ایک سانپ

ایک سانپ

یہ برسات کے دن تھے۔ میرا دفتر F-11 اسلام آباد کے سیکٹر 4 میں تھا۔ جنوب کی جانب G-11 تھا جو ابھی آباد ہو رہا تھا۔ یہاں ابھی جھاڑیاں __ اور جنگل۔کے آثار موجود تھے۔

2001 جولائی، درمیانی ساون مغرب کا وقت تھا اور بارش اپنے جوبن پر تھی۔

گھٹاٹوب اندھیرے میں بجلی چمکتی تو مارگلہ کہ پہاڑیاں کسی آسیب کی مانند نظر آتیں۔ بارش شروع ہوئے 3 گھنٹے گزر چکے تھے۔

میں G11 کے ایک سٹاپ پر ویگن سے اترا _ اور ساتھ ہی ایک مسجد میں داخل ہو گیا۔ مغرب پڑھ کر ہی میں نے آفس جانے کا ارادہ کیا_ میرا گمان تھا کہ نماز پڑھ کر نکلوں گا تو شاید بارش ختم ہو جائے اور مجھے دفتر تک رسائی میں آسانی ہو۔

نماز پڑھ کر نکلا تو بارش زور و شور سے جاری تھی۔ دفتر سے بھی لیٹ ہو رہا تھا، سو لگی بارش میں چھتری لئے چل پڑا۔ میری جاب شام پانچ بجے سے رات 2 بجے تک تھی۔ مجھے دفتر کی گاڑی لیکر آتی تھی اور رات کو گھر ڈراپ کرتی تھی۔ میں ایک سرکاری نوکری کے ساتھ ساتھ ایک جز وقتی شام والی جاب بھی کرتا تھا۔

آج میں اپنے پہلے دفتر سے کسی وجہ سے نکلتے لیٹ ہو گیا __ اور میری شام کے دفتر کی گاڑی نکل گئی اس کے نتیجہ میں اب میں چھتری لئے آہستہ آہستہ دفتر کی جانب نکل رہا تھا۔

بارش تھوڑی ہلکی ہوئی تو میں دونوں سیکٹر کے درمیان گرین بلٹ تک پہنچ چکا تھا۔ اب 200 گز گرین بیلٹ کراس کر کے سامنے گلی میں ایک کوٹھی تک رسائی رہتی تھی۔ یہی میرا دفتر تھا جہاں میں بطور اسسٹنٹ انجینئر ایک سائنسدان کے ساتھ کام کرتا تھا۔

گرین بیلٹ پر گھاس تھی اور پیدل چلنے والوں نے دونوں سیکٹر کی روڈز کو ملانے کے لئے ایک پگڈنڈی بنا دی تھی جہاں گھاس کچل کر بیٹھ چکی تھی۔ روشنی نہ ہونے کے برابر تھی، بجلی چمکتی تو راستہ نظر آتا، تھوڑا چلتا _ پھر بجلی چمکتی اور پھر چلتا۔ بارش ہوا کے ساتھ اب چھتری کے ہوتے ہوئے بھی میرے لباس کو گیلا کر رہی تھی۔ گہرے بادلوں نے آدھی رات کا سماں باندھ رکھا تھا۔ بادلوں کی گرج چمک نے ماحول کو آسیب زدہ بنا دیا۔

گرین بیلٹ پر 100 گز پگڈنڈی چلا ہونگا، کہ اچانک میرا پاوں زمین پر پڑتے پڑتے رک گیا۔ میں نے مشکل سے ہی پاوں کو روکا ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ چلنے کے دوران _ کوئی ایک پاوں ہوا میں معلق کر کے کھڑا ہو جائے _ لیکن جان پیاری ہوتی ہے۔ بجلی بروقت چمک کر مجھے آگاہی دے گئی تھی ورنہ اندھیرے میں اٹھا قدم شاید میرے لئے موت کا پیغام ہوتا_ میرے پاوں کے نیچے سے ایک کالا سانپ رینگ کر پگڈنڈی عبور کر رہا تھا۔ میرے روئیں روئیں سے خوف نے پسینہ بہانا شروع کر دیا۔ نجانے اس عالم میں _ مجھے کتنا وقت بیت گیا۔ بجلی کی چمک نے دوبارہ انگڑائی لی تو سانپ بدستور رینگ کر ایک گھاس سے دوسری گھاس میں داخل ہو رہا تھا۔ معلوم پڑتا تھا مجھے اس پوزیشن میں رکے صدیاں بیت گئیں ہوں پاوں منوں بھاری ہو رہا تھا۔ اگر بجلی بروقت چمک کر مجھے آگاہ نہ کرتی تو کچھ بھی ہو سکتا تھا۔

اسی اثنا میں ایک تیز روشنی کا جھماکا ہوا_ ساتھ بادلوں گرجے _ میں دم سادھے پاوں کے نیچے عفریت کو محسوس کرنے کی کوشش کر رہا تھا _ روشنی نے بتایا کہ خطرہ ٹل گیا _ جان بچ گئی _ اور وہ کالی میل بھر رسی اب راستہ میں موجود نہ تھی _ ڈھم سے پاوں نے زمین چھوئی _ اگلے ہی لمحے _ میں بارش سے بے نیاز _ چھتری اٹھائے دوڑ پڑا _

چند سیکنڈ کے ان لمحوں نے مجھے یہ بتا دیا کہ زندگی کتنی پیاری چیز ہے۔

آسیب بسیرہ

آسیب بسیرہ

“میری چارپائی ہلائی گئی تھی”

چارپائی پر مجھے اکیلا سونے کی عادت تھی۔ بیوی بچے دوسری کمرے میں سوتے تھے، آہٹ اور ہلچل تھی۔ کمرے میں اندھیرا تھا، روشنی میں مجھے نیند نہیں آتی۔ اس لئے گھر کی تمام روشنیاں جن کی رسائی میرے کمرے تک ہو سکتی ہے رات گًل کر دی جاتی ہیں۔

لیکن چارپائی زور سے ہلی تھی، خیال آیا کہ شاید زلزلہ ہے۔ لیکن آنکھ نہ کھولی، کلمہ شہادت پڑھا اور کروٹ بدل لی، لیکن احساس ہوا کہ کوئی چارپائی کے پاس کھڑا ہے، یہ چارپائی سے مس ہونے کا احساس تھایا سرسراہٹ۔ ایک دم گردن پلٹ کر دیکھا تو ایک ہیولہ دیکھا — نیند میں تھا ــــ ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کا سر چھت سے لگ رہا ہو۔ لمبے بالوں سے ڈھکا چہرہ، میں اٹھ بیٹھا اور کرخ لہجے میں پوچھا ــــ “کون ــــکیا چاہتے ہو؟

یہ میں ہوں ـــ جہاں آراء ـــ مجھے ڈر لگ رہا ہے، اس لئے آپکے کمرے چلی آئی۔ یہ میری مسز تھیں ـــ میں دل ہی دل میں نادم ہوا۔اندھیرے اور نیند کے خمار نے پہچاننے میں غلطی کی تھی۔

،”ڈر، کیسا ڈر؟” ــــ آپکی طبیعت ٹھیک ہے؟ ـــ میں ـــ میں نے پوچھا

“میری چارپائی، بار بار زور زور سے ہل رہی ہے”، بیگم نے بتایا ـــ “بچے سو رہے ہیں، مجھے ڈر لگا اس لئے چلی آئی”ــــ انہوں نے کہا

چارپائی میری بھی ہل رہی تھی ــــ اسکا مطلب ہے کہ زلزلہ آیا تھا ــــ میرے کمرے میں سر کی جانب ایک اور چارپائی بچھی رہتی تھی ـــ میں نے اس کی طرف اشارہ کرکے کہا

‘یہاں لیٹ جائیں” ـــــ میں جاگ رہا ہوں

وہ ـــ چارپائی پر بیٹھ گئیں ـــ میں بھی بیٹھا ہوا تھا ـــ آپ سو جائیں میں جاگ رہا ہوں ـــ پریشان نہ ہوں ـــ شاید زلزلہ تھا ـــ سو جائیں۔

وہ ـــ لیٹ گئیں اور میں حفظ ما تقدم کے طور پر بیٹھا رہا ـــ کہ اگر دو بارہ کوئی افٹر شاک آئے تو دیکھا جا سکے۔

جہاں آراء بیگم ـــ نے چادر اوڑھی اور آنکھیں بند کر لیں۔ میں بھی چارپائی کے اوپر بیٹھ گیا اور دیوار سے ٹیک لگا لی۔ ابھی چند لمحے گزرے تھے کہ میرے جسم کے بال کھڑے ہونا شروع ہو گئے ـــ میری چارپائی ہل رہی تھی ـــ میں نے کمرے میں اور چیزوں پر نظر دوڑائی کہ زلزلہ کو محسوس کر سکوں ـــ لیکن دروازہ ساکت تھا ـــ سامنے ٹنگی ہوئی گھڑی ساکت تھی ـــ جبکہ میری چارپائی زور زور سے ہل رہی تھی ـــ میں نے آیت الکرسی پڑھنی شروع کر دی ـــ اسی اثناء میں جہاں آرا بیگم بھی اٹھیں اور دوڑ کر کمرے کی لائٹ آن کر دی ـــ میں حیرت زدہ چارپائی پر آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا ـــ ٹھیک اسی وقت ایسا محسوس ہوا کہ گرم ہوا کا ایک تیز جھونکا دروازے سے مشرقی جانب کھڑکی سے کود گیا ہو ـــ سرسراہٹ، اور رونگھٹے کھڑے کرنے والا کوئی اسیب گھر سے نکل بھاگا تھا۔ روشنی میں ہمیں صرف کچھ سیراب نظر آیا لیکن وہ تھا کیا؟ یہ معلوم نہ تھا۔

جہاں آراء بولیں ـــ دیکھا ـــ یہاں کچھ تھا ـــ میں نے جوابا کہا ـــ آپ نیند میں ہیں کچھ نہیں تھا ــــ لیکن حقیقت میں ـــ میں خود بھی خوفزدہ ہو گیا تھا۔

ہم ـــ دوسری منزل کے اس سرکاری فلیٹ میں چند دن پہلے ہی شفٹ ہوئے تھے۔ اس ٹاور میں کل 8 فلیٹ تھے ـــ ہر منزل دو فلیٹس پر مشتمل تھی ـــ3 نمبر میں ایک فیملی رہتی تھی ــــ جو پہلی منزل پر تھا ـــ دوسری منزل پر ہم رہتے تھے یہ 5 نمبر تھا۔ باقی رات جاگ کر گزاری ــ منزل پڑھ کر پانی دم کیا اور فلیٹ کے کونوں میں پھینکا ـــ بچوں کو پلایا اور مسز کو بھی۔ سحری کر کے سو گئے۔

اگلی شام ــــ ابھی افطاری میں کچھ وقت بقایا تھا ـــ میں فلیٹ کے اپنے کمرے میں بیٹھا تھا کہ مسز تیز قدموں سے دروازے سے داخل ہوئیں ـــ اپنے روز مرہ کے سخت لہجے میں کچھ بڑبڑائی اور بالکونی کے دروازے سے نکل گئیں۔ میرے جسم کے بال کھڑے ہو گئے ـــ اچانک کمرے میں گرمی زور پکڑ گئی۔

ابھی چند لمحے بھی نہ گزرے تھے کہ وہ بالکل اسی دروازہ سے دوبارہ داخل ہوئی جہاں سے پہلے آئیں تھیں اور میرے پاس آ کر بیٹھ گئیں۔ میں محو حیرت تھا کہ بالکونی سے کوئی اور راستہ فلیٹ کے اندر رسائی کا نہیں تھا سوائے میرے کمرے کے۔ یہ بالکونی تھی ہی میرے کمرے کی۔ تو پھر یہ اصل جہاں آراء ہیں یا وہ؟ میں دوڑ کر بالکونی میں گیا تو وہاں کوئی نہ تھا۔ جھٹ واپس کمرے میں آیا ـــ جہاں مسز ابھی بیٹھیں تھی۔

اب مجھے ـــ سمجھ آ گئی کہ یہاں کچھ اور ماجرہ ہے۔ اب اگلے دو تین دن میں نے مسلسل منزل پڑھی اور اپنے کنبے پر دم کرتا رہا۔ اب صرف آہٹیں آتیں تھیں ـــ مسز نے بتایا کہ دن میں فلیٹ کی گھنٹی خود بخود بجنے لگتی ـــ وہ خراب ہو سکتی تھی ـــ میں نے بدلا دی لیکن ڈھاک کے تین پات ـــ اوپر والی منزل پر کوئی نہیں رہتا تھا ـــ لیکن اوپر شور آتا ـــ آوازیں آتی ـــ جا کر فلیٹ میں دیکھتا کچھ نہ ہوتا۔

ویک اینڈ پر گھر جانا ہوا تو ـــ رات اپنے گھر کے پرانے آسیب سے ملاقات کی ـــ اسکو بتایا کہ میرے فلیٹ میں یہ معاملہ چل رہا ہے ــــ میں اس پر بھی شاکی تھا کہ میرے گھر چھوڑنے پر یہ گھر کا آسیب ـــ شرارت نہ کر رہا ہو۔ اپنے قارئین کو بتاتا چلوں کہ میرے ساتھ بچپن سے ہی ایک آسیب مانوس تھا ـــ جو شاید 7 نسلوں سے گھر کے بڑے بیٹے کے ساتھ مانوس رہتا ہے۔ یہ ایک خاتون مسلمان جن ہے ـــ شرارت نہیں کرتا ـــ ہم پورا خاندان اسکو “ماسی” کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔اپنی مرضی سے صرف میں مل سکتا ہوں ـــ جبکہ باقی گھر والوں کو وہ کبھی کبھار خود سے اپنے ہونے کا احساس دلاتا رہتا ہے۔

میں نے “ماسی” کو فلیٹ کی صورتحال سے آگاہ کیا ـــ اس نے تسلی دی کہ وہ اس معاملہ کو دیکھے گی ــــ بات آئی گئی ہو گئی۔

