خوشامد پسند بادشاہ

خوشامد پسند بادشاہ

یوں تو بادشاہ سلامت بہت اچھے اور نیک تھے مگر ان کا وزیر ان کی ایک بات سے بہت پریشان تھا اور دل ہی دل میں کڑھتا رہتا تھا۔ بادشاہ سلامت اپنی رعایا سے بہت محبّت کرتے تھے اور انہوں نے ان کی خدمات کے لیے اپنے خزانوں کا منہ کھول رکھے تھے۔ ملک میں چاروں طرف سکون اور اطمینان نظر آتا تھا۔ سب لوگ انتہائی خوش و خرم زندگی بسر کررہے تھے۔ شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے تھے۔

مگر وزیر کو جس بات کی پریشانی تھی وہ یہ تھی کہ بادشاہ سلامت دوسروں کے منہ سے اپنی تعریف سن کر بہت خوش ہوتے تھے اور تعریف کرنے والے پر انعامات کی بارش کردیتے۔ ان کے دربار کے چند چرب زبان اور خوشامدی لوگوں نے بادشاہ سلامت کی یہ کمزوری بھانپ لی تھی، اور اس کمزوری کا اکثر و بیشتر فائدہ اٹھاتے رہتے تھے، ان کی جھوٹی جھوٹی تعریفیں کرتے اور انعامات لے کر گھر کو چلتے بنتے۔

بادشاہ سلامت جب دربار میں تشریف لاتے اور لوگوں کے مسلے مسائل سنتے تو ان کی کوشش یہ ہی ہوتی تھی کہ جلد سے جلد ان معاملات کو نمٹا دیں، تاکہ اس کے بعد شعر و شاعری اور قصیدہ گوئی کا دور چلے اور درباری ان کی تعریفوں کا پل باندھیں، ان تعریفوں سے بادشاہ سلامت کو ایک عجیب سی خوشی کا احساس ہوتا تھا۔ بادشاہ سلامت کی شان میں قصیدے پڑھنے والے نیک نیتی سے بادشاہ سلامت کی تعریف نہیں کرتے تھے، ان کا مقصد تو محض قیمتی انعامات کا حصول ہی ہوتا تھا۔

وفادار وزیر نے ایک روز اپنی یہ پریشانی ملکہ کے سامنے رکھی۔ ملکہ خود بادشاہ سلامت کی اس بات سے تنگ تھی۔ وہ سوچتی تھی کہ جھوٹی تعریفوں پر اگر وہ اسی طرح ہیرے جواہرات اور اشرفیاں لٹاتے رہے تو ایک روز سارا خزانہ خالی ہو جائے گا۔ اس نے وزیر سے کہا ۔ “اس سلسلے میں تو مجھے آپ پر ہی بھروسہ ہے۔ آپ بادشاہ سلامت کے وفادار ساتھیوں میں سے ہیں۔ آپ کی عقلمندی کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ مجھے امید ہے آپ ضرور کوئی نہ کوئی حل نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے”۔

“ملکہ عالیہ۔ میں اپنی پوری کوشش کروں گا کہ اس مسلے کا کوئی حل نکل آئے۔ اس کے لیے مجھے سب سے پہلے یہ پتہ چلانا ہوگا کہ وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی بنا پر بادشاہ سلامت خوشامد پسند ہوگئے ہیں۔ انھیں کیوں اپنی تعریف سننا اچھا لگتا ہے”۔

ملکہ بولی۔ “جب میری ان سے شادی ہوئی تھی تو وہ تب بھی ایسے ہی تھے۔ بات بات پر اپنے گلے سے قیمتی موتیوں کے ہار اتار کر لوگوں کو انعام میں دے دیا کرتے تھے۔ ایک وقت تو ایسا بھی آگیا تھا کہ ہاروں کو بنوانے کے لیے بہت سارے کاریگروں کو بھرتی کرنا پڑ گیا تھے۔ مجھے تو اس بات سے بہت ڈر لگتا ہے کہ ہم الله کو کیا منہ دکھائیں گے۔ خزانے کا پیسہ عوام کی امانت ہوتا ہے۔ اس طرح تو ہم امانت میں خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں”۔

“میں نے سوچا ہے کہ میں بادشاہ سلامت کی والدہ صاحبہ سے ملوں اور ان کو کریدوں کہ بادشاہ سلامت کی شخصیت کی اس خامی کا سبب کیا ہے”۔ وزیر نے کہا اور عین اسی وقت بادشاہ سلامت کی ماں کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ کافی بوڑھی ہو گئی تھی اور لاٹھی ٹیک ٹیک کر چلتی تھی۔

اس نے ملکہ اور وزیر کو دیکھا تو بولی۔ “بیٹی میں یہ پوچھنے آئ ہوں کہ رات کے کھانے میں کیا پکے گا، تاکہ شاہی باورچی کو آگاہ کردوں مگر ایسا معلوم دیتا ہے کہ تم دونوں مملکت کے کسی اہم مسلے پر گفتگو کر رہے ہو۔ میں چلتی ہوں۔ بعد میں آجاؤں گی”۔

“امی حضور ہم آپ کا ہی تذکرہ کررہے تھے۔ ایک بہت اہم مسلہ درپیش آ گیا ہے۔ آپ سے کچھ معلومات لینا تھیں”۔ ملکہ نے کہا۔

“پہلے مسلہ تو پتہ چلے۔ اس کے بعد ہی میں معلومات دے سکوں گی”۔ بادشاہ سلامت کی والدہ نے کہا۔

“پہلے آپ آرام سے بیٹھ جائیں۔ پھر ہم آپ کو تفصیل بتائیں گے”۔ ملکہ نے اسے کمرے میں رکھی کرسی پیش کرتے ہوۓ کہا۔ جب بادشاہ سلامت کی ماں آرام سے بیٹھ گئی تو وزیر نے بڑی تفصیل سے اس کو بادشاہ سلامت کی اس خوشامد پسندی کی عادت کے بارے میں بتایا۔

جب اس کی بات ختم ہوئی تو بادشاہ سلامت کی ماں نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور بڑے تاسف سے بولی۔ “اپنے بیٹے کی اس عادت کے ذمہ دار میں اور اس کے ابا حضور تھے”۔ یہ بات سن کر ملکہ اور وزیر دونوں چونک پڑے۔

“امی حضور۔ یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں”۔ ملکہ نے حیرت سے آنکھیں پھیلا کر کہا۔

ابھی بادشاہ سلامت کی ماں نے کوئی جواب بھی نہیں دیا تھا کہ بادشاہ سلامت کا بوڑھا باپ کھانستا ہوا اندرداخل ہوا۔ اس نے کہا۔ “اس بڑھاپے نے ہمیں طرح طرح کی بیماریاں لگا دی ہیں مگر حیرت انگیز طور پر ہماری سماعت بہت بہتر ہوگئی ہے، دور ہی سے ہم سب باتیں سن لیتے ہیں، ہم نے تم سب کی باتیں بھی سن لی ہیں۔ ہماری بیگم بالکل ٹھیک فرما رہی ہیں۔ اپنے بیٹے کو خوشامد پسند بنانے میں ہم دونوں کا ہی ہاتھ ہے”۔

بادشاہ سلامت کی ماں کو ملکہ نے کرسی پیش کی تھی۔اب بادشاہ سلامت کا باپ آیا تو اسے کرسی پیش کرنے کی باری وزیر کی تھی۔ وہ ایک کرسی اٹھا کر اس کے قریب لایا اور بولا۔ “تشریف رکھیے”۔

وہ بیٹھ گیا تو ملکہ بڑی فکرمندی سے بولی ۔ “جس انداز میں وہ دونوں ہاتھوں سے اپنی دولت لٹا رہے ہیں۔ ہمیں تو لگتا ہے کہ بہت جلد خزانہ خالی ہو جائے گا۔ ہمیں وزیر صاحب سے بہت امیدیں وابستہ ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ بہت جلد اس کا حل ڈھونڈ لیں گے”۔

وزیر آگے بڑھا، کھنکھار کر گلا صاف کیا پھر ہاتھ باندھ کر بولا۔ “آپ بادشاہ سلامت کے والدین ہیں۔ دونوں کا یہ ہی کہنا ہے کہ ان کی اس خامی کے پیچھے آپ کا ہی ہاتھ ہے۔ پتا تو چلے کہ کیسے؟ اگر یہ بات پتہ چل گئی تو بادشاہ سلامت کا علاج کرنا مشکل بات نہ ہوگی”۔

بادشاہ سلامت کے باپ نے کہا ۔ “لمبی کہانی ہے۔ تم دونوں بھی بیٹھ جاؤ۔ کھڑے کھڑے تھک جاؤ گے”۔

جب ملکہ اور وزیر بیٹھ گئے تو اس نے کہنا شروع کیا۔ “یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم نوجوان تھے اور ہماری نئی نئی تاجپوشی ہوئی تھی اور ہم نئے نئے بادشاہ بنے تھے۔ ہمارے ابا حضور بوڑھے ہوگئے تھے اس وجہ سے انہوں نے بادشاہت کا تاج ہمارے سر پر سجا دیا تھا۔ تھوڑے عرصے بعد ہماری شادی ایک انتہائی حسین و جمیل شہزادی سے ہو گئی۔ ان کا رنگ اتنا صاف تھا کہ جب پانی پیٹی تھیں تو گردن سے گزرتا ہوا نظر آتا تھا”۔

اتنا کہہ کر بادشاہ سلامت کے باپ نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔ اس نے شرما کر سر جھکا لیا۔

“ان کے حسن و جمال کا تفصیلی تذکرہ ہم نے اس لیے کیا ہے کہ اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے یہ ہر وقت اپنے بناؤ سنگھار میں لگی رہا کرتی تھیں۔ ہم بھی کچھ کم نہیں تھے۔ ہمیں سیر سپاٹے اور شکار کا شوق تھا، ہم اپنے مشغلوں میں گم رہا کرتے تھے۔ تھوڑے عرصے بعد الله نے ہمیں اولاد کی نعمت سے بھی نواز دیا۔ ہمارا شہزادہ نہایت خوبصورت تھا۔

اس کی پیدائش پر ہم دونوں ہی بہت خوش تھے، مگر نہ انہوں نے ہر وقت بننے سنورنے والی عادت چھوڑی اور نہ ہم نے اپنی سیر سپاٹے اور شکار کی۔ ہمارا شہزادہ کنیزوں اور غلاموں کے ہاتھوں میں پرورش پاتا رہا۔ وہ تھوڑا بڑا ہوا تو اس کا دل چاہتا تھا کہ ہمارے ساتھ بیٹھے، اپنی اچھی اچھی باتیں ہمیں بتائے اور ہم اس کو شاباش دیں اور اس کی تعریف کریں۔ مگر ہم دونوں نادان بنے اپنی اپنی پسند کی مصروفیات میں گم تھے۔

ہمیں اپنی بے بیوقوفی کی وجہ سے اپنے چھوٹے سے شہزادے کے احساسات کا خیال ہی نہیں رہا۔ اس محرومی کا فائدہ ان کنیزوں نے اور غلاموں نے اٹھایا جن کے ذمے اس کی دیکھ بھال کرنا تھی۔ وہ اس کی ہر بات کی بہت تعریف کرتے تھے، اس سے وہ خوش ہو کر اپنے کھلونے، مٹھایاں اور بسکٹ وغیرہ اور دوسری چیزیں انھیں دے دیتا۔ وہ اس کی کمزوری بھانپ گئے۔ وہ اس کی جھوٹی تعریفیں کرتے اور اس سے فائدہ اٹھاتے۔

رفتہ رفتہ ہمارے شہزادے کی یہ عادت پختہ ہوتی چلی گئی اور اس کا نتیجہ ہم سب خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اس کہانی میں ان ماں باپ کے لیے ایک سبق چھپا ہے جو اپنے بچوں سے دور دور رہتے ہیں اور ان کی کسی بات کی تعریف کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں”۔ یہ کہہ کر بادشاہ سلامت کا بوڑھا باپ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر خاموش ہوگیا۔

وزیر کچھ دیر خاموشی سے سوچتا رہا پھر بولا۔ “میں پوری کوشش کروں گا کہ ان کی اس عادت کو ختم کروادوں۔ یہاں پر میں یہ بات بھی کہوں گا کہ جو ماں باپ اپنے بچوں کو وقت نہیں دیتے، ان کی باتیں نہیں سنتے، ان کی اچھی باتوں پر انھیں شاباش نہیں دیتے، وہ اپنے بچوں کو احساس محرومی کا شکار بنا دیتے ہیں۔ دنیا میں اچھے برے دونوں طرح کے لوگ پڑے ہیں۔ برے لوگ اس چیز کا فائدہ اٹھانے میں دیر نہیں لگاتے۔ وہ اپنی چکنی چپڑی باتوں سے اس طرح کے بچوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں”۔

بادشاہ سلامت کی ماں اور باپ نے سر جھکالئیے۔ اسی وقت ملکہ کا ننھا شہزادہ باغ میں سے کھیل کر واپس آیا۔ اس کے ہاتھ میں کسی جھاڑی کا ایک تنکا تھا اور اس نے امرود کے ایک پتے کو درمیان سے اس تنکے میں پرو رکھا تھا۔

شہزادے نے کمرے میں داخل ہو کر پہلے تو سب کو ادب سے سلام کیا پھر بولا۔ “امی حضور۔ دیکھیے ہم نے امرود کے پتے کا پنکھا بنایا ہے۔ یہ گھومتا بھی ہے”۔ یہ کہہ کر اس نے پتے پر پھونک ماری تو پتا تیزی سے گھومنے لگا۔

ملکہ یہ دیکھ کر نہال ہوگئی، آگے بڑھ کر شہزادے کو پیار کیا اور بولی۔ “ہمارے شہزادے نے کتنا اچھا پنکھا بنایا ہے۔ ہمیں بھی اس سے کھیلنے دیجیے”۔

شہزادے نے پتے پر ایک اور پھونک ماری اور بولا۔ “آپ تو بڑی ہیں امی حضور۔ یہ تو بچوں کے کھیلنے کے لیے ہے”۔ یہ کہہ کر شہزادہ وہاں سے بھاگ گیا۔

بادشاہ سلامت کی ماں نے کہا ۔ “اگر یہ ہی سلوک ہم اپنے بیٹے سے بھی کرتے، اس کی باتیں سنا کرتے، اس کی تعریف کرتے تو وہ ایسا نہ بنتا جیسا بن گیا ہے”۔

تھوڑی دیر بعد جب وزیر وہاں سے رخصت ہونے لگا تو اس نے ملکہ کو چند باتیں بتائیں اور درخواست کی کہ وہ ان پر عمل کرے۔ ملکہ نے اس کی باتوں کو گرہ میں باندھ لیا۔

رات کو جب بادشاہ سلامت اس کے ساتھ اپنے کمرے میں بیٹھے تھے اور ننھا شہزادہ ان کے سامنے کھیل رہا تھا تو ملکہ نے بڑے پیار سے کہا ۔ “الله کا شکر ہے۔ میں بھی کس قدر خوش قسمت ہوں کہ مجھے آپ جیسا شریف اور نیک شوہر نصیب ہوا ہے۔ جو شکل و صورت میں بھی یکتا ہے اور اپنے کردار میں بھی۔ اپنی رعایا کی محبّت اس کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے”۔

بادشاہ سلامت نے یہ سنا تو خوشی سے ان کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ انہوں نے اپنے گلے سے قیمتی موتیوں کا ہار اتار کر ملکہ کو پیش کیا۔ “اس بات کا اظہار کرنے پر ہم اسے آپ کی نذر کرتے ہیں”۔

ملکہ مسکرا کر بولی۔ “جہاں پناہ ہم اس انعام کو لینے سے انکار کرتے ہیں۔ ہم نے آپ کی تعریف اپنے دل کی گہرائیوں سے کی ہے۔ ہمارے خلوص اور محبّت کی قیمت اس معمولی سے ہار سے ادا نہیں ہوسکتی”۔

بادشاہ سلامت یہ بات سن کر حیران ہوگئے اور بولے۔ “جب دوسرے لوگ ہماری تعریف کے گن گاتے ہیں اور ہم انھیں انعام دیتے ہیں تو وہ فوراً لے لیتے ہیں۔ ملکہ آپ تو عجیب ہیں”۔

“اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ دوسروں کی تعریف دکھاوے کی ہے۔ وہ یہ باتیں صرف آپ کو خوش کرکے انعام کے لالچ میں کرتے ہیں۔ ان کے دلوں میں خلوص نہیں، لالچ بھرا ہوتا ہے۔ آپ تو میرے سر تاج ہیں۔ آپ کے بارے میں میں جو بھی کہوں گی وہ سچ ہوگا”۔

ملکہ کی بات سن کر بادشاہ سلامت کچھ سوچنے لگے ۔ ملکہ نے جب لوہا گرم دیکھا تو ایک اور چوٹ ماری۔ “ہمارے دادا حضور ہمارے سب بہن بھائیوں کو ایک نصیحت کیا کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اپنے ماں باپ اور بھائی بہنوں کے علاوہ اگر تمہارے منہ پر کوئی تمہاری تعریف کرے تو سمجھ لینا اس میں اس کی کوئی غرض پوشیدہ ہے”۔

بادشاہ سلامت کی آنکھیں کسی سوچ میں ڈوب گئیں۔ انھیں کچھ کچھ سمجھ آنے لگی تھی۔

اگلے روز دربار شروع ہونے سے پہلے وزیر بادشاہ سلامت سے ملنے آیا۔ وہ انھیں ایک کونے میں لے گیا اور ان کے کان میں چپکے چپکے کچھ کہنے لگا۔

اس کی باتیں سن کر بادشاہ سلامت کی آنکھوں میں ایک چمک سی آگئی تھی۔ وزیر خاموش ہوا تو انہوں نے کہا “عقلمند وزیر۔ تمہاری بات میں وزن معلوم دیتا ہے۔ ہمیں تمہاری تجویز سے اتفاق ہے”۔

