضور۔ جو آپ کا حکم۔ میں تیار ہوں”۔

رات کو بادشاہ نے دونوں شہزادوں کو اپنے کمرے میں طلب کیا۔ وہاں ملکہ بھی موجود تھی۔

بادشاہ نے ملکہ کو مخاطب کر کے کہا۔ “ملکہ۔ عقلمندی اور سمجھداری بہت بڑی نعمت ہیں۔ الله نے ہمیں دو بیٹے دئیے ہیں۔ ان بیٹوں میں شہزادہ شعیب نہایت نیک، شریف، سعادتمند اور سیدھا سادہ ہے۔ شہزادہ زوہیب میں بھی یہ تمام خوبیاں موجود ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ اسے دنیا داری اور دنیا کے لوگوں کو چلانا بھی آتا ہے۔ بادشاہ کی بہت ذمہ داریاں ہوتی ہیں اگر وہ ان کو درست طریقے سے انجام نہیں دے گا تو آخرت میں پکڑ ہوگی۔ ہم اب بوڑھے ہو چلے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تخت و تاج سے دستبردار ہوجائیں۔ ہماری خواہش ہے کہ ہمارے بعد شہزادہ زوہیب اس تخت پر بیٹھے”۔

بڑا بھائی شہزادہ شعیب یہ سن کر بہت خوش ہوا اور چھوٹے بھائی شہزادہ زوہیب سے بولا۔ “میں بہت خوش ہوں کہ ابّا حضور کی جگہ تم بادشاہ بن جاؤ گے۔ ایک وعدہ کرو کہ اپنے بادشاہ والے تخت پر تم مجھے بھی بیٹھنے دیا کرو گے”۔

شہزادہ زوہیب نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور خاموشی سے اٹھ کر باہر چلا گیا۔ بادشاہ کو اس کے روئیے پر بڑی حیرت ہوئی۔ اسے تو یہ توقع تھی کہ وہ اپنے بادشاہ بنائے جانے کا سن کر خوشی سے اچھل پڑے گا مگر وہ تو خاموشی سے اٹھ کر چلا گیا۔ بادشاہ نے بڑے شہزادے شعیب کو بھی جانے کی اجازت دے دی۔

شہزادہ شعیب باہر نکلا تو وزیر پہلے کی طرح چھپ کر ان کی باتیں سن رہا تھا۔ وہ جلدی سے اس کے قریب آیا اور بولا۔ “شہزادے میرے ساتھ آؤ۔ میں نے چھپ کر بادشاہ سلامت کی ساری باتیں سن لی ہیں”۔

“چھپ کر سننے کی کیا ضرورت تھی۔ آپ اندر چلے آتے”۔ شہزادے شعیب نے بڑے بھولپن سے کہا۔

اس کی بات سن کر وزیر کو سخت غصہ آیا مگر وہ ضبط کر کے بولا۔ “شہزادے صاحب میرے ساتھ آئیے، میں آپ کو بتاؤں گا کہ آپ کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے”۔

وزیر کی باتیں شہزادے کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھیں مگر اس کے کہنے پر وہ اس کے ساتھ چل پڑا۔ وزیر شہزادے کو لے کر پائیں باغ میں آیا اور دونوں ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔

“آپ کو پتہ ہے، بادشاہ سلامت اپنا تاج شہزادہ زوہیب کے سر پر رکھنا چاہتے ہیں”۔ وزیر نے بڑے پراسرار لہجے میں کہا۔

“تو اس سے ہمیں کیا۔ ہمارے پاس اتنی رقم موجود ہے کہ ہم جب چاہئیں ایک تاج بنوا کر اپنے سر پر رکھ لیں۔ ہمیں جو جیب خرچ ملتا ہے ہم اسے ایک جگہ جمع کرتے جا رہے ہیں۔ ہمارے پاس بہت ساری اشرفیاں جمع ہوگئی ہیں”۔ شہزادے شعیب نے لاپرواہی سے کہا۔

اس کی بات سن کر وزیر جھنجلا گیا اور تیز آواز میں بولا۔ “شہزادے صاحب آپ سمجھ کیوں نہیں رہے۔ بادشاہ سلامت آپ کو نظر انداز کر کے آپ کے چھوٹے بھائی کو بادشاہ بنانا چاہتے ہیں جبکہ یہ حق آپ کا ہے”۔

“یہ تو ہمیں پہلے ہی سے پتہ ہے کہ اگلا بادشاہ زوہیب ہوگا۔ ابّا حضور نے خود بتایا تھا۔ بس ہمیں یہ سوچ سوچ کر ہنسی آرہی ہے کہ اسے بادشاہ بنا کر وہ خود کیا کریں گے؟” ۔ شہزادہ شعیب نے مسکراتے ہوئے کہا۔

وزیر کو غصہ تو بہت آرہا تھا مگر اس نے نرمی سے کہا ۔ “مجھے تو نہیں پتہ کہ وہ کیا کریں گے، مگر میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ بادشاہت کا حق بڑے بھائی کا ہوتا ہے۔ میرا مشوره ہے کہ جب بادشاہ سلامت یہ بات کریں تو تم ان سے یہ ہی کہنا کہ وہ بادشاہ تمہیں ہی بنائیں ورنہ بہت برا ہوگا”۔

شہزادہ شعیب سوچ میں پڑ گیا اور تھوڑی دیر بعد بولا۔ “اب ہماری سمجھ میں بھی ساری باتیں آنے لگی ہیں۔ بادشاہ بننا ہمارا حق ہے کیونکہ ہم بڑے ہیں، ہم اس حق کے لیے ضرور آواز بلند کریں گے”۔

وزیر اس کی بات سن کر خوش ہو گیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ تیر نشانے پر لگا ہے۔ اس نے شہزادے کو شاباش دی اور خود رخصت ہوگیا۔🌹

وزیر کے جانے کے بعد شہزادہ شعیب اس انتظار میں تھا کہ اسے موقع ملے تو وہ بادشاہ سے کہے کہ وہ چونکہ اس کا بڑا بیٹا ہے اس لیے تخت و تاج اس کے سپرد کیا جائے۔ شام کو وہ بادشاہ سے ملنے کے لیے اس کے کمرے میں گیا مگر وہ وہاں نہیں تھا۔ اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ باغ کی طرف نکل گیا۔ اس نے دیکھا کہ بادشاہ، ملکہ اور شہزادہ زوہیب ایک درخت کے نیچے کھڑے باتوں میں مصروف ہیں۔ اس کے دل میں تجسّس پیدا ہوا اور وہ ایک درخت کی اوٹ میں ہو کر ان لوگوں کی باتیں سننے لگا۔

شہزادہ زوہیب بادشاہ سے کہہ رہا تھا۔ “ابّا حضور یہ ایک اصول ہے کہ ہر بادشاہ کا بڑا بیٹا تخت کا وارث ہوتا ہے۔ بادشاہ بننے کا حق شعیب بھائی کا ہے۔ میں ان کی حق تلفی نہیں کروں گا۔ میں نہایت ادب سے عرض کر رہا ہوں کے مجھے آپ کے فیصلے سے اختلاف ہے”۔

شہزادہ زوہیب کی بات سن کر بادشاہ نے آگے بڑھ کراسے گلے سے لگا لیا اور بولا۔ “بیٹا۔ اس تخت و تاج کے لیے تو اپنے اپنوں کا گلا کاٹ دیتے ہیں۔ ہماری تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ تم اس کو ٹھکرا رہے ہو”۔

“ابّا حضور یہ ہی تو میں چاہتا ہوں کہ میری یہ بات بھی تاریخ میں آجائے اور پڑھنے والوں کو پتہ چلے کہ کسی زمانے میں ایک شہزادہ ایسا بھی تھا جس نے تخت و تاج کو ٹھوکر مار دی تھی”۔ شہزادہ زوہیب نے مسکرا کر کہا۔

بادشاہ ابھی بھی کچھ الجھا ہوا تھا۔ وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا۔ “لیکن ہمارا شعیب ایک سیدھا سادہ نوجوان ہے۔ اسے مملکت کے امور چلاتے ہوئے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا”۔

“پہلی اولاد ہونے کی وجہ سے ان کی پرورش بہت لاڈ پیار سے ہوئی تھی۔ لاڈ پیار سے پرورش پانے والے بچوں میں خود اعتمادی کی بہت کمی ہوتی ہے مگر آپ فکر نہ کریں میں سب ٹھیک کرلوں گا۔ ان کو بادشاہ بن جانے دیجیے پھر میں ان کو ایسے ایسے مشورے دوں گا کہ ان پر عمل کرکے ہمارا ملک دن رات ترقی کرے گا”۔ شہزادہ زوہیب نے کہا۔

ملکہ بڑے غور سے اس کی باتیں سن رہی تھی۔ شہزادہ خاموش ہوا تو وہ بادشاہ سے بولی۔ “میں نے دیکھا ہے ہمارے زوہیب میں بس دو چیزیں نہیں ہیں”۔

بادشاہ نے حیرت سے پوچھا۔ “ملکہ وہ کونسی دو چیزیں ہیں جو ہمارے شہزادے میں نہیں ہیں”۔

