by RH | Nov 4, 2024 | بچوں کی کہانیاں, عمومی کہانیاں, ناولز
اپندر ناتھ اشک
پی سکندر کے مسلمان جاٹ باقر کو اپنے مال کی طرف حریصانہ نگاہوں سے تا کتے دیکھ کر اد کا نہ کے گھنے درخت سے پیٹھ لگائے نیم غنودگی کی حالت میں بیٹھا چوہدری نندو اپنی اونچی گھرگھراتی آواز میں للکار اٹھا رے رے اٹھے کے کرت ہے؟ اس کا چھ فٹ لمبا کیم شیم جسم سن ہو گیا اور بٹن ٹوٹ جانے کی وجہ سے موٹی کھاری کے کرتے سے اس کا چوڑا چکلا سینہ اور مضبوط کندھے صاف دکھائی دینے لگے۔ پاتر ذرا نزد یک آگیا۔ گرد سے بھری ہوئی کیلی داڑھی اور شرعی مونچھوں کے اوپر گڑھوں میں دھنسی ہوئی دو آنکھوں میں ایک لمحہ کیلئے چمک پیدا ہوئی اور ذرا مسکرا کر اس نے کہا اچی دیکھ رہا تھا چوہدری کیسی خوبصورت اور جوان ہے ۔ دیکھ کر بھوک مٹتی ہے ۔“ اپنے مال کی تعریف سن کر چوہدری نندو کا تناؤ کچھ کم ہوا۔ خوش ہو کر بولا ” کونسی ڈاچی ۔وہ پرلے سے چوتھی باقر نے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اوکانہہ کے ایک گھنے پیڑ کے سائے میں آٹھ دس اونٹ بندھے تھے انہی میں وہ جوان سانڈنی اپنی لمبی خوبصورت اور سڈول گردن بڑھائے پتوں میں منہ مار رہی تھی۔ مال منڈی میں ڈور ۔۔۔۔ جہاں تک نظر کام کرتی تھی، بڑے اونچے اونٹوں ، خوبصورت سانڈنیوں گدھے بھی تھے پر نہ ہونے ہی تھے پر نا ہونے کے برابر زیادہ تر تو اونٹ ہی تھے بہاول نگر کے ریگستانی علاقے میں ان کی کثرت ہے بھی قدرتی اونٹ ریگستان کا جانور ہے اس لیے ریتلے علاقے میں آمد و رفت کھیتی باڑی اور بار بر داری کا کام اس سے ہوتا ہے۔ پرانے وقتوں میں جب گائیں دس دس اور بیل روپے میں مل جاتے تھے تب بھی اچھا اونٹ پچاس سے کم میں ہاتھ نہ آتا تھا اور اب بھی جب اس علاقے میں نہر آگئی ہے اور پانی کی اتنی قلت نہیں رہی ۔ اونٹ کی وقعت کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھی ہی ہے اور سواری کے اونٹ دو دوسو سے تین تین سو تک پائے جاتے ہیں۔ ذرا آگےبڑھ کر باقر نے کہا۔ سچ کہتا ہوں چوہدری اس جیسی خوبصورت سانڈنی مجھے ساری منڈی میں دکھائی نہیں دیتی مسرت سے بندہ کا سینہ دگنا ہو گیا بولا ” ایک ہی کے او یہ تو سنگلی پھوڑی ہیںہوں تو انہیں چارہ پھانسی نیر یا کروں۔آہستہ سے باقر نے پوچھا ” بیچو گے اسے؟“ٹھی بیچنے نئی تو لایا ہوں “ ہندو نے ذرا ترشی سے کہاتو پھر بتاؤ کتنے کو دو گے“ باقر نے پوچھا۔نندو نے باقر پر سر سے پاؤں تک ایک نگاہ ڈالی اور ہنستے ہوئے بولا تنے چاہی مجے کا تیرے دھنی ہیئی مول لیسی مجھے چاہیے“ باقر نے ذرا سختی سے کہا۔نندو نے ذرا بے پروائی سے سر ہلایا ۔ اس مزدور کی یہ بساط کہ ایسی خوبصورت ڈاچی مول لے ۔ وہ آبولا توں کی لیسی“ باقر کی جیب میں پڑے ہوئے ڈیڑھ سو کے نوٹ جیسے باہر اچھل پڑنے کو بےقرار ہو اٹھے ۔ ذرا جوش سے اس نے کہا ” تمہیں اس سے کیا کوئی لے تمہیں تو اپنی قیمت سے غرض ہے تم مول بتاؤ ؟نندو نے اس کے بوسیدہ کپڑوں، گھٹنوں سے اٹھے ہوئے تہہ بند اور نوح کے وقت سے بھی پرانے جوتے کو دیکھتے ہوئے ٹالنے کی غرض سے کہا جاتو اشی وشی مول لے آئی
ایہنگومول تو آٹھ بیسی سوں گھاٹ کے نہیں۔”ایک لمحہ کیلئے باقر کے تھکے ہوئے جسم میں مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ اسے ڈر تھا کہ چوہدری نہیں اتنا مول نہ بتادے جو اس کی بساط سے باہر ہو لیکن اب جب اپنی زبان ہی سے اس نے ایک سو ساٹھ بتائے تو اس کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔ ڈیڑھ سو تو اس کے پاس تھے ہی اگر اتنے پر بھی چوہدری نہ مانا تو دس روپے کا اس سے ادھار کر لے گا ۔ بھاؤ تاؤ کرنا تو اسے آتا نہ تھا۔ جھٹ سے ڈیڑھ سو کے نوٹ نکالے اور نو کے آگے پھینک دیئے ۔ بولا ” من لو ان سے زیادہ میرے پاس ایک پائی نہیں اب آگے تمہاری مرضی ہندو نے باول نا خواستہ نوٹ گنتے شروع کیے لیکن گنتی ختم ہوتے ہی اس کی آنکھیں چمک اٹھیں ۔ اس نے تو باقر کو ٹالنے کی غرض سے ایک سو ساٹھ بتایا تھا۔ اس سانڈنی کے تو ایک سو چالیس پانے کا خیال اسے خواب میں بھی نہیں تھا دل کی خوشی کو دل ہی میں دبا کر اور باقر پر احسان کا بوجھ لادتے ہوئے نندو بولا سانڈنی تو میری دوسو کی ہے ۔ پن جاسکی مول میاں تنے دس چھانڈیا اور یہ کہتے کہتے اس نے اٹھ کر سانڈنی کی رسی باقر کے ہاتھ میں دے دی ۔ ایک لمحہ کیلئے اس وحشی صفت انسان کا دل بھی بھر آیا ۔ یہ سانڈنی اس کے یہاں ہی پیدا ہوئی اور پلی بڑھی تھی ۔ آج پال پوس کر اسے دوسرے کے ہاتھ میں سونچتے ہوئے اس کے دل کی کچھ ایسی ہی حالت ہوئی جولڑ کی کو سرال بھیجتے وقت باپ کی ہوتی ہے ۔ آواز اور لہجے کو ذرا نرم کر کے اس نے کہا ” آسانڈ سو ہری رہ میری ہے تو انہیں رہٹری میں نہ گیرو یہی ایسے ہی جیسے خسر داماد سے کہہ رہا ہو میری لڑکیلاڈوں پلی ہے دیکھنا اسے تکلیف نہ ہو ۔“ خوشی کے پروں پر اڑتے ہوئے باقر نے کہا ” تم فکر نہ کرو۔ جان دے کر پالوںگا۔نندو نے نوٹ انٹی میں سنبھالتے ہوئے جیسے سوکھے ہوئے گلے کو ذرا تر کرنے کیلئے گھڑے سے مٹی کا پیالہ بھرا۔ منڈی میں چاروں طرف دھول اڑ رہی تھی۔ شہروں کے مال منڈیوں میں بھی جہاں بیسیوں عارضی نلکے لگ جاتے ہیں اور سارا سارا دن چھڑکاؤ ہوتا رہتا ہے۔ جہاں دھول کی کمی نہیں ہوتی پھر اس ریگستان کی منڈی میں تو دھول ہی کی سلطنت تھی۔ گنے والے کی گنڈیریوں پر حلوائی کے حلوے اور جیلیبیوں پر اور خوانچے والے کے دہی پکوڑوں پر غرض سب جگہ دھول نظر آتی تھی گھڑے کا پانی ٹانچیوں کے ذریعے نہر سے لایا گیا تھا پر یہاں
آتے آتے کیچڑ جیسا گدلا ہو گیا تھا۔ نندو کا خیال تھا نتھر نے پر پیئے گا پر گلا کچھ سوکھ رہا تھا ایک ہی گھونٹ میں پیالے کو ختم کر کے نندو نے اس سے بھی پینے کیلئے کہا ، باقر آیا تھا تو اسے غضب کی پیاس لگی ہوئی تھی پر اب اسے پانی پینے کی فرصت کہاں تھی۔ رات ہونے سے پہلے پہلے وہ اپنے گاؤں میں پہنچ جانا چاہتا تھا۔ ڈاچی کی ری پکڑے ہوئے گردو غبار کو جیسے چیرتا ہوا وہ چل یک خوبصورت اور جوان ڈاچی خریدنے کی آرزو تھی پڑا۔ باقر کے دل میں بڑی دیر سے ایک خوبصورت اور جوان ڈ ذات سے وہ کمین تھا۔ اس کے آباؤ اجداد کمہاروں کا کام کرتے تھے لیکن اس کے باپ نے اپنا قدیم پیشہ چھوڑ کر مزدوری سے اپنا پیٹ پالنا شروع کر دیا تھا اور باقر بھی اسی پیشہ کو اختیار کیے ہوئے تھا۔۔ مزدوری وہ زیادہ کرتا ہو یہ بات نہ تھی ۔ کام سے ہمیشہ اس نے جی چرایا تھا اور چراتا بھی کیوں نہ۔ جب اس کی بیوی اس سے دو گنا کام کر کے اس کے بوجھ کو ہٹانے اور اسے آرام پہنچانے کیلئے موجود تھی۔ کنبہ بڑا تھا نہیں ایک وہ ۔، ایک اس کی بیوی اور ایک منفی سی بچی ۔ پھر کس لیے وہ جی ہلکان کرتا ؟ لیکن یہ فلک پیر ۔۔۔۔۔ اس نے اسے سکھ سے نہ بیٹھنے دیا ۔ اس کو نیند سے بیدار کر کے اسے اپنی ذمہ داری محسوس کرنے کیلئے مجبور کر دیا ۔ اسے بتا دیا کہ زندگی میں سکھ ہی نہیں آرام ہی نہیں اس میں دکھ بھی ہے محنت اور مشقت بھی ہے۔ پانچ سال ہوئے اس کی وہی آرام دینے والی عزیز بیوی گڑیا سی ایک لڑکی کو چھوڑکر اس جہاں سے رحلت کر گئی ۔ مرتے وقت اپنے سوز کو اپنی پھیکی اور اداس آنکھوں میں بھر کر اس نے باقر سے کہا تھا ” میری رضیہ اب تمہارے حوالے ہے اسے تکلیف نہ ہونے دینا اس کے ایک فقرے نے باقر کی زندگی کے رخ کو پلٹ دیا تھا اپنی شریک حیات کی وفات کے بعد وہ اپنی بیوہ بہن کو اس کے گاؤں سے لے آیا تھا اور اپنی آنکسی اور غفلت کو چھوڑ کر اپنی مرحوم بیوی کی آخری آرزو کو پورا کرنے میں جی جان سے منہمک ہو گیا تھا ۔ یہ ممکن بھی کیسے تھا کہ وہ اپنی اس بیوی کی جسے وہ روح کی گہرائیوں کے ساتھ محبت کرتا تھا جس کی موت کا غم اس کے دل کے نا معلوم پر دوں تک چھا گیا تھا جس کے بعد عمر ہونے پر بھی مذہب کی اجازت ہونے پر بھی رشتہ داروں کے مجبور کرنے پر بھی اس نے دوسری شادی نہ کی تھی اپنی اس بیوی کی آخری کاخواہش کو بھلا دیتا۔وہ دن رات جان توڑ کرکام کرتا تا کہ اپنی مرحوم بیوی کی اس امانت کو ۔۔۔ اپنی اس ننھی سی گڑیا کو طرح طرح کی چیزیں لا کر دے سکے۔ جب بھی کبھی وہ منڈی سے آتا تھی
رضیہ اس کی ناگوں سے لپٹ جاتی اور اپنی بڑی بڑی آنکھیں اس کی گرد سے آئے ہوئے ے پر جما کر پوچھتی ” ابا میرے لیے کیا لائے ہو ۔ تو وہ اسے اپنی گود میں لے لیتا اور کبھی معالی اور کبھی کھلونوں سے اس کی جھولی بھر دیتا ۔ تب رضیہ اس کی گود سے اتر جاتی اور اپنی سہیلیوں کو اپنی مٹھائی اور کھلونے دکھانے کیلئے بھاگ جاتی ۔ یہی گڑیا سی لڑکی جب آٹھ برس کی ہوئی تو ایک دن چل کر اپنے ابا سے کہنے لگی ابا ہم تو ڈاچی لیں گے ۔ ابا ہمیں ڈاچی لے دوبھولی معصوم لڑکی اسے کیا معلوم کہ وہ ایک مفلس اور قلاش مزدور کی لڑکی ۔ ہے جس کیلئے سانڈنی خریدنا تو کجا اس کا تصور کرنا بھی گناہ ہے ۔ روکھی ہنسی کے ساتھ باقر نے اسے گود میں اٹھا لیا اور بولا تو تو خود ڈاچی ہے” پر رضیہ نہ مانی اس دن مشیر مال اپنی سانڈنی پر چڑھ کر اپنی چھوٹی سی لڑکی کو آگے بٹھائے اس کاٹ میں کچھ مزدور لینے آئے تھے۔ منی رضیہ کے ننھے سے دل میں ڈاچی پر سوار ہونے کی زبر دست خواہش پیداہ اٹھی تھی اور اسی دن سے باقر کی رہی سہی غفلت بھی دور ہوگئی تھی ۔ اس نے رضیہ کو ٹال تو دیا تھا پر دل ہی دل میں اس نے عہد کر لیا تھا کہ چاہے جو بھی ہو وہ رضیہ کیلئے ایک خوبصورت ڈاچی ضرور مول لے گا اور تب اسی علاقے میں جہاں اس کی آمدنی کی اوسط مہینہ بھر میں تین ۔ آنہ روزانہ بھی نہ ہوتی تھی، وہیں اب آٹھ دس آنے ہو گئی ۔ دور دور کے دیہات میں اب وہ مزدوری کیلئے جاتا ۔ کٹائی اور بجائی کے دنوں میں دن رات جان لڑا تا فصل کا شتا دانے نکالتا کھلیانوں میں اناج بھرتا نیرا ڈال کر کپ بناتا بجائی کے دنوں میں ہل چلاتا پلیاں بنا تا ترائی کراتا ۔ ان دنوں اسے پانچ آنے سے آٹھ آنے تک روزانہ مزدوری مل جاتی ۔ جب کوئی کام نہ ہوتا تو علی صبح اٹھ کر آٹھ کوس کی منزل مار کر منڈی پہنچتا اور آٹھ دس آنے کی مزدوری کر کے ہی واپس لوٹتا۔ ان دنوں میں وہ روز چھ آنے بچاتا آ رہا تھا ۔ اس معمول میں اس نے کسی طرح کی ڈھیل نہ آنے دی تھی ۔ اسے جیسے جنون سا ہوگیا تھا۔ بہن کہتی با تراب تو تم بالکل ہی بدل گئے ہو پہلے تو کبھی تم نے اس طرح جی توڑ کر با ت نہ تھی بار رہتا اور کہتا تم چاہتی ہو میں تمام عمر اس طرح لکھتا بیٹا ر ہوں“ بہن کہتی کیا مجھے کوتو میں ہیں کہتی لیکن صحت گنوا کر دھن جمع کرنے کی صلاح بھی نہیں دے سکتی ۔ ایسے وقت ہمیشہ باقر کے سامنے اس کی مرحوم بیوی کی تصویر کھینچ جاتی۔ اس کی