دربار شروع ہوا۔ سامنے تمام امرا، رؤسا اور دوسرے بڑے بڑے لوگ کرسیوں پر براجمان تھے۔ ان میں سے ہر کوئی اپنے ذہن میں وہ باتیں دوہرا رہا تھا، جو اسے بادشاہ سلامت کی شان میں کہنا تھیں۔ انہوں نے اپنے لباسوں میں کپڑے کے تھیلے چھپا رکھے تھے جن میں وہ انعام بھر بھر کر لے جاتے تھے۔ یہ انعام وہ بادشاہ سلامت کی جھوٹی تعریف کرکے بٹورتے تھے۔

دربار کی کاروائی دیکھنے کے لیے آج ملکہ بھی بادشاہ سلامت کے برابر میں بیٹھی تھی۔ وزیر نے اس سے خاص طور سے درخواست کی تھی کہ وہ آج دربار میں ضرور آکر بیٹھے، بڑا مزہ آئے گا۔

دربار کی کاروائی شروع ہونے سے پہلے وزیر اپنی جگہ سے کھڑا ہوا۔ اس نے سب لوگوں کو مخاطب کر کے کہا “معزز اراکین دربار۔ آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ ہمارے بادشاہ سلامت کس قدر رعایا پرور ہیں۔ سونے کے وقت کو نکال کر وہ ہر وقت ان کی فلاح و بہبود کے لیے سوچتے رہتے ہیں۔ وہ اس بات سے بھی پریشان رہتے ہیں کہ مزید کون کون سے کام کریں جس سے ان کی رعایا کو فائدہ پہنچے”۔

وزیر کی اتنی بات ہی سن کر دربار میں واہ واہ کا شور مچ گیا۔ دو تین پرجوش درباری تو کرسیوں سے بھی اٹھ گئے۔ “ہمارے ہر دل عزیز بادشاہ سلامت کا اقبال بلند ہو۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ الله نے ہمیں ان کے زیر سایہ رہنے کی سعادت بخشی ہے”۔ کھڑے ہونے والے اشخاص میں سے ایک نے کہا۔

اس کی اس بات پر دربار میں ایک شور سا مچ گیا۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ ملکہ یہ منظر بڑی دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔ اتنے بہت سے خوشامدی اس نے ایک جگہ پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔

وزیر نے کہا۔ “اب آگے سنیے۔ یہ بات بہت خوشی کی ہے کہ دربار میں موجود سب لوگ دولت مند اور خوشحال ہیں۔ بادشاہ سلامت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ جو بھی ان کی شان میں قصیدہ پڑھے گا، نظم یا غزل سنائے گا، یا نثر میں ان کی تعریف کرے گا، اس کے ساتھ اسے سو اشرفیاں بھی دینا پڑیں گی ۔ ان اشرفیوں کو شاہی خزانے میں شامل کر کے ان سے غریبوں، بیواؤں اور یتیموں کی مدد کی جائے گی۔ غریب اور بے سہارا لڑکیوں کی شادیاں کروائی جائیں گی، بے گھر لوگوں کو سر چھپانے کا ٹھکانا دیا جائے گا۔ اس طریقے سے جہاں ہم اپنے ہر دل عزیز بادشاہ سلامت کو خراج تحسین پیش کر سکیں گے، وہیں ڈھیر ساری نیکیاں بھی کما لیں گے۔ یعنی آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام”۔

وزیر کی بات ختم ہوئی تو شاہی دربار میں سناٹا چھا گیا۔ اتنی خاموشی تھی کہ اگر وہاں ایک سوئی بھی گر جاتی تو سب اس کی آواز سن لیتے۔

وزیر نے کہا۔ “ہاں تو آج پہلے اپنا کلام کون سنائے گا؟”

دربار میں بیٹھے ہوۓ لوگوں میں سے کسی نے جنبش تک نہ کی۔ تھوڑی دیر بعد ایک درباری اٹھا اور بولا ۔ “میں نے بادشاہ سلامت کی شان میں بہت اچھا ترانہ لکھا تھا، بدقسمتی سے گھر بھول آیا ہوں”۔

دوسرے نے کہا ۔ “رات بچوں نے ہی پیچھا نہیں چھوڑا۔ قصیدہ لکھنے کا وقت ہی نہیں ملا”۔

غرض سب لوگوں نے کوئی نہ کوئی بہانہ گھڑ کر سنا دیا۔ جب سب اپنی اپنی کہہ کر خاموش ہوگئے تو بادشاہ سلامت نے گرج کر کہا۔ “ہم تم سب کی چالاکیاں سمجھ گئے ہیں۔ تم سب لوگ ہمارے دربار سے نکل جاؤ۔ ہمیں ایسے مطلبی اور خود غرض درباریوں کی ضرورت نہیں ہے”۔

بادشاہ سلامت کو بے وقوف بنا کر فائدہ اٹھانے والے تمام درباری بہت شرمندہ ہوۓ اور دربار سے اٹھ کر چلے گئے۔

اس روز کے بعد سے بادشاہ سلامت نے اپنی اس عادت سے چھٹکارہ پا لیا اور حکومت کے دوسرے کاموں میں مشغول ہوگئے۔ وہ روز دربار لگاتے تھے اور لوگوں کی شکایتیں سن کر ان کا ازالہ کرتے تھے۔ ان کی اس تبدیلی سے ملکہ اور وزیر بہت خوش تھے اس لیے کہ بادشاہ سلامت کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا جس کی وجہ سے ان کو مطلب پرست خوشامدیوں سے بھی نجات مل گئی تھی۔ ملکہ کے دل میں وزیر کی عزت بھی بڑھ گئی تھی۔ وہ اس کی احسان مند تھی کیوں کہ اس کی عقلمندی کی وجہ سے بادشاہ سلامت راہ راست پر آگئے تھے۔

ختم شد

ایک شکل کے دو شہزادے

ایک شکل کے دو شہزادے

شہزادہ ارجمند اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوۓ اپنی بہن شہزادی انجمن کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ دو ہفتے پہلے اس کی شادی پڑوسی ملک کے ایک شہزادے سے ہوگئی تھی۔ شادی کے بعد وہ ایک مرتبہ بھی اپنے گھر نہیں آئ تھی۔ ملکہ نے قاصدوں کے ذریعے اسے پیغام بھی بھیجا کہ وہ زیادہ دنوں کے لیے نہیں تو ایک آدھ دن کے لیے ہی ملنے کے لیے آجائے تو اس نے جواب میں کہلوایا کہ وہ ابھی تک شادی کی ضیافتوں میں مصروف ہے، جیسے ہی فرصت ملے گی ضرور ملنے آئے گی۔

بادشاہ اس طرح کے معاملوں میں دخل نہیں دیتا تھا۔ مگر شہزادی کا جواب سن کر اس نے ہنس کر کہا۔ “جو لڑکیاں سسرال میں خوش رہتی ہیں، اپنی ماں کے گھر کم ہی آتی ہیں۔ ملکہ آپ بھی تو ایسی ہی تھیں۔ اپنی امی حضور سے ملنے کم کم ہی جاتی تھیں”۔

“میں تو یہ سوچ کر گھر نہیں جاتی تھی کہ میرے بعد آپ کا خیال کون رکھے گا”۔ ملکہ نے شرما کر کہا۔

بادشاہ ہنس پڑا۔ “بس اسی وجہ سے ہماری بیٹی بھی نہیں آرہی۔ وہ بھی یہ ہی سوچ رہی ہوگی کہ اگر یہاں آگئی تو اس کے شوہر کی دیکھ بھال کون کرے گا”۔

شہزادی انجمن شہزادہ ارجمند کی چھوٹی بہن تھی۔ دونوں بہن بھائیوں میں مثالی محبت تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہتے تھے۔ مگر لڑکیاں تو ہوتی ہی پرائی ہیں، ایک دن تو سب کو اپنے گھر جانا پڑتا ہے اور ایک روز شہزادے کی بہن بھی بیاہ کر پردیس چلی گئی۔

بہن کی شادی ہوئی تو شہزادہ ارجمند کو کئی دنوں تک کوئی چیز اچھی نہیں لگی۔ مگر مجبوری تھی۔ وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ اس وقت بھی وہ بہن کی یادوں میں کھویا ہوا تھا کہ ملکہ اس کے کمرے میں داخل ہوئی۔ اسے دیکھ کر شہزادہ ارجمند کھڑا ہوگیا اور ادب سے بولا۔ “امی حضور۔ آپ نے تکلیف کیوں کی، مجھے طلب کر لیا ہوتا”۔

“کوئی بات نہیں شہزادے۔ ہم اس لیے آئے تھے کہ تم سے ایک کام پڑ گیا ہے۔ تمہارے ابّا حضور شہزادی انجمن کے لیے دوسرے ملکوں سے جو تحفے تحائف لے کر آئے ہیں وہ ویسے ہی رکھے ہوۓ ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ تم اس کے پاس ایک چکر لگا آؤ، اس سے مل بھی لینا اور وہ چیزیں بھی اس کو دے دینا”۔

“جی اچھا امی حضور”۔ شہزادہ ارجمند نے کہا۔

اگلے روز شہزادہ ارجمند ملکہ کا دیا ہوا سارا سامان لے کر اپنے محافظ سپاہیوں اور خادموں کے ساتھ سفر پر روانہ ہو گیا۔ دو دن کے بعد وہ لوگ اپنی منزل مقصود پر پہنچ گئے۔ شہزادی انجمن اپنے بھائی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور اس کی اور اس کے ساتھ آئے ہوۓ تمام لوگوں کی بہت خاطر مدارات کی۔

شہزادے نے بہن کو بتایا کہ ملکہ اس کو ہر وقت یاد کرتی رہتی ہے۔ شہزادی نے وعدہ کیا کہ وہ جلد ہی اس سے ملنے آئے گی۔ ایک دو روز تک بہن کی مہمان نوازی کا لطف اٹھا کر شہزادہ ارجمند واپسی کے سفر پر روانہ ہوا۔ جب انہوں نے رخت سفر باندھ لیا تو شہزادی نے بھائی کے ساتھ آئے ہوۓ تمام خدمت گاروں اور سپاہیوں کو بیش قیمت تحفے بھی دیے۔

وہ لوگ صبح ہی صبح سفر پر روانہ ہو گئے تھے۔ سہہ پہر تک انہوں نے کافی راستہ طے کرلیا تھا۔ مسلسل سفر کرنے کی وجہ سے سب لوگوں کو بہت تھکن ہوگئی تھی اور بھوک بھی ستانے لگی تھی۔ اس لیے انہوں نے راستے میں ایک جنگل کے قریب پڑاؤ ڈال لیا۔ خادموں نے وہاں خیمے گاڑے اور کھانا پکانے کی تیاری شروع ہوگئی۔ ارادہ یہ ہی تھا کہ رات بھی اسی جگہ بسر کی جائے گی۔ ادھر تو سب لوگ کاموں میں مصروف تھے، ادھر شہزادے ارجمند کے دل میں آئ کہ ذرا آس پاس کا علاقہ تو گهوم پھر کر دیکھے، پتہ نہیں پھر دوبارہ آنا ہو کہ نہیں۔

وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور ساتھیوں سے بولا کہ وہ آس پاس کا ایک چکر لگا کر آرہا ہے۔ اس کے سپاہیوں نے بھی ساتھ جانا چاہا مگر اس نے منع کر دیا اور اکیلا ہی وہاں سے روانہ ہوگیا۔

جنگل بہت سرسبز اور گھنا تھا۔ شہزادہ ارجمند ایک بہادر لڑکا تھا۔ اس کو یہ خوف نہیں تھا کہ کوئی جنگلی جانور اس پر حملہ کردے گا۔ اسے معلوم تھا کہ وہ اپنے خنجر اور تلوار سے اس کا مقابلہ کر سکتا ہے۔

ویسے تو شہزادہ اپنی سلطنت میں ہر جگہ خوب گھوما پھرا تھا مگر اس جگہ پہلی مرتبہ آیا تھا۔ یہاں کی خوبصورتی دیکھ کر وہ حیران رہ گیا۔ ان نظاروں میں گم رہنے کی وجہ سے اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ کہاں کا کہاں پہنچ گیا ہے۔

اس نے واپسی کا سوچا مگر وہ راستہ بھول گیا تھا۔ ابھی وہ اسی شش و پنچ میں تھا کہ کس راستے پر جائے کہ اچانک اس کے کانوں میں گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں آئیں۔ وہ چوکنا ہو گیا اور اس نے اپنی تلوار میان سے نکال کر ہاتھ میں پکڑ لی۔ لیکن اس کی یہ کوشش بے سود ثابت ہوئی۔ بہت سارے ڈاکوؤں نے یکلخت اسے چاروں طرف سے گھیر لیا تھا، ان کے ہاتھوں میں کمانیں تھیں جن پر تیر چڑھے ہوۓ تھے اور ان کا رخ شہزادے کی جانب تھا۔

سب سے آگے ڈاکوؤں کا سردار تھا۔ اس نے پہلے تو ایک گھن گرج قہقہہ لگایا پھر بولا۔ “شکل سے تو کسی اچھے گھرانے کے لگ رہے ہو، مال تو بہت ہوگا۔ لاؤ نکالو”۔

شہزادے نے بےرخی سے کہا۔ “مال تو بہت ہے مگر میں اسے ساتھ لیے لیے نہیں پھرتا”۔

ڈاکوؤں کے سردار نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔ “اس نوجوان کے کپڑے، تلوار، خنجر اور گھوڑا بہت قیمتی ہیں۔ خنجر اور تلوار پر ہیرے جڑے ہوۓ ہیں، گھوڑا عربی نسل کا ہے۔ لباس بھی شاہانہ ہے۔ ان سب کو لے لو۔ اور اسے معمولی کپڑے پہنا کر رخصت کرو”۔

شہزادہ ارجمند سمجھ گیا تھا کہ اس کا مزاحمت کرنا بے کار ثابت ہوگا اور مفت میں جان خطرے میں ڈالنے والی بات ہوگی۔ ڈاکوؤں نے اس سے تمام چیزیں چھین لیں۔ شہزادے نے دل میں تہیہ کر لیا کہ محل پہنچتے ہی ان ڈاکوؤں کے ٹھکانے پر یلغار کرے گا اور انہیں قید کروائے گا، ان لوگوں نے جانے کتنے لوگوں کو لوٹا ہوگا۔

اس کی تمام چیزیں لینے کے بعد ڈاکوؤں نے شہزادے کو پرانے سے کپڑے پہننے کے لیے دیے اور پھر اسے جنگل سے باہر چھوڑ آئے۔ شہزادہ ارجمند کو بالکل پتہ نہیں تھا کہ وہ جگہ جہاں اس کے ساتھیوں نے پڑاؤ ڈال رکھا ہے کدھر ہے۔

شام ہوگئی تھی اور کچھ دیر میں رات ہونے والی تھی۔ اس نے سوچا کہ پہلے سر چھپانے کا کوئ ٹھکانہ ڈھونڈے دوسری باتیں بعد میں دیکھی جائیں گی۔ اس کو بھوک بھی لگنے لگی تھی۔

جنگل سے نکل کر وہ کچھ دور ہی گیا تھا کہ اسے ایک بستی کے آثار نظر آئے۔ وہ اسی طرف چل پڑا۔ کچھ دیر کی مسافت کے بعد وہ بستی میں داخل ہوگیا۔ چونکہ ابھی تک پوری طرح رات نہیں ہوئی تھی اس لیے بستی میں کافی چہل پہل نظر آرہی تھی۔

چلتے چلتے وہ ایک گلی میں داخل ہوا جہاں آمنے سامنے قطار در قطار مٹی کے کچے گھر بنے ہوۓ تھے۔ وہ ابھی کچھ دور ہی گیا تھا کہ ایک چھوٹا سا لڑکا سامنے سے بھاگتا ہوا آیا، شہزادے پر نظر پڑی تو حیرت سے بولا۔ “انور بھائی۔ آپ شہر سے کب آئے؟”۔ پھر اس نے شہزادے کے جواب کا انتظار بھی نہیں کیا اور قریبی ایک گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر چلانے لگا۔ “خالہ۔ خالہ۔ جلدی آؤ۔ انور بھائی شہر سے واپس آگئے ہیں”۔ چھوٹا لڑکا یہ اطلاع دے کر بھاگ گیا۔ وہ شائد جلدی میں تھا۔

اس کی آواز سن کر ایک ادھیڑ عمر کی خوش شکل عورت جلدی سے دروازے پر آئ۔ شہزادے پر نظر پڑی تو حیرت سے بولی۔ “انور تو کب آیا؟۔ بھوک لگ رہی ہوگی، چل پہلے جلدی سے کھانا کھالے۔ تیری کہانی میں بعد میں سن لوں گی۔ تیرا باپ صبح سے دریا پر مچھلیاں پکڑنے کے لیے گیا ہوا ہے۔ ابھی تک نہیں آیا ہے۔”

یہ کہہ کر اس عورت نے اس کا باتھ پکڑا اور زبردستی گھر میں لے آئ۔ شہزادہ ارجمند شش و پنچ میں پڑ گیا۔ وہ عورت اسے اپنا بیٹا سمجھ رہی تھی۔ اس نے اس کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے کہا۔ “مگر میں آپ کا بیٹا نہیں ہوں”۔

اس کی بات سنی تو اس عورت کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ “انور میں نے تجھے دریا والی بات اس لیے تو نہیں بتائی تھی کہ تو ایسی باتیں کرنے لگے۔ یہ ٹھیک ہے کہ تجھے بچپن میں ڈوبتے ہوۓ میرے شوہر نے دریا میں سے نکالا تھا۔ مگر تجھے پالا تو ہم نے ہی ہے۔ اب ہم ہی تیرے ماں باپ ہوۓ کہ نہیں؟”