اپنی ماں کی اس بات پر شہزادہ بھی حیرانی سے اس کا منہ تکنے لگا تھا۔ ملکہ پیار سے بولی۔ “ہمارے شہزادے میں لالچ اور حرص نہیں ہے”۔ اس کی بات سن کر بادشاہ اور شہزادہ زوہیب مسکرانے لگے۔

جب بادشاہ اور ملکہ وہاں سے چلے گئے تو شہزادہ شعیب درخت کے پیچھے سے نکل کر اس کے سامنے آگیا۔

“بھائی جان آپ یہاں کہاں؟” شہزادہ زوہیب نے پوچھا۔

“ہم درختوں کے پیچھے کھڑے تم لوگوں کی ساری باتیں سن رہے تھے۔ تم نے بہت اچھا کیا کہ ابّا حضور کی بات ماننے سے انکار کردیا ورنہ ہم تو اس نا انصافی پر ان سے لڑپڑتے۔ یہ آج ہم نے سوچ لیا تھا”۔

“لیکن یوں چھپ چھپ کر کسی کی باتیں سننا تو بہت بری بات ہے۔ اخلاق بھی اس کی اجازت نہیں دیتا”۔ شہزادہ زوہیب نے کہا۔

“کوئی بری بات نہیں ہے”۔ شہزادہ شعیب نے نفی میں سر ہلا کر کہا۔ “ہمارے وزیر محترم بھی چھپ کر ابّا حضور کی باتیں سنتے ہیں۔ انہوں نے ہی تو ہمیں یہ بتایا تھا کہ چونکہ ہم بڑے بیٹے ہیں لہٰذا بادشاہ بننے کا حق ہمارا ہے۔ اسی لیے تو ہم ابّا حضور سے بات کرنا چاہ رہے تھے”۔

شہزادہ زوہیب کی سمجھ میں چالاک وزیر کی تمام عیاریاں آ گئی تھیں۔ وہ اپنے گھناونے عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بھائیوں میں دشمنی پیدا کرنا چاہتا تھا۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ اس عیار وزیر کا بھی بندوبست کرے گا۔ اس کے بعد دونوں بھائی محل میں آگئے۔

اگلے روز شہزادہ زوہیب نے جب وزیر کے بارے میں چھان بین کی تو دوسری باتوں کے علاوہ اس کے علم میں یہ بات بھی آئی کہ اس کے ساتھ شہر کا کوتوال بھی ملا ہوا ہے اور دونوں تخت پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تمام معلومات حاصل کر کے شہزادہ زوہیب نے سوچ لیا تھا کہ اس کو کیا کرنا ہے۔🌹

کچھ دنوں بعد بادشاہ نے اپنا تخت و تاج شہزادہ شعیب کے سپرد کردیا۔

اسی شام شہزادہ زوہیب نے اس سے کہا۔ “بھائی جان اب تو آپ بادشاہ بن گئے ہیں۔ میری آپ سے ایک درخواست ہے کہ مجھے اپنا وزیر مقرر کر لیجئے۔ اگر میں وزیر بن گیا تو یہ دنیا کی پہلی مثال ہوگی کہ ایک شہزادہ وزیر بنا ہے۔ یہ درخواست میں اس لیے بھی کر رہا ہوں کہ آخر کبھی میری بھی تو شادی ہوگی، اپنا گھر بار چلانے کے لیے میری بھی تو کوئی نوکری ہو۔ نوکری نہ ہوئی تو میں اپنے بیوی بچوں کو کیا کھلاؤں گا”۔

“تم اس کی فکر مت کرو۔ ہمارے سات خزانے ہیں۔ ایک خزانہ ہم تمہیں بخش دیں گے”۔ شعیب جو اب بادشاہ بن گیا تھا شاہانہ انداز سے بولا۔

شہزادہ زوہیب نے کہا۔ “اس خیال کو دل سے نکال دیجیے کہ وہ خزانے آپ کے ہیں۔ وہ رعایا کی امانت ہیں۔ ویسے بھی میں اپنی محنت کی کمائی پر یقین رکھتا ہوں۔ اگر وزیر بن گیا تو آپ کو بھی یہ ہی مشوره دوں گا کہ انعامات بانٹنے کا سلسلہ ختم کردیں۔ اور بھائی جان ایک بات اور بھی یاد رکھیے گا کہ اگر میرے وزیر بن جانے کا بعد آپ نے میری کوئی بات یا مشوره نہیں مانا تو میں اسی وقت وزارت پر لات مار دوں گا”۔

شہزادہ شعیب کی سمجھ میں شائد اس کی بات نہیں آئی تھی، اس نے حیرت سے پوچھا۔ “وزارت پر کیا مار دو گے؟” شہزادہ زوہیب نے ایک پاؤں آگے کر کے کہا۔ “یہ”۔

شہزادہ زوہیب وزیر بن گیا۔ وزیر اور کوتوال یہ صورت حال دیکھ کر جل بھن کر رہ گئے تھے۔ ان کا تو منصوبہ یہ تھا کہ شاہی خاندان میں بھائی بھائی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں، کشت و خون ہو اور وہ ان کی اس دشمنی کا فائدہ اٹھا کر تخت پر قبضہ کر کے مزے کریں۔

اگلے روز بادشاہ بن جانے کے بعد شعیب نے پہلی دفعہ دربار لگایا۔ رات شہزادہ زوہیب نے اسے خوب سمجھا دیا تھا کہ دربار میں کیا کرنا ہے۔ اس نے دربار شروع ہوتے ہی اشارے سے ایک لمبے تڑنگے اور خوبصورت نوجوان کو اپنی طرف بلایا۔ اس کا نام بہرام تھا اور وہ شہزادہ زوہیب کا بچپن کا دوست تھا۔ وہ بہت بہادر اور نڈر تھا۔ وہ درباریوں کی نشست سے اٹھا اور قریب آ کر بادشاہ کو جھک کر سلام کیا اور پھر ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا۔

بادشاہ نے کہا۔ “آج سے ہم اس نوجوان بہرام کو شہر کا کوتوال مقرر کرتے ہیں اور پرانے کوتوال کو نوکری سے برخواست کرتے ہیں”۔

بادشاہ کا حکم سن کر وزیر کا مکار اور سازشی دوست کوتوال گھبرا کر کھڑا ہو گیا اور چلا کر بولا۔ “بادشاہ سلامت۔ رحم کیجیے۔ میرا قصور کیا ہے جو مجھے اتنی بڑی سزا مل رہی ہے؟”

بادشاہ نے کہا۔ “قصور بھی بتا دیں گے مگر اس سے پہلے تمہاری گرفتاری ہوگی پھر تمہارے جرائم کا پردہ چاک کیا جائے گا”۔

کوتوال سمجھ گیا تھا کہ اس کی اور وزیر کی سازش پکڑی گئی ہے۔ وہ ہاتھ جوڑ کر بولا۔ “حضور میں بے قصور ہوں۔ یہ وزیر ہی تھا جو مجھے بہکاتا تھا”۔

وزیر نے جو یہ سنا تو وہ طیش میں آ کر کھڑا ہوگیا۔ “کیا بہکایا تھا میں نے تمہیں۔ جھوٹ بولتے ہو؟”

کوتوال نے بھی تڑخ کر جواب دیا۔ “تم ہی نے تو کہا تھا کہ بادشاہ سلامت چھوٹے شہزادے کو تخت و تاج سونپ رہے ہیں، ہم بڑے شہزادے کو اپنے ساتھ ملالیں گے اور اسے بہکائیں گے کہ تخت پر بیٹھنے کا حق اس کا ہے۔ اس طرح دونوں بھائیوں میں دشمنی ہوجائے گی اور دونوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجائیں گے۔ اس دشمنی سے فائدہ اٹھا کر ہم تخت پر قبضہ کرلیں گے۔ میں بادشاہ بن جاؤں گا اور تم وزیر”۔

بہرام جو ابھی کچھ دیر پہلے ہی کوتوال بنا تھا اس نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وزیر اور معزول کوتوال کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا جائے، ان پر بغاوت کا مقدمہ چلے گا۔ حکم کی تعمیل اسی وقت ہوگئی۔ سپاہی انھیں زنجیروں میں جکڑ کر اپنے ساتھ لے گئے۔

اس کے بعد بادشاہ شعیب نے دربار میں آئے ہوئے لوگوں کی فریادیں سنیں، اور انھیں شہزادہ زوہیب کے مشوروں سے نمٹا دیا۔ تھوڑی دیر بعد دربار کا وقت ختم ہوگیا اور سب اٹھ کر چلے گئے۔

شہزادہ زوہیب وزیر بن جانے کے بعد اپنے بھائی کو اچھے اچھے مشورے دینے لگا تھا جس کی وجہ سے چند روز بعد ہی ملک میں ایک خوشگوار تبدیلی نظر آنے لگی تھی۔ بادشاہ اور ملکہ یہ دیکھ دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے اور خدا کا شکر ادا کرتے تھے کہ شہزادہ زوہیب کی عقلمندی کی وجہ سے سارے معاملات ٹھیک ٹھیک چلنے لگے ہیں۔

بچو اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر کوئی بھائیوں میں نفاق ڈالنے اور ان میں جھگڑا کروانے کی کوشش کرے تو اس کی ان کوششوں کو اپنی حکمت عملی اور عقلمندی سے ناکام بنادینا چاہئے جیسا کہ شہزادہ زوہیب نے بنا یا تھا۔ دنیا کی ساری دولت بھی مل جائے تو وہ بھائی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔

ختم شد

شہزادے کا اغوا

شہزادے کا اغوا

بہت پرانے زمانے کی بات ہے کہ کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس بادشاہ کے نظم و نسق اور نیک دلی کی وجہ سے اس کی رعایا بہت چین اور سکون سے اپنی زندگی بسر کر رہی تھی۔ اس ملک کے لوگوں کی خاص بات یہ تھی کہ وہ ہر وقت اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہتے تھے جس سے ملک بھی خوب ترقی کر رہا تھا اور لوگ بھی آسودہ حال تھے۔ ان کا بادشاہ نہ صرف یہ کہ بہت سمجھدار اور بہادر تھا بلکہ وہ ایک امن پسند حکمران بھی تھا اور اپنے پڑوسی ملکوں کے ساتھ مل جل کر رہتا تھا۔

بادشاہ کا ایک ایک چھوٹا سا شہزادہ بھی تھا جس کی عمر یہ ہی کوئی دو ڈھائی سال کی تھی۔ شہزادہ بہت ہنس مکھ اور کھلنڈرا تھا اور دن بھر محل میں گھٹنوں گھٹنوں چل کر خوش ہوتا تھا۔ بادشاہ نے اس کے لیے پورے محل میں دبیز اور قیمتی قالین بچھوا دئیے تھے تاکہ وہ آرام سے ان پر چلے پھرے اور مٹی وغیرہ سے محفوظ رہ سکے۔

بادشاہ کے پڑوس میں ایک اور ملک بھی تھا۔ اس کا موجودہ بادشاہ کسی زمانے میں اسی ملک کا وزیر تھا، مگر پھر اس نے سازش کرکے اس ملک کے بادشاہ کو قید کر دیا اور خود تخت پر قبضہ کر کے بادشاہ بن گیا۔ وہ تو اس کو قتل کردینا چاہتا تھا مگر ایک بات کی وجہ سے مجبور ہوگیا تھا۔ اس بادشاہ کے پاس ملک کے خزانوں کی چابیاں تھیں۔ ان چابیوں کو وہ ایک خفیہ جگہ چھپا کر رکھتا۔ وزیر نے بادشاہ پر بہت سختیاں کیں تاکہ وہ خزانوں کی چابیاں اس کے حوالے کردے مگر بادشاہ سمجھ گیا تھا کہ اگر اس نے چابیاں اس نمک حرام وزیر کے حوالے کردیں تو وہ اسے مروا دے گا اس لیے وہ چپ چاپ ہر اذیت سہہ لیتا تھا۔

وزیر ایک لالچی آدمی تھا اور اسے دولت جمع کرنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ اسی لالچ کی وجہ سے اس نے اپنی آس پاس کی تمام چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر فوج کی مدد سے چڑھائی کردی اور ان پر قبضہ کر کے ان کی ساری دولت ہتھیالی۔

ان کامیابیوں کی وجہ سے اسے یہ غرور ہوگیا تھا کہ وہ جس ملک پر بھی چاہے حملہ کر کے اس پر قبضہ کرسکتا ہے۔ ایک دن اس کے ذہن میں خیال آیا کہ اس کا پڑوسی ملک بہت خوشحال ہے، نہ صرف اس کے خزانوں میں بہت مال و دولت ہے، بلکہ رعایا بھی بہت امیر ہے۔ یہ سوچ کر اس کے منہ میں پانی بھر آیا اور ایک روز اس نے اچانک رات کی تاریکی میں اپنے پڑوسی ملک پر حملہ کردیا۔

یہ اس کی غلط فہمی ہی تھی کہ وہ آسانی سے پڑوسی ملک پر قبضہ کرلے گا۔ اس کا بادشاہ نہایت زیرک اور سمجھدار تھا۔ اس کی نظر حکومت کے ہر شعبے پر ہوتی تھی۔ اس نے فوج کو بھی پوری طرح تیار کر کے رکھا ہوا تھا۔ اس حملے کے جواب میں اس کی فوج نے بڑی جوانمردی سے اس مکار بادشاہ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور نہ صرف اسے شکست دی بلکہ اس کے ملک کے ایک بہت بڑے حصے پر قبضہ بھی کرلیا۔

اس جیت کی خوشی میں ہر طرف جشن کا سا ایک سماں تھا۔ بادشاہ نے جنگ کے نتیجے میں جیتے ہوۓ علاقوں میں اپنے گورنر مقرر کیے اور محل واپسی کی تیاریاں شروع کردیں۔ اسے اپنے ننھا شہزادہ بہت یاد آ رہا تھا جس کو دیکھے ہوئے بہت دن ہو گئے تھے۔

اس شکست نے اس مکار بادشاہ کو بوکھلا کر رکھ دیا تھا۔ بجائے اس کے کہ وہ پڑوسی ملک پر قبضہ کرتا، اس نے اپنے ملک کا بھی ایک بڑا حصہ گنوا دیا تھا۔ وہ اپنی اس عبرتناک شکست کا بدلہ لینے کے لیے بے تاب تھا اور پھر اس کے ذہن میں ایک شیطانی منصوبہ آگیا۔

اس نے دیکھا کہ پڑوسی ملک کے لوگ فتح کا جشن منانے میں مصروف ہیں۔ اس نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور اپنے چند خاص آدمی بھیج کر بادشاہ کے ننھے شہزادے کو محل سے اغوا کروا لیا۔ اس کا ارادہ تھا کہ شہزادے کے بدلے وہ اس بادشاہ سے اپنا علاقہ بھی واپس لے لے گا اور اس کے ساتھ بے شمار دولت بھی۔

ادھر جب بادشاہ میدان جنگ سے واپس اپنے محل میں آیا تو وہاں پر ایک کہرام بپا تھا۔ شہزادے کی گمشدگی نے سب کو پریشان کردیا تھا۔ شہزادے کی کنیزیں چیخ و پکار کررہی تھیں۔ ملکہ نے رو رو کر برا حال کرلیا تھا۔ محل کے محافظ الگ پریشان تھے۔ ان کے ہوتے ہوۓ کسی نے شہزادے کو اغوا کرلیا تھا اور اب انھیں بادشاہ کے عتاب کا ڈر تھا۔

بادشاہ کو جب شہزادے کی گمشدگی کے متعلق پتہ چلا تو خود اس کا غم سے برا حال ہوگیا۔ فتح کی ساری خوشی ہوا ہوگئی اور وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد جب اس کے کچھ ہوش ٹھکانے آئے تو اس نے اپنے وزیروں اور شہر کوتوال کو طلب کیا اور انھیں اپنے محل کے پائیں باغ میں لا کر ان سے واقعہ کی تفصیل پوچھی۔

سب نے ہی یہ کہا کہ فتح کا جشن مناتے ہوئے ان کی توجہ کچھ دیر کے لیے شہزادے کی جانب سے ہٹی تھی کہ وہ غائب ہوگیا۔ سب کا ہی یہ خیال تھا کہ اس کی گمشدگی میں محل کے کسی ملازم کا ہاتھ ہے۔

بادشاہ نے کہا۔ “اس نمک حرام کا تو ہم پتہ چلا ہی لیں گے لیکن اس سے پہلے شہزادے کے بارے میں معلوم کرنا زیادہ ضروری ہے”۔

ابھی بادشاہ کی بات ختم ہوئی ہی تھی کہ ایک سنسناتا

ہوا تیر سامنے کے درخت میں آ کر گڑ گیا۔

کوتوال نے جلدی سے آگے بڑھ کر تیر کو درخت سے نکالا۔ تیر میں ایک ریشمی تھیلی بندھی تھی اور اس میں ایک خط رکھا ہوا تھا۔ بادشاہ نے کوتوال کے ہاتھ سے خط لے کر اسے اونچی آواز میں پڑھا۔

“تمہارا شہزادہ ہمارے قبضے میں ہے۔ اس کی زندگی عزیز ہے تو فوراً جنگ کے دوران ہمارے جتنے علاقے پر بھی قبضہ کیا ہے اسے واپس کر دو۔ اس کے ساتھ پانچ لاکھ خالص سونے کی اشرفیاں بھی تاوان کے طور پر دو۔ ان دونوں شرائط کو پورا کرنے کی صورت میں شہزادے کی واپسی ممکن ہو سکتی ہے۔ اگر ہماری یہ شرائط منظور ہیں تو اپنے کسی آدمی کے ذریعے خط بھیج کر ہمیں فوراً مطلع کرو”۔ اس خط پر اسی مکار بادشاہ کی مہر لگی ہوئی تھی۔

خط پڑھ کر بادشاہ کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ “ہم اس مکار بادشاہ کو ضرور مزہ چکھائیں گے۔ فوج کو تیاری کا حکم دیا جائے”۔

اس کا وزیر خاص اس کی یہ بات سن کر آگے بڑھا اور بولا۔ “حضور بادشاہ سلامت! یہ وقت جوش کا نہیں ہوش کا ہے۔ ہمیں عقلمندی سے کام لینے کی ضرورت ہے تاکہ شہزادے کو گزند پہنچنے کا کوئی خدشہ باقی نہ رہے”۔

