بدروح

بدروح

رائیٹر.. عبدالرب بھٹی

تیمور کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ تھا ، اچھی نوکری ، اچھا گھر اور نیک سیرت و وفا شعار بیوی جس کی اچھی اور بہترین تربیت کا عکس ان کے تینوں بچوں میں صاف جھلکتا تھا ۔ بڑی بیٹی فائز تھی جو بی اے کر چکی تھی اور آج کل اس کے رشتے کے سلسلے میں بات چیت چل رہی تھی ، اس سے چھوٹا ساجد تھا جو انٹر کر رہا تھا اور ساجد سے ایک سال چھوٹی شگفتہ فرسٹ ایئر میں پڑھتی تھی ۔

شگفتہ سولہ سترہ سالہ ایک خوبصورت اور گڑیا سی لڑکی تھی ، چھوٹی ہونے کے باعث وہ مال ، باپ ہی کی نہیں اپنے بہن ، بھائیوں کی بھی لاڈلی تھی مگر باوجود اس کے شگفتہ میں روایتی ضد اور بگاڑ پن نہیں آیا تھا ، وہ سب کا احترام کرتی تھی ، اپنی عمر کے برخلاف وہ سنجیدہ مزاج اور کم گولڑ کی تھی ، شاید یہ اس کی فطرت کا حصہ تھا یا پھر ان عجیب و غریب اور پراسرار حالات کا شاخسانہ تھا جس نے اسے مزید کم گو اور گم سم سا کر دیا تھا ، گھر میں سب سے چھوٹی ہونے کے باعث اس میں جو تھوڑی بہت شوخی و شرارت تھی ، وہ بھی اب ان پر اسرار حالات کی وجہ سے مفقود ہو کر رہ گئی تھی ۔ بچپن میں اسے ڈراؤنے خواب آتے تھے مگر یہ کوئی اہم بات تھی ، اس عمر میں بچوں کو ایسے خواب عموماً آتے ہی ہیں       

طبی نقطہ نظر سے نمک کی زیادتی اور پیٹ کی خرابی اس کا سبب ہوتا ہے ، پھر عمر کے ساتھ ساتھ خود بخود ایسے ڈراؤنے خواب معدوم ہونے لگتے ہیں لیکن شگفتہ کے ساتھ ایسا نہ ہوا ۔ پہلے تو اسے کبھار ہی خواب آتے تھے۔

مگر جیسے جیسے وہ بڑی ہونے لگی تو ان میں بجائے کمی آنے کے اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ اب جبکہ وہ ایک سولہ سترہ سالہ جوان لڑکی تھی ، یہ خواب اب ایک تواتر کے ساتھ آنے لگے تھے ۔ اب تو کئی بار وہ راتوں میں اچانک چیخ مار کر بیدار ہو جایا کرتی تھی ۔

تیمور ایک پڑھے لکھے اور سمجھدار آدمی تھے ، شگفتہ کی کم گوئی اور سنجیدہ روئی کو وہ اس کی غیر معمولی حساس طبیعت پر ہی محمول کرتے تھے اس لئے انہوں نے شگفتہ کے مسئلے پر زیادہ توجہ نہ دی اور صرف اتنا حل نکالا کہ اسے کمرے میں اکیلے نہیں سونے دیا جاتا تھا ۔

اب وہ اپنی امی کے ساتھ سوتی تھی یا پھر اس کی بڑی بہن فائز سو جاتی تھی ۔ ایک سب سے اہم بات جو خودشگفتہ نے نوٹ کی تھی وہ بھی کہ ڈراؤنے خوابوں کی نوعیت مختلف نہیں تھی ، اسے صرف ایک انتہائی خوفناک اور بھیانک چہرہ نظر آتا تھا کسی غیرانسانی مخلوق کا بھیانک چہرہ ، جو اس کے قریب آتے آتے مزید گریہ اور خوفناک ہو جاتا تھا ، تب و وخوف زدہ ہو کر چھ پڑتی اور نیند سے بیدار ہوجاتی تھی ۔ پھر ایک عجیب بات ہوئی ، یہ ڈراؤنے خواب آنا خودی بند ہو گئے کئی روز بیت گئے یہ خواب آنا اب بالکل ہی بند ہو گئے ، شگفتہ نے ہی نہیں بلکہ دیگر گھر والوں نے بھی سکون کا سانس لیا ۔

چند دن مزید اسی طرح خیریت سے گزر گئے ۔ ایک روز شگفتہ کی نصف رات کو اچانک آنکھ کھلی تو اسے اپنے حلق میں پیاس کی شدت سے کانٹے چھتے ہوئے محسوس ہوئے ، رات اپنے نصف پہر میں تھی ، ہرطرف خاموشی اور سناٹا طاری تھا ۔ شگفتہ پانی پینے کے لیے بیڈ سے اٹھی ، اب وہ اکیلی ہی کمرے میں سوتی تھی ۔ کمرے میں زیرو واٹ کا بلب روشن تھا ، وہ اپنے کمرے سے نکل کر ڈرائنگ روم میں آئی یہاں بھی مدھم روشنی تھی ، وہ فریج کے پاس آئی اور ٹھنڈے پانی کی بوتل نکالنے گی ، ایک گلاس پانی پیاتو اسے حلق کی چبھن میں کمی محسوس ہوئی پھر وہ جیسے ہی پلٹی اچانک اسے مدھم روشنی میں ایک ملگجی ساہیوالا ڈرائنگ روم کے درمیان سے ہوتا ہوا باہر کی طرف جاتا نظر آیا ۔ شگفتہ بری طرح ٹھٹکی ، پہلے تو یہی شبہ ہوا کہ گھر کا کوئی فرد اس کی طرح پانی پینے اٹھا ہو اور اب واپس اپنے کمرے کی طرف لوٹ رہا ہولیکن اسے تسلی نہ ہوئی ، وہ یک دم پلٹی ، وہی ملگجی سا ہیولا ڈرائنگ روم سے نکل کر غائب ہوگیا تھا ۔ شگفتہ مختصر سی نیم تاریک راہداری میں کھڑی تھی ، دائیں جانب اس کی امی ، ابو کی خواب گاہ تھی اور اس کے بعد ایک کمرا سا جد کا تھا ، دیوار کے بائیں جانب اس کا اور فائز کا کمرا تھا ۔ شگفتہ کو پھر وہ پراسرار ہیولا دکھائی نہ دیا ۔

وہ اسے اپنا واہمہ سمجھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھی اور پھر جیسے ہی دروازے کے قریب پہنچی، اچانک وہی ہیولا نہایت تیزی کے ساتھ کھلے دروازے سے نکلا ۔شگفتہ کے حلق سے غیر ارادی طور پر دبی دبی چیخ نکل گئی ، وہ ہیولا اس کے بالکل قریب سے گزرا تو اسے ایک سرد جھونکے کا احسا ہوا گرمی کے باوجود کانپ اٹھ تھی ، اس نے اپنی کیفیت پر قابو پایا ، وہ یک دم پلٹی تو ہیولے کو دوبارہ ڈرائنگ روم کی طرف جاتے دیکھا ، شگفتہ نے ماں کی ہدایت کے مطابق دل ہی دل میں آیت الکرسی اور سورہ والناس کا ورد کیا اور اس پر اسرارسائے کا تعاقب کرنے کی بجائے اپنے کمرے میں داخل ہوگئی ، وہ جلدی سے دروازہ بند کر کے اپنی پشت اس سے ٹکائے کھڑی بری طرح ہاپنے لگی ، وہ پسینے میں شرابور ہوگئی تھی ۔

چند ثانیے بعد اس نے گہرے گہرے سانس لے کر اپنے حواس بحال کئے اور لرزتے قدموں کے ساتھ بیڈ پرآ کر لیٹ گئی اور اس پر اسرار ہیولے کے بارے میں سوچنے گی ۔

ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ دروازے پر باہر سے کسی نے ہلکی دستک دی ، پھر رات کے سناٹے میں دروازے پر ہونے والی ہلکی دستک بھی شگفتہ کو دھماکے سے کم نہ لگی ، وہ بری طرح چونک پڑی ، اس کا دل بری طرح دھک دھک کرنے لگا ، پورا وجود خزاں رسیدہ پتے کی طرح کانپنے لگا ۔ اس کے دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی ، اس بار یہ سوچ کر وہ ذرا ہمت کر کے بستر سے اٹھی کہ ہوسکتا ہے دروازے پر آپی یا اماں ہوں ، مگر پھر وہ دروازے کے قریب پہنچ کر ذرا تیز آواز میں بولی کک                کون ہے ؟

اس کی آواز میں واضح طور پر لرزش تھی ۔

دروازہ کھولو شگفتہ                 میں ہوں تمہاری آپی ۔ دوسری طرف سے اپنی بڑی بہن فائزه کی آواز پر اس نے بے اختیار ایک سکون کی سانس لی اور جلدی سے درواز کھول دیا ۔

دوسرے ہی لمحے دھک سے رہ گئی ، وہاں کوئی بھی موجود نہ تھا ، وہ لرز گئی پھر ہمت کر کے آگے بڑھی اور دائیں بائیں ذرا جھانک کر دیکھا راهداری ویران تھی ، اس نے فور دروازو بند کر لیا ۔

اگلی صبح میں اس نے اپنے گھر والوں کو یہ بات بتائی تو کسی نے اس پر یقین نہ کیا ۔ اسی دن شام کو چھ بجے کے قریب وہ اپنے کمرے میں بیٹھی پڑھ رہی تھی ، تیمور ابھی تک دفتر سے نہیں لوٹے تھے ، اماں اور فائزه پڑوس میں گئی ہوئی تھیں ، گھر میں صرف شگفتہ اور ساجد تھے۔

جبکہ ساجد کا بھی ابھی ذرا دیر پہلے ایک دوست آیا تھا اور وہ زرا دیر میں ہی لوٹنے کا کہہ کر اس کے ہمراہ چلا گیا تھا ۔ اچانک باہر صحن میں کھٹکا ہوا ،شگفتہ کتاب پڑھتے پڑھتے چونکی ، پھر اچانک باہر صحن میں کسی کے سپڑسپڑ قدموں کے چلنے کی آواز ابھری ، پہلے تو سمجھی شاید ساجد آ گیا ہے مگر پھر    اسے خیال آیا کہ اس نے تو ساجد کے باہر جاتے ہی دروازے کو اندر سے کنڈی چڑھادی تھی ۔ ایک بار پھر اس کے دل کو انجانے خوف نے آلیا   ،، تاہم وہ ہمت کر کے اٹھی اور صحن میں آ گئی  

شام کے سائے گہرے ہونے لگے تھے ان میں کوئی نہ تھا ، دفعتاً کہیں قریب ہی میاں کی آواز ابھری ، وہ بری طرح ٹھٹک کر آواز کی سمت پلٹی تو ایک سیاہ رنگ کی بلی اگلے دونوں پاؤں سکیٹرے اس کی طرف مقناطیسی نظروں سے گھور رہی تھی ۔

خوف کے باعث شگفتہ پر بری طرح جھنجھلاہٹ طاری ہوگئی ، اس نے دانت پیس کر اپنی چپل اتارکر بلی کو دے ماری ، بلی میاوں کی آواز سے منڈیر پر چڑھ گئی اور با ہرگلی میں چھلانگ لگا کر غائب ہوگئی ۔شگفتہ نے اپنی چیل پہنی اور جیسے ہی کمرے کی طرف جانے گئی ، معا ایک آواز پر وہ ٹھٹک کررکی ۔

یہ آواز کسی نوعمر بچے کی تھی ، وہ اپنے کورس کی نظم گنگنا رہا تھا ، شگفتہ کو حیرت ہوئی ، اس نے دیکھا بالکونی پر ایک آٹھ نو سالہ بچہ جس کا منہ دوسری طرف تھا ، بڑے معصومانہ انداز میں نظم گنگنارہا تھا ،شگفتہ اپنے گھر کی چھت پر ایک معصوم بچے کو دیکھ کر حیران ہی رہ گئی

۔ اے ۔                            ۔۔۔! کون ہوتم ؟

اس نے زور سے بچے کو پکارا ۔ اس کی آواز پر بچے نے یکم گنگنا بند کر دیا اور پھر دھیرے دھیرے وہ شگفتہ کی طرف پلٹا ، وہ ایک معصوم صورت اور بہت پیارا سا بچہ تھا لیکن شگفتہ نے دیکھا کہ اس کے چہرے پر ایسی تیز چمک تھی جیسے قریب سے اس کے چہرے پرکوئی محدود ہونے والی روشنی پھینک رہا ہو ۔

وہ بچہ شگفتہ کو دیکھ کر ہولے سے مسکرایا اور چھت کی منڈیر کے عقب میں غائب ہوگیا ۔

شگفتہ دوڑتی ہوئی سیڑھیاں چڑھتی چھت پر جاپہنچی، مگروہ پر اسرار بچہ غائب تھا ،شگفتہ دوباره نیچے آگئی ۔

ابھی وہ صحن میں ہی تھی کہ کال بیل بجی ، وہ یہی سمجھی کہ ساجد ہوگا یا پھر اماں اور آپی شگفتہ نےدروازہ کھول دیا ، سامنے فا ئز ہ کھڑی تھی ، اس نے سفید سوٹ پہن رکھا تھا ، چہرے پر عجیب کا ویرانی اور پاٹ پن تھا ، وہ پتھرائی ہوئی نظروں سے شگفتہ کو دیکھتی ہوئی اندر داخل ہوگئی ۔ ارے آپی        !                          آپ اکیلی آ گئیں ؟ اماں کہاں رہ گئیں ،شگفتہ نے حیرت سے پوچھا،،،،،،

فائزہ نے عجیب سے لہجے میں جوابا کہا ۔  وہ آرہی ہیں ۔ یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی          

شگفتہ الجھی ہوئی نظروں سے اپنی بہن کو کمرے کی طرف جاتے ہوئے دیکھا اور پھر دروازہ بند کرنے جیسے ہی وہ پلٹنے لگی ، دروازے پراچانک دستک ہوئی ۔  شایداماں آ گئیں ؟  وہ ہولے سے بڑ بڑائی اور لپک کر دروازہ کھولا تو اسے شدید حیرت کا جھٹکا لگا،،دروازے پراس کی ماں کھڑی تھی مگر اس کے ہمراہ آپی قائزہ بھی کھڑی تھیں ،شگفتہ کادل دھک سے رہ گیا ۔

کیا ہوا شگو بیٹی                ؟ تم ایسے ہمیں کیا دیکھ رہی ہو ؟  اس کی ماں نے قدرے چونک کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ۔ شگفتہ حیرت و خوف کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ کھبی سامنے اماں کے ساتھ کھڑی اپنی آپی فائز کو دیکھتی تو کبھی مڑ کر عقب میں اس کے کمرے کی طرف جدھر تھوڑی دیر پہلے ہی فائزه داخل ہوئی تھی ، پھر جانے شگفتہ کوکیا ہوا کہ وہ فورا کمرے کی طرف دوڑی اور اندر جھانکا تو کمرہ خالی تھا ۔

اس نے اماں اور فائر کو ساری بات بتائی تو اماں نے اپنا ماتھا پیٹ ڈالا ۔

پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے تجھے     ؟ عجیب و غریب باتیں کرتی رہتی ہے ، بھلا فائزہ کب آئی تھی ؟ وہ تو ابھی میرے ساتھ ہی آئی ہے ۔

میں سچ کہہ رہی ہوں اماں             شگفتہ نے ہراساں لہجے میں کہا ۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے تو آپی آئی تھیں اور مجھ سے کہ رہی تھیں کہ                                       ،،

اے چھوڑو بیٹی          عشاءکا وقت ہونے والا ہے ، نماز پڑھی ہے ، پتہ نہیں تم کیا اول فول بکتی رہتی ہو ۔اماں نے جھنجھلاکر اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا اور وضوکرنے چلی گئیں ۔

آپی میں کچھ کہہ رہی ہوں ۔  اماں کے جا تے بی شگفتہ نے اپنی بڑی بہن سے کہا ۔

بلکہ میں نے تو ایک چھوٹا سا بچہ بھی دیکھا تھا جونظم گنگنا رہا تھا پھر اچانک غائب ہوگیا ۔

اس کی بات سن کرفائزہ زور سےہنسی دی اور بولی ۔

شگفتہ تم نے خوفناک کہانیاں پڑھنی شروع کر دی ہیں یا کیبل پر کوئی ڈراؤنی فلم دیکھ لی ہوگی ۔

نہیں آپا میں سچ کہہ رہی ہوں کل رات بھی میں نے واقعی ایک ہیولا دیکھا تھا جو کبھی ایک کمرے کی طرف جاتا تھا کبھی دوسرے میں داخل ہوتا تھا ۔

اچھا میری بنوں                     !!! اب یہ ڈراؤنی فلم کی کہانی مجھے سنا کر مت ڈراؤ ، میرادل پہلے ہی کمزور ہے   ۔

فائزہ یہ کہتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی   ،،

شگفتہ بری طرح پریشان ہو گئی اور جھنجھلا کر غصے سے بڑ بڑائی ۔ کوئی میری بات کا یقین نہیں کر رہا ہے ۔

