پریاں اور غریب موچی

پریاں اور غریب موچی

ایک شہر میں ایک موچی رہا کرتا تھا۔مکان کے اوپر والے حصے میں اس کی رہائش تھی جبکہ نچلے حصہ میں اس نے اپنی دوکان قائم کر رکھی تھی۔ اسی دوکان کے ایک کونے میں اس نے نئے جوتے بنانے کے اوزار رکھے ہوئے تھے۔

یہ اوزار ایک چھوٹی سی میز پر بڑے سلیقے سے رکھے ہوتے تھے۔

موچی دن رات خوب محنت کرتا لیکن اس کے باوجود اسے اتنی آمدنی نہ ہوتی کہ وہ خوشحال زندگی گزار سکے۔یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب موچی کی تمام جمع پونجی بھی ختم ہونے کو تھی۔

اب موچی بہت پریشان ہوا اور سوچنے لگا اس مرتبہ بل ادا کرنے کے بعد تو اس کے پاس نئے جوتے بنانے کیلئے بھی رقم نہیں بچے گی۔یہ خیال آتے ہی موچی کا دل کام سے اچاٹ ہو گیا۔وہ جو جوتے بنا رہا تھا اس کا چمڑا وہیں پڑا چھوڑ کر اُٹھا اور اپنے رہائش والے حصے کی طرف چلا گیا۔کھانا کھا کر دونوں میاں بیوی اپنی تنگ دستی کا حل تلاش کرتے کرتے سو گئے۔

دوسرے روز صبح موچی ناشتے سے فارغ ہو کر اپنی دوکان میں پہنچا تو وہ بہت حیران ہوا کیونکہ کل جو چمڑا اس نے جوتوں کے لئے کاٹ کر چھوڑا تھا اس کے جوتے تیار تھے۔

اور یہ جوتے اتنے خوبصورت تھے کہ موچی نے کبھی اتنے عمدہ جوتے نہ بنائے تھے۔موچی نے زور زور سے اپنی بیوی کو آوازیں دینی شروع کر دیں۔آوازیں سن کر اس کی بیوی دوکان میں داخل ہوئی تو موچی نے پوچھا ”کیا یہ اتنے خوبصورت جوتے تم نے بنائے ہیں؟“ موچی کی بیوی نے کہا”نہیں․․․․․میں ایسے اچھے جوتے کیسے بنا سکتی ہوں۔

میں نے تو پہلے کبھی جوتے بنائے ہی نہیں۔“

موچی نے جوتے اُٹھا کر دوکان کے دروازے کے ساتھ بنے ہوئے شوکیس میں اس طرح رکھ دیئے کہ دوکان کے باہر سے ہر شخص کی نظر ان پر پڑتی تھی۔کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ایک آدمی نے آکر جوتے خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔

اس نے موچی کو جوتوں کی اتنی اچھی قیمت دی کہ موچی کبھی سوچ بھی نہ سکتا تھا۔اب موچی نے اس رقم سے گھر کے لئے راشن خریدا اور مزید جوتوں کے لئے چمڑا بھی خرید لیا۔خریداری سے فارغ ہو کر موچی واپس آیا تو شام ہونے کو تھی۔موچی کی بیوی کھانا بنانے کی تیاری کرنے لگی جبکہ موچی چمڑا لے کر دوکان والے حصے میں آگیا۔

موچی نے دو جوڑے جوتوں کے لئے چمڑا کاٹا۔وہ ابھی انہیں سینے کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اس کی بیوی نے آواز دے کر کہا”کھانا تیار ہے آکر کھانا کھا لو․․․․․․باقی کام صبح کر لینا۔“یہ سن کر موچی نے کاٹا ہوا چمڑا اپنے کام کرنے والی میز پر چھوڑا اور رہائشی حصے کی طرف آگیا۔

دوسرے روز صبح جب موچی دوکان میں آیا تو وہ ایک مرتبہ پھر حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔کیونکہ رات کو موچی نے جو چمڑا کاٹ کر رکھا تھا۔ اس کے آج پھر بہت عمدہ جوتے تیار تھے۔موچی نے ایک مرتبہ پھر اپنی بیوی کو بلا کر جوتوں کے بارے میں پوچھا لیکن اس نے اس مرتبہ بھی اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔

موچی نے جوتے اُٹھا کر شوکیس میں رکھ دیئے۔تھوڑی دیر بعد جوتے بک گئے۔

اب تو یہ روزانہ کا معمول بن گیا کہ موچی چمڑا کاٹ کر دوکان میں رکھتا اور صبح اسے جوتے تیار ملتے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے کچھ ہی دیر بعد یہ جوتے فروخت ہو جاتے۔

موچی اور اس کی بیوی اب کافی خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ایک دن موچی کی بیوی نے کہا ہمیں معلوم تو کرنا چاہیے کہ رات کو کون ہمارے لئے جوتے بنا کر جاتا ہے۔موچی نے کہا آج رات کو ہم دوکان کی نگرانی کریں گے اور دیکھیں گے کہ کون ایسا مہربان ہے جو روزانہ ہمارے لئے کام کرتا ہے۔موچی اور اس کی بیوی شام ہوتے ہی کٹا ہوا چمڑا کام کرنے والی میز پر چھوڑ کر دوکان میں رکھی ایک بڑی سی الماری کے اندر چھپ کر بیٹھ گئے اور تھوڑا سا دروازہ کھول کر دوکان میں جھانکنے لگے۔آدھی رات کے وقت آتشدان کی چمنی میں کچھ آوازیں آتی محسوس ہوئیں۔

تھوڑی دیر بعد انہوں نے دیکھا کہ دو خوبصورت ننھی منی پریاں ہوا میں تیرتی ہوئی چمنی کے ذریعے دوکان میں داخل ہوئیں اور کام کرنے والی میز کے پاس رکھے سٹول پر بیٹھ کر انہوں نے جوتے سینے کا کام شروع کر دیا۔صبح ہونے سے کچھ دیر قبل جوتے کے دونوں جوڑے تیار ہو چکے تھے۔

خوبصورت جوتے میز پر اسی طرح چھوڑ کر دونوں ننھی پریاں ہوا میں اُڑتی ہوئی واپس چلی گئیں۔

موچی نے اپنی بیوی سے کہا بہت دنوں سے یہ ننھی پریاں ہمیں اچھے اچھے جوتے بنا کر دے رہی ہیں۔میرا خیال ہے ہم بھی انہیں کوئی تحفہ دیں۔

موچی کی بیوی بولی دونوں پریاں ننگے پاؤں تھیں اور ان کے کپڑے بھی عام سے تھے شاید انہیں ان کپڑوں میں سردی لگتی ہو کیوں نہ میں ان دونوں کے لئے کپڑے بنا دوں۔موچی نے بھی بیوی کی ہاں میں ہاں ملائی۔اسی دن موچی کی بیوی نے دونوں پریوں کے لئے بہترین گرم جیکٹیں تیار کیں اور ساتھ ہی دو جوڑے چھوٹے چھوٹے خوبصورت جرابوں کے جوتے بھی بنائے۔دوسرے دن انہوں نے شام کے وقت کام کرنے کی میز پر بجائے جوتوں کے لئے چمڑا کاٹ کر رکھنے کے دونوں ننھی منی پریوں کے لئے جیکٹ اور جرابوں کے گفٹ پیک تیار کرکے رکھ دیئے اور الماری میں چھپ کر پریوں کا انتظار کرنے لگے۔آدھی رات کے بعد پریاں دوکان میں داخل ہوئیں اور کام کرنے والی میز کے پاس آکر کھڑی ہو گئیں۔

میز پر جوتوں کے لئے چمڑے کی جگہ گفٹ دیکھ کر انہیں حیرانی ہوئی۔دونوں نے آپس میں مشورہ کے بعد گفٹ کھولے تو اس میں چھوٹی چھوٹی جرابیں اور جیکٹیں دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور انہوں نے فوراً جیکٹیں اور جرابیں پہن لیں۔اب وہ دونوں پریاں بہت خوش تھیں۔

خوشی سے دونوں پریاں جھومتی رہیں۔اور پھر ہوا میں تیرتی ہوئی چمنی کے راستے دوکان سے باہر نکل گئیں۔اس کے بعد وہ کبھی دوکان میں کام کرنے نہ آئیں۔

موچی نے جوتے بنانے کا کام جاری رکھا جو کہ عمدہ اور خوبصورت ہوتے تھے اور وہ پورے علاقے میں بہت امیر اور مشہور ہو گیا۔لیکن کوئی بھی اپنے جوتوں کا ننھی پریوں کے بنائے ہوئے نرم و نازک جوتوں سے موازنہ نہ کر سکا۔

ایک کہانی ایک سبق

ایک کہانی ایک سبق

ایک شہنشاہ جب دنیا کو فتح کرنے کے ارادے سے نکلا تو اس کا گزر افریقہ کی ایک ایسی بستی سے ہوا جو دنیا کے ہنگاموں سے دور اور بڑی پرسکون تھی۔ یہاں کے باشندوں نے جنگ کا نام تک نہ سنا تھا اور وہ فاتح ا

ور مفتوح کے معنی سے ناآشنا تھے‘ بستی کے باشندے شہنشاہ اعظم کو مہمان کی طرح ساتھ لے کر اپنے سردار کی جھونپڑی میں پہنچے۔ سردار نے اس کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا اور پھلوں سے شہنشاہ کی تواضع کی۔

کچھ دیر میں دو قبائلی فریق مدعی اور مدعا الیہ کی حیثیت سے اندر داخل ہوئے۔ سردار کی یہ جھونپڑی عدالت کا کام بھی دیتی تھی۔

مدعی نے کہا۔

”میں نے اس شخص سے زمین کا ایک ٹکڑا خریدا تھا۔ ہل چلانے کے دوران اس میں سے خزانہ برآمد ہوا میں نے یہ خزانہ اس شخص کو دینا چاہا لیکن یہ نہیں لیتا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ خزانہ میرا نہیں ہے کیوں کہ میں نے اس سے صرف زمین خریدی تھی۔ اور اسے صرف زمین کی قیمت ادا کی تھی، خزانے کی نہیں“

مدعا الیہ نے جواب میں کہا۔

”میرا ضمیر ابھی زندہ ہے۔ میں یہ خزانہ اس سے کس طرح لے سکتا ہوں‘ میں نے تو اس کے ہاتھ زمین فروخت کردی تھی۔ اب اس میں سے جو کچھ بھی برآمد ہو یہ اس کی قسمت ہے اور یہی اس کا مالک ہے ، میرا اب اس زمین اور اس میں موجود اشیاء سے کوئی تعلق نہیں ہے “

سردار نے غور کرنے کے بعد مدعی سے دریافت کیا۔

”تمہارا کوئی لڑکا ہے؟“

”ہاں ہے!“

پھر مدعا الیہ سے پوچھا۔

”اور تمہاری کوئی لڑکی بھی ہے؟“

”جی ہاں….“ مدعا الیہ نے بھی اثبات میں گردن ہلا دی۔

”تو تم ان دونوں کی شادی کرکے یہ خزانہ ان کے حوالے کردو۔“

اس فیصلے نے شہنشاہ کو حیران کردیا ۔ وہ فکر مند ہوکر کچھ سوچنے لگا۔

سردار نے متردد شہنشاہ سے دریافت کیا۔ ”کیوں کیا میرے فیصلے سے آپ مطمئن نہیں ہیں؟“

”نہیں ایسی بات نہیں ہے۔“ شہنشاہ نے جواب دیا۔ ”لیکن تمہارا فیصلہ ہمارے نزدیک حیران کن ضرور ہے۔“

سردار نے سوال کیا۔ ”اگر یہ مقدمہ آپ کے رو برو پیش ہوتا تو آپ کیا فیصلہ سناتے؟“

شہنشاہ نے کہا کہ ۔ ” پہلی تو بات یہ ہے کہ اگر یہ مقدمہ ہمارے ملک میں ہوتا تو زمین خریدنے والے اور بیچنے والے کے درمیان کچھ اس طرح کا جھگڑا ہوتا کہ بیچنے والا کہتا کہ : میں نے اسے زمین بیچی ہے اور اس سے زمین کی قیمت وصول کی ہے ، اب جبکہ خزانہ نکل آیا ہے تو اس کی قیمت تو میں نے وصول ہی نہیں کی ، اس لیے یہ میرا ہے ۔

جبکہ خریدنے والا کہتا کہ:

میں نے اس سے زمین خریدلی ہے ، تو اب اس میں جو کچھ ہے وہ میری ملکیت ہے اور میری قسمت ہے ۔

سردار نے شہنشاہ سے پوچھا کہ ، پھر تم کیا فیصلہ سناتے؟

شہنشاہ نے اس کے ذہن میں موجود سوچ کے مطابق فورا جواب دیا کہ:

ہم فریقین کو حراست میں لے لیتے اور خزانہ حکومت کی ملکیت قرار دے کر شاہی خزانے میں داخل کردیا جاتا۔“