آخری آرزو اس کے کانوں میں گونج جاتی اور وہ صحن میں کھیلتی ہوئی رضیہ پر ایک پیار کی نظر ڈال کر ہونٹوں پر پر سوز مسکراہٹ لیے ہوئے پھر اپنے کام میں لگ جاتا اور آج ۔۔۔۔ آن ڈیڑھ سال کی کڑی مشقت کے بعد وہ مدت سے پالی ہوئی اپنی اس آرزو کو پوری کر سکتا تھا۔ سانڈنی کی رسی اس کے ہاتھ میں تھی اور سرکاری کھانے کے کنارے وہ چلا جا رہا تھا۔ شام کا وقت تھا اور مغرب میں غروب ہوتے ہوئے آفتاب کی کرنیں دھرتی کی سونے کا آخری دان دے رہی تھیں ۔ ہوا میں کچھ جنگی آگئی تھی اور کہیں دور کھیتوں میں ٹھیٹر کی ٹیہوں ٹیموں کر کے اڑ رہی تھی ۔ باقر کے تصور میں ماضی کے تمام واقعات ایک ایک کرکے آرہے تھے ۔ ادھر ادھر سے کئی کسان اپنے اونٹ پر سوار جیسے پھر کہتا ہوا نکل جاتا اور بھی کبھی کھیتوں سے واپس آنے والے کسانوں کے لڑکے چھکڑے پر رکھے ہوئے گھاس کے گھٹوں پر بیٹھے بیلوں کو پکارتے کسی دیہاتی گیت کا ایک آدھ بند گاتے یا چھکڑے کے پیچھے بندھےہوئے خاموشی سے چلے آنے والے اونٹوں کی تھو تھینوں سے کھیلتے چلے آتے تھے ۔ باقر نے جیسے خواب سے بیدار ہو کر مغرب کی طرف غروب ہوتے آفتاب کودیکھا اور پھر سامنے کی طرف ویرانے میں نظر دوڑائی ۔ اس کا گاؤں ابھی بڑی دور تھا ۔ مسرت سے پیچھے کی طرف دیکھا اور چپ چاپ چلی آنے والی سانڈنی کو پیار سے پچکار کر وہ اور بھی تیزی سے چلنے لگا۔ کہیں اس کے پہنچنے سے پہلے رضیہ سو نہ جائے ۔ اسی خیال سے مشیر مال کا کاٹ نظر آنے لگی ۔ یہاں سے اس کا گاؤں نزدیک ہی تھا ۔ یہی کوئی دوکوس ۔۔۔۔۔ باقر کا چال دھیمی ہوگئی اور اس کے ساتھ ہی تصور کی دیوی اپنی رنگ برنگی کوچی سے اس کے دماغ کی قرطاس پر طرح طرح کی تصویریں بنانے لگی۔ باقر نے دیکھا کہ اس کے گھر پہنچتے ہی تھی رضیہ مسرت سے ناچ کر اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئی ہے اور پھر ڈاچی کو دیکھ کر اس کی بڑی بڑا آنکھیں حیرت اور مسرت سے بھر گئی ہیں۔ پھر اس نے دیکھا وہ رضیہ کو اپنے آگے بٹھا ۔سرکاری کھانے کے کنارے کنارے ڈاچی پر بھاگا جا رہا ہے ۔ شام کا وقت ہے ۔ مست ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے اور کبھی کبھی کوئی پہاڑی کو اپبڑے بڑے پروں کو پھیلائےاپنی موٹی آواز سے ایک دوبار کائیں کائیں کر کے اوپر اڑتا ہم جاتا ہے۔ رضیہ کی خوشی کا وار پار نہیں۔ وہ جیسے ہوائی جہاز میں اڑی جارہی ہے۔ پھر اسے بولا محسوس ہوا جیسے وہ رضیہ کو لیے بہاولنگر کی منڈی میں کھڑا ہے تبھی رضیہ بھونچکی سی ہے حیران سی
کھڑی وہ ہر طرف اناج کے ان بڑے بڑے ڈھیروں کو بے انتہا چھکڑوں کو اور قصر حیرت میں تم کر دینے والی ان بے شمار چیزوں کو دیکھ رہی ہے۔ ایک دکان پر گراموفون بجنے لگتا ہے کڑی کے اس ڈبے سے کس طرح گانا نکل رہا ہے کون اس میں چھپا گا رہا ہے یہ سب باتیں راضیہ کی سمجھ میں نہ آئیں اور یہ سب جاننے کیلئے اس کے دل میں جو اشتیاق ہے وہسے پکا پڑتا ہے۔اپنے تصور کی دنیا میں محو وہ کاٹ کے پاس سے گزرا جا رہا تھا کہ اچانک کچھ خیال آجانے ۔ سے وہ رکا اور کاٹ میں داخل ہو گیا ۔ مشیر مال کی کاٹ ابھی کوئی بڑا گاؤں نہ تھا ادھر کے سب گاؤں ایسے ہی ہیں ۔ زیادہ ہوئے تو تمہیں چھپر ہو گئے۔ کڑیوں کی چھت کا یا مکی ایتوں کا مکان بھی اس علاقہ میں نہیں خود باقر کی کاٹ میں پدرہ گھر تھے گھر کہاں سرکنڈوں کی جھگیاں تھیں ۔ مشیر مال کی کاٹ بھی ایسی ہی ہیں پچیس جھگیوں کی بستی تھی ۔ صرف مشیر مال کا مکان کچی اینٹوں سے بنا تھا ۔ لیکن چھت اس پر بھی سرکنڈوں ہی کی تھی ۔ نا تک بڑھتی کی جھگی کے سامنے وہ رکا۔ منڈی جانے سے پہلے وہ اس کے ہاں ڈاچی کا گدرا بننے کیلئے دے گیا تھا اسے خیال آیا کہ اگر رضیہ نے ڈاچی پر چڑھنے کی ضد کی تو وہ اسے کیسے ٹال سکے گا۔ اسی خیال سے وہ پیچھے مڑ آیا تھا ۔ اس نے نائک کو دو ایک آواز میں دیں اندر سے شاید اس کی بیوی نےجواب دیا۔گھر میں نہیں منڈی گئے ہیں ۔“ باقر کی آدھی خوشی جاتی رہی ۔ وہ کیا کرے؟یہ نہ سوچ سکا نا تک اگر منڈی گیا ہے تو گدرا کیا خاک بنا کر گیا ہو گا لیکن پھر اس نے سوچا شاید بنا کر رکھ گیا ہوگا ۔ اس نے پھر آواز دی ۔ میں ڈاچی کا پالان بنانے کے لئے کہہ گیا تھا۔” جواب ملا۔ ہمیں نہیں معلوم ۔ باقر کی سب خوشی جاتی رہی ۔ گورے بغیر وہ ڈاچی لے کر کیا جائے۔ نانک ہوتا تو اس کا پالان اگر نہ بنا ہوتا کوئی دوسرا ہی اس سے مانگ کر لے جاتا ۔ اس خیال کے آتے ہی اس نے سوچا چلو مشیر مال سے مانگ لیں اس کے تو اتنے اونٹ رہتے ہی کوئی نہ کوئی پرانا پلان ہوگا ہی ابھی اسی سے کام چلا لیں گے تب تک نا تک گدرا بنا کر دےگا یہ سوچ کر وہ مشیر مال کے گھر کی طرف چل پڑا۔نے کافی دولت جمع کر لی تھی اور اپنی ملازمت کے دوران میں مشیر مال صاحب ۔ جب ادھر نہ نکلی تو اپنے اثر ورسوخ سے ریاست ہی کی زمین میں کوڑیوں کے مول کئی مربعے
زمین حاصل کر لی تھی اب ریٹائرڈ ہو کر یہی آ رکھے ہوئے تھے امدنی بھی کر رہے تھے کئی نوکر خوب تھی اور مزے سے بسر ہو رہی تھی ۔ پر سفید صافہ نہ گلے میں سفید قمیص اس پر سفید جاکٹ اور کمر میں دو دھیا جیسا سفید تہ بند مرد سے آئے باقر کو دیکھ کر انہوں نے پوچھا ۔ کہو باقر کدھر سے آرہے ہو؟ باقر نے جھککر سلام کرتے ہوئے کہا۔ منڈی سے آرہا ہوں مالک ۔“یہ ڈاچی کس کی ہے؟“میری ہی ہے مالک ابھی منڈی سے لا رہا ہوں۔“کتنے کو لائے ہو؟“باقر نے چاہا کہہ دے آٹھ میسی کو لایا ہوں ۔ اس کے خیال میں ایسی خوبصورت ڈاچی دوسو میں بھی سنتی تھی ۔ پر دل نہ مانا بولا حضور مانگتا تو آٹھ جیسی تھا پر سات بیسی ہی کولے آیا ہوں۔“مشیر مال نے ایک نظر ڈاچی پر ڈالی ۔ وہ خود دیر سے ایک خوبصورت کی ڈاچی اپنی سواری کیلئے لینا چاہتے تھے۔ ان کے پاس ڈاچی تو تھی پر اسے گذشتہ سال سیمک ہو گیا تھااور اگر چه نیل وغیرہ دینے سے اس کا روگ تو دور ہو گیا تھا پر اس کی چال میں وہ مستی وہ لچک نہرہی تھی ۔ یہ ڈاچی ان کی نظر میں بچ گئی تھی ۔کیا سڈول اور متناسب اعضاء ہیں، کیسا سفیدی مائل بھورا بھورا رنگ ہے ۔ کیاپلچاتی لبی گردن ہے بولے ” چلو ہم سے آٹھ جیسی لے لو ہمیں ایک ڈاچی کی ضرورت بھیہے دس تمہاری محنت کے رہے ۔“باقر نے پھیکی ہنسی کے ساتھ کہا حضور ! بھی تو میرا چاؤ بھی پورا نہیں ہوا ۔“مشیر مال اٹھ کر ڈاچی کے گردن پر ہاتھ پھیرنے لگے تھے ” واہ کیا اصیل جانورہے بظاہر بولے ”چلو پانچ اور لے لو اور انہوں نے نوکر کو آواز دی تورے ابے او نورے نو کرنوں سے میں بیٹھا بھینسوں کیلئے پٹھے کر رہا تھا۔ گنڈا سا ہاتھ ہی میں لیے ہوئے بھاگا آیا۔مشیر مال نے کہا یہ ڈاچی لے جا کر باندھ دو کہو کیسی ہے۔؟“سانورے نے حیران سے کھڑے باقر کے ہاتھ سے رہی لے لی اور سر سے پاؤں ۔ تک ایک نظر ڈاچی پر ڈال کر بولا ” خوب جانور ہے اور یہ کہ کو نو ہرے کی طرف چل پڑا ۔“
تب مشیر مال نے انٹی سے ساٹھ روپے کے نوٹ نکال کر باقر کے ہاتھ میں دیتے ہوئے مسکرا کر کہا ابھی یہ رکھ لو ۔ باقی بھی ایک مہینے تک پہنچا دوں گا ہو سکتا ہے تمہاری قسمت کے پہلے ہی آجائیں اور بغیر کوئی جواب سنے وہ تو ہرے کی طرف چل پڑے نو را پھر چارہ کر نے لایا تھا دور ہی سے آواز دے کر انہوں نے کہا “بھینس کا چارہ رہنے دے پہلے ڈاچی کیلئے گورے کا نیرا ڈال بھو کی معلوم ہوتی ہے ۔ کرشن چکش کا چاندا بھی طلوع نہیں ہوا تھا ویرانے میں چاروں طرف کہرا سا چھایا ہوا تھا سر پر دو ایک تارے جھانکنے لگے تھے اور ببول اور کا نہو کے درخت بڑے بڑے سیاہ دھبے بن رہے تھے ۔ ساٹھ روپے کے نوٹوں کو ہاتھ میں لئے اپنے گھر سے ذرا فاصلے پر ایک جھاڑی کی اوٹ میں بیٹھا باقر اس مدھم ٹمٹماتی روشنی کی شعاع کو دیکھ رہا تھا جو سرکنڈوں سے چھن چھن کر اس کے گھر کے آنگن سے آرہی تھی ۔ وہ جانتا تھا رضیہ جاگ رہی ہوگی ۔ اس کا انتظار کر رہی ہوگی اور وہ یہ سوچ رہا تھا کہ روشنی بجھجائے اور رضیہ سو جائے تو وہ چپ چاپ گھر میں داخل ہو ۔
by RH | Jan 6, 2024 | عمومی کہانیاں, ناولز
انابیہ خان
( حال ))
” بس یہی کھانا مل سکتا ہے ، کھانا ہے تو کھاو ، نہیں تو بھاڑ میں جاوّ ، ویسے آج کل تمھارے نخرے کچھ زیادہ نہیں ہو گے ، یہ نہیں کھانا ، وہ نہیں کھانا ، اب میں تمھاری خاطر دو ، دو سالن نہیں بنا سکتی ، ایک تو کچھ کما نہیں سکتے ، اوپر سے نخرے ساتوایں آسمان کو چھو رہے ہیں ، اپاہج انسان تجھے میرے ہی گلے پڑنا تھا ، پتہ نہیں مجھے سے ایسا کون سا گناہ ہو گیا تھا ، جو رب نے تجھے میرے پلے باندھ دیا ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رانیہ عامر کے سامنے باسی کھانا رکھتے ہوئے جلی کٹی باتوں سے اسکے دل کو چھلنی چھلنی کر رہی تھی ، عامر کی آنکھ سے آنسو نکل کر اسکے گالوں کو بھگوتا ہوا اسکی ہلکی سی بڑھی ہوئی داڑھی میں کہیں جذب ہوا تھا ، وہ سر جھکائے بڑی خاموشی کے ساتھ باسی کھانا کھانے لگا تھا ۔
“تم سے کچھ کہا تھا اس کا کیا بنا ، کبھی میرے مسئلے پر بھی غور کر لیا کرو ، اپاہج تو تمھیں خدا نے بنا ہی دیا ہے ، میرے مسئلوں پر تو تم گونگے اور بہرے بھی بن جاتے ہو
“۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رانیہ نے تیکھے لہجے میں سفاکیت کی حد کی تھی ۔۔۔۔۔
” کس مسئلے کی بات کر رہی ہو تم ، میں کچھ سمجھا نہیں تمھاری اس بات کو ، جو بھی کہنا ہے ذرا کھل کے کہو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عامر نے روٹی کا نوالہ توڑ کر قدرے حیرت بھرے تاثرات لیے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا ؟؟؟؟ الجھے بال جو آدھے سے زیادہ ماتھے پر