رات ہوئی مگر شگفتہ کے اندر کا خوف کم نہ ہوا ، اس نے بڑی منت سماجت کر کے فائزہ کو آج رات اپنے کمرے میں سونے پر راضی کر لیا ۔ کمرے میں ڈبل بیڈ تھا ، وال کلاک رات کا ایک بجا رہا تھا ، دونوں بہنیں ایک ہی بیڈ پر لیٹی ہوئی تھیں ، فائزہ دوسری طرف کروٹ بدلے گہری نیند میں ڈوبی ہوئی تھی جبکہ شگفتہ کی آنکھوں سے نیند بھی کوسوں دورتھی ۔ وہ ابھی تک اندر کے نا معلوم خوف کے باعث سونہیں پا رہی تھی ، اگر چہ اس کے دل کو ایک ڈھارس تھی کہ اس کی بہن ساتھ تھی پر جانے کیوں اسے اپنے اندر عجیب سی بےچینی ہورہی تھی ۔

کمرے کی لائٹ گل تھی ۔ صرف زیرو پاور کا سبز بلب روشن تھا ۔

شگفتہ سونے کی کوشش کرنے لگی ، اچا نک زیرو پادر کا بلب آف ہوگیا چھت پر چلتا ہوا پنکھا ھا بھی بند ہوگیا ، کمرے میں یکا یک گہری تاریکی چھا گئی ۔

اس کم بخت لائنٹ کو بھی آج ہی جانا تھا ۔ شگفتہ غصے سے بڑ بڑائی ۔

گرمیوں میں خاص طور پر لائٹ کا یوں غیر اعلانیہ بریک ڈاؤن اب عام سی بات ہوگئی تھی اس لئے بیڈ سائیڈٹیل کی دراز میں موم بتی اور ایک ماچس موجود رہی تھی ، شگفتہ نےتاریکی میں بیڈ سائڈٹیبل کی دراز میں ٹٹول کرماچس اورمومبتی نکالی، پھر ایک تیلی جلا کر موم بتی روشن کر دی کمرے میں مقدور بھر روشنی پھیلی تو شگفتہ کے دل کی بے ترتیب دھڑکنیں قدرے معمول پر آئیں ، اس نے جلتی ہوئی موم وہیں بیڈ سائڈٹیبل کی سطح پرتھوڑ ا موم گرا کر چپکا دی اور بیڈ پر سکڑ سمٹ کر بیٹھ گئی ، اس کی بہن فائزہ ہنوز دوسری طرف کروٹ لئے گہری نیند میں غرق تھی، دیوار پر شگفتہ کا سایه بیڈ پر بیٹھنے کے انداز میں لرزتا نظر آ رہا تھا ۔ معا شگفتہ کی غیر ارادی نگاه دیوار پرلرزاں اپنے سائے پر پڑی تب اچانک وہ دہشت کے مارے لرزگئی ، اس نے دیکھا اس کا سایہ بیڈ پر سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور لرزتا چھت کی طرف حرکت کرنے لگا ۔

شگفتہ خوف کے مارے پسینے میں شرابور ہوگئی ، اسے اپنا دل رک رک کر دھڑکتا محسوس ہونے لگا ، اس نے فوراً اپنی بہن فائزہ کوزور زور سے جھنجھوڑ کر جگانا چاہامگر وہ تو جیسے گھوڑے بیچ کر سو رہی تھی زرا بھی ٹس سے مس نہ ہوگی ۔

         آ                آ                                 آ                   آپی اٹھو خدا کے لیے اٹھو    ۔  وہ خوف کے مارے ہے حال ہو کر اسے پکارنے لگی ساتھ ہی اس کی دہشت زدہ نظریں اپنے سائے پر بھی جمی ہوئی تھیں جواب اس سے جدا ہو کر کمرے کی چار دیواری پر گردش کر رہا تھا ۔

پر فائزہ نے عجیب انداز میں کروٹ بدلی ،شگفتہ کی جان میں جان آئی مگر جیسے ہی اس نے فائزہ کے چہرے کی طرف دیکھا تو اس کی روح تک خوف سے منجمد ہوگئی ۔

آف               !! اس کا چہرہ کس قدر بھیانک ہور ہا تھا ، ہ

یہ وہی کریہہ صورت بھیانک چہرہ تھا جووہ بچپن سے خواب میں دیکھتی آئی تھی ، بغیر پپوٹوں کے بڑی بڑی جلتی ہوئی خوفناک آنکھیں ، ان گنت دراڑوں پڑا انتہائی سیاہ چہرہ، کھچڑی سے بال ، ہونٹ غائب اور غارنما دہانے سے جھانکتے دو نوکیلے دانت              اندر سے دو شاخ سرخ رنگ کی لپلپاتی ہوئی زبان                            !!!

اس سے قبل یہ بھیانک چہرہ وہ خوابوں میں دیکھتی آئی تھی جب اسے ڈراؤنے خواب آتے تھے مگر آج وہ جاگتی آنکھوں سے خوفناک اور بھیانک چہرہ دیکھ رہی تھی ۔

شگفتہ جی جان سے لرز اٹھی ، اپنی بڑی بہن فائزہ کے چہرے پر یہ بھیانک چہرہ دیکھ کر بے اختیار اس نے مارے خوف و دہشت کے چیخنا چاہا مگر جیسے حلق سے چیخنا تو درکنار ایک معمولی سسکاری بھی برآمد نہ ہو پارہی تھی ، پتہ نہیں یہ جاگتی آنکھوں سے حقیقت میں اس بھیانک چہرے کو اتنے قریب دیکھنے کی دہشت تھی یاپراسرایت کہ اس کی اب تو گھگی بندھی تھی ۔ مگر دوسرے ہی لمحے اس نے ہمت کی اور خود کو یک دم بیڈ سے نیچے دھکیل دیا ۔

فائزه اپنے بھیانک چہرے کے ساتھ بالکل میکانیکی انداز میں بیڈ پر اٹھ کر بیٹھی تھی ، وہ بھیانک چہرہ بغیر پپوٹوں والی الجھی ہوئی سرخ انگار آنکھوں سے اس کی طرف گھورنے لگا اور عجیب آواز میں غرانے لگا ۔

خوف کے انتہائی احساس تلے شگفتہ پر ہسٹریائی دورہ پڑا اور اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھا پانی کاشیشے والا جگ اٹھا کر اس بھیانک چہرے پر دے مارا ۔

کمرے کے سناٹے دار ماحول میں ایک تیز چیخ ابھری اور شگفتہ بھی چلانے لگی، آناً فاناً گھر کے دیگر افراد ان چیخوں کی آواز سن کر اندر داخل ہو گئے ۔

تیمور نے سوئچ بوڈ ٹٹول کریتی جلائی

۔ کیا دیکھتے کمرے کے وسط میں شگفتہ بری طرح خوف سے کپکپا رہی تھی، جبکہ بیڈ پہ بیٹھی ان کی بڑی بیٹی فائزہ تکلیف کے مارے چلا رہی تھی ، اس کا پورا چہرہ لہولہان ہورہاتھا اور بے چاری چیخیں مار مار کر رو رہی تھی ۔

شگفتہ بھی اپنی بہن کی ہیئت کذائی پراپناخون بھلا کر پریشان ہوگئی ، پورے گھر میں کہرام مچ گیا ۔

شگفتہ نے انہیں ساری بات بتائی اور بھی بتایا کہ پانی کا جگ اس نے فائزو کے چہرے پر دے مارا تھا ۔

 اے شکوکم بخت           ! یہ کیا کر دیا تو نے اپنی بہن کو ہی مارے ڈال رہی ہے ۔  اماں اسے کوسنے دے کر رونے لگیں۔

تیمور اور ساجد ، قا ئز ہ کی طرف سے پریشان اور فکر مند ہو گئے ۔ رات کا وقت تھا اور اس وقت کسی ڈاکٹر کا ملنا محال تھا ، اماں ابھی تک رورو کر شگفتہ کو کرنے دیئے جارہی تھیں ۔

اری کم بخت           ! تو نے آدھی رات کو ہم پر یہ کیا وقت ڈال دیا ، اب کیا ہوگا ؟

بیگم                     !!! تم رونا تو بند کرو ، مجھے سوچنے دو کچھ تیمور نے جھنجھلا کر اپنی بیوی کو سرزنش کی پھر ساجد سے بولے ۔

 بیٹا               !!! تم جلدی سے گاڑی نکالو کسی پرائیویٹ میڈیکل سینٹر لے چلتے ہیں قائزہ کو ‘

‘ چنانچہ فائزہ کو اسی وقت کار میں ڈال کر ایک قریب میں میڈیکل سینٹر لے جایا گیا ، وہاں ایک نائٹ شفٹ ڈیوٹی پر موجود جونئیر ڈاکٹر نے فائزہ کو فرسٹ ایڈدی اور اس کے چہرے کے زخم صاف کئے پھر ایک سینئر ڈاکٹر کو کال کی گئی یوں فائزہ کی جان تو بچ گئی مگر اس کا چہرہ بری طرح زخمی ہوگیا تھا ۔

میں کہتی ہوں اس لڑکی پر جن کا سایہ ہے ، یہ سب کو ایک دن اسی طرح زخمی کر کے مار ڈالے گی ، اسے کسی پیر فقیر کے پاس لے جائیں ۔ ‘ شگفتہ کی ماں اپنے شوہر سے پرتشویش لہجے میں بولی ۔

شگفتہ بے چاری ایک طرف کھڑی رو رہی تھی ۔

تیمور نے بیوی سے کہا ۔

 بیگم               !!کیسی جاہلوں والی باتیں کر رہی ہو تم   ،یہ جن کا سایہ کیا ہوتا ہے                  ؟ ۔

مجھے تو کوئی نفسیاتی معاملہ لگتا ہے ۔

یہ کہ کر وہ ایک طرف کھڑی سسکتی ہوئی شگفتہ کی طرف بڑھے اور بہت شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار سے بولے ۔

 بیٹا رونا بند کرو ، اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں ، کیا کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ لیا تھاپھر             ؟

باپ کے پر شفقت رویے پر اسے ذرا حوصلہ ہوا اور وہ اپنے آنسووں پر قابو پاتے ہوئے بولی –

ابو                  !!! وہ ڈراؤنے خواب آنا تو مجھے کافی عرصہ ہو ئے بند ہو گئے ہیں لیکن،،،، لیکن وہ پھر کہتے کہتے رک گئی ۔

 ہاں              ہاں بیٹی              بولو آخر ہوا کیا تھا              تم نے قائزہ کو کیوں زخمی کیا تھا ، تیمور نے پیار بھرے لہجے میں اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔

شگفتہ کو ذرا حوصلہ ہوا ۔

ابو         !!! مم                               میں نے آپی کا چہرہ بدلتے دیکھا تھا ، وہ بہت ڈراؤنا چہرہ تھا ، میں نے خوف کے مارے شیشے کا جگ اس پر دے مارا، مگر مجھے کیا معلوم تھا کہ                         کہ آپی           ؟  وہ بے چاری مارے ندامت اور دیکھ کے اپنا جملہ پورانہ کرسکی اور پھر رو پڑی         !!!

۔ تیورکسی گہری سوچ میں مستغرق ہوگئے ، وہ سمجھ گئے تھے کہ ان کی بیٹی ایک خطرناک نفسیاتی مرض کا شکار ہوگئی ہے جو دوسروں کے لیے بھی جان لیوا ثابت ہوسکتا تھا ، چنانچہ ایک روز وہ شگفتہ کو لے کر اپنے کسی دوست کے مشورے سے بتائے ہوئے نام پتے پر ایک نفسیاتی ڈاکٹر رحمت علی کے کلینک پہنچے ۔

ڈاکٹر رحمت علی خان ایک معروف سائیکاٹرسٹ تھے ، ان کی عمر پچاس پچپن کے لگ بھگ تھی ، انہوں نے ان کا بغور معائنہ کیا پھر تیمور سے مفصل ہسٹری دریافت کرنے کے بعد وہ شگفتہ کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرا کر اس سے پوچھا ۔

بیٹی               !! ! کیا تم میٹھا بہت شوق سے کھاتی ہو ؟

شگفتہ نے نفی میں سر ہلا دیا ۔

کیانمک اور کھٹائی        ؟ ‘ ‘

اس کا بھی مجھے کھبی شوق نہیں رہا ، بس سوسو                   !

ہمم         ! ‘ ‘ ڈاکٹر رحمت علی نے ایک سوچ ہنکاری لی پھر مزید اس سے تھوڑی سی تفصیل سے بات کرنے کے بعد تیمور صاحب کی طرف متوجہ ہوئے ۔

بہت سیدھا سادہ کیس ہے ، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ، میں چند دوائیں تجویز کئے دے رہا ہوں لیکن نفسیاتی علاج میں تجویز کی دوائیاں خاصے طویل عرصے تک کھانی پڑتی ہیں کم از کم چھ ماہ اور زیادہ سے زیادہ ایک سال          پھردواوں کو یک دم بھی موقوف نہ کرنا ہوگا

، دھیرے دھیرے کم کرتے ہوئے آخر میں صرف ایک ٹیبلٹ روزانه ۔!

بہت بہتر ڈاکٹر صاحب                میں سمجھ گیا         !!! تیمور نے کہا پھر پوچھا!                   ڈاکٹر صاحب یہ کیا معاملہ ہے         ؟

اسکی وجوہات کوئی توجیہہ؟     

 یہ عا م کیس ہے ، ہم روز مرہ ان کیسز کو ڈیل کر تے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب بولے سے کھنکھار کر پولے ۔

 آپ تو پڑ ھے لکھے آدمی ہیں اس لئے آپ نے بہت اچھا کیا کہ اسے میرے پاس لے آئے ، عموما لوگ اس قسم کے نفسیاتی مریضوں کو کسی جن ، بھوت اور آسیب کا چکر تجھ کر تعویذ ، گنڈوں میں پڑ جاتے ہیں پھر نام نہاد پیروں فقیروں کے رحم و کرم پر مریض کو چھوڑ دیتے ہیں جو بہت نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے ، آپ کی بیٹی کے ساتھ مینیا ‘ ‘ ( Mania ) کا ہے ۔

مگر ڈاکٹر صاحب ! اس کی کوئی سائنسی توجیہہ تو ہونی چاہئے ؟

تیمور نے الجھ کر پوچھا         ؟

ڈاکٹر رحمت علی اپنے سر کو ہولے سے اثباتی جنبش دیتے ہوئے بولے ۔

 ہاں در حقیقت بچی کے لاشعور میں ایک نامعلوم سا خوف جاگزیں ہے جو بعض محصوض حالتوں میں لمحہ بھر کوحقیقی جھلک دکھا کر محو ہوجا تا ہے ۔

 بہت مہربانی ڈاکٹر صاحب ! میں تو پہلے ہی سمجھ گیا تھا کہ یہ نفسیاتی معاملہ ہی ہوگا ، بھلا آج کل کے دور میں جن ، بھوتوں کو کون تسلیم کرتا ہے ۔

تیمور نے کہا اور پھر شگفتہ کو گھر لے آئے ۔

یہ آپ ڈاکٹروں کے چکروں میں کیوں پڑ گئے ہیں ؟  تیمور کی بیگم نے ان کے گھر لوٹتے ہی برا سا منہ بنا کر کہا ۔

ان کے بس کی بات نہیں ہے یہ مجھے پورا یقین ہے کہ ہماری شگو کسی آسیب ہی کا سایہ ہے             ، میں کہتی ہوں کسی اللہ والے بندے کو دکھائیں اپنی شگو کو         !!!