”بادشاہ کی ملکیت!“ سردار نے حیرت سے پوچھا۔ ”کیا آپ کے ملک میں سورج دکھائی دیتا ہے؟“

”جی ہاں کیوں نہیں؟“

”وہاں بارش بھی ہوتی ہے….“

”بالکل!“

”بہت خوب!“ سردار حیران تھا۔ ”لیکن ایک بات اور بتائیں کیا آپ کے ہاں جانور بھی پائے جاتے ہیں جو گھاس اور چارہ کھاتے ہیں؟“

”ہاں ایسے بے شمار جانور ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں۔“

”اوہ خوب‘ میں اب سمجھا۔“ سردار نے یوں گردن ہلائی جیسے کوئی مشکل ترین بات اس کی سمجھ میں آگئی ہو۔ ”تو اس ناانصافی کی سرزمین میں شاید ان ہی جانوروں کے طفیل سورج روشنی دے رہا ہے اور بارش کھیتوں کو سیراب کررہی ہے۔

کسان اور اس کی بیوی

کسان اور اس کی بیوی

کسی گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا۔وہ سارا دن اپنے کھیت میں کام کرتا اور مشکل سے اتنا کما پاتا کہ دو وقت کا کھانا کھا سکے۔وہ خود بھی بہت سیدھا سادا تھا،مگر اس کو جو بیوی ملی وہ حد درجہ بے وقوف تھی۔ ان کی شادی کو کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ایک دن صبح سویرے جب کسان کھیتوں پر جانے کو تیار ہوا تو اپنی بیوی سے کہنے لگا:”آج کھیت میں سارا دن ہل چلانا پڑے گا جس سے بہت تھکاوٹ ہو جائے گی اور بھوک بھی بہت لگے گی،اس لئے تم میری واپسی تک اچھا اور لذیذ کھانا بنا کر رکھنا اور ساتھ ایک گلاس سرکہ بھی جو میں پچھلے سال خرید کر لایا تھا۔ “یہ کہہ کر وہ اپنے کام پر چلا گیا۔ جب کسان کی واپسی کا وقت قریب آیا تو بیوی نے کھانا تیار کرنا شروع کیا۔ (جاری ہے) اپنے شوہر کو خوش کرنے کے لئے اس نے گوشت کا ایک ٹکڑا لیا اور اسے آگ پر بھوننا شروع کیا۔جب وہ پکنے کے قریب ہوا اور اس کی خوشبو آنے لگی تو اس نے سوچا کہ کھانا تو بس چند لمحوں میں تیار ہے، اب میں کوٹھڑی میں جاؤں اور وہاں سرکے کے ڈرم سے ایک پیالہ بھر کر سرکہ نکال لاؤں۔ یہ سوچ کر اس نے گوشت کو وہیں چھوڑا اور خود ایک جگ لے کر کمرے میں چلی گئی اور سرکے کے ڈرم کی ٹونٹی کھول کر جگ اس کے نیچے رکھ دیا اور اس کو بھرتا ہوا دیکھنے لگی۔اچانک اس کو یاد آیا کہ کتا تو باہر کھلا گھوم رہا ہے،کہیں وہ گوشت ہی نہ کھا جائے۔ یہ سوچتے ہی وہ بھاگتی ہوئی وہاں سے نکلی اور باورچی خانے کی طرف لپکی ۔ اس نے دیکھا کہ اس کا خدشہ درست تھا۔گوشت کا ٹکڑا واقعی کتے کے منہ میں تھا اور وہ باہر کی طرف بھاگ رہا تھا۔ وہ کتے کو مارنے کے لئے اس کے پیچھے بھاگی تو وہ جنگل کی طرف دوڑا۔ کسان کی بیوی بھی اس کے پیچھے پیچھے تھی، مگر کتے کی رفتار اس سے زیادہ تیز تھی۔وہ گوشت کا ٹکڑا لے کر جنگل میں غائب ہو گیا۔تھک ہار کر مایوس ونا اُمید وہ افسردہ سی گھر واپس آگئی۔اس قدر بھاگ دوڑ سے وہ بُری طرح تھک چکی تھی،اس لئے کچھ دیر چارپائی پر لیٹ کر اپنا سانس بحال کرتی رہی۔ اس دوران سرکے کے ڈرم کی ٹونٹی کھلی رہی اور جگ بھرتا رہا۔جب جگ پوری طرح بھر گیا تو سرکہ اس کے کناروں سے اس وقت تک باہر گرتا رہا جب تک ڈرم پوری طرح خالی نہیں ہو گیا۔ کچھ دیر دم لینے کے بعد جب کسان کی بیوی کو سرکے کے ڈرم کا خیال آیا تو وہ ایک د م اُٹھی اور کوٹھڑی کی طرف بھاگی،مگر اس وقت تک ڈرم پوری طرح خالی ہو چکا تھا۔ یہ سب دیکھ کر وہ روہانسی ہو گئی کہ اب کیا ہو گا۔جب یہ سب شوہر کو پتا چلے گا تو وہ بہت ناراض ہو گا۔ پریشانی کے عالم میں وہ وہاں کھڑی یہ سب دیکھتی رہی کہ اب کیا کرے،اچانک اس کی نظر آٹے کی ایک بہت بڑی بوری پر پڑی جو اس کا شوہر چند دن پہلے ہی چکی سے خرید کر لایا تھا۔ یہ بوری دیکھتے ہی اس کے سیدھے سادے ذہن میں ایک ترکیب آئی کہ اگر وہ یہ آٹا فرش پر بکھیر دے تو وہ یہ سارا سرکہ جذب کرلے گا اور فرش اچھی طرح صاف ہو جائے گا۔اس قدر شان دار ترکیب سوچنے پر اس نے دل ہی دل میں اپنے آپ کو شاباش دی اور بوری کھول کر آٹا فرش پربکھیرنے لگی۔ اس دوران بے دھیانی میں اس کا پاؤں سرکے سے بھرے اس جگ سے ٹکرایا جو ڈرم کے نیچے پڑا تھا۔جگ بھی اُلٹ گیا تو اس کے اندر کا سارا سرکہ بھی بہہ گیا۔وہ مزید پریشان ہو گئی اور اس نے باقی کا سارا آٹا بھی فرش پر بکھیر دیا اور سوچنے لگی کہ اب یہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ کسان گھر لوٹا تو اسے شدید بھوک لگی رہی تھی۔اس نے آتے ہی پوچھا:”آج کھانے میں کیا پکا ہے۔“ بیوی منہ بسور کر بتانے لگی:”میں نے آگ پر تمہارے لئے مزے دار گوشت بھونا تھا،مگر کتا لے کر بھاگ گیا۔جب میں اس کو مارنے بھاگی تو سارا سرکہ بہہ گیا۔ اب میں نے آٹے کی مدد سے کمرے کا سارا فرش صاف کر دیا ہے اور اب وہ کمرا بہت صاف ستھرا نظر آرہا ہے،تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔“ اس کی بات سن کر کسان نے اپنا سر پیٹ لیا اور پریشان ہو کر کہنے لگا:”اوہ،بے وقوف عورت!تم نے یہ سب کیا کر دیا۔ تم نے گوشت کو چولہے پر کیوں چھوڑ دیا تھا اور پھر سرکے کے ڈرم کی ٹونٹی کو بھی کھلا چھوڑ دیا۔چلو وہ تو ہوا،تم نے تو سارے آٹے کا بھی ستیاناس کر دیا۔“ اس کی بات سن کر بیوی بھی تیز لہجے میں بولی:”اب میں کیا کروں!یہ سب کچھ تو تمہیں پہلے بتانا چاہیے تھا کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح۔ “ کسان جانتا تھا کہ اس کی بیوی کم عقل ہے،لہٰذا اس کے ساتھ جھگڑا مناسب نہیں۔اس نے سوچا کہ مجھے خود ہی اس کا خیال رکھنا ہو گا۔یہ سوچ کر وہ چپ ہو رہا۔اس دن انہوں نے آلو ابال کر کھائے اور پیٹ بھرا۔کچھ دن ایسے ہی گزر گئے اور کوئی خاص واقعہ پیش نہ آیا۔ کسان بھی اب خاصا محتاط ہو گیا تھا اور باہر جانے سے پہلے سب کچھ اپنی بیوی کو سمجھا کر ہدایت کر جاتا۔ ایک دن کسان نے اپنے کھیت کے ایک طرف اُگا ہوا پرانا درخت کاٹا تو جڑ میں سے اسے سونے کے کچھ سکے ملے۔وہ خوش تھا کہ اب ضرورت کے وقت ان کو استعمال کرلے گا اورکوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ اس نے سوچا کہ سونے کے ان سکوں کوکسی جگہ چھپا کر رکھ دے ،مگر اس کو اپنی بیوی کی طرف سے بھی خطرہ تھا کہ کہیں وہ ان کا راز نہ کھول دے۔یہ سوچ کر بیوی سے کہا:”دیکھو!یہ میرے پاس پیلے رنگ کے کچھ بٹن ہیں،میں ان کو ایک ڈبے میں ڈال کر زمین میں دبا رہا ہوں۔ تم نہ تو ان کے قریب جاؤ گی نہ ان کو چھوؤگی۔“ ”ٹھیک ہے جیسا تم کہتے ہو،میں ویسا ہی کروں گی۔میں ان کو وہاں سے نکالوں گی نہ ان کو چھوؤں گی۔“بیوی نے اسے یقین دلایا۔کچھ روز بعد جب کسان کھیتوں پر گیا ہوا تھا،گلی میں ایک پھیری والا آیا۔ اس کے ساتھ اس کا ایک مددگار بھی تھا۔وہ گدھوں پر مٹی سے بنے خوب صورت نقش و نگار والے برتن لاد کر فروخت کر رہے تھے۔ان کی آواز سن کر کسان کی بیوی نے گلی میں جھانکا تو یہ برتن دیکھ کر اس کا جی للچا گیا۔یہ دیکھ کر پھیری والا پوچھنے لگا:”کیا تم یہ برتن خریدنا چاہتی ہو؟“ ”ہاں،مگر میرے پاس اس وقت رقم نہیں ہے۔ “پھرکچھ سوچ کر بولی:”کیا تم ان برتنوں کے بدلے پیلے بٹن لے لو گے؟“ پھیری والا اس کی یہ بات سن کر حیران رہ گیا اور پوچھنے لگا۔”کیسے پیلے بٹن؟․․․․کیا تم مجھے یہ پیلے بٹن دکھا سکتی ہو؟“ کسان کی بیوی نے کہا:”وہ پیلے بٹن میرے شوہر نے ایک ڈبے میں ڈال کر صحن میں دبا دیے ہیں،مگر اس نے مجھے منع کیا ہے کہ میں ان کو ہاتھ نہ لگاؤں،اس لئے تم خود ہی ان کو وہاں سے نکال کر دیکھ لو۔ “ اس کی بات سن کر پھیری والا حیران رہ گیا اور وہ فوراً صحن میں جاکر وہ جگہ کھودنے لگا جہاں نشاندہی کی گئی تھی۔ڈبے کے اندرجب اس نے سونے کے سکے دیکھے تو باچھیں کھل گئیں۔سارے سکے سمیٹ کر جیب میں ڈالے اور اس کے بدلے کسان کی بیوی کو اپنے سارے مٹی کے برتن دے کر اپنے ساتھی کے ساتھ فوراً وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ عورت اعلیٰ درجے کی احمق ہے،جسے پیلے بٹنوں اور سونے کے سکوں کا فرق بھی معلوم نہیں۔ دوسری طرف کسان کی بیوی یہ سارے برتن حاصل کرکے بہت خوش تھی۔وہ سمجھ رہی تھی کہ اس نے پھیری والے کو لوٹ لیا ہے اور چند پیلے بٹنوں کے بدلے اتنے سارے برتن خرید لیے ہیں۔ خوشی خوشی اس نے وہ سارے برتن گھر میں اِدھر اُدھر سجا دیے۔تھوڑی دیر بعد جب کسان دوپہر کا کھانا کھانے کے لئے آیا تو گھر میں اتنے سارے نئے برتن رکھے ہوئے دیکھ کر چونک گیا اور حیرت سے پوچھا:”ارے․․․․ یہ سب برتن کہاں سے آئے؟“ بیوی نے مسکراتے ہوئے بتایا:”دیکھو کتنے خوب صورت برتن ہیں۔ یہ سب میں نے تمہارے ان فضول پیلے بٹنوں کے بدلے خریدے ہیں۔“ ”کیا․․․․․؟“کسان پریشان ہو کر چلا اُٹھا:”جب میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ انہیں ہاتھ نہیں لگانا تو پھر تم نے انھیں وہاں سے کیوں نکالا، جہاں میں نے انہیں دبایا تھا۔ “ ”میں نے انھیں وہاں سے نہیں نکالا۔میں نے تمہاری پوری بات مانی۔تم نے مجھے ان کو چھونے سے منع کیا تھا،اس لئے میں نے انھیں ہاتھ بھی نہیں لگایا،صرف جگہ بتائی تو پھیری والے نے خود ہی کھود کر نکال لئے۔“بیوی نے پوری وضاحت کی۔ ”اوہ․․․․․بے وقوف عورت․․․․․“کسان غصے سے اپنے بال نوچنے لگا:”تم نے وہ جگہ اسے بتائی ہی کیوں؟“ ”تم نے مجھے اس بات سے تو منع کیا ہی نہیں تھا۔“بیوی معصوم سا منہ بنا کر بولی۔ ”احمق․․․․․عورت․․․․“کسان اپنا سر پیٹنے اور دیواروں سے ٹکرانے لگا۔ ”ارے بے وقوف!وہ سارے پیلے بٹن سونے کے سکے تھے۔تم نے یہ کیا کر دیا۔“ ”یہ تو تمہیں پہلے بتانا چاہیے تھا نا․․․․اب یہ تمہاری غلطی ہے۔“وہ منہ بناکر بولی۔کسان کچھ دیر غصے میں چلاتا رہا اور اس دوران میں بیوی کھڑی منہ بسورتی رہی،پھر شوہر سے کہا:”میرا خیال ہے ہم وہ سونے کے سکے اب بھی واپس لے سکتے ہیں۔ وہ دونوں ابھی زیادہ دور نہیں گئے ہوں گے۔آؤ،ان کے پیچھے چلتے ہیں۔“ بیوی کی بات سن کر کسان بھی کچھ سوچنے لگا پھر بولا:”ہاں ہم کوشش تو کر ہی سکتے ہیں،مگر اپنے ساتھ کچھ لڈو ضرور لے لینا،تاکہ اگر راستے میں بھوک لگے تو ہم وہ کھالیں۔ “ بیوی نے ایک ٹوکری میں دو لڈو رکھ لیے اور دونوں گھر سے نکل کر اس طرف چل پڑے،جس طرف پھیری والا گیا تھا۔وہ راستہ جنگل کی طرف جاتا تھا۔کسان تیز چلتا تھا،مگر اس کی بیوی کی رفتار دھیمی تھی،اس لئے وہ بار بار پیچھے رہ جاتی۔ کسان اسے تیز چلنے کا اشارہ کرتا،مگر اس نے سوچا اگر پیچھے رہ بھی جاؤں تو کوئی مسئلہ نہیں،اس لئے کہ جب ہم گھر واپس جانے کے لئے مڑیں گے تو مجھے شوہر کی نسبت کم فاصلہ طے کرنا پڑے گا۔ اسی طرح چلتے چلتے بیوی ،شوہر سے کافی پیچھے رہ گئی تھی۔ سامنے ایک چھوٹی سی پہاڑی تھی۔جب وہ اس پر چڑھنے لگی تو اس کے ہاتھ میں پکڑی ٹوکری میں سے ایک لڈو باہر گر گیا اور لڑھکتا ہوا پہاڑی کے نیچے جھاڑیوں میں چلا گیا۔کسان کی بیوی بھاگ کر واپس اتری اور لڈو تلاش کرنے لگی۔اس نے بہت تلاش کیا مگر وہ لڈو نجانے کہاں چلا گیاتھا۔ بہت کوشش کی،مگر لڈو نہ ملا تو اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔وہ بھاگ کر دوبارہ پہاڑی پر چڑھی اور اس جگہ پہنچی جہاں سے وہ لڈو گرا تھا۔وہاں پہنچ کر اس نے دوسرا لڈو بھی نکالا اور اسے نیچے پھینکتی ہوئی بولی۔”اب یہ لڈو بھی وہیں جائے گا جہاں پہلا گیا تھا۔ میں اس کے پیچھے پیچھے جاؤں گی اور اس کے ساتھ مجھے پہلا لڈو بھی مل جائے گا۔“ اس نے دوسرا لڈو بھی پھینک دیا اور خود اس کے پیچھے بھاگی مگر وہ بھی نجانے کہاں جا کر گم ہو گیا۔اب دونوں لڈو گم ہو چکے تھے۔کافی دیر ڈھونڈنے کے بعد وہ مایوس ہو کر آگے چل پڑی،جہاں پہاڑی کی دوسری طرف کسان ایک گھنے درخت کے نیچے بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا۔ اسے دیکھتے ہی وہ بولا:”اب جلدی سے لڈو نکالو،مجھے بھوک لگ رہی ہے۔“ ”لڈو تو گئے۔“وہ منہ بسور کر بولی۔ ”کہاں گئے؟“کسان چیخ اُٹھا۔ ”ایک لڈو گر گیا تھا۔دوسرا میں نے اس کی تلاش میں اس کے پیچھے بھیجا،مگر وہ بھی نجانے کہاں کھو گیا۔ “بیوی نے اسے ساری کہانی سنائی تو کسان حیران ہو کر بولا:”تم ایسی بے وقوفانہ حرکتیں اتنی عقل مندی سے کیسے کر لیتی ہو؟“ ”تم نے مجھے اس بارے میں منع بھی تو نہیں کیا تھا۔“وہ بڑے آرام سے بولی تو کسان لا جواب سا ہو گیا۔ پھر اچانک کچھ سوچ کر پوچھا:”مجھے اُمید ہے کہ گھر سے نکلتے وقت تم بیرونی دروازہ بند کرکے آئی ہو گی۔“ ”نہیں،میں نے تو دروازہ بند نہیں کیا تھا،کیوں کہ تم نے مجھے توجہ ہی نہیں دلائی تھی۔“بیوی نے جواب دیا۔اس کی بات سن کر کسان پریشان ہو گیا اور غصے سے چیخا:”اس سے پہلے کہ ہم مزید آگے جائیں،تم گھر واپس جاؤ اور دروازہ بند کرکے اسے تالا لگا کر آؤ اور ہاں آتے ہوئے کھانے کو بھی کچھ لے آنا۔ “ وہ فوراً گھر کی طرف بھاگی اور اس نے ایسا ہی کیا جیسا اس کے شوہر نے اس سے کہا تھا۔کھانے کے لئے اس نے باداموں کی ایک تھیلی اٹھالی اور پینے کے لئے پانی ایک چھوٹے سے مشکیزے میں بھر لیا۔اس کے بعد اس نے گھر کے بیرونی دروازے کو تالا لگایا اور واپس چل پڑی۔ ابھی دو قدم ہی اٹھائے تھے کہ سوچا،شوہر شاید پھر اس پر اعتبار نہ کرے کہ تالا لگائے بغیر ہی آگئی ہوں،اس لئے مجھے ثبوت اپنے ساتھ لے کر جاناچاہیے۔یہ سوچ کر اس نے زور لگایا اور پورا دروازہ ہی اکھاڑ کر سر پر رکھ لیا اور واپس شوہر کی طرف چل پڑی۔ جب وہ واپس وہاں پہنچی تو شوہر دروازہ اس کے سر پر دیکھ کر حیران رہ گیا اور پوچھا:”اے عقل مند عورت!․․․․یہ کیا ہے؟“ بیوی چہک کر بولی:”تم مجھے بے وقوف سمجھتے ہونا․․․․مگر دیکھو میں کتنی عقل مند ہوں۔مجھے علم تھا کہ تم میری بات کا یقین نہیں کرو گے ،اس لئے میں پورا دروازہ ہی ساتھ لے آئی ہوں۔ اب خود دیکھ لو میں نے اس میں تالا لگایا ہے یا نہیں۔“ ”ارے․․․․ارے․․․․․ارے․․․․․تم تو پورا دروازہ ہی اُکھاڑ لائیں اب تو ہر کوئی آسانی سے گھر میں گھس جائے گا۔“کسان لال پیلا ہو کر بولا۔ ”ارے کوئی کیسے گھس جائے گا․․․․دروازہ تو میرے پاس ہے پھر کوئی کیسے گھر میں داخل ہو سکتا ہے؟“بیوی آنکھیں گھما کر بولی تو شوہر نے مزید بحث سے جان چھڑانا ہی مناسب خیال کیا اور کہا:”واقعی تم احمق نہیں،بلکہ بہت عقل مند ہو۔ یہ دروازہ چونکہ تم لے کر آئی ہو،اس لئے اب تم ہی اسے اپنے سر پر اُٹھاؤ۔“یہ کہہ کر وہ آگے چل پڑا۔ چارونا چار بیوی نے وہ دروازہ دوبارہ اپنے سر پر لاد لیا۔باداموں والی تھیلی اور پانی کا مشکیزہ بھی اس نے دروازے کے ساتھ باندھ رکھا تھا جس کی وجہ سے وزن بہت زیادہ ہو گیا تھا۔ چلتے چلتے وہ دونوں جنگل میں داخل ہوگئے۔چور تو ابھی تک ملے نہ تھے اور رات کا اندھیرا بھی چھانے لگا تھا۔جب تاریکی زیادہ ہو گئی تو انہوں نے برگد کے ایک گھنے درخت پر رات گزارنے کا فیصلہ کیا۔ابھی وہ برگد کی گھنی شاخوں میں چھپ کر بیٹھے ہی تھے کہ چور بھی وہاں پہنچ گئے۔ وہ بہت تھکے ہوئے نظر آرہے تھے۔وہ آخر اسی برگد کے درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور باتیں کرنے لگے کہ آج کیسے ایک عورت کو بے وقوف بنا کر سونے کے سکے ہتھیا لیے۔ تھوڑی دیر باتیں کرنے کے بعد دونوں چور رات گزارنے کے لئے آگ جلانے کی کوشش کرنے لگے۔ کسان نے کچھ سوچ کر درخت کی شاخوں پر لگے ہوئے پھل توڑے اور تاک تاک کر ان دونوں کے سروں پر نشانے لگانے لگا۔وہ دونوں اس افتاد سے بُری طرح گھبرا گئے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے:”ہوا یا آندھی تو ہے نہیں پھر یہ پھل کہاں سے اور کیسے گر رہے ہیں؟“ کسان کی بیوی دروازہ اپنے کندھے پر اٹھائے اُٹھائے کافی تھک چکی تھی۔ اس نے سوچا کہ دروازے کے ساتھ بندھا پانی کا مشکیزہ اس کے وزن میں اضافہ کر رہا ہے۔اس نے شوہر سے کہا:”وزن زیادہ ہو گیا ہے،اس لئے میں مشکیزہ کا پانی نیچے پھینک رہی ہوں۔“یہ کہتے ہوئے اس نے پانی نیچے اُنڈیل دیا۔جب وہ پانی نیچے بیٹھے چوروں کے سر پر برسا تو ایک چلا اُٹھا:”ارے․․․․آندھی کے بعد تو اب بارش بھی ہو گئی ہے۔ “ اگلے ہی لمحے بیوی نے محسوس کیا کہ پانی نیچے اُنڈیلنے کے باوجود دروازہ تو ابھی تک ویسا ہی وزنی ہے تو وہ پھر شوہر سے کہنے لگی:“اب میں بادام بھی نیچے پھینک رہی ہوں،اب میں ان کا بوجھ مزید برداشت نہیں کر سکتی۔“پھر اس سے پہلے کہ شوہر کوئی جواب دیتا،اس نے باداموں سے بھری پوری تھیلی نیچے اُلٹ دی۔ جو نہی وہ سارے بادام نیچے بیٹھے چوروں کے سر پر برسے تو وہ چیخ اُٹھے:”ارے․․․․اب تو اولے بھی برسنا شروع ہو گئے ہیں چلو کہیں اور بھاگ چلیں۔“ پانی اور بادام نیچے پھینکنے کے باوجود بھی جب دروازے کا وزن کم نہ ہوا تو وہ سجھ گئی کہ خود دروازہ ہی بہت وزنی ہے۔ دروازہ اب اس سے سنبھالا نہیں جا رہا تھا۔وہ اس کے ہاتھ سے پھسلنے لگا تھا۔وہ شوہر سے کہنے لگی:”لو جی اب دروازہ بھی چلا․․․․“یہ کہتے ہوئے اس نے دروازہ چھوڑ دیا جو سیدھا جا کر چوروں کے اوپر گرا۔ ”ارے مر گئے․․․“وہ ایک ساتھ چلائے اور پھر یہ دیکھے بغیر کہ کیا چیز سر پر گری ہے،سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے اور کہتے جا رہے تھے:”پہلے آندھی آئی،پھر بارش ہوئی،پھر اولے برسے اور اب تو آسمان ہی سر پر آپڑا ہے۔ “ بھاگتے ہوئے چور اپنا سارا سامان وہیں چھوڑ گئے۔ان کو بھاگتا دیکھ کر کسان اور اس کی بیوی درخت سے نیچے اُتر آئے۔چوروں کے سامان سے ان کو اپنے سونے کے سارے سکے واپس مل گئے۔انہوں نے چوروں کا سارا سامان اُٹھایا اور گھر کی طرف واپس چل پڑے۔