بے ترتیبی سے پھیلے ہوئے تھے ، بڑھی ہوئی داڑھی ، ہلدی کی طرح زرد پڑتا چہرہ ، آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقوں نے تو ڈیرہ ڈال رکھا تھا ، ملگجے سے کپڑے پہنے وہ زمین پر آلتی پالتی مارے بیٹھا ہوا وہی باسی کھانا کھا رہا تھا ، ایسا لگ رہا تھا جیسے کئی روز سے وہ نہایا نہ ہو ، شیو نہ بنائی ہو ، وہ حال سے بھی بے حال تھا ، اسے دیکھ کر تو سنگ دل سے بھی سنگ دل انسان کو اس پر ترس آ جاتا تھا ، اور اگر نہیں آتا تھا تو بس اس کی اپنی بیوی رانیہ کو ہی نہیں آتا تھا ، اسے تو وہ بے چارا ہمیشہ سے ہی مکار و عیار سا لگتا تھا ، وہ بہت بڑی لالچی عورت تھی ، اسے محبت تھی تو بس دولت سے ہی ، جس کے پاس دولت ہوتی وہ اسی کی بن جاتی ، اسی کی ہی زبان بولنا پسند کرتی تھی ، جب عامر بہت امیر تھا اسکے پاس دولت کے ڈھیر تھے ، تب وہ اسکی ہی محبت میں گوڈے گوڈے ڈوبی ہوئی تھی ، پھر ایک ایسا موڑ آیا تھا ، عامر کے بزنس میں بہت زیادہ لوس ہوا تھا ، وہ پہلے کی نسبت بہت غریب ہو گیا تھا ، تب سے اس مکار کی نظر عامر کے باس پر پڑی تھی ، وہ اب عامر کے باس کو اپنے استمعال میں لانا چاہتی تھی ، اسے تو اپنے بچے تک نظر نہیں آ رہے تھے ، اوپر سے عامر کے باس نے بھی اس سے شادی کی ہامی بھر لی تھی ، اب وہ عامر سے طلاق کی ڈیمانڈ کرنے لگی ۔ یہ ڈیمانڈ کب اسرار میں تبدیل ہوئی پتہ ہی نہیں چلا ۔۔۔۔۔
” مجھے طلاق چاہیے اس مسئلے کی بات کر رہی ہوں ، کیوں جان کر بھی انجان بنتے ہو ، مجھے اب تمھاری صورت سے بھی نفرت محسوس ہوتی ہے ، خدا کے لیے مجھے اس اذیت سے نکالو ، میرا دم گھٹتا ہے تمھارے ساتھ سے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رانیہ نے بھڑکیلے لہجے میں کہا ۔۔۔
اس بات کا اس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا بس وہ خاموشی سے باسی کھانا کھاتے ہوئے اپنے ماضی میں کھو گیا تھا ۔
((( ماضی ))
” ارے سائیں آپ ،
جانی آپ کب آئے ، آنے سے پہلے بتایا بھی نہیں ، آپ بہت تھک گئے ہوں گے , میں آپکے لیے چائے لے کر آتی ہوں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رانیہ نے عامر سے مسکرا کر لاڈ کرتے ہوئے کہا پھر اسکے کوٹ کے بٹنوں کے ساتھ کھیلنے لگی تھی ۔۔
” گھر میں کون آیا تھا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے سامنے میز پر رکھے ایش ٹرے میں سگریٹ کے جلے ہوئے آدھے ٹکڑوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا ؟؟
” ک ، ک ، کوئی بھی تو نہیں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رانیہ نے ڈرتے ہوئے جواب دیا تھا ۔۔
” یہ تم ڈر کیوں رہی ہو ، اور میرے سامنے جھوٹ کیوں بول رہی ہو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عامر نے پہلے اسکے ماتھے پر ہلکا سا پیسنہ دیکھا تھا ، پھر آگے بڑھ کر میز سے وہ ایش ٹرے اٹھا لایا تھا جس میں آدھے جلے ہوئے سگریٹ کے ٹکڑے پڑے تھے ۔۔۔۔
” تم تو کہہ رہی تھی گھر میں کوئی بھی نہیں آیا تھا ، تو کیا یہ سگریٹ تم نے پی ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے سگریٹ کے ٹکڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے طنزیہ لہجے میں کہا ۔
” مم میں کیوں بھلا پینے لگی یہ سگریٹ “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رانیہ نے ہکلاتے ہوئے کہا پھر اپنے دوپٹے کے پلو سے چہرے پر آیا پسینہ صاف کرنے لگی تھی ۔۔۔۔ عامر اس کی طرف حیرت بھری نظروں سے دیکھنے لگا تھا جو اپنے چہرے سے پسینہ صاف کر رہی تھی ۔۔۔۔
” تو تم سیدھے طریقے سے بتاتی کیوں نہیں ہو ، کہ گھر میں آخر کون آیا تھا ، دیکھو میرے ضبط کو مت آزماو ، بہت مہنگا پڑ سکتا ہے ، سچ سچ بتاو کہ آخر میرے جانے کے بعد گھر میں کون آیا تھا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عامر نے رانیہ کی گردن دبوچے غصیلے لہجے میں دریافت کیا تھا ۔
” مجھے چھوڑو بہت درد ہو رہا ہے ، مجھے لگتا ہے تم پاگل ہو چکے ہو ،
میرا بھائی آیا تھا ، اور کون آ سکتا ہے اس گھر میں ، اس گھر میں انسان تو دور کی بات پرندوں کا آنا تک ممنوں ہے ہر بات پر شک کی عدالت کھول لیتے ہو ، میں بھی تو انسان ہوں ، کب تک مجھے یونہی شک کی عدالت کے کھٹہرے میں کھڑا کرتے رہو گے ، اس شک کے وکیل تم خود ہو ، جج تم خود ہو ، ڈر اس لیے گئی تھی اپنا لہجہ دیکھو ، کبھی کوئی بات پیار سے بھی پوچھی ہے تو نے ، جب بھی گھر آتے ہو پورے گھر کو سر پر اٹھا لیتے ہو ، ڈرتی ہوں تیرے غصے سے ، اب اس گھر میں میرے بھائی کے ْآنے کی بھی پابندی ہے کیا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رانیہ نے ایک اور جھوٹ بولتے ہوئے غصیلے لہجے میں جواب دیا تھا ، اور ساتھ ہی ساتھ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ، تاکے غصے اور رونے کی وجہ سے وہ جھوٹ کو بھی سچ سمجھے ، اور اس طرح بات ختم ہو جائے ، لیکن کب تک جھوٹ کے پاوّں نہیں ہوتے ، وہ ایک نہ ایک دن ضرور پکڑا جاتا ہے ، شاید وہ یہ بات نہیں جانتی تھی ۔۔۔۔
اس وقت تو وہ خاموش ہو گیا تھا ، اسے خود سے دور کر کے وہ دوسرے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا ۔۔
🌸🌸🌸🌸
( ماضی )
” امجد عامر کو شک ہو گیا ہے ، یہ سگریٹ کے ٹکڑے یہاں نہ پھنکا کرو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رانیہ نے ایش ٹرے میں آدھے جلے ہوئے سگریٹ کے ٹکڑوں کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
” شک کیسا شک “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ اس نے دو کش لگا کے وہی جلا ہوا سگریٹ ایش ٹرے میں مسلتے ہوئے پوچھا ؟؟
رانیہ نے تین چار دن پہلے والا واقعہ اسے سنا دیا تھا ، وہ بھی یہ سب جان کر کافی پریشان ہوا تھا ۔
پھر وہ کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا تھا ، کچھ سوچتے ہوئے اسکے پتلے اور باریک ہونٹ ایک دم مسکرا اٹھے تھے ۔
” اب کچھ کرنا پڑے گا ، جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امجد نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے کہا اور وہی سگریٹ کے جلے ہوئے ٹکڑے ہاتھ میں اٹھا کر گھر سے باہر چلا گیا تھا ۔۔ رانیہ اسے حیرت سے جاتے ہوئے دیکھنے لگی تھی ۔۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸
( ماضی )
” ارے سر امجد آپ ہمارے گھر ، وہ بھی اس وقت “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عامر نے ہاتھ پر باندھی اپنی گھڑی کی طرف دیکھا ۔ جہاں سوائیاں رات کے بارہ 12 کے ہندسوں کو چھو رہی تھی , وہ واش روم جانے کے ارادے سے اٹھا تو سامنے ہی امجد گیٹ پر اسکی بیوی کے ساتھ کھڑا ہوا پایا تھا ۔۔
” ج جی میں یہاں سے گزر رہا تھا ، تو سوچا آپکی خیریت معلوم کرتا چلوں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اپنی پینٹ کی جیب سے رومال نکل کر اس سے اپنے ماتھے پر آیا ہلکا سا پسینہ صاف کرتے ہوئے کہا ۔۔
” سر رات کے بارہ 12 بجے آپ میری خیریت معلوم کرنے آئے ہیں ، مجھے تو حیرت ہو رہی ہے , اسے میں اپنی خوش نصیبی سمجھوں یا کسی کی مرہون منت “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے دروازے کے پاس کھڑی رانیہ پر شاکی نظر ڈالتے ہوئے پوچھا ؟؟
” میں سمجھا نہیں تمھاری بات “۔۔۔۔۔ امجد نے فوراً سے پہلے کہا ۔۔
” کچھ نہیں سر آپ باہر کیوں کھڑے ہیں ، اندر تو آ جائیں ناں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” ارے نہیں نہیں اب مجھے اجازت دیں ، تمھیں دیکھنے آیا تھا ، تمھیں دیکھ لیا ، میں آتا جاتا رہوں گا ،
خدا حافظ
اس دن سے عامر کو یقین ہوا تھا کہ رانیہ سر امجد کے ساتھ انوالو ہے ، اس لیے مجھ سے طلاق مانگ رہی ہے ، رانیہ کی نظر اسکے سر کی دولت پر تھی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” یہ کب آیا تھا ، اور کیوں آیا تھا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عامر نے غصیلے لہجے میں پوچھا ۔
” اس نے بتایا تو ہے ، وہ آپکو دیکھنے آیا تھا مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو جا کر اپنے باس سے پوچھو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رانیہ یہ کہہ کر مین گیٹ بند کر کے کمرے کے اندر چلی گئی تھی ۔۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸
( ماضی ))
” امجد اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے ، اب تمھیں کچھ کرنا ہوگا ، میں تھک گئی ہوں ، وضاحتیں دے دے کر ، وہ طلاق دینا ہی نہیں چاہتا ، آپ اس سے کہو مجھے طلاق دے دے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رانیہ امجد کے سامنے کھڑی بہتے آنسو کے ساتھ کہہ رہی تھی ۔
” تو مت رو ، آج تیرا کام ہو جائے گا ۔ تو فکر نہ کر “۔۔۔۔۔۔ امجد نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔
” کیا کرو گے “۔۔۔ رانیہ فکرمندی سے اسے دیکھتے ہوئے بولی ۔
” اسے اپاہج کرنا پڑے گا ، اور کیا کروں گا ، پھر یہ اپنی جگہ پڑا رہے گا ، اور ہم دونوں آرام سے ایک دوسرے سے مل لیا کریں گے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” مطلب تم مجھ سے شادی نہیں کرو گے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے حیرت بھرے تاثرات سے اسکی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
” یار شادی بھی کر لیں گے ، اتنی جلدی بھی کیا ہے ، پہلے انجوائے کریں گے ، اسکے بعد شادی کا سوچیں گے ، پہلے مجھے اپنا کام تو کرنے دو ، تم عورتوں کی انہی دقیانوسی باتوں سے مجھے بڑی چڑ ہے ، بات کچھ ہوتی ہے ، اور ختم وہ شادی پر آ کر ہی ہوتی ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امجد خاصا چڑا ہوا تھا ۔۔ پھر وہ رکا نہیں لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا گھر سے باہر چلا گیا تھا ۔۔
اور رانیہ حیرت سے منہ کھولے اس جاتے ہوئے شخص کی پشت دیکھتی رہی تھی ۔۔۔۔۔
🌸🌸🌸🌸🌸
( ماضی ))
” ڈاکٹر صاحب کیا ہوا ہے اسے ، آپ بتاتے کیوں نہیں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رانیہ اس وقت ڈاکٹر مبین کے کیبن میں بیٹھی پوچھ رہی تھی ۔
” دیکھیں ہم خود بھی نہیں جانتے ، انکو کیا ہوا ہے ، بٹ جو لوگ اسے یہاں تک لے آئے ہیں ، وہی بتا رہے تھے ، ایک ٹرک اسے کچلتا ہوا آگے بڑھ گیا تھا ، وہ لوگ اس ٹرک کے پیچھے بھی گئے تھے ، بٹ وہ کافی تیز تھا اس لیے اسے پکڑ نہیں سکے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی ڈاکٹر اس سے بات کر رہا تھا کہ رانیہ کے پرس سے موبائیل کی رنگ ٹون ہوئی تھی ، اس نے پرس کھول کر موبائیل کی سکرین کو دیکھا تو امجد کالنگ کے نام سے جگمگا رہا تھا ۔