بیوی کی بات سن کر تیمور مسکرا کر بولے ۔

 بھئی اللہ کے تو سب ہی بندے ہیں ۔

میں پرہیز گار لوگوں کی بات کررہی ہوں ۔

 کون پارسائی کا دعوی کرتا ہے ؟

اور اگر کوئی کرتا بھی ہے تو کیا ضروری ہے کہ وہ پارسا ہو ؟ ‘ ‘ آپ تو بحث ہی کئے جائیں ۔

ان کی بیگم چڑھ کر بولیں ۔

میرا مطلب تھا کسی پہنچ

ہوئے پیر فقیر کو دکھائیں ، اللہ کے کلام میں بڑی طاقت ہوتی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ، اس کا فضل ہو تو کیا نہیں ہوسکتا ، میں سوچوں گا

تیمور نے کہا ۔

پھر بڑی بیٹی فائدہ کی خیریت کے بارے میں پوچھا ۔  فائزه بیٹی کیسی ہے اب           ؟ اس کے چہرے کا زخم کچھ ٹھیک ہور ہا ہے ؟

یوں تو ٹھیک ہے وہ مگر زخم کے نشانات کی وجہ سے چہرہ بگڑا گیا ہے ، بے چاری روتی رہتی ہے ، اس کے رشتے کی بات بھی چل رہی ہے ، اسلم صاحب اور ان کی بیگم اپنے بیٹے کے ساتھ آنے والے تھے ، میں خود پریشان ہوں آخر فائزہ نشان زدہ چہرے کے ساتھ کسی طرح ان کا سامنا کرے گی ؟ ،،

کوئی ایسی بڑی بات نہیں بیگم           ! تم اس کی فکر نہ کرو اور فائز ہ بیٹی کو بھی تسلی دو وہ بولے ۔

یہ بھی خوب کہی آپ نے ، بیٹیاں تو کانچ کا برتن ہوتی ہیں ، ادھر ذرا سی خراش پڑی ادھر مول کم ہوا ۔

ان کی بیگم نے روایتی مکالمه ہرایا ۔

ہماری بیٹی انسان ہے ، کانچ کا برتن نہیں تم صرف اللہ پر بھروسہ کرو ، وہی سب کا مشکل کشاہے ۔

ہاں              اب تو بس الله تعالی کا ہی آسرا ہے ، وہ ہمارے حال پر رحم فرمائے ۔ بیگم تیمور نے دعائیہ لہجے میں ہاتھ اٹھا کر کہا ۔

چندروز خیرت سے گزر گئے ۔ شگفتہ ، ڈاکٹر رحمت علی کی تجویز کردہ دوائیں باقاعدگی سے استعمال کررہی تھی ۔ ان گولیوں میں ایک گولی نیند کی بھی تھی جو وہ بستر پر جانے سے آدھا گھنٹہ پہلے پانی کے ساتھ نگل لیتی تھی ، اسے صرف ایک یہی گولی فائدے والی لگی تھی جسے کھا کر وہ گہری نیند میں ڈوب جاتی تھی  

ورنہ بیتے ہوئے خوفناک حالات اور پراسرار واقعات کی گردان اس کے دل و دماغ میں رات گئے تک ہوتی رہتی تھی اور یوں وہ ساری رات آنکھوں میں گزار دی تھی ۔

ادھر مقررہ دن لڑکے والے آئے ، بے چاری فائزہ نے دل پر پتھر رکھ کر کن مشکلوں سے نشان زدہ چہرے کے ساتھ ان کا سامنا کیا تھا ، اس کا دل ہی جانتا تھا ۔

جلدی دواؤں کی قیمتیں ویسے ہی آسمان کو چھو رہی ہوتی ہیں ، فائزہ نے بھی اپنے چہرے کے نشان مٹانے کے لیے ایک سے ایک مہنگی ٹیوب، لوشن اور دوائیں استعمال کیں،، تب کہیں جا کر چہرے کے نشانات میں کمی آئی تھی۔

لیکن پھربھی وہ پوری طرح غائب نہیں ہوئے تھے چنانچہ نتیجه اس کا یہ نکلا کہ لڑکے والوں نے خوب ناک بھوں چڑھائی اور کچھ اچھا تاثرنہ دیا ۔

بیگم تیمور پہلے سے زیادہ متوحش ہوگئیں ، فائزہ کے دل کو بھی دھچکا پہنچا تھا ، دکھ شگفتہ کو بھی تھا ، وہ اس کا ذمہ دار خود کوئی سمجھتی تھی ، البتہ تیمور کی پیشانی پر ذرا بھی تفکر کی لکیرنا ابھری تھی ، ان کا خیال تھا کہ جوڑے آسمانوں میں بنتے ہیں ، اچھا ہوا جولڑکے والوں نے ابھی سے اپنی تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک عارضی عیب پررشتے سے ہی انکار کر ڈالا ۔

پھر اسی طرح دو تین رشتے اور آئے انہوں نے بھی فائز کا نشان زدہ چہرہ دیکھ کر صاف انکار کردیا ، چہرے کا نشان معمولی بات تو نہیں ہوتا اور وہ بھی ایک جوان اور کنواری لڑکی کا چہرہ              ! کچھ نشان قائرہ کے چہرے کی جلد کا جیسے حصہ بن چکے تھے جن کے بارے میں تیمور کا خیال تھا کہ یہ عارضی ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ خودی بھر جائیں گے لیکن ایسا نہ ہوا تو تیمور کوبھی پریشانی نے آلیا ، انہوں نے شہر کے ایک سے ایک اچھے اسکن اسپیشلسٹ کو دکھایا حتی کہ بیوٹیشن ایکسپرٹ کے پاس بھی فائز کو لے کر گئےمگر چہرے کے نشان جوں کے توں رہے ۔

یوں ہنستے بستے گھر کی فضا سوگوار ہوگئی ۔

پریشانی اور مصیبت گھر کرتی ہے تو لامحالہ انسانی رویوں میں فرق آنے لگتا ہے ، اماں تو شگفتہ کوکوستی ہی رہتی تھیں اب فائزہ کے احساس محروی نے بھی چھوٹی بہن شگفتہ کے لیے دل میں معاندانہ جذبات کو پروان چڑھایا ۔

یوں شگفتہ بے چاری گھر میں دبی دبی رہنے لگی ،وہ اب مزید چپ چپ سی رہنے لگی ۔

چند روز بعد پھر وہ پراسرار حالات کا شکار ہوگئی ۔

ایک روز اس نے صحن میں کسی غیر انسانی محلوق کے بڑے بڑے کیچڑ زده پیروں کے بدہئیت نشان دیکھے ، رات کو سوتے وقت اسےصحن میں کسی کے گنگنانے کی آوازیں سنائی دیتیں ، وہ اب کسی سے اس کا ذکر نہ کرتی اور اندر ہی اندر گھٹتی رہتی ۔

اب اس کے ساتھ کمرے میں کوئی نہیں سوتا تھا اور نہ ہی وہ اب کسی کو اپنے ساتھ سلانے کے لیے کہتی تھی ۔ ایک رات بلا کسی وجہ کے اس کا دل خوف نے جکڑ لیا ، اس کے دل کی دھڑکنیں اچانک اس قدر تیز ہو گئیں کہ اس کی دھمک اسے اپنی سائیں سائیں کرتی کنپٹیوں میں سنائی دینے لگی۔

مجبور ہو کر وہ اپنی ماں کے کمرے میں گئی اور پاس سونے کو کہاتو ماں نے چڑ کر کہا ۔

اب کیا مجھے بھی مارے گی ؟

بہن کا تو ستیا ناس کردیا تو نے            !!!!

شگفتہ بے چاری اپنا سا منہ لے کر واپس کمرے میں آگئی ۔

اب وہ تھی اور اس کا خاموش اور ویران تاریکی میں ڈوبا ہوا کمرہ            !!!

اور وہ بے چاری ڈری سہمی بیڈ پر سکڑ سمٹ کر بیٹھ گئی اور سرائیہ نگاہوں سے درو دیواروں کو تکنے گی ، اس نے کمرے کی لائٹ روشن کر رکھی تھی پھر بھی اسے ان جانے خوف نے گھیر رکھا تھا ، اس نے نیند کی ایک گولی کھا لی تھی اور تنگ آ کر دوسری بھی نکال کر منہ میں ڈالی تو اچانک اسے زبان پر یوں محسوس ہوا جیسے کوئی کیڑا رینگ رہا ہو ، اس نے فورا اسے تھوک دیا ، ایک سیاہ رنگ کا چیونٹا نما کیڑا اس کے منہ سے نکل کر کمرے کے وسط میں بچھی دری پر جاپڑا         ،،شگفتہ کو بری طرح کراہیت محسوس ہونے لگی ، وہ حیرانی کہ اس نے تو نیند کی گولی زبان پر رکھی تھی ، یہ کیڑا اس کے منہ میں کہاں سے آگیا ؟

پھر دفعتاً بی اس نے دیکھا کہ دری پر پڑا ہوا کیڑا دائرے کی صورت میں رینگنے لگا،، پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کا حجم پڑھنے لگا، حتی کہ وہ بڑا اور قوی الجشہ ہوگیا کہ اس کی بڑی بڑی ابھری ہوئی تین آنکھیں واضح طور پر اسے گھورتی ہوئی محسوس ہونے لگیں ، چیونٹے کی آٹھ بڑی بڑی ٹانگوں میں بالوں کی ہلکی ہلکی روئیدگی بھی نظر آ رہی تھی ۔

اس کا سر بڑا ہو کر مکٹے کی طرح ہو گیا تھا جسے وہ دائیں بائیں حرکت دے رہا تھا ۔

شگفتہ دہشت کے مارے بری طرح کانپتے لگی ، اس کا سارا لہو جیسے منجمد ہوگیا تھا حلق سے آواز تک برآمد نہیں ہورہی تھی ۔

اس کے ساتھ ایسا ہی ہوتا تھا جب بھی وہ ایسے خوفناک مناظر کا نظارہ کرتی تھی تو جیسے اس کی قوت گویائی سلب ہو کر رہ جاتی تھی ۔

پھر اس نے ذرا ہمت کی اور بیڈ سے اٹھ کر دروازے کی طرف دوڑی ، قوی الجشہ چیونٹے نے اس کی طرف حرکت کی مگر شگفتہ کمرے کا دروازہ کھول کر باہر کی طرف بھاگی تو سامنے اس کا بھائی ساجد کھڑا تھا ، بھائی کو دکھی کروہ اس سے لپٹ گئی ۔

کیا ہوا شگو         !!! تو اتنا خوف زدہ کیوں ہوگئی ہے,؟

ساجد نے اس سے پوچھا ۔

              سسس             ساجد                 وہ اندرمم                       میرے کمرے میں                          ‘

‘ شگفتہ کی زبان خوف سے لڑکھڑا گئی ۔

کیا ہے تمہارے کمرے میں آؤ میرے ساتھ ۔

ساجد نے اس سے کہا اور پھر دونوں بہن ، بھائی کمرے کی طرف بڑھے تو اچانک شگفتہ نے اس بدہئیت قوی الجشہ کیڑے کو کمرے کے دروازے سے باہر رینگتے ہوئے نکلتے دیکھا ۔

 وہ                 وہ دیکھو ساجد                 ! ‘شگفتہ نے سامنے اشارہ کرتے ہوئے کپکپاتے لہجے میں بھائی سے کہا ۔

اس کا خیال تھا کہ ساجد بھی اس بھیانک چیونٹے کو دیکھ کر ڈر جائے گا مگر ساجد نےعجیب سے انداز میں قہقہہ لگا کر سرسراتے لہجے میں شگفتہ سے کہا ۔

 یہ تو میرا دوست ہے ، یہ انسانی گوشت بہت شوق سے             ”

شگفتہ نے جو اپنے بھائی کی بات سنی تو خوف سے لرز گئی پھر اس نے چونک کر اس کے چہرے کی طرف دیکھا اور خوف سے چیخ پڑی ، اس کا چہرہ ہزار واٹ کے بلب کی طرح روشن تھا اور آنکھیں اس کی پھٹی پھٹی تھیں جبکہ ہونٹوں پر عجیب پراسرار مسکراہٹ تھی ۔

اپنے بھائی کی بدلتی ہوئی عجیب و غریب اور خوفناک شکل دیکھ کر شگفتہ ہسٹریائی انداز میں چیختی ہوئی سیدھی اپنے باپ کے کمرے کی طرف دوڑی ۔

اچانک سارے کمروں کے دروازے کھل گئے اور شگفتہ ٹھیک کر رک گئی ۔

کیا دیکھتی ہے کہ اس کے ابو امی اور فائزہ اپنے کمروں سے نکل کر اس کی طرف عجیب میکانیکی انداز میں بڑھتے چلے آرہے تھے ، ان سب کی ہئیت مجموئی ساجد جیسی ہی تھی ، پتھرائی ہوئی آنکھیں سرد مہر اور جذبات سے عاری چہرے ، البتہ ہونٹوں پر بڑی عجیب ی پراسرار بھری مسکراہٹ تھی ،شگفتہ کی روح تک حوف سے لرز گئی ، اپنے گھر والوں کو ایک عجیب و غریب حالت میں دیکھ کر شگفت زور زور سے رونے لگی ۔

امی ، ابو       بھائی            !! آپ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے                                           کیا ہو گیا ہے آپ لوگوں کو او میرے خدا              یہ کیا ہورہا ہے میرے ساتھ ‘ ‘

وہ رورو کر ہا نپنے لگی اور پھر باہر کی طرف بھاگی ۔

تاریکی صحن میں آ کر وہ کسی چیز سے ٹھوکر کھا کر گری ۔

آسمان پر کھلے آسمان میں آخری تاریخوں کے چاند کی مدھم روشنی میں اس نے اپنے عقب میں قہقہوں کی بازگشت سنی ، اس نے پکے فرش پر لیٹے لیٹے عقب میں گردن موڑ کر دیکھا تو سب گھر والے اسی طرح عجیب وغریب کیفیات کے ساتھ اس کی طرف میکانیکی انداز میں بڑھ رہے تھے اور اسے بلا رہے تھے ، ان سب کے چہروں کے نقوش بگڑ گئے تھے ۔

کسی کی ایک آنکھ پھوٹ گئی تھی تو کسی کی زبان باہر کو دراز ہوکر جھول رہی تھی ۔

شگفتہ پر بھی جیسے ہسٹریائی دورہ پڑ چکا تھا ، اس نے صحن میں رکھا وائیپر اٹھالیا اور انہیں مارنے کو لپکی!

شگو                   شگو                        !!! ہوش کرو کیا ہوگیا ہی تمہیں ، کیوں ہمیں مار رہی ہو ؟  فائو نے چلا کر کہا ۔

مگر شگفتہ پرتو خوف کے مارے ہسٹریائی جنون کا دورہ پڑ چکا تھا ۔

میں تم سب کو مارڈالوں گی تم لوگ میرے دشمن ہو                      مم                                              مجھے جان سے ماردوگئے ۔

وہ یہ کہتے کہتے ہے دم ہو کر گرنے لگی تو باپ نے آگے بڑھ کر اسے گرنے سے پہلے تھام لیا

اسے جب ہوش آیا تو صبح ہو چکی تھی ۔

اس کے گرد گھر کے سارے فر موجود تھے مگر اس طرح کسی کی ناک متورم تھی تو کسی کا چیره زخمی تھا،۔

تیمور ، شگفتہ کے سرہانے بیٹھے تھے اور پیار بھرے انداز میں اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہے تھے ۔

شگفتہ بیٹی اب کیسی ہوتم نہیں کیا ہو گیا تھا ؟

باپ نے ملائمت آمیزی سے پوچھا تو شگفتہ بے اختیار روپڑی ۔

شگو کے ابا میں تو کہتی ہوں کہ ڈاکٹروں واکٹروں کے چکروں میں نہ پڑو ، اس پرکسی جن کا سایہ لگتا ہے ، اسے کسی اللہ والے بندے کو دیکھاؤ اور دم کرواؤ ، ورنہ یہ ایک دن ہم سب کو مار ڈالے گی

 تیمور کی بیوی نے اپنے شوہر سے کہا ۔

تیموربھی تنگ آگئے تھے مگر وہ اب بھی اس بات سے متفق نہ تھے کہ کسی آسیب کا چکر ہے تاہم وہ اسی وقت شگفتہ کو کار میں بٹھا کراسی ماہر نفسیات ڈاکٹر رحمت علی خان کے کلینک جا پہنچے اور انہیں ساری بات بتائی ۔

اس نے بغور تیمور کی زبانی ساری بات سنی پھر بڑ بڑانے کے انداز میں ہولے لگتا ہے اب ہمیں تحلیل نفسی سے کام لینا پڑے

پھر وہ شگفتہ کو لے کر ایک دوسرے نسبتاً چھوٹے کمرے میں آئے اور اسے سامنے ایک کاؤچ پر نیم دراز ہونے کو کہا ، اس کے بعد انہوں نے کمرے کی لائٹ آف کردی۔

کمرے میں اب مدھم روشنی تھی جس کا مخرج نظر نہیں آرہا تھا ۔

شگفتہ خاموشی سے جا کر کاوچ پر نیم دراز ہوگئی ، ڈاکٹر رحمت علی اس کے بالکل قریب ایک اسٹول پر بیٹھ گئے اور بغور شگفتہ کے چہرے کی طرف گھورنے گئے ، شگفتہ کی بھی یک ٹک نظریں ان کے خاموش چہرے پر جمی ہوئی تھیں پھر اچانک ڈاکٹرحمت علی اس کی طرف کچھ کہنے کے لیے جھکے تو اچانک ان کا چہرہ بھیانک ہو گیا ،

شگفتہ کے حلق سے زور دار چینح خارج ہوگئی اور اس نے ہسٹریائی انداز میں جا کر ان کا چہرہ نوچ ڈالا اور باہر بھاگی ۔

دوسرے کمرے میں تیمور سر پکڑے بیٹھے تھے ، بیٹی کو یوں ہزیانی انداز میں چینحتے ہوئے کمرے سے نکلتے دیکھا تو یک دم اٹھ کر کھڑے ہوئے ، اس دوران ڈاکٹر رحمت علی خان اپنے خراش زدہ چہرے پر رومال پھیرتا ہوا نمودار ہوا اور اسے ساری بات سے آگاہ کیا ۔

نہیں بھائی میں اس کا علاج نہیں کرسکتا ، بہت خطرناک لڑکی ہے یہ ، اسے لے جا کر پاگل خانے میں داخل کر دو ۔

ڈاکٹر رحمت علی خان نے بدحواس کی آواز میں کہا اور تیمور خاموشی سے شگفتہ کو لے کر گھر آگئے ۔