بادشاہ نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔ “تم ٹھیک کہتے ہو۔ اب مشوره دو کہ ہم کیا کریں”۔

وزیر نے دھیرے سے کہا۔ “ہمیں بہت محتاط رہ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس مکار بادشاہ نے اس محل کے کسی ملازم کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ ہمیں پہلے تو اس کا پتہ لگانا چاہیے۔ اس سے جو معلومات ہمیں ملیں گی، ان کی روشنی میں ہم اپنا اگلا قدم اٹھائیں گے”۔

بادشاہ کو وزیر کی یہ تدبیر پسند آگئی۔ وہ واپس محل آیا۔ ملکہ کو تسلی دی اور سوچنے لگا کہ اب کیا کرے۔ محل کے اس بد طینت ملازم کا پتہ لگانے کے لیے اس نے کوتوال کو ہدایات دے دی تھیں اور اس نے محل میں اپنے جاسوس پھیلا دئیے تھے۔

کوتوال کا ایک اٹھارہ سال کا بیٹا بھی تھا۔ اس کا نام دلاور تھا۔ اسے بھی اس واقعہ کی سن گن مل گئی تھی۔ اس کو احساس تھا کہ شہزادے کی گمشدگی سے بادشاہ اور ملکہ سخت پریشان ہیں۔ اس نے دل میں ٹھانی کہ وہ ان کی مدد کرے گا۔ اس سلسلے میں اس نے اپنے باپ کوتوال سے بات کی اور اس سے اجازت طلب کی کہ وہ محل کی ان کنیزوں اور غلاموں سے ملنا چاہتا ہے جو شہزادے کی نگہداشت پر مقرر تھے۔

کوتوال کو اپنے بیٹے سے بہت سی امیدیں تھیں کیوں کہ وہ پہلے بھی اس طرح کے کاموں میں اس کی مدد کر چکا تھا۔ اس نے اس کو بخوشی اجازت دے دی۔

دلاور محل آیا اور کنیزوں اور غلاموں کے نگران سے کہا کہ وہ ان تمام لوگوں کو پیش کرے جن کے ذمے شہزادے کی دیکھ بھال کرنا تھی۔ یہ کل چھ لوگ تھے۔ چار کنیزیں اور دو غلام۔ پانچ تو ان میں سے دلاور کے سامنے پیش کردئیے گئے مگر ایک کنیز جس کا نام دل آرا تھا وہ غائب تھی۔

ایک کنیز نے دلاور کو بتایا کہ شہزادہ دل آرا ہی سے سب سے زیادہ مانوس تھا۔ وہ ہی اس کا خیال رکھتی تھی اور شہزادہ کھانا بھی اسی کے ہاتھوں سے کھاتا تھا۔

کنیزوں اور غلاموں کے نگران نے دلاور سے کہا۔ “میں ابھی اپنے آدمی دل آرا کے گھر بھیجتا ہوں۔ وہ اسے ساتھ لے کر آجائیں گے”۔

مگر دل آرا گھر پر نہیں ملی۔ اس کے شوہر نے بتایا کہ وہ صبح گھر سے محل جانے کے لیے نکلی تھی اور اب تک واپس گھر نہیں آئی ہے۔

اس کی گمشدگی نے سب کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ شہزادے کی گمشدگی میں اسی کا ہاتھ ہے۔ دلاور سوچ میں گم تھا۔ اب اسے اس بات کا پتہ چلانا تھا کہ دل آرا کہاں چلی گئی ہے۔ اس نے شام تک اس سلسلے میں بہت بھاگ دوڑ کی مگر کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ وہ سخت مایوس ہوگیا تھا۔ کچھ دیر بعد شاہی محل سے ایک ہرکارہ آیا اور کوتوال سے کہا کہ اسے بادشاہ سلامت نے طلب فرمایا ہے۔

کوتوال نے دلاور کو بھی ساتھ لیا اور بادشاہ سلامت کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ دلاور نے سب سے پہلے آج پورے دن کو روداد بادشاہ کے گوش گزار کی۔

بادشاہ نے کہا۔ “ملکہ کی حالت ہم سے دیکھی نہیں جاتی۔ ننھے شہزادے کی جدائی میں انہوں نے رو رو کر برا حال کرلیا ہے۔ ہمارا فیصلہ ہے کہ ہم تمام علاقہ واپس کرکے اور پانچ لاکھ اشرفیاں ادا کر کے اپنے شہزادے کو اس مکار بادشاہ سے آزاد کروا لیں۔ اس سلسلے میں ہم نے ایک خط بھی لکھ کر اس پر اپنی شاہی مہر ثبت کردی ہے۔ اب تم کسی ایسے با اعتماد آدمی کا بندوبست کرو جو اسے وہاں تک پہنچا کر ہمارا شہزادہ ہمیں واپس لادے”۔

کوتوال نے کہا۔ “بادشاہ سلامت۔ یہ کام بہت اہم ہے۔ اجازت ہو تو میں دلاور کو یہ کام سونپ دوں۔ مجھے امید ہے کہ وہ اس کو بہتر طریقے سے سر انجام دے گا”۔

“ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ اگر اس کام کے پیچھے دل آرا کا ہاتھ ہوا تو ہم اسے سخت سزا دیں گے۔ غداروں کے لیے ہمارے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیں ہے”۔ بادشاہ نے غصے سے کہا اور اٹھ گیا۔

رات ہونے والی تھی۔ مگر چونکہ معاملہ بہت اہم تھا اس لیے دلاور بادشاہ کا خط لے کر سفر پر نکل کھڑا ہوا۔ وہ اپنے گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتا ہوا تیزی سے فاصلہ طے کر رہا تھا۔ ندی نالے اور پہاڑوں کو عبور کرتا ہوا وہ آدھی رات کے وقت پڑوسی ملک کی حدود میں داخل ہوگیا۔

مسلسل سفر کی وجہ سے اس کا گھوڑا تھکا تھکا سا نظر آنے لگا تھا۔ ایک جگہ اسے جنگل نظر آیا، وہاں پر ایک ندی بھی تھی۔ اس نے مناسب سمجھا کہ یہاں بیٹھ کر کچھ دیر خود بھی سستا لے اور گھوڑے کو بھی آرام کرنے دے۔

یہ سوچ کر وہ گھوڑا روک کر اس پر سے اتر گیا اور اسے پانی پینے اور گھاس چرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا۔ دلاور کو بھوک بھی لگ رہی تھی۔ اس نے تھیلے میں سے کچھ پھل نکالے اور انھیں کھاتے ہوئے جنگل میں آگے کی طرف نکل گیا۔

ابھی وہ کچھ دور ہی چلا تھا کہ اسے آگے روشنی سی نظر آئی۔ اس کے ذہن میں فوراً خیال آیا کہ ہو نہ ہو یہ لوگ ڈاکو ہیں۔ وہ جھاڑیوں کی اوٹ لے کر کچھ اور آگے بڑھا۔ اس نے دیکھا وہاں آگ کے الاؤ روشن ہیں اور اس ملک کے مکار بادشاہ کے کچھ سپاہی آپس میں باتوں میں مصروف ہیں۔

ایک سپاہی کہہ رہا تھا۔ “جلدی کرو۔ ہمارے پہرے دینے کا وقت شروع ہو گیا ہے۔ ہم نے اگر مزید دیر کی تو وہاں پر پہرا دینے والے ساتھی ناراض ہونگے”۔

اس کی بات سن کر سب جلدی جلدی اٹھنے کی تیاری کرنے لگے اور تھوڑی دیر بعد وہ سب وہاں سے روانہ ہوگئے۔ دلاور حیران تھا کہ وہ شاہی سپاہی کس جگہ پہرے دینے کی بات کر رہے تھے۔ اسے معاملہ کچھ پراسرار سا لگا۔ وہ جلدی سے اپنے گھوڑے کے پاس آیا اور پھر ایک مناسب فاصلہ دے کر خود بھی ان کے پیچھے چل پڑا۔

قریب ہی ایک دیہات تھا۔ آبادی سے ذرا ہٹ کر وہاں ایک بڑی سی حویلی تھی۔ اس حویلی کے چاروں طرف تلواروں سے لیس شاہی سپاہی پہرا دے رہے تھے۔ دلاور نے خود کو اور گھوڑے کو قد آدم جھاڑیوں کے درمیان چھپا لیا تھا اور کان لگا کر ان کی گفتگو سننے لگا۔

“تم لوگوں نے آنے میں بہت دیر کردی ہے”۔ پہرہ دینے والے ایک سپاہی نے منہ بگاڑ کر کہا۔

“ہم لوگ کھانا کھانے لگے تھے۔ اس لیے دیر ہوگئی۔ جانے ہماری یہاں سے کب جان چھوٹے گی”۔ نئے آنے والے سپاہیوں میں سے ایک نے کہا۔

“ہمارے جاسوس نے بتایا ہے کہ پڑوسی ملک کا بادشاہ ہمارے بادشاہ کی شرائط ماننے پر راضی ہوگیا ہے۔ شہزادے کو جلد ہی واپس کردیا جائے گا۔ شہزادہ روتا بہت ہے۔ اگر وہ کنیز ساتھ نہ آتی تو سمجھو مصیبت ہی آجاتی۔ چھوٹے بچے اگر رونے لگیں تو انھیں چپ کروانا بڑا مشکل کام ہوتا ہے”۔

