by Abdul Muneeb | Apr 7, 2024 | بچوں کی کہانیاں, ناولز
راجْو ایک لکڑ ہارا تھا۔ اس کی عمر اٹھارہ انیس سال کی تھی۔ وہ اپنی ماں کے ساتھ ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ وہ روز جنگل سے لکڑیاں کاٹتا اور انھیں فروخت کر کے ان سے ملنے والی رقم اپنی ماں کو لا کر دے دیتا جس سے وہ گھر کا خرچ چلاتی ۔
ایک روز راجْو جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر واپس گھر آ رہا تھا تو اس نے جھاڑیوں میں ایک کْتّا دیکھا۔ اپنی بڑی جسامت اور شکل و صورت سے وہ کسی اچھی نسل کا لگ رہا تھا۔ اس کے گلے میں ایک قیمتی پٹّہ تھا اور اس پٹّے پر اس کا نام بھی درج تھا “ڈبو”۔
راجْو نے اندازہ لگایا کہ وہ کسی امیر آدمی کا کْتّا ہے۔ ڈبّو زخموں سے چور تھا۔ اس کے جسم سے جگہ جگہ سے خون رس رہا تھا اور وہ زمین پر پڑا گہری گہری سانسیں لے رہا تھا۔ راجْو اس کے نزدیک آیا تو وہ اسے رحم طلب نظروں سے دیکھنے لگا۔
راجْو کو ڈبّو پر بہت ترس آیا۔ اس نے لکڑیوں کا گٹّھا ایک طرف رکھا اور اسے اٹھا کر گھر لے آیا۔ اس کی ماں ایک رحمدل عورت تھی۔ ڈبّو کی حالت دیکھ کر وہ بھی پریشان ہوگئی۔ اس نے جلدی سے پانی گرم کر کے اس کے زخموں کو دھویا۔ پھر گھر میں موجود جڑی بوٹیوں سے بنی ہوئی دوائی اس کے زخموں پر لگائی۔
ڈبّو کی حالت ذرا سنبھلی تو اس نے دودھ میں روٹی بھگو کر اسے کھلائی اور نرم نرم سوکھی گھاس کا بستر بنا کر اس میں لٹا دیا۔
جب ان تمام کاموں سے فرصت مل گئی تو راجْو دوبارہ جنگل گیا۔ وہاں سے اپنی لکڑیوں کا گٹّھا اٹھا کر انھیں بازار میں بیچنے نکل گیا۔ اس دوران وہ مسلسل زخمی ڈبّو کے متعلق سوچے جا رہا تھا۔ اس کے جسم پر لگے زخم کسی تیز دھار ہتھیار کا نتیجہ معلوم دیتے تھے۔ وہ حیران تھا کہ اس بے زبان پر کس نے اتنا ظلم کیا ہوگا۔
اس کی لکڑیاں اچھے داموں فروخت ہوگئی تھیں۔ وہ خوش خوش گھر لوٹا۔ گھر آیا تو اس نے دیکھا کہ ڈبّو مزے سے گھر کے ایک کونے میں گھاس کے بستر میں لیٹا سو رہا ہے۔ اس کی ماں مسلسل اس کی دیکھ بھال میں مصروف تھی۔
چند روز ہی گزرے تھے کہ ڈبّو بھلا چنگا ہوگیا۔ اس کے زخم پوری طرح بھر گئے تھے اور وہ بھاگنے دوڑنے کے قابل ہوگیا تھا۔ اتنے کم عرصے میں ہی وہ راجْو اور اس کی ماں سے بہت مانوس ہوگیا تھا۔ راجْو کو دیکھ کر تو اس کی حالت ہی تبدیل ہوجاتی تھی۔ وہ اپنی دم ہلاتے ہوئے اس کے آگے پیچھے گھومنے لگتا۔
ایک روز راجْو جب جنگل جانے کے لیے گھر سے نکلا تو ڈبّو بھی اس کے ساتھ ہولیا۔ راجْو نے سوچا کہ اسے بھی اپنے ساتھ جنگل لے جائے گا۔ وہ خوش ہوجائے گا۔ دونوں جنگل پہنچے۔ ابھی راجْو نے لکڑیاں کاٹنا بھی شروع نہیں کی تھیں کہ ڈبّو ان جھاڑیوں کے نزدیک پہنچ گیا جہاں سے چند روز پہلے وہ راجْو کو زخمی حالت میں ملا تھا۔
وہاں پہنچ کر وہ زور زور سے بھونکنے لگا۔ پھر نہایت تیزی سے بھاگتا ہوا راجْو کے پاس آیا اور اس کی قمیض کا دامن دانتوں میں دبا کر اسے گھسیٹنے لگا۔ راجْو سمجھ گیا کہ وہ اسے جھاڑیوں کے پاس لے جا کر کوئی چیز دکھانا چاہتا ہے۔ وہ اس کے ساتھ جھاڑیوں کے نزدیک آیا۔
ڈبّو جھاڑیوں میں گھس گیا۔ تھوڑی دیر بعد باہر آیا تو اس کے منہ میں قیمتی موتیوں کا ایک ہار دبا ہوا تھا۔ اس ہار کو اس نے راجْو کے قریب زمین پر گرا دیا۔ راجْو تو حیرت سے گْنگ ہو کر رہ گیا۔ وہ ہار نہایت قیمتی لگ رہا تھا کیوں کہ اس میں ننھے ننھے جگمگاتے ہیرے جڑے ہوئے تھے۔ راجْو کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ ہار ان جھاڑیوں میں کیوں موجود تھا۔
اس نے ہار کو اٹھا کر اپنے کپڑوں میں چھپا لیا۔ پھر اس نے ڈبّو کو دیکھا، وہ ابھی تک بے چین نظر آرہا تھا اور سامنے کی طرف پہاڑوں کو دیکھے جا رہا تھا۔ اس نے ایک مرتبہ پھر راجْو کی قمیض منہ میں دبا لی اور اسے کھینچنے لگا۔
راجْو اس کی اس حرکت سے سمجھ گیا کہ وہ اس کو کہیں لے جانا چاہتا ہے۔ اس نے کہا۔ “ٹھیک ہے۔ میں تمھارے ساتھ چلتا ہوں”۔
ڈبّو اسے اپنے ساتھ لیے لیے پہاڑوں کی جانب چل پڑا۔ وہ زمین پر کچھ سونگھتا بھی جا رہا تھا۔ پہاڑوں کے نزدیک پہنچے تو وہاں اس کے دامن میں دور تک بڑے بڑے درخت نظر آئے۔ ڈبّو اسے لے کر ان درختوں کے جھنڈ میں داخل ہوگیا۔
ابھی وہ لوگ کچھ ہی دور گئے ہونگے کہ راجْو کو ایک بڑی سی پختہ عمارت نظر آئی۔ وہ عمارت باہر سے نظر نہیں آتی تھی کیونکہ اسے درختوں نے گھیر رکھا تھا۔ عمارت دیکھ کر راجْو کو بہت حیرت ہوئی، وہ ڈبّو کے ساتھ جھاڑیوں میں دبک کر بیٹھ گیا اور عمارت کے آس پاس کا جائزہ لینے لگا۔
اس عمارت کے باہر اسے چند لوگ نظر آئے۔ ان کی شکلیں کافی خطرناک تھیں اور ان کی میانوں میں تلواریں نظر آ رہی تھیں۔ ان لوگوں کو دیکھ کر ڈبّو ایک مرتبہ پھر بے چین ہوگیا اور آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔
راجْو نے اسے بڑی مشکل سے قابو میں کیا اور دھیرے سے بولا۔ “یہ لوگ تو مجھے ڈاکو لگتے ہیں۔ اگر انہوں نے ہمیں دیکھ لیا تو مار ڈالیں گے۔ ہمیں جوش کی نہیں ہوش کی ضرورت ہے”۔
یہ کہہ کر اس نے ڈبّو کے گلے میں پڑے ہوئے پٹّے کو پکڑا اور واپسی کے لیے مڑ گیا۔
وہاں سے واپس آ کر اس نے دوبارہ اپنا کام شروع کردیا۔ دوپہر ڈھلے تک اس نے بہت سی لکڑیاں کاٹ لی تھیں۔ آج اس نے جلدی واپسی کا سوچا تھا۔ اس لیے اس نے لکڑیوں کو ایک جگہ اکھٹّا کر کے باندھا اور انھیں اٹھا کر چل پڑا۔ بازار میں آ کر اس نے جلدی جلدی ان لکڑیوں کو فروخت کیا اور پھر گھر آگیا۔
گھر آ کر اس نے اپنی ماں کو قیمتی ہار ملنے کا واقع سنایا۔ اس نے ماں کو یہ نہیں بتایا تھا کہ ڈبّو کے ساتھ وہ ان خوفناک ڈاکوؤں کے ٹھکانے تک بھی پہنچ گیا تھا کیوں کہ یہ بات سن کر اس کی ماں خوفزدہ ہوجاتی۔
اس کی ماں نے ہار اس سے لے کر احتیاط سے صندوق میں رکھ دیا اور بولی۔ “اگر کبھی اس کا مالک مل گیا تو ہم یہ ہار اسے واپس کردیں گے”۔
جب رات ہوگئی تو راجْو چپکے سے اٹھا۔ اس کی ماں گہری نیند سو رہی تھی۔ اس نے ڈبّو کو ساتھ لیا اور خاموشی سے دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔ باہر نکلا تو ہر طرف سنّاٹا تھا۔ سب لوگ مزے سے اپنے اپنے گھروں میں بستروں میں دبکے خواب و خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ اس نے نیچے زمین پر بیٹھ کر ڈبّو سے آہستگی سے کہا۔ “ہم لوگ ایک خطرناک مہم پر جا رہے ہیں۔ تم وہاں پر بالکل شور مت کرنا ورنہ ہم دونوں ہی مارے جائیں گے”۔
یہ بات سن کر ڈبّو تیزی سے اپنی دم ہلانے لگا جیسے راجْو کا مطلب سمجھ گیا ہو۔ وہ لوگ تیز تیز چلتے ہوئے جلد ہی اس جگہ پہنچ گئے جہاں پر وہ پراسرار عمارت تھی۔ وہ گہرے اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی، البتہ اس کی کھڑکیوں سے روشنی چھن چھن کر باہر آ رہی تھی۔
راجْو نے خوب غور سے آس پاس دیکھا۔ اسے کوئی پہریدار نظر نہیں آیا۔ وہ دبے قدموں آگے بڑھا اور اس عمارت کے مرکزی دروازے پر پہنچ گیا۔ ابھی وہ دروازے کو دھکّا بھی نہیں دے پایا تھا کہ اس کے کانوں میں ایک گرجدار آواز آئی۔ “کون ہے؟”
راجْو کے جسم میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اس نے کمر سے بندھا خنجر نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیا اور اندازہ کرنے لگا کہ آواز کہاں سے آئی تھی۔ عمارت کے قریب ہی ایک پانی کا تالاب تھا۔ اس میں کوئی شخص موجود تھا۔ اس شخص نے راجْو کو دیکھ لیا تھا اور اب تالاب سے نکل کر اس کی طرف آنا چاہتا تھا۔
ڈبّو نے جو یہ دیکھا تو وہ غراتا ہوا اس کی طرف بڑھا۔ اتنا بڑا اور خوفناک کْتّا دیکھ کر وہ شخص خوفزدہ ہوگیا اور دوبارہ تالاب میں کود گیا۔ ڈبّو اس کے پاس جا کر کنارے پر ہی کھڑا ہوگیا۔ وہ جیسے ہی باہر نکلنے کی کوشش کرتا، ڈبّو خوفناک اور دل ہلا دینے والی غراہٹوں کے ساتھ اس پر جھپٹنے کو تیار ہوجاتا۔
یہ دیکھ کر راجْو کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی اور وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ ڈبّو اس آدمی کو تالاب سے باہر نہیں آنے دے گا۔
اند عمارت میں دیواروں پر مشعلیں روشن تھیں اور وہاں بڑے بڑے کمرے تھے۔ راجْو گےبڑھا۔ ایک جگہ اسے سیڑھیاں نیچے جاتی نظر آئیں۔ وہ سیڑھیاں اترنے لگا اور ایک تہہ خانہ میں پہنچ گیا۔ تہہ خانے میں بڑی بڑی بوریاں تھیں جو سونے چاندی اور اشرفیوں سے بھری ہوئی تھیں۔
ایک کونے میں اسے مضبوط رسیوں میں جکڑی ایک نہایت حسین و جمیل لڑکی نظر آئی جو راجْو کو حیرت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
راجْو جلدی سے اس کے نزدیک آیا۔ اپنے خنجر سے اس کی رسیاں کاٹ کر اسے آزاد کیا اور بولا۔ “اچھی لڑکی۔ تم کون ہو اور تمہیں یہاں کس نے قید کیا ہے؟”
“میں اس شہر کے مشہور سوداگر شہریار کی بیٹی حُسن بانو ہوں۔ چند روز پہلے میں اپنے ابّا کے ساتھ دوسرے شہر سے آ رہی تھی کہ رات کے وقت ان ڈاکوؤں نے ہمارے قافلے پر دھاوا بول دیا اور لوٹ مار شروع کردی۔ میرے گلے میں ہیرے جواہرات کا ایک قیمتی ہار تھا۔ میں نے اسے اتار کر جھاڑیوں میں چھپا دیا تاکہ وہ اسے نہ لے سکیں۔ ہمارا سارا اسباب اپنے قبضے میں لے کر انہوں نے مجھے بھی پکڑ لیا اور اپنے ساتھ یہاں لے آئے۔ میرے وفادار ڈبّو نے بڑی بہادری سے ان کا مقابلہ کیا مگر ان ظالموں نے اسے خنجروں کے وار کر کر کے ادھ موا کردیا۔ جانے اب وہ کہاں ہوگا، پتہ نہیں زندہ بھی ہے یا مر گیا۔ ڈاکوؤں کا سردار مجھ سے شادی کرنے کے لیے اصرار کر رہا ہے۔ میرے انکار پر اس نے غصے میں آ کر مجھے اس تہہ خانے میں قید کردیا ہے۔ مگر نوجوان تم اس جگہ تک کیسے پہنچے؟”
“میرا نام راجْو ہے۔ میں ایک لکڑ ہارا ہوں۔ یہاں تک مجھے تمہارا ڈبّو ہی لے کر آیا ہے۔ اسے میں نے جھاڑیوں میں زخمی حالت میں دیکھا تھا اور اسے اپنے گھر لے آیا تھا۔ میری ماں نے اس کے زخموں پر دوا لگا دی تھی اور اب وہ بالکل ٹھیک ہے۔ یہ ڈاکو اب کہاں ہیں؟”
لڑکی جس کا نام حْسن بانو یہ سن کر بہت خوش ہوئی کہ اس کا وفادار ڈبّو زندہ ہے۔ اس نے کہا۔ “ڈاکو ہر روز رات کو لوٹ مار کرنے کے لیے چلے جاتے ہیں اور صبح ہونے سے پہلے واپس آجاتے ہیں۔ ان کا ایک ساتھی یہاں کی نگرانی کے لیے موجود رہتا ہے۔ اب جلدی سے یہاں سے نکلنے کا سوچو، ایسا نہ ہو کہ وہ آجائے”۔
“اس کی فکر مت کرو۔ تمہارا ڈبّو اسے تالاب میں سے نکلنے ہی نہیں دے رہا۔ میرا خیال ہے کہ یہاں پر ایک آدھ گھوڑا تو ضرور موجود ہوگا۔ ہمیں یہاں سے نکل کر کوتوال کو اطلاع دینا پڑے گی تاکہ وہ اپنے سپاہیوں کی مدد سے ان ظالم ڈاکوؤں کو گرفتار کرلے”۔ راجو نے کہا۔
وہ دونوں تہہ خانے سے باہر آئے۔ عمارت کی پچھلی طرف ایک اصطبل تھا جس میں ایک گھوڑا بندھا مل گیا۔ راجْو نے جلدی سے اس پر زین کسی اور حُسن بانو کو اس پر بیٹھا کر گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔ گھوڑا تازہ دم تھا اس لیے ہوا سے باتیں کرنے لگا۔
حُسن بانو کے بتائے ہوئے راستے پر چلتا ہوا وہ جلد ہی اس کے گھر پہنچ گیا۔ شہریار سوداگر اور اس کی بیوی نے جو اپنی بیٹی زندہ سلامت دیکھی تو ان کا خوشی سے برا حال ہوگیا۔ انہوں نے حُسن بانو کو گلے سے لگا لیا اور راجْو کا شکریہ ادا کیا۔
حُسن بانو نے جلدی جلدی انھیں پوری کہانی سنا دی۔ اس نے راجو کے متعلق بھی بتایا کہ وہ کس طرح تن تنہا ان خطرناک ڈاکوؤں کے ٹھکانے پر پہنچ گیا تھا اور اپنی عقلمندی اور بہادری کی وجہ سے اسے ان کی قید سے نکال لایا تھا۔
اس کی باتوں سے شہر یار سوداگر کی بیوی سمجھ گئی تھی کہ حُسن بانو راجو کو پسند کرنے لگی ہے۔
خود اسے بھی راجو بہت اچھا لگا تھا۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اس سلسلے میں شہر یار سوداگر سے بات کرے گی۔
کچھ دیر بعد راجْو نے کہا۔ “جناب۔ ہمیں دیر نہیں کرنا چائیے۔ کوتوال اور سپاہیوں کو لے کر فورا ڈاکوؤں کے اڈے پر پہنچنا چاہیے تاکہ انھیں گرفتار کیا جا سکے”۔
کوتوال شہریار سوداگر کا دوست تھا۔ وہ اسی وقت راجْو کو لے کر کوتوال کے گھر پہنچا اور اسے پورا واقعہ سنایا۔ ان ڈاکوؤں نے ہر طرف لوٹ مار مچا رکھی تھی اور تمام لوگ ان سے تنگ تھے۔ کوتوال بھی چاہتا تھا کہ انھیں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دے مگر وہ پکڑ میں ہی نہیں آرہے تھے۔ شہریار سوداگر کی کہانی سن کر اس نے بہت سارے سپاہیوں کو تیار کیا اور راجْو کے ساتھ ڈاکوؤں کے ٹھکانے پر پہنچ گیا۔