اس کے بعد ـــ ہم آج تک اسی فلیٹ میں سکون سے رہائش پزیر ہیں۔

اس رمضان کے اختتام پر میں عید پر جب گھر گیا ـــ تو عید کے دوسرے روز رات کو “ماسی” حاضر ہو گئی ــ اس نےبتایا کہ وہ اس فلیٹ کے علاقہ میں گئی تھی ـــ جہاں چند جنات آباد ہیں ـــ اس نے ان سے اس بابت پوچھا ـــ ان کے بڑے نے سب سے پوچھا کہ فلاں جگہ کون دھما چوکڑی مچا رہا ہے؟ لیکن کوئی بھی نہ مانا ـــ تو ان کے سربراہ نے تسلی دی کہ اگر ہم میں سے کسی نے یہ حرکت کی بھی ہے تو مستقبل میں نہیں ہو گی ـــ اس نے کہا کہ ہم خود خیال رکھیں گے کہ کوئی باہر سے آ کر یہ حرکت نہ کر رہا ہو۔

اس کے بعد ہم نے کبھی اس جگہ کوئی آسیب محسوس کیا ـــ نہ دیکھا ــــ ہاں ماسی کبھی کبھی ملنے آ جاتیں ہیں ـــ لیکن ان سے بھی اس موضوع پر کبھی بات نہیں ہوئی۔ ہم سے پہلے جن کے پاس یہ فلیٹ تھا ـــ ان سے ایک مرتبہ ملاقات ہوئی تو انہوں نے تصدیق کی کہ وہ صرف 6 ماہ رہ سکے تھے اس فلیٹ میں ـــ انہوں نے صرف اس وجہ سے فلیٹ چھوڑا تھا کہ ـــ کوئی اسیب تھا جو تنگ کر رہا تھا۔

چار ریچھ

چار ریچھ

والد صاحب کا تعلق 1 انجینئر بٹالین سے تھا اور ان کی ریٹائرمنٹ 1983 یا 84 میں ہوئی۔ بطور JCO ریٹائرڈ ہوئے۔ وہ 65 اور 71 کے غازی تھے۔ 1979 میں انکی خدمات سعودیہ کو دی گئیں جہاں انہوں نے 3 سال سرو کیا۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ والد صاحب کی یونٹ اسکیم پر تھی، مشقوں کے لئے ان کی کیمپنگ گلگت بلتستان کا ایریا تھا۔ جہاں پر انہوں نے اندازہ ہے کہ ایک ماہ گزارا ہو گا۔

بچپن نے ہم نے والد سے اتنی فوجی کہانیاں سنیں کہ اب تک ازبر ہیں۔ اسکیم کے دوران کیمپ ایریا کے پاس کچھ چرواہے تھے۔ ایک خاتون شام کے ٹائم پر کیمپ ایریا میں آئی اور اپنی زبان میں کچھ فریاد کرنے لگی۔
پتا چلا کہ ان کی چھوٹی سی آبادی (گاؤں) ہے جہاں رات کو جنگلی درندے حملہ کرتے ہیں اور انکا نقصان کر دیتے ہیں۔ اب حملے تیز ہوئے ہیں اور ہر رات کوئی بخری کا بچہ مرغیاں وغیرہ مار دی جاتی ہیں اور غائب ہوتی ہیں۔

والد صاحب JCO تھے انہوں نے اس وقت خاتون کو واپس بھیج دیا اور علاقہ کی سن گن لی کہ یہاں کونسا درندہ ہو سکتا ہے۔ معلومات کی بنا پر پتا چلا کہ یہاں ریچھ کی اکثریت ہے غالب گمان یہی تھا کہ ریچھ ہی حملہ آور ہوتا ہے۔ کیونکہ چھوٹے جانور مرغی یا میمنے(بکری کا بچہ) حملہ میں مارے جاتے یا غائب ہو جاتے تھے۔

صوبیدار صاحب چند سپاہیوں کے ہمراہ اس بستی پہنچے جو پہاڑ کے دامن میں ایک ندی کنارے تھی۔ گاوں والوں نے خوب آو بھگت کی۔ زبان شناسی کے لئے بھی کوئی موجود ہو گا یہاں پہاڑ کے رہنے والے لوگ اردو یا کوئی اور زبان نہیں جانتے۔ ہمارے ہاں یہاں راولپنڈی میں گلگت کے رہنے والے بھائی شینہ زبان بولتے ہیں قیاس کرتا ہوں کہ اس علاقے کی زبان شینہ ہی ہو گی۔

مہم ترتیب دیکر والد محترم نے 2 دن کی چھٹی لی اور اپنے ساتھ راجہ لیاقت خان (بی ایچ ایم) Battalion Havaldar Major اور 2 بہادر سپاہی بھی رکھے۔ راجہ لیاقت خان صاحب والد کے دیرینہ دوستوں میں سے تھے۔ فوج کا ڈیکورم اجازت نہیں دیتا کہ کوئی دوران ڈیوٹی کسی مہم کا حصہ ہو۔

پہاڑ کی راتیں بہت خوفناک ہوتی ہیں، صبح جنت کا نظارہ ہوتا ہے اور شامیں پرندوں کی چہچہاہٹ میں اداس۔

والد صاحب اور ساتھیوں کو گاوں کنارے ایک مکان میں ٹھہرایا گیا۔ اسلحہ کا بندوبست گاون والوں کے ذمہ تھا۔ مغرب کے بعد والد محترم نے اپنے جانبازوں کو گاوں کنارے تعینات کیا، اور خود بھی چوکنے ہو کر اپنی کمین گاہ میں آ گئے۔

رات جوں جوں گہری ہو رہی تھی ندی کا شور اور درندوں کی آوازیں خوف کا سماں باندھ رہیں تھیں۔

والد نے بتایا، آدھی رات کے وقت میرے دروازے پر قدموں کی آہٹ ہوئی اور ہلکی دستک نے میرا دھان اپنی طرف کھینچا۔ میں نے جھٹ سے دروازہ کھولا تو ایک سپاہی باہر موجود تھا۔ اس نے بتایا کہ گاوں کے مغربی کنارے جانب کچھ ہل چل ہے اس نے اطمینان کرنے کے بعد ہی مجھے اطلاع دی تھی۔ میں اس جانب لپکا اور سپاہی سے کہا کہ دیگر لوگوں کو لیکر خاموشی سے اس طرف آو یاد رہے زیادہ آہٹ یا شور نہ ہو کہ شکار ہاتھ سے نکل جائے۔ یہ کہتے ہوئے والد نے بندوق لی جس کے بیرل پر خنجر بھی نصب تھا، یہ جی 3 ریفل تھی، اور اس جانب دوڑ لگا دی
ابو نے بتایا میرے دوڑنے سے پاوں کے نیچے آنے والے پتے چیخ رہے تھے۔ میں نے خود کو شور سے روکا اور دھیرے دھیرے منزل کی جانب بڑھنے لگا۔ تھوڑی دور جاکر گاوں کی گلیاں ختم ہونے کو تھیں کہ بائیں جانب سے آتی گلی میں آہٹ سنائی دی۔ میں ساتھ ہی ایک درخت کی اوڑھ لیکر چھپ گیا اور آنے والے کسی بھی لمحے کے لئے تیاری پکڑ لی۔ چند ساعتوں گزرے تھے کہ اندھیرے میں کچھ ہیولے دھرے دھیرے گلی کی نکڑ جانب آتے محسوس ہوئے۔ اندھیرے نے سب کو کیموفلاج کر رکھا تھا۔ پتا نہیں چل رہا تھا کہ کہ کون ہے۔ پھر تھوڑی ٹارچ کی روشنی نظر آئی تو میں سمجھ گیا کہ میرے آدمی ہیں۔ میں اپنی کمین گاہ سے نکل کر گلی کی نکڑ پر آ گیا اور مخصوص آواز سے آنے والوں کو خبر دار کیا۔ جواب میں بھی ایسی ہی آواز سے میں مطمئن ہو گیا کہ اپنے سپاہی ہیں۔

قریب آنے پر پتا چلا کہ میرے سپاہیوں کے علاوہ گاؤں کے دو چار نوجوان بھی ساتھ تھے جن کے ہاتھوں میں کلہاڑیاں تھیں جبکہ میرے سپاہی اسلحہ بردار تھے۔ یہ اسلحہ سرکاری نہیں تھا بلکہ گاوں والوں کا ارینج کردا تھا۔ اس علاقہ میں اسلحہ وہ بھی لائسنس کے بغیر رکھنا آج بھی شغف سمجھا جاتا ہے۔

اشاروں میں باتیں کر کے والد نے اس سپاہی سے پوچھا کہ کس جانب شک ہے کہ وہاں کوئی ذی روح موجود ہونگی۔ سپاہی نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے سمت بتائی اور میں نے کمان سنبھال کر آگے بڑھنا شروع کر دیا ۔۔۔

راستہ کے دونوں جانب خاردار جھاڑیاں تھیں جو کپڑوں کے ساتھ لگتی تو سرسراہٹ پیدا ہوتی، جس سے خود کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے۔

تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ دائیں جانب اوپر کی جھاڑیوں میں کسی ذی روح کا احساس ہوا۔ میں نے ہاتھ کے اشارے سے اپنی ساتھیوں کو روکا اور خود جھاڑیوں کے قریب جانا شروع کیا۔ پاوں کے سنگریزے کڑکنے کی آواز سے حملہ آور چوکنا ہو سکتا تھا اس لئے میری رفتار نہایت کم تھی۔

ٹارچ ہاتھ میں تھی لیکن بند۔ میں بغیر روشنی، ٹارچ بجھائے آگے بڑھ رہا تھا۔ میرے ساتھی میرے پیچھے پیچھے تھے۔

میں ان جھاڑیوں کے پاس پہنچ چکا تھا جس میں کسی ذی روح کا احساس تھا۔ میں نے ایک دم ہی ٹارچ آن کی اور ان جھاڑیوں پر اس کا رخ کر دیا۔ روشنی پڑتے ہی ان جھاڑیوں سے ایک کالا ریچھ اور اس کے دو بچے نکل کر پہاڑ پر ڈھلوان کے اوپر بھاگے۔ کہ۔ ان تینوں کی ایک جھلک ہی دیکھ سکا۔

مادہ ریچھ نے بھانپ لیا تھا کہ خطرہ ہے، اگر وہ اکیلی ہوتی تو شاید خطرہ کا سامنا کرتی۔ ہم نے بھی تیز قدموں سے ریچھ کا پیچھا کرنے کی کوشش کی لیکن یہ جانور خود کو اپنے ماحول سے مانوس کر کے اپنی رفتار بناتے ہیں جس سے انکا پیچھا کرنا اور وہ بھی رات میں مشکل امر ہے۔ دوسرا اس جگہ پر جھاڑیاں زیادہ تھیں اور ہمیں اندھیرے میں رستہ کا تعین کرنا بھی مشکل تھا باوجود اس کے کہ ٹارچ کی روشنی تھی۔

ایک جگہ رک کر میں نے پلان B ترتیب دیا اور اپنے ساتھیوں کو واپس چلنے کو کہا۔

رات بھر ہم گاوں میں پہرا دیتے رہے لیکن فجر تک کوئی درندہ واپس گاوں کی جانب نہ آیا۔

صبح ہوتے ہی ہم نے تھوڑا آرام کا فیصلہ کیا اور سو گئے، 9 بجے کا وقت ہو گا ایک لڑکا ہانپتا کانپا گاوں میں داخل ہوا جس نے بتایا کہ پہاڑ میں تھوڑی دوری پر اس نے 4 عدد ریچھ دیکھیں ہیں۔ شاید آج کی رات ماں بھوکی رہی ہو گی جس کی وجہ سے اس کے بچے بھی بھوکے رہے۔ اب شکار کے ساتھ یہ۔احساس بھی تھا کہ بچوں والی ماں کے ساتھ سلوک کیا کیا جائ

والد گرامی صوبیدار محمد اسحاق خان کا بیان ہے، کہ ریچھ کے بچوں کو لیکر وہ پریشان تھے کہ کیا کیا جائے۔ بچوں والی ماں کو مارا نہیں جا سکتا، جبکہ وہ اور ان کے سپاہی پورا پروگرام ترتیب دیکر آئے تھے کہ اس جانور کو ختم کرنا ہے جو نقصان کرتا ہے۔

چار عدد اگھٹے ریچھوں کا سن کر والد گرامی کا خون گرم ہو گیا اور وہ نئا عظم و حوصلہ لیکر اپنے سپاہیوں اور چند دیہاتیوں کے ہمراہ اس جانب چل پڑے جہاں سے خبر تھی کہ وہاں 4 ریچھ موجود ہیں۔

والد کا بیان ہے کہ، میں پہاڑ کے درمیانی علاقہ میں پہنچا جہاں درخت اور جھاڑیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔

برفانی علاقہ میں خشک موسم میں یہ پہاڑ ویران اور سرد رہتے ہیں یہاں کا موسم اچھی گرمی میں بھی 20 ڈگری سے زیادہ نہیں ہوتا۔ ریچھ سال کا زیادہ عرصہ اپنے غاروں میں سو کر گزارتے ہیں جبکہ مارچ اپریل میں اپنے غاروں سے نکل کر دریائوں اور ندی نالوں پر زیادہ تر مچھلی کا شکار کرتے ہیں یا پھر چھوٹے جانوروں کو اپنی خوراک بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ دیہاتوں میں اناج پر بھی حملہ آور ہوتے ہیں۔ اگست تک اپنا وزن چار گناہ زیادہ کر کے خود پر چربی چڑھاتے ہیں اور پھر سردیوں کے آغاز سے ہی اپنی غاروں کو لوٹ جاتے ہیں اور چربی بطور خوراک استعمال کرتے سردیاں اپنی گفاوں میں گزارتے ہیں۔