اس کی بات سن کر شہزادہ ارجمند حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگا۔ اسے ملکہ نے بتا رکھا تھا کہ اس کا ایک اور جڑواں بھائی بھی تھا۔ ایک روز جب وہ بہت چھوٹے تھے تو بادشاہ کے ساتھ دریا کی سیر کو گئے۔ دریا کا بہاؤ تیز تھا جس کی وجہ سے کشتی الٹ گئی۔ بادشاہ کو تیرنا آتا تھا، اس نے ارجمند کو تو ڈوبنے سے بچا لیا مگر دوسرا بھائی بہتا بہتا جانے کہاں نکل گیا۔ بعد میں اسے بہت ڈھونڈا گیا مگر وہ نہیں ملا۔ ملکہ اپنے اس بیٹے کو یاد کر کے اب بھی روتی رہتی تھی۔

اب شہزادے نے جو اس عورت کی باتیں سنیں تو اسے یقین ہوگیا کہ انور ہی اس کا بچھڑا ہوا بھائی ہے جسے اس عورت نے ماں بن کر پالا ہے۔ اس نے اس عورت کا محبّت سے ہاتھ پکڑا اور بولا۔ “نیک خاتون۔ رنجیدہ مت ہوئیے۔ میرے کہنے کا مطلب تھا کہ میں انور نہیں ہوں۔ میرا نام تو ارجمند ہے۔ میں اس ملک کا شہزادہ ہوں”۔

پھر اس نے اپنی پوری داستان اس عورت کو سنا ڈالی۔ اس نے اسے اپنے کھوئے ہوۓ بھائی کے متعلق بھی وہ سب کچھ بتا دیا جو اس نے ملکہ کے منہ سے سن رکھا تھا۔

اس عورت کو جب پتا چلا کہ وہ ایک شہزادہ ہے اور وہ لڑکا جسے انہوں نے دریا میں سے نکال کر پالا تھا شہزادے کا جڑواں بھائی ہے تو وہ گھبرا گئی۔

شہزادے نے اسے تسلی دی اور کہا۔ “اماں۔ آپ نے ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ ہم ساری زندگی بھی اس احسان کا بدلہ نہیں اتار سکیں گے۔ آپ لوگوں کا بہت بہت شکریہ کہ آپ کے شوہر نے میرے بھائی کو ڈوبنے سے بچایا اور آپ دونوں نے اس کی پرورش کی۔ ابّا حضور اور امی حضور تو بہت ہی خوش ہونگے اور آپ کے احسان مند ہونگے۔ آپ لوگ بہت اچھے ہیں”۔

پھر اس عورت نے اسے عزت سے بٹھا کر اس کے سامنے کھانا رکھا۔ شہزادے کو تو بھوک بھی بہت لگ رہی تھی۔ اس نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا۔

ابھی وہ کھانے سے فارغ ہوا ہی تھا کہ مچھیرا اپنا جال اور چند بڑی بڑی مچھلیاں لے کر گھر میں داخل ہوا۔ اس نے شہزادے کو دیکھا تو خوشی سے بولا۔ “انور تو کب آیا؟ بس اب بستی چھوڑ کر کہیں مت جانا۔ شہر میں دولت کی بارش تھوڑا ہوتی ہے۔ شہر والے بڑے سیانے ہوتے ہیں، دس آدمیوں کا کام ایک آدمی سے لیتے ہیں اور پیسے بھی رلا رلا کر دیتے ہیں۔ گاؤں میں ہی رہ کر محنت کرے گا تو الله بہت دے گا۔ کل سے میرے ساتھ تو بھی مچھلیاں پکڑنے چلا کر۔ اور انور کی ماں۔ تو بھی اس کو کہیں مت جانے دینا۔ اب اس کی شادی کی تیاری کر تاکہ اس کے پاؤں میں بھی ذمہ داریوں کی بیڑی پڑ جائے”۔

مچھیرا تو اپنی دھن میں یہ سب باتیں کیے جا رہا تھا اور اس کی باتیں سن کر شہزادہ مسکرا رہا تھا مگر مچھیرے کی بیوی گھبرا کر اس کے پاس آئ اور دھیرے سے بولی ۔ “بس بھی کرو۔ جو منہ میں آ رہا ہے کہے جا رہے ہو۔ یہ ہمارا انور نہیں بلکہ اس کا جڑواں بھائی ہے۔ یہ بادشاہ کا بیٹا ہے۔ ہمار انور بھی معمولی لڑکا نہیں ہے ۔ اس ملک کا شہزادہ ہے”۔

اس کے بعد اس نے مچھیرے کو پوری داستان سنا دی۔ مچھیرے نے یہ باتیں سنیں تو حیران رہ گیا۔ شہزادہ ارجمند نے کہا۔ “آپ دونوں نے ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ہمارے بھائی کو اپنا بیٹا سمجھ کر پالا۔ آپ کا یہ احسان ہم زندگی بھر نہیں بھول سکتے۔ امی حضور تو بہت ہی خوش ہوں گی۔ انھیں امید تھی کہ ایک روز ان کا گمشدہ بیٹا ضرور مل جائے گا”۔

مچھیرے نے سر کھجا کر اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور بولا۔ “مجھے یاد ہے میں نے انور کی حرکتوں پر دو ایک دفعہ اس کو سزا بھی دی تھی۔ مجھے ڈر ہے وہ محل جا کر ملکہ سے میری شکایت نہ کردے”۔

اس کی بات سن کر شہزادہ ارجمند کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ “آپ نے بہت اچھا کیا جو اس کو سزا دی۔ آپ نے اسے باپ بن کر پالا تھا۔ اگر آپ نے اسے سزا دی بھی ہوگی تو اس کے ہی بھلے کے لیے دی ہوگی۔ ماں باپ اپنے بچوں پر سختی کرتے ہیں تو اس میں بچوں کی ہی بہتری ہوتی ہے”۔ اس کی بات سن کر مچھیرا خوش ہوگیا۔

شہزادے کے پوچھنے پر مچھیرے نے بتایا کہ انور کو دریا پر جا کر مچھلیاں پکڑنے کا کام پسند نہیں تھا۔ وہ کچھ اور کرنا چاہتا تھا اس لیے کام کی تلاش میں شہر کی جانب نکل گیا۔ اس کو گئے ہوۓ دو ڈھائی ماہ ہوگئے تھے۔ جب بستی کا خلیل نامی ہرکارہ شہر جاتا تھا تو وہ واپسی پر اس کے ہاتھ اپنے ماں باپ کو پیسے بھی بھجوادیا کرتا تھا۔ یہ ہی باتیں کرتے کرتے کافی رات بیت گئی۔ سب کو نیند آنے لگی تھی اس لیے وہ سو گئے۔

صبح شور شرابے سے شہزادے کی آنکھ کھل گئی۔ مچھیرے کی بیوی بھی جاگ گئی تھی اور ناشتہ بنا رہی تھی۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ یہ شور کیسا ہے، شہزادہ بستر سے اٹھ کر کھڑکی کے نزدیک آیا اور گلی میں دیکھا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ دوڑ گئی۔ اس نے گھوڑوں پر سوار اپنے سپاہیوں کو دیکھا، وہ اس کی تلاش میں اس بستی تک پہنچ گئے تھے۔

شہزادہ باہر نکلا اور انھیں اپنی موجودگی سے آگاہ کیا۔ شہزادے کو پاکر وہ لوگ بہت خوش ہوےٴ ورنہ وہ اس بات سے پریشان تھے کہ اگر شہزادہ نہ ملا تو بادشاہ کو کیا جواب دیں گے۔ شہزادے نے ان سے کہا کہ فی الحال وہ اسی گھر میں ٹہرے گا۔ اس کی واپسی ایک دو روز میں ہوگی۔”

پھر اس نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ جنگل میں چاروں طرف پھیل جائیں اور ان ڈاکوؤں کو تلاش کرکے گرفتار کریں جنہوں نے کل اسے لوٹا تھا۔ اس کے علاوہ بھی وہ نہ جانے کتنے معصوموں کو لوٹ چکے ہونگے۔

سپاہی چلے گئے تو شہزادہ ارجمند نے مچھیرے سے کہا کہ اب کسی طریقے سے انور کو جلد سے جلد بلوایا جائے۔ مچھیرا فوراً خلیل ہرکارے کے پاس پہنچا۔ پچاس دمڑیاں اس کے ہاتھ پر رکھیں اور بولا۔ “خلیل بھائی۔ تم ابھی شہر روانہ ہوجاؤ اور اپنے ساتھ انور کو لے آؤ”۔

خلیل کے لیے یہ بہت بڑی رقم تھی۔ اس نے خوشی خوشی اپنے گھوڑے کو تیار کیا اور شہر روانہ ہوگیا۔ سورج ڈھلنے سے پہلے پہلے وہ انور کے ساتھ واپس آگیا۔

انور حیران تھا کہ مچھیرے نے اسے اتنی جلدی میں کیوں بلایا ہے۔ جب یہ ہی بات اس نے خلیل ہرکارے سے کی تو وہ بولا۔ “میں کیا بتا سکتا ہوں۔ ہوسکتا ہے تمھاری شادی وادی کی بات چل رہی ہو”۔

جب انور گھر پہنچا تو وہ شہزادہ جنید کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ شکل و صورت میں بالکل اس جیسا ہی تھا۔ وہ سوالیہ نظروں سے مچھیرے کو دیکھنے لگا۔ پھر اس کی نظر مچھیرے کی بیوی پر پڑی اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ جلدی سے اس کے پاس گیا۔ “ماں آپ کیوں رو رہی ہیں۔ یہ میرا ہمشکل کون ہے؟” اس نے پوچھا۔

مچھیرن بولی۔ “بیٹا تو اب ہمیں چھوڑ کر چلا جائے گا۔ تو ایک شہزادہ ہے۔ تیرا بھائی تجھے لینے آیا ہے”۔ مچھیرن یہ بات تو اس کو پہلے ہی بتا چکی تھی کہ وہ انھیں دریا میں سے ملا تھا مگر یہ بات انور کو ابھی پتہ چلی تھی کہ وہ ایک شہزادہ ہے۔

وہ اپنے بھائی سے گلے ملا اور مچھیرن سے بولا۔ “آپ اداس کیوں ہوتی ہیں۔ اگر میں گیا تو اکیلا تھوڑی جاؤں گا۔ آپ دونوں بھی میرے ساتھ چلیں گے”۔

اگلے روز شاہی سپاہی پورے جنگل میں پھیل گئے۔ انہوں نے جنگل کا چپہ چپہ چھان مارا اور آخر کار ڈاکوؤں کا پتہ لگانے میں کامیاب ہوگئے۔ پھر ایک مقابلے کے بعد وہ تمام ڈاکوؤں کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ زنجیروں میں جکڑے تمام ڈاکو ان کے ہمراہ تھے۔ اس کامیابی کے بعد وہ شہزادہ ارجمند کے پاس آئے۔ ڈاکوؤں کو دیکھ کر شہزادہ ارجمند بہت خوش ہوا اور بولا۔ “تم لوگوں نے مخلوق خدا پر بہت ظلم ڈھائے ہیں۔ اب قاضی تمہارا فیصلہ کرے گا”۔

پھر اس نے روانگی کا حکم دیا اور سب محل کی طرف روانہ ہو گئے۔ مچھیرا اور مچھیرن بھی ان کے ساتھ تھے۔

وہ لوگ محل پہنچے تو شہزادہ ارجمند پیچھے رہ گیا تھا اور انور آگے تھا۔ اتفاق کی بات کہ کچھ دیر پہلے اس کی بہن شہزادی ارجمند بھی اپنے شوہر کے ساتھ محل پہنچی تھی۔ وہ اپنی ماں سے ملنے آئ تھی کیوں کہ جب شہزادہ ارجمند اس سے ملنے گیا تھا تو اس نے بتایا تھا کہ ملکہ اس کو بہت یاد کرتی ہے۔ اس نے جو انور کو دیکھا تو دوڑ کر اس کے سینے سے لگ گئی۔

انور گھبرا گیا۔ اس نے کہا۔ “شہزادی دور ہٹو۔ میں تو انور ہوں۔ شہزادہ ارجمند پیچھے آرہا ہے”۔

اس کی بات سن کر شہزادی ابھی حیران ہونے کی کوشش کر ہی رہی تھی کہ اتنی دیر میں شہزادہ ارجمند بھی وہاں پہنچ گیا۔ اسے دیکھا تو شہزادی نے حیرت سے ایک چیخ ماری۔ وہ کبھی انور کو دیکھتی اور کبھی شہزادہ ارجمند کو۔ اس کی چیخ کی آواز سن کر بادشاہ، ملکہ اور اس کا شوہر سب دوڑے آئے۔

انہوں نے جو ان دونوں کو دیکھا تو حیران رہ گئے۔ ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ شہزادہ ارجمند نے ان لوگوں کو جلدی جلدی سارا قصہ سنا دیا۔ اس کی بات ختم ہوئی تو ملکہ نے آگے بڑھ کر اپنے بچھڑے ہوۓ بیٹے کو گلے سے لگا لیا اور روتے ہوۓ بولی۔ “مجھے یقین تھا کہ ایک روز میرا بیٹا ضرور مجھے مل جائے گا”۔

بادشاہ نے بھی آگے بڑھ کر انور کو گلے سے لگایا۔ بادشاہ اور ملکہ نے مچھیرے اور مچھیرن کا بہت شکریہ ادا کیا اور انھیں بہت سارے انعامات سے نوازا۔

تھوڑی دیر بعد مچھیرن نے مچھیرے کا ہاتھ پکڑا اور دروازے کی جانب جانے لگی۔ یہ دیکھ کر انور نے کہا۔ “اماں۔ ابّا کو لے کر کہاں چلیں”۔

“بیٹے۔ اب ہم چلتے ہیں۔ گھر اکیلا پڑا ہے۔ صبح تیرے باپ کو ……..میرا مطلب ہے ان کو دریا پر بھی جانا ہے مچھلی پکڑنے”۔ مچھیرن نے کہا۔

“اب آپ ہمارے ساتھ ہی محل میں رہیں گی۔ آپ یہاں نہیں رہیں گی تو میں بھی نہیں رہوں گا۔ آپ کے ساتھ ہی چلا جاؤں گا”۔ انور نے مچھیرن کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوۓ کہا۔ اس کو تو انہوں نے ماں باپ بن کر پالا تھا اور وہ ان کو اپنی ماں اور باپ ہی سمجھتا تھا۔

اس کی بات سن کر مچھیرے نے بہانہ بنایا۔ “بیٹا اگر ہم یہاں رہ گئے تو پھر مچھلیاں کون پکڑے گا؟”۔

اس پر بادشاہ نے بیچ میں مداخلت کی۔ “مچھلیاں کوئی اور پکڑ لے گا آپ اس کی فکر مت کریں۔ انور ٹھیک کہتا ہے۔ آپ ہمارے ساتھ ہی رہیں گے۔ آپ نے اسے دریا سے نکال کر اس کی جان بچائی تھی اور ماں باپ بن کر پالا پوسا۔ ہم آپ کو کہیں نہیں جانے دیں گے۔ آپ کے جانے سے ہمارا بیٹا اداس ہوجائے گا۔ یہ بات ہمیں منظور نہیں”۔

بادشاہ کی بات سن کر دونوں میاں بیوی مجبور ہوگئے۔ ان کی رضامندی دیکھ کر انور نے خوشی سے مچھیرن کو گود میں اٹھا لیا اور بولا۔ “میری اماں کتنی اچھی ہیں”۔ اس کی محبّت دیکھ کر سب مسکرانے لگے۔

انور کے اچانک مل جانے سے ہر جگہ خوشیوں کے شادیانے بجنے لگے تھے۔ خاص طور سے ملکہ تو بہت خوش تھی۔ اس کا برسوں کا بچھڑا ہوا بیٹا جو مل گیا تھا۔ خوش تو شہزادی انجمن بھی بہت تھی تھی، جس کے اب دو بھائی ہوگئے تھے اور وہ بھی ایک ہی شکل کے۔

جب ان تمام باتوں سے فرصت ملی تو جنگل کے ڈاکوؤں کا مقدمہ قاضی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ قاضی نے اعلان کروایا کہ جن جن لوگوں کو بھی ان ڈاکوؤں نے لوٹا تھا وہ آ کر عدالت میں گواہی دیں۔ یہ ڈاکو نہات ظالم تھے، انہوں نے برسوں سے ان جنگلوں کو اپنی آماجگاہ بنا رکھا تھا اور سیدھے سادھے مسافروں کو لوٹ لیا کرتے تھے۔

قاضی کے اعلان کے نتیجے میں سینکڑوں لوگوں نے گواہی دی۔ گواہی دینے والوں میں شہزادہ ارجمند بھی شامل تھا۔ قاضی نے تمام ڈاکوؤں کو قید کی سزا سنا دی۔ ان کے قبضے سے جو لوٹ کا مال ملا تھا وہ ان کے مالکوں کو واپس کردیا گیا۔ شہزادہ ارجمند کو بھی اس کا خنجر، تلوار، پوشاک اور گھوڑا واپس مل گیا۔

ختم شد

جادو کا کمرہ

جادو کا کمرہ

شہزادی لیلیٰ بادشاہ کی اکلوتی بیٹی تھی اس لیے وہ اس کو بہت چاہتا تھا۔ ملکہ بھی اپنی شہزادی سے بہت محبّت کرتی تھی اور اسے ایک لمحے کے لیے بھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی تھی۔ شہزادی لیلیٰ کی پرورش بڑے ناز و نعم سے ہو رہی تھی۔ وہ نہ صرف بے انتہا خوبصورت تھی بلکہ دل کی بھی نیک تھی اور سب سے بہت اچھا سلوک کرتی تھی۔