” ایکسیکوز می “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہتے ہوئے ڈاکٹر کے کیبن سے نکل کر ایک سائیڈ پر جا کھڑی ہوئی تھی ۔
” ہیلو “۔۔۔۔۔ اس نے موبائیل کا گرین بٹن پش کرتے ہی اسے کانوں سے لگا لیا تھا ۔
” جانو تم بہت پریشان تھی ناں ، اب تیری پریشانی ختم ، تیرا شوہر اپاہج ہو گیا ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” سچی آپ سچ کہہ رہے ہو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رانیہ خوشی سے اچھل ہی تو پڑی تھی ۔
” ہاں یار سچ کہہ رہا ہوں ، تو اب اس سے طلاق لے لے ، میں تجھ سے شادی کرنے کو تیار ہوں “۔۔۔۔۔
🌸🌸🌸🌸🌸
( حال ))
” ایک بار پھر سوچ لو ، اپنی خوشی کے لیے اپنے بچوں کی خوشیاں برباد نہ کرو ، میں تو اپاہج ہو گیا ہوں ، کسی کے کام کا نہیں رہا ، پر تم تو اپنے بچوں کا سوچو “۔۔۔۔۔۔۔۔ عامر رانیہ کی منت سماجت کرنے لگا ۔
” مجھے طلاق چاہیے “۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے دو ٹوک لہجے میں کہا ۔
” ٹھیک ہے ، میں اپنے ہوش حواس میں تمھیں
طلاق دیتا ہوں ۔۔۔۔
طلاق دیتا ہوں ۔۔۔
طلاق دیتا ہوں ۔۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸
( ماضی ))
آج رانیہ کی شادی تھی ، اس نے صبح ہی صبح تیاری کرنی شروع کر دی تھی ، اس نے سرخ لہنگا عروسی جوڑا پریس کر کے ہینگر پر لٹکا دیا تھا ، کچھ دیر تک اسے یہ پہننا تھا ، شام میں اس نے عروسی جوڑا زیب تن کیا تھا ، بیوٹی پارلر سے وہ میک اپ کروا کے آئی تھی ، کچھ اللہ پاک نے اسے حسن سے نوازا تھا تو کچھ بیوٹی پارلر کی مرہون منت تھی ، آج وہ قیامت لگ رہی تھی ، سب کے دلوں پر وہ بجلیاں گرا رہی تھی ، جس جس نے بھی دیکھا وہ سراہے بنا نہ رہ سکے تھے ، سب لوگوں نے اسکی خوب تعریف کی تھی ، دلہے والے بھی بڑی سی گاڑی میں آ چکے تھے ، امجد نے آج سفید کرتا کے اوپر سفید رنک کی واسکٹ پہنی تھی ، کھوسہ بھی سفید رنگ کا پہنا تھا ۔۔
باآخر خیر و عافیت سے شادی انجام پا گئی تھی ۔
وہ ایک گھر سے رخصت ہو کر امجد کے عالی شان محل میں آ گئی تھی ، آج وہ بہت خوش تھی ، جو اس نے خواب دیکھا تھا اس پر کن بول دیا گیا تھا ، کن کہہ دیا گیا تھا ، تو کیسے اسے وہ عالی شان محل نما کوٹھی نہ ملتی ، اسے تو اپنے بچوں کی بھی فکر نہیں رہی تھی ، پتہ نہیں کیسی بیوی کیسی ماں تھی وہ ۔۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
( ماضی ))
” یار میں تھک چکا ہوں تم سے ، اس روز روز کی بحث سے ، کام پر جاتا ہوں کوئی عیاشی کرنے نہیں جاتا جو تم اس قدر شک کرتی ہو ، شکی عورت “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امجد نے تھکے تھکے سے لہجے میں کہا تھا ۔۔
” مجھے ڈر لگتا ہے ، کہیں کوئی اور عورت “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” بس کر دو ، خدا کے لیے بس کر دو ، ہر عورت کو اپنے لیول کا نہ سوچا کرو ، ہر عورت تیرے جیسی نہیں ہوتی ، جو کچھ تو نے کیا ہے ہر عورت وہ نہیں کرتی ، کس چیز کا تجھے ڈر لگتا ہے ، “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امجد غصیلے لہجے میں کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا تھا ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸
” یار تجھے تیری منہ مانگی رقم دینے کو تیار ہوں ، تو بس میرا کام کر دے ،۔ آج اسے شاپنگ پر لے جاوّں گا ، تو کسی طرح اس پر اپنی گاڑی ٹھوک دے ۔ میں اسے بچانے کی کوشش کروں گا ، تو مجھ پر گاڑی نہ چڑھانا خیال رکھنا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے پرانے دوست سے کہہ رہا تھا ، جس نے عامر کو اپاہج کیا تھا ، آج تقدیر اسی کے ہاتھوں رانیہ کو بھی اپاہج بنانے والی تھی ۔۔
🌸🌸🌸🌸🌸
( ماضی ))
” یار سوری صبح پتہ نہیں غصے میں کیا کیا بول گیا تھا ، ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا ، تو کیوں اتنا غصہ دلاتی ہے ، تو مجھ پر شک نہہ کیا کر میں تجھ سے بے حد محبت کرتا ہوں ، تیرا ایک آنسو بھی مجھ سے برداشت نہیں ہوتا ، چل آج تجھے شاپنگ کروانے لے چلتا ہوں ، تو اپنا موڈ ٹھیک کر لے بس “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے گاڑی کی چابی اسکی آنکھوں کے سامنے لہرائی تھی ۔
” مجھے نہیں چلنا “۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کروٹ بدلی
” اٹھ ناں پلیز یار “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امجد نے اس کا چہرہ اپنی طرف پھیرا ۔۔
” اچھا آپ گاڑی میں چل کر بیٹھیں میں چینج کر کے آتی ہوں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اپنی ضد کا ہتھیار ڈالے ہوئے کہا ۔۔
” چلیں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کپڑے چینج کر کے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بولی تھی ۔
کچھ لمحوں میں ہی وہ مال روڈ پر تھے ۔، وہ دونوں ابھی گاڑی میں ہی موجود تھے ، کہ سامنے سے ایک ٹرک رول انکی گاڑی کو کچلتا ہوا آگے بڑھ گیا تھا ، انکی جان تو بچ گئی تھی لیکن دونوں ہی اپاہج ہو چکے تھے ۔ قسمت کا کھیل ہی نرالہ ہے ، جس کے ہاتھوں عامر کو اپاہج کیا گیا تھا ، آج تقدیر نے اسی کے ہاتھوں دونوں کو اپاہج کر دیا تھا ۔
پھر کچھ سالوں کے اندر ہی اندر امجد کا گھر اور بزنس ڈھپ ہو کے رہ گیا تھا ، بزنس اتنا لوس ہوا کہ بات فاقوں تک آ گئی تھی ، اسی کو کہتے ہیں خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے ، امجد کا گھر سیل ہو گیا تھا ، بزنس پر اسکے دوست نے قبضہ کر لیا تھا ۔
🌸🌸🌸🌸🌸
اور دوسری طرف عامر نے رانیہ کی طلاق کے بعد اپنی مصنوعی ٹانگیں لگوا لی تھی ، دوسری شادی بھی کر لی تھی ، دوسری بیوی بہت ہی اچھی اور بے حد رحم دل ثابت ہوئی تھی ۔ بچوں کی دیکھ بھال کرنا عامر کی دیکھ بھال کرنا اس کا معمول بن گیا تھا ، عامر کی محنت اور قدرت کی طاقت سے عامر ایک دن بہت بڑا بزنس مین بن گیا تھا ۔
ایک دن اسکی گاڑی راستے میں ہی خراب ہو گئی تھی اس نے اسے منیکنک کو ٹھیک کرانے کے لیے دی تھی اور خود فٹ پاتھ پر وقت گزارنے کے لیے بیٹھا تھا ۔
” الله کے نام پر دس روپے کا سوال ہے بابو جی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک عورت میلے کچیلے سے کپڑوں میں ہاتھ پھیلائے اس کے سامنے کھڑی تھی ، اس کے بال دیکھ کر گن آ رہی تھی ایسا لگ رہا تھا وہ کئی دنوں سے نہائی نہ ہو ، عامر نے جب غور سے اسے دیکھا تو اس کے پیروں تلے زمین سرک گئی تھی آسمان اسکے سر پر آ گرا تھا ، اسے ایسا لگا جیسے کسی نے اسکے دل میں نیزہ گھونپ دیا ہو ، وہ کوئی اور نہیں وہ اسکی رانیہ تھی ، اسکے بچوں کی ماں تھی ، اسکی محبت تھی ، رانیہ تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جسے بھولنے کے لیے زمانے لگ گئے تھے وہ ملی تو کہاں ملی ،
یہ ہے مقافات عمل ، جیسا کرو گے ویسا بھرو گے ۔
” تو بھی نہ رکھ سکا بھرم میرے خلوص کا ۔
خود سے بھی زیادہ مجھے تجھ پے غرور تھا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد ۔۔۔۔
by RH | Jan 6, 2024 | عمومی کہانیاں, ناولز
انابیہ خان
( حال ))
” میں آج تمھیں دل سے بددعا دیتی ہوں ، تم کبھی سکون کی نیند نہیں سو سکو گے ، جس طرح تم نے مجھے برباد کیا ہے ، میرا خدا تمھارے اپنوں کو ایسے ہی برباد کرے گا ، تب تم دیکھنا اپنوں کی بربادی اپنی ہی آنکھوں کے سامنے ہوتے ہوئے ، تمھاری موت پر رونے والا کوئی نہیں ہوگا ، تمھاری قبر پر فاتح پڑھنے والا ، اور تمھاری قبر پر پانی ڈالنے والا بھی کوئی نہیں ہوگا ، تم دیکھنا میرے دل سے نکلی ہر بددعا پر میرا رب کن کہے گا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے روتے ہوئے سامنے کھڑے فرعون نما شخص کو دل سے بد دعا دی تھی ، جو ہونٹوں پر ایک طنزیہ سی مسکراہٹ سجائے اسے روتے چیختے بلکتے ہوئے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ کچھ عرصہ پہلے جو اسکی جھوٹی محبت رہ چکی تھی ، جس کے بنا اسکا جینا مشکل تھا ۔۔۔۔
” تو کیا سمجھتی ہے تیری بددعائیں مجھ پر اثر کریں گی ، اگر واقعی بددعاوّں میں اتنا اثر ہوتا ، تو آج اس دنیا میں کوئی شخص زندہ نہ ہوتا ، سب ایک دوسرے کی بددعاوّں کی بھینٹ چھڑھ چکے ہوتے ، تو ایک بار نہیں ، ہزار بار بددعا دے ، مجھے کچھ نہیں ہونے والا ، میں جب تک اپنا برا آپ نہ چاہوں گا ، تیری دی ہوئی بددعا بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ، تم نے بھی تو خود کو خود ہی برباد کیا ہے ناں ، جھوٹی محبت کے لیے اندھی ہو کر میرے پیچھے چلی آئی تھی ، میں نے تجھے کبھی نہیں کہا تھا کہ میرے پیچھے آو ، میری محبت پر یقین کرو ، تو خود ہی میرے پیچھے چل پڑی تھی تو میں کیسے تجھے چھوڑ دیتا ، جب تم خود ہی برباد ہونا چاہتی تھی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاہاہاہا ۔۔۔ اس نے ایک بھرپور قہقہہ لگایا تھا ۔
” بکواس بند کرو ، جھوٹے انسان ، محبت جھوٹی نہیں ہوتی ، جھوٹے تو انسان ہوتے ہیں ، جو سچی محبت کو بھی جھوٹ کے ترازو میں تولتے ہیں ، محبت تو شروع سے ہی سچی تھی ، اس نے خود کو منوایا ہے ، نہیں یقین تو دیکھ لو شریں فرہاد ، لیلی مجنوں ، رومیو جولیٹ کے قصے ، وہ سب جھوٹ نہیں ہو سکتے ، اور میری ایک بات تم ہمیشہ یاد رکھنا ،
ہر فرعون کے پیدا ہونے پر ایک موسیٰ بھی پیدا ہوتا ہے ، تو فرعون ہے تجھے موسیٰ تباہ کرے گا ، تو اپنا انجام دیکھنا ، لوگ تجھ سے عبرت حاصل کریں گے ، تو کتے کی موت مرے گا جس طرح فرعون کو نہ تو دریا نے قبول کیا اور نہ ہی مٹی نے ، ٹھیک ایسی طرح تجھے تو موت بھی قبول نہیں کرے گی ، تو روز مرنے کی آرزو کرے گا ، لیکن موت بھی تجھے نہیں آئے گی ، تو سسک سسک کر مرے گا ، میرا خدا میری بددعا ضرور سنے گا ، اے میرے رب اسے فرعون سے بھی بدترین موت دینا ، اسکی موت ان سب کے لیے جو ان جیسے ہیں عبرت کا نشان بن جائے ، اسے خود پر بڑا فخر ہے ، تو اس کا یہ فخر مٹی میں رول دینا ، تو کہتا ہے ناں ، بددعا سے کچھ نہیں ہوتا ، اب سے الٹی گنتی گننی شروع کر دے ، تو دیکھتا جا میری بددعا میں کتنا اثر ہے ، تو نست و نابود ہو گا ، إنشاءاللّٰه