گاوں سے تقریبا 1 کلومیٹر دور اوپر پہاڑ پر ایک چھوٹی گھاٹی تھی دائیں جانب فلک پوش پہاڑ تھا اور بائیں جانب اسی پہاڑ پر موجود ایک ٹیلہ یا چھوٹی چوٹی تھی اور درمیانی رستے نے اسکو گھاٹی بنا رکھا تھا۔ دائیں جانب پہاڑ پر ایک بڑی چٹان تھی۔ والد گرامی نے بتایا کہ وہ اس چٹان پر چڑھ گئے تاکہ ارد گرد جہاں تک نظر جائے ریکی کی جا سکے۔ انہوں نے بتایا “میں چٹان پر اوپر گھڑا نیچے ندی تک کا۔نظارہ کر سکتا تھا۔ جبکہ سامنے والا ٹیلہ میرے بالکل سامنے تھا جس کے دوسری طرف دیکھنا ناممکن تھا لیکن اس کے دائیں بائیں اور پہاڑ کے پچھلے جانب میری نظر جا رہی تھی۔ کچھ کچھ فاصلہ پر چند درخت تھے باقی سارا چٹیل پہاڑ عیاں تھا۔ گھاٹی سے آگے نیچے ندی کی جانب مجھے دو تین کالے نقطے نظر آئے اور غور کرنے پر مجھے پتا چلا کہ یہ وہی جنگلی جانور ہیں جن کی تلاش ہمیں یہاں تک لائی ہے۔

میں نے جوانوں کو آمادہ کیا اور اس جانب اترنا شروع کر دیا جس جانب مجھے ریچھ نظر آئے تھے۔ ہم اپنی رفتار سے زیادہ جوش سے ڈھکوان اتر رہے تھے، تھوڑا ٹائم گزرا تو ہم ان جانوروں کے اتنے قریب تھے کہ انکی کل تعداد کا بخوبی مشاہدہ کر سکتے تھے۔

وہ تعداد میں چار تھے دو بڑے اور دو چھوٹے۔ بڑے ریچھ بھی کچھ زیادہ قد آور نہیں تھے، اکثر مداری کے پاس درمیانی قد کا ریچھ ہوتا ہے والد بتاتے تھے کہ اسی قد کاٹھ کے دو ریچھ تھے اور دو بچے۔ ہم ایک قدرتی رستے سے نیچے اتر رہے تھے جبکہ اسی رستے کے عین نیچے 200 میٹر کی دوری پر 4 ریچھ ندی کی جانب جا رہے تھے۔

یہ حیرت کی بات تھی، مادہ ریچھ کے بارے سنا تھا کہ وہ بچے جننے کے بعد کسی اور ریچھ کو قریب نہیں آنے دیتی اسکو ڈر رہتا ہے کہ اس کے بچے مار دیئے جائیں گے۔ ایک ماں تھی، دو بچے تھے تو یہ چوتھا جانور کہاں سے آیا اور وہ کون تھا جس سے یہ پریوار مانوس تھا۔

بہرحال، جانور کا تعاقب جاری رکھا گیا لیکن حملہ کرنے کی ہمت کسی کو نہ تھی۔ شاید سب کو اس بات کا احساس تھا کہ ماں کے ساتھ بچے ہیں، جن کو ابھی ماں کی ضرورت ہے۔ دوسرا والد صاحب کے اشارے کے بغیر کوئی اپنی طرف سے خود فیصلہ بھی نہیں کر سکتا تھا۔

قدرتی رستہ چھوڑ کر ہم نے ڈھلوان اتری اور درندوں رک رسائی حاصل کر لی، اب ایک چٹان درمیان میں حائل باقی تھی جہاں سے ریچھ ندی کی طرف اتر رہے تھے اور چٹان کی پچھلی جانب ہم لوگ موجود تھے۔

والد بتاتے ہیں کہ میں نے اپنے دیرینہ دوست لیاقت خان سے مشورہ کیا کہ اب کیا کیا جائے؟ آیا ان تمام کو گولی مار دی جائے یا پھر کچھ اور ممکن ہو سکے تو؟ راجہ لیاقت خان ایک بہادر اور نڈر انسان تھے، انہوں نے جھٹ سے کہا کہ انکا سامنا کر کے انکو گولی ماری جائیگی کہ یہ نقصان کرتے ہیں لیکن والد گرامی اس کے حق میں نہیں تھے۔ دیہاتیوں سے پوچھا گیا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ انکو مار دیا جائے۔

والد بتاتے ہیں، میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا۔ میں نےاپنے لوگوں سے کہا کہ آپ لوگ اگر متفق ہوں ہو ہم انکو ڈراتے ہیں اور ان کو ہانک کر اس علاقے سے دور کر دیتے ہیں۔ ندی نالوں میں مچھلی کی کمی ہر گز نہیں تھی کہ وہ بھوکے مر جاتے اور اگر انکو اس علاقے سے دور دھکیل دیا جائے تو ہو سکتا ہے کہ یہ واپس اس علاقے میں نہ آئیں اور نقصان نہ کریں۔ لیکن سب مضر تھے کہ ان کا علاج گولی ہے۔ میں نے وقتی طور پر حامی بھر لی اور ان لوگوں سے کہا کہ گولی میں چلاونگا۔ سب متفق تھے۔ یہ بھی عہد کیا گیا کہ اگر درندوں نے جوابی حملہ کیا تو سب ان پر حملہ کر دیں گے۔

اس بات پر متفق ہو کر، میں نے ہلکے قدموں سے چٹان کے ساتھ پیش قدمی کی اور جب دوسری جانب جھانکا تو پتا چلا کہ کہ ریچھ شست سے نکل چکے ہیں چنانچہ دوبارہ انکا پیچھا کیا گیا۔ ریچھوں کی رفتار بتا رہی تھی کہ شاید انہوں نے ہوا سے خطرے کی بو سونگھ لی تھی۔ اس لئےوہ بہت تیزی سے ڈھلوان اتر رہے تھے۔ ہم نے بھی اپنی طاقت سے دوڑ لگائی اور فاصلہ کم ہو گیا۔ ایک پتھر پر کھڑے ہو کر میں نے ان کی رفتار دیکھی۔ اس رفتار سے انکو شوٹ کرنا ممکن نہ تھا جبکہ میرےپاس جی تھری تھی جس کاایک فائر نہ صرف انکو چوکنا کر دیتا بلکہ ان پر دسترس کو ناممکن بنا دیتا۔ ابھی تک انکو صرف خطرے کا احساس ہوا تھا خطرے دیکھ کر وہ اسی طرح بھاگتے جیسے رات کو تینوں بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔

اب ندی نزدیک آ رہی تھی اور ڈھلوں کم ہوکر وادی کی شکل اختیار کر رہی تھی ایسی زمین پر نشانہ لینا اور مار گرانا قدرے آسان تھا۔ ندی کنارے عمودی چٹان تھی جس کی لمبائی 200 گز تک تھی دور تک اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ مشرقی جانب دو سو گز دور ہی ندی میں اترنے کا رستہ موجود تھا۔

ہم نے ایک چٹان کے ساتھ پہنچ کر کمر کسی اور میں نے فائر کرنے کا ارادہ کر دیا۔ چٹان کے اوپر لیٹ کر میں نے شست لی اور ایک جانور پر نشانہ لگا لیا جو نسبت سب سے بڑا تھا۔ وہ جانور سب سے پیچھے تھا سب سے آگے جانور کا وزن میری آنکھ میں درمیانہ تھا اور اسی کو میں ماں سمجھ رہا تھا۔

ریچھ، عمودی چٹان کے اوپری حصہ پر مشرق کی جانب جا رہے تھے جہاں 200 گز کے اختتام پر شاید وہ ندی میں اترتے۔ وقت بہت کم تھا اور جو بھی کرنا تھا جلدی کرنا تھا۔ میں نے شست لیکر بڑے جانور کو نشانہ پر لیا لیکن جان بوجھ کر میں نے فائر خطا کر دیا۔ ٹریگر دباتے ہی علاقہ میں گولی کی گونج اٹھی اور ریچھ سرپٹ دوڑنے لگے، راجہ لیاقت نے اچانک رائفل سیدھی کی اور کھڑے کھڑے ایک اور فائر کر دیا جس کو سن کر ریچھوں کے رہے اوسان بھی خطا ہو گئے۔ وہ تیزی سے عمودی چٹان کے کنارے کی جانب دوڑے اور تھوڑے ہی وقت میں وہ عمودی چٹان کے آخری کونے سے ڈھلوان میں اتر گئے۔ ہم دوڑ کر عمودی چٹان کے اوپر پہنچے جہاں سے ندی میں چار ریچھوں کو تیرتے ہوئے ہم بآسانی دیکھ سکتے تھے۔

والد بتاتے ہیں کہ، میں نے دو ہوائی فائرنگ اور کئے جبکہ راجہ لیاقت غصہ میں تھے اور چاہتے تھے کہ وہ شست لیکر فائر کریں اور انکو مار گرائیں۔ لیکن میری وجہ سے وہ رکے رہے۔

ہم اس چٹان پر اس خاندان کو ندی کراس کر کے دور تک دیکھتے رہے، جب وہ نظروں سے اوجھل ہو گئے تو واپسی گاوں کی جانب قصد کیا۔

والد نے بتایا، کہ میں نے دشمن پر کبھی رحم نہیں کھایا، لیکن میں باوجود کوشش کے ایک ماں کو نہ مار سکا۔ اس بات کی خوشی مجھے ساری زندگی رہی۔

گاوں واپس آ کر میں نے گاوں والوں کو تسلی دی کہ ریچھوں کو اتنا ڈرا دیا گیا ہے کہ اب وہ شاید اس علاقہ کا رخ نہ کریں۔ لیکن پھر بھی کوئی اندیشہ ہو تو ہم حاضر ہیں۔

گاوں والوں نے محبت کے ساتھ ہمیں رخصت کیا اور ہم اسکیم پر دوبارہ پہنچ گئے۔ ہمارے وہاں سے کوچ کرنے تک ہمیں تسلی تھی کہ دوبارہ ریچھ نے اس علاقہ کا رخ نہیں کیا۔

ختم شد

کالا جادو

کالا جادو

اکثر اوقات ہمارے گھر کا آسیب کسی نہ کسی رشتہ کی شکل میں مجھ سے ملتا اور گھریلو باتیں ہوتیں۔ یہ سلسلہ 2000 عیسوی تک یوں ہی چلتا رہا۔ سنہ 2000 کے بعد میری زندگی میں بہت اہم واقعات ہوئے اور زندگی کے بڑے امتحانوں سے گزرنا پڑا۔

سنہ 1995ء میں میٹرک گورنمنٹ بوائز ہائی سیکنڈری سکول اصغرمال روڈ سے کیا، ایف ایس سی کے بعد بطور ایئرمین PAF سلیکشن ہوئی لیکن میں نے فورس جوائن نہیں کی۔ 1997ء میں ایک نیم سرکاری ادارہ میں جاب ہوئی بعد ازاں ڈگری لی اور اب تک بطور انجینئر وہیں کام کر رہا ہوں۔

سنہ 2000ء میں میں نے نیم سرکاری جاب کے علاوہ ایک اور ادارے کو بھی خدمات دیں اور اس ادارے کے ساتھ 2004 تک منسلک رہا۔

یہ ساری باتیں اس لئے بتائیں کہ 2000 کے بعد زندگی نے خوب امتحان لیا۔ جس میں سر فہرست والد محترم کی اچانک وفات __ جو طبعی نہ تھی۔ یہ 22 مئی 2004 تھا۔ زندگی سخت آزمائش سے گزر رہی تھی، زندگی اور حالات نے مایوسی کی شکل اختیار کر لی۔ دن رات اللہ سے ہمکلام ہوتا اور مدد کی فریاد کرتا۔ پھر ایک دن اللہ نے بندوبست کر دیا۔ میری ملاقات ایک بزرگ سے ہو گئی۔

یہ مغرب کی نماز کا وقت تھا، نماز کے دوران رونے کی وجہ سے میری ہچکی برآمد ہو گئی۔ جس نے نمازیوں کے سکون کو توڑا۔ نماز کے اختتام پر نوافل سے فارغ ہو کر جب اللہ سے فریاد شروع کی تو لوگ متوجہ ہونا شروع ہو گئے۔ یہ بھانپ کر کہ لوگ کہیں رحم نہ کھانا شروع کر دیں خاموشی اختیار کی اور مسجد سے نکلنے کے لئے پر تولے۔ ابھی آٹھ رہا تھا کہ ایک با ریش شخص سفید کپڑوں میں ملبوس پاس آ کر بیٹھ گیا اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے بیٹھنے کو کہا۔

اس کی وضع قطع ایک عابد و زاھد کی سی تھی لیکن لہجہ مضبوط اور جسم کسرتی تھا۔ اس کی عمر 50 کے عشرے میں رہی ہو گی۔

میں اس کے مضبوط لہجے کی تاب نہ لاتے ہوئے وہیں بیٹھ گیا۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا راجہ صاحب کبھی اللہ کے سوا اپنے قریبی دوستوں سے بھی اپنی پریشانیاں شیئر کریں تو اللہ اسباب پیدا کر دیگا۔ اس کے منہ سے اپنا نام سن کر کچھ حیرت تو ہوئی لیکن خاموش رہا، وہ پھر گویا ہوا_

“آپ کے انا کو ٹھیس نہیں پہنچے گی، دنیا عالم اسباب ہے، اللہ کا حکم۔ ہے کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو، اور برائی کے کاموں سے دوری اختیار کرو”

مجھ پر اس کی بات کا اثر ہوا، اس نے بات آگے بڑھائی

“آپ کو حیرت ہوئی ہو گی کہ میں اپکا نام جانتا ہوں_ لیکن مشکل یہ ہے کہ آپ کی مشکل نہیں جانتا، کیونکہ غائب کا علم اللہ کو ہے، میں اپ کے لئے اجنبی ہوں مجھ سے بات شیئر کریں یا مجھے اپنے گھر کا ایڈریس بتا دیں”

میں نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور کہا_

“جب تک مجھے معلوم نہ ہو کہ آپ کس ارادے سے مجھے سے سوالات کر رہے ہیں _ گفتگو آگے نہیں بڑھائی جا سکتی”