شگفتہ کے محلے میں پرچون کی ایک چھوٹی سی دکان تھی جہاں عموما ایک بیس بائیس سالہ لڑکا ناصر بیٹھا کرتا تھا ، وکان گھر سے متصل ہی تھی ، یہ اس کے ماموں سعید احمد کا گھر تھا ، وہ بے اولاد تھے ، ناصر بھی یتیم تھا اس لئے وہ انھی کے پاس رہتا تھا اور دکان بھی تقریباً وہی سنبھالتا تھا ،شگفتہ کو وہ اکثر کالج سے آتا جاتا دیکھا کرتا تھا ،شگفتہ بھی کبھی کبھار سودا سلف لینے اس کی دکان پر آتی رہتی تھی۔

ناصر اسے پسند کرتا تھا اور بڑی پراشتیاق نظروں سے اسے دیکھتا رہتا تھامگر کبھی اس نے شگفتہ کے ساتھ بدتمیزی کرنے کی کوشش نہیں کی تھی لیکن اس کا دل شگفتہ سے اظہار محبت کرنے کے لیے مچلتا ضرور رہتا تھا ، وہ ہر بار تہیہ کرتا کہ آج شگفتہ سے اپنے دل کی بات کہہ کر رہے گا مگر جب شگفتہ اس کی دکان پر آتی تو گویا زبان تالو سے چپک جاتی ۔

اس دوران اس نے ایک سوٹڈ بوٹ شخص کو بھی دیکھا تھا اور یہ ایک عجیب بات تھی کہ جب بھی شگفتہ اس کی دکان پر سودا سلف لینے کے لیے آتی تھی تو یہ پر اسرار شخص بھی اچانک نہ جانے کہاں سے نمودار ہو جاتا اور ذرا دور کھڑا عجیب سی نظروں کے ساتھ ان دونوں کو گھورتا رہتا ۔

ایک روز جب شگفتہ اس کی دکان سے نکلی تو وہ شخص غائب ہونے کی بجائے دکان کی طرف بڑھا        

جلدی دواؤں کی قیمتیں ویسے ہی آسمان کو چھو رہی ہوتی ہیں ، فائزہ نے بھی اپنے چہرے کے نشان مٹانے کے لیے ایک سے ایک مہنگی ٹیوب، لوشن اور دوائیں استعمال کیں،، تب کہیں جا کر چہرے کے نشانات میں کمی آئی تھی۔

لیکن پھربھی وہ پوری طرح غائب نہیں ہوئے تھے چنانچہ نتیجه اس کا یہ نکلا کہ لڑکے والوں نے خوب ناک بھوں چڑھائی اور کچھ اچھا تاثرنہ دیا ۔

بیگم تیمور پہلے سے زیادہ متوحش ہوگئیں ، فائزہ کے دل کو بھی دھچکا پہنچا تھا ، دکھ شگفتہ کو بھی تھا ، وہ اس کا ذمہ دار خود کوئی سمجھتی تھی ، البتہ تیمور کی پیشانی پر ذرا بھی تفکر کی لکیرنا ابھری تھی ، ان کا خیال تھا کہ جوڑے آسمانوں میں بنتے ہیں ، اچھا ہوا جولڑکے والوں نے ابھی سے اپنی تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک عارضی عیب پررشتے سے ہی انکار کر ڈالا ۔

پھر اسی طرح دو تین رشتے اور آئے انہوں نے بھی فائز کا نشان زدہ چہرہ دیکھ کر صاف انکار کردیا ، چہرے کا نشان معمولی بات تو نہیں ہوتا اور وہ بھی ایک جوان اور کنواری لڑکی کا چہرہ              ! کچھ نشان قائرہ کے چہرے کی جلد کا جیسے حصہ بن چکے تھے جن کے بارے میں تیمور کا خیال تھا کہ یہ عارضی ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ خودی بھر جائیں گے لیکن ایسا نہ ہوا تو تیمور کوبھی پریشانی نے آلیا ، انہوں نے شہر کے ایک سے ایک اچھے اسکن اسپیشلسٹ کو دکھایا حتی کہ بیوٹیشن ایکسپرٹ کے پاس بھی فائز کو لے کر گئےمگر چہرے کے نشان جوں کے توں رہے ۔

یوں ہنستے بستے گھر کی فضا سوگوار ہوگئی ۔

پریشانی اور مصیبت گھر کرتی ہے تو لامحالہ انسانی رویوں میں فرق آنے لگتا ہے ، اماں تو شگفتہ کوکوستی ہی رہتی تھیں اب فائزہ کے احساس محروی نے بھی چھوٹی بہن شگفتہ کے لیے دل میں معاندانہ جذبات کو پروان چڑھایا ۔

یوں شگفتہ بے چاری گھر میں دبی دبی رہنے لگی ،وہ اب مزید چپ چپ سی رہنے لگی ۔

چند روز بعد پھر وہ پراسرار حالات کا شکار ہوگئی ۔

ایک روز اس نے صحن میں کسی غیر انسانی محلوق کے بڑے بڑے کیچڑ زده پیروں کے بدہئیت نشان دیکھے ، رات کو سوتے وقت اسےصحن میں کسی کے گنگنانے کی آوازیں سنائی دیتیں ، وہ اب کسی سے اس کا ذکر نہ کرتی اور اندر ہی اندر گھٹتی رہتی ۔

اب اس کے ساتھ کمرے میں کوئی نہیں سوتا تھا اور نہ ہی وہ اب کسی کو اپنے ساتھ سلانے کے لیے کہتی تھی ۔ ایک رات بلا کسی وجہ کے اس کا دل خوف نے جکڑ لیا ، اس کے دل کی دھڑکنیں اچانک اس قدر تیز ہو گئیں کہ اس کی دھمک اسے اپنی سائیں سائیں کرتی کنپٹیوں میں سنائی دینے لگی۔

مجبور ہو کر وہ اپنی ماں کے کمرے میں گئی اور پاس سونے کو کہاتو ماں نے چڑ کر کہا ۔

اب کیا مجھے بھی مارے گی ؟

بہن کا تو ستیا ناس کردیا تو نے            !!!!

شگفتہ بے چاری اپنا سا منہ لے کر واپس کمرے میں آگئی ۔

اب وہ تھی اور اس کا خاموش اور ویران تاریکی میں ڈوبا ہوا کمرہ            !!!

اور وہ بے چاری ڈری سہمی بیڈ پر سکڑ سمٹ کر بیٹھ گئی اور سرائیہ نگاہوں سے درو دیواروں کو تکنے گی ، اس نے کمرے کی لائٹ روشن کر رکھی تھی پھر بھی اسے ان جانے خوف نے گھیر رکھا تھا ، اس نے نیند کی ایک گولی کھا لی تھی اور تنگ آ کر دوسری بھی نکال کر منہ میں ڈالی تو اچانک اسے زبان پر یوں محسوس ہوا جیسے کوئی کیڑا رینگ رہا ہو ، اس نے فورا اسے تھوک دیا ، ایک سیاہ رنگ کا چیونٹا نما کیڑا اس کے منہ سے نکل کر کمرے کے وسط میں بچھی دری پر جاپڑا         ،،شگفتہ کو بری طرح کراہیت محسوس ہونے لگی ، وہ حیرانی کہ اس نے تو نیند کی گولی زبان پر رکھی تھی ، یہ کیڑا اس کے منہ میں کہاں سے آگیا ؟

پھر دفعتاً بی اس نے دیکھا کہ دری پر پڑا ہوا کیڑا دائرے کی صورت میں رینگنے لگا،، پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کا حجم پڑھنے لگا، حتی کہ وہ بڑا اور قوی الجشہ ہوگیا کہ اس کی بڑی بڑی ابھری ہوئی تین آنکھیں واضح طور پر اسے گھورتی ہوئی محسوس ہونے لگیں ، چیونٹے کی آٹھ بڑی بڑی ٹانگوں میں بالوں کی ہلکی ہلکی روئیدگی بھی نظر آ رہی تھی ۔

اس کا سر بڑا ہو کر مکٹے کی طرح ہو گیا تھا جسے وہ دائیں بائیں حرکت دے رہا تھا ۔

شگفتہ دہشت کے مارے بری طرح کانپتے لگی ، اس کا سارا لہو جیسے منجمد ہوگیا تھا حلق سے آواز تک برآمد نہیں ہورہی تھی ۔

اس کے ساتھ ایسا ہی ہوتا تھا جب بھی وہ ایسے خوفناک مناظر کا نظارہ کرتی تھی تو جیسے اس کی قوت گویائی سلب ہو کر رہ جاتی تھی ۔

پھر اس نے ذرا ہمت کی اور بیڈ سے اٹھ کر دروازے کی طرف دوڑی ، قوی الجشہ چیونٹے نے اس کی طرف حرکت کی مگر شگفتہ کمرے کا دروازہ کھول کر باہر کی طرف بھاگی تو سامنے اس کا بھائی ساجد کھڑا تھا ، بھائی کو دکھی کروہ اس سے لپٹ گئی ۔

کیا ہوا شگو         !!! تو اتنا خوف زدہ کیوں ہوگئی ہے,؟

ساجد نے اس سے پوچھا ۔

              سسس             ساجد                 وہ اندرمم                       میرے کمرے میں                          ‘

‘ شگفتہ کی زبان خوف سے لڑکھڑا گئی ۔

کیا ہے تمہارے کمرے میں آؤ میرے ساتھ ۔

ساجد نے اس سے کہا اور پھر دونوں بہن ، بھائی کمرے کی طرف بڑھے تو اچانک شگفتہ نے اس بدہئیت قوی الجشہ کیڑے کو کمرے کے دروازے سے باہر رینگتے ہوئے نکلتے دیکھا ۔

 وہ                 وہ دیکھو ساجد                 ! ‘شگفتہ نے سامنے اشارہ کرتے ہوئے کپکپاتے لہجے میں بھائی سے کہا ۔

اس کا خیال تھا کہ ساجد بھی اس بھیانک چیونٹے کو دیکھ کر ڈر جائے گا مگر ساجد نےعجیب سے انداز میں قہقہہ لگا کر سرسراتے لہجے میں شگفتہ سے کہا ۔

 یہ تو میرا دوست ہے ، یہ انسانی گوشت بہت شوق سے             ”

شگفتہ نے جو اپنے بھائی کی بات سنی تو خوف سے لرز گئی پھر اس نے چونک کر اس کے چہرے کی طرف دیکھا اور خوف سے چیخ پڑی ، اس کا چہرہ ہزار واٹ کے بلب کی طرح روشن تھا اور آنکھیں اس کی پھٹی پھٹی تھیں جبکہ ہونٹوں پر عجیب پراسرار مسکراہٹ تھی ۔

اپنے بھائی کی بدلتی ہوئی عجیب و غریب اور خوفناک شکل دیکھ کر شگفتہ ہسٹریائی انداز میں چیختی ہوئی سیدھی اپنے باپ کے کمرے کی طرف دوڑی ۔

اچانک سارے کمروں کے دروازے کھل گئے اور شگفتہ ٹھیک کر رک گئی ۔

کیا دیکھتی ہے کہ اس کے ابو امی اور فائزہ اپنے کمروں سے نکل کر اس کی طرف عجیب میکانیکی انداز میں بڑھتے چلے آرہے تھے ، ان سب کی ہئیت مجموئی ساجد جیسی ہی تھی ، پتھرائی ہوئی آنکھیں سرد مہر اور جذبات سے عاری چہرے ، البتہ ہونٹوں پر بڑی عجیب ی پراسرار بھری مسکراہٹ تھی ،شگفتہ کی روح تک حوف سے لرز گئی ، اپنے گھر والوں کو ایک عجیب و غریب حالت میں دیکھ کر شگفت زور زور سے رونے لگی ۔

امی ، ابو       بھائی            !! آپ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے                                           کیا ہو گیا ہے آپ لوگوں کو او میرے خدا              یہ کیا ہورہا ہے میرے ساتھ ‘ ‘

وہ رورو کر ہا نپنے لگی اور پھر باہر کی طرف بھاگی ۔

تاریکی صحن میں آ کر وہ کسی چیز سے ٹھوکر کھا کر گری ۔

آسمان پر کھلے آسمان میں آخری تاریخوں کے چاند کی مدھم روشنی میں اس نے اپنے عقب میں قہقہوں کی بازگشت سنی ، اس نے پکے فرش پر لیٹے لیٹے عقب میں گردن موڑ کر دیکھا تو سب گھر والے اسی طرح عجیب وغریب کیفیات کے ساتھ اس کی طرف میکانیکی انداز میں بڑھ رہے تھے اور اسے بلا رہے تھے ، ان سب کے چہروں کے نقوش بگڑ گئے تھے ۔

کسی کی ایک آنکھ پھوٹ گئی تھی تو کسی کی زبان باہر کو دراز ہوکر جھول رہی تھی ۔

شگفتہ پر بھی جیسے ہسٹریائی دورہ پڑ چکا تھا ، اس نے صحن میں رکھا وائیپر اٹھالیا اور انہیں مارنے کو لپکی!

شگو                   شگو                        !!! ہوش کرو کیا ہوگیا ہی تمہیں ، کیوں ہمیں مار رہی ہو ؟  فائو نے چلا کر کہا ۔

مگر شگفتہ پرتو خوف کے مارے ہسٹریائی جنون کا دورہ پڑ چکا تھا ۔

میں تم سب کو مارڈالوں گی تم لوگ میرے دشمن ہو                      مم                                              مجھے جان سے ماردوگئے ۔

وہ یہ کہتے کہتے ہے دم ہو کر گرنے لگی تو باپ نے آگے بڑھ کر اسے گرنے سے پہلے تھام لیا

اسے جب ہوش آیا تو صبح ہو چکی تھی ۔

اس کے گرد گھر کے سارے فر موجود تھے مگر اس طرح کسی کی ناک متورم تھی تو کسی کا چیره زخمی تھا،۔

تیمور ، شگفتہ کے سرہانے بیٹھے تھے اور پیار بھرے انداز میں اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہے تھے ۔

شگفتہ بیٹی اب کیسی ہوتم نہیں کیا ہو گیا تھا ؟

باپ نے ملائمت آمیزی سے پوچھا تو شگفتہ بے اختیار روپڑی ۔

شگو کے ابا میں تو کہتی ہوں کہ ڈاکٹروں واکٹروں کے چکروں میں نہ پڑو ، اس پرکسی جن کا سایہ لگتا ہے ، اسے کسی اللہ والے بندے کو دیکھاؤ اور دم کرواؤ ، ورنہ یہ ایک دن ہم سب کو مار ڈالے گی

 تیمور کی بیوی نے اپنے شوہر سے کہا ۔

تیموربھی تنگ آگئے تھے مگر وہ اب بھی اس بات سے متفق نہ تھے کہ کسی آسیب کا چکر ہے تاہم وہ اسی وقت شگفتہ کو کار میں بٹھا کراسی ماہر نفسیات ڈاکٹر رحمت علی خان کے کلینک جا پہنچے اور انہیں ساری بات بتائی ۔

اس نے بغور تیمور کی زبانی ساری بات سنی پھر بڑ بڑانے کے انداز میں ہولے لگتا ہے اب ہمیں تحلیل نفسی سے کام لینا پڑے

پھر وہ شگفتہ کو لے کر ایک دوسرے نسبتاً چھوٹے کمرے میں آئے اور اسے سامنے ایک کاؤچ پر نیم دراز ہونے کو کہا ، اس کے بعد انہوں نے کمرے کی لائٹ آف کردی۔

کمرے میں اب مدھم روشنی تھی جس کا مخرج نظر نہیں آرہا تھا ۔

شگفتہ خاموشی سے جا کر کاوچ پر نیم دراز ہوگئی ، ڈاکٹر رحمت علی اس کے بالکل قریب ایک اسٹول پر بیٹھ گئے اور بغور شگفتہ کے چہرے کی طرف گھورنے گئے ، شگفتہ کی بھی یک ٹک نظریں ان کے خاموش چہرے پر جمی ہوئی تھیں پھر اچانک ڈاکٹرحمت علی اس کی طرف کچھ کہنے کے لیے جھکے تو اچانک ان کا چہرہ بھیانک ہو گیا ،

شگفتہ کے حلق سے زور دار چینح خارج ہوگئی اور اس نے ہسٹریائی انداز میں جا کر ان کا چہرہ نوچ ڈالا اور باہر بھاگی ۔

دوسرے کمرے میں تیمور سر پکڑے بیٹھے تھے ، بیٹی کو یوں ہزیانی انداز میں چینحتے ہوئے کمرے سے نکلتے دیکھا تو یک دم اٹھ کر کھڑے ہوئے ، اس دوران ڈاکٹر رحمت علی خان اپنے خراش زدہ چہرے پر رومال پھیرتا ہوا نمودار ہوا اور اسے ساری بات سے آگاہ کیا ۔

نہیں بھائی میں اس کا علاج نہیں کرسکتا ، بہت خطرناک لڑکی ہے یہ ، اسے لے جا کر پاگل خانے میں داخل کر دو ۔

ڈاکٹر رحمت علی خان نے بدحواس کی آواز میں کہا اور تیمور خاموشی سے شگفتہ کو لے کر گھر آگئے ۔

شگفتہ کے محلے میں پرچون کی ایک چھوٹی سی دکان تھی جہاں عموما ایک بیس بائیس سالہ لڑکا ناصر بیٹھا کرتا تھا ، وکان گھر سے متصل ہی تھی ، یہ اس کے ماموں سعید احمد کا گھر تھا ، وہ بے اولاد تھے ، ناصر بھی یتیم تھا اس لئے وہ انھی کے پاس رہتا تھا اور دکان بھی تقریباً وہی سنبھالتا تھا ،شگفتہ کو وہ اکثر کالج سے آتا جاتا دیکھا کرتا تھا ،شگفتہ بھی کبھی کبھار سودا سلف لینے اس کی دکان پر آتی رہتی تھی۔

ناصر اسے پسند کرتا تھا اور بڑی پراشتیاق نظروں سے اسے دیکھتا رہتا تھامگر کبھی اس نے شگفتہ کے ساتھ بدتمیزی کرنے کی کوشش نہیں کی تھی لیکن اس کا دل شگفتہ سے اظہار محبت کرنے کے لیے مچلتا ضرور رہتا تھا ، وہ ہر بار تہیہ کرتا کہ آج شگفتہ سے اپنے دل کی بات کہہ کر رہے گا مگر جب شگفتہ اس کی دکان پر آتی تو گویا زبان تالو سے چپک جاتی ۔

اس دوران اس نے ایک سوٹڈ بوٹ شخص کو بھی دیکھا تھا اور یہ ایک عجیب بات تھی کہ جب بھی شگفتہ اس کی دکان پر سودا سلف لینے کے لیے آتی تھی تو یہ پر اسرار شخص بھی اچانک نہ جانے کہاں سے نمودار ہو جاتا اور ذرا دور کھڑا عجیب سی نظروں کے ساتھ ان دونوں کو گھورتا رہتا ۔

ایک روز جب شگفتہ اس کی دکان سے نکلی تو وہ شخص غائب ہونے کی بجائے دکان کی طرف بڑھا        

جائزہ لیتے ہوئے پوچھا ۔ ایک بات توبتا بٹوا                              !!!! کیا تم واقعی اس لڑکی سے سچی محبت کرتے ہو ؟

ناصر نے اک طویل سانس کھینچی اور یاس زده لہجے میں سر ہلا کر بولا                                  میں شگفتہ سے بہت محبت کرتا ہوں ، سچی محبت                ۔!