تو برباد ہوگا ، ایک دن ایسا آئے گا ، تو رونا بھی چاہے گا ، لیکن رو نہیں پائے گا ، تب تمھیں میری دی ہوئی بددعائیں یاد آئیں گی ، ہاں ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب تو مجھے یاد کرے گا ، معافی مانگنے کے لیے مجھے دن رات ڈھونڈے گا “۔۔۔۔۔۔۔۔ عانیہ اسے بددعائیں دیتے اور روتے ہوئے وہاں سے چل پڑی تھی
🌸🌸🌸🌸🌸🌸
( ماضی ))
” عانیہ اپنی دونوں آنکھیں بند کرو ، میں تمھارے لیے کچھ لایا ہوں ، تب تک اپنی آنکھیں نہ کھولنا جب تک میں نہ کہوں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہد نے عانیہ کی آنکھوں پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا
” پہلے بتائیں کیا لائیں ہیں آپ میرے لیے ، پھر اپنی آنکھیں بند کروں گی “۔۔۔۔۔۔۔۔ عانیہ نے بے صبری سے شاہد کا ہاتھ اپنی آنکھوں سے ہٹاتے ہوئے پوچھا ؟
” یار دو پل کے لیے اپنی آنکھیں بند رکھو گی تو ہی دکھاوّں گا ورنہ نہیں دکھاوّں گا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہد نے وہ خوبصورت سا ایک چھوٙٹا سا پیکٹ اپنی کوٹ کی جیب میں واپس رکھتے ہوئے کہا ۔
” اچھا ناں غصہ تو نہ کریں ، کر رہی ہوں میں اپنی آنکھیں بند “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بار عانیہ نے اپنا دایاں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ دیا تھا ۔
” عانیہ تم گیس کرو وہ گفٹ کیا ہو سکتا ہے ، اگر تم ٹھیک سے کیس کر سکی تو میرا وعدہ ہے ایک اور گفٹ بھی دوں گا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہد نے عانیہ کے کانوں کے پاس سرگوشی کرتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔۔۔
” آپ بتائیں ناں میں گیس نہیں کر پا رہی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عانیہ نے لجاجت سے کہا ۔
شاہد نے ایک مخملی ڈبیہ اپنے کوٹ کی جیب سے واپس نکلا کر اسے کھولا تھا ۔
اب کھولوں اپنی آنکھیں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عانیہ نے چند سیکنڈ بعد پوچھا ؟
” نہیں یار ابھی مت کھولنا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے خالی ڈبی پاس رکھی ڈسٹ بن میں ڈالتے ہوئے کہا ۔
” اف ایسا بھی کیا لائے ہیں آپ میرے لیے ، جو پیک کھل ہی نہیں رہا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ دیکھنے کو بے قرار تھی ۔
شاہد نے اٹھ کر سونے کی چین اسکے گلے میں بہت ہی آہستگی سے ڈالی تھی
” اب اپنی دونوں آنکھیں کھول دیں جناب “۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاید نے اسے شانے سے پکڑ کر کھڑا کرتے ہوئے کہا ۔
” واوّ اٹ از بیوٹی فل ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے آنکھیں کھول کر سر کو جھکاتے ہوئے چین پر ہاتھ پھیر کر کہا تھا ، چین واقعی میں بہت ہی خوبصورت تھی ۔ اس چین کے ساتھ ایک خوبصورت سا لاکٹ بھی تھا جس پر ( $ ۔ A ) لکھا تھا ، یعنی عانیہ شاہد ۔۔
“اتنے مہنگے اور خوبصورت گفٹ کی کیا ضرورت تھی “۔۔۔۔۔۔۔ عانیہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی ۔۔۔
” پگلی تمھاری خوشی سے بڑھ کر میرے لیے اور کوئی قیمتی گفٹ نہیں ہو سکتا ، تمھارے چہرے پر جو اس وقت خوشی رقص کر رہی ہے ، اس سے بڑھ کر تو میرے آگے ڈائمنڈ نے بھی اپنی وقعت کھو دی ہے ، یہ چین تو پھر بھی گولڈ سے بنی ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اسکی خوشی کو دل سے محسوس کرتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔
“بہت بہت شکریہ ، آج میں بہت ہی خوش ہوں ، یہ نہیں کہ آپ نے مجھے اتنا مہنگا گفٹ دیا ہے ، اور ایسا بھی نہیں کہ اتنے مہنگے گفٹ میں نے پہلے کبھی استمعال نہیں کیے ، بلکہ اس لیے کہ آج آپ نے مجھے میری اہمیت بتائی ہے ، کہ میں اپکے لیے کتنی اہم ہوں ، یہ بات مجھے بے حد خوشی دے گئی ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عانیہ نے نم آنکھوں اسے دیکھ کر ہلکا سا مسکراتے ہوِئے کہا تھا ۔۔۔۔
” پگلی تمھاری اہمیت میرے دل میں میری دھڑکن جتنی ہے ، اور تم یہ جانتی ہو دھڑکن کے بغیر انسان مردہ ہوتا ہے ، تم میری محبت کے ساتھ ساتھ میری ضرورت بھی ہو ، کچھ دن تک میں آوّں گا ، اپنے مما اور ڈیڈ کے ساتھ ، اپنی دھڑکن کو اپنے دل میں رکھنے کے لیے ، تمھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے گھر لے جانے کے لیے ۔۔۔۔۔۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸
( حال ))
“عانیہ یہ تم نے اپنی کیا حالت بنا رکھی ہے ، اگر کوئی مسئلہ ہے تو مجھ سے شئیر کرو ، میری جان تم ایسی تو نہیں تھی ، آخر تم بتاتی کیوں نہیں ہو کہ آخر تمھیں ہوا کیا ہے ، کیوں تمھاری ایسی حالت ہو گئی ہے ، مجھے اتنا تو بتا دو کہ تم اتنی کیوں پریشان ہو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیلم جو اسکی بسٹ فرینڈ ہونے کے ساتھ ساتھ اسکی خالہ کی بیٹی بھی تھی ، وہ اسکے ہر معاملے سے واقف تھی ، اگر پتہ نہیں تھا تو بس اسی معاملے کا پتہ نہیں تھا ، ورنہ وہ اسکے روز و شب کے ہر معاملے سے آگاہ تھی ، وہ اسے اس حالت میں دیکھ کر کڑھنے کے سوا اور کچھ بھی نہ کر سکتی تھی ۔
” مجھے بددعا دو کہ میں مر جاوّں ، مجھے اب زندگی سے ڈر لگتا ہے ، تم اللہ کی بہت نیک ہو ، میرے لیے بس بددعا کر دو ، میں اس زندگی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہوں ، بہت تھک گئی ہوں اس زندگی سے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عانیہ کا لہجہ اتنا عیجب تھا کہ پاس بیٹھی نیلم کا دل ہول اٹھا تھا ۔۔۔
” اللہ نہ کرے یہ تم کیسی باتیں کر رہی ہو ، کچھ بتاو تو سہی کہ آخر تمھارے ساتھ ہوا کیا ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیلم نے عانیہ کا ہاتھ نرمی سے دباتے ہوئے فکرمندی سے پوچھا ، جس پر وہ بلک بلک کر رو پڑی تھک ۔۔۔
اس کی سفید رنگت ہلدی کی طرح پیلی پڑ چکی تھی ، آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقوں نے گھر بنا لیا تھا ، کھلے بے ترتیب بال ، ایسا لگتا تھا جیسے وہ کئی مہینوں سے سلجھانا بھول چکی تھی ، ملگجے سے کپڑے ، یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ کئی ہفتوں سے نہائی نہیں ہو ، پہلے کی عانیہ اور اب کی عانیہ میں زمین و آسمان کا فرق تھا ، پہلے والی عانیہ کا روز بیوٹی پارلر جانا پسندیدہ مشغلہ تھا ، وہ روز نیا سوٹ پہنا کرتی تھی ، دن میں دو بار وہ اپنے بالوں میں کنگھی کرنے کی عادی تھی ، کپڑوں میں شکن سے بھی اسے الجھن ہوتی تھی ، اسکا رات کے لیے سونے کا ڈریس الگ تھا ، وہ ایک دن میں دو ڈریس پہنتی تھی ، رنگت سفید دودھ کی طرح اجلی تھی ، موٹی موٹی سرمگیں آنکھیں ، پنکھڑی جیسے گلابی ہونٹ ، نرم و ملائم گلابی گال ، اور گالوں کے پاس ہونٹوں کے قریب دونوں اطراف خوبصورت سے بنتے ڈمپل ،
ستون جیسی مغرور کھڑی ناک ، صراحی دار گردن ، اور گردن پر پڑتے تین خوبصورت سے بل جو اسے خوبصورت لوگوں میں بھی ممتاز بنانے میں ثابت قدم تھے ،
اور اب کی عانیہ تو کچھ بھی نہیں تھی ، نہ اس میں کوئی ادا تھی ، روز بیوٹی پارلر جانے کی وجہ سے چہرے پر عمر سے بھی پہلے جھریاں نمایاں ہونے لگیں تھیں
نہ ہی چہرے پر وہ بشاشت تھی ، ہر وقت چہرے پر ہنوز چھائی اداسی ہی ملتی تھی
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
( ماضی ))
“یار بہت جلد میرے والدین تمھارے گھر تمھارا رشتہ لینے آ رہے ہیں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہد نے خوش ہوتے ہوئے عانیہ کو بتایا تھا ،
” کیا آپ سچ کہہ رہے ہیں ، لیکن ہماری فمیلی تو کافی غریب ہے ، اور آپکی فیملی کافی امیر ہے ، تو آپ نے اپنے بابا کو کیسے اتنا جلدی منا لیا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عانیہ نے خوشی محسوس کرتے ہوئے قدرے حیرت سے پوچھا ؟
” دیکھ لو میں اپنے والدین سے کہوں اور وہ نہ مانیں ایسا تو کبھی نہیں ہوا نہ ہی میں ہونے دے سکتا ہوں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اتراتے ہوئے اپنے کالر کو تھوڑا کھڑا کرتے ہوئے کہا ۔
” واقعی مان گئی ہوں میں آپکو اور آپکی محبت کو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عانیہ دل سے مسکراتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔۔۔۔
” اچھا سنو میرا ایک دوست ہے کل تم نے انکے گھر چلنا ہے ، وہ تم سے مل کر بہت خوش ہو گا “۔۔۔۔۔۔۔۔
” لیکن کیوں “۔۔۔۔۔۔۔۔ عانیہ نے کافی حیرانی سے کہا ۔
” سرپرائز ہے یار ، وہاں تم چلو گی تو خود ہی جان جاو گی ، مجھے سرپرائز دینے کا شوق ہے ، اور تجھے جلد جاننے کا تجسس ، لیکن میں پھر بھی پہلے نہیں بتاوّں گا ، ورنہ میرا سرپرائز ختم ہو جائے گا ، اور تیرا تجسس ، بیچ میں سات آٹھ گھنٹے کا وقت ہے ، تب تک میں بھی خوش ہو لیتا ہوں ، اور آپ بھی سوچیں گیس کریں وہ سرپرائز کیا ہو سکتا ہے ، کل ان شاء اللہ آپکو آپکا سرپرائز مل جائے گا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہد نے مسکراتے ہوئے اسکے سر پر چیٹ ماری تھی ،
” گیس کرنے کے بارے میں ، میں بلکل ڈل ہوں ، ٹھیک ہے کل میں یونیورسٹی نہیں جاوّں گی آپکے ساتھ آپکے دوست کے گھر چلیں گے ۔
” اوکے جان کل میں تمھارا انتظار کروں گا ۔۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
” ارے آپکے دوست کی فیملی تو نہیں ہے ، گھر تو خالی پڑا ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی تو گھر بھانت بھانت کر رہا تھا ۔
” تم کو کس نے کہا میرا دوست بھی ہوگا وہاں ، آج کے دن ہم دونوں اپنی لائف انجوائے کریں گے ، میرے دوست کی فیملی یہاں نہیں رہتی ۔
عانیہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو شاہد دروازے پر کنڈی لگا کر اس پر تالا لگا رہا تھا ۔۔۔۔
یہ آپ کیا کر رہے ہیں “۔۔۔ اس نے ڈرتے ہوئے پوچھا ۔
یار تالا لگا رہا ہوں تاکے آج کے دن ہمیں کوئی ڈسٹرب نہ کر سکے ، ہم اپنی لائف خوب انجوائے کریں گے ، پھر تو ہم دونوں کی شادی ہو جائے گی پھر ایسے خوبصورت دن کہاں نصیب ہوں گے ، وہ اسے شانوں سے تھامے کمرے میں لے گیا تھا ، جہاں شیطان بیٹھا ان دونوں کو ویلکم کر رہا تھا ، پھر ان دونوں کے بیچ وہ ہو گیا تھا جو نہیں ہونا چاہیے تھا ۔۔