ڈبّو نے ابھی تک ڈاکوؤں کے ساتھی کو تالاب سے نہیں نکلنے دیا تھا، وہ جیسے ہی باہر نکلتا، وہ اس پر غرا کر جھپٹ پڑتا اور ڈاکوؤں کا ساتھی مارے ڈر کے دوبارہ پانی میں کود جاتا۔ راجْو انھیں لے کر پہلے تالاب پر ہی پہنچا تھا۔
سپاہیوں کو دیکھ کر ڈاکوؤں کے ساتھی نے پانی میں ڈبکی لگا کر ان سے بچنا چاہا، مگر کب تک، جلد ہی اسے سانس لینے کے لیے اوپر آنا پڑا۔ ایک سپاہی نے کمان پر تیر چڑھا کر اس کا نشانہ لے کر کہا۔ “اگر زندگی عزیز ہے تو باہر آجاؤ ورنہ تیروں سے چھلنی کردوں گا”۔
ڈاکوؤں کا ساتھی خوف سے لرزتا ہوا باہر نکلا اور اسے سپاہیوں نے گرفتار کر لیا۔ کوتوال نے اپنے سپاہیوں کو ادھر ادھر چھپا دیا اور ڈاکوؤں کی واپسی کا انتظار کرنے لگا۔ صبح ہونے والی تھی۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ان کے کانوں میں گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں آنے لگیں۔ سب ہوشیار ہو گئے۔
جلد ہی ڈاکو وہاں پہنچ گئے۔ ان کے سردار نے قہقہہ لگا کر کہا۔ “آج تو ہمارے ہاتھ بہت سا مال لگا ہے۔ میں بہت خوش ہوں۔ ہماری دولت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے”۔
اس کے ساتھی گھوڑوں پر لدے لوٹ مار کے سامان سے بھرے تھیلے اتارنے میں مصروف تھے کہ کوتوال کا اشارہ پاتے ہی تمام سپاہی تلواریں ہاتھ میں لے کر ان پر ٹوٹ پڑے اور جلد ہی انھیں قابو کرکے ان کی مشقیں کس دیں۔ سارے ڈاکو زمین پر بندھے پڑے تھے اور خوف بھری نظروں سے کوتوال اور سپاہیوں کو دیکھ رہے تھے۔
اس کے بعد ان کی واپسی ہوگئی۔ شہریار سوداگر راجْو کا بہت احسان مند تھا اور اس نے اس کی بہت خاطر مدارات کی۔ اگلے روز راجْو نے جھاڑیوں سے ملنے والا ہار بھی شہریار سوداگر کے حوالے کردیا ۔
بادشاہ کو بھی اس واقعہ کا علم ہوگیا تھا۔ اس نے راجْو کو اس کارنامے پر ہزاروں اشرفیاں انعام میں دیں کیوں کہ اس کی وجہ سے خوفناک ڈاکو گرفتار ہوئے تھے۔ کوتوال نے بھی اس کا بہت شکریہ ادا کیا۔
شہریارسوداگر تو راجْو سے بہت ہی خوش تھا۔ اس کی ہمت اور بہادری کی وجہ سے اس کی بیٹی اسے واپس ملی تھی۔ ایک روز وہ اس کا شکریہ ادا کرنے اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ اس کے گھر بھی آیا۔ ڈبّو بھی ان لوگوں کے ساتھ تھا۔
راجْو کی ماں انھیں دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ وہ اس بات پر بھی پھولے نہیں سما رہی تھی کہ اس کے بیٹے نے اتنی بہادری کا کام سر انجام دیا ہے جس کی سب تعریف کر رہے ہیں۔
سوداگر راجْو کی شرافت اور ایمانداری سے بھی بہت متاثر تھا کیوں کہ اتنی غربت کے باوجود اس نے حُسن بانو کا ہیرے جواہرات کا قیمتی ہار بھی اسے واپس کردیا تھا جو ڈاکوؤں کے حملے کے دوران اس نے جھاڑیوں میں چھپا دیا تھا۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ حُسن بانو کی شادی ایماندار اور بہادر راجْو سے ہی کرے گا۔
اپنے اس فیصلے کا اظہار جب اس نے اپنی بیوی کے سامنے کیا تو وہ بھی بہت خوش ہوئی اور بولی۔ “میں خود آپ سے یہ بات کرنے والی تھی۔ حُسن بانو کے لیے ہمیں راجو جیسا شوہر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا”۔
چند دنوں بعد راجو اور حُسن بانو کی بڑی دھوم دھام سے شادی ہوگئی۔ راجو اس شادی سے بہت ہی زیادہ خوش تھا۔ اس نے جب پہلی بار حُسن بانو کو دیکھا تھا تو وہ اسی وقت سے اسے اچھی لگنے لگی تھی۔
بادشاہ نے انعام میں جو اشرفیاں راجْو کو دی تھیں، ان سے اس نے شہر میں ایک بڑا سا گھر خرید لیا اور خود بھی تجارت کرنے لگا۔ اب اس کے دن پھر گئے تھے اور وہ اپنی ماں اور حُسن بانو کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگا۔
–**–**–
ختم شد
by Abdul Muneeb | Apr 7, 2024 | بچوں کی کہانیاں, ناولز
احمد ایک آدمی قاضی کے پاس آیاوہ بہت پریشان نظر آ رہا تھا- قاضی نے اس کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا – “تمہیں کیا پریشانی ہے؟”اس آدمی نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا “جناب میں شہر کا مشہور سوداگر ہوں”- قاضی نے چونک کر اسے دیکھا- اس کے کپڑے بے حد معمولی تھے، اور ان میں جگہ جگہ پیوندبھی لگے ہوئے تھے- قاضی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی- وہ اپنے تخت پر سنبھل کر بیٹھتے ہوئے بولا، “اب میں تمہیں پاگل کہوں یا دیوانہ، حالانکہ میں نے اس رئیس سوداگر کو آج تک نہیں دیکھا ،مگر اس کی امارت کے قصّے ضرور سن رکھے ہیں، ایسے کپڑے تو اس کے غلام بھی ہاتھ لگانا پسند نہیں کرتے جو تم نے پہنے ہوئے ہیں”- پھر قاضی نے وہاں پر موجود لوگوں سے سوال کیا – “کیوں بھئی کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات کی گواہی دے سکتا ہے کہ یہ شخص اس شہر کا مشہور سوداگر ہے؟”- ایک آدمی اٹھ کر بولا- “قاضی صاحب اس کی شکل تواس سے بیحد ملتی جلتی ہے، مگر حلیہ اس جیسا نہیں ہے، میںاسے بہت قریب سے جانتا ہوں”-اس خستہ حال شخص نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کہا”قاضی صاحب میرے ساتھ بہت بڑا دھوکہ ہواہے- میں آپ کے پاس انصاف مانگنے کے لیے حاضرہوا ہوں، مگر یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے آپ کو میری باتوں پر یقین نہیں آ رہا ہے- اگر آپ ہی میری نہ سنیں گے تو پھر میں اپنی داد فریاد لے کر کس کے پاس جاوٴں؟”-قاضی سنجیدہ ہو کر بولا- “اچھا تم اپنی کہانی سناوٴ- تمہارے ساتھ انصاف کیا جائےگا”- اس آدمی نے کہا – “جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ میں ایک سوداگر ہوں ادر مجھے شکار کا بے حد شوق ہے- یہ کل کی بات ہے، میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر جنگل شکار کی کی غرض سے گیا- میری بدقسمتی یہیں سے شروع ہوتی ہے- ایک ہرن کے پیچھے میں جنگل میں دور تک نکل گیا- اس ہرن کو تو خیر میں نے شکار کر لیا، مگر اپنا راستہ بھول گیا- بھٹکتا بھٹکتا میں ایک جھونپڑی تک پہنچ گیا جو جنگل ہی میں بنی ہوئی تھی- وہاں میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جو شکل و صورت اور قدوقامت میں ہو بہو مجھ جیسا تھا- میں اپنے ہمشکل سے مل کر بہت خوش ہوا، مگر مجھے کیا پتہ تھا کہ وہ بعد میں مجھے دھوکہ دے گا- اس شخص نے میرے لیے کھانے پینے کا بندوبست کیا اور پھر مجھ سے میرے بارے میں باتیں پوچھنے لگا، جو کہ میں نے سچ سچ بتا دیں- ہم لوگ بہت دیر تک باتوں میں مصروف رہے- رات زیادہ ہو گئی تو اس شخص نے مجھے شربت کا ایک گلاس دیا- گلاس میں موجود شربت سرخ رنگ کا تھا اور اس میں سے بھینی بھینی خوشبو اٹھ رہی تھی- میں نے اس کا شکریہ ادا کر کے شربت کا گلاس منہ سے لگا لیا، ابھی میں نے آدھا شربت ہی پیا تھا کہ میرا سر چکرانے لگا اور میں زمین پر گر پڑا، پھر مجھے کوئی ہوش نہیں رہا- اگلے روز میری آنکھ کھلی تو میں جھونپڑی میں اکیلا تھا، اور یہ شخص وہاں سے غائب تھا- میرے جسم پر یہ پھٹے پرانے کپڑوں تھے- میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے- خیر میں جھونپڑی سے نکلا اور بڑی مشکلوں سے راستہ تلاش کرتا کرتا اپنے گھر تک پہنچ گیا، مگر اس وقت میرے صدمے کی کوئی انتہا نہیں رہی جب میرے ملازموں نے بھی مجھے پہچاننے سے انکار کر دیا اور مجھے دھکے دے کر وہاں سے بھگانے کی کوشش کی- میں ان کو یقین دلانے کی کوشش کرتا رہا ،مگر ان میں سے ایک ملازم نے مجھے زور کا دھکا دیتے ہوئے کہا کہ سوداگر تو گھر میں اپنی بیٹی کے ساتھ موجود ہے، تم دھوکے باز ہو یہاں سے چلے جاوٴ ورنہ ہم ابھی سپاہیوں کو بلا کر تمہیں جیل بھجوا دیں گے- عین اسی وقت میرے گھر کی ایک کھڑکی کھلی اور میں نے دیکھا کہ یہ مکّار شخص میری بیٹی کے ساتھ مجھے دیکھ کر ہنس رہا ہے، پھر اس کے کہنے پر میرے ہی ملازموں نے مجھ پر تھپڑوں اور لاتوں کی بارش کر دی اور مجبوراً مجھے وہاں سے بھاگنا پڑ گیا- اب میں اپنی فریاد لے کر آپ کے پاس آیا ہوں اور انصاف کا طلب گار ہوں”- یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا- قاضی صاحب نے اسی وقت حکم دیا کہ اس شخص کو بھی عدالت میں حاضر کیا جائے جو اس خستہ حال شخص کے بیان کے مطابق سوداگر بن گیا ہے- تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ وہ شخص عدالت میں حاضر ہو گیا- اس کے ساتھ ایک نوجوان اور خوب صورت لڑکی بھی تھی- اس نے حاضر ہوتے ہی کہا- “جناب میں سوداگر ہوں اور یہ میری بیٹی رخسانہ ہے”- قاضی نے اس خستہ حال شخص کی پوری داستان دوہرا دی، جسے سن کر سوداگر بولا- “حضور میں نے تو اس شخص کو زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھا ہے، اس کی شکل حیرت انگیز طور پر مجھ سے مشاہبت رکھتی ہے، مگر یہ شخص انتہائی چلاک لگتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے”- ان دونوں کی باتیں سن کر قاضی سخت الجھن میں مبتلا ہو گیا تھا- اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ان میں سچا کون ہے اور جھوٹا کون- اس نے سوداگر کی لڑکی کی طرف دیکھا تو اسے محسوس ہوا کہ وہ ایک ذہین لڑکی ہے- اس نے اسے مخاطب کر کے کہا- “بیٹی، تم نے پوری داستان سن لی ہے، تم کیا کہتی ہو،ان دونوں میں سے تمہارا باپ کون ہے؟”خستہ حال شخص کی آنکھوں میں ایک چمک سی ابھری وہ پر امید نظروں سے رخسانہ کا چہرہ دیکھنے لگا- عدالت میں تمام لوگوں کی نظریں سوداگر کی بیٹی رخسانہ پر لگی ہوئی تھیں- قاضی کا سوال سن کر رخسانہ کچھ دیر تک چپ رہی پھر اس نے قاضی سے کہا- “جناب قاضی صاحب یہ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس شخص میرا باپ نہیں ہے- میرے ابّا جان تو یہ ہیں”- رخسانہ کے فیصلے کو سن کر خستہ حال شخص کی آنکھوں میں آنسو بھر گئے- قاضی نے کہا – “لڑکی کیا تم اس سلسلے میں کوئی ثبوت مہیا کرسکتی ہو کہ یہ ہی تمھارے ابّا جان ہیں؟”- “جی ہاں میرا ثبوت ایسا ہوگا کہ اس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہو جائےگا- آج سے تقریباً پانچ برس پہلے کی بات ہے، میرے ابّا جان کے ایک دشمن نے ان کے سامنے قسم کھائی تھی کہ وہ تلوار سے ان کی گردن اڑادے گا- ظاہر ہے اس کی بات نے میرے ابّا جان کو بے حد پریشان کر دیا تھا، کیوں ابّا جان آپ پریشان ہوگئے تھے نا؟” رخسانہ نے پوچھا-اس کے باپ نے بڑے زور سے اثبات میں گردن ہلا دی- رخسانہ نے پھر اپنی بات شروع کی – “اپنے دشمن کی بات سے ابّا جان بہت پریشان رہنے لگے- ان کا کھانا پینا بھی چھوٹ گیا اور کاروبار بھی بری طرح متاثر ہونے لگا- ان ہی دنوں میری ایک پری سے دوستی ہو گئی تھی، جب میں نے اس کو اپنی کہانی سنائی تو اس نے وعدہ کیا کہ وہ میرے ابّا کی پریشانی دور کر دے گی- اس نے میرے ابّا کی گردن پر اپنی جادو کی چھڑی لگائی اور بتایا کہ دنیا کی تیز سے تیز دھار والی تلوار بھی ان کی گردن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی- بہر حال ان کا دشمن تو ایک روز آسمانی بجلی گرنے سے جان بحق ہوگیا ،مگر اب میں ثبوت کے لیے یہ ہی بات آپ کے سامنے پیش کر رہی ہوں- آپ جلاد کو بلوا ئیے اور میرے ابّا کی گردن پر تلوار چلوا یے، ان کی گردن نہیں کٹے گی”-بیش قیمت کپڑوں میں ملبوس شخص کا چہرہ سیاہ پڑ گیا تھا- قاضی نے فوراً جلاد کو بلوانے کا حکم دے دیا-رخسانہ دھیرے دھیرے مسکرانے لگی- پھر خستہ شخص سے مخاطب ہو کر بولی – “اب تمہیں اپنے جھوٹ کی سزا مل جائے گی- تم میرے ابّا کی جگہ حاصل کرنا چاہتے تھے نا”-تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ سیاہ فام جلاد ہاتھ میں چمکدار تلوار لیے اندر داخل ہوا، قاضی نے اسے حکم دیا کہ سوداگر کی گردن پر پوری قوت سے وار کرے، مگر ابھی جلاد نے تلوار فضا میں بلند کی ہی تھی کہ سوداگر قاضی کے قدموں پر گر پڑا اور روتے ہوئے بولا- “جلاد کو روکیے ورنہ میری گردن کٹ جائے گی، میں سوداگر نہیں ہوں- اصل سوداگر یہ ہی آدمی ہے”-قاضی نے سپاہیوں کو نقلی سوداگر کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا- رخسانہ دوڑ کر اس خستہ حال شخص کے سینے سے لگ گئی ،پھر اس نے قاضی کو بتایا کہ وہ بھی یہ فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ اس کا باپ کون سا ہے، اس لیے اس نے ایک کہانی گھڑ لی تھی- قاضی نے رخسانہ کی عقلمندی کے اعتراف کے طور پر اسے اپنی طرف سے پا نچ سو اشرفیاں انعام میں دیں- اس کی ذہانت کی وجہ سے ایک الجھا ہوا مقدمہ منٹوں میں حل ہو گیا تھا-اسی روز پورے شہر میں اس عجیب و غریب مقدمے کی تفصیل پھیل گئی- سوداگر واپس اپنے گھر پہنچ چکا تھا اور اس بات پر پھولا نہیں سما رہا تھا کہ خدا نے اسے رخسانہ جیسی ذہین بیٹی عطا فرمائی ہے۔