میری بات پر وہ مسکرایا __ کہنے لگا

“آپ فکر مند نہ ہوں _ آپ نہیں بتانا چاہتے نہ بتائیں _ لیکن اتنا تو کر سکتے ہیں کہ مجھے یہ بتا دیں کہ جہاں ہم بیٹھیں ہیں یہاں سے نکل کر اگر آپ کے گھر جائیں تو کونسا راستہ اختیار کرنا ہو گا؟”

نجانے اس کے لہجے میں کیا اعتماد اور رعب تھا کہ میں نے اسکو گھر کا ایڈریس دے دیا۔

اس نے مجھ سے اجازت چاہی _ کہنے لگا

“کل __ اسی وقت اسی مسجد میں اسی جگہ ملاقات ہو گی۔”

یہ کہہ کر وہ ساعت ان میں وہاں سے غائب ہو گیا۔ میں مسجد کے باہر دوڑ کر پہنچا لیکن وہ چھلاوہ تھا، نکل گیا۔

مسجد سے نکل کر میں اپنے دفتر پہنچا _ عشاء بھی وہیں پڑھی لیکن وہ نظر نہ آیا۔ میرا گھر یہاں سے 25 کلومیٹر کی طویل مسافت پر تھا۔

دوسرے دن نجانے کیوں مجھے اس سے ملنے کی بے چینی تھی۔ میں آزان سے پہلے ہی مسجد جا کر بیٹھ گیا لیکن اقامت تک میری نظر اسکو نہ دیکھ سکی۔ وہ کون تھا میں نہیں جانتا تھا لیکن _ ایک سحر تھا اس کی شخصیت اور باتوں کا جس کا میں منتظر تھا۔ جماعت ختم ہوئی __ میں نے نوافل ادا کئے اور پھر مناجات شروع کر دیں لیکن اب یہ خیال تھا کہ اللہ سے ایسے ہمکلام ہوا جائے کہ کوئی ذی روح متوجہ نہ ہو۔

دعا ختم ہوئی تو میرے کندے پر ایک ہاتھ کا بوجھ پڑا __ میں نے جھٹ اپنی دائیں جانب دیکھا تو وہی شخص میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر میرے ساتھ بیٹھ رہا ہے۔

“راجہ صاحب کیسے ہیں؟ یقینا آپ میرے منتظر ہوں گے”

لیکن میں نے منہ سے کوئی جواب نہ دیا اور آنکھوں سے اسے بات کرنے کو کہا۔

“آج میں آپکو بتاونگا کہ میں کون ہوں _ آپ کون ہیں _ ہم کیا ہیں؟ ہمارے ساتھ کیا ہونا ہے؟ مشیت الہی کیا ہے اور ہم کیا کر سکتے ہیں؟” اسکی باتوں میں ربط تھا لیکن میں سمجھنے سے قاصر تھا۔

“آپ نے کل میرا نام لیا، اپنا تعارف نہیں کرایا مجھے سے میری پریشانی پوچھی، آپ کو مجھ سے کیا انٹرسٹ ہو سکتا ہے؟ یہاں کون کسی کو پوچھتا ہے؟ جبکہ میں کسی کو کچھ بتانا بھی نہیں چاہتا”

آج میرے لہجہ میں اعتماد لوٹ آیا تھا اور باوجود اس کے کہ اس کی شخصیت میں ایک جادو تھا _ میں نے اسے بے اثر کرنا چاہا۔

“ہم سب اللہ کی مخلوقات ہیں_ وہ خالق ہے اور اپنے نیاز مندوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا” اس کی بات جاری تھی “بندہ جلد باز ہے _ یہی بندے کی خامی ہے _ کچھ باتیں صرف اسی وقت وقوع پذیر ہوتی ہیں جب ان کا وقت مقررہ آتا ہے، آزمائش کا ایک خاص ٹائم ہوتا ہے، آپ نے پہاڑ دیکھا ہے، اس کی چاروں جانب ڈھلوان ہوتی ہے جبکہ اس کے درمیان اس کا قد ہوتا ہے، آپ سمجھی یہ آزمائش ہے جو اپنی چوٹی پر جا کر پھر ڈھلوان اختیار کرتی ہے اور انسان سہل ہو جاتا ہے” اسکی باتوں میں سحر تھا جو سر چڑھ کر بول رہا تھا _ “پہاڑ کے پہلو اور دامن میں بسنے والی صاف ندیوں کا پانی بھی چوٹیوں سے آتا ہے _ اسی پانی سے اپنی زندگی کو تعبیر کر لیں” _ اس دوران اس نے صرف اپنا نام بھی بتایا۔ “مجھے محمد احمد کہتے ہیں”

میرے جسم کے بال کھڑے ہونا شروع ہو گئے _ میں نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پانے کی کوشش کی اور کہا _ “حضرت کام کی بات ہو جائے، لیکچر بعد مین سن لونگا”

وہ مسکرایا اور بتانے لگا۔
“آپکا گھر __ جیسا کہ آپ نے بتایا تھا فلاں جگہ واقعہ ہے، اسکا دروازہ فلاں رنگ کا ہے، صحن میں فلاں فلاں پودے اور درخت موجود ہیں، عقب میں اتنی کمرے ہیں، صحن کے عین بیچ ایک کنواں ہے، فلاں کمرے میں اتنی الماریاں ہیں، فلاں فلاں کانسی کے برتن فلاں فلاں جگہ موجود ہیں”

بات گھر کی لوکیشن یا رنگ تک محدود ہوتی تو شاید مجھے حیرت نہ ہوتی لیکن یہ شخص تو گھر کے برتن اور درختوں اور پودوں کے نام تک بتا رہا تھا۔ اور سب سے حیران کن بات تو یہ تھی کہ کانسی کے برتنوں کی بابت بات ہو رہی تھی جو صرف شو پیس رہ گئے تھے انکا استعمال ترک ہو چکا تھا۔

“آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟” میں نے اپنی حیرانگی پر قابو پاتے ہوئے اس پر سوال داغا۔

“میں کچھ ثابت نہیں کرنا چاہتا، لیکن یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں آپ کی آزمائش تک پہنچ چکا ہوں، آپ کو فلاں آزمائش کا سامنا ہے” _ وہ اعتماد سے گویا ہوا۔

میرے ہاتھوں کے توتے اڑ گئے جب اس نے میری آزمائش پر لب کشائی کی، میں اپنا اعتماد کھو بیٹھا اور میری آنکھوں کی نمی نے میرا سارا بھید کھول دیا۔ میں نے جھٹ سے آنکھیں بند کیں اور رب سے التجا کی کی میرا راز کیوں فاش ہوا _ لیکن اللہ کی یہ شان نہیں کہ وہ بندوں سے ہمکلام ہو مگر صرف انبیاء سے _ ہم پر شرح صدر ہونا ہی کمال ہے۔ جو کبھی ہوتا ہے کبھی نہیں ہوتا۔

میں نے اپنی رہی سہی ہمت اگھٹی کی اور اس سے پوچھا _ “آپ پہلے مجھے یہ بتائیں کہ آپکو یہ ساری باتیں کیسے معلوم ہوئیں؟ کس نے بتائیں اور ان باتوں کو جاننے کا آپ کا مقصد کیا ہے؟”

میرا پوچھنا بنتا تھا _ میں ایک مواحد مسلمان ہوں اور انبیاء کی صفات کو جانتا ہوں لیکن ایک انجانا شخص مجھےایسی باتیں بتائے جو صرف میری زات سے منسوب یوں تو حیرانگی بنتی ہے۔ اس کی شخصیت اور باتوں کا سحر اب بھی میں محسوس کر رہا تھا۔ میں نے دل میں لاحولا ولا قوہ الا باللہ حی العلی یاالعظیم پڑھا لیکن وہ غائب نہ ہوا __ مجھے کچھ اطمنان ہوا کہ یہ شیطان تو نہیں لیکن یہ کون ہے؟ میں اب متجسس تھا۔

اس نے اپنا نام بتا دیا تھا __ اب مجھے اس کی ذات میں اس کو جاننے کی دلچسپی تھی۔

“حضرت _ آپ کون ہیں؟ کہاں سے ہیں اور مقصد کیا ہے ان باتوں کا جو میں پہلے پوچھ چکا ہوں_ یہ بتائیں” میں اب اعتماد میں تھا اور کچھ دیر پہلے کا سحر رفو کر چکا تھا۔

اس شستہ سوال پر اس نے اپنا تعارف کرایا کہ وہ ایک ریٹائر بنک مینیجر ہے _ اس نے اپنا علاقہ اور مسکن بتانے سے معذرت کی __

“یقینا _ آپ نے مسجد میں بیٹھ کر اپنا نام اور پیشہ درست بتایا ہو گا” _ میری سوال پر اس کے ماتھے پر شکن نمودار ہوئی _ لیکن محبت سے گویا ہوا۔

” ہمیں جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں ہے، اور اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں، میں نے جو باتیں چھپانی تھیں، وہ بتانے سے معذرت کر لی”

اس کے جواب میں وزن تھا۔ “اب آپ جب میری آزمائش سے واقف ہو چکے ہیں تو یہ بتانا مناسب سمجھیں گے کہ _ آپ کو یہ باتیں کیسے پتا چلیں؟ بجائے آپ مجھے اور باتوں میں الجھائے رکھیں سیدھی بات نہ کر لیں” میں نے سوال کیا تو وہ آمادہ نظر آیا

“آپ شاید یقین نہ کریں _ یہ کوئی علم غیب نہیں __ بلکہ میرے موکلات کا بتانا ہے۔

میں موکلات سے لا علم تھا کہ یہ کس بلا۔کا نام ہے

“میں پچھلی کئی ایک دنوں سے آپ کو دیکھ رہا تھا یہاں _ میں نے بہت جلد ریٹائرمنٹ لی تھی اور اس کے بعد خدمت خلق پر لگ گیا _ ہم فلاں روحانی سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارے ذمہ ہے کہ ہم لوگوں کی اصلاح کے ساتھ ساتھ ان کی آزمائشوں کا روحانی علاج بھی کریں، جو لوگ مستفید ہوں ان پر لازم ہے کہ اچھی باتیں آگے بھی پہنچائے، لوگوں کا بھلا کرے اور لوگوں کی آزمائشوں سے نکلنے میں مدد کرے”

یعنی میری آزمائش کا اس کے پاس کوئی حل تھا۔

اس نے کہا “میں نے فلاں وقت میں کسی کو آپ کا نام پکارتے سنا تھا، جب آپ مارکیٹ میں سیگریٹ خرید رہے تھے، ادھر سے مجھے اپکا نام پتا چلا”

مجھے چنداں حیرت اس بات پر نہیں تھی کہ اسکو میرا نام پہلے سے معلوم تھا لیکن مجھے اس بات پر حیرت تھی کہ وہ مسلسل میرا پیچھا کرتا رہا تھا۔

“پھر _ میرے گھر کا آپکو کیا معلوم __ میری آزمائش کیسے پتا چلی” میں نے دوبارہ پوچھا

“بتاتا ہوں _ ہم خدمت پر معمور ہیں _ خدمت خلق _ اسی دوران ہمیں روحانی طاقتیں ملتی ہیں جس سے ہم موکلات پر قابو پا لیتے ہیں _” اس نے بتایا

مجھے اب موکالت کی سمجھ آ گئی کہ یہ کوئی جنات وغیرہ ہیں _

“جب میں نے آپ سے گھر کا ایڈریس پوچھا تھا _ تو اسی رات میں نے موکلات کو بھیج کر آپ کے گھر کی بابت باتیں پتا کرائیں _ آپ کی آزمائش کی بابت موکلات کو کافی تگ و دو کرنا پڑی _ آپ کے گھر میں رہائش جنات نے آپ کی ذاتی معلومات نہیں دینا چاہتے تھے، وہ آپ سے خاصے مانوس ہیں اور اپ کے ہمدرد ہیں” __اس نے کہا

“جب تک آپ کے گھر کے جنات کو یہ یقین نہیں دلایا گیا کہ اس پوچھ گچھ کے پیچھے نیک نیتی ہے وہ بتانے سے مانع تھے” _ میں اس کی بات سن کر مسکرایا لیکن اس نے بات جاری رکھی

“موکلات نے بتایا کہ آپ کے گھر میں کیا واقعات پیش آئے _ آپ اپنی آزمائش صرف فلاں جن سے ڈسکس کرتے ہیں اور جنات میں فلاں بھی موجود تھی اس نے کہا کہ بچہ پریشان بہت ہے، کہیں خود کشی نہ کر لے” __ مجھے سن کر حیرت ہوئی میں آج تک “اس فلاں” کو اپنا وہم سمجھ رہا تھا جو رات کو ملاقات ہوتی تھی

“میں یقین کر لیتا ہوں، لیکن آپ کو پتا چلنے پر سوائے میری آزمائش آشکار ہونے کے مجھے کیا ملا، آپ سے شناسائی نہ سہی لیکن میرا راز صرف آشکار ہوا ہے اسکا کوئی حل تو نہیں نکلا” __ میرے لہجے میں اب طنز عود آیا تھا

“ایسا نہیں _ میرا مقصد قطعا یہ نہیں تھا کہ صرف آپکو وہ آزمائش بتا کر آپکو شرمندہ کروں جس کی مناجات آپ صرف اللہ سے کرتے ہیں، میں تو اس کے حل کے لئے آپ کے پاس آیا ہوں” __ اس نے محبت سے کہا تو مجھے تھوڑی ڈھارس بندھی

“لیکن _ جو حیران کن حالات ہیں کہ ہر روز ایک نئی آزمائش مجھ سے آن ٹکراتی ہے اس کا سدباب تو اللہ ہی کے پاس ہے۔ اب بار بار ایک ہی دن میں 3 مختلف اوقات اور مختلف جگہوں پر میرے ساتھ چھوٹے چھوٹے حادثے ہونا تو تقدیر ہے _ آزمائشوں تقدیر میں لکھی ہیں تو ان کا سدباب تو ممکن نہیں” میں نے ایمان سلامت رکھتے ہوئے محتاط سوال کیا