اس کی دسویں سالگرہ نزدیک تھی۔ بادشاہ نے سوچا کہ اس سالگرہ پر اسے کوئی بہت اچھا سا تحفہ دے۔ اس نے ایک بات کا مشاہدہ کیا تھا۔ شہزادی لیلیٰ کو باغ میں رہنا، وہاں کھیلنا کودنا اور پڑھنا لکھنا بہت اچھا لگتا تھا۔ باغ تھا بھی بہت خوبصورت۔ اس میں پانی کا ایک فوارہ بھی تھا اور موروں کا پنجرہ بھی۔ اس کے اس شوق کو دیکھتے ہوۓ بادشاہ کے ذہن میں ایک بہت اچھا سا خیال آگیا۔

اس نے اگلے روز ملک کے سب سے بڑے ماہر تعمیرات شیر افگن کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ وہ باغ میں شہزادی لیلیٰ کا ایک ایسا کمرہ تیار کرے جسے دیکھ کر شہزادی خوش ہو جائے۔

شیر افگن نے کہا۔ “جہاں پناہ۔ آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔ شہزادی صاحبہ کے لیے میں ایسا عمدہ کمرہ بناؤں گا کہ جو دیکھے گا تعریف کیے بنا رہ نہیں سکے گا۔ اسے دیکھ کر شہزادی بھی خوشی سے پھولا نہیں سمائیں گی”۔

اس کی بات سن کر بادشاہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ شہزادی کی سالگرہ قریب تھی اس لیے کمرہ بنانے کا کام فوراً ہی شروع کردیا گیا۔ بہت سارے مزدور اس کام پر لگے ہوۓ تھے اور کمرے کی تعمیر پر دن رات کام ہو رہا تھا۔

اسی دوران بادشاہ کے پڑوسی ملک کے بادشاہ نے اس سے درخواست کی کہ وہ اپنے محل میں کچھ تبدیلیاں کروانا چاہتا ہے اس لیے شیر افگن کو چند دنوں کے لیے اس کے ملک میں بھیج دیا جائے۔ شیر افگن اتنا اچھا ماہر تعمیرات تھا کہ اس کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ عمارتوں کی بہترین تعمیر میں اسے کمال حاصل تھا۔ بادشاہ نے یہ درخواست رد نہیں کی اور شیر افگن کو حکم دیا کہ وہ جا کر اس کے دوست بادشاہ کے کام کو مکمل کرے۔

شہزادی کے کمرے کا تھوڑا سا کام ہی باقی تھا۔ شیر افگن نے راج مستریوں اور مزدوروں کو کام کے سلسلے میں چند ہدایات دیں اور چلا گیا۔ شہزادی لیلیٰ کی سالگرہ سے ایک دن پہلے کمرہ پوری طرح تیار ہوگیا تھا۔ بادشاہ نے کمرے کا معائینہ کیا تو بہت خوش ہوا۔ یہ کمرہ شیشم کی قیمتی لکڑیوں سے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس میں داخل ہوتے ہی ایک فرحت بخش ٹھنڈک کا احساس ہوتا تھا اور کمرے میں استعمال شدہ لکڑیوں سے بھینی بھینی خوشبو آتی تھی۔

کمرے میں ایک ہی کھڑکی تھی، اس کھڑکی کے اوپری حصے پر کسی دھات کی چھوٹی چھوٹی رنگ برنگی نلکیاں لٹکی ہوئی تھیں۔ جب کھڑکی سے ہوا اندر داخل ہوتی تو ان نلکیوں سے ٹکرا کر جلترنگ بجنے کی آوازیں پیدا کرتی تھیں۔ اس میں کوئی خاص تکنیک استعمال کی گئی تھی جو بادشاہ کی سمجھ میں نہیں آئی مگر وہ شیر افگن کو داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔

کمرے میں ایک چھوٹا سا قیمتی اور خوبصورت بستر تھا جس پر ریشم کا گدا اور تکیے تھے۔ تین چھوٹی بڑی کرسیاں ایک میز کے گرد رکھی تھیں۔ کونے میں ایک چھوٹی سی الماری بھی تھی۔ شہزادی نے جب اتنا خوبصورت کمرہ دیکھا تو اس کی خوشی اس کی آنکھوں سے ظاہر ہونے لگی۔ اس نے بادشاہ کا بہت شکریہ ادا کیا کہ اس نے اس کی سالگرہ پر اتنا شاندار کمرہ بنوا کر دیا ہے۔

اس کی سالگرہ بہت دھوم دھام سے منائی گئی اور اس میں وزیروں اور رئیسوں نے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ شرکت کی۔ سالگرہ والے روز شہزادی کا کمرہ اس کے حوالے کردیا گیا۔ شہزادی نے بادشاہ سے کہہ دیا تھا کہ وہ اب اسی کمرے میں رہا کرے گی۔ بادشاہ نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ اس نے سپاہیوں کے افسر کو بلا کر ہدایت کردی کہ شہزادی کے کمرے کے باہر پہرے داروں کو تعینات کردیا جائے۔

اس افسر نے بارہ سپاہی شہزادی کے کمرے کی حفاظت کی غرض سے لگا دئیے۔ رات کو کھانے کے بعد شہزادی لیلیٰ بادشاہ اور ملکہ کے ساتھ اپنے نئے اور خوبصورت کمرے میں آئ۔ وہ بہت خوش تھی۔ اس کو خوش دیکھ کر بادشاہ اور ملکہ بھی خوش ہوگئے۔ تھوڑی دیر بیٹھ کر وہ دونوں تو واپس محل میں چلے گئے اور شہزادی کھڑکی کے پاس آکر باہر دیکھنے لگی۔

کھڑکی سے پورا باغ نظر آ رہا۔ باغ میں چاروں طرف طرح طرح کے خوشنما پھول کھلے ہوۓ تھے۔ درختوں پر پھل لگے ہوۓ تھے۔ رات ہونے کی وجہ سے تمام پرندے اپنے اپنے گھونسلوں میں جا چکے تھے۔ دن ہوتا تو شہزادی انھیں بھی چہچہاتا ہوا دیکھتی۔ کھڑکی میں سے باغ کا یہ حسین و جمیل منظر دیکھ کر شہزادی مسحور ہو کر رہ گئی تھی۔ کچھ دیر بعد اسے نیند نے آ لیا اور وہ اپنے بستر پر آکر سو گئی۔

اس کی آنکھ صبح ہی صبح کھل گئی تھی۔ وہ بستر سے پاؤں لٹکا کر بیٹھ گئی اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ مگر یہ کیا؟ کھڑکی میں سے اسے محل کے قریب بہتا ہوا دریا نظر آیا۔ دریا میں اسے کشتیاں بھی تیرتی نظر آئیں۔ ان میں سوار مچھیرے مچھلیاں پکڑنے میں مصروف تھے۔

خوف کی ایک سرد لہر شہزادی کے جسم میں دوڑ گئی۔ اسے اچھی طرح سے یاد تھا کہ رات سونے سے پہلے وہ کھڑکی میں سے باغ کا نظارہ کر رہی تھی۔ اس نے جو پھولوں کے پودے اور پھلوں کے درخت دیکھے تھے اسے اچھی طرح یاد تھے۔ اب اسی کھڑکی میں سے دریا کا منظر دیکھ کر وہ حیران اور پریشان ہو گئی تھی۔

اس نے جلدی سے جوتے پہنے اور بھاگی بھاگی بادشاہ کے پاس آئی۔ اس نے جلدی جلدی بادشاہ کو ساری بات بتائی۔ اس کی بات سن کر بادشاہ مسکرانے لگا۔ اس نے سوچا شہزادی نے کوئی خواب دیکھا ہوگا۔

اس کی بے یقینی شہزادی نے بھانپ لی تھی۔ “ابّا حضور۔ آپ کو میری بات کا یقین نہیں آ رہا۔ آپ خود چل کر دیکھ لیجیے”۔ اس نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنے ساتھ اس کمرے میں لائی۔ کمرے کے چاروں طرف سپاہی پہرا دے رہے تھے۔ بادشاہ کو دیکھ کر انہوں نے اسے تعظیم پیش کی۔

شہزادی اور بادشاہ جب کمرے میں داخل ہوۓ تو شہزادی کے منہ سے ایک ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ کھڑکی میں سے اب اسے محل کے قریب جو پہاڑیاں تھیں وہ نظر آ رہی تھیں۔ پہاڑیوں پر بے تحاشا جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں اور چند چرواہے وہاں اپنی بھیڑ بکریاں چرا رہے تھے۔

“بیٹی تم تو کہہ رہی تھیں کہ کھڑکی میں سے دریا نظر آ رہا ہے مگر یہ تو پہاڑیاں ہیں”۔ بادشاہ نے شہزادی سے کہا۔

“اس وقت دریا ہی نظر آ رہا تھا”۔ شہزادی بے بسی سے بولی۔

“چلو اب محل میں چلتے ہیں۔ دربار کا بھی وقت ہو رہا ہے۔ یہاں پھر بعد میں آئیں گے”۔ بادشاہ نے شفقت سے شہزادی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا۔ شہزادی سوچ میں ڈوبی اس کے ساتھ چل پڑی۔ محل میں پہنچ کر بادشاہ تو دربار میں چلا گیا۔ شہزادی نے پوری داستان ملکہ کو سنا دی۔

ملکہ کو یقین تھا کہ شہزادی جھوٹ نہیں بولتی۔ وہ سوچ میں پڑ گئی کہ معاملہ کیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہ بولی۔ “مجھے کچھ گڑ بڑ لگ رہی ہے۔ اب تم اکیلی اس کمرے میں مت رہنا”۔

شہزادی خود ڈر گئی تھی۔ وہ بھی اس جادو کے کمرے میں نہیں رہنا چاہتی تھی۔ شام ہونے سے پہلے بادشاہ تمام کاموں سے فارغ ہو گیا تھا۔ اس نے اپنے ساتھ ملکہ اور شہزادی کو لیا اور اس پراسرار کمرے کی طرف آیا۔ وہ لوگ وہاں پہنچے تو بادشاہ کو بھی ایک بات کھٹکی۔ اسے اچھی طرح سے یاد تھا کہ صبح جب وہ شہزادی کے ساتھ اس کمرے میں داخل ہوا تھا تو کمرے کے دروازے کے سامنے پانی کا فوارہ تھا۔ اب دروازے کے سامنے مور کا پنجرہ نظر آرہا تھا۔ بادشاہ نے اس بات کا تذکرہ شہزادی سے نہیں کیا تھا کہ کہیں یہ بات سن کر وہ مزید نہ ڈر جائے۔

جب وہ تینوں کمرے میں پہنچے تو کھڑکی والا منظر بدل گیا تھا اور باغ میں لگے پھول پودے نظر آ رہے تھے۔ “ابا حضور دیکھا آپ نے۔ میں سچ کہہ رہی تھی نا؟ شہزادی لیلیٰ نے بڑے جوش سے کہا۔

“ہماری بیٹی جھوٹ نہیں بولتی۔ تم سچ ہی کہہ رہی تھیں۔ اب ہمیں اس بات کا کھوج لگانا پڑے گا کہ کمرہ بار بار کیوں گھوم رہا ہے۔ جب تک ہم اس بات کا پتہ نہ چلا لیں کہ یہ معاملہ کیا ہے یہ ہمارا حکم ہے کہ اس کمرے کو مقفل کر دیا جائے اور چابی ہمارے حوالے کی جائے”۔

بادشاہ کے حکم کی فوراً تعمیل کی گئی۔ شہزادی کے اس نئے کمرے کو تالا لگا کر چابی بادشاہ کی خدمت میں پیش کردی گئی۔ بادشاہ نے سوچ لیا تھا کہ شیر افگن سے اس سلسلے میں بات کرے گا۔ وہ تو پڑوس کے ملک میں اس کے دوست بادشاہ کے کام سے گیا ہوا تھا اس لیے بادشاہ اس کا انتظار کرنے لگا۔

ایک ہفتے بعد شیر افگن کی واپسی ہوگئی۔ بادشاہ نے اسے فوراً طلب کرلیا۔ وہ حاضر ہوا اور ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا۔ بادشاہ نے کہا۔ “تم نے شہزادی کا کمرہ بہت اچھا بنایا ہے۔ مگر ایک بات سے ہم پریشان ہیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کی سمت تبدیل ہوجاتی ہے۔ کھڑکی میں سے کبھی باغ نظر آتا ہے، کبھی پہاڑیاں اور کبھی دریا اس کی وجہ کیا ہے ۔

شیر افگن نے ہاتھ باندھ کر عرض کی۔ “حضور والا۔ آپ کے ارشاد کے عین مطابق میں نے شہزادی صاحبہ کے لیے ایک بے مثال کمرہ بنانے کا سوچا تھا۔ چند سال پہلے میں ملک مصر گیا تھا۔ وہاں میں نے کل کا گھوڑا بھی دیکھا تھا۔ وہ گھوڑا ہوتا تو لکڑی کا ہے مگر اس کے اندر لوہے کی گراریاں وغیرہ لگی ہوتی ہیں اور ان کو چلانے کے لیے گھوڑے کی رکابوں میں کل پرزے لگے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے وہ دوڑتا بھاگتا ہے۔ اس کام کا ماہر میرا ایک دوست تھا ۔

میں نے کچھ عرصہ لگا کر اس سے اس ہنر کے بارے میں کافی معلومات حاصل کرلی تھیں۔ میں جب شہزادی صاحبہ کا کمرہ بنانے لگا تو مجھے خیال آیا کہ مصر سے سیکھے ہوۓ علم کو یہاں آزماؤں۔ میں نے اس کمرے کی بنیاد بہت ساری لوہے اور پیتل کی گراریوں پر رکھی اور ان کو کمرے سے باہر فرش میں لگی بڑی بڑی پکّی سلوں سے منسلک کر دیا۔ کوئی شخص اگر ان سلوں پر پاؤں رکھتا ہے تو کمرے کے نیچے لگی گراریاں حرکت کر کے کمرے کو تھوڑا سا گھما دیتی ہیں۔

کمرے کے باہر سپاہی چونکہ ہر وقت گشت میں مصروف رہتے ہیں اور اس گشت کے دوران ان کے قدم سلوں پر پڑتے رہتے ہیں اس لیے کمرہ بھی مسلسل حرکت کرتا رہتا ہے اور کھڑکی سے باہر کے مناظر تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ مجھے اچانک یہاں سے جانا پڑ گیا تھا ورنہ یہ باتیں میں آپ کو پہلے ہی بتا دیتا”۔

اس کی بات سن کر بادشاہ بہت متاثر ہوا۔ “شیر افگن تم واقعی بہت قابل اور ہنر مند ہو۔ ہمیں فخر ہے کہ ہماری رعایا میں تم جیسے لوگ بھی موجود ہیں۔ یہ سب تعلیم کا کمال ہے۔ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ علم حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ اس سے انسان کے دماغ میں بہت اچھے اچھے خیالات آتے ہیں اور ان خیالات کو عملی جامہ پہنا کر وہ پوری دنیا کے انسانوں کی بھلائی کے لیے کام کر سکتا ہے”۔

بادشاہ نے خوش ہو کر شیر افگن کو ڈھیر سارے انعام و اکرام سے نوازا۔ پھر اس نے شہزادی لیلیٰ کو بھی کمرے کی پوری تفصیل سے آگاہ کردیا۔ یہ تفصیل سن کر شہزادی کا خوف بھی دور ہو گیا اور وہ مزے سے باغ کے اس گھومنے والے کمرے میں رہنے لگی۔

یہاں پر ایک بات کا تذکرہ ضروری ہے۔ قابل اور اچھے لوگوں میں لالچ بالکل نہیں ہوتا۔ یہ ہی حال شیر افگن کا تھا۔ اسے جب بادشاہ کی طرف سے انعام ملا تو اس نے اس انعام کو خود اپنے پاس ہی نہیں رکھا۔ اس نے اس انعام میں سے ان تمام لوگوں کو بھی اپنی طرف سے حصہ دیا جنہوں نے شہزادی لیلیٰ کا کمرہ بنانے میں اس کی مدد کی تھی۔ وہ سب لوگ بھی خوش ہوگئے۔

ختم شد

گمشدہ انگوٹھی

گمشدہ انگوٹھی

ایک روز جب ملکہ نیلوفر کی ماں اس سے ملنے آئی تو یہ دیکھ کر اس کو بہت حیرت ہوئی کہ اس کی بیٹی پھول کر کپا ہوتی جارہی ہے۔ اتنی موٹی بیٹی کو دیکھ کر اس نے حیرت سے کہا ۔ “بیٹی تمہیں یہ کیا ہوتا جا رہا ہے؟”

“امی حضور ہم ٹھیک تو ہیں۔ آپ نے ہمیں بہت دنوں بعد دیکھا ہے اس لیے شائد ایسا کہہ رہی ہیں۔ بس تھوڑی سی کمزوری ہوگئی ہے، کھانے پینے کی طرف اور دھیان دیں گے تو ٹھیک ہوجائیں گے”۔

“بہت دنوں بعد دیکھنے کی بات نہیں ہے”۔ ملکہ کی ماں نے فکر مندی سے کہا۔ “تم بہت موٹی ہوگئی ہو اور یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے”۔

“اس میں کیا بری بات ہے”۔ ملکہ نے لاپرواہی سے کہا۔ “دنیا میں تو مجھ سے بھی زیادہ زیادہ موٹے لوگ پڑے ہیں۔ ہمارے وزیر خوراک تو اتنے موٹے ہیں کہ اس دن فرش پر گرپڑے تھے تو خود سے اٹھا بھی نہیں گیا۔ محافظوں نے اٹھا کر کھڑا کیا تھا”۔

“تمہیں ان لوگوں سے کیا مطلب؟ تم ایک ملکہ ہو۔ میں تو کہتی ہوں کہ سنجیدگی سے اس طرف دھیان دو۔ موٹا ہونا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ پورے جسم میں چربی بڑھ جاتی ہے جس سے مختلف بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ سانس لینے میں بھی دشواری ہوتی ہے۔ اپنا نہیں تو اپنے دونوں شہزادوں کا ہی خیال کرو۔ کیا تم چاہتی ہو کہ وہ سوتیلی ماں کے سائے میں پرورش پائیں۔ یاد رکھو میری بات نہیں مانو گی تو پچھتاوٴ گی۔ ان بادشاہوں کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ دوسری شادی کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ پھر بیٹھی رہنا آرام سے ایک کونے میں”۔