دلاور نے جو ان کی یہ گفتگو سنی تو اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اسے پتہ چل گیا تھا کہ شہزادے کو اس حویلی میں قید کیا گیا ہے۔ وہ خاموشی سے اپنی جگہ سے نکلا۔ اس نے دور ایک پہاڑی کے ٹیلے پر ایک بڑے پتھر سے گھوڑے کی راس باندھی اور دوبارہ حویلی کی طرف چل دیا۔

حویلی کے آس پاس بہت ساری جھاڑیاں تھیں۔ رات ہونے کی وجہ سے تاریکی بھی بہت تھی اوپر سے آسمان کو بھی کالے کالے بادلوں نے گھیر رکھا تھا جس سے تاریکی میں مزید اضافہ ہوگیا تھا، اس لیے اسے دیکھ لیے جانے کا خدشہ بھی نہیں تھا۔ وہ ایک گھنی جھاڑی کے پیچھے بیٹھ کر حویلی کا جائزہ لینے لگا۔ اسے کسی ایسے راستے کی تلاش تھی جس کے ذریعے وہ اندر داخل ہو سکے۔

اسے کوئی ایسا راستہ تو نظر نہیں آیا مگر حویلی میں داخل ہونے والے بڑے دروازے کے نیچے اتنی خلا ضرور نظر آئی کہ ایک آدمی زمین پر لیٹ کر اور لڑھک کر اندر داخل ہو سکتا تھا۔ مگر مشکل یہ تھی کہ اس دروازے پر ایک سپاہی ہاتھ میں چمکدار تلوار لیے پہرا دے رہا تھا۔ دلاور سوچ میں پڑ گیا۔

پھر اس کی یہ مشکل بھی حل ہوگئی۔ یکا یک بادل زور سے گڑگڑائے اور موٹی موٹی بوندیں گرنے لگیں۔ تھوڑی ہی دیر میں بارش تیز ہوگئی۔ بارش کے پانی سے بچنے کے لیے تمام سپاہی حویلی کے برابر میں ایک گھنے درخت کے نیچے جا کھڑے ہوئے۔ دلاور کے لیے اب راستہ صاف تھا۔ وہ تیزی سے زمین پر رینگتا ہوا آگے بڑھا۔ اس کے سارے کپڑے کیچڑ میں لت پت ہوگئے تھے۔ بڑے دروازے کے قریب پہنچ کر وہ اس کی نچلی خلا میں سے لڑھک کر اندر داخل ہوا اور پھر کھڑا ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔

اسے وہاں پر کوئی سپاہی نظر نہیں آیا۔ وہ جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا اور دبے قدموں بھاگتا ہوا حویلی کے اندر جانے والے دروازے پر پہنچ گیا۔ اس کی کنڈی باہر سے لگی ہوئی تھی اور اس میں کوئی تالا نہیں تھا۔ اس نے آہستگی سے کنڈی کھولی اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا۔

اندر دیواروں پر مشعلیں روشن تھیں۔ اسے کئی کمرے نظر آئے۔ ایک کمرے سے اسے کسی کے کراہنے کی آواز سنائی دی۔ وہ لپک کر اس کمرے کے نزدیک گیا۔ اس کی کنڈی باہر سے لگی ہوئی تھی۔ بارش کی مسلسل موٹی بوندیں گرنے کے شور کی وجہ سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی مگر اس کے باوجود اس نے بڑی آہستگی اور احتیاط سے کنڈی کھولی اور اندر داخل ہوگیا۔

اندر دل آرا اور شہزادہ دونوں موجود تھے۔ دل آرا اسے دیکھ کر جلدی سے اس کے پاس آئی۔ دلاور نے فوراً اپنا خنجر نکال کر اسے اپنی گرفت میں لیا اور کمرے سے باہر لا کر بڑے غصے سے بولا۔ “نمک حرام۔ میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا”۔

دل آرا اسے پہچانتی تھی کہ وہ کوتوال کا بیٹا ہے۔ وہ ہاتھ جوڑ کر بولی۔ “میں بے قصور ہوں۔ اس غدار غلام جعفر نے اس مکار بادشاہ کے آدمیوں کو بتا دیا تھا کہ شہزادہ مجھ سے بہت مانوس ہے۔ اس لیے وہ مجھے بھی پکڑ کر لے آئے تاکہ شہزادہ زیادہ روے دھوئے نہ اور میری موجودگی میں بہلا رہے”۔

اب دلاور کی سمجھ میں سب باتیں آگئیں۔ اس نے دھیمی آواز میں کہا۔” ہمیں یہاں سے نکلنا ہے۔ باہر بہت تیز بارش ہو رہی ہے۔ شہزادہ بھیگے گا تو رونے لگے گا اور سپاہی ہوشیار ہو جائیں گے”۔

دل آرا اداسی سے بولی ۔ “شہزادے کو ہوش ہی کہاں ہے۔ اسے تیز بخار چڑھ گیا ہے اور وہ بے ہوشی کے عالم میں ہے”۔

“لیکن یہاں سے نکلنا بھی ایک مسئلہ ہے۔ تمہیں حویلی کے بڑے دروازے کے نیچے سے نکلنا پڑے گا۔ ہمیں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ بارش کی وجہ سے تمام سپاہی ایک درخت کے نیچے کھڑے ہیں۔ اگر بارش رک گئی تو ہمارے لیے ایک اور پریشانی پیدا ہوجائے گی۔ سپاہی درخت کے نیچے سے ہٹ کر پھر پہرا دینے لگیں گے”۔

دل آرا کچھ سوچ کر بولی ۔ “آج شام کو شہزادہ اپنی امی کو یاد کر کے بہت رو رہا تھا تو سپاہیوں نے مجھے اجازت دے دی تھی کہ میں اسے باہر ٹہلا لوں۔ میں اسے لے کر باہر نکلی تو میں نے حویلی کے عقب میں ایک چھوٹا سا دروازہ دیکھا تھا۔ اس میں تالا نہیں لگا تھا۔ میں تو چاہ رہی تھی کہ شہزادے کے ساتھ اس دروازے سے نکل کر بھاگ جاؤں مگر باہر پہرا دیتے ہوئے سپاہیوں کے خوف سے رک گئی”۔

یہ سن کر دلاور نے جلدی سے شہزادے کو اپنی گود میں اٹھایا۔ بخار کی وجہ سے اس کا جسم بے حد گرم ہورہا تھا۔ دل آرا اسے اپنے ساتھ اس چھوٹے دروازے تک لائی اور پھر وہ تینوں بڑی آسانی سے حویلی سے باہر آگئے۔

دلاور نے شہزادے کو دل آرا کے حوالے کیا اور دوڑ کر اپنا گھوڑا وہاں لے آیا۔ بارش میں شدت پیدا ہو گئی تھی۔ دل آرا نے شہزادے کو اپنی اوڑھنی سے ڈھانپ لیا تھا جس سے وہ بھیگنے سے محفوظ ہوگیا تھا۔

وہ تینوں گھوڑے پر سوار ہوئے اور پھر دلاور نے اسے تیز رفتاری سے بھگانا شروع کر دیا۔ اس کا وفادار گھوڑا بھی سمجھ گیا تھا کہ اس کا مالک کسی مصیبت میں گرفتار ہے اس لیے وہ سرپٹ دوڑ رہا تھا۔ صبح سے پہلے پہلے دلاور اپنے گھر پہنچ گیا ۔ کوتوال نے انھیں اور شہزادے کو دیکھا تو حیران رہ گیا۔ اس نے دلاور کو اپنے گلے سے لگا لیا۔

دلاور نے کہا۔ “ابا جان۔ اس بات کو ابھی ہمیں بہت خفیہ رکھنا ہے کہ شہزادے صاحب مل گئے ہیں۔ سب سے پہلے آپ اس نمک حرام غلام جعفر کو گرفتار کروائیں۔ اس کے بعد ہم شہزادے کو لے کر بادشاہ سلامت کے پاس چلیں گے”۔

کوتوال نے اسی وقت غلام جعفر کو گرفتار کروادیا اور اسے زنجیروں میں جکڑ کر جیل میں بند کردیا۔ پھر وہ دلاور اور دل آرا کے ساتھ شہزادے کو لے کر محل پہنچا۔ بادشاہ اور ملکہ رات بھر بالکل نہیں سوئے تھے۔ انھیں رہ رہ کر اپنا ننھا شہزادہ یاد آرہا تھا۔

شہزادے کو دیکھ کر دونوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ ملکہ نے تو شہزادے کو سینے سے لگا کر جو رونا شروع کیا تو شہزادے کی بھی آنکھیں کھل گئیں۔ ماں کو دیکھا تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ اس نے ماں کے گلے میں بانہیں ڈالیں اور بخار کی شدت سے دوبارہ بے ہوش ہوگیا۔

بادشاہ نے فوراً شاہی طبیبوں کو بلایا اور انھیں شہزادے کی دیکھ بھال کی ہدایت کی۔ پھر اس نے سپاہی بھیج کر فوج کے سپہ سالار کو طلب کیا ۔ سپہ سالار آگیا تو بادشاہ نے اسے حکم دیا کہ وہ اسی وقت اپنی فوج لے کر اس مکار بادشاہ کے ملک کی طرف پیش قدمی کرے اور اسے ہر حال میں گرفتار کر کے اس کے سامنے پیش کرے۔