سنڈریلا

سنڈریلا

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک امیر شخص کی بیوی بیمار ہوگئی۔ اس نے اپنی اکلوتی بیٹی سنڈریلا کو اپنے پاس بلایا اور اس سے کہا بیٹی مجھے لگتا ہے میرا آخری وقت آن پہنچا ہے۔ تم اپنا اور اپنے والد کا ہمیشہ خیال رکھنا اور ہمیشہ خوش رہنا میری تمام دعائیں ہمیشہ تمھارے ساتھ رہیں گی۔ یہ کہہ کر سنڈریلا کی ماں چل بسی۔ سنڈریلا روز اپنی ماں کی یاد میں خوب رویا کرتی تھی، روز اپنی ماں کی قبر پر جاتی اور روتی رہتی۔

سنڈریلا کا والد ایک تاجر تھا جو تجارت کی غرض سے ہر دوسرے روز شہر سے باہر رہتا تھا۔ ایک روز سنڈریلا کے والد نے اس کے اکیلے پن کو دور کرنے کے لیے شادی کا فیصلہ کیا۔ پھر سنڈریلا کے والد نے ایک بیوہ عورت سے شادی کرلی، جس کی دو بیٹیاں تھیں۔ سنڈریلا کی سوتیلی ماں اور بہنیں اس پر بہت ظلم کرتی تھیں۔

گھر کے سارے کام سنڈریلا سے کرواۓ جاتے یہاں تک کے جھاڑو پوچھا، برتن دھونا اور کھانا پکانے جیسے بھی کام بھی کرواۓ جاتے۔ اس کو کھانے پینے کے لیے بھی زیادہ کچھ نہیں دیتی تھی بلکہ اپنا بچا کچا کھانا سنڈریلا کو دیتی تھی۔ سنڈریلا اپنی سوتیلی ماں اور بہن کے تمام ظلم چپ چاپ برداشت کرتی رہتی اور اکیلی کمرہ میں بیٹھی روتی رہتی۔ اس کے اکیلے پن کو دیکھ کر ایک پرندہ اور دو چوہے اس کے دوست بن گئے، جو ہمیشہ سنڈریلا کی مدد کو تیار رہتے۔

ایک روز بادشاہ نے اپنے بیٹے شہزادہ کے لیے دلہن کی تلاش میں ایک شاندار رقص پارٹی کا اعلان کروایا اور کہا گیا شہر کی تمام کنواری لڑکیاں اس رقص میں شرکت کریں۔ سب لوگ یہ اعلان سن کر بہت خوش ہوۓ، سنڈریلا کی بچپن سے خواہش تھی کے وہ محل دیکھے۔ مگر اس کی سوتیلی ماں اور بہنوں نے اسے وہاں جانے منع کردیا۔

سنڈریلا کی سوتیلی ماں نے کہا تم اپنی بہنوں کو تیار ہونے میں مدد کرو اور یہ بھی کہا کہ میں چاہتی ہوں کہ شہزادہ پہلی نظر میں ہی میری دونوں بیٹیوں میں سے ایک کو پسند کرلے گا۔ سنڈریلا دل کی بہت اچھی تھی اس نے اپنی سوتیلی ماں کو انکار نہ کیا اور بہنوں کو تیار ہونے میں مدد کی۔ اس کا بات کا بدلہ اسے یہ ملا کہ اس کی سوتیلی ماں اسے کمرہ میں بند کرگئی۔

سنڈریلا پہلے تو اپنے کمرے میں اکیلی بیٹھی روتی رہی پھر اسے خیال آیا کہ وہ اپنی امی کا شادی کا جوڑا پہن کر رقص پارٹی میں چلی جاتی ہے۔ جب اس نے جوڑا نکال کردیکھا تو وہ جگہ جگہ سے پھٹا ہوا تھا۔ سنڈریلا نے اسے سلائی کرنے کی کوشش کی جس میں اس کی مدد کو اس کے دوست چوہے اور پرندہ اس کی مدد کرنے لگے۔ پھر سنڈریلا نے خیال کیا کہ اس جوڑے کو ٹھیک کرنے میں اسے کافی وقت لگ جائیں گا اور ہوسکتا ہے رقص پارٹی بھی ختم ہوجاۓ۔ یہ سوچ کر وہ مایوس ہوکر بیٹھ گئی۔

اتنے میں ایک پری نمودار ہوئی، اس نے سنڈریلا کی مدد کی اور اس کو جادو سے ایک شاہی جوڑا پہنایا، پاؤں میں ایک شیشہ کا بنا جوتا بھی پہنوایا۔ سنڈریلا کے دوست خوشی سے کدو کے اوپر کودنے لگے۔ پری نے جادو کیا تو کدو بگی میں، چوہے گھوڑوں میں اور پرندہ بگی سوار میں تبدیل ہوگیا۔ یہ سب دیکھ کر سنڈریلا بہت خوش ہوئی۔ لیکن اچانک سے مایوس ہوگئی اور کہا میری سوتیلی ماں اور بہنیں مجھے وہاں دیکھیں گی تو بہت خفا ہونگی۔ پری نے جادو کیا اور کہا وہ تمہیں نہیں پہچان پائیں گی۔

سنڈریلا بگی پر سوار ہوئی تو پری نے کہا سنڈریلا یہ یاد رکھنا میرا یہ جادو تم پر صرف آدھی رات تک ہی رہے گا۔ آدھی رات ہونے سے پہلے گھر واپس آجانا۔ پھر سنڈریلا محل کی طرف چل پڑی۔ جب سنڈریلا رقص پارٹی میں شریک ہوئی تو سب کی سنڈریلا کی خوبصورتی دیکھ کر آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ سنڈریلا کی سوتیلی ماں اور بہنیں بھی اسے دیکھ کر پہچان نہ سکیں۔ شہزادہ بھی پہلی نظر میں سنڈریلا پر دل ہار بیٹھا اور اسی وقت سنڈریلا کو اپنے ساتھ رقص کی دعوت دے دی۔

سنڈریلا شہزادے کے ساتھ رقص پارٹی میں اتنی خوش تھی کے وہ خوشی سے یہ بھول ہی گئی تھی کہ اس نے آدھی رات ہونے سے پہلے گھر واپس جانا ہے۔ پھر اچانک سنڈریلا کی نظر گھڑی پر پڑی، تو اسے پری کی بات اسی وقت یاد آگئی کیونکہ آدھی رات ہونے میں صرف چند منٹ باقی تھے۔ سنڈریلا نے جلدی میں شہزادے سے اجازت مانگی اور محل سے باہر کی طرف بھاگنے لگی کے اچانک اس کا شیشہ کا جوتا اس کے پاؤں سے اتر گیا اور اس نے جلد بازی میں پرواہ نہ کی اور بگی میں بیٹھی اور وہاں سے چلے گئی۔

شہزادے بھی سنڈریلا کے پیچھا بھاگا مگر اسے صرف شیشہ کا جوتا ہی سنڈریلا کی نشانی کے طور پر ملا۔ اگلے روز شہزادے نے سنڈریلا کی تلاش شروع کی۔ سارے گاؤں کی لڑکیوں کو جوتا پہنا کردیکھا گیا لیکن کسی کو پورا نہ آیا۔ بلآخر وہ سنڈریلا کے گھر گے۔ اور جب سنڈریلا کی ماں سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کی بیٹیوں نے رقص پارٹی میں شرکت کی تھی۔ تو اس نے کہا ہاں میں میری دونوں بیٹیوں نے شرکت کی تھی اور ہوسکتا ہے یہ جوتا میری بیٹی کا ہو۔

پھر سنڈریلا کی دونوں سوتیلی بہنوں کو بلایا گیا اور دونوں کو جوتا پہنا کر دیکھا گیا لیکن کسی کو پورا نہ آیا۔ پھر شہزادے نے پوچھا ان کے علاوہ آپ کی کوئی اور بیٹی ہے تو اس کی سوتیلی ماں نے صاف جواب دے دیا۔ شہزادہ مایوسی سے وہاں سے جانے لگا کے اچانک اسے سنڈریلا کے رونے کی آواز آئ تو شہزادے نے ملازموں کو حکم دیا اور کہا پورے گھر میں لڑکی کو ڈھونڈا جاۓ۔

ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک ملازم ایک کمرے کے باہر پہنچا جسے تالا لگا تھا۔ ملازم نے تالے کو توڑا تو اندر اسے سنڈریلا بیٹھی ملی، جب سنڈریلا کو جوتا پہنایا گیا تو اسے پورا آگیا۔ اور شہزادے نے سنڈریلا کو اسی وقت شادی کی پیش کش کی اور ان دونوں کی شادی کروا دی گئی۔ پھر شہزادہ اور سنڈریلا دونوں ہنسی خوشی محل میں رہنے لگے۔

طلسمی جھیل کا راز

طلسمی جھیل کا راز

کسی گاؤں میں ایک کسان اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کے بیٹے کا نام انور تھا۔ اس کے باپ نے اسے بچپن ہی سے ایک مدرسے میں پڑھنے کے لیے بٹھا دیا تھا۔ وہ ذہین تھا اس لیے استاد جو بھی سبق دیتے تھے، اس کو دوسرے بچوں کی بہ نسبت جلدی یاد کر لیا کرتا تھا۔

اس کو پڑھانے والے استاد بہت شفیق تھے اور بچوں کو بہت پیار سے پڑھاتے تھے۔ ان کو دیکھ کر انور نے دل میں تہیہ کر لیا تھا کہ وہ بھی بڑا ہو کر ان ہی جیسا ایک استاد بنے گا اور ان ہی کی طرح پیار محبّت اور نرمی سے بچوں کو تعلیم دیا کرے گا۔ یہ ہی وجہ تھی کہ وہ بہت دل لگا کر پڑھتا تھا تاکہ ایک روز وہ بھی اس قابل ہوجائے کہ دوسروں کو تعلیم دے سکے۔

وہ پندرہ سولہ سال کا ہوا تو اس نے مدرسے سے اپنی تعلیم مکمل کرلی۔ اس کا باپ اسے کھیتوں پر اپنے ساتھ کام کے لیے نہیں لے جاتا تھا۔ اس کی نظروں میں وہ ابھی تک بچہ تھا اور وہ سوچتا تھا کہ یہ انور کے کھیلنے کودنے کے دن ہیں۔ اس کے باپ کا یہ بھی خیال تھا کہ جب اس کی شادی ہوجائے گی تو وہ خود گھر کی ذمہ داریوں کو سمجھنے لگے گا اور بیوی بچوں کا خرچ اٹھانے کے لیے کوئی نہ کوئی کام شروع کردے گا۔

دو تین سال بعد اس کے ماں باپ نے اس کی شادی ایک بہت ہی اچھی اور خوبصورت لڑکی سے کر دی۔ اس کی بیوی کا نام سونا تھا اور وہ بہت سمجھدار بھی تھی۔ شادی کے بعد کچھ دنوں تک تو دونوں میاں بیوی نے رشتے داروں کی دی ہوئی خوب دعوتیں اڑائیں۔جب شادی کو چند ہفتے گزر گئے تو سونا نے انور سے کہا۔ “انور۔ اب کل سے تمہیں بھی کام پر جانا چاہیے۔ یہ اچھا معلوم نہیں دیتا کہ تمہارے ابّا اتنی عمر میں کام کریں اور ہم سب مل کر کھائیں۔ شادی سے پہلے کی بات اور تھی۔ اب لوگ سنیں گے تو باتیں بنائیں گے کہ انور اتنا بڑا ہوگیا ہے مگر کماتا نہیں ہے۔ بوڑھے باپ کو گھر کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے”۔

اس کی بات انور کی سمجھ میں آگئی اور اس نے کہا۔ “ٹھیک ہے پیاری سونا میں کل سے کام کی تلاش میں جاؤں گا۔ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے۔ مجھے پہلے ہی سے کوئی کام کرکے اپنے ابّا کا ہاتھ بٹانا چاہیے تھا۔ مگر میں کام کیا کروں گا؟ کھیتوں پر کام کرنا تو مجھے بالکل بھی پسند نہیں ہے۔ میں تو چاہتا ہوں کہ میرا ایک مدرسہ ہو اور میں بچوں کو اچھی اچھی باتوں کی تعلیم دوں۔ تعلیم حاصل کرنے ہی سے ایک انسان اچھا انسان بنتا ہے”۔

سونا نے کہا۔ “تم فکر مت کرو۔ شہر میں میرے ماموں رہتے ہیں۔ وہ بادشاہ سلامت کے محل میں مالی ہیں۔ تم ان سے ملنا ہوسکتا ہے وہ بادشاہ سلامت سے کہہ کر تمہیں کسی مدرسے میں ہی لگوا دیں”۔