ملکہ اپنی ماں کی بات کا جواب دینے ہی والی تھی کہ بادشاہ اندر داخل ہوا۔ ان دونوں کو باتیں کرتا دیکھ کر اس نے کہا ۔ “ہم معافی چاہتے ہیں کہ آپ کی باتوں میں مخل ہوئے۔ پھر وہ ملکہ سے مخاطب ہوا ۔ “پرسوں پڑوس کے بادشاہ ہمارے ملک میں تشریف لا رہے ہیں۔ ہم نے سوچا کہ آپ کو بتادیں تاکہ آپ تیار رہیں”۔

“پڑوس میں تو کئی ملک ہیں۔ آپ کس کی بات کررہے ہیں؟” ملکہ نے پوچھا۔

“وہ ہی ہمارے دوست بادشاہ جن کی ملکہ دبلی پتلی سی ہیں”۔ یہ کہہ کر بادشاہ تو چلا گیا اور ملکہ کی ماں معنی خیز نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔

ملکہ کے بھی کان کھڑے ہوگئے تھے۔ ماں سے بولی۔ “بادشاہ سلامت اپنے دوست کا نام بھی لے سکتے تھے۔ انہوں نے دبلی پتلی والی نشانی کیوں بتائی”۔

“بیٹی میں ان مردوں کو خوب جانتی ہوں۔ ہر بات گھما پھرا کر کرتے ہیں”۔ اس کی ماں نے جواب دیا۔ ملکہ سوچ میں پڑ گئی اور کچھ دیر بعد بولی۔ “امی حضور آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ میں غلطی پر تھی۔ اب میں اپنا خیال رکھوں گی اور پھر پہلے والی نیلوفر بن جاوٴں گی۔ بادشاہ سلامت کے ارادے ٹھیک نظر نہیں آتے۔ ایسا نہ ہو کہ ان کی دو ملکائیں ہوجائیں، ایک موٹی اور ایک دبلی۔ مجھے یاد پڑ رہا ہے کہ چند دنوں پہلے جب میں ان کے پاس بیٹھی تھی اور قصہ گو انھیں کہانی سنانے آیا تو اس سے کہہ رہے تھے کہ بارہ من کی دھوبن والی کہانی سناوٴ۔ میری کسی بات سے ناراض ہو گئے تھے تو بولے ملکہ تم سے بات کرنا بس ایسا ہی ہے جیسے بھینس کے آگے بین بجانا۔ آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں وہ بھی میرے موٹاپے سے خوش نہیں ہیں مگر ڈر کے مارے کچھ نہیں کہتے، البتہ گھما پھرا کے اشاروں اشاروں میں مجھے احساس دلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں”۔

بیٹی کو قائل ہوتا دیکھا تو ملکہ کی ماں خوش ہوگئی۔ اپنی انگوٹھی اتار کر اس کو دی اور بولی۔ “اس انگوٹھی کو پہن لو۔ اس وقت تو یہ تمہاری انگلی میں مشکل سے ہی آئے گی، وجہ تم جانتی ہی ہو۔ مگر جیسے جیسے تم دبلی ہوتی جاوٴ گی یہ تمہاری نگلی میں ڈھیلی پڑتی جائے گی۔ بس تم سمجھ لینا کہ اب تم پھرسے پہلے والی نیلوفر بن گئی ہو۔ مگر بیٹی یاد رکھنا یہ انگوٹھی تمہارے ابّا حضور نے ہمیں شادی کے موقع پر دی تھی۔ اس کو اپنی جان سے زیادہ سنبھال کر رکھنا۔ میں پھر کبھی آوٴں گی تو واپس لے لوں گی”۔

ملکہ نیلوفر نے ماں سے انگوٹھی لے لی اور بڑی مشکلوں سے اسے ایک انگلی میں پہن لیا۔ انسان کوشش کرے تو ہر چیز ممکن ہے۔ ملکہ نیلوفر نے دبلا ہونے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اس نے پہلے کی طرح کھانا پینا چھوڑ دیا تھا۔ پہلے اس کا دھیان ہر وقت کھانے پینے کی چیزوں کی طرف لگا رہتا تھا اور وہ صبح، دوپہر اور رات کا انتظار صرف اس لیے کرتی تھی کہ خوب مزے سے طرح طرح کے کھانے کھائے گی۔ اب اس نے اپنی زیادہ کھانے والی عادت پر قابو پالیا تھا۔ سب دسترخوان پر بیٹھتے تو مزے مزے کے کھانے کھا رہے ہوتے مگر ملکہ نیلوفر کچی سبزیاں اور پھل کھاتی۔

شاہی طبیبہ بھی اس کے رابطے میں تھی۔ اس نے ملکہ کو پیدل چلنے کا مشور بھی دیا تھا اور دوسری مفید باتیں بھی بتائی تھیں۔ ملکہ روز محل کی چھت پر جا کر چہل قدمی کرتی۔ کبھی کبھی اس کے ساتھ بادشاہ بھی چلا جاتا تھا۔ جس روز اس کے ساتھ بادشاہ نہ ہوتا تو وہ دوڑ بھی لگا لیتی تھی۔ بادشاہ کے سامنے دوڑنے سے اسے شرم آتی تھی کیونکہ اسے دوڑتا دیکھ کر وہ مذاق مذاق میں ضرور اس گائے کی مثال دیتا جو رسی تڑا کر بھاگ گئی تھی۔

ملکہ کی کوششیں رنگ لا رہی تھیں اور وہ تیزی سے اپنی پہلی والی حالت کی طرف آنے لگی تھی، اتنی دبلی پتلی کہ اگر ناک پکڑ لو تو دم نکل جائے۔ ایک دن تو چھوٹے شہزادے نے بھی اپنے دل کی بات اس سے کہہ دی۔ “امی حضور۔ اب تو ہمیں آپ سے ڈر بھی نہیں لگتا۔ آپ جب موٹی تھیں تب بہت ڈر لگتا تھا”۔

بادشاہ بھی اس تبدیلی سے خوش تھا۔ ایک روز بڑے پیار سے بولا۔ “ملکہ آپ شائد ہماری بات کا برا مان گئی تھیں”۔

ملکہ کو یاد ہی نہیں آ رہا تھا کہ بادشاہ کا اشارہ کس بات کی طرف ہے۔ وہ سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔ بادشاہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ “یاد نہیں ایک روز ہم نے اپنے دوست بادشاہ کی دبلی پتلی ملکہ کا حوالہ دیا تھا”۔

ملکہ نے کہا ۔ “آپ کی بات کا ہم نے برا نہیں منایا تھا۔ دبلا ہونے کا مشورہ تو ہمیں ہماری امی حضور نے دیا تھا”۔

بادشاہ سر ہلا کر خاموش ہوگیا۔ ایک روز بادشاہ، ملکہ اور دونوں شہزادے سیروتفریح کے لیے دریا کے کنارے پہنچے۔ وہاں وہ دیر تک گھومتے پھرتے رہے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد جب ملکہ دریا کے پانی سے ہاتھ دھو رہی تھی تو انگوٹھی اس کی انگلی سے نکل کر دریا میں جا گری۔ ملکہ کو خیال ہی نہیں رہا تھا کہ اب اس کی انگلیاں پتلی پتلی ہو گئی ہیں پہلے جیسے نہیں رہیں۔

انگوٹھی دریا میں گری تو ملکہ کو یوں لگا جیسے اس کی جان نکل گئی ہو۔ اس کے منہ سے ایک ہلکی سی چیخ نکل گئی جسے اور کسی نے تو نہیں مگر بادشاہ نے سن لیا تھا۔ وہ تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا ملکہ کے پاس آیا اور اس کے چیخنے کا سبب معلوم کیا۔

ملکہ روہانسی ہو گئی تھی، آنکھوں میں آنسو بھر کر بولی۔ “ابا حضور نے امی حضور کو جو شادی والے روز دی تھی وہ دریا میں گر گئی ہے”۔

بادشاہ کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ سر کھجا کر بولا۔ “ہائیں۔ آپ کی امی حضور دریا میں گر گئی ہیں، مگر وہ تو ہمارے ساتھ آئی ہی نہیں تھیں پھر کیسے گر پڑیں”۔

“آپ سمجھے نہیں۔ امی نے ہمیں جو انگوٹھی دی تھی ہم اس کی بات کر رہے ہیں۔ وہ ہماری انگلی سے پھسل کر دریا میں گر پڑی ہے”۔ ملکہ نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا اور دوبارہ رونے والا منہ بنانے لگی۔ ملکہ کی ماں بادشاہ کی ساس تھی۔ انگوٹھی کے کھوجانے سے وہ غصہ کرتی۔ بادشاہ ساس کے غصے سے بہت ڈرتا تھا۔ وہ ملکہ کی بات سن کر فکر مند ہوگیا۔

قریب ہی مچھیروں کا ایک گاوٴں تھا۔ بادشاہ نے اپنے ساتھ آئے ہوئے کچھ سپاہیوں کو وہاں بھیجا تاکہ وہ کسی ماہر غوطہ خور کو لائیں اور وہ انگوٹھی کو تلاش کریں۔ تھوڑی دیر میں بہت سے ماہی گیر وہاں آ موجود ہوئے۔ معاملہ شاہی خاندان کا تھا اس لیے سب کو یہ لالچ تھا کہ اگر انگوٹھی مل گئی تو بادشاہ اتنا انعام دے گا کہ سارے دلّددر دور ہوجائیں گے۔ بادشاہ نے ملکہ کو دور ایک درخت کے نیچے بیٹھا دیا تاکہ جب تک انگوٹھی نہ ملے وہ وہاں بیٹھ کر روتی رہے۔

دونوں شہزادے دریا کے کنارے کھڑے ہو کر حیرت اور دلچسپی سے غوطہ خوروں کو دیکھنے لگے۔ غوطہ خور ایک کے بعد ایک دریا میں کودتے رہے۔ جب کافی دیر بعد وہ پانی میں سے نکلے تو سب کے چہروں پر ناکامی کے اثرات تھے۔ انگوٹھی نہیں ملی تھی۔

ان غوطہ خوروں میں حارث نام کا ایک سولہ سال کا لڑکا بھی تھی۔ وہ بچپن سے ہی مچھلیاں پکڑتا چلا آیا تھا اور بچپن سے اب تک اس کا سارا وقت دریا کے کنارے یا دریا کے اندر رہ کر گزرا تھا۔ اسے انعام کا لالچ نہیں تھا۔ وہ اپنے بادشاہ کو پسند کرتا تھا اس لیے اس کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ اس نے دریا کی تہہ اچھی طرح کھنگالی تھی، مگر دوسروں کی طرح اسے بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کو اس بات کا بہت افسوس تھا کہ وہ بادشاہ کے کسی کام نہ آسکا۔

کچھ دیر بعد شام ہوگئی اس لیے بادشاہ نے فیصلہ کیا کہ اندھیرا پھیلنے سے پہلے پہلے محل کی طرف روانگی ہوجائے تو بہتر ہے۔ ان کی روانگی کے بعد وہ سب بھی جو انگوٹھی کی تلاش میں آئے تھے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ حارث بھی گھر چلا گیا۔ ماں کے پوچھنے پر اس نے افسردگی سے ماں کو بتا یا کہ ملکہ کی انگوٹھی نہیں ملی۔ اس کی ماں بھی افسوس کر کے خاموش ہوگئی۔

اگلے روز حارث اپنا جال لے کر دریا پر پہنچا۔ اس کے ذہن میں یہ خیال آیا تھا کہ انگوٹھی کسی مچھلی نے نگل لی ہوگی، اور ہوسکتا ہے وہ مچھلی اس کے جال میں پھنس جائے۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ آج جتنی بھی مچھلیاں پکڑے گا ان کو فروخت کرنے کے لیے بازار لے کر نہیں جائے گا۔ ان مچھلیوں کو وہ گھر میں بیٹھ کر کاٹے گا، اگر کسی مچھلی کے پیٹ میں وہ انگوٹھی موجود ہوئی تو بس سمجھو مزے آجائیں گے۔

اتفاق کی بات صبح سے دوپہر ہوگئی۔ اس کے جال میں ایک مچھلی بھی نہیں آئی۔ اس کو مایوسی تو بہت ہوئی مگر اس نے ہمت نہیں ہاری۔ ماں نے اس کو دوپہر کے لیے کھانا دیا تھا، اس نے وہ کھایا۔ تھوڑی دیر ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر آرام کیا اس کے بعد اللہ کا نام لے کر جال کو پھر دریا میں پھینک دیا۔ جال کو باہر نکالا تو اس میں کوئی مچھلی نہیں تھی۔ شام تک یہ ہی ہوتا رہا، وہ جال پھینک کر اس کو نکالتا تو وہ خالی ہی ہوتا تھا۔ سورج ڈوبنے لگا تھا۔ تھوڑی دیر میں وہ غروب ہوجاتا اور اندھیرا پھیل جاتا۔ اس نے دل میں سوچا کہ بس اب وہ آخری مرتبہ جال پھینکے گا، کوئی مچھلی آئے یا نہ آئے اس کے بعد وہ گھر روانہ ہوجائے گا۔

اس نے دریا میں جال پھینک کر تھوڑی دیر بعد اسے نکالا اور یہ دیکھ کر اسے بے انتہا خوشی ہوئی کہ دو چھوٹی چھوٹی مچھلیاں جال میں تڑپ رہی ہیں۔ یہ دیکھ کر اس کو حیرت بھی ہوئی کہ ان میں سے ایک مچھلی سرخ رنگ کی تھی اور دوسری سبز۔ حارث نے اپنی پوری زندگی میں ایسی عجیب و غریب مچھلیاں نہیں دیکھی تھیں۔ اس نے مچھلیاں نکال کر اپنے ساتھ لائے ہوئے پانی کے لکڑی کے ڈول میں ڈالیں اور جال سمیٹنے لگا۔ اتنے میں اس کے کانوں میں کسی کی آواز آئی۔ “مچھیرے مچھیرے ہم پر ظلم نہ کرو۔ ہمیں آزاد کردو”۔

حارث نے چونک کر ڈول کی طرف دیکھا، سرخ رنگ کی مچھلی پانی سے سر نکال کر اسے دیکھ رہی تھی۔ مچھلی کو باتیں کرتا دیکھ کر حارث حیرت زدہ رہ گیا۔ اس نے جال ایک طرف پھینکا اور زمین پر بیٹھ کر بولا۔ “پھر سے کہنا کیا کہہ رہی تھیں تم؟”

سرخ مچھلی نے پھر وہ ہی کہا جو وہ پہلے کہہ چکی تھی۔ حارث سوچ میں پڑ گیا۔ وہ مچھلی پھر بولی۔ “ہم سات رنگوں کی سات بہنیں ہیں، سرخ، نارنجی، پیلی، سبز، نیلی، جامنی اور گہرے نیلے رنگ کی۔ جب ہماری دوسرے رنگوں کی بہنیں ہم دونوں کو نہیں پائیں گی تو رو رو کر ہلکان ہوجائیں گی۔ ہماری نیلی بہن تو بات بات پر رونے لگتی ہے۔ ہم پر رحم کرو”۔

حارث نیک دل لڑکا تھا، بولا۔ “تمہاری درخواست میں ضرور مانوں گا۔ میں تمہیں آزاد کردوں گا، مگر تمہاری اس سبز رنگ کی بہن کو چھوڑنے کے لیے میری ایک شرط ہے، اگر تم وہ پوری کردو گی تو میں اسے بھی چھوڑ دونگا”۔

تم دولت چاہتے ہو۔ ہم ساتوں بہنیں دن بھر دریا میں گھومتی پھرتی رہتی ہیں۔ ہم نے بہت سے قیمتی موتی جمع کر رکھے ہیں۔ وہ موتی اگر میں تمہارے حوالے کردوں تو کیا تم میری سبز بہن کو چھوڑ دو گے؟”۔ مچھلی نے پوچھا۔

“ہر گز نہیں۔ مجھے دولت وغیرہ اور قیمتی موتیوں کا کوئی لالچ نہیں ہے۔ میں تو چاہتا ہوں کہ تم مجھے ملکہ کی انگوٹھی دریا میں سے ڈھونڈ کر لا دو۔ اب تو رات ہوگئی ہے۔ میں گھر چلتا ہوں۔ صبح پھر آوٴں گا”۔ یہ کہہ کر حارث نے سرخ مچھلی کو ڈول میں سے نکال کر دریا میں چھوڑ دیا اور بولا۔ “تم نے میری بات سن لی ہے نا، میں کل پھر آوں گا۔ تمہاری بہن کو میں اپنے ساتھ لئیے جا رہا ہوں۔ تم مجھے انگوٹھی لا کر دے دو گی تو میں اس کو بھی آزاد کردوں گا”۔

“اس کا دھیان رکھنا۔ یہ باریک پسے ہوئے چاول شوق سے کھاتی ہے۔ میں کل صبح اپنی دوسری بہنوں کے ساتھ انگوٹھی کی تلاش شروع کردوں گی”۔ سرخ مچھلی نے کہا۔