by Abdul Muneeb | Apr 7, 2024 | بچوں کی کہانیاں, ناولز
بہت پرانے زمانے کا ذکر ہے کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس کی ملکہ ایک نیک دل عورت تھی۔ وہ غریب لوگوں سے بہت محبّت کرتی تھی اور ان کی مدد کرتی رہتی تھی جس کی وجہ سے لوگ اسے دعائیں دیتے تھے۔الله نےانھیں ایک نہایت خوبصورت اور ہونہار بیٹے سے بھی نوازا تھا – ان کے بیٹے کا نام شہزادہ ولید تھا۔ شہزادہ ولید ایک تمیز دار بچہ تھا اور اپنے ماں باپ کی ہر بات مانتا تھا جس کی وجہ سے بادشاہ سلامت اور ملکہ اس سے بہت محبّت کرتے تھے۔
ایک روز ملکہ شہزادہ ولید کے ساتھ محل کی بالکونی میں بیٹھی باہر کا نظارہ کر رہی تھی۔ محل سے کچھ دور بہت رونق تھی۔ لوگ شاہراہوں پر چل پھر رہے تھے۔ قریب کے بازار میں مردوں، عورتوں اور بچوں کا رش تھا اور وہ لوگ خریداری اور دوسرے کام کاجوں میں مصروف تھے۔ ملکہ اور شہزادہ ولید کو یہ سب کچھ دیکھ کر بہت اچھا لگ رہا تھا۔
اچانک شہزادہ ولید نے ملکہ کا بازو ہلا کر اسے ایک لڑکے کی طرف متوجہ کیا۔ وہ لڑکا شہزادے کا ہی ہم عمر تھا اور اپنی ماں کے ساتھ جا رہا تھا۔ محل کے صدر دروازے پر وہ مچل گیا۔ چونکہ محل کا صدر دروازہ اس بالکونی کے بالکل نیچے تھا جس میں ملکہ اور شہزادہ بیٹھے ہوئے تھے، اس لیے انھیں ماں بیٹے کی باتوں کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔
لڑکا اپنی ماں سے کہہ رہا تھا۔ “ماں۔ ماں۔ کل شہزادے کی سالگرہ ہے۔ وعدہ کریں کہ آپ مجھے بھی سالگرہ میں بھیجیں گی۔ اگر آپ نے وعدہ نہیں کیا تو میں گھر نہیں جاؤں گا”۔ یہ کہہ کر وہ وہیں زمین پر بیٹھ گیا۔
اس کی ماں نے کہا۔ “ ہم غریب لوگ ہیں۔ شہزادے کی سالگرہ میں ہمیں کون بلائے گا۔ بیٹا۔ ضد مت کرو اور گھر چلو۔ تمہارا باپ کام پر سے آتا ہوگا۔ مجھے کھانا پکانے میں دیر ہوجائے گی”۔
لڑکے نے یہ سنا تو مایوسی سے ایک نظر محل پر ڈالی اور خاموشی سے ماں کے ساتھ چل پڑا۔
شہزادہ ولید نے کہا۔ “امی حضور۔ اس لڑکے کا کتنا دل چاہ رہا ہے کہ وہ میری سالگرہ میں شرکت کرے۔ اس کی امی کہہ رہی تھیں کہ غریب لوگوں کو شہزادے کی سالگرہ میں کون بلائے گا۔ آپ اس لڑکے کو کہہ دیں نا کہ وہ غریب ہے تو کیا ہوا، وہ سالگرہ میں ضرور آئے”۔
ملکہ نے شہزادہ ولید کے سر پر محبّت سے ہاتھ پھیرا اور بولی۔ “شہزادے ہمیں خوشی ہے کہ آپ اتنی اچھی اچھی باتیں سوچتے ہیں۔ امیر ہو یا غریب، سب کو اللہ نے بنایا ہے۔اگر ہمارا بس چلے تو ہم آپ کی سالگرہ میں ملک بھر کے تمام بچوں کو بلائیں۔ مگر ہم ایسا کر نہیں سکتے”۔
یہ کہہ کر ملکہ نے ایک غلام کو اشارہ کیا اور اس سے بولی۔ “تم جلدی سے اس عورت اور لڑکے کے پیچھے جاؤ اور خاموشی سے پتہ کر کے آؤ کہ وہ لوگ کہاں رہتے ہیں”۔
ملکہ کا حکم پا کر غلام فوراً روانہ ہوگیا اور تھوڑی دیر بعد پوری معلومات لے کر آگیا۔
اگلے روز اس غریب عورت کے گھر پر شاہی بگھی آکر رکی – اس عورت کا شوہر کام پر گیا ہوا تھا۔ دو کنیزیں بگھی سے اتر کر گھر میں گئیں۔ ان میں سے ایک کنیز نے لڑکے کی ماں کو بتایا کہ ملکہ صاحبہ نے یہ کہلا کر بھیجا ہے کہ وہ عورت اور اس کا لڑکا شہزادے کی سالگرہ کی تقریب میں شرکت کریں۔کنیزیں اپنے ساتھ ایک بڑا سا تھال بھی لے کر آئی تھیں جس پر ایک ریشمی کپڑا پڑا ہوا تھا۔ وہ تھال انہوں نے اس غریب عورت کے حوالے کیا اور چلی گئیں۔
وہ عورت بہت خوش تھی۔ اس کے بیٹے کی خواہش پوری ہوگئی تھی۔ اس نے بیٹے کو بھی اس بارے میں بتایا تو وہ بہت خوش ہوا۔ تھال میں اس عورت کے بیٹے کے لیے زرق برق پوشاک تھی۔ سنہری شیروانی اور چاندی کے رنگ کا ریشمی پاجامہ۔ ساتھ میں کامدار ٹوپی اور جوتے بھی تھے۔ اس کے علاوہ مخمل کے کپڑے کی ایک تھیلی بھی تھی جس میں اشرفیاں تھیں۔
وہ عورت ملکہ کو دعائیں دینے لگی۔وہ سمجھ گئی تھی کہ کل شام ملکہ نے ان دونوں کی باتیں سن لی تھیں۔
اس کے بیٹے نے سب چیزیں دیکھ کر کہا۔ “ہماری ملکہ صاحبہ کتنی اچھی ہیں۔ وہ ہمارا کتنا خیال رکھتی ہیں۔ ابّا کام پر سے آئیں گے اور ان چیزوں کو دیکھیں گے تو وہ بھی خوش ہوں گے”۔
اس کی ماں نے کہا۔ “ملکہ صاحبہ نے ہم غریبوں پر واقعی بہت مہربانی کی ہے”۔
لڑکے نے کہا۔ “میں شہزدے کو تحفے میں دینے کے لیے کیا چیز لے جاؤں گا؟ وہ چیز ایسی ہونی چاہیے کہ سب اسے دیکھتے رہ جائیں۔ اب تو ہمارے پاس اشرفیاں بھی آگئی ہیں۔ ہم بازار جا کر کچھ لے آئیں۔میرے خیال میں تو ہم سرکنڈوں کی گاڑی خرید لیں۔ اسے دیکھ کر شہزادے کو بہت خوشی ہوگی اور وہ اسے اپنے محل میں مزے سے چلاتا پھرے گا”۔
“ہش۔ سرکنڈوں کی گاڑی بھی کوئی تحفے میں دینے والی چیز ہے۔ سب لوگ مذاق اڑائیں گے۔ تمہارے ابّا کام پر سے آجائیں تو ان سے پوچھ کر میں شہزادے کو تحفے میں وہ جادو کا آئینہ دوں گی جسے ایک پری نے خوش ہو کر انعام میں تمھارے ابّا کو دیا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب تم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے اس پری کی مدد کی تھی۔ وہ بے چاری انجانے میں ایک کنویں میں گر گئی تھی اور بہت زخمی ہوگئی تھی۔ وہ اسے کنویں سے نکال کر گھر لے کر آئے اور ہم نے کئی روز تک اس کی خبر گیری کی تھی اور وہ بالکل ٹھیک ہوگئی تھی۔ اس آئینے کی خاص بات یہ ہے کہ اس کو دیکھ کر دل میں کسی بھی شخص کا نام لیا جائے تو وہ دنیا میں کہیں بھی ہو، اس آئینے میں نظر آنے لگے گا۔پرستان میں ایسی بہت سی عجیب و غریب چیزیں ہوتی ہیں”۔
“لیکن ماں شہزادہ اس آئینے کا کیا کرے گا؟ اس کے لیے تو ہمیں کوئی کھلونا لینا چاہیے”۔ لڑکے نے کہا۔
“اس سے اچھا اور کون سا کھلونا ہوگا۔ارے جب شہزادہ باغ میں کھیل رہا ہوگا اور بادشاہ سلامت دربار میں اور ملکہ صاحبہ اندر محل میں ہونگی تو وہ اس آئینے میں انھیں دیکھ سکے گا۔ بچوں کے لیے تو یہ بہت ہی حیرت انگیز چیز ہے۔ ایسا آئینہ جس میں بجائے خود کی شکل نظر آنے کے دور بیٹھے لوگ دکھائی دیتے ہیں۔ شہزادہ اس آئینے میں اپنے ان رشتے داروں کو بھی دیکھ سکے گا جو دوسرے ملکوں میں رہتے ہیں”۔ اس کی بات سن کر لڑکا مطمئین ہوگیا۔
جب اس عورت کا شوہر شام کو گھر آیا تو اس کی بیوی نے اسے پوری کہانی سنائی۔ اشرفیوں کی تھیلی اور اپنے بیٹے کے کپڑے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا اور بولا۔ “ٹھیک ہے شہزادے کی سالگرہ میں دینے کے لیے وہ جادو کا آئینہ اچھا تحفہ ہے”۔
اگلے روز وہ عورت اپنے بیٹے کے ساتھ شہزادے کی سالگرہ میں شرکت کے لیے محل پہنچی۔سالگرہ کا انتظام محل کے وسیع و عریض پائیں باغ میں کیا گیا تھا۔ مخملی غلافوں میں لپٹی کرسیوں پر مہمان بیٹھے ہوئے تھے۔ چونکہ اس عورت اور اس کے لڑکے کو ملکہ نے خاص طور سے مدعو کیا تھا اس لیے ایک کنیز نے ماں بیٹے کو بڑی عزت سے کرسیوں پر بٹھایا۔
لڑکے کی ماں نے وہاں ایک عجب منظر دیکھا۔ہر طرف ایک افرا تفری اور ہنگامہ بپا تھا۔ غلام اور کنیزیں ادھر ادھر بھاگتے پھر رہے تھے۔ سب کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ شاہی سپاہی بھی محل میں ادھر ادھر کچھ دیکھتے پھر رہے تھے۔ سالگرہ میں شرکت کے لیے آئے ہوئے مہمان بھی پریشان نظر آتے تھے۔ اس منظر کو دیکھ کر اس عورت نے کنیز سے اس بارے میں دریافت کیا۔
“سالگرہ کی تقریب کا وقت سر پر ہے مگر شہزادے صاحب جانے کہاں چلے گئے ہیں۔ مل ہی نہیں رہے۔ یہ سب لوگ انھیں ڈھونڈتے پھر رہے ہیں”۔ اس کنیز نے جلدی سے بتایا اور خود بھی شہزادے کو تلاش کرنے کے لیے چلی گئی۔
بادشاہ سلامت بھی وہاں موجود تھے۔کافی تلاش کے باوجود بھی جب شہزادہ نہ ملا تو انہوں نے شاہی داروغہ کو طلب کرلیا اور بولے۔ “ داروغہ۔ملک کا چپہ چپہ چھان مارو اور رات ہونے تک ہمارے شہزادے کو ڈھونڈ کر ہمارے پاس لاؤ”۔
داروغہ سر کھجاتے ہوئے بادشاہ سلامت کو دیکھنے لگا۔اسے تو علم ہی نہیں تھا کہ شہزادہ کہاں چلا گیا تھا۔ اتنے کم وقت میں وہ اسے کیسے ڈھونڈتا۔ اس کے اس طرح دیکھنے سے بادشاہ سلامت سمجھ گئے کہ وہ یہ کام نہیں کرسکے گا۔ وہ پریشانی کے عالم میں ٹہلتے ٹہلتے کچھ سوچنے لگے۔
شہزادے کی گم شدگی سے ملکہ کا غم کے مارے برا حال تھا۔ اس کے آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔اچانک اس عورت کو کچھ خیال آیا۔ اس نے اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے جادو کا آئینہ نکال کر ایک نظر اس پر ڈالی اور پھر ملکہ کے پاس آ کر بولی۔ “ملکہ صاحبہ آپ فکر نہ کریں۔ مجھے پتہ چل گیا ہے کہ شہزادے صاحب کہاں ہیں۔ آپ بادشاہ سلامت کو لے کر میرے ساتھ اکیلے میں آئیں پھر میں آپ کو بھی دکھادوں گی۔ سب کے سامنے اس بات کا تذکرہ مناسب نہ ہوگا”۔
اس غریب عورت کی بات سن کر ملکہ خوش ہوگئی۔اس نے یہ بات بادشاہ سلامت کو بتائی اور پھر وہ تینوں ایک کمرے میں آئے۔ اس عورت نے ریشم کے خوب صورت بٹوے سے وہ جادو کا آئینہ نکالا اور بادشاہ سلامت سے بولی۔ “بادشاہ سلامت یہ جادو کا آئینہ ہے۔
بہت پہلے اسے ایک پری نے میرے شوہر کو دیا تھا۔ میرا بیٹا اسے شہزادے کو تحفے میں دینے کے لیے لایا ہے۔ آپ شہزادے صاحب کا دل میں خیال لا کر اس آئینے پر نظر ڈالیے وہ آپ کو نظر آجائیں گے۔ میں انھیں دیکھ چکی ہوں۔ انھیں کسی نے قید کیا ہوا ہے”۔
بادشاہ سلامت نے جھپٹ کر آئینہ اس کے ہاتھ سے لے لیا۔ جیسے ہی انہوں نے آئینے پر نظر ڈالی انھیں اپنا شہزادہ نظر آگیا۔ اس کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے اور آنکھوں پر پٹی بھی بندھی ہوئی تھی۔ اس کے پاس دو آدمی کھڑے ہوئے تھے۔بادشاہ سلامت دونوں کو پہچان گئے۔ ان میں سے ایک ان کا وزیر تھا جس کا نام جان عالم تھا۔ دوسرا شخص شاہی غلام تھا۔ محل میں یہ غلام ہی شہزادے کی دیکھ بھال اور اس کی خدمت پر مامور تھا۔ بادشاہ سلامت جان عالم وزیر پر بہت اعتماد کرتے تھے۔ مگر پچھلے دنوں انہوں نے ایک دوسرے وزیر کو ترقی دے کر اپنا وزیر خاص بنا لیا تھا۔ جان عالم اس بات سے جل گیا تھا کیونکہ اسے امید تھی کہ وزیر خاص اسے بنایا جائے گا۔ اس کی یہ امید پوری نہ ہوئی تو اس نے بادشاہ سے بدلہ لینے کے لیے شاہی غلام کی مدد سے شہزادے کو محل سے اغوا کر کے قید کر لیا تھا۔
ملکہ اپنے شہزادے کو اس حال میں دیکھ کر صدمے سے نڈھال ہوگئی مگر بادشاہ سلامت سخت غصے میں آگئے۔ انہوں نے اسی وقت باہر نکل کر داروغہ کو حکم دیا کہ اس نمک حرام وزیر اور غلام کو فوراً گرفتار کر کے ان کے سامنے پیش کیا جائے۔
بادشاہ سلامت کا حکم سنتے ہی داروغہ بہت سے سپاہیوں کے ساتھ فوراً وزیر کے گھر کی جانب دوڑا مگر وزیر وہاں نہیں تھا کیوں کہ اس کے گھر کے دروازے پر تالا لگا ہوا تھا۔داروغہ سمجھ گیا کہ وہ اس وقت وہاں ہوگا جہاں اس نے شہزادے کو چھپا رکھا ہے۔ وہ سپاہیوں کے ساتھ چھپ کر اس کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔
زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ایک گھڑ سوار وہاں آکر رکا۔ وہ وزیر جان عالم ہی تھا۔ جیسے ہی وہ گھوڑے سے اترا اسے سپاہیوں نے گرفتار کرلیا۔ داروغہ نے اپنی تلوار نکال کر اس کے سینے پر رکھ دی اور آنکھیں نکال کر نہایت غصے سے دھاڑ کر بولا۔ “نمک حرام جلد بتا۔ شہزادے صاحب کو تو نے کہاں قید کیا ہوا ہے؟”۔
وزیر جان عالم نے داروغہ کو اتنے غصے میں دیکھا تو مارے ڈر کے تھر تھر کانپنے لگا۔ اس نے بتا یا کہ شہزادے کو گھنے جنگلوں میں ایک جھونپڑی میں قید کیا گیا ہے۔