 تو ٹھیک ہے ، سمجھوتمہارا آدھا کام بن گیا ۔   آدھا کام؟                         ناصرا لجھ کر بولا اور اس کا چہرہ تکنے لگا۔

 ہاں بٹوا               !! ! ہم پھر یہ کہتے ہیں ۔

اس بار پراسراشخص نے عجیب لب و لہجے میں کہا جواس کا شاید اصل انداز تھا ۔

ہم تمہیں جوعمل بتانے والے ہیں ، اس کی کامیابی کا انحصار محبوب سے سچی محبت کا دل کے اندر موجود ہونا ہے ، پرنتو تم کرو تب نا وہ عمل           ؟ عامل جی                 ! میں ضرور کروں گا رمل ، مجھے اگر شگفتہ کوحاصل کرنے کے لیے آگ کے دریا میں چھلانگ لگانی پڑے تو میں کود پڑوں گا ، مجھے بتا دو عامل جی ناصر بچوں کی طرح خوش ہو کر بولا ۔

وہ عامل اسرار بھری مسکراہٹ سے بولا میرا نام رنگا ماتی ہے ، تم ایسا کرو کسی وقت میرے گھر آجاؤ ، پیر پاڑے میں میرا گھر ہے ، وہاں مجھے کوئی زیادہ جانتا نہیں ہے اس لئے کسی سے میرا پتہ پوچھنا بےکار ہی ثابت ہو گا ، ہاں میں تمہیں کچھ نشانیاں بتا رہا ہوں ، سنو پیر پاڑے میں ایک مشہور دودھ والے پیڑ پہلوان کی دکان ہے ، اس کی دکان کے بالکل سامنے والے گھر کے دائیں طرف چارگھر دور ایک پرچون کی دکان چھوڑ کر ایک پتلی گلی ہوگی تم اس میں داخل ہو جانا ۔ وہ ایک بند گلی ہے ، سامنے دروازہ نظر آئے گا بس وہی ہمارا گھر ہے ، تم دستک دیئے بغیر اندر آجانا ۔ ‘ ‘ وہ یہ کہہ کر چلا گیا ۔

ناصر الجھن آمیز چہرے کے ساتھ سوچتا اسے جاتا دیکھتا رہا ۔

ٹاہلی والے بابا سے ملنے اور ان کی ہدایت پر عمل کرنے کے بعد گھر میں کچھ سکون ہو گیا تھا،، شگفتہ کو پھر اس دن کے بعد وہ ڈراؤنے مناظر نظر نہیں آئے تھے تاہم تیمور کو ٹاہلی والے بابا کی ایک ہدایت یاد تھی، انہوں نے آخر میں خاص طور پر تاکید کی تھی کہ اگر پھر بھی شگفتہ کی حالت نہ سنبھلے تو سے ان کے حجرے میں لے آئے مگر سردست اس کی ضرورت ہی نہ پڑی تھی ، حالات خود بخود صحیح ہو گئے تھے ۔

اسی روز رات کو شگفتہ سونے کے لیے اپنے کمرے میں آئی تو بری طرح ٹھٹک گئی ، کمرے کی دیواروں پر جا بجا خون کے چھینٹے پڑے ہوئے تھےوہ سہم گئی       ،پے در پے اس پر بیتنے والے ان پر اسرار واقعات نے اب اسے عادی سا بنادیا تھا اور وہ اب اپنے اعصاب پر قابو پانا سیکھ گئی تھی اس لئے بھی اس نے اس ڈر سے کسی کو کچھ نہیں بتایا کہیں پھر اس کے گھر والے بالخصوص اماں اور آپی پریشان نہ ہو جائیں اور اس سے کھینچے کھینچے رہنے لگے، اس لئے وہ دل مضبوط کئے بیڈ پر بیٹھے گئی ، دھیرے دھیرے اس کے اندر کا خوف بڑھنے لگا ، وہ حیرت وخوف سے آنکھیں پھاڑے کمرے کی دیواروں پر لگے خون کے چھینٹوں کو دیکھنے گی پھر اس پر لرزہ سا طاری ہونے لگا ، اس سے پہلے کہ اس پر دورہ پڑتا وہ جلدی سے اٹھ کر کمرے سے باہر آ گئی،، صحن میں رات کا تاریک سناٹا طاری تھا ۔

شگفتہ صحن میں بچھی ایک چارپائی پر بیٹھ گئی موسم بدلنے لگا تھا ، فضا میں ہلکی ہلکی ٹھنڈ اتر آئی تھی ۔

ہر سو گہری خاموشی کا راج تھا ، شگفتہ خاموشی سے چار پائی پر بیٹھی سراسیمہ نظروں سے اپنے کمرے کی طرف دیکھ رہی تھی ، اچانک اسے ان کی مشرقی دیواروں پر آہٹ کا احساس ہوا ، اس نے گردن موڑ کر دیکھا اور خوف کے مارے اس کی گھگھی بندھ گئی ۔ کسی خونخوار جانور کے اگلے دو پنجوں سے مشابه تیز نوکیلے اور بڑے بڑے ہاتھ دیوار کی منڈیر پکڑے ہوئے تھے ۔

بالکل اسی طرح جیسے کوئی دوسری طرف سے اندر دیوار پر ہاتھ کے سہارے اٹھ رہا ہو ، پھر ان دونوں سیاہ رنگ کے تیز نوکیلے ناخنوں والے پنجوں کے درمیانی خلا میں :: ایک بھیانک اور غیر انسانی چہرہ ابھرا ، جسے دیکھ کر شگفتہ بری طرح دہل گئی ، یہ وہی بھیانک چہرہ تھا بغیر پپوٹوں والی ابلتی ہوئی بڑی بڑی گھورتی ہوئی لال انگارہ آنکھیں نتھنے غائب ، گالوں کی جگہ تاریک گڑھے ۔ شگفتہ مارے خوف کے اپنی جگہ منجمد کر رہ گئی ۔

اس بھیانک چہرے والی غیر انسانی مخلوق کا پوراوجود ابھرا آیا جو کیڑا سا تھا ، اس کی موتی دم بھی تھی ، پچھلے دو پائوں بھی تھے کسی چوپائے کی طرح وہ بھیانک چہرے والی غیر انسان مخلوق منڈیر پر جم کر بیٹھ گئی اور سرخ سرخ انگار آنکھوں سے اسے گھورنے لگی ۔

پھر جانے کس طرح شگفتہ کو اپنے اندر ایک عجیب سا حوصلہ محسوس ہوا اور وہ یک دم چار پائی سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی اور ہمت کر کے چند قدم اٹھاتی ہوئی اس منڈیر کے قریب آگئی جس پر وہ بھیانک چہرے والی غیر انسانی مخلوق بیٹھی بغیر پپوٹوں والی خوفناک ابلتی آنکھوں سے اس کی طرف گھور رہی تھی ، پھر شگفتہ کے ہونٹ متحرک ہوئے اور وہ اس سے لرزیدہ لہجے میں التجا کرتے ہوئے بولی تم                         تم آ خر کک                                           کون ہو ؟

میرا پیچھا چھوڑ کیوں نہیں دیتے ؟

شگفتہ کے لہجے میں خوف بھی تھا اور بے بسی بھی منڈی سے چپکی ہوئی اس بھیانک چہرے والی شیطانی مخلوق نے اپنی سرخ دوشاخه زبان باہر کو لپلپائی اور ایک تیز خراٹے دار آواز نکالی اورغرانے کے انداز میں بولی

شگورانی                              !!!! میرا بس چلے تو تیرے سارے گھر والوں کو موت کے گھاٹ اتار دوں لیکن ابھی میری( شکتی) کو وہ دوام نصیب نہیں ہوا ، بہت جلد میں تم سب کو ہلاک کر دوں گا              بہت جلد           ؟

لل                                     لیکن                تم آخر هوکون اور ہمارے کیوں دشمن بن گئے ہو ؟،

شگفتہ نے اسے انسانوں کی طرح بولتے ہوئے دیکھا تو ہمت کر کے پوچھ لیا ۔

میں تمہارے خاندان کا ازلی دشمن ہوں ، میں تمہاری آنے والی نسلوں کو بھی نہیں بخشوں ، بس تھوڑا انتظار اور اس غیر انسانی مخلوق نے خونحوار غراہٹ سے کہا اور پھر نظروں سے اوجھل ہوگئی ۔

شگفتہ دوبارہ اپنے کمرے میں آگئی ، دیواروں پر خون کے چھینٹے غائب ہو چکے تھے ، اس نے ایک گلاس پانی کا پیا اور بیڈ پر بیٹھ گئی ۔

غیرانسانی خوفناک مخلوق سے باتیں کرنے کے بعد اب وہ اپنے اندر ایک عجیب سا جوش اور ولولہ محسوس کر رہی تھی ، اس کا ڈر اور خوف کچھ کم ہوا تھا ، اس کا سبب یہ تھا کہ وہ اس کی باتوں پر سوچ بچار کر رہی تھی ، حقیقت بھی کہ وہ اس پر اسرار خوفناک چکر سے تنگ آ چکی تھی جس نے اس کے اندر خود بخود ایک بے خوفی کو جنم دیا تھا ۔

شگفتہ نے جب اس بھیانک چہرے والی مخلوق کی اس بات پر غور کیا کہ ابھی اسے وہ طاقت (شکتی ) حاصل نہیں ہوئی ، جس سے وہ اسے اور اس کے گھر والوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی ، تو اس کا صاف مطلب تھا کہ وہ شیطانی محلوق ڈراؤنے مناظر دکھا دکھا کر اسے دہشت زدہ کر نا چاہتی تھی ۔

بہر حال اس سے اس کے خوفناک عزائم کا اندازہ ہوتا تھا کہ بہت جلد وہ ایسی طاقت حاصل کرنے والی تھی جس کے بعد وہ یقیناً سب کو ہلاک کر ڈالتی ۔

یہی وہ بات تھی جس نے اسے پریشان اور متفکر کر دیا تھا ۔

شگفتہ کو اب اپنی نہیں بلکہ اپنے گھر والوں کی فکر ستانے لگی تھی ، اس بات کا اسے پورا یقین ہو چکا تھا کہ یہ سب اس کا وہم یا اس کے تحلیل کی کارستانی نہ تھی،، بلکہ اس گھر میں ایک شیطانی بلا اپنے آسیببی پنجے گاڑ چکی تھی ، ایک خوفناک اور شیطانی چکر شروع ہو چکا تھا ، اس کے ساتھ ایک نا قابل یقین کہانی کا آغاز ہو چکا تھا ، ایک ایسی خوفناک اور محیرالعقول کہانی جس کا وہ خود ایک کردار بن چکی تھی ، جس کی کوئی سائنسی توجہیہ نہ تھی اور یہ اک ناقابل یقین اور ماورائے عقل تھی ۔

شگفتہ کے زہن نے اب ایک نئی کروٹ لی ، وہ اپنا خوف بھلا کر ایک نئی سوچ میں مستغرق ہوگئی تھی ، ایسی سوچ جس سے اس میں اور شیطانی چکر کا تدارک ہو ۔

شگفتہ کی ایک راز دار اور قر یبی سہیلی کاشفہ تھی۔ اور تو کوئی بھی اس کی بات پر یقین نہ کرتا لیکن شگفتہ کو پوری امید تھی کہ کاشفہ نہ صرف اس کی باتوں پر پورا یقین کرے گی بلکہ اسے کوئی اچھا اور صائب مشورہ بھی ضرور دے گی ۔

اس کا گھر قریب ہی تھا مگر اسے چونکہ اکیلے نہیں آنے جانے کی اجازت تھی ، اس لئے وہ اپنے بھائی ساجد کے ساتھ اپنی اس عزیز ترین سہیلی کاشفہ کے گھر جا پہنچی     

اس نے کاشفہ سے ساری بات تفصیل سے بیان کی تو وہ حیرت سے گنگ ہوگئی ۔

کیاتجھے بھی میری باتوں کا یقین نہیں              ؟ اسے یک ٹک اپنی جانب تکتی دیکھ کر شگفتہ شکوہ کرنے کے انداز میں پوچھا                                  !

ایسی بات نہیں دراصل یہ بات ہی ایسی ہے کہ عقل کم ہی تسلیم کرتی ہے ۔

کاشفہ نے ذرا سنبھل کر کہا ۔

لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ اتنی بڑی بات تو غلط یا اسے محض اپنے وہم پر محمول کر کے نہیں کرسکتی ۔

وہ اتنا کہہ کر چند ثانیے تھمی ، پھر پر سوچ انداز میں بولی ۔

 دیکھو شگفتہ تم نے واقعی یہ بہادری کا مظاہرہ کیا کہ اس شیطانی مخلوق سے ہم کلام ہو کر اس کے عزائم کا پتہ لگا لیا ورنہ تم بھی گھٹ گھٹ کر مر جاتیں اور بعد میں یقیناً یہ آفت تمہارے گھر کے دوسرے فرد کو بھی دبوچ لیتی ، مجھے کچھ ایسا لگتا ہے کہ تمہارے یا تمہارے گھر والوں کے پیچھے جان کی دشمن بننے والی اس شیطانی محلوق کی کارستانیوں کا تعلق تمہارے خاندان کے ماضی سے ہے ۔

 کیا مطلب ؟

شگفتہ نے الجھ کر پوچھا ۔

 ہاں ! ایسا ہوسکتا ہے کہ ماضی میں تمہارے خاندان کے کسی فرد سے کوئی ایسی غلطی یا ایسا کام سرزد ہوا ہو جس کی بناء پر وہ بدروح اپنا انتقام لینا چاہتی ہوں کم از کم جس طرح تم نے شیطانی مخلوق کی باتیں میرے سامنے دہرائی ہیں ، اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے ۔  کاشفہ نے کہا ۔

ہاں کاشفہ                           !!! مجھے تمہاری یہ بات دل کو لگتی ہے ۔ ‘ شگفتہ تائیدا بولی                لیکن اب اس کا حل کیا ہو ؟ کوئی تدارک           ؟

تم ایسا کرداپنے امی اور ابوکو اس حوالے سے کریدنے کی کوشش کرو کہ ان سے یا ماضی بعید میں ان کے خاندان کے کسی فرد سے کوئی غلطی سرزد تو نہیں ہوئی یا کوئی کسی آسیبی چکر کا شکار رہا ہو ۔

کاشفہ نے مشورہ دیا ۔ شگفتہ کو اس کی بات سمجھ میں تو آئی مگر وہ کچھ بولی نہیں اور خاموشی سے واپس گھر آگئی          ۔

ناسر سے صبر نہ ہو سکا اور وہ اگلے روز ہی شام چھے بجے اپنے ماموں سے ایک دوست کی شادی میں شرکت کا بہانہ کر کے عامل رنگا ماتی سے ملنے جا بیٹھا ۔

وو پیر پاڑے میں پہنچا تو پڑو پہلوان کی دکان کو ڈھونڈنا چنداں دشوار نہ ہوا ، وہ پہلوان جی کی دکان کے سامنے والے دائیں طرف سے چار گھر اور ایک پرچون کی دکان چھوڑ کر اس نیم تاریک او مختصری بند گلی میں داخل ہوا تو سامنے ہی اسے رنگائی ماتی کے گھر کا دروازہ نظر آیا ، وہ آگے بڑھ گیا ، مکان تنگ و تاریک ہی نظر آرہا تھا اور عام سا تھا۔

ناصر نے دروازے پر دستک دی ، کوئی جواب نہ ملا تو اچانک اسے یاد آیا که رنگ ماتی نے اسے دروازہ کھٹکھٹانے نہیں بلکہ اسے دھکیل کر اندر داخل ہونے کا کہا تھا پھر اس نے ایسا ہی کیا ، دروازہ عجیب سی چرچراہٹ کے ساتھ اندر کی طرف کھلتا چلا گیا ، ناصر نے اندر قدم رکھ دیا ۔

اب وہ ایک تنگ و تاریک گھر کے محتصر سے سیلن زدہ صحن میں کھڑا تھا ۔

یہ ایک کمرے کا چھوٹا سا مکان تھا جس کی در و دیواروں سے شکستہ حالی اور کہن سالی آسیب کی طرح چمٹی ہوئی تھی ، اسے یہاں ایک عجیب سی ویرانی اور وحشت کا احساس ہوا ، سامنے چھوٹے سے برآمدے میں کمرے کا دروازہ نظر آ رہا تھا جو بھڑا ہوا تھا ، اس کی متوازی جھری سے زرد رنگ کی روشنی نظر آ رہی تھی۔

معا اندر سے ایک گونج دار آواز ابھری              ! اندر آ جاؤ بٹو            !!