حارث گھر آگیا۔ ڈول کو اس نے احتیاط سے گھر کے اندر رکھ دیا اور تھوڑے سے چاول پیس کر ڈول کے پانی میں ڈال دئیے تاکہ مچھلی ان کو کھا لے۔ اگلے روز وہ صبح ہی صبح اٹھ گیا۔ دریا پر پہنچا تو سرخ مچھلی بے چینی سے اس کا انتظار کر رہی تھی۔ اس کے پیچھے اس کی پانچوں رنگ برنگی بہنیں جھانک جھانک کر حارث کو دیکھ رہی تھیں۔ سرخ مچھلی نے اپنے منہ میں ملکہ کی انگوٹھی بھی دبا رکھی تھی۔ انگوٹھی دیکھ کر حارث خوش ہوگیا۔ اس نے انگوٹھی مچھلی کے منہ سے نکال لی اور سبز مچھلی کو پانی میں چھوڑ دیا۔ ان کی دوسری بہنیں خوشی سے ناچنے لگیں۔ حارث ان کے لیے بہت سے پسے ہوئے چاول بھی لایا تھا، وہ چاول اس نے پانی میں ڈال دئیے۔ مچھلیاں خوش ہو کر ان کو کھانے لگیں اور پھر وارث وہاں سے محل کی طرف چلدیا۔ ملکہ کی انگوٹھی کو اس نے احتیاط سے اپنے کپڑوں میں چھپالیا تھا۔

بادشاہ کے محل کے دروازے پر دربان کھڑے تھے۔ حارث نے کہا ۔ “میں بادشاہ سلامت سے ملنا چاہتا ہوں۔ مجھے ان کے پاس لے چلو”۔

اس کی بات سن کر پہلے تو دربان قہقہے لگا کر ہنستے رہے پھر ایک نے آگے بڑھ کر اس کا کان پکڑ لیا اور اسے مروڑتے ہوئے بولا ۔ “تجھے بادشاہ سے کیا کام ہے؟ ان سے کیوں ملنا چاہتا ہے”۔

حارث کے کان میں درد ہونے لگا تھا۔ وہ بولا۔ “میں نے کیا کیا ہے جو تم میرا کان مروڑ رہے ہو۔ میں بادشاہ سلامت سے کیوں ملنا چاہتا ہوں، ان ہی کو بتاوٴں گا تمہیں نہیں”۔

دربان نے اس کی بات کو اپنی بے عزتی تصور کیا۔ اس نے حارث کو ایک دھکا دیا اور بولا ۔ “چل بھاگ۔ بڑا آیا”۔

حارث گرتے گرتے بچا تھا، اس نے کہا۔ “تم لوگ پچھتاوٴ گے”۔

دربانوں نے اس کی ایک نہیں سنی اور اسے بھگا دیا۔ قریب سے شاہی مالی گزر رہا تھا۔ حارث نے کہا “دیکھو یہ دربان میرے ساتھ کیسا سلوک کررہے ہیں”۔

مالی نے کہا ۔ “یہ ہی کیا ساری دنیا ہی ایسی ہے”۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ حارث بھی نا امید ہو کر وہاں سے چلا آیا۔ دربانوں کے اس رویے سے اس کا دل اداس ہوگیا تھا۔ ابھی وہ اپنے گھر کے پاس پہنچا ہی تھا کہ اسے ایک قافلہ آتا نظر آیا۔ قافلے کو دیکھنے کے لیے بہت سے لوگ جمع تھے۔ اس کے پوچھنے پر ایک شخص نے بتایا کہ یہ قافلہ ملکہ صاحبہ کی ماں کا ہے۔ وہ اپنی بیٹی سے ملنے آ رہی ہیں۔ یہ سن کر حارث خوش ہوگیا۔ اس نے سوچا کہ وہ اس انگوٹھی کو ملکہ کی ماں کو دے دے گا۔ وہ اسے بحفاظت ملکہ صاحبہ تک پہنچا دیں گی۔

اس نے دیکھا کہ ایک خوبصورت سی ڈولی ہے، اس کو چار کہاروں نے اٹھا رکھا ہے اور ڈولی کے چاروں طرف گھوڑے پر سوار سپاہی ہیں۔ حارث سمجھ گیا کہ ملکہ کی ماں اسی ڈولی میں ہو گی۔ وہ ڈولی کے قریب گیا اور چلا کر بولا۔ “ملکہ صاحبہ کی امی۔ ملکہ صاحبہ کی امی”۔

ڈولی کا پردہ ہٹا اور ملکہ کی ماں نے باہر جھانکا۔ حارث اس کے قریب گیا اور انگوٹھی نکال کر اسے دیتے ہوئے بولا۔ “آپ محل جا رہیں ہیں۔ یہ انگوٹھی ملکہ صاحبہ کے حوالے کردیجئے گا”۔

انگوٹھی دیکھ کر ملکہ کی ماں کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ “ارے یہ تو میری شادی والی انگوٹھی ہے۔ میں اسی کو تو لینے آئی ہوں، لڑکے تمہیں یہ کہاں سے ملی؟”

حارث نے انھیں ساری داستان سنا دی۔ انہوں نے حارث کو بہت شاباش دی اور اپنا چمڑے کا تھیلا کھول کر مٹھی بھر کر سونے کی اشرفیاں اسے انعام کے طور پر دے کر بولیں۔ “انہیں سنبھال کر رکھو۔ گھر جا کر اپنی ماں کو دے دینا”۔

پھر اس نے حارث کو بھی اپنے ساتھ بٹھایا اور اس کو محل میں لے آئیں۔ جب وہ لوگ محل کے صدر دروازے پر پہنچے تو حارث نے ڈولی کا پردہ ہٹا کر دربانوں سے کہا۔ “تمہاری شکایت میں بادشاہ سلامت سے کروں گا”۔

دونوں دربانوں نے جب حارث کو ملکہ کی ماں کے ساتھ دیکھا تو ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ جب وہ لوگ محل میں پہنچے تو اپنی ماں کو دیکھ کر ملکہ نیلوفر کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ وہ پریشان ہوگئی کہ اب انگوٹھی کے بارے میں کیا جواب دے گی۔ ملکہ کی ‍‍ماں کو اس کی شکل دیکھ کر ترس آگیا۔ اس نے محبّت سے بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولی۔ “بیٹی پریشان مت ہو۔ انگوٹھی کو یہ لڑکا ڈھونڈ کر لے آیا ہے”۔

ملکہ کا تو خوشی کے مارے برا حال تھا۔ اتنی دیر میں بادشاہ بھی وہاں آگیا۔ اس کے کہنے پر حارث نے پوری کہانی سب کو سنائی۔ اس عجیب و غریب کہانی کو سن کر سب حیرت زدہ رہ گئے۔ بادشاہ نے حارث کی بہت تعریف کی اور کہا “یہ لڑکا بہت ایماندار ہے۔ یہ اگر چاہتا تو اس قیمتی انگوٹھی کو بیچ کر ہزاروں اشرفیاں حاصل کرسکتا تھا۔ ہمیں اس بات پر بھی بہت خوشی ہے کہ گمشدہ انگوٹھی پاکر ہماری دبلی پتلی پیاری ملکہ پھر سے مسکرانے لگی ہیں”۔

اس کے بعد بادشاہ نے حارث کو بہت سی اشرفیاں انعام میں دیں اور شاہی بگھی میں بٹھا کر اس کے گھر بھیج دیا۔ حارث ایک نیک لڑکا تھا۔ اس نے بادشاہ سے دربانوں کے برے سلوک کا ذکر نہیں کیا تھا ورنہ انھیں اپنی نوکری سے ہاتھ دھو نے پڑجاتے۔ حارث کی ماں ایک غریب عورت تھی۔ اس نے ملکہ کی ماں اور بادشاہ کی دی ہوئی اتنی بہت سی اشرفیاں دیکھیں تو وہ خوشی سے پھولے نہ سمائی۔ تھوڑے دنوں کے بعد حارث نے کچھ اشرفیاں بیچ کر ایک اچھا سا گھر بنوا لیا اور کپڑے کا کاروبار کرنے لگا۔ اس کو جب بھی فرصت ملتی تھی، وہ تھوڑے سے پسے ہوئے چاول لے کر دریا پر پہنچ جاتا اور منہ سے سیٹی بجاتا۔ ساتوں کی ساتوں مچھلی بہنیں اس کی سیٹی کی آواز سن کر دریا کے کنارے پر آجاتیں اور مزے سے اپنی پسند کے چاول کھاتیں۔

ختم شد

شہزادی اور لکڑ ہارا

شہزادی اور لکڑ ہارا

شہزادی سلطانہ بادشاہ کی شادی کے بعد بڑی منتوں مرادوں کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ بادشاہ اور ملکہ تو اس کی پیدائش پر خوش تھے ہی مگر جس روز وہ پیدا ہوئی تھی پورے ملک میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔ ہر طرف جشن منایا جا رہا تھا۔ بادشاہ کو تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ اتنی پیاری بیٹی کا باپ بن گیا ہے۔

وہ بار بار ملکہ کے پاس جا کر بیٹھ جاتا اور ننھی شہزادی کو دیکھ کر خوش ہوتا۔ ملکہ اس کو دیکھ دیکھ کر مسکراتی تھی۔ ملکہ نے اس سے کہا بھی کہ وہ شہزادی کو گود میں لے لے مگر بادشاہ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ شہزادی اتنی سی تو ہے، ہماری گود سے گر نہ پڑے۔

شہزادی بے انتہا خوبصورت تھی۔ اس کی آنکھیں بڑی بڑی رنگ شہابی اور بال سنہری تھے۔ وہ روتی تھی تو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے چاروں طرف جلترنگ بجنے لگے ہوں۔ اس کی ہنسی کی آواز کیسی تھی، یہ کوئی نہیں بتا سکتا کیوں کہ اتنے چھوٹے بچے ہنستے نہیں صرف مسکراتے ہیں۔

بادشاہ کا دل اب دربار میں بھی نہیں لگا کرتا تھا، اس کا تمام دھیان شہزادی سلطانہ میں ہی لگا رہتا تھا۔ شہزادی سلطانہ کی پرورش بڑے ناز و نعم سے ہو رہی تھی۔ اس کے کھلونے سات سمندر پار سے آتے تھے۔ ماہر کاریگر ریشم کے کیڑوں سے حاصل کردہ ریشم سے اس کے لباس بناتے تھے۔ اس کے جوتے نہایت ہلکے پھلکے ہوتے تھے کیوں کہ وہ جانوروں کی کھال کے بجائے قیمتی پرندوں کی کھال سے تیار کیے جاتے تھے۔ اس زمانے میں پیمپروں کا رواج نہیں تھا ورنہ ملکہ بیش قیمت پیمپر بھی منگوا کر رکھتی۔ شہزادی سلطانہ کی دیکھ بھال کے لیے خصوصی کنیزیں رکھی گئی تھیں، جو ہر وقت اس کے آس پاس رہتی تھیں۔

رات کو بستر پر ملکہ اس کونے پر سوتی تھی، بادشاہ دوسرے کونے پر اور بیچ میں شہزادی سلطانہ۔ وہ ایک ٹانگ بادشاہ پر اور دوسری ملکہ پر رکھ کر بے خبر سوجاتی تھی۔

شہزادی سلطانہ کی پرورش بہت لاڈ پیار سے ہو رہی تھی اور اس لاڈ پیار نے اسے کسی حد تک بگاڑ دیا اور وہ کافی بدتمیز ہو گئی تھی۔ وہ کسی کا کہنا نہیں مانتی تھی، کھانے کی کوئی چیز پسند نہ ہوتی تو اس کو پھینک دیتی۔ ملکہ سے چیخ کر بات کرتی تھی، باپ سے چیخ کر بات تو نہیں کرتی تھی، لیکن اگر اسے بادشاہ کی کوئی بات پسند نہ آتی تو دانت پیس کر اس کے چٹکی بھر لیا کرتی تھی۔ یہ بات نہیں تھی کہ وہ صرف ملکہ کا کہا ہی نہیں مانتی تھی، بادشاہ بھی اس سے کچھ کہتا تو وہ اس کی بات بھی نہیں مانتی تھی۔

یہ سب اس کے بچپن کی باتیں تھیں۔ بادشاہ اور ملکہ ان باتوں کو اس لیے نظر انداز کرتے رہے کا وہ بچی تھی اور اکلوتی تھی اور شادی کے بہت سالوں بعد پیدا ہوئی تھی۔ مگر بادشاہ کا ماتھا اس دن ٹھنکا، جب اپنی سولہویں سالگرہ کی تقریب میں غصے میں آ کر اس نے کیک کو زمین پر گرا دیا۔ اس تقریب میں وزیر، مشیر اور امرا اپنی بیگمات کے ساتھ شامل تھے۔

شہزادی سلطانہ کی اس حرکت سے بادشاہ کی سخت بے عزتی ہوئی تھی۔ وہ محفل سے اٹھ کر چلا گیا۔ خود ملکہ بھی سناٹے میں رہ گئی تھی۔ اس نے شہزادی کو سرزنش کی تو شہزادی اس سے بدزبانی کرنے لگی۔ اس نے میز پر رکھے ہوئے مشروبوں کے پیالے زمین پر پھینک دیے اور روتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔

اگلے روز اس کے اس سلوک کا جگہ جگہ چرچا ہو گیا تھا۔ لوگ سخت افسوس کر رہے تھے کہ ان کا بادشاہ کس قدر اچھا اور رعایا پرور ہے مگر اس کی بیٹی کو دیکھو، نہایت چڑ چڑی، بددماغ اور بداخلاق ہے۔ اللہ ایسی بیٹی دشمن کو بھی نہ دے۔

بادشاہ کے کانوں میں بھی یہ باتیں پڑنے لگی تھیں۔ وہ بہت غمزدہ تھا۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کے اور ملکہ کے لاڈ پیار نے شہزادی کو دو کوڑی کا کردیا ہے۔ غلطی ان ہی کی تھی مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔ ملکہ بھی بہت پریشان تھی۔

سالگرہ والے واقعہ کے بعد بادشاہ اور ملکہ نے شہزادی سے بات چیت کم کردی تھی مگر شہزادی کو اس بات کی پرواہ بھی نہیں تھی۔ اپنی غلطی اگر تسلیم کرتی تو خود کو بدلنے کی کوشش کرتی، مگر اس نے آج تک خود کو غلط سمجھا ہی نہیں تھا۔

بادشاہ چپ چپ رہنے لگا تھا۔ اگر ایسی بیٹی کسی اور کی بھی ہو تی تو وہ بے چارہ بھی چپ چپ ہی رہتا۔ بادشاہ کو یوں چپ چپ دیکھ کر ایک روز اس کے وفادار اور عقلمند وزیر نے کہا۔ “جہاں پناہ۔ ایسے تو حالات ٹھیک نہیں ہونگے۔ ان کو ٹھیک کرنے کی کوئی تدبیر کرنا ہوگی۔ میرا تو خیال ہے کہ شہزادی صاحبہ کی شادی کردی جائے۔ امید ہے کہ شادی کے بعد وہ ٹھیک ہو جائیں گی”۔

بادشاہ نے کہا۔ “منہ پھٹ اور بدتمیز لڑکیوں سے کون شادی کرتا ہے۔ شہزادی سلطانہ کے ساتھ کوئی نوجوان شادی پر تیار نہیں ہوگا”۔

بادشاہ کی بات سن کر وزیر سوچ میں پڑ گیا۔ بہت دیر تک سوچنے کے بعد اس نے کہا۔ “جہاں پناہ۔ اگر آپ میری بات پر عمل کریں تو مجھے پکّا یقین ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا”۔

بادشاہ نے بے بسی سے کہا۔ “اے وزیر اس پریشانی سے نکلنے کے لیے ہم تمھاری ہر بات ماننے کو تیار ہیں”۔

وزیر بولا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ اپنے رویے اور لہجے میں سختی پیدا کریں۔ بچوں سے ہر وقت نرم لہجے کی گفتگو انھیں خودسر بنا دیتی ہے۔ دوسری بات میں آپ کو بعد میں بتاوٴں گا”۔

بادشاہ نے حامی بھرلی کہ وہ ایسا ہی کرے گا۔ بادشاہ جب محل میں پہنچا تو شہزادی سلطانہ کا موڈ خوشگوار تھا۔ باپ کو دیکھ کر وہ دوڑ کر اس کے قریب آئی اور محبت سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ “ابّا حضور آپ مجھ سے ناراض نہ ہوا کریں”۔

بادشاہ نے اپنا ہاتھ اس سے چھڑا لیا اور کچھ درشت لہجے میں بولا۔ “شہزادی۔ آپ محل کے آداب کا خیال رکھا کیجیے۔ ہم اس سلطنت کے شہنشاہ ہیں، یہ ٹھیک ہے کہ ہم آپ کے باپ ہیں مگر تمیز بھی کوئی چیز ہوتی ہے”۔

یہ کہہ کر بادشاہ وہاں سے تیز تیز چلتا ہوا باہر نکل گیا۔ شہزادی سلطانہ کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔ بادشاہ کی اس بات نے اسے سہما دیا تھا حالانکہ اسے غصہ بھی آرہا تھا۔ اس نے اس بات کی شکایت ملکہ سے کی۔ ملکہ تو خود اس کے برے رویے سے تنگ تھی ، بیرخی سے بولی۔ “اتنی بڑی ہو گئی ہو، کچھ تو تمیز سیکھ لو”۔

شہزادی سلطانہ ماں کو تو کچھ سمجھتی ہی نہیں تھی، اس کی بات سن کر غصے میں پاوٴں پٹختے ہوئے چلی گئی۔

رات کو بادشاہ نے ملکہ سے کہا۔ “ملکہ ہم چاہتے ہیں کہ اب شہزادی سلطانہ کی شادی کر دی جائے”۔

ملکہ اداسی سے بولی۔ “اس سے کون شادی کرے گا۔ اس کی بدمزاجی کے قصے تو بچے بچے کی زبان پر ہیں”۔

ملکہ کی بات بادشاہ کے دل پر لگی تھی اور اس کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ وہ خاموش ہوگیا۔ ان تمام واقعات کے بعد شہزادی سلطانہ اپنے کمرے میں ہی بند ہو کر رہ گئی تھی۔

شام کو وزیر بادشاہ سے ملنے آیا، اس کے آنے کی خبر سنی تو بادشاہ کو یاد آگیا کہ وزیر نے شہزادی والے معاملے میں کوئی بات بتانے کا وعدہ کیا تھا۔ اس نے فوراً وزیر کو طلب کرلیا اور وہ دونوں ایک کمرے میں بیٹھ کر چپکے چپکے باتیں کرنے لگے۔