” یہ کیا ہو گیا مجھ سے ، ایسا تو نہیں ہونا چاہیے تھا ، اب ایسا کرو جلدی سے اپنے والدین کو ہمارے گھر بھیجو ، تاکے جلدی سے ہماری شادی ہو سکے ، کہیں ایسا نہ ہو دیر ہو جائے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عانیہ نے روتے ہوئے شاید سے کہا ۔
” یار میں خود بھی کافی پریشان ہوں ، ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا ، لیکن تم فکر مت کرو میں جلد ہی اپنے والدین کو آپکے گھر بھیجتا ہوں رشتے کے لیے ، باقی ہم سے گناہ ہوا ہے اسکے لیے ہم الله سے توبہ کر لیں گے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے بھی آنکھوں میں آئے آنسو اپنے کف سے پونچھتے ہوئے کہا تھا ، پھر اس نے ٹائم کا اندازہ لگانے کے لیے گلی کو کھلتی ونڈو کی طرف حیرت سے دیکھا ، جہاں اسے ہلکا ملگجا سا اندھیرا محسوس ہوا تھا ، اس نے جلدی سے بیڈ سے نیچے اتر کر ونڈو سے ہکا سا پردہ کھسکا کر باہر دیکھا تو ایک لمحے کے لیے اسکا دل تیزی سے دھڑکا تھا ، واقعی باہر تو ہلکا ہلکا سا اندھیرا تھا ، جیسے عصر کا ٹائم ہو ،
شاہد نے اضطرابی کیفیت میں اپنے ہاتھوں پر بندھی واچ کو دیکھا ، جہاں گھڑی کی سوائیاں دن کے پانچ بجا رہی تھی ، مطلب ان کو اس گھر میں آئے آٹھ گھنٹے بیت چکے تھے ، یہ آٹھ گھنٹے کیسے گزرے کچھ پتہ ہی نہیں چلا ، وہ بے یقینی سے آنکھیں پھاڑے اپنی واچ کو دیکھ رہا تھا ، جیسے اسے یقین ہی نہیں ہو کہ واقعی میں اتنا ٹائم بیت چکا ہے ،
” عانیہ ذرا اپنے موبائل پر وقت دیکھ کر بتاو کہ کیا ٹائم ہوا ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہد نے حیرت بھرے لہجے میں عانیہ سے کہا پھر اسکی طرف گردن موڑے اسے دیکھا ، جو کب سے سر جھکائے آنسو بہا رہی تھی ۔۔۔۔ شاہد کی آواز نے اسکا تسلسل توڑا تو اس نے حیرت سے پہلے شاہد کو دیکھا ، پھر اپنے بیڈ پر پڑے موبائل کو اٹھا کر اس پر ٹائم دیکھا تھا ، اسکی آنکھیں بھی ایک لمحے کے لیے ساکت ہوئیں تھیں ، دل یکباری سے دھڑکا تھا ، وہ آنکھیں پھاڑے موبائل کی جانب دیکھ رہی تھی ، اسے تو جیسے ہوش ہی نہ ہو
” پانچ ، 5 “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کافی لمحوں بعد جواب دینے کے قابل ہوئی تھی ، اس نے مختصر جواب دے کر اپنے موبائل کو دوبارہ بیڈ پر اچھال کر ایک بار پھر سے سر جھکائے اپنے پسندیدہ کام یعنی رونے میں مشغول ہوگئی تھی
” پہلے تو تم یہ رونا بند کرو ، اکتا گیا ہوں میں تمھارے اس رونے کے ڈرامے سے ، میں بھی نادم ہوں ، شرمندہ ہوں اپنے کیے پر ، جو ہوا ہے وہ بلکل غلط ہوا ہے اسے نہیں ہونا چاہیے تھا ، میں بھی اس بات کو تسلیم کرتا ہوں ، لیکن اب کیا ہو سکتا ہے ، جو ہونا تھا ، وہ تو ہو گیا ناں ، اب رونے سے کیا فائدہ
ایسا کرو جلدی سے اٹھو میں تمھیں تمھاری امی کے گھر چھوڑ آتا ہوں ، ٹائم بھی کافی ہو گیا ہے ، وہ تمھاری رہ دیکھ رہے ہوں گے ، تم روز تین بجے گھر جاتی ہو ، اور اب پانچ بج چکے ہیں ، دو گھنٹے تم لیٹ ہو چکی ہو ، کہیں اور دیر نہ ہو جائے ، سب گھر والے بھی پریشان ہوں گے ، تم فکر مت کرو ، میں ایک دو دن کے اندر ہی اندر میں اپنے والدین کو بھی رشتے کے لیے لے کر آتا ہوں ، پھر سب ٹھیک ہو جائے گا ، ان شاء اللہ “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہد نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے چپل اپنے پیروں میں اڑاستے ہوئے کہا ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸
پھر کافی سارے دن گزر گئے تھے وہ رشتے کے لیے آنا تو دور کی بات وہ تو شاید اس بات کو ہی بھول چکا تھا ۔۔ عانیہ کافی پریشان تھی جوں جوں دن بڑھتے جا رہے تھے اسکی مصیبتوں میں بھی اضافہ کرتے جا رہے تھے ، بیٹھے بیٹھے سر چکرانے لگتا تھا ، کچھ کھاتی تو الٹی آنے لگتی تھی ، ہر جیز سے سمیل آنے لگتی ، عانیہ کی مستقل ایسی حالت دیکھ کر اسکی امی (( حمیدہ )) اسے ہسپتال لے گئیں تھیں ، جب لیڈی ڈاکٹر نے اسے ماں بننے کی مبارک باد دی تو حمیدہ کے سر پر جیسے ہسپتال کی ساری عمارت آ گری تھی ، وہ تو ہوش سے بھی بیگانی ہونے لگی تھی ۔۔۔۔۔ وہ ہونق بنی ڈاکٹر کی باتیں سننے لگیں ، جو عانیہ کو مکمل بیڈ ریسٹ کا بول رہی تھی ، حمیدہ کے صبر کا جب پیمانہ لبریز ہوا تو اس نے لیڈی ڈاکٹر کی بات تیزی سے کاٹتے ہوئے غصیلے لہجے میں کہا ۔۔۔۔
” ارے ڈاکٹر صاحبہ یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں ، میری بچی ماں بننے والی ہے ، ایسا کیسے ہو سکتا ہے ، میری بچی تو بہت معصوم ہے ، آپ جھوٹ کیوں بول رہی ہیں ، میری بچی ایسا کچھ نہیں کر سکتی یہ تو ابھی کنواری ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے حیرت بھرے تاثرات لیے دھڑکتے دل کے ساتھ قدرے غصیلے لہجے میں ڈاکٹر کو دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔۔
” بی بی یہ کیسے ہو سکتا ہے ، ریپورٹ میں صاف آ چکا ہے ، شی از پریگنٹ ، اور آپ کہہ رہی ہیں آپکی بچی کنواری ہے ، ماں باپ کے لیے ہر بچہ معصوم ہی ہوتا ہے ، چاہے وہ کتنا بد چلن ہی کیوں نہ ہو ، آپکی اس معصوم بیٹی نے جو کام کیا ہے ، وہ اس ریپورٹ میں بھی آ چکا ہے کہ وہ کتنی معصوم ہے ، اور دوسری بات میں ڈاکٹر ہوں آپ سے کیوں جھوٹ بولوں گی ، میری کیا دشمنی ہے آپکے ساتھ یا آپکی بیٹی کے ساتھ “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر نے غصیلے لہجے میں طنز کے تیر چلاتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ عانیہ سر جھکائے رونے میں مصروف تھی ۔۔۔۔۔
” تم کچھ بولتی کیوں نہیں ہو جو یہ ڈاکٹر کہہ رہی ہے کیا یہ سچ ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حمیدہ کے صبر کا پیمانہ واقعی میں لبریز ہو چکا تھا ، دوسرا عانیہ کا رونا اور خاموش رہنا اسے مزید سلگانے کے لیے کافی تھا ۔۔۔
” بول کلموہی ، تو نے کس کے ساتھ منہ کالا کیا ہے ، یہ دن دکھانے کے لیے تو پیدا ہوئی تھی ، تو پیدا ہوتے ہی مر کیوں نہیں گئی تھی ، اگر مجھے پتہ ہوتا تو بڑی ہو کر یہ دن دکھائے گی ، تو خدا کی قسم ، اسی وقت تیری گردن اپنے ہاتھوں سے دبا لیتی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی ماں نے روتے ہوئے ڈاکٹر کے سامنے ہی اسے مارنا شروع کر دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
” ارے یہ آپ کیا کر رہی ہیں ، کوئی جوان بچوں پر بھی ہاتھ اٹھتا ہے کیا ، چھوڑیں اسے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر نے آ کر اس کا ہاتھ روکتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔
” میں کس کس کے منہ پر ہاتھ رکھوں گی ، کس کس سے کہوں گی ، میری بچی معصوم ہے ، تو پیدا ہی کیوں ہوئی تھی ، کاش تجھے پیدا ہوتے ہی موت آ جاتی تو آج مجھے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا ، تو یہ دن دکھانے کے لیے پیدا ہوئی تھی ، تو پیدا ہوتے ہی مر کیوں نہیں گئی تھی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بین کرتے ہوئے ساتھ ہی ساتھ اسے مار بھی رہی تھی ۔۔۔۔۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
وہ صبح ہی صبح اٹھی آج اس نے ہر حال میں شاہد سے ملنا تھا ، چاہے اس کے لیے اسے اپنی جان سے ہی کیوں نہ کھیلانا پڑے ، اس سے پوچھنا تھا کہ وہ رشتہ لے کر ابھی تک کیوں نہیں آیا ، وہ چوری چھپے گھر سے نکل کر انکے گھر چل پڑی تھی ، وہ جیسے ہی انکے گھر پہنچی تو صبح ہی صبح انکے گھر کافی گہما گہمی تھی ، کوئی آ رہا تھا تو کوئی جا رہا تھا ، وہ سب سے نظریں بچاتے ہوئے انکے گھر کے اندر داخل ہو گئی تھی ۔۔۔۔
” ارے ارے کون ہو تم ، اور بنا کسی سے پوچھے گھر میں کیوں گھسے چلی جا رہی ہو”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچن میں کھڑی ایک عورت نے اسکا راستہ روکا تھا ۔۔۔
” دیکھیں میں اس وقت کافی پریشان ہوں ، مجھے شاہد سے ملنا ہے ، اسکا پتہ بتا دیں ، آپکی بڑی مہربانی ہو گی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے روتے ہوئے سامنے کھڑی اس عورت سے کہا ۔۔۔۔
” ارے تم میرے بیٹے کو کیسے جانتی ہو “۔۔۔۔۔۔۔۔ اس عورت نے حیرت بھرے تاثرات لیے عانیہ سے پوچھا ؟
پھر عانیہ نے وہی کھڑے کھڑے اپنی اور شاہد کے درمیان ہونے والی ساری باتیں اسکی ماں سے کہہ دیں تھیں ۔۔۔۔
” ارے تم ہو کون اور کیوں اس طرح جھوٹ پر جھوٹ بولے جا رہی ہو ، میں تو تمھیں جانتا بھی نہیں ہوں ، اور یہ کیسی بکواس کر رہی ہو ، کل میری اپنی پسند سے شادی ہو چکی ہے ، اور آج تم بد شگونی پھیلانے آ گئی ہو ، تمھاری ہمت کیسے ہوئی میرے گھر کی دہلیز پار کرنے کی ، ہماری روایایت نہیں گھر میں آئے مہمان کی بے عزتی کرنا ، اس سے پہلے کہ میں اپنی روایایت بھول جاوّں اور تمھیں دھکے دے کر اس گھر سے نکال دوں ، جس طرح تم نے اس گھر کی دہلیز پار کی ہے ، اسی طرح خاموشی سے خود ہی یہاں سے چلی جاو ، یہ تمھارے لیے بہتر ہوگا “۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہد نے عانیہ کی بات سن کر پتھرائے ہوئے لہجے میں بڑی ہی کرختگی سے کہا ۔۔۔
” شاہد تم جھوٹ کیوں بول رہے ہو ، تم نے مجھ سے پرامس کیا تھا ، کہ تم اپنے والدین کو ہمارے گھر رشتے کے لیے لاوّ گے ، اور ہم بہت جلدی شادی کر لیں گے اپنے والدین کی موجودگی میں ، اور آج تم کہہ رہے ہو یہ سب جھوٹ ہے ، تم ایسا کیوں کر رہے ہو ، اگر تم مجھ سے ناراض ہو ، تو بتاو میں تم سے معافی مانگ لیتی ہوں ، لیکن ایسا نہ کرو میرا اور کوئی نہیں ہے تمھارے سوا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عانیہ نے فورا اپنے دونوں ہاتھ اسکے سامنے جوڑتے ہوئے بے بسی سے کہا ۔۔۔
” زیادہ بکواس نہیں کرو ، میں تمھیں جانتا تک نہیں ہوں ، اور تم بکواس پر بکواس کر رہی ہو ، اس سے پہلے میں تمھیں دھکے دے کر نکال دوں ، خود ہی چلی جاو ، تم ایک نا محرم عورت ہو اور میں نہیں چاہتا کہ ایک نا محرم عورت کو ہاتھ بھی لگاوّں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہد نے اسکی طرف پشت کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