 ناصر آواز کو پہچان کرآگے بڑھا ،یہ رنگا ماتی ہی کی آوازی تھی ، وہ کمرے کے دروازے کو دھکیل کر اندر داخل ہوگیا ، سامنے ایک تخت نما لمبے چوڑے پلنگ پر رنگاماتی عام سے لباس میں بیٹھا اس کی طرف گھور رہا تھا ، ناصر کو اس کا سانولا چہرہ جلتا ہوا محسوس ہوا ، کمرے میں ایک کرسی بھی تھی                           

رنگا ماتی نے اسے اشارے سے کرسی پر بیٹھنے کو کہا ، ناصر خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گیا ، جانے کیوں اس کا دل زور زور سے دھڑ دھڑکر رہا تھا ، رنگا ماتی کے سامنے تخت نما پلنگ پر ایک بوسید سا ٹین کا بکس رکھا ہوا تھا ۔

پھر وہ ناصر کی طرف دیکھ کر بے تاثر لہجے میں بولا  مجھے یقین تھا کہ تم ضرور آؤ گے ، اسی طرح ثابت قدم رہے تو یقینا تم اپنی منزل پالو گے ۔

 ناصر نے فوراً ہمت کر کے پوچھا آپ میری اس معاملے میں کیا مدد کریں گے  جیسا تم چاہو گے ، ویساہی ہوگا ، اب مجھے بتاؤ کیا چاہتے ہو ؟

 ناصر اس کے سوال پر مجواب سا ہوا تاہم پولا ۔

میں شگفتہ کوحاصل کرنا چاہتا ہوں ، اس سے شادی کا خواہشمند ہوں ۔

 ہمیں تمہاری جرأت پند آئی مگر تمہیں آگے بھی اسی طرج حوصلے اور ہمت سے کام لینا ہوگا ، ایک روز شگفتہ تمہارے قدموں میں ہوگی ۔

رنگا ماتی نے ڈرامائی لب ولہجے میں کہا ۔

 مجھے کیا کرنا ہوگا ۔

‘ ‘ ناصر نے پوچھا ۔  شگفتہ کو حاصل کرنے کے لیے ایک عمل                                     ایک خاص اور پراسرار عمل لیکن تمہیں نہیں کسی اور سے یہ عمل کرانا ہوگا ۔

رنگا ماتی کے پراسرار لہجے پر ناصراس بار چونکے بنا نہ رہ سکا اور قدرے حیرانی سے بولا ۔

کسی اور کوکر نا ہوگا ۔                                  مگر کیوں                  ؟شگفتہ کو تو میں حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔

ہاں                           لیکن یہ عمل تم نہیں کروگے البتہ تم اس کے ہمراہ موجود ضرور ہوگئے ۔

 آخر کون کرے گا یہ عمل        ؟ ‘ ‘ ناصر نے پوچھا ۔

رنگا ماتی نے چند ثانیے ایک گہری اور پر اسرار خاموشی کے بعد کہا ۔

 میری بات غور سے سنو شگفتہ پر ایک بھیانگ بدروح کا سایہ ہے ، شگفتہ کا ایک بھائی ہے ساجد تم اسے تو اچھی طرح جانتے ہو گے ،،            ,؟

ہاں                 وہ میرا دوست ہے ۔  ناصر بولا ۔

بس پھر ٹھیک ہے تم اسے اس بات پر مجبور کرو گئے کہ وہ یہ عمل کرے ۔

مگر وہ عمل کیوں کرے گا ؟ ‘ ‘ ناصر نے الجھ کر پوچھا ۔

بے وقوف                              !! میری بات سمجھنے کی کوشش کرو رنگا ماتی بولا          ۔  سنو تم اس سے کہو گئے کہ تمہاری بہن شگفتہ پر بری بدروح کا سایہ ہے ۔

اگر اس کا جلد خاتمہ نہ کیا تو وہ شگفتہ کے ساتھ اس کے سارے گھر والوں کو ایک دن بھیانک موت کی نیند سلا دے گی، اس لئے اپنی بہن اور اپنے گھر والوں کی خیر چاہتے ہو تو عمل کرنا پڑے گا ۔

 کیا ضروری ہے                   ؟ میرا مطلب ہے اگر یہ عمل صرف میں ہی اکیلا کروں تو         ؟

ہرگز نہیں ۔    رنگا ماتی بولا    ۔ اگر تم نے وہ عمل کرنے کی کوشش کی تو انہیں نقصان ہو جائے گا کیونکہ وہ خونی مخلوق شگفتہ اور اس کے گھر والوں کی دشمن ہے اور اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ یہ عمل اس کے گھر کا کوئی فرد ہی انجام دے ۔

 لیکن اس سے تو انہیں ہی فائدہ ہو گا ، مجھے کیا حاصل ہوگا ؟

بے وقوف                                اس میں تمہارا اپنا بھی فائدہ ہوگا ، اب زیادہ سوالات مت کرو ، اپنی محبوبہ کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو تمہیں یہ عمل ساجد سے کروانا پڑے گا ، ورنہ میرا قیمتی وقت برباد مت کرو۔

ناصر کے سوالات پر وہ ذرا تیز لہجے میں بولا ۔ معا ناصر کی چشم تصور میں شگفتہ کاروشن چہرہ رقصاں ہو گیا ، وہ اسے ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتا تھا ، چاہے اسے کچھ بھی کرنا پڑا ۔ چنانچہ اس نے فورا ہامی بھرتے ہوئے پوچھا ۔

مجھے منظور ہے لیکن عمل مجھے ، میرا مطلب ہے ساجد کو کہاں  اور کس جگہ کرنا ہوگا ؟

ہاں اب کی ناں تم نے کام کی بات                         بٹوا   !!!رنگا ماتی یک دم خوش ہو کر بولا ۔

 یہ عمل کرنے کے لیے تم دونوں کو زیادہ دور نہیں جانا پڑے گا تمہارے ہی محلے میں ایک پرانی کوٹھی ہے جو برسوں سے ویران اور غیر آباد پڑی ہے جسے اب کوئی خریدنے کو بھی تیار نہیں ، اسے اب اندھیری کوٹھی ‘ کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے ۔

اندھیری کوٹھی کے ذکر پر ناصر کے وجود میں ایک سرد لہر دوڑ گئی ۔

وہ اس ویران کوٹھی کے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا ، وہ برسوں سے ویران اور غیر آباد چلی آرہی تھی ، اس کے ما لک کا بھی کوئی پتہ نہ تھا ، اس کوٹھی کے ساتھ عجیب و غریب اورمحیر العقول واقعات منسوب تھے بلکہ اس کی شہرت ہی انہی خوفناک واقعات کے باعث تھی ، لوگوں کے کہنے کے مطابق اس کوٹھی میں کئی سال پہلے ایک قتل ہوا تھا اس دن کے بعد سے اس کے اندر سے عجیب وغریب آوازیں آتی تھیں ، لوگوں نے شام کو اس کے قریب سے گزرناتک چھوڑ دیا تھا ، رات تورات دن میں بھی کوٹھی کے اندر گہرا اندھیرا ہی اندھیرا سا نظر آتا تھا ۔ شاید اسی لئے اس کوٹھی کا نام اندھیر کوٹھی  پڑ گیا تھا ۔

لوگ کہتے ہیں کہ کوٹھی کے مالک نے کئی بار اسے فروخت کرنے کی کوشش کی تھی ، اول تو کسی نے کبھی خریدنے کی ہمت ہی نہ کی جس کسی نے سستے داموں کے چکر میں پڑ کر اسے طول و عریض پلاٹ پر پھیلی کوٹھی کو خریدا بھی تو وہ اس کے اندر زیادہ عرصہ رہ نہ پایا اور عجیب وغریب حالات کا شکار ہو کر پاگل ہو گیا یا پھر بھاگ جانے کوترجیح دی ۔

بہر طور ناصر نے اس کام کی فوراً ہامی بھر لی تو رنگ ماتی نے اسے تاکید کی کہ وہ پہلے ساجد کو رضامند کر کے یہاں لائے پھر بعد میں وہ بتائے گا کہ کیا کرنا ہے ۔

ناصر لوٹ آیا ، وہ اب ساجد کا منتظر تھا ، ایک ہی محلہ تھا اس لئے ساجد سے اس کی مد بھیڑ ہوگئی ۔

ساجد نے رنگا ماتی سے ہوئی ساری باتیں اسے بتادیں اور اپنی شگفتہ سے محبت کا تذکرہ گول کر گیا ۔

ہاں یار ناصر ! ہم واقعی شگفتہ کی وجہ سے آج کل بہت پریشان ہیں مگر تمہاری باتوں سے تو مجھے ڈر لگنے لگا ہے ، ہم آخراس ویران اور اجاڑ سی خوفناک اندھیری کوٹھی میں کیسے عمل کریں گے ؟

 ساجد خوف زدہ سے لہجے میں بولا ۔

 ارے یار                                       !! کچھ نہیں ہوگا ، میں تمہارے ساتھ ہوں گا ، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اس خونی مخلوق کا ایک دن تم سب گھر والے شکار ہو جاو ؟

 ناصر نے اسے ڈرایا ۔ ہاں یار ! یہی سوچ کر میں پریشان ہورہا ہوں ۔

 تو بس پھر آج ہی میرے ساتھ اس رنگا ماتی کے پاس چلو ، وہ ہماری مم                       میرا مطلب ہے تم لوگوں کی ضرور مدد کرے گا ، اس نے بتایا ہے کہ ہمیں کوئی نقصان نہ ہو گا اور لوگوں کی جان بھی ہمیشہ کے لیے اس خونی بدروح سے چھوٹ جائے گی ۔

ساجد راضی ہو گیا ۔

ناصر اسے فوراً رنگا ماتی کے پاس لے کر پہنچا ۔

رنگاماتی نے ساجد سے کہا ۔

 پورے انیس دنوں تک لگاتار   تمہیں یہ عمل اس اندھیری کوٹھی کے اندر کرنا ہوگا ، وہاں ایک کمرا ہو گا جس کے اندر ایک قبر ہوگی بس اس قبر کے قریب بیٹھ کر تمہیں یہ عمل کرنا ہوگا جو میں تمہیں بتاتا ہوں ۔

رنگاماتی نے یہ کہ کر اپنے قریب رکھے ٹین کے بوسید بکس کے اندر سے ایک انسانی کھوپڑی نکالی جسے دیکھ کر ناصر اور ساجد کے اندر خوف کی لہر دوڑگئی ۔

ڈرنے کی ضرورت نہیں ، اس کھوپڑی کو قبر کے اوپر رکھ کر تمہیں یہ پڑھنا ہوگا ۔

رنگاماتی نے یہ کہ کر ساجد کو جیب وغریب زبان میں وہ عمل رٹا دیا ۔

الفاظ مشکل اور عجیب ضرور تھے لیکن بہت تھوڑے سے اور مختصر تھے، انہیں پورے ایک گھنٹے تک بار بار دہراتے رہنا تھا پھر جب کھوپڑی سے دھواں اٹھنے لگے تو عمل ختم کر کے کھوپڑی کو دوبارہ تھیلے میں ڈال کر واپس چلے آنا تھا ۔

رنگ ماتی نے آخر میں انہیں تاکید بھی کی تھی کے عمل کے دوران کچھ خوفناک اور ڈراونے مناظر یا آوازیں انہیں خوف زدہ کرنے کی کوشش کریں گی مگر ان سے ڈرنے کی بالکل ضرورت نہیں ، یہ ان کا کچھ بگاڑ نہ پائیں گی ، ہاں اگر ڈر کر اس عمل کو ادھورا چھوڑ کر بھاگنے کی کوشش کی تو نقصان کا اندیشہ ہوسکتا ہے ۔

یہ دونوں رنگا ماتی کی باتیں اچھی طرح پلے سے باندھ کر اور وہ کھوپڑی ایک تھیلے میں ڈالے وہاں سے لوٹ آئے ، ساجد نے اس کھوپڑی کو سنبھالنے کی زمہ داری ناصر کو سونپ دی تھی ۔

اندھیری کوٹھی کے مالک کا نام ملک شریف تھا ، شہر کے وسط میں اس کا اپنا ذاتی دو منزلہ مکان تھا ، بنیادی طور پر وہ ایک بلڈر تھا ، پلاٹ خرید کر اس پر مکانات ، دوکانیں تعمیر کرتا اور مہنگے داموں اسے فروخت کر دیتا تھا ۔

اندھیری کوٹھی درحقیقت اس کے مرحوم باپ نے کسی سے خریدی تھی ، اس کے مرنے کے بعد ملک شریف نے بھی اسے کئی بار فروخت کرنے کی کوشش کی لیکن اس سے متعلق پر اسرار واقعات نے اس کی مارکیٹ ویلیو بالکل ہی ڈاون کردی تھی یوں بھی ایک محتاط اندازے کے مطابق شہربھر میں تقریبا چالیس گھر اور کوٹھیاں ایسی تھیں جوکئی برسوں سے ویران اور اجاڑ پڑی ہوئی تھی اور اپنے آسیب کی وجہ سے شہر اور بیرون شہر کے باسیوں میں شہرت رکھتی تھیں ، انہیں کوئی خریدنے کی تو کجا راتوں کو قریب سے گزرنے کی بھی جرأت نہیں کرتا تھا ۔

ملک شریف ایک ٹھیٹ کاروباری شخص تھا ، اس نے بارہا اس اندھیری کوٹھی کو اونے پونے فروخت کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اب تک کامیاب نہ ہو پایا تھا ۔

بالآخر ایک روز اس کی مراد بر آئی ، کوئی رضوی صاحب تھے جنہوں نے اس اندھیری کوٹھی کو خریدنے کے لیے ایک روز ملک شریف سے رابطہ کیا ، ملک شریف کی تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا، اس نے معاملات طے کرنے کے لیے فورأ رضوی صاحب کو اپنے دفتر بلا لیا تاہم وہ حیران بھی تھا کہ آخ یہ شخص اندھیری کوٹھی کو کیوں خریدنا چاہ رہا تھا کیا اسے اس کی شہرت کے بارے میں علم نہ تھا اور بہرطور اسے تو آم کھانے سے مطلب تھا پیڑ گننے سے نہیں ۔

ملاقات پر پتہ چلا کہ وہ طویل عرصہ بیرون ملک رہنے کے بعد اب یہاب اپنے ملک میں سیٹل ہونا چاہتے تھے فیملی سمیت اور یہاں وہ مٹھائی کا کارخانہ اور دکان کھولنا چاہتے تھے ، یہاں وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ایک کرائے کے مکان میں رہتے تھے ۔

کیا آپ واقعی اس کوٹھی کو خریدنا چاہتے ہیں ؟

بالآخر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد ملک شریف نے ذرا غیریقینی سے انداز میں رضوی سے پوچھا ۔

ارے بھئی                 ! آپ کو بھلا کیوں شبہ ہے کہ میں اس کوٹھی کونہیں خریدوں گا ۔  رضوی نے حیرت سے پوچھا ۔

ملک شریف نے دیانتداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سوچا کہ معاملات طے ہونے سے پہلے انہیں صاف اور کچھی بات بتا ہی دینی چاہئے یوں بھی یہ ایک باتیں تھیں جو رضوی کے علم میں نہ آتیں، چنانچہ ملک شریف نے جب انہیں اندھیری کوٹھی کی پر اسرار شہرت سے آگاہ کیا تو وہ بے اختیار ایک طویل قہقہہ لگا کر بولے ۔