جلد ہی وہ سب لوگ جنگل میں پہنچ گئے۔ جنگل میں ہر طرف اندھیرا اور سناٹا تھا۔ جس جھونپڑی میں شہزادے کو رکھا گیا تھا اس میں ایک چراغ جل رہا تھا اور انھیں شہزادے کی سسکیاں سنائی دے رہی تھیں۔ اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور ہاتھ پاؤں بھی بندھے ہوئے تھے۔
داروغہ نے جلدی سے اسے آزاد کیا اور اسے تسلی دی۔وہاں پر شہزادے کی نگرانی کرنے والے غلام کو بھی سپاہیوں نے گرفتار کر لیا – سزا کے خوف سے غلام رونے لگا تھا۔ اس نے روتے ہوئے بتایا کہ یہ منصوبہ جان عالم وزیر نے بنایا تھا اور اسے محل سے شہزادے کو اغوا کرنے کے لیے بہت ساری اشرفیاں دی تھیں۔ غلام نے یہ بھی بتایا کہ وزیر کو اس بات کا بہت دکھ تھا کہ بادشاہ سلامت نے اس کے بجائے کسی اور کو اپنا وزیر خاص بنا لیا ہے۔ شہزادے کو قید کر کے وہ بادشاہ سے انتقام لینا چاہتا تھا۔ ان دونوں مجرموں کو سپاہیوں نے زنجیروں میں جکڑ دیا اور قید خانے میں بند کرنے کے لیے اپنے ساتھ لے گئے۔ وزیر اور غلام کو ان کے کیے کی سزا مل گئی تھی۔
اس کے بعد داروغہ شہزادے کو لے کر محل پہنچا اور بادشاہ سلامت کو تمام کہانی سنائی۔شہزادے ولید کو دیکھ کر بادشاہ سلامت نے اطمینان کا سانس لیا۔ملکہ تو خوشی سے نہال ہوگئی تھی۔ اگلے دن اس خوشی میں پورے ملک میں جشن منایا گیا۔ محل میں بھی ایک تقریب تھی، جس میں سب امیر غریب شریک تھے۔ اس عورت کو ملکہ نے خاص طور سے اس تقریب میں بلایا تھا۔
وہ آئی تو ملکہ نے کہا۔ “نیک دل خاتون۔ الله نے ہم پر بڑا کرم کیا کہ ہمارا شہزادہ ہمیں بہ حفاظت مل گیا۔ اس کا وسیلہ تم بنی تھیں۔ اگر تم وہ جادو کا آئینہ نہ دیتیں تو ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا کہ ہمارا شہزادہ کہاں ہے”۔
وہ عورت بولی۔ “ملکہ عالیہ۔آپ بہت نیک اور رحم دل ہیں۔ آپ نے مجھ غریب کے بیٹے کی خواہش پوری کی تھی اور اسے شہزادے کی سالگرہ میں بلایا جس کی وجہ سے میرا بیٹا بہت خوش ہو گیا تھا۔ الله نے آپ کو اس نیکی کا صلہ دیا۔ نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ یہ جادو کا آئینہ میں شہزادے صاحب کے لیے ہی لائی تھی۔ وہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہونگے”۔
اس کی بات ٹھیک نکلی۔ شہزادہ ولید اس عجیب و غریب آئینے کو پا کر بہت خوش تھا۔ وہ اپنے دل میں جس شخص کے متعلق بھی سوچتا، وہ اسے آئینے میں نظر آنے لگتا تھا۔ وہ اس آئینے کو ہر وقت اپنے پاس رکھتا تھا۔
شہزادے کے مل جانے سے بادشاہ سلامت بھی بہت خوش تھے۔ انہوں نے اس عورت کو بہت سا انعام و اکرام دیا جس سے اس کے دن پھر گئے اور وہ اپنے شوہر اور بیٹے کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگی۔
ختم شد
by Abdul Muneeb | Apr 7, 2024 | بچوں کی کہانیاں, ناولز
بادشاہ اور ملکہ بہت دنوں بعد دوسرے ملکوں کی سیر کر کے واپس اپنے محل میں آئے تھے اس لیے ان کے آنے سے پورے محل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ تینوں شہزادے سلطان، ارسلان، رضوان اور ان کی چھوٹی بہن شہزادی سلطانہ سب بہت خوش تھے۔
وہ چاروں بھائی بہن بادشاہ اور ملکہ کے ساتھ نہ جا سکے تھے۔ بادشاہ اور ملکہ کے محل سے چلے جانے سے وہ اداس ہوگئے تھے کیوں کہ وہ انھیں بہت یاد آتے تھے۔ ان سے جدائی کے دن انہوں نے بڑی مشکل سے کاٹے تھے۔
بادشاہ اور ملکہ چہروں سے کچھ پریشان نظر آ رہے تھے۔ شہزادی سلطانہ تو چھوٹی تھی، اس لیے ان کی پریشانی کی طرف اس کا دھیان ہی نہیں گیا۔ وہ ان تحفوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہونے لگی جو بادشاہ اور ملکہ اس کے لیے دوسرے ملکوں سے لائے تھے۔ مگر تینوں شہزادے چونکہ بڑے تھے اس لیے انہوں نے بادشاہ اور ملکہ کی پریشانی بھانپ لی تھی۔ انھیں اس بات پر بھی حیرانی تھی کہ دونوں نے اپنی ایک ایک آنکھ بند کر رکھی تھی، اور ایک ہی آنکھ سے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔
ان کی پریشانی اور ایک بند آنکھ دیکھ کر بڑے شہزادے سلطان نے پوچھا۔ “ابّا حضور۔ نصیب دشمناں طبیعت تو کہیں نا ساز نہیں۔ آپ کچھ پریشان نظر آتے ہیں۔ آپ نے اور امی حضور نے اپنی ایک ایک آنکھ بند کر رکھی ہے۔ کوئی تنکا یا پتنگا وغیرہ تو نہیں پڑ گیا ہے۔ حکم ہو تو ہم نکال دیں؟”
بادشاہ نے دوسری آنکھ بھی کھولتے ہوئے اداسی سے جواب دیا۔ “شہزادے ہم کچھ نہیں بہت پریشان ہیں۔ واپسی کے سفر کے دوران جانے کیا بات ہوگئی ہے کہ ہمیں اور آپ کی امی کو ایک ایک کے دو دو نظر آنے لگے ہیں۔ اس وقت ہمارے سامنے تم چاروں کھڑے ہو مگر ہمیں آٹھ نظر آرہے ہو۔ ملکہ بھی ایک نہیں دو دو دکھائی دے رہی ہیں۔ ایک آنکھ بند کر لیں تو ٹھیک نظر آتا ہے”۔
ملکہ نے بھی اپنی دوسری آنکھ کھول لی تھی۔ وہ بولی۔ “میری بھی یہ ہی حالت ہے۔ میں بھی اپنی دونوں آنکھوں سے اس وقت چھ شہزادوں ، دو شہزادیوں اور دو بادشاہ سلامتوں کو دیکھ رہی ہوں۔ ایک آنکھ سے دیکھوں تو ایک ایک ہی نظر آتے ہیں”۔
چاروں بچے یہ بات سن کر گھبرا گئے اور پریشانی کے عالم میں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ بادشاہ نے ان کی گھبراہٹ محسوس کر لی۔ وہ اس بات پر بہت خوش تھا کہ اس کے بچے اپنے ماں باپ سے بہت محبّت کرتے ہیں اور اسی لیے ان کی تکلیف کا سن کر پریشان ہوگئے ہیں۔ انھیں تسلی دینے کی خاطر اس نے کہا۔ “فکر کی بات نہیں۔ جب ہم ایک آنکھ بند کر کے دیکھتے ہیں تو ہمیں ہر چیز پھر ایک ہی نظر آتی ہے۔ ہم ایک آنکھ سے ہی دیکھتے دیکھتے زندگی گزار لیں گے”۔
منجھلے شہزادے ارسلان نے جلدی سے ایک کنیز کو بھیج کر شاہی طبیب کو بلوا لیا۔ شاہی طبیب نے بادشاہ اور ملکہ کا تفصیلی معائینہ کر کے مایوسی سے سر ہلا دیا اور بولا۔ “ایک ایک کے دو دو دکھائی دینے والی اس بیماری کا کوئی علاج میرے پاس نہیں ہے۔ میں نے اس بیماری کے بارے میں اپنے بزرگوں سے سن رکھا ہے۔ بادشاہ سلامت اور ملکہ صاحبہ صرف اسی صورت میں ٹھیک ہوسکتے ہیں کہ جادو کے پہاڑ کی چوٹی پر لگے عجیب و غریب رنگ برنگے درختوں سے سیب توڑ کر لائے جائیں اور انہیں کھلا دیے جائیں۔ اس کے علاوہ کوئی علاج کارگر ثابت نہیں ہوگا۔ مگر اس جادو کے پہاڑ پر پہنچنا آسان کام نہیں۔ ایک بہت بڑا اور خوفناک شیر پہاڑ والے راستے کی پہرے داری کرتا ہے اور بڑے بڑے خطرناک پرندے پہاڑ پر منڈلاتے رہتے ہیں”۔
بڑا شہزادہ سلطان بولا۔ “کوئی بات نہیں۔ ہم تینوں جادو کے پہاڑ پر سے سیب لائیں گے۔ ہم سے اپنے ابّا حضور اور امی حضور کی پریشانی دیکھی نہیں جاتی”۔
اس وقت بادشاہ کی دونوں آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ اس نے تینوں شہزادوں کو دیکھتے ہوئے گھبرا کر کہا۔ “اگر تم چھ کے چھ چلے گئے تو محل کی تنہائی ہمیں کاٹنے کو دوڑے گی”۔
چھوٹے شہزادے رضوان نے مسکرا کر کہا۔ “ابّا حضور۔ آپ فکر نہ کریں۔ ہم صرف تین ہی جائیں گے۔ بقیہ تین کو محل میں ہی چھوڑ جائیں گے”۔
اگلے روز وہ تینوں شہزادے اپنے سفر پر روانہ ہوگئے۔ وہ چلنے لگے تو شہزادی سلطانہ بھی ضد کرنے لگی کہ وہ بھی ان کے ساتھ جائے گی۔ اسے بڑی مشکلوں سے منا کر روکا گیا۔ راستہ واقعی بہت پر خطر تھا۔ پھر بارشیں بھی شروع ہوگئی تھیں۔ اس وجہ سے ان کا سفر اور بھی دشوار ہوگیا تھا۔ گھنے جنگلوں سے ہوتے ہوئے، دریاؤں کو عبور کرتے ہوئے وہ ایک بستی میں پہنچے۔
بارشوں نے ہر طرف تباہی مچا دی تھی اور گھروں کو شدید نقصان پہنچایا تھا۔ بستی میں انہوں نے دیکھا کہ ایک بوڑھی عورت اپنے ٹوٹے ہوئے مکان کی مرمت کر رہی ہے۔ بستی کا کوئی شخص بھی اس کی مدد نہیں کر رہا تھا کیونکہ وہ بھی اپنے اپنے مکانوں کی مرمت کے کاموں میں لگے ہوئے تھے جو موسلا دھار بارش کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ گئے تھے۔ اس بوڑھی عورت کو مٹی کی اینٹیں اور گارا خود اٹھا اٹھا کر لانا پڑ رہا تھا۔
شہزادوں کو یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ وہ اپنے گھوڑوں سے اترے اور اس بوڑھی عورت کو ایک طرف بٹھا کر اس کے گھر کی مرمت میں مصروف ہوگئے۔ وہ بوڑھی عورت ان کی ہمدردی دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور انھیں دعائیں دینے لگی۔
شام تک بہت سارا کام ہو چکا تھا اور مکان کی تھوڑی سی مرمت باقی تھی۔ شہزادوں نے ارادہ کیا کہ باقی کام کل کریں گے۔ انہوں نے بوڑھی عورت کو اشرفیوں سے بھری تھیلی بھی دی اور اس سے درخواست کی کہ وہ ان کے کھانے پینے کا انتظام کرے اور انھیں اپنے گھر میں رات گزارنے دے۔
بوڑھی عورت بہت غریب تھی، اشرفیاں دیکھ کر خوش ہوگئی اور ان کے ٹھہرنے کا بندوبست کر کے ان کے لیے کھانا تیار کرنے لگی۔
کھانے کے بعد اس نے شہزادوں کے بارے میں دریافت کیا کہ وہ کون ہیں اور کہاں جا رہے ہیں۔ شہزادوں نے اسے بتایا کہ وہ اس ملک کے شہزادے ہیں۔ ان کے ماں باپ کو کسی پراسرار بیماری کی وجہ سے ایک ایک کے دو دو نظر آنے لگے ہیں اس لیے وہ جادو کے پہاڑ پر سے سیب لینے جا رہے ہیں تاکہ انھیں کھا کر ان کے ماں باپ کو ٹھیک طرح نظر آنے لگے۔
ان کی بات سن کر وہ عورت سوچ میں پڑ گئی اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولی- “شہزادے ہونے کے باوجود تم نے مجھ غریب اور بوڑھی عورت کی مدد کی میں تمھاری بہت شکر گزار ہوں۔ تم تینوں بہت نیک اور رحم دل شہزادے ہو۔ میں اس جادو کے پہاڑ کے متعلق جانتی ہوں۔ اس کی خاصیت یہ ہے کہ جو بھی اس پر چڑھنے کی کوشش کرتا ہے، اس کے قدم پہاڑ پر جم جاتے ہیں۔ وہ کتنا ہی زور لگا لے اپنے قدم آگے نہیں بڑھا سکتا۔ بس ایسا ہی لگتا ہے جیسے اس کے پاؤں کسی نے جکڑ لیے ہیں۔ پھر اس پر چڑھنے والے راستے پر ایک شیر بھی ہوتا ہے۔ جب اس انسان کے پاؤں پہاڑ سے چپک جاتے ہیں تو وہ شیر اس پر حملہ کر کے اسے ہڑپ کر جاتا ہے”۔
یہ بات سن کر شہزادے پریشان ہوگئے۔ شہزادہ عرفان نے کہا – “یہ تو بڑی مشکل ہوگئی ہے۔ جب ہمارے قدم ہی چپک جائیں گے تو ہم اس خونخوار شیر کا کیسے مقابلہ کریں گےاور پہاڑ کی چوٹی پر کیسے پہنچیں گے؟”
تم لوگوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم نے میری مدد کی ہے میں تمھاری مدد کروں گی”۔ بوڑھی عورت نے کہا۔ “اب تم لوگ کھانا کھا کر آرام کرو۔ کل اپنے سفر پر روانہ ہوجانا”۔
مشقت کا کام کرنے کی وجہ سے تینوں شہزادے بہت تھک گئے تھے۔ کھانا کھا کر جو وہ لمبی تان کر سوئے ہیں تو انہوں نے دوسرے روز کی ہی خبر لی تھی۔ اگلے دن انھوں نے جلدی جلدی مکان کا بقیہ کام نمٹایا۔
کام مکمل ہوگیا تو بوڑھی عورت نے اپنا صندوق کھول کر اس میں سے سرخ رنگ کے جوتے ، ایک جال اور ایک سنہرا تیر نکال کر انھیں دیا اور کہا۔ “بہت پہلے میں ایک پری کے گھر خادمہ کا کام کرتی تھی۔ وہ بہت اچھی پری تھی اور میرا بہت خیال رکھتی تھی۔ جب اس کا دل جادو کی مختلف چیزوں سے بھر جاتا تھا تو وہ انھیں پھینکتی نہیں تھی بلکہ مجھے دے دیا کرتی تھی۔ صندوق میں موجود یہ چیزیں اس ہی نے مجھے دی تھیں۔ جب تم لوگ پہاڑ کے نزدیک پہنچو گے تو تمہیں اس کے پاس ایک شیر ملے گا۔ وہ پہاڑ پر چڑھنے والے راستے کا نگران ہے اور بہت خونخوار ہے۔ جب وہ تم پر حملہ کرنے کے لیے جھپٹے تو تم اس پر یہ جادو کا جال پھینک دینا، یہ جال اس کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ تم وہاں آسمان پر بہت بڑے بڑے اور خوفناک پرندے بھی دیکھو گے۔ یہ پرندے اسی پہاڑ پر منڈلاتے رہتے ہیں اور ان رنگ برنگے درختوں کے سیب ان کی غذا ہیں۔ یہ کسی کو ان کے پاس پھٹکنے بھی نہیں دیتے ہیں۔ تم اس جادو کے تیر کو ان کی جانب پھینک دینا یہ بجلی کی سی تیزی کے ساتھ ان سب کا ایک ایک کر کے خاتمہ کر کے دوبارہ تمہارے پاس آجائے گا۔ جب ان خوفناک پرندوں کا خاتمہ ہو جائے تو پھر تم میں سے کوئی ایک یہ جادو کے جوتے پہن کر پہاڑ پر چڑھ جائے۔ ان کے پہننے سے اس کے قدم پہاڑ سے نہیں چپکیں گے۔ پہاڑ کی چوٹی پر بہت سارے درخت لگے ہونگے۔ ان کے پتے رنگ برنگے ہونگے۔ وہ سیب ان ہی پودوں میں لگتا ہے۔ مجھے امید نہیں کہ کوئی سیب تمہیں وہاں ملے کیونکہ وہ پرندے انھیں چٹ کر جاتے ہیں۔ بہرحال کوشش کرلینے میں کوئی حرج نہیں”۔
بوڑھی عورت کی اس بات نے انھیں تھوڑا سا پریشان کر دیا تھا کہ پرندے ان سیبوں کا صفایا کردیتے ہیں اور ہوسکتا ہے انھیں وہاں کوئی سیب نہ ملے۔ بہرحال انہوں نے تمام چیزیں لے کر اس بوڑھی عورت کا شکریہ ادا کیا اور دوبارہ اپنے سفر پر روانہ ہوگئے۔