وہ بولا “بے شک آزمائشیں من جانب اللہ ہوتی ہیں لیکن _ جادو کا وجود بھی ہے جو اچھوں اچھوں کے کس بل نکال دیتا ہے، دنیا عالم اسباب ہے، جب تک تدارک نہ کیا جائے شیاطین کو بھگانا مشکل ہے” _ مجھے حیران ہوا کہ میں کیوں اتنا اہم ہوں کہ کوئی مجھ پر یا میرے گھر پر جادو کرے گا۔

“میں _ معاشرے کا ایک عام سا فرد ہوں جس کے ہونے نہ ہونے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ ناممکن ہے کہ کوئی مجھے اتنی اہمیت دے کہ مجھ پر جادو کرائے” _ میں نے کہا

“کوئی کسی کے لئے کتنا اہم ہے یہ بندہ خود سے اندازہ نہیں لگا سکتا، یہ بات اسے معلوم ہوتی ہے کہ آپ کتنے اہم ہیں جو غلط عملیات کرتے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ کس نے کیا لیکن آپ اور آپکا خاندان کالے جادو کے زیر اثر ہیں اور اسکا حل بھی میں ہی بتاونگا” _ اس کے اس جواب پر میں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا کہ شاید وہ مجھ سے پیسے بٹورنے کی نیت سے یہ سب کہہ رہا ہے _ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں تو کہنے لگا

“آپ غلط سمجھ رہے ہیں، شاید میں آپ سے توڑ کے لئے مال کا تقاضہ کروں، ایسا ہر گز نہیں، جس دن میں نے مال کا تقاضہ کیا مجھ سے میری روحانی طاقت سلب کر لی جائیگی اور میں کسی کے کام نہیں آ سکوں گا” _ اس جواب پر میں تھوڑا مطمئن ہوا

“آخری بات _ میں آپ کو عمل بتا کر رخصت چاہوں گا اور شاید زندگی میں ہماری دوبارہ ملاقات نہ ہو، لیکن یاد رہے کہ بغیر لالچ کے آپ لوگوں کے کام آتے رہیں گے، جب آپ آسودہ ہو جائیں” اس نے ملاقات کو ختم کرنے کا عندیہ دیا تو میں نے بھی اثبات میں سر ہلا دیا

اس نے مجھے ایک کتابچہ دیا جس پر “منزل” جلی حروف میں لکھا تھا _ اور ایک آیت بتائی جو اس مسئلہ و آزمائش کا حل تھا۔

اس نے کہا “صبح فجر کی نماز پڑھ کر منزل پڑھ لینا _ ایک گلاس پانی لیکر دم کر لینا اور ایک ایک گھونٹ گھر کے سب لوگ پی لینا _ تھوڑا پانی بچا کر گھر کے کونوں میں چھڑک دینا انشاءاللہ بہت جلد تمہیں اس جادو کے اثر سے نجات مل جائیگی _ لیکن یہ عمل جب تک جاری رہے گا تب تک کالے جادو کا اثر زائل رہے گا_ اس کو مکمل ختم ہونے میں 2 سال تک لگ سکتے ہیں فلاں آیت جو بتائی اسکو بروز سوموار بکثرت پڑھنا اور اللہ سے مدد طلب کرنا جو کام رکے ہوئے ہیں نکل پڑیں گے۔

میں نے احسان مندی سے اس کی باتیں سنیں اسے چائے کی آفر کی بلکہ بے انتہا کوشش کی لیکن اسکی ضد تھی کہ یہ نذرانے میں آتا ہے اس لئے اس نے رخصت لی اور دوڑ کر مسجد سے نکل گیا _ میں بھی اس کے پیچھے پیچھے نکلا لیکن پلک جھپکتے وہ کل کی طرح غائب ہو گیا۔

میرے جسم سے بوجھ کم ہونا شروع ہو چکا تھا۔ لیکن شاکی بھی۔

میرا ایک شناسا تھا _ سائیں فلاں جو کالے علم کا ماہر سمجھا جاتا ہے لیکن میں اس کو ایک فراڈ کے سوا کچھ نہیں سمجھتا تھا _

میں نے بزرگ کے دیئے گئے عمل پر صبح ہی وظیفہ شروع کر دیا لیکن پتا نہیں کیوں مجھے خارش ہوئی اور میں تیسرے دن سائیں فلاں کے آستانے پر پہنچ گیا۔ اس کے سیاہ و سفید کو ہم جانتے تھے اس لئے وہ ہماری ہمیشہ ہی آوبھگت کرتا تھا۔ ہم دو دوست اکثر اس کے پاس گپ بازی کے لئے جاتے تھے۔ _ میں اس دن اکیلا ہی اس کے پاس گیا __

اس کے گھر کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا تھا اور عین دروازے کے سامنے بڑے تخت پر آلتی پالتی مار کر بیٹھتا تھا _ اس نے لمبے بال رکھے ہوئے تھے اور انکو پونی کرتا _ بیٹھ بیٹھ کر اور نحس کام کر کر کے اس کے چہرے پر اس کے کرتوتوں کی پھٹکار صاف نظر آتی تھی۔

اس نے مجھے دروازے سے داخل ہوتے دیکھ کر دور سے ہی میرے نام کا شور مچانا شروع کر دیا۔ اور اپنی بیوی کو آوازیں دینے لگا کہ “توا تتا کر بھلئے لوکے، راجہ آیا ای تے روٹی کھا کے جائےگا” _ میرے قریب پہنچنے پر اس نے اعزازی بغل گیری کی کیونکہ اپنے جثہ عظیم کی بنا پر وہ اٹھنے بیٹھنے سے قاصر ہو چکا تھا۔ ہلنا جلنا اس کے لئے محال تھا لیکن وہ آداب میزبانی سے واقف تھا۔

سلام دعا کے بعد _ اس نے کہا “بادشاہو آج سنگی ساتھ لے کے نہیں آئے، کلے ای آ گئے خیر اے”
(آپ اپنے دوست کے بغیر آئے ہیں خیریت ہے)

“ویسے ہی آج اکیلے آنے کا موڈ بنا گیا” میں نے مختصر جواب دیا

“سائیں _ بتاو کالا جادو کیا ہوتا ہے؟ یہ کیسے کام کرتا ہے؟ اور اس کو کیسے کیا جاتا ہے” __ میں نے یک مشت اس پر ایسے سوالات کئے کہ اس کا منہ کھل گیا

وہ نہ بتانے والے انداز میں کہنے لگا “راجہ صاحب آپ پوچھ کر کیا کریں گے؟ دوسرا میں تو سفلی علم دیکھتا ہوں اور علم اعداد کا ماہر ہوں، بھلا میں کالے جادو کے بارے میں علم کہاں رکھتا ہوں؟”

“سائیں، میں کب کہہ رہا ہوں ہوں کہ تم کرتے ہو، میں تو صرف پوچھ رہا ہوں کہ یہ کیسے ہوتا ہے؟” میں نے دھیمے اور مضبوط لہجے میں بات جاری رکھی “سائیں __ میں یہ تو نہیں جانتا کہ تم کونسا عمل کرتے ہو لیکن یہ جانتا ہوں کہ میرے سوالوں کے جواب تمہارے سوا کوئی نہیں دے سکتا، کیا ایسا نہیں ہے؟”

“راجہ صاحب، وہ بات یہ ہے کہ کچھ باتیں صرف اہل علم سے ہی کی جاتی ہیں، لیکن آپ استفسار کرتے ہیں تو جو مجھے معلوم ہے ضرور بتاونگا” __ اس نے آمادگی کا اظہار کر دیا تھا

تو پھر بتاو __ “اب میرا لہجہ تحکمانہ ہو گیا تھا” اس پر اس نے رد عمل دینا چاہا لیکن میرا تعلق جس محکمہ سے تھا وہ آڑے آ گیا۔

اس نے کہا “راجہ صاحب، کالے جادو کی عملیات کے لئے کفر اختیار کرنا پڑتا ہے اور یہ بنیادی بات ہے اس کے عمل کے لئے، عامل نام کا مسلمان تو ہو سکتا ہے لیکن اس علم کے حصول کے لئے اسے شیطان کو خوش کرنا پڑتا ہے اور اس کے نتیجہ میں شیطان اس کی برے کاموں میں بڑھ چڑھ کر مدد کرتا ہے۔ برے جنات کی اس کے ساتھ ڈیوٹی لگا دی جاتی ہے جو اس کو معلومات فراہم کرتے ہیں اور انسانوں کے ذریعے وہم اور وسوسے ڈال کر لوگوں سے کام کرائے جاتے ہیں، جس پر جادو کیا جاتا ہے، یہ جادو اسکو مور تو نہیں دے سکتا لیکن اس کو بدحال کر کے بیمار ضرور کر دیتا ہے، اسکا سکون برباد ہو جاتا ہے، اکثر لوگ نفیساتی مریض بن جاتے ہیں، کالے جادو کو کالا جادو ہی توڑ سکتا ہے”

اس کے آخری جملہ پر مجھے اعتراض تھا لیکن یہی اس کی مارکیٹنگ تھی _ میں نے اس کو آس دلائی اور بولنے مجبور کیا۔

“تم، میرے بارے اپنا علم استعمال کرو _ ذرا قلم اٹھاو اور دیکھو کہ کہیں میں اس علم کی زد میں تو نہیں” _ میں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے اسے دانہ ڈالا

“راجہ صاحب، دنیا میں سب سے پہلے دشمن اپنے ہوتے ہیں، جو دوستی کی آڑ میں حملے کرتے ہیں” _ اب وہ میری نفسیات سے کھیلنا شروع ہو چکا تھا میں نے اسے نہیں روکا

“آگے چلو، بتاو تمہارا علم میرے بارے میں کیا کہتا ہے” _ میں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی

اس نے ایک کاپی اٹھائی اور مجھ سے میری والدہ کا نام پوچھا _ سنہ پیدائش اور مقام پوچھا جو میں نے اسے بتا دیا اس کے بعد وہ 14 منٹ تک جمع تفریق کرتا رہا _ میں اس عمل سے نابلد تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔

اس کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ اس کا علم اس کو کچھ اچھی خبریں نہیں دے رہا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لوگوں کے نفسیات سے کھیلنے کی یہ ایک ترکیب ہو۔ لیکن وہ کافی پریشان لگ رہا تھا۔

کاپی پنسل ایک سائیڈ پر رکھ کر اس نے ایک گلاس پانی پیا اور چہرے پر ہاتھ پھیرا۔ کہنے لگا

“راجہ صاحب، میرا علم جس پر مجھے دسترس ہے کبھی جھوٹ نہیں بولتا _ آپ کالے جادو کے زیر اثر ہیں، اور آپ کا گھر بھی” اس کے بعد اس نے وہ ساری باتیں مجھے بتائیں جو وہ انجان بزرگ مجھے بتا چکے تھے۔ لیکن سائیں نے مجھے حل نہیں بتایا شاید وہ مجھ سے اس بات کا سوال کروانا چاہتا تھا۔

میں نے پوچھا “سائیں بتاو اس کا علاج کیا ہے؟ اس کا روحانی علاج ممکن ہے یا پھر اس کی کاٹ کالا جادو ہی ہے”

“میں اس کی کاٹ سفلی علم سے کرنے کی کوشش کرونگا _ کیونکہ میں کالا جادو نہیں کرتا لیکن یہ حقیقت ہے کہ کالے جادو کو کالا جادو ہی کاٹ کرتا ہے” اس نے کہا

وہ مجھے مجبور کرنا چاہتا تھا کہ میں اس سے کہوں کہ تم کالا جادو کرو _ لیکن میں نے احتیاط کا دامن پکڑا اور کہا کہ تم سفلی علم استعمال کرو اللہ بہتر کریگا _ مجھے آج بھی یہ معلوم نہیں کہ سفلی علم کہتے کس کو ہیں۔

“مجھے کچھ اشیاء کی ضرورت ہو گی سفلی علم کے لئے، میں آپ سے پیسے تو نہیں لونگا اپنے علم کے لیکن اس عمل کے لئے مجھے کچھ اشیاء درکار ہیں وہ مجھے لا دیں _ میں کل ہی سے عمل شروع کر دونگا لیکن آپکو عمل میں میرے ساتھ رہنا ہوگا یا کچھ کام کرنا ہونگے” _ اس نے کہا

میں نے نیم رضامندی ظاہر کی اور اس سے پوچھا وہ کیا سامان ہے جو تمہیں اس عمل کے لئے چاہئے؟ میں جاننا چاہتا تھا کہ یہ کرتے کیا ہیں؟ مجھے یقین ہو چلا تھا کہ کالے جادو کو یہ سفلی علم کہہ رہا ہے۔

اس نے کاغذ پر چند سطریں لکھیں اور میرے حوالے کر دیں کہ یہ چیزیں لے آو _ کالے علم کی کاٹ میرے ذمہ ہے۔ میں نے لسٹ پڑھی تو اس میں لکھا تھا۔

ایک فٹ شیر کی کھال
زعفران 10 گرام
تازہ پانی کی زندگی مچھلی [600 گرام تک وزنی]
بکرے کا دل تازہ جس پر چھری کا کٹ نہ ہو
بکرے کی سری جس کا وزن 1 کلو تک ہو