 ارے چھوڑ نہ ملک صاحب ! آپ بھی کیسی بچوں جیسی باتیں کررہے ہیں ، ویسے آپ کی اطلاع کے لیے بتا دوں کہ میں نہ صرف اس کوٹھی کا سروے کر چکا ہوں بلکہ مجھے اس سے متعلق ساری افواہوں کا بھی علم ہے لیکن میں آپ کو اس کوٹھی کی لینڈ کاسٹ ویلیوکی رقم ہرگز نہ دوں گا کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ آپ نے اس کے بہت کم دام لگا رکھے ہیں ، اس لئے آپ یہ خیال بھی زہن میں مت لائے گا کہ ان سب باتوں کو جاننے کے باوجود میں اس کوٹھی کو خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہوں اور یوں آپ اس کے دام بڑھانے کی کوشش کریں دراصل میں ایسی ہی جگہوں کو ان کی مارکیٹ ویلیوڈاؤن ہونے کی وجہ سے ہی خریدنے کی کوشش کرتا ہوں ۔

رضوی کی صراحت سن کر ملک شریف سمجھ گیا کہ یہ شخص خاصا چالاک تھا ، بہر طور اس کے لیے یہی کافی تھا کہ اونے پونے داموں ہی سہی یعنی بھاگتے چور کی لنگوٹی سہی کے مصداق اس نے بھی وہی دام بتائے جو پہلے سے طے کر رکھے تھے ۔

پھر دونوں کے درمیان یہ معاملات طے پا گئے اور اب وہ اندھیری کوٹھی رضوی کی ملکیت میں آگئی۔

رات کے ایک بجے کا عمل تھا ، ہر طرف تار یک سناٹا چھایا ہوا تھا ، ناصر اور ساجد نے اس بات کاحاص حیال رکھا تھا کہ رنگا ماتی کی تاکید کے مطابق اس پراسرار معاملے کی کسی کوہوا بھی نہ لگے     

یہ کام انتہائی ہوشیاری اور راز داری کے ساتھ لگا تار انیس روز تک جاری رکھنا ہوگا ۔

یوں ان دونوں کے درمیان یہ طے پایا کہ رات ٹھیک ایک بجے ساجد خاموشی کے ساتھ گھر کو باہر سے تالا لگا کر نکلے گا اور سیدھاناصر کی طرف آئے گا جو اس کا اپنے گھر کے باہر کھوپڑی والا تھیلا تھامے منتظر ہوگا ، چنانچہ ساجد مقررہ وقت پر خاموشی سے باہر نکلا ، دروازے کو تالا لگایا اور ناصر کے گھر کی طرف چل پڑا ۔

اس کا گھر زیادہ دور نہ تھا لہذا جب ساجد وہاں پہنچا تو وہ اس کا وہاں بے چینی سے منتظر تھا ، اس نے اپنے ایک ہاتھ میں کھوپڑی والا تھیلا پکڑ رکھا تھا ۔

چلیں                      ؟ ساجد نے اس کے قریب پہنچ کر استفاریہ سرگوشی کی ۔

 چلو ‘ ‘ جواباً ناصر نے اثبات میں سر ہلا دیا پھر وہ دونوں آگے بڑھ گئے ۔

ناصر کی تاکید پر ساجد نے ایک چھوٹی ٹارچ اپنے پاس رکھی تھی ۔ دونوں دوست تاریکی کا حصہ بنے پراسرار ہیولوں کی مانند اندھیری کوٹھی کی طرف تیز تیز قدموں سے بڑھنے لگے ، اندھیری کوٹھی کوئی محلے کے آخر میں واقع تھی ۔

آسمان صاف تھا ، آخری تاریخوں کے چاندکے باوجود چمکتے ستاروں سے نزدیک تنگ کے فاصلے سرنگوں تھے ، ذرا دیر بعد وہ دونوں اندھیری کوٹھی کے بڑے سے پرانے چوبی گیٹ کے سامنے کھڑے تھے ، یہاں سے تو دن کی روشنی میں بھی گزرتے ہوئے اگر کوئی اندھیری کوٹھی کا باہر سے نظارہ کرتا تو اس کی ویرانی اور بوسیدگی کو دیکھ کر دلوں میں ہیبت سی طاری ہوتی تھی ، یہ تو پھر بھی رات کا نصف پہر تھا ۔

دونوں کے دلوں کو نامعلوم سے خوف نے جکڑ لیا ، وہ اپنے اپنے ارادوں کے جوش تلے یہاں تک آ تو گئے تھے مگر اب اندر داخل ہونے کا تصور بھی ان کے لیے محال ہورہا تھا ۔

ناصر کے دل میں شگفتہ کوحاصل کرنے کا اپنے عزم تھا جبکہ ساجد اپنی چھوٹی بہن شگفتہ اور اپنے گھر والوں کو اس شیطانی مخلوق سے نجات دلانا چاہتا تھا ۔

اس اندھیری کوٹھی کی خوفناک اور آسیبی شہرت کی وجہ سے آس پاس کا علاقہ عرصے سے ویران تھا ، دائیں بائیں اور عقب میں کئی سو گز کے رہائشی اسکیموں والے پلاٹ دور تک ویران تھے ۔

کوٹھی تین چار منزل سے کم تھی ، قدیم طرز کی اس کوٹھی میں پختہ اینٹوں سے زیادہ عمارتی لکڑی کا استعمال کیا گیا تھا ، محرابی دریچوں کے علاوہ چار دیواری بھی تھی جو وقت کے ساتھ ساتھ کئی جگہوں سے ادھڑ چکی تھی ، شکسته گیٹ بھی نیم وا ہو کر زمین میں دھنس چکا تھا جس کا درمیانی خلا آدم گزارتھا ۔

 چلواندرساجد              ! ہمت کرو میں تمہارے ساتھ ہوں ناں۔معاناصر نے اسے ٹہوکا دیا ۔

يار ناصر                                     مم                                      مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے ۔ ساجد نے مرتعش لہجے میں کہا ۔

’’ ڈرنے کی کیا ضرورت ہے تم بھول گئے           ؟ رنگ ماتی نے کہا تھا کہ ہمیں اندھیری کوٹھی کے ویران اور اجاڑ ماحول سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ، اور پہلے میں اندر داخل ہوتا ہوں ۔

ناصر نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور ساجد نے ٹارچ نکال کر روشن کی تو ناصر بلادھڑک چوبی دروازے کے درمیانی خلا سے اندر داخل ہوگیا ۔

ساجد کو بھی ہمت ہوئی اور پھر وہ بھی اس کے عقب میں اندر داخل ہوا ، احاطہ وسیع وعریض تھامگر یہاں جابجا خودرو گھاس اگی ہوئی تھی ، برگد اور نیم کے پیڑ بھی تھے جن کی کئی شاخیں جٹاؤ کی طرح جھول رہی تھیں ۔

کوٹھی کے مرکزی دروازے کی طرف جانے والی قدرے بل کھاتی ہوئی پخته روش کی اینٹیں بھی جگہ جگہ سے اکھڑی ہوئی تھیں ۔ وہ دونوں اپنے دھڑکتے دلوں پر قابو پاتے ہوئے دھیرے دھیرے مرکزی دروازے کی طرف بڑھنے لگے ۔

دروازے کا ایک پٹ بالکل غائب تھا جبکہ دوسرا پنی جگہ موجودتھا مگر اس طرح کہ ٹوٹ کر نصف گرنے کے انداز میں جھکا ہوا تھا ۔ جب وہ دونوں ٹوٹے ہوئے مرکزی دروازے کے قریب پہنچے تو ساجد رک گیا اور لرزتی آواز میں ناصر سے بولا                            مم                                        میں تو واپس جارہا ہوں ۔

ناصر نے اسے جھڑ کا بے وقوف                                     ! حوصلہ کرو                        بعد کی مصیبت سے بچنا چاہتے ہوتو تمہیں یہ سب کرنا ہوگا ۔

ساجد نے دوبارہ ہمت باندھی اور آگے بڑھا ۔

پھر دونوں ٹوٹے ہوئے دروازے سے اندر داخل ہو گئے ،ٹارچ کا ہالا اندر اجاڑ اور اکھڑے ہوئے پلستروالی دیواروں پر گردش کر رہاتھا ، یہاں بھانت بھانت کا کباڑ بکھرا ہوا تھا ، کچھ کمروں کے دروازے بھی نظر آرہے تھے جو زمین میں دھنسے ہوئے جیسے صدیوں سے بند پڑے تھے۔

ساجد اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ٹارچ کے ہالے کو دائیں، بائیں اور اوپر نیچے گردش دے رہا تھا،، اور تب اچانک روشن ہالے نے ایک بھیانک منظر کو واضح کیا ۔

وہ ایک انسانی لاش تھی جو کاٹھ کباڑ کے اندر سے ابھرے ہوئے تیز نوکیلے اور زنگ آلود لوہے کے سریے میں پروئی ہوئی اس طرح جھول رہی تھی کہ لاش کے دونوں ہاتھ اور چہرہ نیچے لٹک رہے تھے اور لاش کے پیٹ سے جدھر سریا پوست تھا ، وہاں سے تازہ خون بہہ بہہ کر سیلن زدہ فرش میں جذب ہورہا تھا ۔ ساجد کے حلق سے تیز چیخ خارج ہوگئی اور ٹارچ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کرگر پڑی ۔ ناصر بھی پریشان ہوگیا ، دونوں کو معلوم نہ تھا کہ وہ لاش کسں کی ہے ۔

وہ دہشت ناک منظر ناصر نے بھی دیکھا تھا اور ایک لمحے

کو وہ بھی لرز گیا تھا مگر ساجد کے مقابلے میں اس نے اپنے حواسوں پرفوری طور پر قابو پالیا تھا

ڈرو نہیں ساجد یہ کوئی جن بھوت نہیں ہے ، ٹارچ اٹھاؤ –

ناصر نے سرگوشی میں اس سے کہا ۔

ساجد نے ہمت کر کے جھک کر ٹارچ اٹھائی تو ناصر آگے بڑھ کر لاش کا معائنہ کرنے لگا ۔ لگتا ہے اسے موت کا شکار ہوئے تھوڑی ہی دیر گزری ہے ۔ وہ بڑ بڑایا ۔

ساجد کی خوف سے بری حالت ہورہی تھی ، ناصر بھی اندر سے دہشت زدہ تھا لیکن اس نے خود پر قابو پا رکھا تھا ۔  نن                                        ناصر یہاں سے فوراً بھاگ چلو کہیں ہم اس لاش کی وجہ سے کسی مصیبت کا شکار نہ ہو جائیں ۔

ساجد نے لرزیدہ لہجے میں کہا ۔ ناصر لاش کی طرف دیکھتے ہوئے پر خیال لہجے میں بولا        

لگتا ہے یہ بدنصیب شخص اپنی موت آپ مرا ہے ، اس نے ضرور ہم سے پہلے یہاں کسی بھی مقصد کے تحت اندر داخل ہونے کی کوشش کی ہوگی اور پھر دہشت زدہ ہو کر بھاگنے کی کوشش کی اور اس ابھرے ہوئے تیز نوکیلے سریے پر گر پڑا ہوگا ۔

ناصر کے ماہرانہ تجزیئے پر ساجد کی کچھ ہمت بندھی تاہم اس کی پریشانی ہنوز کم نہیں ہوئی

وہ بولا  ناصر              ! کچھ بھی ، یہاں ۔ایک لاش موجود ہے ، کم از کم آج کے وقت واپس لوٹ جانا چاہے ‘   ۔

بزدلوں والی باتیں نہ کرو ساجد                  !!! ناصراسے سمجھاتے ہوئے بولا ۔

یہاں کسی کو آنے کی جرأت نہیں ہوتی ، کون دیکھے گا یہ لاش             ؟

یہ ادھرہی پڑی پڑی گل سڑ جائے گی ، آؤ وہ قبر والا کمرہ تلاش کریں ، ابھی سے ہی اگر یوں خوف زدہ ہو گئے تو اسے عمل کیسے کرو گے ؟

پھر وہ دونوں باری باری سارے گھروں کے بوسیدہ اورٹوٹے ہوئے درواروں کے اندر جھانک کر دیکھنے لگے ۔ اس پر اسرار عامل رنگاماتی نے انہیں اتنا ضرور آگاہ کر دیا تھا کہ جس کمرے میں قبر تھی ، وہ نیچے ہی کہیں واقع تھا لہذا انہیں اوپر کہیں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں بالآخر ایک کونے والے کمرے میں وہ قبر نظر آ گئی ، وہ دونوں اندر داخل ہو گئے ۔

قبر کی حالت بہت شکستہ تھی ، اندرگڑھا بھی پڑا نظر آ رہا تھا جس کے اندر سے تین چار موٹے موٹے چوہوں کی آمدورفت جاری تھی ۔ ناصر نے فوراً اپنے ہاتھ میں تھاما ہوا تھیلا کھولا اور پھر اندر ہاتھ ڈال کر سب سے پہلے ایک لاٹین نکالی ، اس کے بعد رنگاماتی کی دی ہوئی کھوپڑی                          

تم نے اچھا کیا کہ لالٹین ساتھ لے آئے ۔ ساجد نے کہا ۔

ہاں                     !! اب ظاہر ہے پورا ایک گھنٹہ عمل کرنا ہوگا ، یہ ٹارچ کب تک کام کرے گی ؟

 ناصر جیب سے ماچس نکال کر لالٹین جلاتے ہوئے بولا ۔ ساجد نے ناصر کے کہنے پر کپکپاتے ہاتھوں سے وہ کھوپڑی اٹھا کر قبر کے اوپر رکھ دی اور پر دونوں ساتھ ساتھ قبر کے قریب بیٹھ گئے ۔

ساجد نےرنگا ماتی کے بتائے ہوئے جملے اگلنا شروع کر دیئے ۔ وہ ہلکی آواز میں جملہ دہرائے جارہا تھا ۔ ابھی اسے یہ پراسرار عمل کرتے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ اچانک باہر والے ہال نما کمرے میں کسی کے قدموں کی چاپ ابھری ، ساجد عمل کرتے کرتے بری طرح چونکا تھا ، ناصربھی ڈرگیا ۔

خبر دار                           !! روکنا مت عمل جاری رکھو اور یہاں سے ہلنے کی کوشش نہ کرنا ، جب تک کہ عمل پورانہ کر لو ورنہ بے موت مارے جاؤ گے ۔‘ایک شناسا آواز جیسے پردہ غیب سے ابھری دونوں اس آواز کو پیچان گئے تھے جو اس پر اسرار عامل رنگاماتی کی تھی ۔

وہ دونوں دہل گئے اور پھر ساجد نے دوبارہ عمل شروع کر دیا ۔ ناصر کے کان اپنے عقب میں دروازے کے باہر ابھرنے والے قدموں کی چاپ پر اٹک گئے تھے جو اب دھیرے دھیرے قریب آتی جارہی تھی ، پھر اچانک دروازے میں زور کا کھٹکا ہوا اور تیز غیر انسانی غراہٹ ابھری ۔

دونوں ٹھٹک کر اپنی گردنیں موڑے عقب میں دیکھنے لگے اور جیسے خوف سے ان کی رگوں میں خون منجمد ہوگیا ۔

دروازے پر ایک نہایت بھیانک چہرے والی غیرانسانی مخلوق کسی چوپائے کی طرح رینگتی ہوئی اندر داخل ہورہی تھی ۔یہ وہی محلوق تھی جس نے شگفتہ کا جینا حرام کر رکھا تھا ۔

اپنی موت کو آواز مت دو عمل جاری رکھو

 عاملرنگا ماتی کی تیز آواز گونجی اور پھر دونوں واپس مڑ کر کھوپڑی کی طرف متوجہ ہو گئے ۔

اس کے بعد ساجد نے عمل شروع کردیا ۔

وہ غیر انسانی مخلوق ہولناک انداز میں غراتی ہوئی اندر داخل ہوگئی ، اس کے اونچے کوہان کے عقب سے نکلی ہوئی موٹی دم اینٹوں کے فرش پر سرسرا رہی تھی ، وہ بھیانک چہرے والی غیرانسانی مخلوق بہت غصے میں تھی اور اپنی بغیر پپوٹوں والی بڑی بڑی انگار آنکھوں سے ان دونوں کو گھورے جارہی تھی اور بار بار اپنی موٹی دم زمین پر زور زور سے پٹخ رہی تھی ۔

ناصر اور ساجد پر مارے خوف و دہشت کے بری طرح لرزہ طاری تھی مگر عامل رنگاماتی کی کڑی سرزنش سحتی سے عمل کرتے ہوئے ساجد اپنے عمل میں مصروف تھا ، اس دوران اس شیطانی مخلوق کی دم قبر پر دھری کھوپڑی پر پڑی تو قبر کے اندر سے ایک کریہہ چیخ بلند ہوئی اور دوسرے ہی لمحے قبر پھٹتے ہی ایک ہڈیوں کا ڈھانچہ قبر میں اٹھ بیٹھا ۔

ساجد اور ناصر دہشت زدہ ہو کر کئی فٹ پیچھے جا پڑے ۔ شیطانی مخلوق اور وہ ڈھانچہ زور زور سے چیخنے چلانے لگے ۔