سپہ سالار اسی وقت اپنی فوج کو لے کر اس مہم پر روانہ ہوگیا۔

اب بادشاہ دلاور کی طرف متوجہ ہوا۔ اس کو گلے سے لگایا اور رندھی ہوئی آواز میں بولا۔ “تمہارا یہ احسان ہم پر ایک قرضہ ہے۔ ہم ہمیشہ تمھارے مقروض رہیں گے”۔ ملکہ بھی دلاور کو تحسین آمیز نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

دلاور نے ہاتھ باندھ کر بادشاہ سے کہا۔ “جہاں پناہ۔ یہ سن کر مجھے بے حد شرمندگی ہو رہی ہے۔ یہ میرا فرض تھا۔ میں بھی اس ملک کا ایک ادنی’ سا سپاہی ہوں۔ خدا کا شکر ہے کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوا”۔

پھر اس نے اس واقعہ کی تفصیل بتاتے ہوۓ کہا۔ “ان لوگوں نے محل کے ایک غلام جعفر کو دولت کے بل پر خرید لیا تھا۔ اب وہ غلام جیل میں ہے۔ اس نے شہزادے کے اغوا میں ان کی مدد کی تھی۔ دل آرا کو وہ اپنے ساتھ اس لیے لے گئے تھے کہ اس غدار غلام نے انھیں یہ بتا دیا تھا کہ شہزادے صاحب اس کنیز سے بہت مانوس ہیں اور اس کے ساتھ بہت خوش رہتے ہیں۔ اس لیے وہ دل آرا کو بھی زبردستی اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گئے تھے تاکہ شہزادے صاحب انھیں زیادہ تنگ نہ کریں”۔

“ایک بات سمجھ میں نہیں آئی۔ مکار بادشاہ نے شہزادے کو اپنے محل میں کیوں نہیں رکھا۔ اتنی دور ایک دیہات کی حویلی میں رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟” بادشاہ نے الجھ کر پوچھا۔

“اس بادشاہ کو یہ ڈر تھا کہ اگر شہزادے کو اپنے محل میں رکھا تو آپ فوج کشی کرکے انھیں آزاد کروا لیں گے۔ شہزادے صاحب کو حویلی میں رکھنے کی وجہ اس کا یہ ہی خوف تھا”۔ دلاور نے کہا۔

دو روز بعد بادشاہ کا بہادر سپہ سالار اس مکار بادشاہ کو گرفتار کر کے لے آیا۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔

اس کی حالت دیکھ کر بادشاہ نے کہا۔ “بہت شرم کی بات ہے کہ جنگ جیتنے کے لیے بچوں کو ڈھال بنایا جائے۔ تم ایک وزیر تھے۔ تم نے اپنے بادشاہ سے غداری کر کے اسے قید کردیا۔ ہم اس بے قصور بادشاہ کو دوبارہ سے بادشاہ بنائیں گے اور جنگ میں حاصل کیا ہوا سارا علاقہ بھی اسے واپس کردیں گے۔ ہم نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ تمہیں اس کے حوالے کردیں گے۔ وہ تمہارے ساتھ جو سلوک بھی کرے اس کی مرضی”۔

اس بے ایمان اور مکار وزیر نے جب بادشاہ کی یہ بات سنی تو غش کھا کر گرپڑا اور سپاہی اسے اٹھا کر لے گئے۔

بادشاہ نے دلاور کو بہت سا انعام و اکرام دیا اور آئندہ محل کی حفاظت کے لیے اس کو نگران مقرر کردیا۔ دلاور کے ماں باپ اس کی عقلمندی اور بہادری سے بہت خوش تھے جس کے نتیجے میں وہ ایک بڑے منصب پر فائز ہوگیا تھا۔

ختم شد

حویلی کے چور

حویلی کے چور

نوراں کی ساری زندگی مشقت میں بسر ہوئی تھی۔ وہ ایک چھوٹے سے گاوٴں میں رہتی تھی۔ جب وہ چھوٹی تھی تو اسے پورے گھر کو سنبھالنا پڑتا تھا کیوں کہ اس کی ماں گاوٴں کے زمیندار کی حویلی میں ملازمہ تھی۔ وہ صبح سے شام تک حویلی میں کام میں مصروف رہتی۔ اس خدمت کے اسے اتنے روپے پیسے مل جاتے تھے کہ وہ اپنے چار بیٹوں ادر نوراں کا خرچ اٹھا لیتی تھی۔ گاوٴں کی زمیندار کی حویلی میں کام کرنے کا سبب یہ تھا کہ اُس کا شوہر اس دنیا میں موجود نہیں تھا۔ ایک دفعہ زور کی بارشیں ہوئی تھیں، ان بارشوں کے نتیجے میں سیلاب آ گیا اور وہ اسی سیلاب کی نذر ہوگیا تھا۔

دنیا سے شوہر کے چلے جانے کے بعد نوراں کی ماں کی مصیبتوں کا دور شروع ہوگیا ۔ وہ ایک باہمت عورت تھی۔ اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ہر مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرے گی اور بچوں کو اس قابل کرے گی کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں۔

نوراں چونکہ گھر میں سب سے بڑی تھی اس لیے ماں کے کام پر چلے جانے کے بعد وہ ہی گھر سنبھالتی تھی۔ چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے کھانا پکانا، ان کی دیکھ بھال اور گھر کے دوسرے کام اسی کو کرنا پڑتے تھے۔

ماں اور نوراں کی محنت رنگ لائی۔ نوراں کے چاروں بھائی بڑے ہوگئے۔ انہوں نے روزگار کی خاطر شہر کا رخ کیا اور پھر وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ شہر سے وہ ماں کو تھوڑے بہت پیسے بھیج دیا کرتے تھے۔

ان پیسوں کو جمع کر کر کے ماں نے نوراں کا جہیز تیار کیا اور پھر پڑوس کے گاوٴں میں ایک نوجوان سے اس کی شادی کردی۔ نوراں کا بیاہ ہوا تو وہ رخصت ہو کر اپنے شوہر کے گھر چلی گئی۔

اس کی ماں بوڑھی ہو گئی تھی، اس کی شادی کے بعد اس کی ماں نے بھی زمیندار کے گھر کام کرنا چھوڑ دیا کیوں کہ اب اس کی صحت بھی ٹھیک نہیں رہتی تھی۔ اس کے بیٹے جو اسے تھوڑے بہت روپے بھیجا کرتے تھے ان سے گزارا کرنے لگی۔

شادی کے بعد نوراں کی ایک بچی پیدا ہوئی ۔ اس کا شوہر پیسہ کمانے کے لیے پردیس چلا گیا اور پھر لوٹ کر نہیں آیا۔ کچھ عرصے بعد اس نے پردیس میں ہی شادی کرلی اور وہیں کا ہو کر رہ گیا، اس نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اب اس کی بیوی اور بچی کا کا ہوگا۔

ادھر شوہر نے نظریں پھیریں تو ادھر سسرال والوں کے روئیے میں بھی تبدیلی آگئی اور ایک روز انہوں نے بھی نوراں کو زبردستی گھر سے نکال دیا۔ نوراں کے ویسے تو چار بھائی تھے، مگر وہ اپنی اپنی شادیاں کر کے شہر میں ہی رہنے لگے تھے۔ نوراں پر یہ افتاد پڑی تو انہوں نے بھی اس کا ساتھ نہیں دیا۔لے دے کے اس کی بوڑھی ماں ہی رہ گئی تھی جو اس مشکل وقت میں اس کے کام آئی۔

مائیں ہی تو ہوتی ہیں جو اولاد کا کبھی ساتھ نہیں چھوڑتیں۔ اس نے نوراں کو تسلی دی اور نوراں اپنی بچی کے ساتھ ماں کے گھر میں رہنے لگی۔ نوراں کے سامنے سب سے بڑا مسلہ کچھ کمانے کا تھا تاکہ وہ گھر کا خرچ چلا سکے اور اپنی بیٹی کو جو بڑی ہوتی جا رہی تھی، پڑھا لکھا سکے۔ یہ اس کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ اس کی بیٹی پڑھ لکھ جائے۔ وہ شہر میں ہوتی تو اس کے لیے روزگار کا کوئی مسلہ نہ ہوتا۔ اسے کسی گھر یا اسکول میں ماسی کا کام مل سکتا تھا یا پھر وہ کوئی چھوٹی موٹی دکان بھی کھول کر گزر بسر کر سکتی تھی۔

ان کے گاوٴں میں فاضل نام کا ایک زمیندار تھا۔ وہ بھلا آدمی تھا۔ جب وہ چھوٹا تھا تو نوراں کی ماں ان لوگوں کی حویلی میں نوکرانی تھی ۔ اس کا بچپن نوراں کی ماں کی نگرانی میں ہی گزرا تھا۔ نوراں کو کسی نے مشورہ دیا کہ وہ کام کے سلسلے میں اپنی ماں کے ساتھ فاضل کے پاس جائے۔ اس کی بہت ساری زمینیں ہیں شائد وہ اس کو کھیتوں پر کام کرنے کے لیے رکھ لے۔