میں نے لسٹ پڑھی اور استفسار کیا کہ ان چیزوں کا تم کیا کرو گے؟ اور مجھے کیا کرنا ہو گا۔ اس نے کہا یہ بعد کی باتیں ہیں پہلے تم یہ اشیاء لیکر آو۔ لیکن میں بضد تھا کہ جب تک مجھے ساری بات معلوم نہ ہو میں یہاں سے نہیں جاؤنگا۔ اسی دوران چائے اور سموسے آ گئے اور بات تھوڑی دیر کو رک گئی، چائے سموسے رکھ کر اس کی بیوی بھی پاس ہی بیٹھ گئی، آج سے 5 برس پہلے وہ اس کی مریدنی تھی پھر یوں ہوا کہ اسکا خاوند داعی اجل کو لبیک کہہ گیا اور پھر وہ سائیں کے 9ویں عقد میں آگئی۔ اولاد دونوں کی نہیں تھی، سائیں کو خادمہ درکار تھی اور خاتون کو چھت _ دونوں کا ملاپ ہو گیا _ سائیں کی پہلی 4 بیویاں فوت ہو گئیں تھیں اور 3 کو سائیں طلاق دے چکا تھا۔ گدی کا فیض تھا کہ سائیں کبھی بھی کنوارہ، رنڈوہ یا مطلقہ نہ رہا __

میں نے پھر سے تکرار پکڑی _ زچ ہو کر سائیں نے بتایا۔

“میں نے شیر کے چمڑے پر تعویذات لکھنے ہیں، جو زعفران سے لکھے جائیں گے۔ اس کے بعد ان تعویذات کو میں نے مچھلی، بکرے کے دل اور سری میں ڈالنا ہے۔ اس کے بعد آپ نے یہ تینوں چیزیں لیکر کسی پرانے قبرستان جانا ہے اور پرانی سے پرانی قبر دریافت کرنی ہے۔ رات کے پچھلے پہر آپ نے وہ قبر کھولنی ہے اور یہ چیزیں آپ نے اس قبر کے اندر پھینک کر قبر کو بند کر دینا ہے، قبر کو بند کرنے کے بعد آپ نے بآواز بلند کہنا ہے کہ اے قبر والے میری مشکلات آسان کر دے میں ترے نام کی نیاز دونگا، اس کے بعد صبح آپ نے 10 کلو جلیبی لیکر محلے میں اس نیت سے بانٹنی ہے کہ قبر والا آپ کے کالے جادو کی کاٹ کرے۔ کام ختم، کالا جادو ٹل جائیگا’

بے اختیار میرے منہ سے نکلا __ “کام اور ایمان دونوں ختم، یہ سفلی علم ہے یا کالا جادو؟”

میرے اس سوال پر سائیں بوکھلا گیا _ راجہ صاحب آپ کچھ بھی کر لیں اس عمل کے بغیر آپ کالے جادو سے چھٹکارہ نہیں پا سکتے۔

مجھے غصہ آ گیا _ یعنی ایمان اتنا سستا کہ میں اللہ کی بھیجی آزمائش کو دور کرنے کی خاطر شرک کا ارتکاب کروں _

“مجھے رات کو قبرستان جانے اور کھولنے سے خوف نہیں ہے سائیں، اگلے الفاظ پر غور کر _ کیا یہ ایمان کی خرابی نہیں ہوگی؟ کیا اس سے شیطان خوش نہیں ہوگا؟ تم خود بتا چکے ہو کہ شیطان کو خوش کر کے ہی کالا علم کیا جا سکتا ہے”

اب اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا _ “میری صحت اور جسم اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ میں خود چل کر کہیں جاوں ورنہ میں یہ سب عمل خود کر لیتا اور تمہیں کالے جادو سے بچا لیتا” اس نے آخری پتہ پھینکا اور کہا

مجھے اپنے ایمان کی فکر ہے _ لیکن ایسا بیہودہ عمل میں نہیں کرونگا اور نہ کرنے کا کہونگا۔ غصہ کی حالت میں __ میں یہ کہتے ہوئے وہاں سے نکل آیا۔

گھر پہنچنے تک میرے دماغ میں گھنٹہ گھر بچتا رہا کہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر کہاں جارہے ہیں؟ _ اس کے در کے سوا کیا کوئی اور ہے جو بندے سے برائی دور کرے۔

میں نے عافیت اسی میں جانی کہ اس بزرگ والے عمل کو جاری رکھوں۔ میں وظیفہ کرتا رہا اور میرے حالات بتدریج ٹھیک ہونا شروع ہو گئے۔ آج میں بہت سکھی ہوں اور اس بزرگ کے لئے دعا گو ہوں جس کو اللہ نے مجھ سے ملوایا، میں شاکر ہوں کہ اللہ نے آزمائش میں ایمان بھی سلامت رکھا۔

ختم شد

سرخ آندھی

سرخ آندھی

جولائی کی ایک یاداشت

مون سون کی بارشیں اور ساون کی آندھیاں اب کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جبکہ گاؤں میں بارش دور سے آتی نظر آیا کرتی تھی اور آندھیوں کا پتا قبل از وقت بادلوں کے موڈ سے چل جاتا تھا۔ اب شاید شہر بن گئے اور وہ موسم ہم سے روٹھ گئے۔

جو واقعہ آپ کو سنانے جا رہا ہوں وہ اسی موسم کا ہے اور بقول شخصے سچا اور سُچا واقعہ ہے۔

رات ــــ بہت بارش تھی، بادلوں نے پوری رات کڑک کڑک کر ماحول کو گرمائے رکھا۔ رات پچھلے پہر سرخ آندھی نے خوب مینہ برسایا۔ عموما سرخ آندھیاں دن میں ہی آتیں تھیں ـــ ظاہری بات ہے ــــ ہم جاگ رہے ہوتے تھے تو ہمیں یہی لگتا کہ یہ دن میں آتیں ہیں۔ لیکن اس رات سرخ آندھی نے بہت خوفزدہ کیا تھا ـــــ ویسے بادلوں کا شور اور تیز ہوائوں کی آوازیں ہمیں بھی رات ڈراتی رہی تھی ـــ سرخ آندھی کا ہمیں امی نے بتایا تھا۔

یہ سنہ 1984ء کا جولائی تھا۔

جب کبھی سرخ آندھی آتی ماں جی کہتیں کہیں بڑا ظلم ہوا ہے ـــ کہیں کوئی قتل ہوا ہے ــــ ہم دادی اماں کو ماں جی کہتے تھے۔ ایسا وہ اپنے تجربہ کی بنیاد پر کہتیں تھیں ـــ وہ بتاتیں کہ جس سال پاکستان بنا تھا اس سال بھی بہت سی سرخ آندھیاں آئیں تھیں۔

اس رات بھی سرخ آندھی آئی اور ہمارے گاؤں کے جنوبی میدان سے آنے والا پانی کا ریلا ہماری حویلی کے مغرب میں واقع برساتی نالے سے گزر کر شمالی جانب نشیب کی طرف گیا تھا۔ جہاں اب ایک چھوٹا بازار بن رہا تھا ـــ اس بازار کے ـــ مشرق کی طرف ایکسپریس وے تھی جہاں سے ایک بڑی گلی آتی اور اس بازار کے درمیان سے گزر کر رحیم ٹاؤن جاتی تھی۔ رحیم ٹاؤن ہمارے گاؤں شکریال کا پہلا قصبہ تھا ـــ اس بازار سے آگے شمال میں خلیل ستی کے کھیت تھے ــــ افغان مہاجروں نے یہاں ڈیرے ڈالے تھے ــ کچی جھونپڑیاں اور ترپال کے ٹینٹ ـــ ان سے اٹھتا کچی لکڑ کا دھواں ـــ عجیب ماحول بناتا تھا ـــ مہاجرین کی اس عارضی بستی نے گاؤں کو قصبہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ـــ بکریوں اور دنبوں کے ریوڑ لئے ـــ یہ افغان مہاجر ــ بڑی بڑی پگیں پہنے ـــ بچوں کو ڈرانے کا آسیب تھے۔

جنوبی میدان، جو ہمارے گاؤں سے قدراونچائی پر واقع تھا کبھی میلوں ٹھیلوں کا مسکن رہا تھا۔ یہ سرکار کی اراضی تھی ـــ پاکستان ایئر فورس کی ملکیت ـــ یہاں بھی ایک مہاجر کیمپ لگایا گیا تھا ـــ اس کے ساتھ 71 کی ـــ بنگلہ کالونی تھی ـــ جو اب بہاری کالونی کہلاتی ہے ـــ اس کے ساتھ کاسویوں کی ایک ڈھوک تھی ـــ شریف آباد۔

صبح ــــ شمالی افغان بستی کی جانب جانا ہوا ـــ میری عمر اس وقت بمشکل 5 سال ہو گی۔ گولی ٹافی کھانے کے لئے ہمارے پاس دو دوکانیں تھیں ـــ ایک حوالدار کی دوکان اور دوسری گلبدین افغان کی دوکان ـــ گلبدین افغان کی دوکان تک رسائی قدرے دشوار تھی ـــ درمیان میں ایک بڑا چھپڑ (تالاب) تھا جہاں ہماری بطخیں رہتی تھیں۔ اس چھپڑ کے دائیں جانب سے نکل کر ہم درزیوں کے گھر سے بائیں مڑتے تو ایک بڑا نالا کراس کر کے ہمیں افغان بستی کی اس دکان پر پہنچنا ہوتا تھا۔ یہ نالا اسی چھپڑ سے نکل کر آتا تھا جو ہم کراس کرتے۔

رات بارش بہت ہوئی ـــ سرخ آندھی آئی ـــ شمالی میدان ـــ اس میں واقع تالاب ـــ ہمارے گاوں کے چھپڑ ـــ اور اردگرد سے جو کباڑ تھا سب پانی کے ریلے میں بہہ کر آگے نکلا گیا ــ یہ پانی خلیل ستی کے کھیتوں سے نکل کر ایکسپریس وے کی پلی سے نکلتا دریائے کورنگ میں گر جاتا تھا۔

گاوں کے چپڑ کے بعد 200 گز دور نالے میں ـــ ایک بھری ہوئی بوری پھنس گئی تھی جس نے نالے کے پانی کو روک رکھا تھا، اس رکاوٹ نے گاؤں کا چھپڑ پانی سے بھر دیا تھا۔ اس بوری کو مولوی حبیب نالے کے کنارے کھڑا ڈنڈے سے ہلانے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ پانی نکلے ـــ چھپڑ کنارے اس کا گھر تھا اور ساتھ ہی مسجد ـــ شاید پانی رکنے کی وجہ سے اس کا گھر زیر آب تھا۔

اس کےگمان میں بھی نہ تھا کہ اس بوری میں کیا ہے ـــ اسے پتا ہوتا تو اس کو چھیڑنے کا سوچتا بھی نہ۔ بڑے ڈنڈے سے وہ بوری کو ہلا جلا رہا تھا لیکن کامیابی نہیں مل رہی تھی۔ یہ تماشہ دیکھنے کے لئے ہم بھی وہاں رک گئے۔ ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا کہ بجائے اس بوری کو ہلانے کے اس کے منہ پر بندھی رسی کھولو ـــ اس کا منہ پانی کے بہاو کی سمت کرو ـــ کوڑا بوری سے نکل کر بہہ جائیگا اور بوری آزاد ہو کر پانی کو راستہ دے دے گی ـــمولوی حبیب نے اس کا مشورہ مان لیا ـــ اور نالے کے دونوں جانب پاؤں رکھ کر بوری پر جھکا اور بوری کا منہہ کھولنے لگا ـــ اس نے بوری کو ہاتھ لگایا تو اس میں کوئی گول بھاری چیز محسوس کی ـــ مجھے یاد ہے مولوی نے کہا ـــ یہ تربوز ہیں جو کسی نے بوری میں بھر کر بہا دیئے ـــ اس نے بوری نالے میں بہانے والے انجان مجرم کو بے نقطہ سنا دیں ـــ اگلے ہی لمحے بوری کا منہ کھل گیا اور ـــ مولوی حبیب نے چیختے ہوئے چھلانگ لگائی اور دور ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔

ہم نے بھی نالے میں جھانکا ـــ اور چیخ کی وجہ جاننے کی کوشش کی ـــ بوری کھلتے ہی اس میں سے ایک انسانی سر نکل کر پانی کے بہاو کی جانب نالے میں گرا تھا ـــ سر ڈھر سے الگ تھا ـــ ڈھڑ اب بھی بوری کے اندر تھا ــــ اس بوری میں ایک لاش تھی ـــ جو ٹکڑے ٹکڑے تھی۔

جنوبی افغان بستی ــــ سے ملحقہ شریف آباد کی ایک پرانی حویلی میں ایک افغان تاجر اپنی فیملی سمیت کرایہ داری پر آن ٹھہرا تھا ـــ لحیم شحیم ــ بلند قدوقامت ـــ سرخ وسفید رنگ ـــ اس کو باقی مہاجروں سے ممتاز کرتا تھا — اس کے پاس اپنی ایک جیپ تھی ـــ ویسے بھی ان مہاجرین کو پیسوں کی کوئی کمی نہ تھی ـــ یو این او کی امداد ان کے لئے فی فرد 300 ڈالر ماہانہ آتی تھی۔ جس سے انکی بھوک بھی مٹ گئی اور کاروبار بھی شروع ہو گئے۔

حکمت یار خان کا تعلق کابل کے گاوں غرقہ سے تھا۔ ان کے گاوں سے ملحقہ ان کی زمینیں غرقہ ڈیم کے منصوبے میں آ گئیں تھیں جس کی وجہ سے انکو جنوب کی اور نیم پہاڑی علاقے میں اپنے املاک شفٹ کرنا پڑے۔ روس کے حملہ کی وجہ سے اسے بھی اور لوگوں کے ساتھ پاکستان شفٹ ہونا پڑا۔ وہ اپنے قبیلہ کا سردار تھا۔ اس کی آبائی زمینوں پر پوست کاشت کی جاتی تھی ، جس کی عالمی منڈی میں ادوایات کی وجہ سے بہت مانگ تھی۔

موہ خود بھی یورپ سے پڑھ کر آیا تھا اور بیرون ملک بھی اس کے اثاثہ جات موجود تھے۔ ہجرت کی وجہ سے اس کو بمعہ اہل و عیال اپنا گاوں، جائیداد چھوڑنا پڑا۔