اگلے دن بادشاہ کی ہدایت پر ملکہ نے شہزادی سلطانہ کو یہ اطلاع دی کہ اس کی شادی طے کردی گئی ہے ۔ شہزادی نے یہ سنا تو وہ پھٹ پڑی۔ “ہاں ہاں کردیجیے میری شادی۔ میں خود اب یہاں نہیں رہنا چاہتی ہوں”۔

کچھ دنوں بعد شادی کی تقریب ہوئی۔ شام کو شہزادی کو اس کے شوہر کے ساتھ ایک بگھی میں بیٹھا کر روانہ کردیا گیا۔ شادی بڑی سادگی سے ہوئی تھی، نہ دھول تاشے بجے نہ آتش بازی کی گئی۔ شہزادی سلطانہ اس دوران اتنے غصے میں تھی کہ اس نے یہ بھی نہیں پوچھا تھا کہ اس کی شادی کس سے ہورہی ہے اور نہ ہی اس نے نظر بھر کر اپنے دولہا کو دیکھا، اور تو اور رخصتی کے وقت وہ بادشاہ اور ملکہ سے لپٹ کر روئی بھی نہیں، اس کی یہ وجہ نہیں کہ اس کو ڈر تھا کہ رونے سے اس کا میک اپ خراب ہو جائے گا۔ اس کا تو کسی نے بناوٴ سنگھار بھی نہیں کیا تھا، بلکہ وہ اس لیے نہیں روئی کہ اس کو رونا ہی نہیں آرہا تھا کیوں کہ وہ بادشاہ اور ملکہ سے سخت ناراض تھی۔

بگھی میں بیٹھی تو اس نے کن انکھیوں سے اپنے شوہر کی طرف دیکھا۔ وہ ایک بہت حسین و جمیل نوجوان تھا مگر اس کے چہرے پر ایک عجیب سی بے رخی تھی، شادی کے موقع پر تو چہرے پر خوشی کے اثار ہوتے ہیں، مگر وہ تو سنجیدہ شکل بناے بیٹھا تھا۔

شہزادی کو زندگی میں پہلی مرتبہ کچھ خوف کا احساس ہوا۔ تھوڑی دیر بعد بگھی رک گئی۔ ان کی منزل آگئی تھی، وہ اس نوجوان کا گھر تھا۔ وہ نوجوان اتر کر نیچے کھڑا ہو گیا۔ اس نے جب دیکھا کہ شہزادی اترنے کا نام ہی نہیں لے رہی تو سختی سے بولا۔ “شہزادی صاحبہ اب اتر بھی جاوٴ۔ یہاں کنیزیں نہیں ہیں کہ ہاتھ پکڑ کر اتاریں گی۔ میں تو ایک لکڑ ہارا ہوں پہلے سارا کام میں خود کرتا تھا اب تم سے کروایا کروں گا، میں نے زندگی میں بڑی تکلیفیں اٹھائی ہیں، اب سکھ کا وقت آیا ہے”۔

شہزادی تو ہکابکا رہ گئی۔ اس کی شادی ایک لکڑ ہارے سے کردی گئی تھی۔ دکھ اور شرمندگی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اسے روتا دیکھ کر لکڑہارا نرم پڑ گیا۔ “میری تکلیف کا سن کر تمھاری آنکھوں میں آنسو آگئے ہیں، مجھے خوشی ہوئی، 🌹

اچھی بیویاں ایسی ہی ہوتی ہیں”۔

“غلط نہ سمجھو، میں تو اس بات پر روئی ہوں کہ میری شادی ایک لکڑ ہارے سے کردی گئی ہے۔ ابّا حضور سے مجھے یہ امید نہیں تھی”۔ شہزادی سلطانہ نے بگھی سے نیچے اترتے ہوئے کہا۔

لکڑہارا ہنسنے لگا۔ “تو تم کیا سمجھ رہی تھیں کہ تم جیسی بدتمیز لڑکی کی شادی کسی شہزادے سے ہوتی؟”

“تم مجھے میرے منہ پر بدتمیز کہہ رہے ہو”۔ شہزادی نے چیخ کر کہا۔

“میں تو منہ پر ہی کہہ رہا ہوں، لوگ تو تمہیں پیٹھ پیچھے بھی یہ ہی کہتے ہیں۔ وہ تو بادشاہ سلامت کا حکم تھا کہ میں تم سے شادی کروں، میں مجبور ہو گیا تھا، ورنہ تم جیسی لڑکی سے کبھی بھی شادی کی حامی نہ بھرتا۔ انہوں نے اپنی مصیبت میرے گلے ڈالدی ہے اب زندگی بھر بھگتوں گا”۔

لکڑ ہارے کی یہ توہین آمیز باتیں سن کر شہزادی نے زور زور سے رونا شروع کر دیا۔ لکڑہارا اس کے رونے سے گھبرا گیا تھا مگر اس نے ظاہر نہیں کیا، شہزادی سے بولا۔ “تم نے اگر رونا دھونا بند نہیں کیا تو میں تمہیں جنگل میں چھوڑ آوں گا۔ شیر چیتے دن میں تو نہیں البتہ رات کو ضرور باہر نکل آتے ہیں”۔

اس کی دھمکی کارگر ثابت ہوئی، شہزادی نے رونا بند کر دیا۔ لکڑہارا اسے لے کر گھر میں داخل ہوا۔ گھر کافی بڑا تھا اور اس سے بڑا اس کا صحن تھا مگر اس میں سامان بہت معمولی تھا۔ شہزادی منہ بنا کر ایک طرف بیٹھ گئی۔

لکڑہارے نے باورچی خانے میں جاکر کھانے کا انتظام کیا۔ شہزادی کو بھوک لگ رہی تھی اس لیے اس نے چپ چاپ کھانا کھا لیا۔ کھانے کے دوران وہ چپ ہی بیٹھی رہی تھی۔ کھانے کے بعد بولی۔ “میں اپنی قسمت پر شاکر ہوں مگر ابّا حضور اور امی حضور نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا ہے”۔

لکڑہارا تلخی سے بولا۔ “ان کی زیادتی تو تمہیں یاد ہے، تم کیا کرتی تھیں بھول گئیں۔ تم نے ان کے لاڈ پیار کا ناجائز فائدہ اٹھایا تھا۔ تم اکلوتی تھیں، اس لیے وہ تم سے بہت پیار کرتے تھے، تمھاری ہر بات مانتے تھے اور ہر خواہش پوری کرتے تھے اور تم نے اس کا یہ صلہ دیا کہ اپنی من مانی کرنے لگیں اور یہ من مانیاں بڑھ کر بدتمزیوں میں تبدیل ہوگئیں۔ ضد تو چھوٹے بچے کرتے ہیں اور ضد کرتے بچے اچھے بھی لگتے ہیں مگر تمھارے جیسی بڑی لڑکیاں ضد کرتے ہوئے کتنی واہیات لگتی ہیں، میرا بس چلے تو ایسی لڑکیوں کو مرکھنے بیل کے آگے ڈالدوں تاکہ وہ ان کے خوب ٹکریں ماریں اور مزہ چکھادیں”۔

یہ سن کر شہزادی پھر رونے لگی۔ “تم میری بے عزتی کر رہے ہو”۔

“اب تم میری بیوی ہو، تمھاری بری باتوں کا تذکرہ اس لیے کر رہا ہوں کہ تم ان کو چھوڑ دو تاکہ ہماری زندگی ہنسی خوشی گزرے۔ یاد کرو سالگرہ والے دن تم نے کتنی بدتمیزی کی تھی”۔ لکڑہارے نے اسے یاد دلایا۔

شہزادی چونک گئی۔ “تمہیں کیسے پتا چلا؟”

“یہ بات تو ہمارے ملک کے بچے بچے کو پتہ ہے۔ اس دن ہمارے محلے میں دو عورتوں کی لڑائی ہو رہی تھی تو ان میں سے ایک عورت نے دوسری عورت کو یہ کہہ کر بددعا دی تھی کہ اللہ کرے تیری بچی شہزادی کی طرح بدتمیز ہوجائے”۔

یہ سن کر شہزادی کا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا۔ لکڑہارے کی باتیں سن کر اس کو احساس ہونے لگا تھا کہ واقعی اس نے اپنے ماں باپ کے ساتھ بہت زیادتی کی تھی۔ وہ اس سے اتنی محبت کرتے تھے مگر اس نے ہمیشہ اس محبّت کا ناجائز فائدہ اٹھایا تھا۔ اپنی یہ باتیں سوچ سوچ کر اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ وہ ہچکیاں لے لے کر رونے لگی۔

لکڑ ہارے نے کہا۔ “صبح مجھے جلدی اٹھا دینا۔ اب ہم ایک سے دو ہوگئے ہیں۔ مجھے زیادہ لکڑیاں کاٹنا پڑیں گی تاکہ اتنے پیسے ملیں کہ ہمارے گھر کے اخراجات ٹھیک طرح سے چلیں، ویسے بھی تم بادشاہ کی بیٹی ہو، خرچ کے معاملے میں تمہارا ہاتھ کھلا ہوگا۔ اور دیکھو ہمارے گھر میں بہت سی مرغیاں بھی ہیں، ان کے انڈے سنبھال کر رکھنا، محلے والے انھیں خریدنے آئیں تو انھیں فروخت کردیا کرنا”۔

کمرے میں دو ہی آوازیں سنائی دے رہی تھیں، ایک لکڑہارے کے بولنے کی آواز اور دوسری شہزادی کی سسکیوں کی۔ شہزادی کو اپنی امی اور ابّا شدت سے یاد آ رہے تھے۔

اگلے روز لکڑہارے کو بڑی حیرت ہوئی، وہ سو کر اٹھا تو شہزادی نے اس کے لیے انڈے اور پراٹھوں کا انتظام کیا ہوا تھا۔ “ناشتہ تم نے بنایا ہے؟”۔ اس نے حیرت سے پوچھا۔

“نہیں یہ چیزیں میں نے محلے کے ایک بچے سے نانبائی کی دکان سے منگوائی تھیں۔ مجھے تو کچھ پکانا ہی نہیں آتا”۔ یہ کہتے ہوئے شہزادی کا شرم سے منہ سرخ ہوگیا وہ سوچ رہی تھی کہ اس کا لکڑہارا شوہر کیا سوچے گا کہ یہ اتنی بڑی ہو گئی ہے اور اسے کھانا بھی پکانا نہیں آتا۔🌹

لکڑہارا شام کو گھر آیا تو اسے صبح سے بھی زیادہ حیرت ہوئی، شہزادی کمر سے دوپٹہ باندھے صحن میں جھاڑو دے رہی تھی، مرغیاں اس کے آگے پیچھے پھر رہی تھیں، گھر کا دروازہ حالانکہ کھلا ہوا تھا مگر وہ شہزادی کے پاس سے بھاگ کر باہر نہیں گئیں”۔

دیکھو میں تمہارے لیے کیا لایا ہوں” لکڑہارے نے کہا۔

وہ جلدی سے اس کے پاس آئی۔ وہ ایک بدلی ہوئی لڑکی لگ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر اب وہ وحشت اور کرختگی بھی نظر نہیں آرہی تھی جو لکڑہارے نے کل دیکھی تھی۔ لکڑہارے نے بہت سارے سرخ سرخ بیر اس کے ہاتھوں پر رکھ دئیے “انہیں میں نے جنگل میں سے تمہارے لیے توڑا تھا”۔

شہزادی نے خوش ہو کر انھیں لے لیا اور مزے سے کھانے لگی”۔یہ تو بڑے مزے کے ہیں”۔ اس نے کہا۔

اس کی آواز سن کر لکڑہارے کو بہت اچھا لگا، ایسا لگ رہا تھا جیسے کہیں آس پاس جلترنگ بج اٹھے ہوں۔ کل تو شہزادی کی آواز ایسی تھی کہ اسے سن کر لکڑ ہارے کا دل چاہ رہا تھا کہ کانوں میں انگلیاں ٹھونس لے۔

“میں نے محلے کے اسی لڑکے سے کھانا منگوالیا ہے۔ اس کو میں انعام میں دو سکے دیتی ہوں وہ بھاگ کر میرا کام کردیتا ہے”۔ شہزادی نے بتایا۔

کھانے کے بعد لکڑہارے نے کہا۔ “شہزادی مجھے خوشی ہے کہ تم بہت بدل گئی ہو”۔

وہ بولی۔ “آپ کی باتیں سن کر مجھے احساس ہوگیا ہے کہ میں کس قدر بدتمیز اور بداخلاق تھی۔ میں نے امی حضور اور ابّا حضور کو بہت دکھ دئیے ہیں۔ میں بہت شرمندہ ہوں۔ میں ان سے مل کر ان سے معافی مانگنا چاہتی ہوں۔ آپ مجھے ان سے ملانے لے جائیں گے؟”

لکڑہارے نے گھبرا کر کہا “کبھی بھی نہیں، تم وہاں جاوٴ گی تو وہیں رہ جاوٴ گی۔ میں کیا کروں گا۔ میری مرغیوں کو دانا کون ڈالے گا۔ گھر کی صفائی کون کرے گا؟”

شہزادی نے شرما کر کہا۔ “ان سے مل کر میں واپس آجاوٴنگی۔ میرا اصل گھر تو اب یہ ہی ہے”۔

لکڑہارے نے یہ بات سنی تو اس کا دل چاہا کہ مارے خوشی کے ایک زور کی چیخ مارے مگر اس نے ضبط کیا اور دھیرے سے بولا۔ “ٹھیک ہے ہم کل محل چلیں گے۔ مگر میں لکڑیاں کاٹنے جنگل نہیں گیا تو پیسے نہیں ملیں گے”۔

اس کی اس بات پر وہ بولی۔ “اس کی تو تم فکر ہی مت کرو۔ میں نے بہت ساری اشرفیاں جمع کر رکھی ہیں جو محل میں میرے کمرے میں ہی ہیں۔ میں وہ بھی لیتی آوٴں گی”۔

اگلے روز وہ لوگ محل پہنچ گئے۔ انھیں دیکھا تو ملکہ نے جلدی سے شہزادی کو گلے سے لگا لیا ا ور رونے لگی۔ بادشاہ کو بھی اطلاع مل گئی تھی، وہ بھی وہاں آ گیا۔

اسے دیکھ کر شہزادی روتے ہوئے اس سے لپٹ گئی۔ “ابّا حضور مجھے معاف کردیں۔ مجھے اپنی غلطیوں کا احساس ہو گیا ہے، میں نے آپ لوگوں کو بہت تنگ کیا تھا اور اپنی حرکتوں سے آپ کو بہت دکھ پہنچایا تھا۔ میں وعدہ کرتی ہوں کہ اب آئندہ ایسی کوئی حرکت نہیں کروں گی”۔

بادشاہ کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔ اس نے بھی شہزادی کو محبت سے لپٹا لیا اور بولا “غلطیاں بچے ہی کرتے ہیں۔ بڑوں کا فرض ہے کہ انھیں معاف کردیں۔ بیٹی۔ ہمیں تم سے کوئی شکایت نہیں ہے بلکہ اس بات کی خوشی ہے کہ تمہیں اپنی غلطیوں کا احساس ہو گیا ہے”۔ پھر وہ لکڑہارے کی طرف متوجہ ہوا۔ “شہزادہ بابر ہم تمھارے مشکور ہیں کہ تم نے شہزادی کو راہ راست پر لانے میں ہماری مدد کی”۔

لکڑہارا جو اصل میں شہزادہ تھا اس نے ہاتھ باندھ کر بادشاہ کو تعظیم دی اور بولا۔ “یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے شہزادی جیسی بیوی ملی ہے”۔

ان دونوں کی باتوں کو شہزادی بہت حیرت سے سن رہی تھی جب کہ ملکہ کھڑی مسکرا رہی تھی۔ اس کی حیرت بھانپ کر بادشاہ نے کہا۔ “بیٹی۔ ہمارے وزیر نے ہی ہمیں یہ صلاح دی کہ شہزادہ بابر کو ایک لکڑہارا بنا کر اس کی شادی تم سے کر دی جائے۔ شہزادہ بابر ایک ذہین نوجوان ہے، اس کی باتوں سے متاثر ہو کر تمہیں اپنی غلطیوں کا احساس ہوگیا ہے۔ ہم بہت خوش ہیں “۔

شہزادی کی اس تبدیلی سے ہر طرف خوشیوں کے شادیانے بجنے لگے تھے۔ شہزادی نے ان شاہی غلاموں اور کنیزوں سے بھی معافی مانگی جن کے ساتھ اس نے کبھی اچھا سلوک نہیں کیا تھا۔ ان لوگوں میں اس نے اشرفیاں بھی تقسیم کیں۔ وہ سب بھی خوش ہوگئے۔

رات کے کھانے کے بعد شہزادی نے شہزادہ بابر سے کہا۔ “میں تیار ہو کر آتی ہوں پھر چلتے ہیں”۔

ملکہ نے حیرت سے پوچھا۔ “بیٹی۔ کہاں جانے کا کہہ رہی ہو؟”

شہزادی نے شرما کر کہا۔ “اپنے گھر، جہاں ہماری مرغیاں ہیں اور محلے میں وہ لڑکا ہے، جو چھوٹے بھائیوں کی طرح بھاگ بھاگ کر میرے کام کرتا ہے”۔

اس کی بات سن کر بادشاہ اور ملکہ کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ بہت دنوں بعد محل میں ان دونوں کی ہنسی لوگوں نے سنی تھی۔

خیر بادشاہ نے دوبارہ تو ان کو وہاں نہیں بھیجا، مرغیاں اس نے محل میں ہی منگوالی تھیں تاکہ شہزادی خوش ہوجائے۔ اس لڑکے کو جو بازار سے شہزادی کے لیے چیزہیں خرید کر لایا تھا، شہزادی نے بہت سے تحفے بھجوادیے تھے۔