ان کے گھوڑے آرام کرنے کی وجہ سے تازہ دم ہوگئے تھے اس لیے وہ جلد ہی منزل مقصود پر پہنچ گئے۔ جیسے ہی وہ اس پراسرار پہاڑ کے نزدیک پہنچے، ان کے کانوں میں شیر کے دھاڑنے کی آواز آئی۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا شیر دوڑتا ہوا ان لوگوں کی جانب آ رہا ہے۔
شہزادہ ارسلان نے جلدی سے جادو کا جال نکالا اور شیر کی طرف اچھال دیا۔ جال اڑتا ہوا گیا اور شیر پر جا گرا اور اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ شیر بے بس ہوگیا اور تیز آواز میں دھاڑتے ہوئے جال سے نکلنے کی جدوجہد کرنے لگا۔
عین اسی وقت انھیں اپنے سروں کے اوپر پروں کے پھڑپھڑانے کی آوازیں سنائی دیں۔ انہوں نے اوپر دیکھا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ بہت سارے دیو قامت پرندے خوفناک آوازوں میں چیختے ہوئے ان کے سروں پر منڈلا رہے ہیں اور ان پر جھپٹنے کی فکر میں ہیں۔
سب سے چھوٹے شہزادے رضوان نے جادو کا سنہرا تیر نکالا اور ان پرندوں کی جانب اچھال دیا۔ ایک بجلی سی کڑکی اور جادو کا تیر برق رفتاری سے آسمان پر اڑتے ہوئے پرندوں کی جانب لپکا اور پل کے پل میں ایک کے بعد ایک ان کا خاتمہ کر کے دوبارہ شہزادہ رضوان کے پاس آگیا۔
راستہ صاف دیکھ کر بڑے شہزادے سلطان نے بوڑھی عورت کے دیے ہوئے جادو کے جوتے پہنے اور بھاگ کر پہاڑ پر چڑھ گیا۔ وہاں اس نے رنگ برنگے درخت دیکھے جو قطار در قطار نظر آرہے تھے مگر اسے بہت مایوسی ہوئی، ان پر سیب نہیں لگے ہوئے تھے۔
اسے بوڑھی عورت کی بات سچ لگی۔ ان پرندوں نے سارے سیب کھا لیے تھے۔ شہزادہ سلطان نے سوچا کہ ان کا یہاں آنا تو بے سود ہی رہا۔ نا امیدی کے عالم میں اس نے ہر درخت کا جائزہ لینا شروع کردیا۔ بہت ڈھونڈنے کے بعد اسے ایک درخت میں ایک سیب نظر آ ہی گیا۔ وہ گھنے پتوں میں چھپا ہوا تھا اس لیے پرندوں کو نظر نہ آسکا تھا۔ شہزادہ سلطان نے اسی کو غنیمت جانا اور اسے توڑ کر اپنی جیب میں رکھ لیا اور بھاگ کر پہاڑ پر سے اتر کر اپنے بھائیوں کے پاس آگیا۔
اس نے اپنے دونوں بھائیوں کو بتا دیا تھا کہ اسے صرف ایک ہی سیب ملا ہے۔ وہ بھی بہت افسوس کرنے لگے۔ جب وہ واپسی کے لیے مڑے تو شیر نے گڑگڑا کر کہا۔ “مجھے آزاد کر دو۔ میں وعدہ کرتا ہوں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا”۔
شہزادوں کو اس پر رحم آگیا۔ انہوں نے اسے آزاد کردیا اور وہ بھاگ کر پہاڑ پر چڑھ کر نظروں سے غائب ہو گیا۔ شہزادہ ارسلان نے جادو کے جال کو بھی اپنے تھیلے میں رکھ لیا اور پھر تینوں شہزادے واپسی کے سفر پر روانہ ہوگئے۔
وہ سب سے پہلے بوڑھی عورت کے گھر گئے اور جوتے،
تیر اور جال کو اس کے حوالے کر کے اس کا شکریہ ادا کیا۔ شہزادوں نے اسے بہت ساری اشرفیاں بھی دیں جنہیں پا کر بوڑھی عورت خوش ہوگئی۔
ایک رات اور ایک دن کے سفر کے بعد تینوں شہزادے خیریت سے محل پہنچ گئے۔ ملکہ انھیں دیکھ کر خوش ہوگئی۔ اس کی دونوں آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ اس نے کہا۔ “میں بہت خوش ہوں۔ میرے چھ کے چھ شہزادے گھر لوٹ آئے ہیں”۔
بادشاہ کی ایک آنکھ بند تھی۔ وہ حیرت سے بولا۔ “پیاری ملکہ ایک آنکھ بند کر کے دیکھو۔ شہزادے تو تین ہی ہیں”۔
ملکہ شہزادوں کے صحیح سلامت لوٹ آنے پر بہت خوش تھی اس لیے بادشاہ کی بات سن کر ہنس پڑی اور اپنی ایک آنکھ کو ہاتھ سے ڈھانپ کر شہزادوں کو دیکھنے لگی۔ شہزادہ سلطان اداسی سے بولا۔ “امی حضور۔ وہاں درخت سے ہمیں صرف ایک ہی سیب ملا ہے”۔
“کوئی بات نہیں۔ یہ سیب بادشاہ سلامت کھا لیں گے۔ میں تو محل ہی میں رہتی ہوں۔ مجھے دو نظر آئیں یا چار۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تمھارے ابّا حضور کو تو دربار لگانا پڑتا ہے۔ حکومت کے کام چلانے کے لیے سب لوگوں سے ملنا پڑتا ہے۔ وہ سیب کھا کر ٹھیک ہوجائیں تو بہتر ہے”۔
“نہیں ملکہ۔ ہم اتنے خود غرض نہیں ہیں کہ ہماری آنکھیں تو ٹھیک ہوجائیں اور ہماری پیاری ملکہ کو ایک ایک کے دو دو نظر آئیں۔ ہم یہ سیب نہیں کھائیں گے”۔
اسی وقت شہزادی سلطانہ وہاں آگئی۔ اسے دیکھ کر ملکہ بولی۔ “نہ آپ کی نہ میری۔ یہ سیب کون کھائے گا۔ اس کا فیصلہ ہماری بیٹی کرے گی”۔
شہزادی سلطانہ کو ساری کہانی کا علم ہوگیا تھا اور وہ جان گئی تھی کہ اس کے بھائیوں کو صرف ایک ہی سیب ملا ہے۔ وہ آگے بڑھی، اپنے ایک بھائی کے ہاتھ سے سیب لیا پھر دوسرے بھائی کی کمر میں اڑسا ہوا خنجر نکالا اور سیب کے دو ٹکڑے کر کے ایک بادشاہ کو اور دوسرا ملکہ کو تھما دیا۔ دونوں نے جیسے ہی سیب کھایا دونوں کی آنکھیں بالکل ٹھیک ہوگئیں۔
“پیاری ملکہ۔ ہمیں دونوں آنکھوں سے سب ایک ایک نظر آ رہے ہیں”۔ بادشاہ نے خوشی بھری آواز میں کہا۔
“اور بادشاہ سلامت مجھے بھی”۔ ملکہ چہک کر بولی۔ “الله کا شکر ہے یہ سب میری عقل مند شہزادی کی وجہ سے ہوا ہے”۔
شہزادہ سلطان نے کہا۔ “سیب کو آدھا آدھا کر کے کھلانے کی ترکیب تو ہم میں سے بھی کسی کے ذہن میں نہیں آئی تھی۔ ماشا الله۔ ہماری بہن تو بہت عقلمند ہے”۔
“ہم بہت خوش نصیب ہیں۔ الله نے ہمیں بہادر شہزادوں اور عقلمند شہزادی سے نوازا ہے”۔ بادشاہ نے کہا۔
اپنی تعریف سن کر شہزادی سلطانہ خوش ہوگئی ادر شہزادہ سلطان کا ہاتھ پکڑ کر بولی۔ “چلیں اب اسی بات پر مجھے اپنے گھوڑے پر بٹھا کر میدان کا ایک لمبا چکر دلوا کر لائیں”۔
“اس خوشی میں ہم بھی اپنی بہن کے ساتھ باہر گھومنے جائیں گے”۔ شہزادہ رضوان نے شہزادہ ارسلان کو دیکھتے ہوئے ہنس کر کہا۔ اور پھر وہ سب باہر نکل گئے۔ بادشاہ اور ملکہ انھیں مسکرا کر جاتا ہوا دیکھنے لگے۔
–**–**–
ختم شد
by Abdul Muneeb | Apr 7, 2024 | بچوں کی کہانیاں, ناولز
ٹارزن اپنے دوست کے قبیلے میں ایک شادی پر گیا تھا واپسی پر وہ نہانے کے لئے قریبی ساحل پر گیا۔ٹارزن کے ساتھ اس کا دوست منکو بھی تھا ابھی ٹارزن نے پانی میں غوطہ لگایا ہی تھا کہ یک دم کسی چیز نے اس کی ٹانگ پکڑنے کی کوشش کی تھی ٹارزن نے مڑ کر دیکھا تو پیچھے ایک عجیب و غریب سی چیز جو ٹارزن کو پکڑنے کی کوشش کررہی تھی جس کا جسم کسی ہاتھی جیسا اور شکل کسی کتے سے ملتی تھی اور سر پر تین چھوٹے چھوٹے سینگ تھے اور وہ انسانوں کی طرح دو ٹانگوں پر چلتے تھے۔
ٹارزن جلدی سے پانی سے باہر آگیا اور ساحل کے قریب آم کے درخت پر بیٹھ گیا اور سوچ رہا تھا کہ یہ کونسی بلا ہے جس نے اس سمندر پر حملہ کردیا ہے ٹارزن ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ اسے ٹارزن، ٹارزن کی آواز سنائی دی ۔ ٹارزن نے ایک طرف دیکھا کہ ساحل پر شارک مچھلی زخمی حالت میں پڑی ٹارزن کو آوازیں دے رہی تھی۔
تمہاری یہ حالت کیسے ہوئی ۔۔۔ ٹارزن نے تیز لہجے میں پوچھا۔
ہم۔۔۔ ہمارے سمندر پر کسی عجیب و غریب سی مخلوق نے حملہ کردیا ہے جو شارک اور وہیل کی دشمن ہے۔ شارک نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔
میرا ماسک اور آکسیجن سلنڈر لے کر آؤ جلدی۔ ٹارزن نے منکو کو مڑ کر حکم دیتے ہوئے کہا ماسک اور آکسیجن سلنڈر ٹارزن کو اس کے ایک دوست ملرڈان نے بطور تحفہ دیا تھا۔جو کہ ایک جہاز پر سفر کررہا تھا کہ اچانک سیاہ گھنے بادل آگئے پھر ایک بہت بڑا طوفان آیا اور جہاز ڈوب گیا ملرڈان کو ایک تختہ مل گیا وہ اس پر بیٹھ کر دو دن بعد ٹارزن کے جزیرے پر آگیا اور ٹارزن نے ایک بادبانی چھوٹا جہاز بنا کر اس کو روانہ کیا اور پھر چند ماہ بعد وہ ٹارزن کے لئے بہت سے تحفے لایا جس میں دو ماسک اور آکسیجن سلنڈر بھی شامل تھے۔
ایک منکو کے لئے بھی تھا تھوڑی دیر بعد منکو ماسک اور آکسیجن سلنڈر لے کر پہنچ گیا پھر ٹارزن نے پوری تیاری کی اور سمندر میں کود گیا۔ شارک مچھلی ٹارزن کی راہنمائی کررہی تھی وہ سمندر میں کافی گہرائی تک پہنچ گئے ابھی تک کسی نے اُن پر حملہ نہیں کیا تھا شارک مچھلی اسے لے کر عجیب و غریب مخلوق کے مخصوص پناہ گاہ کی طرف لے کر جارہی تھی انہوں نے سمندر میں ایک سرنگ اس طرز سے بنائی تھی کہ اس سرنگ میں پانی داخل نہیں ہوسکتا تھا شارک مچھلی منکو اور ٹارزن کو لے کر اُس جگہ لے گئی جہاں سے سرنگ آگے جاتی تھی
یہ وہ سرنگ تھی جو انہوں نے تیار کی ہے۔ شارک مچھلی نے کہا۔ٹارزن نے مچھلی کو تسلی دے کر بھیج دیا اور پھر منکو اور ٹارزن نے اپنے ماسک اور آکسیجن سلنڈر اتار کر سرنگ میں داخل ہوگئے۔
تقریبا آدھا گھنٹہ چلنے کے بعد انہیں سرنگ میں روشنی نظر آئی جو آگے سے سورج کی تھی وہاں پر سرنگ ختم ہوجاتی تھی ۔ ٹارزن نے سرنگ سے باہر نکل کر دیکھا تو یہ ایک جزیرہ تھا جہاں بے شمار سبزہ تھا پھر کچھ دیر چلنے کے بعد منکو اور ٹارزن کو کچھ عجیب و غریب آوازیں سنائی دیں، منکو اور ٹارزن جلدی سے ایک درخت پر چڑھ گئے جو بہت گھنا تھا۔
ٹارزن کو اُس مخلوق کے چار آدمی اس سرنگ کی جانب جاتے ہوئے نظر آئے جو عجیب سی زبان میں باتیں کررہے تھے وہ سرنگ میں داخل ہوگئے کچھ دیر بعد واپس آئے تو ان کے ساتھ ایک اور آدمی تھا جو شائد کہیں گیا ہوا تھا پھر وہ جہاں سے آئے تھے اسی طرف واپس چلے گئے۔ ٹارزن نے منکو سے کہا کہ وہ ان کے پیچھے جائے اور پتہ کرکے آئے کہ یہ کہاں جاتے ہیں۔ منکو سر ہلاتا ہوا چلاگیا۔جیسے وہ ٹارزن کی بات سمجھ گیا ہو۔کچھ دیر بعدٹارزن کو منکو واپس آتا ہوا نظر آیا۔
سردار، وہ سب ایک جگہ پر بیٹھ کر وہیل مچھلی بھون کر کھا رہے ہیں۔ منکو نے جلدی سے کہا۔
وہ کتنے لوگ تھے ۔ ٹارزن نے منکو سے پوچھا
سردار، وہ تیس سے زیادہ نہیں ہیں ۔ منکو نے سوچتے ہوئے کہا
تو چلو پھر میرے ساتھ آؤ۔ ٹارزن نے درخت سے چھلانگ لگاتے ہوئے منکو سے کہا۔
منکو ٹارزن کو لے کر اُسی جانب چلا گیا جہاں وہ مچھلی بھون کر کھا رہے تھے۔ انہوں نے ٹارزن کو دیکھتے ہی اس کے گرد گھیرا ڈال کر ناچنے لگے۔ان کے منہ سے عجیب سی پھوار نکلتی تھی اگر وہ پھوار کسی جاندار پر پڑ جائے تو وہ جاندار بے ہوش ہوجاتا ہے۔ اوروہ عجیب سی زبان میں گیت گا رہے تھے۔ جب ٹارزن نے غور سے سنا تو وہ یہ زبان جانتا تھا کیونکہ وہ اس کے ایک دوست کے قبیلہ میں یہ زبان بولی جاتی تھی۔اور ٹارزن اپنے دوست کے قبیلے میں ایک ماہ رہا تھا۔اس لئے ٹارزن ان کی زبان کچھ کچھ سمجھنے لگا تھا ٹارزن نے ایک بار پھر غور کیا اور وہ گیت سنا جو ٹارزن کو گھیر کر گا رہے تھے تو ٹارزن کو پتہ چلا کہ وہ اپنے کسی دیوتا کو خوش کرنے کے لئے یہ گیت گا رہے تھے۔
تم نے میرے سمندر پر کیوں حملہ کیا ہے؟ ٹارزن سے غرّا کر کہا۔وہ یکدم خاموش ہوگئے اور ان میں سے ایک بوڑھا آگے بڑھا اور کہا۔
تم کون ہو اور یہاں کیسے اور کیوں آئے ہو؟ بوڑھے نے ٹارزن کے سوال کا جواب دینے کی بجائے اس سے ہی سوال کردیا۔۔۔
پہلے تم میرے سوال کا جواب دو۔۔۔ ٹارزن نے لہجہ نرم کرتے ہوئے کہا
ہم نے اپنی خوراک حاصل کرنے کے لئے سمندر پر حملہ کیا کیونکہ ہمارے جسم میں توانائی کم ہوتی جارہی تھی اور یہ کمی پوری کرنے کے لئے وہیل اور شارک مچھلی کو کھا کر ہی حاصل کی جاسکتی ہے اس لئے ہم نے یہ سرنگ نکال کر سمندر میں حملہ کیا۔ ۔۔بوڑھے نے سرنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تفصیل بتا دی۔
اب تم میرے سوال کا جواب دو۔۔۔بوڑھے نے غصے سے ٹارزن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
میں جنگلوں کا بادشاہ ٹارزن ہوں جس سے مکھنا ہاتھی اور ببر شیر بھی ایسے ڈرتے ہیں جیسے کوا غلیل سےاور اب میری بادشاہت سمندر میں بھی ہے۔ اس لئے میں تم لوگوں کو عبرت ناک سزا دینے آیا ہوں۔۔۔ ٹارزن نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا
تم کون ہو۔۔۔ ٹارزن نے حیرت سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
یہ تو اب ہم بعد میں بتائیں گے ۔ ۔۔بوڑھے نے غرا کر کہا
شاٹو اس کو بے ہوش کردو۔۔۔ ان میں سے ایک نے آگے بڑھ کر کہا۔ اورشاٹو پھوارٹارزن پر گرانے کیلئےآگے بڑھا تھا کہ ٹارز ن نے یکلخت چھلانگ لگا کر شاٹو کے سینے پر ٹانگ ماری اور بوڑھے کی گردن پر ہاتھ مارتا ہوا ایک درخت پر چڑھ گیا۔ شاٹو اور بوڑھے یکدم کھڑے ہوگئے اور انہوں نے باقی آدمیوں کو حکم دیا کہ ٹارزن پر حملہ کردو اور اسکوبیہوش کرکے ہم سردار کے پاس لے کر جائیں گے۔ وہ یقینا ہم سے خوش ہوگا اور ہماری سلامتی کے لئے دیوتا سے دعا بھی کرے گا۔۔۔۔بوڑھے نے خوش ہوتے ہوئے کہا اور ٹارزن پر بےشمار پھواریں پڑنے لگیں اور ٹارزن بیہوش ہوکر درخت سے گر پڑا۔ انہوں نے ٹارزن کورسیوں سے باندھ کر ایک جھونپڑی میں بند کردیااور باہرپانح آدمی پہرے پر بیٹھا دیئے۔