” دیکھو شاہد خدا کے لیے ایسا مت کرو ، میں تمھارے بچے کی ماں بننے والی ہوں ، مجھ پر نہیں تو کم سے کم اپنے ہونے والے بچے پر ہی ترس کھا لو ، اگر تم نے بھی اسے نہیں اپنایا تو دنیا والے اسے جینے نہیں دیں گے ، میں تمھارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں ، خدا کے لیے اپنے بچے کو اپنا لو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں ہاتھ باندھے ضبط کی آخری سیڑھی پر کھڑی تھی ۔۔۔
” تم ایسے نہیں مانو گی ، تمھیں دھکے دے کر گھر سے نکالنا ہی پڑے گا “۔۔۔۔۔۔
پھر شاہد نے عانیہ کو دھکے دیتے ہوئے گھر سے نکل کر دروازہ بند کر دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اسکی ماں افسوس بھری نظروں سے اسے دیکھتی رہی ۔۔۔
” میری بددعا ہے تمھیں اولاد کا سکھ کبھی نصیب نہیں ہوگا ، تم نے اپنی اولاد کو ماننے سے انکار کر دیا ہے ناں جو میرے پیٹ میں پل رہی ہے ، میرا رب تمھیں کسی اور کے پیٹ سے بھی اولاد کبھی نہیں دے گا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ دروازے کے باہر کھڑی گڑگڑا رہی تھی
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
(( بہت سالوں بعد ))
” سوری آپکی بیوی کبھی ماں نہیں بن سکتی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکمل چیک اپ کرنے کے بعد ڈاکٹر نے جو انکشاف انہیں بتایا تو اسکے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی تھی ، پھر اس نے اسی اولاد کے لیے غیر ممالک تک سے علاج کروایا تھا لیکن اسے اولاد نہیں ہوئی ، پیروں فقیروں سے منت مانگی ، پھر بھی اسے اولاد کا سکھ نصیب نہیں ہوا ، پھر کسی کے ریفرنس سے ایک الله والے بابا سے پتہ کیا تو اس نے کہا تم پر کسی کی بددعا کا اثر ہے ، تم کسی کی بددعا کے زیر اثر ہو ، تب ہی کئی سالوں پہلے والا واقعہ شاہد کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا تھا ، اسے تو عانیہ کی بددعا کھا گئی تھی ، وہ تو بددعا کو مانتا ہی نہیں تھا ، یہ کیسا اثر چل رہا تھا اس پر ، تب ہی اس نے فیصلہ کیا کہ عانیہ کو ڈھونڈ کر اس سے معافی مانگے گا ، اور اسے ہمیشہ کے لیے اپنا لے گا ، اب اسے ڈھونڈنا اس کا مشن بن گیا تھا ، اسکی ماں کے گھر گیا تھا اسے ڈھونڈنے ، وہاں سے بھی کوئی سراغ نہ مل سکا تھا ، اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک سال بیت گیا تھا ، اسکی راتوں کی نیند اڑ چکی تھی ، وہ الله سے گڑگڑا کے توبہ کرتا تھا ، بیٹھے بیٹھے رونے لگ جاتا تھا ، عانیہ عانیہ چیخنے لگتا تھا ، اسکی اس حالت ایک دیوانے جیسی بن گئی تھی ، کھانے پینے کا ہوش تک بھول چکا تھا ، یاد تھی تو بس عانیہ یا اسکی بددعائیں ، اسکے سب گھر والے اسکی وجہ سے کافی پریشان تھے ، اسکی ماں نے جب اسکی یہ حالت دیکھی تو عانیہ کو اپنے خیفہ ٹھکانے سے اپنے گھر لے کر آئی تھی ۔۔۔۔۔
” لو سنبھالو اپنی عانیہ کو ، اب اسے کہیں مت جانے دینا ، میں تیرے نکاح کا بندوبست کرتی ہوں ، میری جان اگر تم نے اسی دن اسے اپنا لیا ہوتا تو آج تم ایسے ریشان نہ ہوتے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” ارے مما آپکو یہ کہاں سے ملی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہد نے حیران ہوتے ہوئے ماں سے پوچھا ۔۔۔۔۔
” میری جان میں تمھاری ماں ہوں ، تجھے نو ماہ اپنے پیٹ میں رکھا ، جب تم کو پیٹ کے اندر بھوک لگتی تھی اس وقت مجھے بھی پتہ چل جاتا تھا کہ میرے بچے کو بھوک لگی ہے ، اب تم ماشاءاللّٰه جوان ہو گئے ہو تو کیا اب مجھے پتہ نہیں چلے گا ، کہ تم جھوٹ بول رہے ہو یا سچ ، جس دن وہ لڑکی تیرے پاس آئی تھی اپنا حق مانگنے اسکی اور تیری باتوں سے ہی مجھے پتہ چل گیا تھا ، کہ وہ لڑکی سچ اور تم جھوٹ بول رہے ہو ، میں اس ٹائم بلکل خاموش رہی تھی پتہ ہے کیوں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے شاہد اور عانیہ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا ، شاہد بھی حیران نظروں سے ماں کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔
” کیوں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کچھ لمحوں بعد مختصر کہا
” کیوں کہ تمھیں بددعاوّں پر یقین نہیں تھا ، ارے میرے بچے مظلوموں کی بددعا میں بڑی طاقت ہوتی ہے ، وہ تو عرش چیر کر رب کے پاس جاتیں ہیں ، اور رب مظلوموں کی بڑی جلدی سنتا ہے ، اب تمھیں بھی اندازہ ہو گیا ہوگا کہ بددعا میں کتنا اثر ہوتا ہے ، سچائی میں دی ہوئی بددعا میں بڑا اثر ہوتا ہے ، وہ لڑکی سچی تھی اسکی بددعا نے تمھاری زندگی برباد کر دی ہے ، مجھے اسکی آنکھوں میں آئے آنسو نے ساری سچائی بتا دی تھی ، اس لیے تیرے نکالنے کے بعد میں اسکے پاس گئی تھی ، اسے بہو نہیں بلکہ بیٹی سمجھ کر اپنے دوسرے گھر میں رہنے کے لیے جگہ دے دی تھی ، اور ہر مہینے اسکی ہر ضروریات کی اشیاء اسے لے کر دیتی تھی ، اسے ہر مہینے اچھی خاصی رقم بھی دیتی تھی ، اسے اس گھر میں رہتے ہوئے شاید پانچ سال ہو چکے ہیں ، یا اس سے بھی کچھ زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں نے مسکراتے ہوئے اپنی بہو اور اپنے بیٹے کو دیکھا ۔
” مما آئی لو یو ، مجھے اب احساس ہوگیا ہے اور بددعا پر یقین بھی “۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہد نے ماں کو گلے لگاتے ہوئے کہا ۔
” آئی لو یو ٹو میری جان ،
اب جلدی سے نکاح کی تیاری کرو ، تمھاری پہلی بیوی اس گھر میں رہے گی ، اور دوسری اس گھر میں جہاں وہ اب تک رہ رہی تھی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر اس کا دو دن کے بعد نکاح کر دیا گیا تھا ، تب اللہ نے شاہد پر رحم کیا تھا ، اب پہلی بیوی کو بھی الله نے اولاد دی ہے ، دوسری بھی پریگنٹ تھی ۔۔۔
ختم شد
by RH | Jan 6, 2024 | عمومی کہانیاں, ناولز
انابیہ خان
“ماں میں تھک گیا ہوں آپکی روز کی دوائیاں لاتے لاتے ، میرے پاس قارون کا خزانہ نہیں ہے ، جو آپ پر لٹاتا رہوں ، آخر میں بھی تو انسان ہوں میرے بھی آخراجات ہیں ، کہاں سے لاوّں میں اتنے پیسے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے اپنی ماں کی کھانستی ہوئی حالت پر بھی ترس نہ آیا تھا ، وہ کھانستے کھانستے نیم جان ہو چکی تھی ، وہ اول فول بکتے گھر سے نکل پڑا تھا ۔۔۔۔
اس نے پیچھے مڑ کر دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیا کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں
“جگر کیوں پریشان بیٹھا ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسد کے دوست نے اسے پریشان حالت میں بیٹھے دیکھ کر پوچھا ؟
“یار آج کل کی مہنگائی کے بارے میں تجھے پتہ تو ہے ، اوپر سے ماں کی روز کی دوائی لیتے لیتے آخری دنوں میں میری جیب میرا ساتھ چھوڑ دیتی ہے ، مجھ سے روز روز کی دوائیاں نہیں لی جاتیں ، سوچ رہا ہوں ماں کو کسی اولڈ ہاوّس چھوڑ آوّں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسد نے اپنی پریشانی اپنے جگری دوست کے سامنے عیاں کی تھی ۔۔۔۔
“ارے میرے جگر کیوں پریشان ہوتا ہے ، ہمارے اس ملک میں بھی ، دوسرے ممالک کی طرح ، ایسے ادارے موجود ہیں ، جہاں ان بوڑھے ماں باپ کو چھوڑا جا سکتا ہے ، تو چل میرے ساتھ جہاں پر میرے ماں باپ رہتے ہیں ، وہیں پر تیرا بھی بندوبست کروا دیتا ہوں ، پھر ساری زندگی مزے سے جینا جس طرح میں جی رہا ہوں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایان نے اپنے فرضی کالر جھاڑتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔۔
پھر دونوں دوست نے موٹر سائیکل اسٹارٹ کر دی تھی
“ٹھیک ہے آپ اپنی ماں کو یہاں لے آئیں ، یہ ادارے بنائے ہی اس لیے گئے ہیں ، آپ بس ایسا کریں اپنی ماں کی کو تصویر دکھا دیں ، تاکے کل کو کوئی مسئلہ نہ کھڑا ہو جائے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مینجر نے کہا جو کچھ دن پہلے ایان کا دوست بنا تھا ۔
اسد نے فوراً اپنی جیب سے موبائیل نکل کر اپنی ماں کی تصویر انہیں دکھائی تھی ، اس مینجر کے پاس ایک برزگ بھی بیٹھا تھا جو شاید اس مینجر کا باپ تھا ، اس برزگ نے موبائل سے اس کی ماں کی تصویر دیکھی تو چند لمحے اس تصویر کو دیکھتا رہا ، جیسے اس تصویر والے کو پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو ،
” کیا یہ آپکی ماں ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس برزگ نے اسے پہنچانتے ہوئے پوچھا ،
اسد نے سر اثبات میں ہلایا ۔
” آج سے بیس سال پہلے ، اس عورت نے ، اس ادارے سے ایک یتیم بچا اڈاپٹ کیا تھا ، کہیں وہ بچہ آپ تو نہیں ، کیونکہ اس عورت کی اور تو کوئی اولاد نہیں تھی ، مجھے تو لگتا ہے وہ بچہ آپ ہی تھے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس برزگ نے جیسے ہی یہ لفظ ادا کیا تو اسد کے پیروں سے زمین سرکی ، اور سر پر جیسے آسمان آ گرا ہو ، اس ادارے کی ساری عمارت اس کے ناتواں کندھوں پر آ گری تھی ، وہ برزگ کیا کہہ رہا تھا ، اس نے تو کچھ اور سنا ہی نہیں تھا ، وہ وہاں سے بھاگتے ہوئے گھر کی طرف چلا گیا تھا ، اسے تو موٹر سائیکل لینا بھی بھول گیا تھا ، اس نے باقی کا سفر روتے ہوئے اور الله سے توبہ کرتے ہوئے گزارا تھا ، وہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوا
ماں سامنے چارپائی پر بے سدھ پڑی ہوئی ملی تھی اسے ۔۔۔
وہ ماں ماں پکارتے ہوئے اسکے قریب آیا تھا ۔
” ماں آنکھیں کھولیں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے جیسے ہی ماں کے سر کو ہلایا تو اس کا سر لڑکھڑاتے ہوئے دوسری طرف ڈھلک گیا تھا ، وہ آنکھوں میں آنسو لیے اسے پکارتا رہا ، پر اسکی ماں نے کوئی جواب نہ دیا تھا ۔۔۔۔۔۔
وہ تو خلق حقیقی سے جا ملی تھی اسکے لیے ساری زندگی کا پچھتاوّا چھوڑ کر ۔۔۔۔۔۔
by RH | Jan 6, 2024 | عمومی کہانیاں, ناولز
انابیہ خان
“میں کہاں سے لاوّں اور پیسے ، جو بھی تھے آپ کے حوالے کر دیے ہیں ” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ عاجزی سے بولی تھی ۔۔۔
“مجھے کچھ نہیں سننا مجھے 80 ہزار ہر صورت چاہیے کیونکہ مجھے موٹر سائیکل لینی ہے” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کرختگی سے بول کر اس کا پرس چیک کرنے لگا تھا ۔۔۔۔