اگلے روز سونا نے اسے صبح سویرے بستر سے اٹھا کر بٹھا دیا اور خود جلدی جلدی سب کے لیے ناشتہ تیار کرنے لگی۔ اس کے بعد اس نے انور کے لیے سفر پر ساتھ لے جانے کے لیے کھانا بنایا۔ انور کی ماں اور اس کے باپ کو جب پتہ چلا کہ آج وہ سونا کے ماموں کے پاس کام کے سلسلے میں شہر جائے گا تو وہ دونوں بھی بہت خوش ہوۓ۔ سونا کے پاس کچھ رقم موجود تھی جو اسے شادی کے موقع پر ملی تھی۔ وہ اس نے انور کے حوالے کی تاکہ وقت پڑنے پر وہ اسے خرچ کر سکے اور کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہ آئے۔ سب تیاریاں مکمل ہو گئیں تو انور سفر پر روانہ ہو گیا۔

شہر کے راستے میں ایک جنگل پڑتا تھا۔ ابھی وہ جنگل سے کچھ فاصلے پر تھا کہ اس نے ایک جھونپڑی دیکھی جس کے باہر ایک بوڑھی عورت اور اس کا شوہر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ بوڑھی عورت کہہ رہی تھی کہ آج ہمارے پاس کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ بھوک سے برا حال ہے۔

انور یہ سن کر بہت افسردہ ہوا۔ اس نے اپنا کھانا نکال کر ان کے سامنے رکھا اور قریبی کنویں سے صراحی میں ٹھنڈا ٹھنڈا پانی لا کر انھیں دیا۔ دونوں میاں بیوی خوش ہوگئے اور اسے دعائیں دے کر مزے سے کھانے میں مشغول ہوگئے۔

جب انور دوبارہ اپنے سفر پر روانہ ہونے لگا تو اس نے سونا کی دی ہوئی رقم میں سے کچھ پیسے بوڑھے کو دے دیے۔ بوڑھا وہ رقم دیکھ کر بہت خوش ہوا اور بولا۔ “اس رقم سے میں ایک کلہاڑی خریدوں گا اور جنگل سے لکڑیاں کاٹ کاٹ کر بیچا کروں گا۔ اس طرح جو پیسے ملیں گے وہ میری بیوی اور میرے گزارے کے لیے کافی ہوں گے”۔

اس کی بات سن کر انور مسکراتے ہوۓ وہاں سے چل پڑا اور تھوڑی دیر بعد جنگل میں پہنچ گیا۔ جنگل میں پہنچا تو اسے بھوک ستانے لگی۔ کھانا تو وہ اس بوڑھی عورت اور اس کے شوہر کو دے چکا تھا، اب اس کے پاس کھانے کو کچھ بھی نہیں تھا۔ اس نے سوچا کہ اتنا بڑا جنگل ہے کسی درخت سے پھل توڑ کر کھالے گا۔

اس کی نظر ایک بڑے سے درخت پر پڑی جس پر سیب کی طرح کے پھل لگے ہوۓ تھے۔ انھیں دیکھ کر وہ خوش ہوگیا۔ وہ پھل کافی اونچائی پر تھے اور انور انھیں زمین پر کھڑے کھڑے نہیں توڑ سکتا تھا اس لیے اس نے درخت پر چڑھنے کا ارادہ کرلیا۔

وہ درخت پر چڑھا تو اسے اوپر کی ایک شاخ پر چڑیا سے تھوڑا بڑا کئی رنگوں والا ایک پرندہ دکھائی دیا۔ وہ چاروں طرف سے بے خبر ایک پھل پر چونچ مار مار کر اسے کھا رہا تھا۔ انور کو وہ پرندہ بہت اچھا لگا۔ اس نے سوچا کہ اس خوبصورت پرندے کو میں گھر لے جا کر سونا کو دے دیدوں گا۔ وہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوگی۔ یہ سوچ کر وہ بغیر کوئی آواز نکالے اس کے نزدیک آیا اور پھر جھپٹ کر اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔

اس اچانک آفت سے پرندہ گھبرا گیا اور زور زور سے اپنی سریلی آواز میں چلانے لگا۔ پھر اس نے سہمی ہوئی نظروں سے انور کو دیکھتے ہوۓ کہا۔ “اگر تم مجھے چھوڑنے کا وعدہ کرو تو میں تمہیں طلسمی جھیل کا راز بتاؤں گا۔ ممکن ہے وہ تمھارے کسی کام آجائے”۔

اسے انسانوں کی طرح باتیں کرتا دیکھ کر انور حیران رہ گیا۔ وہ سنبھل کر ایک موٹی سی شاخ پر بیٹھتے ہوۓ بولا۔ “ٹھیک ہے۔ تم مجھے طلسمی جھیل کا راز بتاؤ۔ میں تمہیں چھوڑ دوں گا”۔

پرندے نے کہا۔”تم اس جنگل میں کسی بھی جگہ کھڑے ہو کر پورے سو قدم گن کر سامنے کی جانب چلو۔ سو قدم پورے ہو جائیں تو رک جاؤ اور پھر پورے سو قدم گن کر دوبارہ پیچھے کی جانب آؤ۔ اگر قدموں کی گنتی بالکل ٹھیک ہوئی تو تمہارے سامنے ایک جھیل نمودار ہوجائے گی۔ یہ ہی طلسمی جھیل ہے۔ اگر اس جھیل کا پانی کسی ایسے شخص پر ڈال دیا جائے جو جادو جانتا ہو، تو اس عمل سے وہ اپنا سارا جادو ہمیشہ کے لیے بھول جائے گا اور پھر کبھی بھی کسی پر جادو نہیں کرسکے گا۔ اس کے علاوہ اس نے جس جس پر بھی اپنا جادو کیا ہوگا ان لوگوں پر سے بھی اس کے جادو کا اثر ختم ہوجائے گا۔ یہ ہے طلسمی جھیل کا راز!”۔

انور کو یہ بات بہت عجیب سی لگی۔ اس نے پرندے کو چھوڑ دیا – اس کے بعد اس نے کچھ پھل کھا کر اپنی بھوک مٹائی۔ پھر درخت سے نیچے اتر کر وہ ایک جگہ کھڑا ہوگیا۔ وہاں سے وہ سو قدم آگے کی طرف گیا پھر جب سو قدم پورے ہوگئے تو وہ گن گن کر سو قدم پیچھے کی جانب آیا۔ جب یہ گنتی پوری ہوگئی تو اچانک اس کے سامنے ایک ہلکے سے دھماکے کے ساتھ ایک جھیل نمودار ہوگئی جس میں سبزی مائل پانی بھرا ہوا تھا اور اس میں جگہ جگہ کنول کے پھول نظر آ رہے تھے۔

انور نے جلدی سے اپنی چھاگل میں اس جھیل کا پانی بھرا اور جیسے ہی واپسی کے لیے مڑا تو اس کے کانوں میں پھر ہلکے سے دھماکے کی آواز آئ۔ اس نے گھوم کر دیکھا تو وہ طلسمی جھیل نظروں سے غائب ہوگئی تھی اور اب وہاں پر بڑی بڑی جھاڑیاں نظر آ رہی تھیں جن میں خرگوش کے چند بچے چھپے ہوۓ تھے اور اپنی چھوٹی چھوٹی لال لال آنکھوں سے انور کو دیکھ رہے تھے۔

اس کے بعد انور دوبارہ اپنے سفر پر روانہ ہوگیا۔ شام ہوتے ہوتے وہ شہر پہنچ گیا۔ اسے سونا کے ماموں کا گھر ڈھونڈنے میں کوئی دقت نہ ہوئی۔ وہ چونکہ بادشاہ کے محل میں کام کرتا تھا اس لیے بہت سے لوگ اسے جانتے تھے جنہوں نے انور کو اس کے گھر پہنچا دیا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اس کی خوب خاطر مدارت کی۔

انور نے جب اس کو بتایا کہ وہ کام کے سلسلے میں شہر آیا ہے تو اس نے انور سے کہا کہ وہ کوشش کرے گا کہ اس کی نوکری محل میں ہی لگ جائے۔ مگر اس میں کچھ وقت لگے گا کیونکہ بادشاہ سلامت ایک مسلے کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔

انور کے پوچھنے پر اس نے بتایا۔ “دو تین روز پہلے ایک نہایت بدصورت جادوگر بادشاہ سلامت کے پاس آیا تھا۔ اس نے بادشاہ سلامت سے کہا کہ وہ شہزادی کی شادی اس کے ساتھ کردے۔ اس کی بات سن کر بادشاہ کو بہت غصہ آیا اور اس نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس کو گرفتار کر لیں۔ مگر وہ جادوگر بہت مکار تھا۔ اس سے پہلے کہ سپاہی اسے پکڑتے، وہ چھلانگ لگا کر چھت سے لٹکے فانوس پر چڑھ گیا اور جانے کیا پڑھ کر شہزادی پر پھونکا کہ سترہ اٹھارہ سال کی شہزادی کا قد دو تین سال کے بچے جتنا ہوگیا۔ جادوگر یہ کہتے ہوۓ چلا گیا کہ اگر بادشاہ نے اس کی شادی اپنی بیٹی کے ساتھ نہیں کی تو شہزادی ہمیشہ اتنے ہی قد کی رہے گی۔ اس نے بادشاہ سلامت کو سوچنے کے لیے تین روز دیے ہیں۔ کل اس مہلت کا آخری دن ہے۔ کل وہ جادوگر پھر آئے گا۔ دیکھو کیا ہوتا ہے”۔

یہ کہانی سن کر انور سوچ میں پڑ گیا۔ اس نے سونا کے ماموں سے کوئی بات نہیں کی۔ اگلے روز سونا کا ماموں اس کو لے کر محل گیا اور خود باغیچے میں کام کرنے لگا۔ محل آتے ہوۓ انور چھاگل اپنے ساتھ ہی لے آیا تھا جس میں طلسمی جھیل کا پانی تھا۔

محل میں موجود سارے لوگ خاموش تھے اور سہمے سہمے اپنے کام کرتے پھر رہے تھے۔ وہ سب اپنے بادشاہ سے بہت محبّت کرتے تھے کیوں کہ وہ اپنی رعایا کا بہت خیال رکھتا تھا۔ انھیں یہ فکر ہوگئی تھی کہ جانے آج وہ جادوگر آکر کیا گْل کھلائے گا۔

بادشاہ اپنے دربار میں بیٹھا تھا۔ اسے اس ظالم جادوگر کا انتظار تھا۔ بادشاہ نے سوچ لیا تھا کہ وہ اسے بہت سی دولت دے کر اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کرے گا کہ وہ شہزادی پر سے جادو کا اثر ختم کردے اور اس سے شادی کا خیال بھی چھوڑ دے۔

اچانک محل میں کھلبلی سی مچ گئی۔ چاروں طرف شور مچ گیا “جادوگر آگیا۔ جادوگر آگیا”۔

یہ آوازیں سن کر انور بھی دربار کی جانب لپکا۔ وہاں پر موجود تمام لوگ جادوگر کو دیکھ رہے تھے جو اب محل میں داخل ہو کر بھرے دربار میں داخل ہوگیا تھا۔ انور کو دربار کے دروازے پر کسی نے بھی نہیں روکا کیونکہ پہرے داروں کی نظریں بھی جادوگر پر لگی ہوئی تھیں۔ وہ بڑی آسانی سے دربار میں پہنچ کر ایک طرف کھڑا ہو گیا۔

وہاں اس نے ایک عجیب و غریب شکل والے شخص کو دیکھا جس کی ایک آنکھ چھوٹی اور دوسری آنکھ بہت بڑی تھی۔ اس کی ناک بہت لمبی تھی اور آگے سے مڑی ہوئی تھی۔ وہ بادشاہ کے سامنے کھڑا تھا اور اس کے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ تھی۔ انور سمجھ گیا کہ یہ ہی وہ ظالم جادوگر ہے جس کی وجہ سے بادشاہ پریشان ہے۔

انور جادوگر کے سامنے جا کر کھڑا ہوگیا۔ اسے اپنے سامنے دیکھ کر جادوگر کے چہرے پر غصے کے اثرات نمودار ہوگئے۔ “لڑکے تو کون ہے۔ میرے سامنے یوں کھڑے ہونے کا تیرا مقصد کیا ہے؟ کیا تو مجھے نہیں جانتا کہ میں کتنا بڑا جادوگر ہوں؟”

“میرا نام انور ہے۔ تم بھی مجھے نہیں جانتے ہو ورنہ اس انداز میں مجھ سے باتیں نہ کرتے۔ تمھاری بھلائی اسی میں ہے کہ شہزادی صاحبہ پر سے جادو کا اثر ختم کردو اور اپنی منحوس شکل لے کر یہاں سے چلے جاؤ اور دوبارہ کبھی اس جگہ کا رخ نہ کرو”۔

بادشاہ اور تمام درباری بھی حیرت سے انور کو دیکھ رہے تھے۔ شہزادی جو جادو کی وجہ سے بالکل ننھی منی ہوگئی تھی اس کو انور کی بہادری بہت اچھی لگی اور وہ اس بات سے اتنی خوش ہوئی کہ زور زور سے تالیاں بجانے لگی۔