منکو پانی لیکر جھونپڑی میں داخل ہوگیا اور ٹارزن پر پانی کے چھینٹےمارنے لگا لیکن ٹارزن کو ہوش نہ آیا اور منکو پھر باہر کی طرف چھلانگ لگا کر جھاڑیوں میں غائب ہوگیا۔ایک طرف تین آدمی آپس میں بحث کر رہے تھے کہ ٹارزن کو خود ہی ہوش نہ آجائے جبکہ ان میں سے ایک نے کہا کہ جب تک ٹارزن کے منہ پر شلاک بوٹی نہ رگڑی جائے تب تک ٹارزن کو ہوش نہیں آسکتا۔ وہ بوٹی ہمارے جزیرے کے شمال کی طرف لگی ہوئی ہے۔اسکی خاص نشانی یہ ہے کہ اسکی ٹہنی نیلے رنگ کی اور پتے سرخ رنگ کے ہوتے ہیں اور یہ بوٹی سردار نے شمال کی طرف ایک سرنگ بنا کر اس میں اُگائی ہے اور باہر دوآدمی ہر وقت پہرہ دیتے رہتے ہیں۔جو بھی اس طرف گیا وہ اندر واپس نہیں آیا وہ بوٹی صرف سردار ہی لے کر آسکتا ہے۔
منکو یہ بات قریب ہی ایک درخت پر بیٹھا سن رہا تھا اور پھر وہ اچانک مڑا اور شمال کی طرف دوڑنے لگا تقریبا 5منٹ دوڑنے کے بعد اس کو ایک سرنگ نظرآئی جس کے باہر دو آدمی پہرہ دیرہے تھےمنکو سرنگ کے قریب درخت پر بیٹھ کر سوچنے لگا کہ اندر کیسے جایا جائے کیونکہ وہ آدمی سرنگ کے دروازے کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے تھے پھر اچانک منکو کو ایک ترکیب سوجھی منکو نے پاس والے ناریل کےدرخت سے ایک ناریل توڑ کے ایک پہرے دار کے سرپر دے مارا۔
سر پر ناریل لگنے کی وجہ سے وہ بے چین ہوکر ادھر ادھر دیکھنے لگا اور منکو کو اندر جانے کیلئے جگہ مل گئی اور وہ چھلانگ لگا کر سرنگ میں غائب ہوگیا سرنگ میں چند کمرے بڑےبڑے بنائے گئے تھے۔
جس میں شلاک بوٹی اُگی ہوئی تھی۔منکو نے وہ بوٹی تھوڑی سے لیکرسرنگ کے دروازے کے قریب جاکر دیکھا تو وہ آدمی ابھی تک اس کو تلاش کررہا تھا اور منکو چھلانگ لگا کر پھر درخت پر بیٹھ گیا اور سانسیں ٹھیک کرنے لگا کیونکہ اسکو کافی لمبی چھلانگ لگا کر درخت پر چڑھنے کا موقع ملا تھا۔پھر تھوڑی دیر بعد منکو واپسی کے لیے دوڑ پڑااور جلد ہی ٹارزن کی جھونپڑی میں پہنچ گیا اور اسکے منہ میں اس بوٹی کا تھوڑا سا پانی ڈال کر بقیہ بوٹی اسنے ٹارزن کے منہ پر رگڑی کچھ دیر بعد ٹارزن میں حرکت کے آثار نظر آنے لگے۔
پھر ٹارزن نے آنکھیں کھول کر منکو کو دیکھا جو ابھی تک پریشان نظر آرہا تھا۔ٹارزن کو ہوش میں آتا دیکھ کر منکو ناچنے لگا۔
زیادہ خوشی مت مناؤاور مجھے جلدی سے کھولو۔۔۔ ٹارزن نے منکو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔تھوڑی دیر بعد ٹارزن رسیوں سے آزاد ہوچکا تھا
جاؤ کوئی اور نئی خبر لاؤ۔۔۔ٹارزن نے منکو کو حکم دیتے ہوئےکہا۔اور منکو سر ہلاتا ہوا جھونپڑی سے باہر نکل گیا باہر ایک طرف دس آدمی آپس میں گفتگو کر رہے تھے ان میں ایک بوڑھا بھی شامل تھا
یہاں سے مشرق کی جانب دو کلومیڑدورایک سرنگ بنائی گئی ہے۔اس سرنگ میں ایک کمرہ اور کمرے کے نیچے ایک تہہ خانہ ہے۔ جہاں پر ایک ٹیبل پر ایک پُتلابنا ہوا ہے اس پتلے کے اندر بے شمار چھوٹےچھوٹے سانپ ہیں ان میں سے ایک سانپ کا رنگ نیلا ہے اگر وہ سانپ مرجائے تو ہمارے منہ میں سے جو پھوار نکلتی ہے وہ ختم ہو جائے گی اور پھر ٹارزن ہمیں آسانی سے مارسکتا ہے۔۔۔ بوڑھے نے لوگوں کو تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
وہاں اس سانپ کی نگرانی نہیں کی جاتی۔آدمیوں میں سے ایک آدمی نے بوڑھے سے سوال کیا۔ اس پتُلے میں تقریبا ڈیڑھ سو کے قریب چھوٹےچھوٹے سانپ ہیں۔وہ سب نیلےسانپ کو اپنا دیوتا مانتے ہیں۔وہ سب مل کر اس کی نگرانی کرتے ہیں اور سرنگ کے باہر ایک جھونپڑی میں ایک خونخوار چیتا بھی وہاں کی نگرانی کرتا ہے۔۔۔ بوڑھےنے تفصیل سے جواب دیتے ہوئے کہا۔ منکو یہ سب باتیں ایک درخت پر بیٹھا سن رہا تھا۔ پھر منکو نے ٹارزن کو یہ خبر سنانی بہتر سمجھا اور وہ درختوں کوپھلانگتا ہوا ٹارزن کی جھونپڑی میں پہنچ گیا۔پھر منکو نے ٹارزن کو وہ ساری باتیں بتا دیں جو وہ ابھی سن کر آیا تھا۔
جاؤ تم لاکاب بوٹی لیکر جلدی آؤ۔۔۔ٹارزن نے منکو کو کہا
سردار اس بوٹی کی کیا خصوصیات ہیں جوہم آپ لیکر ان لوگوں کا مقابلہ کرو گے۔ ۔۔منکو نے بوٹی کی خصوصیات معلوم کرنے کے لئے سوال جھڑ دیا۔
اگر یہ بوٹی چبا کر کھائی جائےتو کتنا ہی زہریلاسانپ کیوں نہ ہوا اگر وہ ڈس بھی لے تو اس کے زہر کا اثر نہیں ہوگااوراس بوٹی کا اثر تقریبا دوسے تین گھنٹے تک ہوتا ہےاسکے بعد اس بوٹی کا اثر ختم ہوجاتا ہے۔ٹارزن نے منکو کو اس بوٹی کی خصوصیات بتاتے ہوئے۔ منکو سرہلاتا ہوا جھونپڑی سے باہر نکل گیاپھر تقریبا تھوڑی دیر بعد منکو واپس آیا تو اسکےہاتھ میں لاکاب بوٹی تھی جو ٹارزن نے لیکر آنےکو کہا تھا۔ٹارزن نے منکو کے ہاتھ سے لاکاب بوٹی لیکر اُسے چبانا شروع کر دیا کچھ دیر بعد ٹارزن نے ساری بوٹی چبالی اور جھونپڑی سے باہرنکل گیا اور ادھر اُدھر کا جائزہ لینے لگا۔
جھونپڑی کے چاروں اطراف ایک ایک آدمی ذرا فاصلے پر دوسری طرف منہ کئے کھڑا تھا جبکہ ایک آدمی جھونپڑی کے اردگرد چکر لگا رہا تھا۔جب وہ آدمی ٹارزن کی طرف آیا تو ٹارزن نے اپنا خنجر سنبھال لیا اور یکلخت چھلانگ لگاتے ہوئے خنجر اُسکے دل میں اتاردیا۔
وہ آواز نکالےبغیر ہی زمین پر گر ا اور ساکت ہوگیا۔ٹارزن ادھر سےفارغ ہوکر جھونپڑی کےدائیں جانب کھڑے آدمی کی طرف چل پڑا اور پھر اپنا خنجرآدمی کی کمر میں اس جگہ ماراکہ خنجر جسم میں سوراخ بناتا ہوا دل تک پہنچ گیا اسنے مدد کے لیے آواز نکالنی چاہی تھی کہ ٹارزن نے ایک بار پھر اپنا خنجر اسکے دل میں اتاردیا اور وہ بھی آواز نکالے بغیر ڈھیر ہوگیا۔
اور پھر ٹارزن مشرق کی جانب چل پڑا جبکہ منکو ٹارزن کی رہنمائی کررہا تھاسردار سامنے سے کچھ آدمی آتے دکھائی دے رہے ہیں منکو نے اپنی تیز نظروں سے دیکھتے ہوئے ٹارزن کو خبر دار کردیا اور ٹارزن جلدی سے ایک درخت پر چڑھ گیا۔
پھر کچھ دیر بعد وہاں سے کچھ آدمی گزرےجو بالکل خاموش تھے ان کے جانے کے بعد ٹارزن درختوں کو پھلانگتا ہوا سرنگ کے پاس پہنچ گیا ٹارزن جیسے ہی سرنگ کے قریب پہنچا تھا کہ اچانک چیتے کے دھاڑنے کی آواز سنی۔
ٹارزن بالکل خاموش کھڑا چیتے کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک چیتا چھلانگ لگا کر ٹارزن کو گرانا چاہا لیکن ٹارزن گھوم کر سائیڈپر سے ہوکر یکلخت چھلانگ لگائی اور چیتے کی پشت پر سوار ہوگیا۔چیتے نے ٹارزن کو نیچے گرا کر اسکی بوٹی بوٹی کرنی چاہی تھی لیکن ٹارزن بھی آخر ٹارزن تھا ٹارزن نے چیتے کی آنکھ میں انگلی ماری چیتے نے دھاڑنے کےلیے منہ کھولا تو ٹارزن نے چیتے کے منہ میں ہاتھ ڈال کر زور لگایا اور اسکے جبڑے گردن تک چیرتےچلے گئے اور ٹارزن نے خنجر چیتے کے دل میں اتاردیا اور وہ تڑپ تڑپ کر ڈھیر ہوگیا۔ٹارزن اس کام سے فارغ ہوکر سرنگ میں داخل ہوگیا اور ایک کمرے میں چلا گیا وہاں پر میز کے اوپر واقع ایک پُتلا کھڑا تھا اور اسکی آنکھوں کانوں اور منہ سے چھوٹےچھوٹےسانپ لٹک رہے تھے ٹارزن نے اپنا خنجرسنبھال کر پُتلے کے ٹکڑےکر دئیے اس میں سے بے شمار سانپ ٹارزن کی طرف لپکے اور ٹارزن آرام سے بیٹھا نیلےرنگ کے سانپ کو تلاش کرنے لگا کہ اچانک ٹارزن کونیلا سانپ نظر آگیا۔
ٹارزن نے لپک کر سانپ کو ہاتھ میں پکڑ کر واپسی کی طرف چل پڑا۔تھوڑی دیر بعد ٹارزن واپس جھونپڑی کے قریب پہنچ گیااور سا ئیڈ پرکھڑےپہرےدارکو آواز دی پہرےدارنے ٹارزن کو اس طر ح کھڑےدیکھ کر ٹارزن کے پاس پہنچ کر پھوار مار کر ٹارزن کو بے ہوش کرناچاہا کہ اسکے منہ سے پھوار نہیں نکلی اور وہ واپسی کی طرف دوڑ پڑا اور مدد کے لیے لوگوں کو پکارنے لگاتھوڑی دیر بعد ٹارزن ایک مرتبہ پھر ان سب کے درمیان اطمینان سے کھڑا ان لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔
تم کون ہو؟ اور تمہاراسردار کون ہے۔۔۔ٹارزن نے غرا کر کہا۔
تم کیوں پوچھتے ہو تم صرف قیدی ہو اور۔۔۔
خبردار اگر تم لوگوں نے مجھے قیدی کہا میں جنگلوں کا بادشاہ ٹارزن ہوں ٹارزن نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا
اگر تم لوگوں نے میرے سوال کا جواب نہ دیا تو میں یہ سانپ کو کچل کر رکھ دوں گا۔۔۔ ٹارزن نے سانپ کو ہاتھ میں پکڑکر کہا
ٹارزن کے ہاتھ میں سانپ دیکھ کر وہ سب کانپ گئے کیونکہ ان کو یقین تھا کہ اس کے گرد بے شمارسانپ ہیں اور وہ اتنے زہریلے ہیں کہ اگر ایک سانپ چٹان کو بھی ڈس دے تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہوجائے گی ہم ہم کرٹائی مخلوق ہیں اور ہمارا سردار آکاٹوہے وہ تھوڑی دور ہی اپنے خیمےمیں موجودآرام کررہا ہوگا۔۔۔ ان میں سے ایک آدمی نے آگے بڑھ کر خوفزدہ لہجے میں جواب دیا۔
چلو مجھے اپنے سردار کے پاس لے چلو ۔۔۔ ٹارزن نے ان کو حکم دیتے ہوئے کہا۔کچھ لوگ آگے کچھ پیچھےجبکہ ٹارزن ان کہ درمیان چل رہا تھا کہ وہ سب آکاٹوسردار کے خیمےکے باہر کھڑے ہوگئے۔
پلاش جاؤسردارکوباہربھیجواسکو کہو کے باہر موت سر پر منڈلارہی ہے۔۔۔ ایک بوڑھے نے آگے بڑھ کر باہر کھڑے دربان سے کہا اور وہ اندر جاکر سردار کو یہ خبر سناکر آیا تو اسکے پیچھے ان کا سردار حیرت سے باہر کھڑے لوگوں کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک ٹارزن کے ہاتھ میں پکڑا ہواسانپ دیکھ کر کانپ گیا اور پھر آکاٹو قدموں میں سجدہ کرنے کےلیےجھکاہی تھا کہ ٹارزن نے ایک ٹھوکر سردار کے منہ پر رسیدکی۔اور کہا تم مجھے سجدہ کیوں کررہے ہو تمہیں ایک خدا کی عبادت کرنی چاہیئے اور پھر ٹارزن نے اس مخلوق کو ایک خدا کی عبادت کی طرف توجہ دلا کر واپس اپنے جنگل کی طرف چلا گیا وہ خوش تھا کہ اس نے ایک نئی مخلوق کو اپنے بھولے ہوئے خدا کی طرف جھکا دیا۔
ختم شد
by Abdul Muneeb | Apr 7, 2024 | بچوں کی کہانیاں, ناولز
پرانے زمانے کا ذکر ہے کہ ایک ملک میں ایک لڑ کا رہتا تھا۔جس کا باپ بھیک مانگا کرتا تھا۔یہ اس کاخاندانی پیشہ تھا۔چنانچہ شروع شروع میں وہ اپنے باپ کے پاس بازاروں میں بھیک مانگنے لگا۔وہ روتی آواز بنا کر راہ چلتوں سے کہتا:
’’ بابا خدا کے نام پر مجھے کچھ دو۔ میں دووقت کا بھوکا ہوں۔‘‘
لیکن رفتہ رفتہ جب اس کو بھیک مانگنے کا طریقہ اچھی طرح آگیا۔تو وہ اکیلا ہی مانگنے کے لئے جانے لگا۔
روز صبح اٹھ کر وہ پھٹے سے پھٹا اور میلے سے میلا کپڑا پہن کر بازاروں میں نکل جاتا۔اور ہر شخص کے پاس جا کر روتی آواز بناتا اور ہاتھ پھیلا دیتا۔ کوئی اسے دیتا اور کوئی نہ دیتا۔
غرض وہ جو کچھ شام تک کماتا ،لا کر اپنے باپ کے ہاتھ میں رکھ دیا کرتا تھا۔لیکن وہ دل سے اسے پسند نہ کرتا تھا۔ وہ سوچتا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ ہر شخص اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ہر شخص اسے دھتکارتا ہے۔کیا وہ انسان نہیں ہے۔کیا اس کے ویسے ہی ہاتھ پیر نہیں ہیں جیسے اور لوگوں کے ہوتے ہیں۔لیکن وہ کر بھی کیا سکتا تھا۔وہ ایک بھیک منگے کے گھر پیدا ہوا تھااور وہ بھیک مانگنے پر ہی مجبور تھا۔نہ وہ لکھا پڑھا ہی تھا کہ کہیں جا کر کوئی دوسرا کام کرکے پیٹ پال لے۔
ایک دن اس نے دل میں سوچا کہ وہ کسی طرح اپنے باپ کے پاس سے بھاگ جائے اور کسی دوسرے شہر میں نکل جائے۔تو وہ اپنی مرضی سے جس طرح کی زندگی چاہے بسر کرلے گا۔اس شہر میں تو غیر ممکن ہے۔یہ ارادہ آتے ہی اس کا پریشان دل ذرا مطمئن ہوا۔وہ بھیک مانگتے مانگتے شاہی محل کے سامنے پہنچ گیا ۔وہاں ہزاروں آدمیوں کو اندر جاتے دیکھ کر وہ بھی بھیڑ میں شامل ہو گیا۔ وہ اندر پہنچ گیا۔ اندرمحل خوب سجا ہوا تھا۔ہزاروں قسم کے جھاڑ اور فانوس چھت میں لٹک رہے تھے ۔سب جانے والے دو قطاروں میں ہوگئے۔ اور چپ چاپ کھڑے ہوگئے۔انہیں میں یہ لڑکا بھی شامل ہو گیا۔کسی نے اسے کچھ نہ کہا۔دس منٹ تک خاموشی چھائی رہی۔ یکایک شہنائی کی آواز آنا شروع ہوئی۔ پردہ ہٹا اور بادشاہ سلامت سب کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے۔ جتنے بھی آدمی وہاں تھے آدھم آدھ جھک گئے۔انہیں کی دیکھا دیکھی لڑکا بھی جھک گیا۔ کسی آدمی کی آواز آئی:
’’سر اٹھاؤ۔جہاں پناہ تمہاری تعظیم قبول کرتے ہیں۔‘‘
اب سب آدمی پھر ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوگئے۔ایسا ہی لڑکے نے بھی کیا۔ یکایک وہی آدمی پھر بولا:
’’ شہریو! تم کو جہاں پناہ نے آج اس لئے بلایا ہے کہ جہاں پناہ نے تین دن ہوئے ایک خواب دیکھا ہے اور وہ خواب یہ ہے کہ جہاں پناہ اپنے محل میں آرام فرما رہے ہیں کہ سرہانے کی شمع نے ان سے باتیں شروع کیں۔
شمع نے کہا’ اے بادشاہ تیری بادشاہی کس کام کی ہے ،اگر تیرے پاس بولتی شمع نہیں ہے۔ بولتی شمع تیرا درد، دکھ تیری پریشانی اپنے ہاتھوں سے دور کر دے گی۔‘
یہ خواب دیکھاتو جہاں پناہ کی آنکھ کھل گئی اور آج تین دن ہوگئے ہیں جہاں پناہ کو ایک پل بھی آرام نہیں ہے۔اور ان کو اس وقت تک آرام نہیں آ سکتا جب تک کہ بولتی شمع ان کی خدمت میں حاضر نہ کر دی جائے۔بولتی شمع کہاں ہے، یہ معلوم نہیں ۔ کیوں کر مل سکتی ہے، یہ نہیں معلوم ۔جو شخص بولتی شمع لا کر جہاں پناہ کی خدمت میں نذر کرے گا ۔جہاں پناہ بخوشی اس کو آدھی سلطنت دے دیں گے اور اپنی بیٹی کے ساتھ شادی بھی کر دیں گے۔اب آپ لوگ اپنے گھروں کو جا سکتے ہیں۔‘‘
اجازت ملتے ہی تمام لوگ قطاروں میں خاموش باہر آگئے اور ان کے ساتھ لڑکا بھی۔وہ لوگ تو باہر آکر اپنے اپنے کاموں کو چلے گئے لیکن لڑکا اپنے کام پر نہ گیا۔اس کے دل نے یہ ٹھان لیا کہ وہ بولتی شمع لائے گا۔اور آدھی بادشاہت اور بادشاہ کی بیٹی کو حاصل کرکے ہی رہے گا۔
یہ ٹھان کر وہ بجائے گھر کی طرف چلنے کے شہر پناہ کی طرف چلا۔ چند منٹوں میں پھاٹک تک پہنچ گیا اور باہر نکل گیا۔
اس کو یہ بھی نہ معلوم تھا کہ یہ رستہ کہاں جاتا ہے۔ اور اس کو کہاں جانا ہے۔جس وقت وہ پھاٹک کے باہر آیا تھا اسکے پاس چند چھوٹے سکے تھے جو اس کو بھیک میں مل گئے تھے۔وہ چلتا رہا چلتا رہا۔راستے میں نہ اسے کوئی بستی ملی نہ گاؤں ،یہاں تک کہ جنگل میں اسے شام ہوگئی۔ جنگل کا سناٹا اور درختوں کی کڑکڑاہٹ نے اسے بہت ڈرایااور اسے یہ خوف لگنے لگاکہ کہیں کوئی جنگلی جانور اسے کھا نہ لے۔اس لئے وہ درخت کے اوپر چڑھ کر بیٹھ گیا کہ رات اسی طرح بسر کر لے۔اس کو بیٹھے ہوئے بمشکل آدھا گھنٹہ ہوا تھا کہ اسے دور سے چھچھوندر کے بولنے کی آواز آئی ۔یہ آواز قریب آتی گئی، یہاں تک کہ درخت کے نیچے آنا شروع ہو گئی۔
اس نے غور سے دیکھا ۔اندھیرے کا عادی ہوچکنے کی وجہ سے اسے ہر چیز بخوبی نظر آرہی تھی۔اس نے دیکھا کہ ایک چھچھوندر جس کا قد بلی کے برابر ہے۔ درخت کے نیچے سوں سوں کر رہی ہے۔وہ اسکو دیکھ کر بہت ڈرا۔ اس نے اپنی ساری زندگی میں اتنی بڑی چھچھوندر نہیں دیکھی تھی۔
اس چھچھوندر نے یکایک منہ سے ایک گولہ سا اگل دیا۔ یہ گولہ اس درجے روشن تھا کہ جیسے چاند۔ اس کی روشنی میں اسے چھچھوندر صاف نظر آئی۔
وہ چھچھوندر اس گولے کو اگل کر اس کی روشنی میں ادھر ادھر گھومنے لگی اور ایک بارگی کسی چیز کا پیچھا کرتی ہوئی بہت دور نکل گئی۔لڑکے کے دل میں یک بارگی یہ خیال پیدا ہوا کہ اس گولے کو اتر کر دیکھوں کہ یہ کیا چیز ہے۔یہ سوچ کر وہ چپکے سے نیچے اترا،اور اس نے گولے کے پاس ہاتھ بڑھایا۔یہ دیکھنے کے لئے کہ کہیں یہ گرم تو نہیں ہے۔ گرمی نہ محسوس کرکے اس نے چپکے سے وہ گولہ اٹھالیا اور جیب میں رکھ کر درخت پر چڑھ گیا۔روشنی کے غائب ہوتے ہی چھچھوندر تیزی سے اس درخت کے نیچے آئی۔ وہاں وہ گولہ نہ پاکر اس نے درخت سے سر ٹکرانا شروع کیا۔ رات بھر وہ تی رہی اور صبح کو کسی طرف بھاگ گئی۔
جب روز روشن ہوا تو لڑکا درخت سے نیچے اترا اور پھر آگے کو روانہ ہوا۔جب بھوک لگتی تو جنگل کے پھل پھلاری کھا لیتااور چشموں سے پانی پی لیتا۔
تمام دن چلتے چلتے پھر اسے جنگل میں رات ہوگئی اور وہ ایک درخت پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ تقریباً آدھی رات کے وقت ایک جانور نے دوسرے جانور سے کہا کہ’‘ بھائی کچھ باتیں کروجو رات کٹے۔ ‘‘
دوسرے جانور نے کہا:
’’ بات کیا کروں۔ایک پرانی کہانی یاد آئی ہے۔کہو تو سناؤں۔‘‘
وہ جانور بولا:
’’ اس سے بڑھ کر کیا بات ہے۔ ‘‘
دوسرے جانور نے کہا:
’’سنو،ہزارہا برس کی بات ہے کہ ایک جادوگر کوہ قاف کے نیچے رہا کرتا تھا۔وہ اتنا زبردست جادوگر تھا کہ تمام جادو گر اس کو خدا ماننے لگے۔اس نے اپنے جادو کے زور سے دو چیزیں بنائی تھیں۔ ایک بولتی شمع دوسری جادو کا گولہ۔
بولتی شمع میں یہ صفت تھی کہ جیسے ہی وہ جلائی جاتی، اگلی پچھلی باتیں بتا دیتی۔ اس کے علاوہ جس چیز کے متعلق اس سے پوچھا جاتا۔اس کا پورا پورا احوال سنا دیتی تھی۔‘‘
اب پہلے جانور نے کہا:
’’اس گولے میں کیا صفت تھی؟‘‘
دوسرے جانور نے کہا:
’’اس گولے میں یہ صفت تھی کہ وہ مثل چاند کے روشن ہے اور اندھیرے میں دور تک اس سے اجالا پھیل جاتا ہے۔جس کے پاس وہ گولہ ہو،اس پر جادو اثر نہیں کر سکتا۔وہ جانوروں کی بولی سمجھ سکتا ہے اور اگر دیوؤں اور8 جنوں سے مقابلہ پڑ جائے تو دیو اور جن دونوں اس آدمی سے نہیں جیت سکتے۔ جس کے پاس وہ گولہ موجود ہے۔‘‘
پہلے جانور نے کہا:
’’اور کوئی صفت؟‘‘
دوسرے نے کہا:
’’ ہاں اور صفت بھی ہے۔اگر کہیں کوئی دریا ملے تو وہ جادو گر کا گولہ دریا میں کشتی بن جاتا ہے۔آدمی ادھر پہنچ کراس کشتو کو اٹھا لے۔وہ دوبارہ گولہ بن جائے گی۔‘‘
پہلے جانور نے کہا:
’’پھر اس جادو گر کا کیا حشر ہوا؟‘‘
’’ہاں میں کہانی چھوڑ ہی گیا۔‘‘پہلا جانور بولا،’’ اور باتوں میں پھنس گیا ۔وہ جادو گر جب مرنے لگا۔تو اس نے جادو کے زور سے ایک باغ بنایا اور اس میں وہ شمع رکھ دی تاکہ وہ کسی کے ہاتھ نہ لگے۔‘‘
وہ جانور پھر بولا:
’’وہ باغ ہے کہاں؟‘‘
دوسرے جانور نے کہا:
ابے توتو بال پوچھتا ہے۔ بال کی کھال پوچھتا ہے۔وہ باغ یہاں سے ایک ہزا رکوس کے فاصلے پرکوہ قاف کے نیچے ہے۔راست میں دو دریا ایسے پڑتے ہیں جن پر نہ پل ہے اور نہ کشتی ہی ہے۔ جس سے وہ پار کئے جا سکیں اور راستے میں کئی دیوؤں اور جنوں کے ملک ہیں۔کوئی وہاں بھلا کیا پہنچ سکتا ہے۔
البتہ اگر کسی کے پاس جادو کا گولہ ہو اور وہ ہمت والا بھی ہوتو بولتی شمع تک پہنچ سکتا ہے۔ تو جادو کا گولہ جادو گر نے اس سے بھی زیادہ حفاظت سے رکھا ہے۔اس جادو گر نے ایک چھچھوندر لے کر پالی تھی اور اس کو جادو کا کھانا کھلا کر اتنا بڑا کر لیا جتنی بڑی کہ بلی ہوتی ہے۔
پھر اس نے اس کو وہ گولہ نگلوا دیا۔دن بھر وہ چھچھوندر ادھر ادھر پھرا کرتی ہے۔رات کو وہ اس کو اگل دیتی ہے اور اس کی روشنی اپنا شکار مارا کرتی ہے۔پھر اس کو نگل کر چل دیتی ہے۔‘‘
یہ دونوں اتنا ہی کہنے پائے تھے کہ آسمان پر صبح کی سفیدی پھیل گئی اور وہ دونوں اڑ کر چلے گئے۔
لڑکے نے غور سے ان دونوں کی باتوں کو سنا۔وہ سمجھ گیا کہ یہ گولہ وہی جادو کا گولہ ہے اور بولتی شمع کوہ قاف کے اوپر ہے۔لہٰذا وہ نیچے اترا اور آگے روانہ ہو گیا۔
جاتے جاتے اس کو ایک بستی نظر پڑی جس کے لوگ بہت حیران و پریشان تھے۔ لڑکے نے ان سے دریافت کیا کہ کیا بات ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ ایک دیو یہاں لاگو ہو گیا ہے۔جو بستی کے آٹھ آدمیوں کو ہر آٹھویں دن کھا جاتا ہے۔آج اس کے آنے کا دن ہے اس لئے سب لوگ ادھر ادھر چھپتے پھرتے ہیں۔
لڑنے کہا:
’’ تم نہ گھبراؤ۔ میں اکیلا اس کو مار دوں گا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ بستی کے باہر اس مقام پر ٹھہر گیا جہاں دیو روز آکر ٹھہرا کرتا تھا۔ اس مقام پر چاروں طرف آدمیوں کی ہڈیوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔یہ ان آدمیوں کی ہڈیا ں تھیں جن کو دیو مار کر کھا لیتا تھا۔
اس کو وہاں انتظار کرتے چند منٹ ہوئے تھے کہ لمبا چوڑا دیو جس کا رنگ کالا تھا اور آگے سے دانت بہت بڑے تھے، آسمان سے اتر کر اس کے سامنے آیا اور بولا:
’’ارے میرا پہلا ہی لقمہ اتنا ذرا سا۔بھلا مجھے کیا سیری ہوگی۔‘‘
لڑکے کو یقین تھا کہ اس کی جیب میں جادو کا گولہ موجود ہے۔لہٰذا وہ اکڑ کر بولا:
’’زیادہ باتیں نہ بنا ۔ پہلے مجھ سے مقابلہ کر لے۔پھر مجھے کھانے لا ارادہ کرنا۔‘‘
دیو اس کی بات پر ہنسا اور اپنا ہاتھ اس کو پکڑنے کے لئے بڑھایا۔لڑکے نے اس کا ہاتھ اپنی طرف آتے دیکھ کر اس کی انگلیوں کو اپنی گرفت میں لے لیااور ایک جھٹکا مارا۔اس کی انگلیاں ٹوٹ گئیں۔اب وہ مارے درد کے چیخنے لگا۔اب کے دیو نے دوسرا ہاتھ اس کو پکڑنے کے لئے بڑھایا۔
لڑکے نے اس کا وہ ہاتھ جو پکڑ کے کھینچا تو جڑ سے اکھڑ گیا۔اب تو دیو کا مارے دردکے برا حال ہو نے لگااور اس کو یقین ہو گیا کہ یہ لڑکا جان ہی سے مار دے گا۔لہٰذا وہ اس کے قدموں میں گر پڑا اور بولا:
’’مجھے جان سے نہ مارئیے۔ میں آپ کے بہت کام آؤں گا اور میں اس کا وعدہ کرتا ہوں کہ کبھی اس بستی کا رخ نہ کروں گا۔‘‘
لڑکے نے کہا :
’’تیرے دونوں ہاتھ تو بیکار ہو گئے۔ تو میرے کیا کام آئے گا؟‘‘
دیو نے کہا :
’’اگر میری جان بخشی کر دیجئے گا تو میں چشمہء سلیمانی میں جا کر نہا لوں گا۔ میرے ہاتھ فوراً ٹھیک ہو جائیں گے۔‘‘
لڑکے نے کہا:
’’اچھا میں تمہیں معاف کرتا ہوں، لیکن خبردار اب ادھر کا رخ نہ کرنا۔‘‘
دیو نے اس کا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور بولا:
’’آپ یہیں ٹھہریئے، میں ابھی نہا کر آتا ہوں۔اگر آگے کہیں جانے کا ارادہ ہے تو میں منٹوں میں آپ کو پہنچائے دیتا ہوں۔‘‘
لڑکے نے اس کی بات مان لی اور وہیں انتظار کرنے لگا۔اتنے میں بستی کے آدمی اس کو زندہ سلامت دیکھ کر اس کے پاس آئے اور اس کے قدموں پر گر پڑے۔لڑکے نے ان سب کو تسلی دی کہ اب دیو آئندہ سے ان کو نہیں ستائے گا۔ وہ لوگ خوشی خوشی اپنے گھروں کوواپس گئے۔اتنے میں وہی دیو بالکل اچھا ہو کر واپس آگیا اور بولا:
’’چلئے !آپ کہاں چلنا چاہتے ہیں؟‘‘
لڑکے نے کہا:
’’مجھے کوہ قاف جانا ہے۔‘‘
اس نے کہا:
’’مجھے چلنے میں تو عذر نہیں ہے ،لیکن راستے میں ایک دیوؤں کی اور ایک جنوں کی سلطنت پڑتی ہے۔آپ وہاں سے کیسے گزریں گے؟‘‘
لڑکے نے کہا:
مجھے چلنے میں تو عذر نہیں ہے ،لیکن راستے میں ایک دیوؤں کی اور ایک جنوں کی سلطنت پڑتی ہے۔آپ وہاں سے کیسے گزریں گے؟‘‘
لڑکے نے کہا:
’’تم مجھ کو پہلے دیوؤں کی سلطنت تک پہنچا دینا۔جب میں اس کو جیت لوں تو آگے چلنا۔‘‘
دیو نے کہا:
’’ میں پہنچا کر وہیں چھپ جاؤں گا۔ جب آپ میرے بال کو جلائیں گے تو میں فوراً حاضر ہو جاؤں گا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ لڑکے کو لے کر آسمان میں اڑ گیا۔کئی گھنٹے اڑنے کے بعد اس نے لڑکے کو ایک قلعہ کے سامنے اتاردیااور بولا:
’’یہ قلعہ دیو زادوں کا ہے۔اور یہاں سے ان کی حکومت شروع ہوتی ہے۔ میں یہاں سے جدا ہوتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ دیو فوراًوہاں سے روانہ ہو گیا۔ ادھر لڑکا جوں ہی قلعہ کی طرف بڑھا۔قلعے کی طرف سے ایک گرد اڑی اور ایک بہت بڑا دیو اکیلا آیا اور اس نے فوج پر حملہ کر دیا۔
اس اکیلے دیو کااتنا خوف فوج پر غالب آیا کہ ادھر ادھر بھاگنے لگے۔یہ دیکھ کر لڑکا آگے بڑھا اور اس اکیلے دیو سے بولا:
’’کیا ان بے چاروں سے مقابلہ کر رہا ہے۔ یہ تو تجھ سے کمزور ہیں۔اگر تو بڑا بہادر ہے تو آ، اور مجھ سے مقابلہ کر۔‘‘
وہ دیو لڑکے کو دیکھ کر ہنسا اور بولا:
’’اے آدم زاد!توتو میرا ایک لقمہ بھی نہیں ہے، میں ان دیوؤں کو تو کچھ سمجھتا نہیں ہوں۔ تو میرے مقابلے میں کیوں آیاہے؟‘‘
لڑکے نے کہا:
زیادہ شیخی نہ بگھار اور اگر کچھ بہادرہے تو مجھ سے مقابلہ کر۔‘‘
وہ یہ بات سن کر جھلا گیا اور لڑکے کو پکڑنے کے لئے آگے بڑھا۔لڑکے نے ایک گھونسہ تان کر دیو کے مار۔گھونسے کا پڑنا تھا کہ دیوچکرا کر زمین پر بیٹھ گیا۔ اس کی ناک سے خون جاری ہو گیا۔اپنے دشمن کو بے بس دیکھ کر سارے دیو دوڑ پڑے اور انہوں نے اس دیو کے ہاتھ پیروں میں ہتھکڑی اور بیڑی ڈال دی اور اس کو قید کرکے قلعہ کے اندر لے گئے۔دیوؤں کا بادشاہ قلعے سے باہر نکل آیا اور لڑکے کی بڑی خاطر مدارات کیں اور شکریہ ادا کیا اور بولا:
’’میرے لائق کوئی خدمت ہوتو بتائیے۔‘‘
لڑکے نے کہا:
’’کچھ نہیں بس اتنا کہ آپ مجھے ایک رقعہ لکھ دیجئے کہ آپ کی ساری سلطنت میں کوئی مجھے نہ روکے۔‘‘