“آج پانچ تاریخ تھی ، تو یکم کو تمہیں تمھاری تنخواہ ملی ہو گی کس یار پر لوٹائے ہیں اتنے پیسے ” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے اپنی بیوی کو تھپڑ مارتے ہوئے پوچھا ؟؟
“پچھلی بار تمہیں دکان پر لوس ہوا تھا ، میں نے اپنی کولیگ سے پیسے ادھار لے کر تمہیں دیے تھے ، تو اس بار اس کولیگ کو بھی تو وہی پیسے لوٹانے تھے ، میں نے کچھ پیسے اسے دیے ہیں کچھ بجلی کا بل بھرا ہے ، اور کچھ کا مہینے کا راشن لیا ہے ، تو سب مل ملا کے میری تنخواہ پوری ہو گئی ہے ، تو میں اور کہاں سے لاوّں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنے گال پر ہاتھ رکھے روتے ہوئے بولی تھی ۔
“مجھے اور کچھ نہیں سننا مجھے ہر حال میں کل تک 80 ہزار روہے چاہیں تو بس چاہیں ” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے سر اٹھا کر اس جابر کو دیکھا جو اپنی ڈیمانڈ بتاتے ہوئے اسے ذہنی اذیت میں ڈال کر گھر سے باہر چلا گیا تھا
“بیٹی کیا بات ہے میں کافی دیر سے دیکھ رہی ہوں تم کچھ پریشان ہو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جب سے ماں کے گھر ان سے ملنے آئی تھی تب سے کھوئی کھوئی سی تھی ، اور ماں تب سے اپنی بیٹی کو کڑھتے ہوئے دیکھ رہی تھی ، وہ ماں تھی ناں ، سمجھ تو چکی تھی کہ اس کی لاڈلی کچھ پریشان ہے ، اسے کیا پریشانی تھی ماں کو یہ پریشانی کھائے جا رہی تھی ۔
“کچھ نہیں مما “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مصنوعی ہنسی ہونٹوں پر سجائے ہوئے بولی تھی ، اس کی آنکھوں میں چھپا کرب ماں بخوبی جان چکی تھی
” اب میری بیٹی اتنی بڑی ہو گئی ہے ، وہ اپنی ماں سے اپنے دکھ درد اور غم چھپانے لگی ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں نے اس کے بال کانوں کے پیچھے اڑاستے ہوئے شکوہ کیا
وہ ماں کی محبت پاتے ہی ایک نئے سرے سے بکھر گئی تھی
” ماں اس نے ہولے سے پکارا “۔۔۔۔۔۔
“جی ماں کی جان “۔۔۔۔۔۔
ماں نے اس کے قریب آ کر بڑے پیار سے کہا ۔۔۔۔
“میں بہت تھک گئی ہوں ، اس زندگی سے اور اس زندگی سے جڑے ہر ایک رشتے سے”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کرب کی آخری حد پر تھی تب ہی تھکے تھکے لہجے میں بولی ۔
“کیا بات ہے میری جان تم اب سے تھکنے لگی ہو یہ زندگی تو چٹان کی مانند سخت ہے تم اب سے تھکنے لگی تو آگے تیرا کیا ہو گا “۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔ ماں نے اسے گلے سے لگا کر ماتھے پر شفقت بھرا بھوسہ دیتے ہوئے پوچھا ؟
“ماں میری شادی کو دس سال ہو گئے ہیں ، اور مجھے جاب کرتے پندرہ سال “۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کھوئے کھوئے سے لہجے میں کہا ۔
ماں اس کے پاس رکھی کرسی پر بیٹھتے ہوئے اسے دیکھنے لگی جو آنکھیں میچے جانے کس اذیت سے دو چار تھی ۔۔۔۔
“تمہارے ساتھ کیا ہوا ہے میری جان تم کچھ بتاتی کیوں نہیں ہو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں کا دل ڈوب رہا تھا اپنی نازوں پلی بیٹی کو اس حال میں دیکھ کر
“ماں آخر کب تک یہ حوا کی بیٹی یوں ہی خوار ہوتی رہے گی آدم کے بیٹے کے پیچھے “۔۔۔۔۔۔ اس نے ٹھنڈی سانس خارج کرتے ہوئے کہا ۔
“کیا ہوا ہے تم بتاو گی تو ہی کچھ اس بات کا حل نکلا جائے گا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ماں میں یہ جاب چھوڑنا چاہتی ہوں “۔۔۔۔۔۔۔ اس کی آنکھِیں پانی سے بھر گئیں ۔
“تو گزارا کیسے ہو گا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں نے فکرمندی سے پوچھا ؟
“ماں مجھے آپ سے مشورہ چاہیے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کیسا مشورہ میری جان “۔۔۔۔۔۔۔۔
“جاب چھوڑوں ، یا احمد کو ، کیونکہ اب میں تھک چکی ہوں اس کی فرمائشیں پوری کرتے کرتے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ روتے ہوئے بولی ۔
“تم پاگل تو نہیں ہو گئی ہو ، جو ایسی بہکی بہکی باتیں کر رہی ہو ، اور نا ہی تم اس دنیا کی واحد لڑکی ہو ، جس کے ساتھ یہ سب ہوا ہے ، تم نے نجمہ کی بہن کو نہیں دیکھا ، سارے جاب کے پیسے اپنے نکمے شوہر کے حوالے کرتی ہے ، اس کا شوہر جوا کھیل کر سارے ہیسے اڑا دیتا ہے ، ایک ایک پائی کا محتاج بنا دیا اس نے اس بے چاری کو ، اس سب کے باوجود وہ اپنے شوہر کے پاس پڑی ہے ، اس کی پوری فیملی کے تانے الگ سنتی ہے ، مار الگ کھاتی ہے ، اس نے تو کبھی ایسی بات نہیں کیں ، تمہیں کوئی مار نہیں ہے ، تانے نہیں ہیں ، پھر بھی اسے چھوڑنے کی باتیں کر رہی ہو ، طلاق شدہ عورت کتنی اذیت سے میں ہوتی ہے ، تمہیں کیا پتہ ، اور اس بارے میں کبھی سوچنا بھی مت ، اگر تم جاب چھوڑو گی تو کیسے گزارا کرو گی ، ہم بھی اتنے امیر نہیں کہ تمہاری مدد کر سکیں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ غصے سے بولتے ہوئے کمرے سے باہر چل پڑی
وہ افسردگی سے انہیں جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی
” میرے دل سے تو کوئی پوچھتا ہی نہیں کہ تم کس اذیت میں ہو ، کیا یہ کام آدم کے بیٹے کا نہیں ہے ، اللہ نے تو نان نفقہ مرد کے ذمے لگایا ہے ، تو کوئی ان مردوں سے کیوں نہیں پوچھتا ، کیوں یہ حوا کی بیٹیوں پر ظلم و ستم کرتے نہیں تھکتے ، کیوں یہ جاب کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں ، جب یہ نان نفقہ نہیں اٹھا سکتے تو شادی کیوں کرتے ہیں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب تک حوا کی بیٹی کوئی قدم نہیں اٹھائے گی ، تب تک وہ یوں ہی آدم کے بیٹے کے ہاتھوں خوار ہوتی رہے گی ۔ ذلیل ہوتی رہے گی
ختم شد
by RH | Jan 4, 2024 | عمومی کہانیاں, ناولز
انابیہ خان
“ناچوں میں آج چھم چھم چھم
کہ ناچوں میں آج چھم چھم چھم ۔۔۔
اوپر چھت پر فل والیم ڈیک چل رہا تھا ، جس پر حسینہ اپنے موٹے جسم کو نچا کم ہلا زیادہ رہی تھی ۔۔
“ابے موٹی جس دھرتی پر کھڑی تو ناچ رہی ہے ناں ، وہ بے چاری توبہ توبہ کر رہی ہو گی ، اور وہ تجھے جھولی بھر بھر کے بددعائیں دے رہی ہو گی ، کچھ تو خدا کا خوف کر لے ، کیوں کسی کی اتنی بددعا لے رہی ہے ، مت لے دھرتی ماں کی بددعا ، نہیں تو اس بھری جوانی میں ہی اس دھرتی ماں سے کوچ کر جائے گی تو “۔۔۔۔۔۔۔۔
دلکش جو کہ ان کا دیوار شریک ہمسایہ تھا ، اس کی اور حسینہ کی آپس میں کبھی نہیں بنی تھی ، وہ اپنی مشترکہ اکلوتی دیوار پر بیٹھا اپنے بڑے بڑے دانت نکالے اسے ناچتے ہوئے دیکھ رہا تھا ، پھر کچھ سوچتے ہوئے بولا
“ویسے آپس کی بات ہے تمہاری جوانی ہے کہاں ، مجھے تو کہیں سے بھی نظر نہیں آ رہی ، کمبخت تیرے اس موٹاپے نے تجھ سے تیری جوانی ہی چھین لی ہے ، بائیس کی ہوتے ہوئے پچاس کے لگ بھگ کی تو نظر آتی ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔
“دلکش مجھے تنگ مت کرو ، چلے جاوّ یہاں سے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ایک پل کے لیے رک کر اسے دیکھتے ہوئے غصییلے لہجے میں بولی ۔
“ابے موٹی اگر میں نہ گیا ، تو تو کیا کر لے گی ، بھاگ تو ویسے تو سکتی نہیں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے بڑے بڑے دانت نکالتے ہوئے پوچھا ۔ ؟
” مجھے مت غصہ دلایا کر ، مجھے ایسا لگ رہا ہے ، یہ جو تیرے بڑے اور پیلے دانت ہیں ناں ایک دن مجھ سے ہی ٹوٹیں گئے ، اور یہ جو تمہاری چند گنی چنی ہڈیاں اور پسلیاں ہیں ناں وہ بھی میرے ہی ہاتھوں ضائع ہوں گی ، تو لکھ لے آج میری اس بات کو ، ہزار بار کہا ہے ، میرے سامنے ان لمبے اور پیلے دانتوں کو مت نکلا کرو ، زاہر لگتے ہو مجھے اپنے پیلے دانتوں کی یر وقت نمائش کرتے ہوئے “۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ شعلہ بار نظروں سے اسے دیکھ کر اس کے پتلے پن پر چوٹ مارتے ہوئے بولی ۔
وہ تھا بھی تو بے حد سوکھا پتلا سڑیل سا ایک نوجوان ، بالکل ایک سوکھی لکڑی کی طرح ، جو دھوپ پر ڈالنے کی وجہ سے مزید سوکھ جاتی ہے کمزوری کی وجہ سے اس کے دانت باہر کو نکلے ہوئے تھے
“میں نے تو کبھی تم سے نہیں کہا ، کہ اپنا یہ موٹاپا مجھ سے کہیں چھپا لیا کرو ، میرے سامنے اپنے اس پستہ قد اور رات کی طرح سیاہ رنگت کے ساتھ نظر نہ آیا کرو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اپنی بے عزتی کا بدلہ لیتے ہوئے اپنے بڑے بڑے دانتوں کا ایک بار پھر سے مظاہرہ کراتے ہوئے کہا ۔
“نام دیکھو دلکش اور چہرہ دیکھو ؟ مجھے تو کہیں سے بھی دلکشی نظر نہیں آ رہی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے جل بھن کر کہا ۔
“ہاہاہاہا اور اپنا نام دیکھو حسینہ ، الله ہو اکبر ، ایسی ہوتی ہے موٹی حسینہ ، پستہ قد ، چارپائی کے پائے جتنا ، موٹاپا وہ بھی بھنیسوں جتنا ،
اور رنگت چیری بلاسم جیسی ، اگر ایسی ہوتی ہے حسینہ تو اللہ مجھے موت دے ، دے پر تیرے جیسی حسینہ قیامت تک نہ دے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنی بے عزتی کا ایک ایک بدلہ لے رہا تھا ۔۔۔
اس نے ڈیک کے والیم کی آواز کو آہستہ کیا پھر اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔
“دلکش نام رکھ لینے سے ، کوئی دلکش بن نہیں جاتا ، ویسے حیرت ہوتی ہے مجھے تمہاری ماں اور باپ پر ، کیا سوچ کر انہوں نے تمہارا یہ نام رکھا ہوگا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بھی کسی سے کم نہیں تھی ٹکا کر جواب دیا ۔
“جو تمہارے ماں باپ نے سوچ کر رکھا ہوگا ، ح س ی ن ہ “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے تیزی سے اس کی بات کاجواب دیتے ہوئے اس کے نام کے ایک ایک لفظ کو الگ الگ کر کے اس کے سامنے اسکے نام کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
“اب تم یہاں سے جاتے ہو یا تیرے اماں ابا کو بلانا پڑے گا “۔۔۔۔۔۔۔ ؟ اس نے
بے زار ہوتے ہوئے اسے جانے کے لیے آخری حربہ استعمال کیا تھا ، پھر تو نہ چاہتے ہوئے بھی اس سوکھے سڑیل انسان کو جانا پڑا ، وہ ایک دل جلانے والی مسکراہٹ اس پر اچھال کر نیچے اتر گیا ، وہ اپنے ماں باپ سے بہت ڈرتا تھا ، یہ بات حسینہ بھی اچھی طرح جانتی تھی ، اس لیے ہی تو اس نے آخری حربہ استمعال کیا تھا ۔۔۔