جادوگر کو یہ دیکھ کر مزید غصہ آگیا۔ اس نے شہزادی سے کہا۔ “بونی شہزادی تم سے تو میں بعد میں نمٹوں گا۔ پہلے اس لڑکے کو اس کی گستاخی کا مزہ چکھا دوں”۔ وہ آنکھیں بند کر کے منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑانے لگا۔

اتنی دیر میں انور نے اپنی چھاگل میں سے تھوڑا سا پانی نکال کر جادوگر کے چہرے پر پھینک دیا۔ اس کے منہ پر پانی پڑا تو سب کے کانوں میں بادلوں کے گرجنے اور بجلی کے کڑکنے کی تیز آوازیں آنے لگیں۔ اس کے ساتھ ہی جادوگر کے منہ سے کالے سیاہ رنگ کا دھواں نکلا اور ایک گولے کی شکل میں کچھ اوپر جمع ہونے لگا۔ اس گولے میں عجیب عجیب خوفناک شکلیں نظر آ رہی تھیں۔ پھر اس دھویں کے گولے میں سے نہایت خوفناک چیخوں کی آوازیں آئیں اور کچھ دیر بعد وہ گولہ بڑی تیزی سے ایک کھڑکی میں سے ہوتا ہوا باہر نکل گیا۔

جادوگر سخت گھبرا گیا تھا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے انور کو دیکھنے لگا۔ عین اسی وقت فضا میں جلترنگ سے بجنے لگے۔ سب لوگوں نے چونک کر دیکھا۔ دربار کی چھت سے چھوٹے چھوٹے سنہری اور بے حد چمکدار ستارے گرنا شروع ہوگئے۔ ان ستاروں نے شہزادی کے گرد حصار بنایا اور اس کے چاروں طرف گھومنے لگے اور پھر اگلے ہی لمحے شہزادی کا قد پہلے ہی جیسا ہوگیا۔ جادو کا اثر ختم ہوگیا تھا۔

انور نے جادوگر سے کہا۔ “بد بخت جادوگر میں نے تم پر طلسمی جھیل کا پانی پھینک دیا ہے۔ اب تم زندگی بھر کسی پر جادو نہیں کر سکو گے”۔

اس کی بات سن کر جادوگر کا منہ خوف سے پیلا پڑ گیا۔ سارے دربار میں شور مچ گیا۔ بادشاہ خود حیرت کے مارے اپنے تخت سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا تھا۔

انور نے نہایت ادب سے کہا۔ “بادشاہ سلامت۔ اپنے سپاہیوں کو حکم دیجیے کہ وہ اس نامراد جادوگر کو گرفتار کرلیں۔ اب یہ کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتا”۔

بادشاہ کے حکم پر جادوگر کو سپاہیوں نے گرفتار کرلیا اور اسے لوہے کی بیڑیاں پہنا کر جیل میں ڈالنے کے لیے اپنے ساتھ لے گئے۔

شہزادی نے جب دیکھا کہ اس پر سے جادو کا اثر ختم ہوگیا ہے اور اس کا قد پھر پہلے جیسا ہی ہوگیا تو وہ خوش ہو کر ملکہ کے گلے سے لگ گئی۔ سارا دربار مبارک، سلامت اور مرحبا کے نعروں سے گونجنے لگا۔ بادشاہ نے آگے بڑھ کر انور کو اپنے گلے سے لگا لیا۔

ملکہ نے انور سے کہا۔ “تمہاری وجہ سے ہمیں یہ خوشی دیکھنے کو ملی ہے۔ ہماری شہزادی پھر پہلے جیسی ہوگئی ہے۔ نوجوان تمہارا بہت بہت شکریہ”۔

انور نے ملکہ کی بات سن کر سر جھکا کر اسے تعظیم دی۔ بادشاہ کے پوچھنے پر انور نے اپنی پوری کہانی اسے سنا دی۔ بادشاہ اس کا بہت احسان مند تھا۔ اس نے کہا۔ “نوجوان تم نے ہمیں ایک بہت بڑی مصیبت سے نجات دلائی ہے۔ ہم زندگی بھر تمہارے احسانمند رہیں گے”۔

انور نے دونوں ہاتھ باندھ کر کہا۔ “جہاں پناہ۔ آپ ہمارے بادشاہ سلامت ہیں۔ آپ ہمارا بہت خیال رکھتے ہیں۔ ہمارا بھی یہ فرض ہے کہ وقت پڑنے پر ہم آپ کے کام آئیں اور آپ کی مدد کریں”۔

اس کی بات سن کر بادشاہ بہت خوش ہوا۔ اس نے کہا۔ “تم نے ایک بہت بڑا کام کیا ہے۔ ہم تمہیں انعام دینا چاہتے ہیں۔ مانگو کیا مانگتے ہو”۔

انور بولا۔ “بادشاہ سلامت۔ میں تو اپنی بیوی سونا کے کہنے پر گاؤں سے چل کر شہر نوکری کرنے آیا ہوں۔ اگر مجھے کوئی نوکری مل جائے تو میں سمجھوں گا کہ یہ ہی میرا انعام ہے۔ میری نوکری لگ جائے گی تو سونا بہت خوش ہوگی۔ وہ چاہتی ہے کہ میں کچھ کماؤں تاکہ میرا بوڑھا باپ آرام سے گھر میں بیٹھے”۔

اس کی معصومانہ باتیں سن کر بادشاہ بہت ہنسا – ملکہ اور شہزادی بھی مسکرانے لگی تھیں۔ بادشاہ نے کہا۔ “ٹھیک ہے ہمیں تمھاری خواہش منظور ہے۔ مگر اب ہم تمہیں کہیں اور نہیں جانے دیں گے۔ کہو تم کون سا کام کرنا پسند کروگے؟ ہم تو چاہتے ہیں تم ہمارے وزیر خاص بن جاؤ”۔

“میں بچوں کو پڑھانا چاہتا ہوں۔ اگر مجھے یہ ذمہ داری دے دی جائے تو میں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھوں گا”۔ انور نے کہا۔ “میرا دل چاہتا ہے کہ ہمارے ملک کا ایک ایک بچہ اور ایک ایک بچی تعلیم حاصل کرے اور ایک مفید شہری بنے جس سے ہمارا ملک بھی ترقی کرے گا اور لوگ بھی خوش حال ہو جائیں گے”۔

بادشاہ اس کی بات سن کر بہت خوش ہوا۔ اس نے کہا۔ “تمھاری بات سے ہم بہت خوش ہوۓ ہیں۔ تم اگر چاہتے تو ہم سے بھاری انعام و اکرام لے کر اپنی زندگی آرام سے گزار سکتے تھے مگر تمھارے دل میں ذرا سا بھی لالچ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ تم نیک دل اور سمجھدار بھی ہو۔ یہ ہی تو وہ باتیں ہیں جو تعلیم دینے والوں میں ہوتی ہیں۔ ہماری طرف سے تمہیں اجازت ہے کہ تم ہماری سلطنت کے بچوں کو تعلیم دو۔ اس سلسلے میں ہم تمہیں تمام سہولتیں مہیا کریں گے”۔

چونکہ بادشاہ سلامت کا حکم تھا اس لیے چند ہی دنوں میں ایک بہت بڑا مدرسہ بن کر تیار ہوگیا۔ اس مدرسے کا سارا انتظام انور کے ہاتھوں میں تھا۔ اس نے مدرسے میں بہت سارے دوسرے اتالیق بھی مقرر کر دیے تھے اور تھوڑے ہی عرصے میں دور دور سے بچے یہاں پڑھنے کے لیے آنے لگے جنہیں انور اور دوسرے استاد نہایت پیار محبّت سے تعلیم دیتے تھے۔ وہ نہ تو بچوں کو مارتے پیٹتے تھے اور نہ ہی ان سے سخت لہجے میں بات کرتے تھے۔ سارے بچے اس اچھے ماحول کی وجہ سے خوب دل لگا کر اور شوق سے پڑھتے تھے۔

بادشاہ نے یہاں پر تعلیم دینے والوں کی معقول تنخواہ بھی مقرر کردی تھی جو سرکاری خزانے سے دی جاتی تھی۔

بادشاہ نے اپنی طرف سے انور کو رہنے کے لیے ایک بڑا سے گھر بھی دے دیا تھا اور ایک شاہی بگھی بھی دی تھی جس میں چار گھوڑے جتے تھے۔ اس کے علاوہ اس نے پانچ ہزار اشرفیاں بھی اسے دی تھیں اور کہا تھا کہ یہ اس کا انعام ہے۔

سونا کا ماموں بھی بہت خوش تھا۔ انور کی وجہ سے بادشاہ سلامت کی نظروں میں اس کی بھی بہت عزت بڑھ گئی تھی۔ جب انور ان تمام کاموں سے فارغ ہوگیا تو ایک روز وہ اپنی بگھی میں بیٹھ کر اپنے گھر آیا۔ وہ شہر سے اپنے ساتھ بہت سے کپڑے اور دوسرے تحفے تحائف بھی لایا تھا جو اس نے گاؤں کے تمام لوگوں میں تقسیم کیے۔ اس کے علاوہ اس نے ان لوگوں کو نقد رقم بھی دی۔ اس کے ماں باپ اور اس کی بیوی سونا سب بے حد خوش تھے۔ اگلے روز انور اپنے گھر والوں کو اپنے ساتھ شہر لے آیا اور پھر سب لوگ ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے۔

–**–**–

ختم شد

سنہری گھوڑا

سنہری گھوڑا

بہت پرانے زمانے کا ذکر ہے کسی ملک میں ایک امیر کبیر سوداگر رہتا تھا۔اس سوداگر کا ایک بیٹا تھا جس کا نام ہادی تھا اور وہ اپنے باپ کے تجارت کے کاموں میں اس کا ہاتھ بٹاتا تھا۔

ہادی کا ایک دوست بھی تھا اور وہ تھا اس ملک کا شہزادہ جمال۔ان کی دوستی کی ابتدا یوں ہوئی تھی کہ بادشاہ کو شطرنج کھیلنے کا بہت شوق تھا۔ایک روز اسے پتہ چلا کہ ہادی کا باپ جس کا شمار اس کے امرا میں ہوتا ہے وہ شطرنج کا بہت اچھا کھلاڑی ہے۔بادشاہ نے اس سے کہا کہ وہ روزانہ رات کو اس کے محل میں آکر اس کے ساتھ شطرنج کھیلا کرے۔یوں اس سوداگر کا محل میں آنا جانا ہوگیا۔

اس وقت شہزادہ جمال اور ہادی دونوں چھوٹے چھوٹے تھے۔سوداگر جب محل آتا تو ہادی بھی اس کے ساتھ ہوتا تھا۔بادشاہ اور سوداگر تو تو شطرنج کی بازی لگا لیتے اور شہزادہ جمال ہادی کے ساتھ کھیل کود میں مصروف ہو جاتا۔کچھ عرصہ کے بعد جب بادشاہ نے دیکھا کہ شہزادے اور ہادی میں بہت دوستی ہوگئی ہے اور شہزادہ جمال اسے بہت پسند کرنے لگا ہے تو اس نے ہادی کو اجازت دے دی کہ وہ محل میں آکر نہ صرف شہزادے کے ساتھ کھیلا کرے بلکہ اس نے شہزادے کے ساتھ ہی اس کی تعلیم و تربیت کا بھی انتظام کردیا۔یوں وہ دونوں بچپن ہی سے ایک دوسرے کے ساتھ رہنے لگے تھے جس کی وجہ سے دونوں کی دوستی اور بھی مضبوط ہوگئی۔

وقت گزرتا رہا اور وہ دونوں بڑے ہوگئے ۔ہادی تجارت کے کاموں میں اپنے باپ کا ہاتھ بٹانے لگا۔اس سلسلے میں اسے اکثر دوسرے ملکوں کا سفر بھی کرنا پڑتا تھا۔وہ تجارت کا مال لے کر اپنے باپ کے ساتھ سفر پر چلا جاتا تو اس کی غیر موجودگی میں شہزادہ جمال بے حد اداس ہو جایا کرتا تھا۔

آج کل بھی ہادی اپنے باپ کے ساتھ تجارت کا مال لے کر ایک دوسرے ملک میں آیا ہوا تھا۔ان کا قیام کچھ زیادہ ہی طویل ہوگیا تھا مگر اچھی بات یہ ہوئی کہ ان کا سارا سامان فروخت ہوگیا تھا اور انھیں بہت منافع ہوا تھا۔

اب ان کا واپسی کا ارادہ تھا۔واپسی سے ایک روز پہلے ہادی گھومنے پھرنے کے لیے سرائے سے باہر نکل گیا۔گھومتے گھومتے وہ دریا کے کنارے آ نکلا۔دریا کے نزدیک ہی ایک گھنا جنگل بھی تھا۔ہادی نے سوچا کہ جنگل کی بھی سیر کی جائے۔وہ جنگل میں داخل ہوا تو اس نے شہتوت کے درخت کے نیچے ایک خوب صورت چھوٹے سے بونے کو دیکھا وہ اپنے گھٹنوں میں منہ چھپائے بیٹھا تھا۔ہادی اس کے قریب آیا اور بولا۔ “پیارے دوست۔تم کون ہو اور اس جنگل میں کیا کر رہے ہو؟”۔