نوراں ماں کو لے کر فاضل کے پاس پہنچی اور اپنی بپتا سنا کر اس سے درخواست کی کہ وہ اسے کوئی کام دے دے تاکہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ سکون سے گزر بسر کر سکے۔ چونکہ فاضل کا بچپن نوراں کی ماں کے سامنے ہی گزرا تھا۔ اسے ابھی تک یاد تھا کہ نوراں کی ماں اس سے بہت پیار کرتی تھی اور اسے بہت اچھی اچھی کہانیاں بھی سنایا کرتی تھی۔ اُسے جب نوراں کی دکھ بھری کہانی کا پتہ چلا تو اس کو بہت افسوس ہوا۔ اس نے دل ہی دل میں اس کے شوہر کو برا بھلا کہا جو اسے اور اپنی بیٹی کو چھوڑ کر چلا گیا تھا اور پلٹ کر خبر تک نہیں لی۔

فاضل نے تھوڑی سوچ بچار کے بعد اس سے کہا۔ “میں تمہیں اپنے کھیتوں پر کام کے لیے رکھ تو لوں۔ مگر مجھے خدشہ ہے کہ اس مشقت سے تم گھبرا نہ جاوٴ۔ میں نے کھیتوں پر پانی دینے کے لیے جو آدمی رکھے ہیں میں ان کے کے کام سے مطمئن نہیں ہوں۔ وہ جان چھڑانے کے لیے کھیتوں کی آس پاس کی زمین تو گیلی کر دیتے ہیں مگر اچھی طرح پانی نہیں دیتے۔

اس کے علاوہ وہ کھاد اور جراثیم کش دوائیں بھی وقت پر کھیتوں میں نہیں ڈالتے اور نہ ہی کھیتوں کی صفائی ستھرائی پر دھیان دیتے ہیں۔ اس وجہ سے میری زمینوں پر پچھلے سال بھی اچھی فصل نہیں ہوئی تھی، اور اس سال بھی کوئی امید نہیں ہے۔ اگر تم چاہو تو میں تمہیں ان آدمیوں کی نگرانی کرنے کے لیے رکھ سکتا ہوں، اپنی نگرانی میں تم ان سے کام کروایا کرنا”۔

نوراں کو یہ کام بہت آسان لگا اور اس نے حامی بھرلی۔ نوراں اس نوکری کے مل جانے کے بعد بہت خوش ہو گئی تھی اور اس نے کام شروع کر دیا۔ وہ جب کھیتوں پر کام کرنے جاتی تو اپنی بیٹی تابدار کو اپنی ماں کے پاس چھوڑ دیتی تھی۔ شروع شروع میں تو اس نے نوراں کو بہت یاد کیا مگر جب نوراں نے اس کو پیار سے سمجھایا تو وہ سمجھ گئی۔

نوراں تھی تو عورت مگر اپنی ماں ہی کی طرح بہت باہمت تھی۔ فاضل کے کھیتوں میں دس مزدور کسان کام کیا کرتے تھے، اور ان کے ذمے مختلف کام تھے۔انھیں جب پتا چلا کہ زمیندار نے نوراں کو ان کی نگرانی پر رکھا ہے اور انھیں اس کی ماتحتی میں کام کرنا پڑے گا تو انھیں برا محسوس ہوا۔ انھیں پتہ چل گیا تھا کہ اب ان کے آرام کے دن گنے جا چکے ہیں۔ پہلے روز تو ان میں سے کسی نے بھی نوراں سے بات نہیں کی اور خاموشی اور بے دلی سے اپنے اپنے کاموں میں لگے رہے۔ یہ ضرور ہوا کہ اس روز کھیتوں میں کافی کام ہوا تھا۔ کھیتوں میں پانی ٹیوب ویلوں کے ذریعے زمین میں بنائی گئی نالیوں سے آتا تھا۔

ان نالیوں کی حالت کافی خراب تھی، جگہ جگہ کچرا موجود تھا اور بعض جگہوں سے تو وہ بالکل ہی بند ہوگئی تھیں۔ نوراں نے کھرپی کی مدد سے ان نالیوں کی خود صفائی کی اور ایک ہفتے میں ہی ان کی حالت بدل دی۔

مزدور کسانوں نے نے جب اس کو بھی اپنے ساتھ کام کرتے دیکھا تو ان کے رویے میں تبدیلی آنے لگی۔

وہ اب ہنسی خوشی نوراں کی باتوں پر عمل کرتے تھے۔ کبھی کبھی نوراں گھر سے سب کے لیے میٹھے چاول، باجرے کی میٹھی ٹکیاں یا اور کوئی ایسی ہی چیز بنا کر لے آتی۔ اس کے اچھے رویے اور محبّت بھرے خوش اخلاق رویے سے کسان مزدور اس کو اچھا سمجھنے لگے تھے جس کی وجہ سے ایک بہترین ماحول بن گیا تھا اور سب ہنسی خوشی کام کرنے لگے تھے۔

گاوٴں کی دوسری عورتیں بھی فاضل کے کھیتوں پر کام کرتی تھیں مگر وہ ہر روز کام کرنے نہیں آتی تھیں۔ ان کا کام اس وقت شروع ہوتا تھا جب فصلیں تیار ہو جاتی تھیں۔ وہ فصلوں کی کٹائی وغیرہ کرتی تھیں مگر نوراں صبح منہ اندھیرے کھیتوں پر پہنچ جاتی تھی اور شام تک مصروف رہتی۔

ان لوگوں کی یہ کوششیں رنگ لائیں اور کچھ ماہ بعد ہی فاضل کے کھیتوں میں مختلف اجناس کے بڑے بڑے پودے لہلہانے لگے۔ یہ منظر فاضل نے بہت سالوں کے بعد دیکھا تھا۔ اسے احساس ہو گیا تھا کہ اس کامیابی میں نوراں کی محنت اور کوششوں کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اس سال فصلیں بہت اچھی ہوئیں اور فاضل کو بہت منافع ملا۔ اس نے خوش ہو کر کھیتوں پر کام کرنے والے تمام مزدور کسانوں کو انعام دیا جس سے وہ لوگ بھی خوش ہوگئے اور آئندہ مزید دل لگا کر کام کرنے کا عہد کیا۔

ایک روز ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ نوراں کے چاروں بھائی ایک ساتھ آئے اور ماں سے بولے کہ ان کے باپ کا یہ گھر بیچ کر ان کو حصہ دیا جائے۔ ماں نے انھیں بہت سمجھایا مگر وہ نہیں مانے اور گھر کو بکوا کر اپنا اپنا حصہ لے کر چلے گئے۔ تھوڑی بہت رقم نوراں اور اس کی ماں کو بھی ملی، مگر یہ اتنی نہیں تھی کہ اس سے گاوٴں میں کوئی گھر خرید لیا جاتا۔

جس روز ان کا گھر فروخت ہوا تھا، اسی رات ایک افسوسناک بات بھی ہوگئی۔ فاضل زمیندار کے گھر چوروں نے دھاوا بول دیا۔ اس کے تمام گھر والے سوتے کے سوتے ہی رہ گئے، اور چور تمام زیورات اور نقدی لے کر چلتے بنے۔ فاضل بہت پریشان تھا، اس کی زندگی بھر کی کمائی لاکھوں روپے دیکھتے ہی دیکھتے اس کے ہاتھوں سے نکل گئے۔

اس کی بیوی رو رو کر ہلکان ہوگئی تھی۔ اس کو ان زیورات اور نقدی کے چلے جانے کا بے حد ملال تھا۔ اس واقعہ کی رپورٹ گاوٴں کے تھانے میں درج کروادی گئی تھی، مگر فاضل کو امید نہیں تھی کہ چور پکڑے جائیں گے۔ وہ صبر کر کے بیٹھ گیا۔

اس واردات کے اگلے روز کی بات ہے۔ فاضل کے علم میں یہ بات آئ کہ نوراں کی ماں نے بیٹوں کے کہنے کی وجہ سے اپنا گھر بیچ دیا ہے۔ اسے احساس ہوگیا تھا کہ اب دونوں ماں بیٹی بے آسرا ہو گئی ہیں۔ وہ ایک نیک دل آدمی تھا۔ وہ ان کے پاس آیا اور بولا۔ “تم لوگ فکر مت کرو۔ گاوٴں میں میرا ایک گھر ہے۔ وہ سالوں سے خالی پڑا ہے۔ تم لوگ جب تک جی چاہے اس میں رہو۔

دونوں ماں بیٹی نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اپنا سامان لے کر فوراً نئے گھر میں آگئیں۔ گھر بہت بڑا تھا اور اس میں کشادہ صحن بھی تھا۔ نوراں نے جب گھوم پھر کر گھر کا جائزہ لیا تو ایک بات دیکھ کر پریشان ہوگئی۔ نیم کے درخت کے نیچے اسے تقریباً ایک گز زمین ایسی نظر آئی جو تازہ تازہ کھودی ہوئی لگ رہی تھی۔ اس کے کانوں میں فاضل کے الفاظ گونج رہے تھے۔ “ گاوٴں میں میرا ایک گھر ہے۔ وہ سالوں سے خالی پڑا ہے”۔ اس نے سوچا کہ جب یہ گھر سالوں سے خالی پڑا تھا تو پھر یہاں زمین کون کھود گیا؟