مال ہی کی بنا پر وہ بجائے مہاجر کیمپ کے اندر رہتا، ملحقہ شریف آباد میں ایک کرایہ کے گھر میں رہنے لگا۔ اس کی بہت سی اولادیں تھیں۔ اُس کی شادی بہت کم عمری میں ہوئی تھی اس کی بنا پر اس کی اولاد جوان تھی وہ خود بھی اپنی وجاہت کی بنا پر خاصہ جوان لگتا تھا۔ اکثر اوقات وہ اپنی جیپ پر گاوں کے آلے دوالے گھومتا پایا جاتا۔ بنیادی طور پر شریف النفس آدمی تھا۔

اس کی اولادوں میں سب سےبڑی بیٹی گلبانو تھی جو کہتے ہیں کہ اُس وقت ۱۷ سال کی رہی ہو گی۔ جس کو صرف قسمت والوں نے ہی دیکھا تھا۔ وہ اپنے باپ کے ساتھ پردہ میں ہی اکثر اوقات جیپ میں دیکھی جاتی۔

بھلے لوگ تھے جو گاوں کنارے، بہاریوں کے ساتھ ہی رہا کرتے۔ بہاری کالونی میں ایک چھوٹا بازار تھا اور اس میں ڈاکٹر سلیم کا کلینک اس پوری آبادی کا واحد مرکز صحت تھا۔ جہاں کلینک پر ہمہ وقت رش رہتی تھی۔ جہاں گاوں کے لوگ صحت کے معاملات میں وہاں کا رخ کرتے، یہاں کی مہاجر بستی کے لوگ بھی وہیں جاتے۔

گلبانو کو ایک دن نزلہ اور بخار تھا اور وہ اپنی والدہ کے ہمراہ ڈاکٹر سلیم کے کلینک میں گئی، جہاں نواز نے اسے پہلی مرتبہ دیکھا اور فریفتہ ہو گیا۔ گلبانو نے بھی پسندیدگی کی نظر سے دیکھا تو نواز کی بھی ہمت بندھی اور اس نے موقع دیکھ کر اس کو پشتو میں اپنے دل کی بات بھی کہہ دی۔ نواز کو پشتو آتی تھی۔

نواز کا گھر ہمارے گاوں کے مغربی کنارے پر تھا، جہاں کمہار ، ستی اور دھنیال آباد تھے۔ نواز کی فیملی یہاں کی مقامی نہ تھی کچھ عرصہ پہلے سائیں دین محمد اور اس کی بیوی محبوب بیگم نے یہاں جگہ خرید کر اپنا گھر بنایا تھا۔ نواز کے او ر بھائی بھی تھے مشتاق، رفاق، رفاقت، پیرو اور بہنیں بھی تھیں۔

یہ محبت کی کہانی اندر ہی اندر پروان چڑھی جانے کب ملاقاتیں ہوئیں اور عہد و پیمان باندھے گئے۔ پورا گاوں اس سے ناواقف رہا۔

حکمت یار خان کے قبیلے کے لوگ ملحقہ مہاجر بستی میں رہتے تھے، ان میں اس کی خدمت گزار بھی شامل تھے۔ ساتھ اس کے برادری اور لوگ اور ۳ بھائی بھی رہتے تھے

گل بانو کو اب اکثر ڈاکٹر سلیم کے پاس جانا پڑتا تھا۔ کبھی سر درد کے بہانے کبھی کچھ کبھی کچھ۔ نادان عمر میں انسان بہک جاتا ہے _ نواز اور گل بانو کو ایک دوسرے سے ملنے کا یہی ایک موقع ہوتا تھا۔

اسی دوران 2 منٹ کی ملاقات دونوں کے دل میں گھر کر گئیں _ عہد و پیمان ہونے لگے لیکن انجام سے بے خبر۔ نواز نے گل بانو کو ملنے پر مجبور کیا _ لیکن گل بانو اکیلے میں کہیں آ جا نہیں سکتی تھی _ اس لئے کوئی سبیل نہ بنی۔ نواز اب اکثر اس کے گھر کے گرد بھی منڈلاتا پایا جاتا _ شاید گل بانو کا دیدار ہو جائے __ کبھی کبھی وہ ایک دوسرے کو ایسے میں دیکھ بھی لیتے تھے۔

ایک مرتبہ 2 منٹ کی ملاقات میں کلینک پر ہی نواز نے گل بانو سے کہا کہ وہ رات گئے اس کے گھر آئے گا _ وہ کسی طرح دروازہ کھول رکھے _ اس طرح کچھ زیادہ لمحات مل جائیں گے ملاقات کے _ شیطان نے گل بانو کی بھی ہمت بندھائی اور وہ بھی تیار ہو گئی اور اگلی رات کا پلان ترتیب دے دیا گیا۔

اس دن نواز نے حکمت یار خان کی حویلی کی ریکی کی _ وہ اردگرد پر بھی نظر رکھنا چاہتا تھا۔ اسے احساس تھا کہ پکڑے جانے پر اس کی ٹھیک ٹھاک دھلائی ہو سکتی ہے۔ حویلی سے ملحقہ افغان بستی اس کے لئے مصیبت کھڑی کر سکتی ہے۔ سب افغان ایک جیسے تھے _ شکلوں سے انکو الگ الگ پہچاننا مشکل تھا _ ان میں ایک حکمران یار خان ہی تھا جو ہزار لوگوں میں اپنی الگ شناخت رکھتا تھا۔ اس کی وضعدار اور بارعب شخصیت اسے باقی افغانوں سے ممتاز کرتی تھی۔ اس کا رہن سہن قطعا کسی دھاتی جیسا نہیں تھا گو کہ وہ کابل کے ایک پہاڑی گاوں سے آیا تھا۔

کرایہ داری پر لی گئی حویلی کافی بڑی تھی _ جس میں دس کے قریب کمرے رہے ہونگے۔ برآمدہ اور صحن اس کے علاوہ تھا۔ چاردیواری کی دیواریں 8 فٹ سے اونچی نہ تھیں۔ ریکی کر کے نواز اگلی رات جانے کے لئے بے تاب تھا _ جو اس کے زعم میں محبت کے حصول کا ایک طریقہ تھا __ لیکن انجام بخیر نہ ہوا۔

اگلی رات _ وہ چپکے سے اپنے گھر سے نکلا _ آج اس نے بوسکی پہن رکھی تھی زرد تلے سے بنی کھیڑی [زری جوتا] اس نے حال ہی میں لی تھی اور آج وہ بن ٹھن کر گل بانو سے ملنے جا رہا تھا۔ عطر کی پوری شیشی اس نے اپنی بنیان پر انڈیلی تھی _ اس کا سامنے کا ایک دانت اس کو باقی لڑکوں سے ممتاز کرتا تھا _ اس نے سامنے والے دانت پر سونا چڑھا رکھا تھا۔

رات پچھلے پہر وہ افغان بستی پہنچا _ جبکہ گزشتہ کل شام سے ہی ساون اپنی رم جھم میں تھا _ افغان بستی سے ملحقہ حویلی پہنچ کر اس نے ٹارچ بند کر دی جو وہ گھر سے اپنے ساتھ لایا تھا حویلی کے دروازے پر پہنچ کر اس نے آواز سے کوئی مخصوص اشارہ دیا تاکہ گل بانو دروازہ کھول دے اور وہ جھٹ حویلی کے اندر جا کر شرف ملاقات پائے۔ اشارہ ملتے ہی دروازے کی کنڈی گری اور دروازہ ہلکا سا کھل گیا _ اندھیرے نے یہ نہیں بتایا کہ دروازہ کھولنے والا کون تھا _ نواز محبت کی آغوش میں جانے کا گمان رکھے _ دنیا سے بے نیاز _ دھڑکتے دل سے دروازے کھول کر اندر داخل ہوا _ وہ جونہی دروازے سے اندر داخل ہوا بھاری ہاتھوں اور مضبوط بازوں نے اس کو دبوچ لیا۔ اس کے اوسان خطا ہو گئے _ نرم و نازک کے بجائے آہنی ہاتھوں نے اس کا استقبال کیا تھا اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتا _ حویلی کا دروازہ بند کر دیا گیا _ صحن میں پوری افغان بستی کے مرد جمع تھے ایک ہاتھ اس کے منہ پر تھا کہ آواز اب باہر نہ جا سکے _ پھر اس کے منہ پر پٹی باندھ دی گئی _ حویلی کی تمام لائٹس بند کر دی گئیں تھیں۔ حویلی کے داخلی دروازے کے باہر تین عدد ٹرالیاں کھڑیں تھیں جن میں مختصر سامان لدا ہوا تھا __ اس کے علاوہ اسی رات کچھ اور لوڈر گاڑیاں بھی مہاجر بستی میں آئیں تھیں۔

افغانوں نے پہلے نواز کو حویلی کے اندر برآمدہ کے پلر سے باندھ دیا _ حکمت یار خان نے پوری پلاننگ کر رکھی تھی _ اس کی بیوی جو گل بانو کے ساتھ باہر جاتی تھی نے اسے شک کی بنا پر بتایا تھا کہ وہ گل بانو کی بیماری سے شاکی ہے۔ معاملہ کچھ اور ہے _ اس پر حکمت یار خان نے افغان بستی کے کچھ لڑکوں کو بیوی اور گل بانو کی ریکی پر لگایا _ لڑکوں نے نواز کو بھانپ لیا _ گل بانو پر تھوڑا گھریلو تشدد کیا گیا تو اس نے ساری بات باپ کو بتا دی _ خود کو بے قصور کہا اور نواز کو قصوروار ٹھہرا دیا۔ جس پر افغانوں نے نواز کے قتل کا منصوبہ بنا لیا۔ اسی دوران جب نواز نے حویلی جانے کا قصد کیا اور گل بانو کو اس پر آمادہ کیا تو یہ بات بھی حکمت یار خان کو گل بانو نے بتا دی۔ اس سے افغانوں کو اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں آسانی ہو گئی۔

بتانے والوں نے بتایا کہ نواز کو صحن کے درمیان رسیوں سے باندھ کر لٹایا گیا، اس کی گردن علاحدہ کی گئی پھر اس کے جسم کے اعضاء کاٹے گئے۔ اس کے بعد اس ٹکڑے ٹکڑے لاش کو بوری میں ڈال دیا گیا۔ اور بوری بند لاش حویلی میں رکھ کر تمام شواہد مٹائے گئے۔

اس رات بارش تو ہوئی لیکن اتنی نہیں _ اگلے دن صبح صبح یہ افغان بستی خالی کر دی گئی اور سو میں سے ننانوے لوگ ٹریکٹر ٹرالیوں _ ٹرکوں اور مال بردار گاڑیوں میں بیٹھ کر سامان سمیت یہاں سے شمالی علاقوں میں چلے گئے جبکہ حویلی میں چند لوگ موجود تھے جنکا پلان اگلی رات نکلنے کا تھا _ افغانوں کی اس موومنٹ پر کسی کو کوئی شک نہ گزرا۔ کیونکہ یہ لوگ اکثر ادھر سے ادھر ہوتے رہتے تھے۔

ادھر _ دین محمد کو صبح اپنا بیٹا گھر میں نہ ملا _ اس کو تھوڑا پریشان ہونا چاہئے تھا لیکن اس دور میں اکثر لوگ دو چار دن کے لئے ایسے ہی غائب ہو جاتے _ کوئی اپنے دوستوں کے ہمراہ لاہور چلا جاتا _ کوئی اپنے عزیزوں کے ہاں دوسرے گاوں میں _ کسی کی گمشدگی اس وقت تک کنفرم نہ ہوتی جب تک مہینوں کوئی برآمد نہ ہوتا۔ موبائل اب آئے ہیں کہ بندہ ہر وقت ہی معاشرہ سے بندھا ہوا ہے۔ شام تک دن محمد اور محبوب بیگم بہرحال پریشان ہو گئے _ کیونکہ رات وہ گھر پر ہی تھا جبکہ اس کے بعد گھر والوں سمیت اہل علاقہ کے کسی نے بھی اسے نہ دیکھا تھا۔ شام پڑتے ہی گہرے بادل امنڈ آئے اور مینہ برسنا شروع ہو گیا _ ساتھ تیز ہواوں نے آندھی کو بھی پیغام بھیجا کہ آ جاو _ ظلم ہوا ہے _ سرخ آندھی اس رات آئی تھی_ اور خوب آئی۔

رات گہری ہوئی تو _ آندھی بھی جوبن پر آگئی _ اسی دوران لگی بارش اور طوفان میں دو سائیوں نے حویلی سے باہر قدم رکھا _ ایک آدمی پہلے ہی جیپ سٹارٹ کر کے انکا انتظار کر رہا تھا ان دو سایوں نے ایک بوری اٹھا رکھی تھی جس پر پانی پڑا تو سرخی کیچڑ میں شامل ہو گئی۔ بوری کو جیپ کے پچھلے دروازے کو کھول کر اندر پھینک دیا گیا۔ ایک اور گاڑی اس جیپ کے پیچھے کھڑی تھی _ اس کی بھی ہیڈ لائٹس آن ہو گئیں۔ دونوں گاڑیوں نے شمالی شکریال کا رخ کیا اور کچے راستہ پر چلتیں چلتیں دوسری افغان بستی کے قریب پہنچ گئیں _ آندھی طوفان نے تمام علاقہ مکینوں کو گھروں میں رہنے پر مجبور کر رکھا تھا _ ویسے بھی گاوں میں رات کو چوکیدار کے سوا کوئی باہر نہ نکلتا _ مشرقی گلی سے گزر کر دونوں گاڑیاں رکیں _ دو چار لوگ لگی بارش اور آندھی میں گاڑیوں سے اترے _ جیپ سے بوری نکالی اور برساتی نالے میں پھینک دی۔

اسی دوران _ بجلی زور سے کڑکی _ عرش والے نے شاید ان لوگوں کو خوف دلانا چاہا لیکن _ وہ اپنا کام کر کے گاڑیوں میں بیٹھے _ اور ملحقہ ایکسپریس وے پر گاڑی ڈال کر اپنا رخ شمال کی جانب کر دیا _ انکو کل تک وزیرستان پہنچنا تھا۔