بونے نے گھٹنوں سے سر اٹھا کر ہادی کو دیکھا اور کہا۔ “نوجوان تمہارا شکریہ کہ تم نے میرا حال معلوم کیا۔میرا نام جوجو ہے۔ میں پرستان میں رہتا تھا اور وہاں کی شہزادی دل آرا پری کا خادم خاص تھا۔لیکن اب میں اس کی نوکری چھوڑ کر آگیا ہوں”۔

ہادی کو اس کی بات بہت دلچسپ لگی۔وہ اس کے پاس بیٹھتے ہوے بولا۔ “پرستان کی شہزادی کی نوکری کیوں چھوڑی؟ کیا وہ بدمزاج تھی اور تمھارے ساتھ اس کا اچھا سلوک نہیں تھا؟”۔

“خیر یہ بات تو نہیں ہے۔وہ بہت اچھی پری ہے۔مگر ایک روز وہ کسی بات پر منہ پھلائے بیٹھی تھی۔میں نے اس کا سبب پوچھا تو اس نے مجھے جھڑک دیا اور مجھ سے درشت لہجے میں کہا کہ میں اپنے کام سے کام رکھوں۔اس کے رویے نے میرا دل توڑ دیا اور میں اس سے کہہ کر آگیا کہ اب نہ تو میں اس کی نوکری کروں گا اور نہ ہی پرستان میں رہوں گا۔جب سے میں ادھر ادھر پھر رہا ہوں”۔

ہادی کو جوجو بہت اچھا لگا تھا۔اس نے کہا۔ “جوجو تم اب بالکل فکر مت کرو۔تمھارے ساتھ جو بھی ہوا اسے بھلا دو۔آج سے تم میرے دوست ہو اور میں تمہارا دوست۔اب تم میرے ساتھ ہی رہو گے”۔

جوجو نے اس کی بات سنی تو جھٹ کپڑے جھاڑ کر اٹھ کھڑا ہوا اور ہادی کے ساتھ چل پڑا۔

ہادی اسے ساتھ لے کر سرائے میں آیا اور اپنے باپ کو بتا دیا کہ اب جوجو اس کے ساتھ ہی رہے گا۔اگلے دن وہ لوگ گھر جانے کے لیے نکل گئے۔ایک دن اور ایک رات کی مسافت کے بعد وہ اپنے شہر پہنچ گئے۔

گھر پہنچ کر ہادی کچھ دیر اپنی ماں کے پاس بیٹھا اور سفر کے دوران پیش آنے والی باتیں اسے بتائیں۔اس کی ماں جوجو کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور اسی وقت ہادی کو بازار بھیج کر اس کے لیے اچھی اچھی پوشاکیں اور جوتے منگوائے۔جوجو نے نہا دھو کر جب یہ کپڑے پہنے تو بہت ہی خوب صورت نظر آنے لگا۔

ان کاموں سے فراغت ملی تو ہادی اور جوجو دو گھوڑوں کی بگھی میں بیٹھ کر شہزادے سے ملنے کے لیے محل کی جانب چل پڑے۔ہادی کو شہزادہ جمال سے ملے کافی عرصہ ہوگیا تھا۔ہادی محل پہنچا تو شہزادہ جمال اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اسے گلے سے لگا لیا۔

ہادی نے جوجو کا تعارف شہزادہ جمال سے کرواتے ہوئے کہا۔ “یہ میرا نیا دوست ہے جوجو۔جوجو سے میری ملاقات جنگل میں ہوئی تھی”۔

پھر اس نے شہزادہ جمال کو پوری کہانی سنا دی۔شہزادہ جمال نے جوجو کو بڑی محبّت سے اپنے پاس بٹھا لیا اور اس سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا۔

ہادی نے محسوس کیا تھا کہ شہزادہ جمال کچھ پریشان سا ہے۔جب شہزادہ اس کی طرف متوجہ ہوا تو ہادی نے کہا۔ “شہزادے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم کچھ پریشان سے دکھائی دیتے ہو۔کیا بات ہے؟”۔

شہزادہ جمال ایک پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔“ہادی۔میں بہت پریشان ہوں۔تم تو اپنے ابّا کے ساتھ تجارت کا مال لے کر گئے ہوئے تھے۔اس دوران مجھے ملک روشن نگر کے بادشاہ کی تاجپوشی کے سالانہ جشن میں جانا پڑ گیا۔وہاں میں نے ان کی بیٹی شہزادی مہر بانو کو دیکھا۔وہ دنیا کی سب سے زیادہ خوب صورت شہزادی ہے۔میں چاہتا ہوں کہ میری شادی اس سے ہو جائے مگر بہت سارے شہزادوں نے اس کے لیے پیام بھجوا رکھے ہیں۔ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس کی شادی اس سے ہو۔اس لیے بادشاہ سلامت نے ایک شرط رکھ دی ہے کہ جو کوئی بھی گھڑ دوڑ کے مقابلے میں اول آئے گا اس کی شادی مہر بانو سے ہوگی۔اب تم ہی بتاؤ کہ شہزادی کی شادی اور گھوڑوں کی دوڑ کا آپس میں کیا تعلق بنتا ہے؟”۔

تعلق تو بنتا ہے۔شہزادی کے تم سمیت بہت سارے شہزادوں کے رشتے آچکے ہیں۔اگر بادشاہ سلامت ایک کو چھوڑ کر باقی سب شہزادوں کو ٹکا سا جواب دے دیں تو دوسرے ملکوں سے ان کے تعلقات خراب ہوجائیں گے۔انہوں نے تو بڑا دانشمندانہ فیصلہ کیا ہے۔تمہارا گھوڑا تو بہت اعلیٰ نسل کا ہے۔میں نے دیکھا ہے یہ دوڑتا نہیں ہوا سے باتیں کرتا ہے۔ گھبراتے کیوں ہو۔دوڑ میں حصہ لو۔خدا نے چاہا تو تم ہی مقابلہ جیتو گے”۔

ہادی کی باتوں سے شہزادہ جمال کو کچھ اطمینان ہوا۔

ہادی کا باپ چونکہ بہت عرصے کے بعد ایک لمبے سفر سے واپس لوٹا تھا اس لیے اس نے سوچا تھا کہ وہ دو ایک مہینے آرام کرے گا اس کے بعد ہی رخت سفر باندھے گا۔یوں ہادی کو بھی چھٹی مل گئی تھی۔اس کا اور جوجو کا زیادہ تر وقت شہزادہ جمال کے ساتھ ہی گزرتا تھا۔وہ تینوں گھوڑے کی دیکھ بھال میں لگے رہتے تھے۔اسی گھوڑے پر سوار ہو کر شہزادہ جمال کو دوڑ کے مقابلے میں حصہ لینا تھا۔

مقابلہ ایک ہفتے کے بعد تھا۔اس میں شرکت کرنے والوں کی آمد شروع ہوگئی تھی۔شہزادہ جمال بھی ہادی اور جوجو کے ساتھ روشن نگر آگیا تھا۔دوسرے ملکوں کے بھی بہت سے شہزادے آئے ہوئے تھے اور ان سب کو شاہی محل کے مہمان خانے میں ٹہرایا گیا تھا اور ان کی خوب آؤ بھگت کی جا رہی تھی۔جوجو تو ان شہزادوں کو دیکھ کر بہت ہی خوش تھا۔

ایک شہزادہ جس کا نام شہزادہ شرافت تھا وہ جوجو کو اچھا نہیں لگتا تھا۔ وہ چھوٹے قد اور سانولے رنگ کا تھا اور اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں دیکھ کر جوجو نے اندازہ لگایا کہ وہ ایک لالچی اور حریص آدمی ہے۔ تمام شہزادے اپنے اپنے گھوڑے بھی ساتھ لائے تھے۔ان گھوڑوں کو ایک بہت بڑے اصطبل میں رکھا گیا تھا اور ایک تجربہ کار سائیس اور بہت سے خادم ان کی دیکھ بھال کے لیے مقرر کیے گئے تھے۔جوجو نے یہ بات بھی محسوس کی تھی کہ شہزادہ شرافت اصطبل کے آس پاس گھوم کر دوسرے شہزادوں کے گھوڑوں کا جائزہ لیتا رہتا تھا۔شہزادہ جمال کے گھوڑے کو تو وہ بڑی نفرت سے دیکھتا تھا کیوں کہ وہ سب سے تندرست اور قد آور گھوڑا تھا۔

مقابلوں سے ایک روز پہلے ایک عجیب واقعہ ہوا۔شہزادہ جمال جب ہادی اور جوجو کے ساتھ اصطبل میں اپنے گھوڑے کو دیکھنے آیا تو اصطبل خالی پڑا تھا۔ہادی نے جلدی سے ایک خادم کو بلا کر گھوڑے کی گمشدگی کے بارے میں پوچھا تو اس نے لاعلمی کا اظہار کیا۔تھوڑی ہی دیر میں یہ خبر ہر طرف پھیل گئی کہ شہزادہ جمال کا گھوڑا غائب ہوگیا ہے۔

تمام شہزادے وہاں جمع ہوگئے۔ان ہی میں شہزادہ شرافت بھی تھا۔اس نے شہزادوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔ “یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ ہار کے خوف سے شہزادہ جمال نے خود ہی اپنے گھوڑے کو غائب کردیا ہو”۔

ہادی نے اسے تیز نظروں سے گھورا اور کچھ کہنے ہی والا تھا کہ شہزادہ جمال نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔شاہی ہرکارے چاروں طرف پھیل گئے اور گھوڑے کو تلاش کرنے لگے مگر گھوڑے کو نہ ملنا تھا نہ ملا۔

مایوس ہو کر وہ اپنے کمرے میں آگئے۔اس صورت حال سے شہزادہ جمال سخت پریشان ہو گیا تھا۔وہ اداسی کے عالم میں اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ہادی سوچ رہا تھا کہ اب کیا کیا جائے۔جوجو کھڑکی کے پاس کھڑا باہر دیکھ رہا تھا۔اچانک وہ کسی چیز کو دیکھ کر جلدی سے مڑا اور ہادی کے پلنگ کے نیچے گھس گیا۔

ہادی یہ منظر دیکھ کر حیران ہوا۔وہ اٹھ کر کھڑکی کے نزدیک آیا اور باہر اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگا۔اچانک اس کی آنکھیں ایک عجیب سی روشنی سے چکا چوند ہوگئیں۔اس روشنی نے کمرے کو بھی منور کردیا تھا اور شہزادہ جمال بھی بستر پر اٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔وہ روشنی ایک نہایت حسین و جمیل پری کے پروں سے نکل رہی تھی جو اب کھڑکی کے راستے کمرے میں داخل ہوچکی تھی۔

کمرے میں آکر اس پری نے ہادی اور شہزادہ جمال کو مسکرا کر دیکھا اور بولی۔ “جوجو۔تمہارا چھپنا بے کار ہے۔میں نے تمہیں دیکھ لیا ہے۔اب تمہیں میرے ساتھ واپس چلنا ہوگا۔شہزادی دل آرا صاحبہ تمہاری یاد میں بیمار پڑ گئی ہیں۔وہ تمہیں بہت یاد کرتی ہیں۔انھیں اپنے اس برے سلوک پر بہت افسوس ہے جو انہوں نے تمھارے ساتھ کیا تھا۔انہوں نے مجھے بھیجا ہے کہ میں تمہیں ڈھونڈ کر لاؤں۔خوشی کی بات ہے کہ تم مجھے مل گئے ہو”۔

“اب میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گا”۔ جوجو نے بستر کے نیچے سے نکلتے ہوئے کہا۔“میں اپنے دوست ہادی کے ساتھ بہت مزے سے رہتا ہوں۔شہزادی کی طرح وہ مجھ سے برا سلوک بھی نہیں کرتا۔میری بغیر کسی غلطی پر شہزادی نے مجھے جھڑکا تھا جس کا مجھے بہت رنج ہے۔میں اب کبھی پرستان کا رخ نہیں کروں گا”۔

پری بے بسی سے ہادی اور شہزادہ جمال کو دیکھنے لگی جیسے کہہ رہی ہو کہ وہ جوجو کو سمجھائیں۔ہادی نے ہاتھ کے اشارے سے اسے تسلی دی اور پھر اس سے بیٹھنے کو کہا۔کمرے میں ایک میز پر پھل اور مشروبات رکھے ہوئے تھے۔جوجو نے پھلوں کی طشتری اور مشروب کا پیالہ پری کو پیش کیا۔

پری نے جوجو سے کہا۔“شہزادی صاحبہ کو اپنے رویے پر بہت افسوس ہے۔تمہیں ڈھونڈنے کی ذمہ داری انہوں نے مجھے سونپی تھی۔میں جگہ جگہ تمہیں ڈھونڈتی پھر رہی تھی۔شکر ہے کہ میں تمہیں ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئی ہوں”۔