رات کو کھانا کھا کر وہ بستر پر لیٹی تو اس وقت بھی وہ یہ ہی سوچ رہی تھی۔

آخر اس سے صبر نہیں ہوا۔ اس کی بیٹی تابدار گہری نیند سو رہی تھی۔ نوراں نے اپنی ماں کو ساتھ لیا اور فاضل کی حویلی جا پہنچی۔ فاضل اپنی بیٹھک میں اداس بیٹھا تھا۔ دولت کے چوری ہوجانے کا اس کی بیوی کو بہت افسوس ہوا تھا اور وہ اس صدمے سے بیمار پڑ گئی تھی۔ کچھ دیر پہلے معالج اسے دیکھ کر گیا تھا۔

فاضل نے جب نوراں اور اس کی ماں کو اتنی رات گئے اپنے گھر آتے دیکھا تو اسے حیرت ہوئی۔ نوراں نے اسے کھدی ہوئی زمین کی بابت بتایا تو وہ سوچ میں پڑ گیا۔ اس کو دال میں کچھ کالا نظر آیا۔ اس نے اپنے دو ملازموں کو اپنے ساتھ لیا اور نوراں کے ساتھ اس کے گھر پہنچا۔ اس کے حکم پر اس کے ملازموں نے زمین کھودنا شروع کی۔ زمین کھودنے میں انھیں کوئی دشواری نہیں ہوئی کیونکہ زمین کی مٹی بہت نرم اور پولی تھی۔

ابھی انہوں نے دو فٹ گہرائی سے ہی مٹی نکالی تھی کہ ان کی کدال کسی لوہے کی چیز سے ٹکرائی اور ایک عجیب سی آواز پیدا ہوئی۔

فاضل اس آواز کو سن کر بہت حیران ہوا۔ ملازموں نے کدال اور بیلچہ ایک طرف رکھ کر ہاتھوں سے مٹی ہٹائی۔ جب مٹی ہٹی تو انھیں لوہے کا ایک صندوق نظر آیا۔ انہوں نے اسے باہر نکال لیا۔ فاضل پہچان گیا، یہ صندوق اسی کا تھا اور چور اس میں سامان بھر کر اپنے ساتھ ہی لے گئے تھے۔ اس کا مارے خوشی کے برا حال ہوگیا۔

صندوق میں تالا نہیں لگا تھا، صرف دونوں کنڈیاں لگی ہوئی تھیں، فاضل نے ملازموں کو ایک طرف ہٹا کر صندوق کا ڈھکن کھولا۔ اس کی حویلی سے چوری شدہ تمام چیزیں اس میں موجود تھیں۔ ان چیزوں کے درمیان اسے ایک شناختی کارڈ بھی ملا تھا جسے اس نے خاموشی سے جیب میں رکھ لیا اور اپنے ملازموں سے بولا۔ “تم لوگ فوراً تھانے جا کر انسپکٹر اور سپاہیوں کو ساتھ لے آوٴ”۔

یہ منظر دیکھ کر نوراں اور اس کی ماں بہت حیران تھیں۔ فاضل نے کہا۔ “نوراں بہن۔ میں تمہارا احسان مند ہوں۔ تمھاری عقلمندی کی وجہ سے ہمیں یہ لوٹا ہوا سامان دوبارہ مل گیا ہے”۔

“مالک۔ میری سمجھ میں ابھی تک کچھ نہیں آیا ہے”۔ نوراں نے الجھ کر کہا۔

فاضل مسکرا کر بولا۔ “ان چوروں نے پہلے ہمیں کھانے میں بے ہوشی کی دوا کھلائی، پھر اطمینان سے حویلی کی تلاشی لے کر تمام چیزیں چرا لیں۔ انہوں نے سوچا ہوگا کہ جب تک پولیس یہ کیس بند نہیں کر دیتی، اس وقت تک اس چوری کے مال کو میرے اس گھر میں زمین کھود کر دبا دیں کیوں کہ یہ برسوں سے بند پڑا تھا اور یہاں پر کسی کے آنے کی امید بھی نہیں تھی۔

انہوں نے یہ بھی سوچا ہوگا کہ جب معاملہ ٹھنڈا پڑ جائے گا تو چوری کا مال نکال لیں گے”۔

تھوڑی دیر بعد انسپکٹر چند پولیس والوں کے ساتھ وہاں آ گیا۔ اس نے چوری کے مال کا صندوق اپنے قبضے میں کیا۔ پھر وہ تمام لوگ فاضل کی حویلی میں آئے۔ انسپکٹر نے کاغذ قلم نکالا اور نوراں کا بیان قلمبند کرنے لگا۔

فاضل نے ان کی خاطر مدارات کے لیے ایک ملازم سے کہا۔ تھوڑی دیر بعد اس کا ملازم شرفو ایک بڑی سی ٹرے میں چائے اور کھانے پینے کی چیزیں لے آیا۔

وہ چائے بنانے لگا تو فاضل نے اس سے کہا ۔ “شرفو جب تم چوری کا مال صندوق میں بھر رہے تھے تو تمہارا شناختی کارڈ اس میں گر گیا تھا۔ یہ دیکھو”۔

اس کی یہ بات کسی دھماکے سے کم نہ تھی۔ شرفو کے ہاتھ سے چائے کی پیالی چھوٹ کر زمین پر گر پڑی۔ وہ دروازے کی طرف بھاگا، مگر اس سے پہلے کہ وہ وہاں سے نکلتا، ایک سپاہی نے جست لگا کر اس کو دبوچ لیا۔ دوسرے سپاہی نے اس کے ہتھکڑی لگا دی۔ شرفو کے منہ پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔

فاضل نے قہر آلود آواز میں کہا۔ “نمک حرام۔ تو نے میری مہربانیوں کا یہ صلہ دیا ہے”۔

شرمندگی کے مارے شرفو کے آنسو نکل پڑے۔ تھوڑی دیر بعد اس نے اپنے ان دو ساتھیوں کا پتہ بھی بتا دیا جن کے ساتھ اس نے چوری کی منصوبہ بندی کی تھی اور وہ لوگ اس واردات میں شامل تھے۔ انسپکٹر نے اسی وقت ان کے ٹھکانوں پر چھاپے مار کر انھیں بھی گرفتار کر لیا۔

فاضل کی بات ٹھیک تھی۔ ان لوگوں نے یہ سوچ کر ہی اس مال کو فاضل کے خالی گھر میں دبا دیا تھا کہ کچھ عرصے بعد جب سب اس واقعہ کو بھول جائیں گے تو اس کو خاموشی سے وہاں سے نکال لیں گے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوگی۔نوراں کی وجہ سے فاضل کی زندگی بھر کی کمائی دوبارہ مل گئی تھی۔

اس نے اگلے روز نوراں سے کہا ۔ “نوراں بہن تم نے حویلی کے چوروں کو پکڑوا کر بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ مانگو۔ انعام میں کیا مانگتی ہو”۔

فاضل کی بیوی بھی وہیں موجود تھی۔ اس نے کہا “اپنے شوہر کی ساری کمائی کے نکل جانے کے غم میں میں تو بیمار پڑ گئی تھی۔ شکر ہے کہ اب میری بیماری بھی دور ہوگئی ہے۔ نوراں بہن ہم تمہارا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولیں گے”۔

فاضل اور اس کی بیوی کی باتیں سن کر نوراں بولی۔ “مالک اور مالکن۔ ہمارے اوپر تو آپ لوگوں کے اتنے احسانات ہیں کہ ہم مر کر بھی انھیں نہیں اتار سکتے۔ مجھے اور میری ماں کو اس بات کی خوشی ہے کہ آپ کی چوری شدہ چیزیں واپس مل گئی ہیں۔ اللہ آپ کو مزید عزت اور دولت دے۔ آپ غریبوں کے بہت کام آتے ہیں، یہ سب اسی کا صلہ ہے۔ آپ نے ہمیں سر چھپانے کا ٹھکانہ دیا۔ اس سے بڑا انعام ہمارے لیے کیا ہوسکتا ہے”۔

اس کی بات سن کر فاضل کچھ سوچنے لگا۔ پھر اس نے کہا۔ “وہ گھر جو میں نے تمہیں رہنے کے لیے دیا تھا، آج سے تم اس کی مالک ہو۔ اس کے علاوہ تمہاری بیٹی تابدار آج سے میری بیٹی ہے۔ میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ اس کی اعلیٰ تعلیم سے لے کر اس کی شادی بیاہ کرنا میری ذمہ داری ہوگی۔ تم اب اس کی طرف سے بے فکر ہوجاو”۔

نوراں اور اس کی ماں یہ سن کر بہت خوش ہوئیں اور فاضل کو دعائیں دیتی ہوئی گھر کو لوٹیں۔ فاضل نے اپنا وعدہ نبھایا دیا تھا۔ اس نے اپنے بچوں کے ساتھ تابدار کو شہر بھیج دیا، جہاں وہ دل لگا کر تعلیم حاصل کر رہی ہے۔

نوراں کو جب فاضل بتاتا ہے کہ تابدار پڑھائی میں سب سے آگے ہے تو وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتی۔ اس کے دل سے فاضل اور اس کے بیوی بچوں کے لیے بہت سی سے دعائیں نکلتی ہیں۔