دیوؤں کے بادشاہ نے فوراً وہ رقعہ لکھ دیا۔لڑکے نے بال جلائے اور اس کا دیو فوراً حاضر خدمت ہو گیا۔لڑکا فوراً دیو کے کندھوں پر بیٹھ گیا اور آگے روانہ ہو گیا۔تقریباً ایک گھنٹہ اڑنے کے بعد دیو اترپڑا اور بولا:
’’وہ دیکھئے سامنے دریا نظر آرہا ہے۔میں آپ کو لے کر اس کے پار نہیں ہو سکتاہوں۔البتہ اکیلا پار ہوسکتا ہوں۔‘‘
لڑکے نے کہا:
’’تم فکر نہ کرو۔ تم اوپر اوپر اڑو۔میں دریا دریا چلتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھا۔واقعی ایک بہت بڑا دریا ٹھاٹھیں ماررہا تھا۔جس کا کنارہ کہیں سے کہیں تک نظر نہ آتا تھا۔لڑکے نے وہ گولہ جیب سے نکالا اور دریا میں ڈال دیا۔وہ گولہ ایک دم ایک کشتی بن گیا۔لڑکا اس کشتی پر بیٹھ گیا۔کشتی تیزی کے ساتھ آپ ہی آپ دریا میں چلنے لگی۔ سارا دن چلنے کے بعد شام کے قریب وہ کشتی اس کنارے پر پہنچی۔لڑکا کشتی سے اترا۔اس نے کشتی پانی سے باہر نکالی۔وہ باہر نکلتے ہی گولہ بن گئی۔اتنے میں وہی دیو بھی آموجود ہوا اور بولا:
’’میں آپ کو لے کر چلتا ہوں لیکن سوائے تاریکی کے اور کچھ نہیں ہے۔یہ راستہ کیوں کر طے ہوگا۔اس راستے کو طے کرنے کے بعد آپ کو جنوں کا ملک ملے گا۔‘‘
لڑکے نے کہا:
’’تم فکر نہ کرو اور چلو۔‘‘
دیو اس کو لے کر اڑا۔ کوئی ایک گھنٹے کے بعد وہ ایک ایسے علاقے میں پہنچا جہاں کچھ سجھائی نہ دیتا تھا۔لڑکے نے وہ گولہ پھر نکالا۔چاروں طرف روشنی ہوگئی۔اس گولے کی روشنی میں وہ دیو اڑ گیا یہاں تک کہ اس کو ایک مقام پر سورج کی روشنی نظر آئی۔ اب دیو رک گیا اور بولا:
’’یہاں سے جنوں کا علاقہ شروع ہوتا ہے اور میں اب چھپا جاتا ہوں۔‘‘
لڑکے نے کہا:
’’ تم جا سکتے ہو۔‘‘
اب لڑکا خود آگے بڑھا۔وہ بمشکل چند قدم گیا ہوگا کہ بہت سے جنوں نے اسے پکڑ لیا اور اپنے بادشاہ کے سامنے اسے لے گئے، جو وہیں جنگل میں شکار کھیل رہا تھا۔جنوں کے بادشاہ نے اسے دیکھتے ہی پوچھا:
’’تم آدم زاد ہو۔ اور یہاں کیسے آئے ہو؟‘‘
لڑکے نے کہا:
’’آدم زاد سب کچھ کر سکتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں پہنچ سکتے ہیں۔‘‘
جنوں کے بادشاہ نے کہا:
’’اگر آدم زاد سب کچھ کر سکتے ہیں تو ہم سارے جنات بڑی مصیبت میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کیا وہ مصیبت آدم زاد ٹال سکتے ہیں؟‘‘
لڑکے نے کہا:
’’بے شک بتائیے۔ آپ پر کیا مصیبت ہے؟‘‘
جنوں کے بادشاہ نے کہا:
’’ایک سال سے ہم پر کچھ عجیب قسم کی چڑیاں حملہ کرتی ہیں۔ وہ چڑیاں تنی بڑی ہیں کہ ہم نے آج تک ویسی چڑیاں نہیں دیکھیں۔ان کے سر انسانوں کے سے ہیں اور جسم چڑیوں کے۔ وہ جب ہم پر حملہ کرتی ہیں تو ہم بالکل بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ان کا حملہ ان کا گانا ہے۔ جب انہوں نے گانا شروع کیا،ہم سب مست ہو جاتے ہیں اور وہ اپنے پنجوں سے ہمیں زخمی کر جاتی ہیں۔ہر مہینے ان کا غول کا غول آتا ہے اور ہم کو زخمی کر جاتا ہے۔ان سے بچنے کی کوئی تدبیر بتاؤ۔‘‘
لڑکے نے کہا:
’’ان کے آنے کا کون سا دن ہے؟‘‘
جنوں کے بادشاہ نے کہا:
’’کل صبح ان چڑیوں کو آنا چاہئے۔ ہم سارے جنات کل کے دن اپنے گھروں میں بند رہیں گے اور کوئی گھر کے باہر نہیں نکلے گا۔‘‘
لڑکے نے کہا:
’’کل میں باہر رہوں گا۔‘‘
جنات اس کو اپنے ساتھ شہر لے گئے اور اس کو اپنے ساتھ بہت آرام سے رکھا۔دوسرے دن صبح اس نے دیکھا کہ سارے کے سارے جنات اپنے مکانوں میں بند ہو کربیٹھ گئے۔ سارا شہر ویران نظر آنے لگا۔لڑکا یہ دیکھ کر باہر نکلا۔اتنے میں اسے ایک سیاہ آندھی آتی ہوئی نظر پڑی جو شہر کی جانب آرہی تھی۔اس نے جو غور سے دیکھا تو وہ آندھی نہ تھی۔بلکہ وہ عجیب و غریب چڑیاں تھیں، جن کا ذکر جنوں کے بادشاہ نے کیا تھا۔وہ چڑیاں سیدھی شہر پر آکر منڈلانے لگیں۔سارے شہرکو بند دیکھ کر ان کے چہروں پر غصے کے آثار پیدا ہوگئے۔
لڑکے کو تنہا باہر دیکھ کروہ سب کی سب اس پر حملہ کرنے کے لئے ایکبارگی جھپٹیں۔انہیں دیکھ کرلڑکے نے کہا:
’’ٹھہرو! میں تم سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں۔‘‘
لیکن چڑیاں نہ ہٹیں اور انہوں نے اپنے پنجوں سے اس پر برابر حملے شروع کئے۔ان کے اس حملے کاکوئی اثرلڑکے پر نہ ہوا۔کیوں کہ جادو کا گولہ اس کی جیب میں تھا۔جب وہ سب حملہ کرکے تھک گئیں تو لڑکے نے کہا:
’’تم نے ارمان پورا کر لیا نا،اب مجھے بتاؤ کہ تم یہاں ہر ہفتہ کیوں حملہ کرتی ہو؟یہاں والوں نے تمہارا کیا قصور کیا ہے؟‘‘
ان میں سے ایک بڑی چڑیاجو ان سب کی سردار معلوم ہوتی تھی، بولی:
’’یہاں کے رہنے والوں نے ہمارے دو بچے پکڑ کر گھر میں بند کر لئے ہیں۔وہ بچے چڑیوں کے بادشاہ کے ہیں۔ہم ان کی رہائی چاہتے ہیں۔اور ہم کو کوئی دشمنی نہیں ہے۔‘‘
لڑکے نے کہا:
’’آپ ٹھہرئیے، میں ابھی جا کر معلوم کرتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر لڑکا بادشاہ کے محل میں گیا اور دروازے پر دستک دی۔شاہی ملازموں نے ڈرتے ڈرتے دروازہ کھولااور لڑکے کو اندر کرتے ہی بند کر لیا۔
لڑکا سیدھا بادشاہ کے پاس گیا اور بولا:
’’آپ کے ہاں ان چڑیوں کے بادشاہ کے دو بچے پکڑ لئے گئے ہیں۔اسی لئے یہ چڑیاں ہر ہفتے آکر یہاں حملہ کرتی ہیں۔‘‘
بادشاہ نے کہا:
’’مجھے نہیں معلوم ، میں ابھی تلاش کراتا ہوں۔‘‘
بادشاہ کے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ خود اسی کی چھوٹی لڑکی نے دو بچے ایک جال میں پہاڑی کے نیچے پائے تھے اور ان کو اس نے ایک پنجرے میں رکھ چھوڑا ہے۔لڑکے نے ان بچوں کو پنجرے سے نکلوایا اور اپنے ساتھ لے کر باہر آیا۔
چڑیاں ان بچوں کو دیکھ کر مارے خوشی کے دیوانی ہو گئیں۔لڑکے نے کہا:
’’جنوں کے بادشاہ نے معافی مانگی ہے کہ اس کی لڑکی نے ان بچوں کو پکڑ لیا۔اس کو معلوم نہیں تھا کہ یہ آپ کے بچے ہیں۔بہر طور آپ ان بچوں سے پوچھئے ،ان کو کوئی تکلیف ہمارے ہاں نہیں ہونے پائی ہے۔‘‘
چڑیوں کے بچوں نے بھی اقرار کیا کہ ان کو کوئی تکلیف نہ ہونے پائی تھی۔لہٰذا وہ تمام چڑیاں یہ کہہ کر چلی گئیں کہ اب سب آرام سے رہیں، ہم لوگ اب کبھی نہیں آئیں گے۔
ان کے جانے کے بعد لڑکے نے ان کا پیغام بادشاہ کو پہنچادیااور اطمینان بھی دلایا۔جنوں کا بادشاہ بڑا خوش ہوا اور بولا:
’’میرے لائق کیا خدمت ہے؟‘‘
لڑکے نے کہا:
’’بس اتنی کہ آپ اپنی سرحد تک مجھے پار کرا دیں۔‘‘
بادشاہ نے کہا:
’’سرحد پارہوتے ہی ایک دریا آجاتا ہے اور وہ دریا کوہ قاف سے ملا ہوا ہے۔ اب آپ جائیے۔‘‘
یہ کہتے ہی اس نے جنوں کو حکم دیا اور وہ اس کو ایک اڑن کھٹولے پر بٹھا کر دریا تک پہنچا گئے۔دریا کے پاس پہنچتے ہی لڑکے نے بال جلائے۔دیو حاضر ہوا۔لڑکے نہ کہا:
’’تم اکیلے دریا کو پار کرو۔میں کشتی کشتی آتا ہوں۔‘‘
دیو نے کہا،’’بہت اچھا‘‘ اور اڑ کر آسمان پر چلا گیا۔
ادھر لڑکے نے وہی گولہ نکالا۔ اور وہی کشتی بن گئی۔اور اسی کشتی پر بیٹھ کر وہ دریا کے پار اترا۔دریا پار کرتے ہی اس نے کشتی کو پانی سے نکالا،وہ گولہ بن گئی۔اتنے میں دیو بھی آگیا۔
چونکہ شام ہو رہی تھی۔لہٰذا وہ دونوں دریا کے کنارے سو گئے صبح جب لڑکے کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا پہاڑ سامنے نظر آرہاہے جس کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔لڑکے نے دیو کو جگایا۔دیو نے اٹھتے ہی کہا:
’’یہی کوہ قاف ہے، اس پر چڑھنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔میں آپ کو لے کر اس باغ تک پہنچائے دیتا ہوں جو جادو گر نے لگایا ہے۔میں باہر ہی ٹھہرا رہوں گا۔ اندر نہیں جا سکتا۔میں نے سنا ہے ،اندر بہت سی بلائیں ہیں۔ وہاں وہی جا سکتا ہے جس کے پاس جادو کا گولہ ہو۔‘‘
لڑکے نے کہا:’’اچھا۔‘‘
چنانچہ دیو اس کو کندھے پر بٹھا کر چوٹی پر لے گیا۔ چوٹی اوپر سے بہت چوڑی تھی اور اس پر ایک باغ لگا ہوا تھاجس کا پھاٹک بند تھا۔دیو نے اس کو اتارتے ہوئے کہا:
’’میں نے سنا ہے کہ جس کے پاس جادو گر کا گولہ ہو ۔ وہ گولے کو ہاتھ میں لے کر چلے گا تو کوئی بلا اس کو نہ ستا سکے گی۔‘‘
لڑکے نے کہا:
’’اچھا تم باہر ٹھہرو۔میں اندر جاتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے گولہ ہاتھ میں لیا۔دروازے کے پاس پہنچا۔ دروازے میں ایک بہت بڑا قفل(تالا) پڑا ہوا تھا۔یکایک گولے میں سے ایک کرن نکلی اور کنجی کی طرح قفل میں پڑ کر گھوم گئی۔ قفل کھٹ سے کھل گیااورنیچے گر پڑا۔اسی گولے سے ایک اور کرن نکلی اور اس نے دروازے کو باتوں باتوں میں کھول دیا۔
لڑکا جب اندر گیا تو اس نے دیکھا کہ دو لوہے کے آدمی تیر کمان ہاتھ میں لئے ہوئے کھڑے ہیں۔ان لوہے کے آدمیوں نے دو تیر لڑکے کی طرف پھینکے لیکن گولے سے ایک کرن نکل کر ان تیروں سے لپٹ گئی۔اور ان تیروں کو جلا دیا۔پھر وہی کرن ایک شعلہ بن کر ان دونوں پتلوں پر گری اور وہ دونوں پتلے دھڑا دھڑ جلنا شروع ہو گئے۔
لڑکا اور اندر بڑھا۔چاروں طرف طرح طرح کے پھول کھلے ہوئے تھے اور چمن بندی کی ہوئی تھی۔ان پھولوں سے ایسی خوشبو نکل رہی تھی جو لڑکے پر نیند کی کیفیت لا رہی تھی۔یکا یک اسی گولے سے شعلے نکلنا شروع ہوئے اور ان شعلوں نے ان چمنوں اور پھولوں کو جلانا شروع کیا۔
لڑکا آگے بڑھتا جا رہا تھااور تمام کے تمام چمن جل جل کر ختم ہوئے جا رہے تھے۔یہاں تک کہ لڑکا بیچوں بیچ باغ میں پہنچا ۔ وہاں ایک سنگ مرمر کی دریچی بنی ہوئی تھی ۔جس میں ایک شمع دان میں بولتی شمع تھی۔آواز آئی کہ’’ بولتی شمع اکھاڑ کر آپ اپنی کمر میں رکھ لیجئے۔‘‘
لڑکے نے ایسا ہی کیا۔شمع کااکھڑنا تھاکہ ایک بہت بڑا شور اٹھا ۔گویا کہ ہزاروں آدمی چیخ رہے ہوں۔یکایک وہ سارا باغ دھواں بن کر اڑ گیا۔اب جو دھواں صاف ہوا تو لڑکے نے دیکھا کہ خالی زمین پڑی ہے جس پر میں کھڑا ہوں اور سامنے دیو کھڑا تھر تھر کانپ رہا ہے۔
لڑکے نے اسے بہت تسلی دی اور شمع کو اپنی کمر میں رکھ کر بہت خوش ہوا۔پھر اسی دیو پر سوار ہو کر پھر اسی رستے واپس ہوا۔اسی طرح راستہ طے کرتے ہوئے وہ اپنے وطن کی شہر پناہ میں داخل ہوا۔ اس نے دیو کو وہاں سے رخصت کر دیااور اسی طرح وہ شاہی محل کے دروازے پر پہنچا اور سپاہیوں سے بولا:
’’مجھے بادشاہ سلامت کے حضور میں پہنچا دو۔‘‘
سپاہی اسے لئے ہوئے بادشاہ کے حضور میں گئے۔ بادشاہ اس وقت عدالت کر رہا تھا اور اس کے سامنے مقدمہ پیش تھا۔ مقدمہ یہ تھا کہ ہیرے کے دو دعوے دار تھے۔ ایک کہتا تھا میرا ہے۔ دوسرا کہتا تھامیرا ہے۔اور دونوں اس بات پر قسم کھاتے تھے ۔گواہ دونوں میں سے ایک کابھی نہیں تھا۔ بادشاہ مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے حیران تھا۔لڑکے کو عدالت میں دیکھ کر پوچھا:
’’یہ لڑکا کون ہے اور یہاں کیوں آیا ہے؟‘‘
لڑکے نے کہا:
’’جہاں پنا ہ میں بولتی شمع حضور کے واسطے لے کر آیا ہوں۔‘‘
بادشاہ کو اس کی بات کا یقین نہیں آیا۔اور قہقہہ مار کر بولا :
’’تو بولتی شمع لایا ہے۔لا کہاں ہے؟‘‘
لڑکے نے کمر سے وہ شمع نکال کربادشاہ کو دی۔ شمع معمولی قسم کی تھی۔
بادشاہ نے کہا:
’’اس کا کیا ثبوت ہے کہ یہ بولتی شمع ہے؟‘‘
لڑکے نے کہا:
’’حضور میں اسے روشن کئے دیتا ہوں۔ حضور کے مقدمے کا بھی فیصلہ کر دے گی۔‘‘
بادشاہ بہت خوش ہوا اور بولا:
’’اچھا روشن کرو۔‘‘
لڑکے نے بڑھ کر وہ شمع روشن کی اور کہا:
’’اے بولتی شمع! اس وقت جہاں پناہ کے سامنے کس قسم کا مقدمہ ہے؟‘‘
شمع نے صاف آواز سے کہا:
’’ایک ہیرے کے دو دعوے دار ہیں۔ دونوں قسمیں کھاتے ہیں۔ گواہ دونوں میں سے ایک کا بھی نہیں۔کیوں جہاں پناہ، ہے نا یہ بات!‘‘
بادشاہ نے کہا:
’’ہاں اے شمع یہی بات ہے۔‘‘
شمع نے کہا:
’’حضور اس کا فیصلہ یہ ہے کہ آپ اس ہیرے کو اسی وقت پسوا کر آدھی آدھی خاک دونوں کو دے دیجئے۔‘‘
اتنے میں ہیرے کا ایک دعوے دار بولا:
’’نہیں نہیں میں اپنا دعویٰ اٹھائے لیتا ہوں۔ جہان پناہ یہ ہیرا آپ اسی کو دے دیں۔کیا فائدہ کہ یہ دونوں کے مصرف کا نہ رہے۔‘‘
اب شمع پھر بولی:
’’جہاں پناہ یہ ہیرا اسی آدمی کا ہے ۔دوسرا جھوٹا ہے۔چونکہ یہ اس کا خریدار ہے اور اس کے دل کو دکھ ہوا ہے کہ اتنی رقم بے کار جائے گی۔دوسرے ہی کو فائدہ پہنچ جائے۔دوسرے کا چونکہ ہیرا خریدا ہوا نہیں تھا، لہٰذا اس کے دل کو کوئی صدمہ نہیں پہنچا۔‘‘
باد شاہ اس عجیب و غریب فیصلے کو سن کر بہت خوش ہوا اور اس نے اپنے وعدے کے مطابق اپنی آدھی سلطنت فوراً لڑکے کو دے دی۔
اور اس کی شادی بھی اپنی لڑکی سے کر دی۔
ختم شد