جوجو کا دل کچھ نرم پڑ چکا تھا۔اس نے کہا۔“دیکھو چندا پری۔میں سوچوں گا کہ تمھارے ساتھ پرستان چلوں کہ نہیں۔مگر ابھی تو ہم ایک الجھن میں گرفتار ہیں۔کل دوڑ کا مقابلہ ہے مگر ہمارے شہزادے کا گھوڑا کہیں گم ہوگیا ہے۔کیا تم اس سلسلے میں ہماری کوئی مدد کرسکتی ہو”۔

چندا پری نے کہا۔ “مجھے یہ یقین تھا کہ تم مجھے ضرور مل جاؤ گے۔اس لیے میں شہزادی دل آرا سے کہہ کر شاہی اصطبل سے تمھارے لیے سنہرا گھوڑا بھی لے کر آئی تھی تاکہ تم اس پر بیٹھ کر پرستان جا سکو۔اس گھوڑے کو میں نے ایک غار میں چھپا دیا ہے۔میں روز جاکر اس کے چارے اور پانی کا انتظام کر کے آتی ہوں۔ہم صبح پہاڑوں پر جا کر اسے اپنے ساتھ لے آئیں گے۔شہزادے صاحب اس گھوڑے پر سوار ہو کر مقابلے میں حصہ لیں گے”۔

“شہزادے کے گھوڑے کے گم ہوجانے سے بادشاہ سلامت بھی بہت برہم ہیں اور انہوں نے داروغہ کو حکم دیا ہے کہ وہ جلد سے جلد چور کا پتہ چلائے”۔ہادی نے کہا۔پھر کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد سب سو گئے۔

صبح ہوئی تو شہزادہ جمال اور ہادی نے دیکھا کہ جوجو اور چندا پری کمرے میں موجود نہیں ہیں۔خادموں نے کمرے میں ناشتہ لگا دیا تھا۔وہ انتظار کرنے لگے کہ وہ دونوں آجائیں تو ساتھ مل کر ناشتہ کریں۔مگر ان دونوں کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔دوڑ کے مقابلوں کا وقت تیزی سے قریب آتا جا رہا تھا۔

محل کے باہر والے میدان میں لوگ جمع ہوگئے تھے اور ان کے تیز تیز باتیں کرنے کی آوازیں ان کے کانوں میں آ رہی تھیں۔شہزادہ جمال نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔مقابلے میں حصہ لینے والے تمام شہزادے میدان میں آچکے تھے۔ان کے تازہ دم اور چاق و چوبند گھوڑے دیکھ کر شہزادہ جمال دل مسوس کر رہ گیا۔اگر اس کے ساتھ دھوکہ نہ کیا گیا ہوتا تو وہ بھی اپنے گھوڑے کے ساتھ ان ہی شہزادوں کے درمیان موجود ہوتا۔

“وہ دونوں تو اب تک نہیں آئے ہیں”۔ہادی نے پریشانی سے کہا۔“دوڑ شروع ہونے والی ہے۔ہم ایسا کرتے ہیں کہ بادشاہ سلامت سے کہہ کر ان کے اصطبل سے کوئی گھوڑا لے لیتے ہیں”۔

ابھی اس کی بات ختم ہوئی ہی تھی کہ شہزادی مہر بانو کی خاص کنیز کمرے میں داخل ہوئی۔پریشانی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔اس نے کہا۔ “شہزادہ جمال۔مجھے شہزادی مہر بانو نے بھیجا ہے۔آپ اب تک میدان میں کیوں نہیں پہنچے، انھیں بہت تشویش ہے۔انہوں نے یہ بھی کہلوایا ہے کہ آپ کا گھوڑا غائب ہو گیا ہے تو شاہی اصطبل سے کوئی دوسرا گھوڑا لے لیں۔شہزادی صاحبہ چاہتی ہیں کہ آپ دوڑ کے مقابلے میں ضرور حصہ لیں۔انھیں یقین ہے کہ آپ یہ مقابلہ ضرور جیت جائیں گے”۔

“ٹھیک ہے ہم آتے ہیں”۔شہزادہ جمال نے کنیز سے کہا۔اچانک ان کے کانوں میں جوجو کی آوازیں آئیں۔“ہادی۔ہادی۔

جلدی سے باہر آؤ۔دیکھو – میرے ساتھ کون آیا ہے”۔

اس کی آواز سن کر ہادی بجلی کی سی تیزی سے باہر آیا اور پھر وہ خوشی سے اچھل پڑا۔سامنے سے جوجو آتا نظر آرہا تھا اور اس نے ایک نہایت خوبصورت اور صحت مند گھوڑے کی باگ تھام رکھی تھی۔اس گھوڑے کا رنگ سنہری تھا۔شہزادہ جمال بھی ہادی کے پیچھے پیچھے تھا اور خوشی بھری نظروں سے سنہری گھوڑے کو دیکھ رہا تھا۔

جوجو نے گھوڑے کی راس شہزادہ جمال کے ہاتھ میں دی اور بولا۔“لو شہزادے۔خدا کا نام لے کر اس گھوڑے پر سوار ہوجاؤ اور دوڑ میں حصہ لو۔یہ نہایت سبک رفتار ہے ۔اس کا مقابلہ کوئی دوسرا گھوڑا نہیں کرسکے گا”

شہزادہ جمال نے رکاب میں پاؤں رکھا اور پھر اس پر سوار ہو کر اسے دوڑاتا ہوا میدان کی جانب روانہ ہو گیا۔ہادی اور جوجو بھی میدان کی طرف چل دیے۔راستے میں جوجو نے ہادی کو بتایا کہ چندا پری گھوڑا اس کے حوالے کر کے پرستان چلی گئی ہے تاکہ اس کے مل جانے کی خبر شہزادی دل آرا کو دے سکے۔وہ دو ایک روز میں واپس آجائے گی۔

ادھر شہزادی مہر بانو کے علاوہ بادشاہ کو بھی فکر ہوگئی تھی کہ شہزادہ جمال اب تک وہاں کیوں نہیں آیا ہے۔اس کے اچھے کردار اور خوب صورتی کی وجہ سے بادشاہ کی بھی یہ خواہش تھی کہ مہر بانو کی شادی اسی سے ہو۔بادشاہ کو بھی اس بات کا علم ہوگیا تھا کہ شہزادہ جمال کا گھوڑا غائب ہوگیا ہے اور اسے امید تھی کہ وہ اب تک کسی دوسرے گھوڑے کا انتظام کر چکا ہوگا۔وہ بار بار بے چینی سے میدان کے دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا مگر شہزادہ جمال کا کہیں پتہ ہی نہ تھا۔

بادشاہ سر جھکا کر کچھ سوچنے لگا۔اچانک اس کے کانوں میں مہر بانو کی خوشی بھری ہلکی سی چیخ کی آواز آئی۔اس نے چونک کر دیکھا۔شہزادی میدان کے دروازے کی جانب دیکھ رہی تھی۔بادشاہ کی نظریں بھی اس طرف اٹھ گئیں۔شہزادہ جمال ایک خوب صورت سنہری گھوڑے پر سوار ہو کر میدان میں داخل ہوا اور دوڑ کے مقابلے میں حصہ لینے والے شہزادوں کے درمیان کھڑا ہوگیا۔شہزادہ شرافت کی نظر بھی اس پر پڑ گئی تھی۔شہزادے جمال اور اس کےگھوڑے کو دیکھ کر اس کا منہ حیرت سے کھل گیا تھا۔

بادشاہ کے بھی ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔تھوڑی دیر بعد دوڑ شروع ہوئی۔شہزادے جمال کا اشارہ پاتے ہی سنہری گھوڑے نے ایک جست لگائی اور انتہائی تیز رفتاری سے دوڑتا ہوا سب سے آگے نکل گیا۔دوڑ کے اس مقابلے کو دیکھنے کے لیے وہاں پر عوام کی ایک بہت بڑی تعداد جمع تھی۔شہزادے جمال کے گھوڑے کی برق رفتاری دیکھ کر تمام لوگ جوش و خروش سے نعرے بلند کرنے لگے۔سب لوگوں کو یہ یقین ہوگیا تھا کہ شہزادہ جمال اس مقابلے میں جیت جائے گا۔جب ایک لمبا چکر کاٹ کر وہ سب شہزادے واپس آئے تو لوگوں کا یقین سچ میں بدل چکا تھا۔شہزادہ جمال کا سنہری گھوڑا سب سے آگے تھا۔وہ جیت گیا تھا۔

دوڑ کے اختتام پر بادشاہ خوشی سے اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا اور شہزادہ جمال کو گلے سے لگا لیا۔شہزادی مہر بانو کا چہرہ بھی خوشی سے گلنار ہورہا تھا۔ملکہ نے اپنی بیٹی کی طرف دیکھا تو سمجھ گئی کہ وہ بھی چاہتی تھی کہ شہزادہ جمال کامیاب ہو جائے۔

شہزادی کو خوش دیکھ کر وہ بھی مسکرانے لگی۔

شہزادہ جمال کی جیت کی خوشی میں ہر طرف شادیانے بجنے لگے تھے اور لوگوں نے میدان میں آکر ناچنا گانا شروع کردیا تھا۔اسی اثنا میں داروغہ ایک غلام کی مشکیں کس کر بادشاہ کے سامنے حاضر ہوا اور بادشاہ کو فرشی سلام پیش کر کے بولا۔

“جہاں پناہ۔آپ کے حکم کے مطابق میں نے شہزادے جمال کے گھوڑے کے بارے میں تفتیش کی تھی۔یہ ہے وہ نمک حرام جس نے اس گھوڑے کو غائب کیا تھا”۔

“حضور مجھے معاف کردیجیے۔میں لالچ میں آگیا تھا۔شہزادہ شرافت نے مجھ سے کہا تھا کہ اگر میں شہزادہ جمال کے گھوڑے کو غائب کردوں تو وہ مجھے اشرفیوں کی ایک تھیلی دے گا۔اسے ڈر تھا کہ شہزادہ جمال کا گھوڑا مقابلہ جیت جائے گا۔اس نے مجھ سے یہ بھی کہا تھا کہ شہزادی سے شادی ہوجانے کے بعد وہ مجھے محل کے خادموں کا سردار بھی بنا دے گا”۔

شہزادہ شرافت بھی وہیں کھڑا تھا۔اس نے جب دیکھا کہ اس کا بھانڈا پھوٹ گیا ہے تو اس نے وہاں سے بھاگ جانے میں ہی عافیت جانی، اس نے اپنا گھوڑا موڑا اور اسے تیزی سے بھگاتے ہوئے نظروں سے غائب ہوگیا۔وہاں پر موجود سب لوگ اسے برا بھلا کہہ رہے تھے۔بادشاہ کے حکم پر اس غلام کو جیل میں بند کردیا گیا۔

چند روز کے بعد شہزادہ جمال اور شہزادی مہر بانو کی بڑی دھوم دھام سے شادی ہوگئی۔شہزادہ جمال کی ماں اور باپ دونوں بہت خوش تھے کہ ان کے شہزادے کی شادی شہزادی مہر بانو سے ہوگئی تھی۔چندا پری اور جوجو نے بھی اس شادی میں شرکت کی تھی۔شادی کی تقریبات ختم ہوئیں تو جوجو سنہرے گھوڑے پر سوار ہو کر چندا پری کے ساتھ پرستان روانہ ہوگیا۔

وہ لوگ پرستان پہنچے تو شہزادی دل آرا جوجو کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔اس نے چندا پری کو بہت سارا انعام دیا اور جوجو سے اپنے برے سلوک کی معذرت کی۔جوجو بھی شہزادی کو بہت یاد کرتا تھا۔اس نے پہلے تو تھوڑے سے نخرے دکھائے مگر پھر مان گیا۔اپنی بات اونچی رکھنے کے لیے اس نے کہا۔“شہزادی صاحبہ۔اگر آپ نے پھر کبھی مجھے جھڑکا یا مجھ پر غصہ کیا تو میں ایسی جگہ چلا جاؤں گا کہ چندا پری بھی مجھے نہیں ڈھونڈ سکے گی”۔

اس کی دھمکی سن کر شہزادی مسکرانے لگی اور بولی “میں نے بھی عہد کر لیا ہے کہ اب ایسی کوئی بات نہیں کروں گی کہ جس کی وجہ سے میرا پیارا جوجو مجھ سے ناراض ہو کر کہیں چلا جائے”۔

یہ سن کر جوجو نے مارے خوشی کے ایک چھلانگ لگائی اور دوڑتا ہوا باغ میں چلا گیا۔تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ شہزادی دل آرا بھی وہاں آگئی۔پھر وہ دونوں چاندی کی زنجیروں والے جھولوں پر بیٹھ کر جھولا جھولنے لگے۔

–**–**–

ختم شد