مولوی حبیب کی چیخ نے راز افشاں کر دیا کہ بوری میں لاش ہے _ بجائے خود اہل علاقہ بوری کو نکالتے _ گاوں کے نمبردار اور کونسلر کو بلایا گیا _ ان کی موجودگی میں _ نالے کے اوپر ایک چارپائی رکھی گئی اور بوری کو نکال کر چارپائی پر رکھ دیا گیا _ کچھ ہی گھنٹوں میں وہاں پولیس بھی آگئی _ تمام شہادتیں اور وقوعہ کو نوٹ کیا گیا _ اسی دوران جوان کے والدین کو خبر ہوئی تو ماں بال کھولے چارپائی پر آ کر بیٹھ گئی _ کسی کو کچھ معلوم نہ تھا کہ کیا ہوا، کیسے ہوا اور کیوں ہوا۔ اسی شام جوان کو سپرد خاک کر دیا گیا۔


افغان وزیرستان پناہ گزین ہوئے _ انکے بارے یہ عقد بہت بعد کھلا _ یہ پولیس رپورٹ تھی شاید _ لیکن قاتل پہنچ سے دور تھے _ کچھ نے کہا کہ وہ علاقہ غیر میں ہیں _ لیکن انکا ٹھکانہ کسی کو معلوم نہ تھا _ آندھی نے بہت بین کیا تھا

ختم شد

نوٹ: کہانی کے نام کردار اور جگہ فرضی ہے۔ کسی قسم کی مماثلت اتفاقیہ ہو گی۔

ہتھوڑا گروپ ـــ سانحہ ڈھوک کھبہ راولپنڈی

ہتھوڑا گروپ ـــ سانحہ ڈھوک کھبہ راولپنڈی

1985 اگست کی 11 تاریخ راولپنڈی میں ہتھوڑا گروپ مشہور ہوا. اور اس کے بعد اس سیریل کلر کا دائرہ کار پورے ملک میں پھیل گیا۔

ایک خفیہ و اندھے قتلوں کی واردات گلی نمبر 7 ڈھوک کھبہ میں ہوئی۔ جس میں ڈھوک کھبہ کے ایک ہی خاندان کے 9 افراد کو قتل کیا گیا۔ یہ گروپ 3 سال تک راولپنڈی اور پورے پاکستان میں خوف کی علامت رہا لوگوں نے گلی محلوں میں ٹھیکری پہرے شروع کر دیے تھے۔

یہ اگست کا مہینہ تھا، جب ڈھوک کبھہ میں یہ واردات ہوئی۔ میں اس وقت 7 سال کا تھا _ پورے ملک کی مانند ہمارے گاوں میں بھی چوکیدارا کمیٹی تشکیل دی گئی، اباجی کے سوا کوئی بھی اس کمیٹی میں فوجی نہیں تھا اس لئے اس کمپنی کی کمانڈ اباجی نے ہی کی۔

گاوں میں چار ڈھوکیں تھیں _ ہر ڈھوک سے 2 افراد لئے گئے اور آٹھ افراد میں سے چار افراد روزانہ رات چوکیداری پر معمور ہوتے تھے۔ جن کا کام اپنی ڈھوک کے علاوہ دوسری ڈھوک کا صبح تک چکر لگانا اور سیٹی مارنا تھا۔ اگر کہیں خطرہ ہوتا تو اس کا کام ایک فائر کرنا تھا تاکہ گاوں والے اور باقی چوکیدار متوجہ و چوکنے ہو جائیں اور خطرہ سے نبٹا جا سکے۔

گاؤں میں چوکیداری کے علاوہ بھی نوجوانوں کو متحرک کیا گیا کہ چوکنے رہیں اور اپنے اپنے علاقوں پر انجانے اور غیر لوگوں پر نظر رکھیں۔ اس دوران بہت سی کہانیاں سننے کو ملتیں۔

ایک شخص کا بیان ہے کہ چند لوگ گاوں پر مشرقی جنگل کی طرف سے حملہ آور ہوئے تھے۔ انہوں نے کالا لباس پہن رکھا تھا اور وہ سیاہ گھوڑوں پر سوار آئے تھے۔ وہ گاوں کے کنارے اس وقت موجود تھا جب یہ چند لوگ گاوں میں داخل ہونے لگے۔ اس پر اس نے جست لگا کر ان میں سے سب سے آگے والے گھر سوار کو گرایا لیکن حیرت انگیز طور پر وہ گرنے کے باوجود اس شخص کے ہاتھ اس لئے نہیں آیا کیونکہ اس نے کپڑوں پر گریس یا تیل ملا ہوا تھا۔ گھڑ سوار اٹھا گھوڑے پر بیٹھا اور اس شخص کی بہادری کی وجہ سے یہ حملہ آور واپس چلے گئے۔ (لو سانبھو، یہ استاد سریلے خاں تھے)

ایک شخص کا کہنا تھا کہ وہ اپنے گاوں کے جنوبی کنارے پر موجود تھا جہاں سے آگے مکمل میدان 4 کلومیٹر تک پھیلا ہوا تھا اور یہ میدان سرکاری اراضی جنات کی آماجگاہ گاہ تھی۔ یہاں کے چھوٹے چھوٹے مختلف اشکال کے پتھر اس کی غمازی کرتے تھے۔ اس نے ایک جن دیکھا جس جس کا قد 10 فٹ سے زائد تھا اور اس کے ہاتھ میں ہتھوڑا تھا۔ اس شخص نے فائر کر کے اس جن کو بھگا دیا۔ (تینوں لووے مولا، جن تے فائر، انکو کریلے گوشت بہت پسند تھے)

جتنے منہ اتنی باتیں، اصل کردار گاوں کے ان آٹھ جوانوں کا تھا جو چوکیداری کر رہے تھے اس کی وجہ سے چوری چکاری کرنے والے اوباش بھی کنارہ کشی اختیار کر گئے۔ اسی دوران ابو کو اپنی یونٹ کی طرف سے کال آ گئی اور ابو کو واپس ریزرو جانا پڑا۔

پہلا پہل ایسا ہوتا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد فوجیوں کو 2 سال بعد اپنی یونٹ میں واپس 2 ماہ کے لئے جانا پڑتا تھا۔ اس کو ریزرو جانا کہتے تھے۔

ابو کے فوج جانے کے بعد حویلی میں سب سے بڑا جوان بقلم خود میں رہ گیا تھا جبکہ والدہ اور سب سے بڑی ہمشیر رات کو حویلی پر پہرہ دیتیں تھیں۔

اسی دوران راولپنڈی میں ایک اور قتل ہوا جو کلہاڑی یا ہتھوڑے کے وار سے کیا گیا۔ یہ بھی اندھا قتل تھا اور وجہ نامعلوم تھی۔ اس لئے علاقہ بھر میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ خبروں کا واحد ذریعہ اخبارات تھے جبکہ PTV پر راوی امن لکھ رہا تھا۔ اخبارات کی مدد سے یہ بھی معلومات مل رہیں تھی کہ کراچی میں بڑے پیمانے پر ہتھوڑا گروپ متحرک ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر لوگ قتل ہو رہے ہیں۔اب اس نادیدہ گروپ کے متعلق افواہیں مشہور ہوئیں

کوئی کہتا یہ روس کے بھیجے ایجنٹ ہیں جو ہتھوڑے سے قتل کر رہے ہیں (افغانستان روس کی جنگ عروج پر تھی اور پاکستان افغانوں کو مدد فراہم کر رہا تھا)

کوئی کہتا یہ افغانی ہی ہیں جو جنگ کی وجہ سے نفسیاتی مریض بن چکے ہیں اس لئے یہ قتل و غارت بلا وجہ کر رہے ہیں۔

کوئی کہتا جو کروا رہا ہے انڈیا کروا رہا ہے

کوئی کہتا یہ امریکہ کی کوئی چال ہے۔

ایک رات 🌙 ہماری حویلی کے جنوب مشرقی جانب کچھ کھٹ پٹ ہوئی تو والدہ مرحومہ ابو کی ملکیت دو نالی بندوق لیکر چھت پر چلی گئیں اور حویلی کے چاروں اور نظر دوڑائی۔ جنوبی جانب چھاچھیوں کا ایک گھر تھا جبکہ اس سے آگے دو گھر کاسبیوں کے تھے۔ وہاں ہل چل ہو رہی تھی لیکن رات گہری ہونے کے سبب یہ معلوم نہ تھا کہ انسان ہے یا جانور۔ جیسے کوئی سرگوشیوں میں بات کر رہا ہو۔ ماں جی نے چوبارے کی فصیل کے سوراخ میں بندوق اس جانب لوڈ کر کے للکارا کہ کون ہے بولے اپنا تعارف دے ورنہ گولی چلا دی جائے گی۔ للکارنے پر چند ساعت خاموشی ہوئی پھر سرگوشیاں ابھرنے لگیں۔ امی جان تھوڑی حیران ہوئیں کہ للکارنے کے جواب میں جو کوئی بھی تھا یا تو اسے بھاگ جانا چاہئے تھا یا خاموش ہو جانا چاہئے تھا جبکہ دو منٹ بھی خاموشی نہ رہی اور پھر سرگوشیاں۔ ماں جی نے ہوائی فائر کر دیا بجائے اس جانب فائر کرنے کے۔ جس فائر کی آواز سنتے ہیں وہاں سے کچھ جانور نکل کر مشرقی جانب میدان اور جھاڑیوں کی طرف بھاگے۔ یہ سوروں کا غول تھا جو ہمارے پڑوس میں پڑے کاسویوں کے بھوسے سے اپنا رزق کھا رہے تھے اور رات کی خاموشی میں سر سر کی آواز سرگوشی محسوس ہو رہی تھی۔ فائر کی آواز نے پورے گاون کو متوجہ کیا۔ چوکیداروں نے فوری ہماری حویلی کا رخ کیا۔ ہمارے پڑوس کا میدان و جھاڑیاں ہمارے چھت کے برابر تھیں اور پڑوس سے ہی یہ زمیں یک مشت اتنی گہرائی میں آجاتی کہ پڑوس کی راہداری شروع ہوتی۔ دو گھر سوار اس میدان سے آتے دکھائی دیئے جو سیدھا ہی ہماری حویلی کی جانب آرہے تھے۔ شاید اندھیری رات کے فائر نے انکو سمت کا سہی تعین کر دیا تھا۔ میدان کے کنارے پہنچ کر ان لوگوں نے ٹارچ کا رخ نیچے آباد تین گھروں اور ہماری حویلی کے چھتوں پر کیا، ماں جی مرحومہ ان کی جانب فصیل کی اوڑھ میں بیٹھ گئیں اور بندوق کی نالی کا رخ ان کی جانب کر دیا۔ کیونکہ اندھیرے کی بنا پر یہ تعین کرنا ممکن نہیں تھا کہ آنے والے اپنے ہیں یا چور آچکے۔

ان میں سے ایک نے ٹارچ کی روشنی میں منڈیر کے سوراخ سے دوڑائی بندوق کا بیرل دیکھ لیا وہ فورا زمین پر لیٹ کر چلا اٹھا۔ فلاں خاں نیچے لیٹ دشمن ہے۔

مٹی کی ایک ڈھیری کی اوڑھ لیتے ہوئے اس نے اپنا نام بآواز بلند بتایا اور للکارا کہ جو کوئی بھی صوبیدار اسحاق خان کی چھت پر موجود ہے یا تو اپنا تعارف بآواز بلند کرائے بصورت دیگر اس کو گاوں سے نکلنے نہیں دیا جائیگا اور ممکنہ طور پر جاں سے مار دیا جائیگا۔ اسکا نام سن کر ماں جی نے آواز دی کہ بھائی میں تمہاری بہن ہوں اور ماں جی بیرل اٹھا کر کھڑی ہو گئیں۔ آنے والا ماں جی کا بھائی تھا۔ یہ دونوں گھوم کر جتنی دیر گیٹ پر پہنچے چار 4 لوگ اور بھی حویلی پہنچ چکے تھے۔ سب نے مل کر والدہ محترمہ سے قصہ پوچھا والدہ نے بتایا کہ فلان جانب سے سور تھے جو پہچانے نہیں گئے اس لئے ہوائی فائر کرنا پڑا۔

ڈیرہ سے نوکر بھی آ گئے جن کو ڈانٹا گیا کہ وہ حویلی کا خیال رکھنے میں ناکام ہو رہے ہیں اس بات کو صوبیدار صاحب تک پہنچایا جائیگا۔

دن گزرتے گئے اور کبھی کبھی خبر آتی کہ آج فلاں علاقہ میں ہتھوڑا گروپ نے حملہ کیا آج فلاں جگہ کیا _ لیکن مصدقہ خبریں اس میں کم ہی ہوتیں زیادہ تر افواہ ہی ہوتی۔ تین سال بعد ہمارے اپنے علاقہ میں فقیروں کا جوان لڑکا ہتھوڑوں کی ضرب سے ہلاک کیا گیا۔ اس رات سرخ آندھی آئی تھی __ یہ آخری واردات تھی جو میرے علم میں مصدقہ ہے۔ لیکن اس شخص کو ہتھوڑا گروپ نے قتل نہیں کیا تھا۔

پنڈی کی تاریخ کا یہ باب بھی ابھی تک حل طلب ہے کہ ہتھوڑا گروپ کون تھا کہاں تھا کیوں تھا؟؟؟؟؟

اسی دوران خبر آئی کہ پولیس نے ایک 90 سالہ شخص کو گرفتار کیا ہے جو یہیں ڈھوک کھبہ کا رہائشی ہے اسکا نام محمد خان بتایا گیااور اس نے اقرار جرم کر لیا ہے۔ لیکن یہ شخص بھی بعد ازاں 2 سال بعد رہا کر دیا گیا۔

نوٹ: گزشتہ قسط میں میں نے تاریخ 86 کی لکھی لیکن ہمارے بزرگوں اور صاحب علم لوگوں کے مطابق یہ واقعہ11 اگست 1985 مئی کا ہے۔ اس کو مئی 85ء ہی تصور کیا جائ