پھر کچھ دن محل میں گزار کر شہزادہ بابر شہزادی سلطانہ کو لے کر اپنے ملک روانہ ہو گیا اور دونوں ہنسی خوشی رہنے لگے۔

ختم شد

ضدی بادشاہ

ضدی بادشاہ

بہت پرانے زمانے کی بات ہے کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس بادشاہ کی ایک بیٹی تھی جس کا نام شہزادی گل فشاں تھا۔ شہزادی گل فشاں اپنی خوبصورتی، خوش اخلاقی اور عقلمندی کی وجہ سے دور دور تک مشہور تھی اور کئی ملکوں کے شہزادے اس سے شادی کے خواہش مند تھے مگر بادشاہ ان شہزادوں کی طرف سے آنے والے ہر رشتے کو نامنظور کر دیا کرتا تھا۔

یہ بات نہیں تھی کہ وہ شہزادے خوبصورتی یا بہادری میں کسی سے کم تھے۔ بادشاہ کے پاس ان رشتوں سے انکار کی صرف ایک ہی وجہ تھی۔ شہزادی گل فشاں چونکہ اس کی اکلوتی بیٹی تھی اور وہ اس سے بہت محبّت کرتا تھا، اس لیے وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی لاڈلی بیٹی کی شادی کسی دور دراز کے ملک کے شہزادے سے ہوجائے اور وہ اس سے جدا ہو کر دور چلی جائے۔

بادشاہ نے دل میں سوچ رکھا تھا کہ اس کی شادی اپنے ملک کے ہی کسی اچھے سے نوجوان سے کر دے گا اور اس کا محل اپنے محل کے برابر میں بنوادے گا تاکہ وہ دونوں اس میں رہ سکیں۔ اس مقصد کے لیے اس نے نہایت ماہر معماروں سے محل کی تعمیر بھی شروع کروادی تھی۔

بادشاہ اپنی ملکہ سے بھی بہت محبّت کرتا تھا۔ ویسے تو وہ ہر لحاظ سے ایک بہترین حکمران تھا، حکومت کے امور میں بہت دلچسپی لیتا تھا اور اپنی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے دن رات کوشاں رہتا تھا مگر اس کی اس ضد نے سب کو پریشان کر کے رکھ دیا تھا کہ وہ شہزادی کی شادی کسی دور دراز ملک کے شہزادے سے نہیں کرے گا۔

ملکہ اس کو لاکھ سمجھاتی کہ لڑکیاں تو پرائی ہوتی ہیں، ایک روز ان کو اپنے گھر جانا ہی پڑتا ہے مگر بادشاہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی تھی۔ ایک روز جب اسی موضوع پر بات ہو رہی تھی تو ملکہ نے بادشاہ کو اپنی مثال دی کہ وہ سات سمندر پار ایک ملک کی شہزادی تھی مگر بادشاہ سے شادی کر کے اسے بھی اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر آنا پڑگیا تھا۔

بادشاہ اس بات پر قائل تو کیا ہوتا، مسکرا کر بولا۔ “ملکہ – اگر آپ کے ابّا بھی آپ سے اتنی محبّت کرتے جتنی کہ ہم شہزادی گل فشاں سے کرتے ہیں تو وہ بھی آپ کو بیاہ کر اتنی دور نہیں بھیجتے”۔

ملکہ نے یہ بات سنی تو منہ پھلا کر بولی۔ “جہاں پناہ آپ کو پتہ ہے میرے ابّا حضور میرے بغیر کھانا بھی نہیں کھاتے تھے، میں ایک لمحے کے لیے بھی ان کی نظروں سے اوجھل ہوتی تھی تو وہ بے چین ہوجاتے تھے”۔

بادشاہ کو احساس ہو گیا تھا کہ اس کے منہ سے ایک نامناسب بات نکل گئی ہے جس سے ملکہ کی دل آزاری ہوئی ہے۔ اس نے کہا۔ ”پیاری ملکہ – ہم معافی چاہتے ہیں، ہم نے مذاق ہی مذاق میں ایک غلط بات کہہ دی تھی ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ تمام باپ اپنی بیٹیوں سے یکساں محبّت کرتے ہیں”۔

ملکہ نے بادشاہ کی شرمندگی محسوس کر کے نرمی سے کہا۔ “میرا خیال ہے کہ ہماری شہزادی ملک فارس کے شہزادے احمر کو پسند کرتی ہے۔ آپ کو یاد ہے نا وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ تھوڑے دن پہلے ہمارے ملک میں آیا تھا۔ دونوں حالانکہ چند روز ہی ایک ساتھ رہے تھے مگر اتنے کم عرصے میں ہی آپس میں کافی گھل مل گئے تھے۔ اس کی ماں نے شہزادی کا رشتہ بھی مانگا تھا مگر آپ نے کہہ دیا تھا کہ سوچ کر جواب دیں گے۔ میرا تو خیال ہے کہ آپ ہاں کر ہی دیجیے، شہزادہ احمر ہماری بیٹی کو بہت خوش رکھے گا”۔

بادشاہ نے ملکہ کی بات کا جواب تو نہیں دیا، صرف اتنا کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ “ملکہ تم اس سلسلے میں جلد ہی خوشخبری سنو گی”۔ یہ کہہ کر بادشاہ تو کمرے سے نکل گیا اور ملکہ دھک سے رہ گئی کہ جانے بادشاہ کیا کرنے والا ہے۔

بادشاہ کا ایک وزیر بھی تھا، بہت عقلمند، وفادار اور بادشاہ کا جاں نثار – وزیر کا ایک بیٹا بھی تھا اور اس کا نام شہریار تھا۔ وہ تلوار بازی، تیر اندازی اور نیزہ بازی میں یکتا تھا۔ صورت شکل اس کی ایسی تھی کہ جو دیکھے دیکھتا رہ جائے۔🌹

شہزادی گلفشاں اور شہریار کا بچپن ایک ساتھ ہی گزرا تھا۔ بادشاہ اور ملکہ اس کو اپنے بیٹوں کی طرح ہی چاہتے تھے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ اس کی تعلیم و تربیت اور تلوار بازی وغیرہ کی تربیت شہزادی گل فشاں کے ساتھ ہی ہوئی تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے بہت مانوس تھے اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی تھے۔

گرمیوں کی ایک دوپہر تھی۔ کھانا کھانے کے بعد سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں آرام کررہے تھے۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ایک کنیز بھاگتی ہوئی ملکہ کے پاس آئی اور گھبرائے ہوے لہجے میں بولی۔ “ملکہ عالیہ – جلدی سے آئیے۔ شہزادی صاحبہ کی طبیعت خراب ہو گئی ہے”۔

کنیز کی بات سن کر ملکہ گھبرا گئی اور دوڑ کر شہزادی کے کمرے میں آئی۔ اس نے دیکھا شہزادی گل فشاں آنکھیں بند کیے اپنے بستر میں لیٹی ہوئی ہے۔ ایسا معلوم دیتا تھا جیسے وہ بے خبر سو رہی ہے۔ ملکہ نے غصیلی نظروں سے کنیز کی طرف دیکھا اور بولی۔ “شہزادی تو سو رہی ہے۔ تم کہہ رہی ہو کہ اس کی طبیعت خراب ہو گئی ہے؟”۔

کنیز خوف سے تھر تھر کانپنے لگی اور بولی۔ “ملکہ حضور، شہزادی صاحبہ اچھی خاصی مجھ سے باتوں میں مصروف تھیں کہ اچانک انہوں نے ایک چیخ ماری اور بستر پر گر پڑیں۔ میں نے انہیں بہت آوازیں دیں مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا”۔

یہ بات سن کر ملکہ کو بھی تشویش ہوئی۔ اس نے پہلے تو شہزادی کو ہلا جلا کر اٹھانے کی کوشش کی پھر جب کوئی کامیابی نہیں ہوئی تو اس نے بادشاہ کو اطلاع کروائی۔

شہزادی کی خراب طبیعت کے بارے میں سن کر بادشاہ کے تو ہاتھوں کے طوطے اڑگئے۔ وہ بھاگا بھاگا آیا اور محل کے تمام طبیبوں کو طلب کر لیا۔ وہ سب شہزادی کا معائینہ کرنے لگے۔ ایک طرف وزیر زادہ شہریار بھی منہ لٹکائے خاموش کھڑا تھا۔ تھوڑی دیر بعد جب طبیبوں نے معائینہ ختم کیا تو وہ خاصے مایوس تھے۔ انہوں نے بادشاہ کو بتا دیا کہ شہزادی کا مرض ان کی سمجھ سے بالا تر ہے۔ یہ سن کر بادشاہ کے چہرے کا رنگ اڑ گیا اور وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔

یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی تھی۔ بادشاہ نے اسی وقت ملک کے دوسرے حکیموں اور طبیبوں کو بھی طلب کرلیا اور شہزادی کو دکھایا گیا مگر بے سود۔ شہزادی کا مرض کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آیا تھا اور وہ بدستور اپنے بستر پر بے سدھ سوتی رہی۔

اسی پریشانی میں شام ہو گئی ۔ اگلے روز مایوس ہو کر بادشاہ نے یہ اعلان کروا دیا کہ جو بھی شہزادی کو نیند سے بیدار کرے گا، شہزادی کی شادی اس سے کردی جائے گی۔ اس اعلان کو سن کر کوئی بھی حاضر نہیں ہوا۔ سب لوگ یہ ہی سوچ رہے تھے کہ جب بڑے بڑے حکیم اور طبیب اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکے تو وہ کیا کر لیں گے۔

اس صورت حال سے بادشاہ اور ملکہ سخت پریشان تھے۔ ان کی مایوسی بڑھتی جا رہی تھی کہ ایسے میں ایک چوبدار نے آکر اطلاع دی کہ ملک فارس کا شہزادہ احمر آیا ہے اور شہزادی کے علاج کے سلسلے میں بادشاہ سے ملنا چاہتا ہے۔

ناامید بادشاہ کی امید ابھی باقی تھی۔ اس نے شہزادے احمر کو فورا ً ہی اپنے کمرے میں طلب کرلیا۔ محل کے پہرے دار اس کو لے کر حاضر ہو گئے۔ بادشاہ اس سے پہلے بھی ملا ہوا تھا۔ چند روز قبل وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ اس کے محل میں آیا تھا۔

شہزادہ احمر نے جھک کر بڑے ادب سے بادشاہ کو سلام کیا اور بولا- “جہاں پناہ۔ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ شکار پر نکلا ہوا تھا۔ منادی کرنے والوں سے سنا کہ شہزادی صاحبہ نیند سے نہیں جاگ رہیں۔ میرا خیال ہے کہ ان کی بیماری کا علاج میرے پاس ہے اس لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہو گیا ہوں”۔

اس کے گفتگو کرنے کے انداز اور وجاہت نے بادشاہ کو بہت متاثر کیاتھا۔ اس نے دل میں سوچا کہ اگر اس خوبرو شہزادے نے اس کی بیٹی کو ٹھیک کر دیا تو وہ ضرور اس سے اس کی شادی کردے گا۔ پھر بھی اس نے اپنی تسلی کے لیے ایک سوال کیا۔ “تم تو ایک شہزادے ہو۔ حکمت کے کاموں سے تمہارا کیا واسطہ؟”۔

شہزادے احمر نے ادب سے ہاتھ باندھ کر کہا۔ “جہاں پناہ۔ شہزادی صاحبہ کسی بیماری میں مبتلا نہیں ہیں۔ یہ مسلہ دوسرا ہے”۔

بادشاہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ “تمہارا مطلب ہے یہ کسی جادوگر یا دیو وغیرہ کا چکر ہے؟”۔

شہزادہ احمر نے نے نفی میں سر ہلا کر کہا۔ “جی نہیں۔ میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا”۔ پھر اس نے ہیرے جواہرات سے مرصّع ایک چھوٹی سی خوبصورت ڈبیہ نکالی اور اسے بادشاہ کو دکھا کر بولا۔ ” شہزادی صاحبہ کو کچھ بھی ہوا ہو، ان کا علاج اس ڈبیہ میں بند ہے”۔

بادشاہ حیرت اور دلچسپی سے اس ڈبیہ کو دیکھنے لگا۔ احمر کی بات میں جانے کیا بات تھی کہ ملکہ کو بھی امید ہو گئی کہ اس کی بیٹی اب ٹھیک ہو جائے گی۔ وزیر زادہ شہریار بھی وہیں تھا اور بڑی دلچسپی سے شہزادے کی باتیں سن رہا تھا اور اس کے ہونٹوں پر ایک دوستانہ مسکراہٹ تھی۔

اس کے بعد بادشاہ اور وہ سب لوگ اس کمرے میں آئے جہاں شہزادی محوخواب تھی۔🌹

شہزادے احمر نے بغور شہزادی کو دیکھا، کچھ سوچتے ہوئے اس نے وہ خوبصورت ڈبیہ کھول کر اس میں سے ایک پر نکالا۔ وہ پر حسین و جمیل رنگوں سے جگمگا رہا تھا۔ شہزادے احمر نے اس پر کو شہزادی کے تلوؤں سے لگایا۔ جیسے ہی پر نے اس کے تلوؤں کو چھوا، شہزادی کو ایک ہلکی سی چھینک آئی اور وہ بستر پر اٹھ کر بیٹھ گئی اور حیرانی سے سب کو دیکھنے لگی۔

بادشاہ اور ملکہ کے کے منہ سے خوشی کی ایک چیخ نکل گئی۔ بادشاہ نے جلدی سے آگے بڑھ کر شہزادی کو گلے سے لگا لیا۔ شہزادی گھبرائی ہوئی سی لگ رہی تھی۔ “ابّا حضور مجھے کیا ہو گیا تھا؟”۔ اس نے پوچھا۔

“کچھ نہیں میری بیٹی۔ تم بالکل ٹھیک ہو”۔ پھر بادشاہ نے شہزادہ احمر کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔ “شہزادے۔ ہم تمہارا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولیں گے”۔

یہ خبر تھوڑی ہی دیر میں پورے ملک میں پھیل گئی تھی۔ اس خوشی میں بادشاہ نے غریبوں کے لیے خزانے کے منہ کھول دیے تھے۔ چند روز کے بعد حسب وعدہ شہزادہ احمر اور شہزادی گل فشاں کی بڑی دھوم دھام سے شادی کر دی گئی۔ رخصتی کے وقت شہزادی بادشاہ کے سینے سے لگ کر رونے لگی تو بادشاہ نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا۔ “بیٹی ہم غلطی پر تھے۔ ہر لڑکی کو ایک نہ ایک روز اپنے گھر جانا پڑتا ہے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ تمھاری شادی احمر جیسے خوبصورت اور ذہین شہزادے سے ہوئی ہے”۔

ملکہ شہزادی کی جدائی سے رنجیدہ تو تھی مگر اس بات پر خوش بھی تھی کہ بادشاہ نے شہزادی کی شادی کے سلسلے میں اپنی ضد چھوڑ دی تھی۔ اس نے بھی شہزادی کو گلے سے لگا کر دعائیں دیں۔

اس موقع پر سارے وزیر، مشیر اور دوسرے ملازمین وہاں جمع تھے۔ بادشاہ نے اپنی بیٹی کو بے شمار قیمتی تحفے دئیے تھے اور سو سپاہیوں کا دستہ ان کی حفاظت کے لیے ساتھ کر دیا تھا۔

سفر پر روانہ ہونے سے پہلے شہزادی نے چاروں طرف دیکھا جیسے کسی کو تلاش کر رہی ہو۔ جلد ہی اس کی نگاہ وزیر زادے شہریار پر پڑی، وہ ایک کونے میں سر جھکائے اداس کھڑا تھا۔ شہزادی دوڑ کر اس کے قریب پہنچی اور اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر بولی۔ “شہریار بھائی۔ اگر آپ یہ سب کچھ نہ کرتے تو میری شادی کبھی بھی شہزادہ احمر سے نہیں ہوتی۔ آپ نے اتنی اچھی ترکیب بتائ تھی کہ ابّا حضور اپنی شرط سے دستبردار ہونے پر مجبور ہو گئے”۔

شہریار مسکرا کر بولا۔ “میں نے بہت ساری کہانیوں میں سن رکھا تھا کہ کوئی شہزادی جب کسی بڑی مصیبت میں پھنس جاتی تھی تو بادشاہ سلامت یہ ہی اعلان کرواتے تھے کہ جو شہزادی کو اس مصیبت سے نجات دلاے گا اس کی شادی شہزادی سے کردی جائے گی۔ میں نے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ تم جھوٹ موٹ کی سوتی ہوئی بن جاؤ اور شہزادہ احمر تمہیں ٹھیک کر دے۔ اس نے بھی بڑی مہارت سے اپنا کام کیا تھا۔ بادشاہ سلامت کو ذرا بھی شبہ نہیں ہو سکا تھا۔ اب تم سے یہ ہی کہنا ہے کہ وہاں جا کر ہمیں بھول نہیں جانا”۔

اس کی بات سن کر شہزادی نے اداسی سے کہا۔ “ میں ابّا حضور کو، امی حضور کو اور شہریار بھائی آپ کو کیسے بھول سکتی ہوں”۔ یہ کہتے ہوےٴ اس کی آنکھوں سے دو آنسو ڈھلک گئے۔

شہزادہ احمر بھی ان کے قریب آکر کھڑا ہوگیا تھا۔ شہریار خاموش ہوا تو اس نے کہا۔ “شہریار تم ایک اچھے اور سچے دوست ہو۔ تم اگر وہ ترکیب نہ بتاتے اور میری شادی شہزادی سے نہ ہوتی تو میں خود سچ مچ کا سوتا شہزادہ بن گیا ہوتا۔ تمہارا یہ احسان میں زندگی بھر نہیں بھولوں گا”۔ یہ کہہ کر اس نے شہریار کو گلے سے لگا لیا۔ شہریار نے شہزادی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر یہ قافلہ شہزادی کو لے کر پردیس روانہ ہوگیا۔

ختم شد