ناصر اور ساجد کے لیے یہ بڑے دہشت ناک مناظر تھے ۔

عمل جاری رکھو عمل جاری رکھو

‘‘ عامل رنگا ماتی کی تیز آواز ابھری ۔

ساجد نے دوبارہ اس کے بتائے ہوئے عمل کا ورد شروع کردیا ۔

قبر پردھری کھوپڑی ڈھانچے کے اندر سے نکلنے پر ایک طرف کوسرک گئی تھی ، ڈھانچہ دوبارہ قبر میں لیٹ گیا ، کھوپڑی کی آنکھوں والے دو گڑھوں سے دھوئیں کے مرغولے اٹھنے لگے ۔

آج کا عمل پورا ہو چکا تھا ، وہ شیطانی مخلوق بھی غائب ہو گئی تھی ، کھوپڑی سے دھواں اٹھنے کا مطلب تھا کہ عمل مکمل ہو چکا ۔

ناصر نے جلدی سے کھوپڑی اٹھا کر تھیلے میں ڈالی ، لالٹین سنبھالی اور ساجد کو اپنے ساتھ آنے کا کہہ کر کمرے سے نکلا ۔                  

پھر جب اس زنگ آلود آہنی سریے میں پروئی ہوئی لاش کے قریب سے گزرنے لگے تو دفعتاً ہی لاش کے ہے سدھ جھولتے ہوئے وجود نے حرکت کی اور ملتجیانہ لہجے میں چلا کر بولا۔

مم                                   مجھے بھی اپنے ساتھ لے جاؤ              مجھے بھی اپنے ساتھ لے جاؤ۔یہ کہ کر وہ لاش ماہی ہے آب کی طرح ناچنے گی ۔

اب تو ناصر اور ساجد کا مارے دہشت کے برا حال ہو گیا ، وہ دوڑ پڑے ، پوری اندھیری کوٹھی کے درو بام چینح پڑے۔

 بهاگو                         پکڑو                         جانے نہ پائیں۔ جیسی کریہہ واضح آوازیں ابھرنے لگیں ۔

مگر ناصر اور ساجد دیوانه وار دوڑتے ہوئے اندھیری کوٹھی کے مرکزی دروازے سے باہر شکستہ احاطے میں آگئے ، گیٹ کا رخ کیا ، جب وو اندھیری کوٹھی کے ٹوٹے ہوئے گیٹ سے باہر آئے تو ہر سو گہرا سکوت طاری ہوگیا ۔

خبردار                               ! رک جاؤ کون ہو تم ؟ ‘‘ اچانک ایک آواز پر وہ دونوں بری طرح ٹھٹک کر رکے اور بیک وقت عقب میں مڑ کر دیکھا تو سامنے ایک شخص ہاتھ میں ٹارچ اور دوسرے ہاتھ میں لاٹھی پکڑے قریب ہی کھڑا تھا ۔

یہ محلے کا پرانا چوکیدار خان چاچا تھا ، اس نے دونوں کے چہروں پر ٹارچ کی روشنی پھینکی تھی ۔

بھاگوساجد               !! ناصر نے کہا اور پھر دونوں دوڑ پڑے ۔

اگلے دن پورے محلے میں کہرام مچ گیا خبر تھی کہ رضوی نامی جس شخص نےوہ اندھیری کوٹھی خریدی تھی ، اس کی لاش اس کوٹھی کے اندر ایک سرے میں پروئی ہوئی پائی گئی ۔

جب رضوی کے گھر والے انہیں تلاش کرتے ہوئے کوٹھی کے اندر داخل ہوئے تو انہیں رضوی کی لاش پڑی ملی ، اس وقت پولیس کو اطلاع دی گئی تو                         خان نے پولیس کو بتایا کہ رضوی نے یہ کوٹھی خریدی تھی اور وہ انہیں بنے بنائے شاید کسی وقت اس اندھیری کوٹھی کا معائنہ کرنے کے لیے اندر داخل ہوئے جہاں ان کو قتل کردیا گیا ۔

آسیبی چکر میں یہ بات یہیں ختم ہوجاتی ، اگر وہ چوکیدار خان چاچا اس رات ناصر اور ساجد کو اندھیری کوٹھی سے چوروں کی طرح بھاگتے ہوئے نہ دیکھتا ۔ وہ چونکہ محلے کا چوکیدار تھا اس لئے ناصر اور ساجد کو خوب اچھی طرح پہچانتا تھا اس نے فوراً پولیس کو بتادیا کہ اس رات اس نے دولڑکوں کو دیکھا تھا ، ان میں سے ایک تیمور کا بیٹا ساجد اور دوسرا شفقت علی کا بھانجا ناصر تھا ۔

چنانچہ پولیس نے بیک وقت دونوں گھروں میں چھاپہ مار کر ناصر اور ساجد کو رضوی صاحب کے قتل کے الزام میں گرفتار لیا اور سیدھا تھانے لے گئی ، دونوں کے گھروں میں کہرام مچ گیا ۔

ناصر اور ساجد اس ناگہانی افتادپر بری طرح پریشان ہو گئے تھے ۔

تھانے کا انچارج ایک خرانٹ ہیڈ کانسٹیبل تھا ، وہاں ابھی تک کوئی ایس ایچ او تعینات نہیں ہوا تھا ، یوں بھی یہ علاقہ ایسا تھا یہاں جرائم نہ ہونے کے برابر تھے اور ظاہر ہے جہاں راوی چین ہی چین لکھے تو وہاں  اوپر کی آمدنی کا کیا جواز ؟ اس لئے کوئی یہاں ٹرانسفر ہو کر آتا بھی تھا تو چند روز ٹھنڈ کے بعد دوبارہ اپنا تبادلہ کروالیتا ، لے دے کر ایک ہیڈ کانسٹیبل عنایت ہی رہ گیا تھا جو خود کو حوالدار کہلانا زیادہ پسند کرتا تھا ، وہ ایک خرانٹ صورت پکی عمر کا شخص تھا ، چھوٹی موٹی چوری چکاری کی وارداتوں میں دینے لانے کا سلسلہ بھی لگا رہتا تھامگر بات چند چھوٹے نوٹوں سے آگے نہ بڑھی تھی لیکن اتنے عرصے بعد اس محلے میں قتل کی اس لرزہ خیز واردات پر وہ خودبھی چونکے بنا نہ رہ سکا تھا ۔

اب ساجد اور ناصر اس کی گرفت میں تھے جنہیں اس نے مقتول رضوی سے قتل کے جرم میں شک کی بناء پر لاک اپ کردیا تھا ۔

اندھیری کوٹھی میں ہونے والی لرزہ خیز واردات کی نوعیت سنگین تو تھی لیکن ابھی پوری طرح اس کے ٹھوس شواہد اور محرکات سامنے نہیں آئے تھے ۔

ہیڈ کانسٹیبل نے چوکیدار خان چاچا کوبھی طلب کرلیا تھا اور دونوں مشتبہ ملزموں ناصر اور ساجد کو اپنے کمرے میں بلا کر ان سے تفتیش شروع کردی تھی ۔

اس دوران ایک اردلی نے اندر آ کر حوالدار عنایت کو یہ اطلاع بھی دی تھی کہ ملزمان کے والد تیموراور شفقت ان سے ملنے آئے تھے مگر اس نے نہ صرف ملانے سے صاف انکار کردیا تھا بلکہ نہیں دو تین گھنٹے بعد آنے کا کہ کر تھانے سے چلتا کردیا تھا ۔

وہ ایک کرسی میں دھنسا ہوا تھا اور دونوں ٹانگیں میز پر پھیلائے تھا ، ہاتھ میں سیاہ رنگ کا ڈنڈا بھی نظر آ رہا تھا ، ساجد اور ناصر دونوں اس کے سامنے کھڑے تھے جبکہ چوکیدار خان چاچا بھی ساتھ کھڑا تھا ، حوالدار عنایت نے پہلے ناصر اور ساجد کو خشمناک نظروں سے گھورا پھر قریب کھڑے خان چاچا کی طرف دیکھ کرخت لہجے میں بولا اب مجھے شروع سے ساری بات بتا مگرمختصر الفاظ میں خان چاچا کے چہرے پر از حد بیزاری کے تاثرات تھے۔

اس کی وجہ تھی کہ وہ آج دن میں کئی بار یہاں بلایا جا چکا تھا ، بہر طور حکم مرگ مفاجآت کے مصداق وہ بتانے لگا ۔

کل رات سوادو بجے کے قریب میں اپنا چوتھا گشت مکمل کر کے اندھیری کوٹھی کے سامنے سے گزرنے لگا تو مجھے یہ دونوں بدحواسی کے عالم میں اس کوٹھی کے اندر سے باہر نکلتے ہوئے دکھائی دیئے ، میں نے انہیں خبر دار کہ کر روکنے کی بھی کوشش کی مگر یہ دونوں میری طرف دیکھنے کے بعد    خوف زدہ ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ ‘ اتنا بتانے کے بعد اس نے اپنے ہاتھ جوڑ کر حوالدار عنایت سے ملتجیانہ لہجے میں کہا ۔                 حضور                      اب مجھے جانے دیں ، میں ذرا آرام کرنا چاہتا ہوں کیونکہ پھر دوبارہ مجھے رات کو اپنی ڈیوٹی بھی سنبھالنا ہے ۔

اچھا                   اچھا                                  ٹھیک ہے ، جاؤاب تم بالآخر حوالدار عنایت نے اسے جانے کی اجازت دی ۔

اس کے بعد وہ متوحش اور پریشان کھڑے ساجد اور ناصر کی طرف گھورتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا ان کے قریب پہنچ کر دونوں کو مخاطب کر کے بولا ۔  مقتول رضوی سے تم دونوں کی کیا دشمنی تھی ؟

دشمنی ،                         ناصر حیرت آمیز پریشانی سے بولا ۔  جناب                            ! ہم تو رضوی صاحب کو جانتے تک نہیں ہیں ۔

تو پھر تم نے ان کا قتل کیوں کیا ؟ حوالدار نے سرخ آنکھوں سے ناصر کوگھورا ۔

ہم نے یہ قتل نہیں کیا ، ہم نے تو آج تک مکھی بھی نہیں ماری۔اس بار ساجد نے کہا ۔

 اچھا ‘                         ‘ حوالدار نے استهزائی انداز میں کہا ۔ تو پھر اس رات اند میری کوٹھی میں کھانا پکانے گئے تھےتم دونوں ؟

ہم ویسے ہی گئے تھے ہمیں ایک عرصے سے اس اندھیری کوٹھی کے بارے میں تجسس تھا ۔ ناصر نے کہا ۔

کیوں                  !! تم کوئی شرلاک ہومز کی اولاد ہو جو اتنی دیدہ دلیری اور بہادری کے ساتھ وہاں گئے تھے ؟

حوالدار نے غصے سے دانت پیس کر کہا ۔ میں کہتا ہوں مجھے سچ سچ بتا دو کہ تم لوگوں نے رضوی کو قتل کیوں کیا اور نہ میرا ڈنڈا دیکھ رہے ہو ناں         ،؟ یہ کہتے اس نے اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑا ہوا سیاه رول دونوں کے چہروں کے سامنے لہرایا اور اپنی بات مکمل کی ۔یہ پتھروں کو بھی بولنے پر مجبور کر دیتا ہے،۔

ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ کمرے میں ایک بار پھر اردلی اندر داخل ہوا اور مؤدبانہ لہجے میں بولا               جناب                                  مقتول کے وارث آئے ہیں۔

بھیج دو انہیں اندر‘‘ حوالدار نے کہا اور اردلی سر جھکائے باہر نکل گیا ۔ ذرا دیر بعد دو افراد سوگوار چہرے کے ساتھ اندر داخل ہوئے ، دونوں کی عمریں پچیس تیس کے درمیان تھیں ، صورتیں بھی ایک دوسرے سے تقریب ملتی جلتی تھیں جس سے صاف اندازہ ہوتا تھا کہ دونوں آپس میں بھائی ہیں ۔

یہ دونوں مقتول رضوی کے بیٹے تھے مگر ان کے ہمراہ دو مزید افراد بھی اندر داخل ہوئے تھے ، ایک تو تیمور تھے اور دوسراشخص ناصر کا ماموں شفقت تھا ۔

حوالدار عنایت نے بڑی قہر آلو نظروں سے ان دونوں کوگھورا تو مقتول کے ایک بیٹے نے حوالدار سے کہا ۔  حوالدار صاحب               ! ان دونوں کو ہم اپنے ساتھ لائے ہیں ۔

اس کی بات سن کر حوالدار چونکا ۔

جی حوالدار صاحب               !!  دوسرے بیٹے نے کہا ۔  آپ ان دونوں کے بچوں کو چھوڑ دیں ، ہمارے ابو کوانہوں نے قتل نہیں کیا ۔

ان کی بات سن کر حوالدار عنایت نے اس بار دونوں کو گھورا اور زرا سخت لہجے میں کہا ۔

آپ اتنے یقین سے یہ بات کیسے کہہ سکتے ہیں ؟

اس لئے کہ ہمارے لئے یہ دونوں اجنبی ہیں اور نہ ہی ہمارے یا ہمارے مرحوم ابوکی طرف سے کوئی دشمنی ہے، کوئی دوسرا چکر ہے ۔ پہلے بیٹے نے کہا ۔

 یہ پتہ لگانا ہمارا کام ہے ، کمال ہے آپ کے والد کا بیدردی سے ہو گیا ہے اور جائے واردات سے یہ دونوں لڑ کے بھاگتے ہوئے پکڑے گئے ہیں اور آپ کہہ رہے ہیں کہ               !!حوالدار صاحب معا تیمور نے اس کی بات کاٹ کر سنجیدہ لہجے میں کہا ۔

 پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق رضوی صاحب کا قتل شام چھ اور سات بجے کے درمیان ہوا ہے جبکہ میرا بیٹا ساساجد رات گھر پر ہی تھا ، یہ دیکھئیے پوسٹ مارٹم رپورٹ       

 یہ کہہ کر تیمور نے اپنی جیب سے رپورٹ کی ایک کاپی نکال کر اس کی طرف بڑھا دی ۔

حوالدار نے رپورٹ لینے کی زحمت تک گوارہ نہ کی اور کرخت لہجے میں بولا  آپ باہر جائیں ، میں بعد میں آپ سے بات کروں گا ۔

تب ناصر کے ماموں نے حوالدار سے کہا ۔  اوہ جی تھانیدار صاحب                      ! معاملہ صاف ہے ، کوئی تھوس ثبوت بھی نہیں ملا اور آپ نے ہمارے بچوں کو گرفتار کرلیا اس وجہ سے کہ انہیں اس اندھیری کوٹھی سے نکلتے دیکھا گیا جبکہ مقتول کے وارثوں کوبھی پورا یقین ہے کہ قتل بچوں نے نہیں کیا بلکہ یہ سارا چکر اس اندھیری کوٹھی کا ہے ، سب جانتے ہیں کہ اس کوٹھی میں آسیب نے برسوں سے ڈیرے ڈال رکھے ہیں جو بھی اسے خریدنے کی کوشش کرتا ہے ، وہ اس آسیب کا شکار ہو جاتا ہے    ۔

حوالدار بری طرح تلملا کر رہ گیا کیونکہ اندھیری کوٹھی سے متعلق ایسی داستانیں عام تھیں ، پھر مقتول کے دونوں بیٹے بھی ناصر اور ساجد کی بے گناہی کی گواہی دے رہے تھے ، پوسٹ مارٹم رپورٹ ظاہرتھی ، یہ بات سب کو تسلیم تھی کہ مقتول رضوی اس اندھیری کوٹھی کے خونی آسیب کا ہی شکار ہوئے ہیں یوں بات آئی گئی ہوگئی اور ساجد اور ناصر کو ثبوت نہ ہونے کے باعث چھوڑ دیا گیا ، یوں پولیس کا قصہ ادھر ہی ختم ہوگیا ۔

ناصر اور ساجد کی خوب کھنچائی ہوئی تھی ۔ دونوں کو چوکہ عامل رنگا ماتی کی طرف سے کی کسی کو یہ راز بتانے کی سختی سے ممانعت تھی اس لئے ساجد خاموش ہی رہا ۔ انہوں نے اپنے بڑوں کو اتنا ہی بتایا کہ وہ اپنے تجس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اندھیری کوٹھی میں اس خونی آسیب کا کھوج لگانے گئے تھے ۔

آج عمل کا دوسرا روز تھا ، ناصر ڈرگیاتھا کہ کہیں ساجد انکار ہی نہ کر دے، مگرحقیقت یہ تھی کہ ایک بار عمل کرنے کے بعد ان کی ہمت سوا ہو گئی تھی وجہ یہ تھی کہ دونوں کے سروں پر دو مختلف عزائم کو تکمیل کر نے کی دھن سوارتھی ۔

لہذا دوسری بار بھی عمل کامیابی سے ہمکنار ہوا تو ان کے حوصلے مزید بلند ہو گئے ، اب وہ پوری تندہی کے ساتھ عمل پرعمل کرتے چلے گئے اور یوں لگاتار سات راتیں انہوں نے عمل کر ڈالا ۔

شگفتہ کے ساتھ بدستور وہی حالات تھے جو بجائے کم ہونے کے مزید شدت اختیار کرنے لگے تھے ، ایک روز ایسا اندوہناک واقعہ ظہور پذیر ہوگیا جس کی کسی کو بھی توقع نہ تھی ۔ فائزہ کی شادی ہو چکی تھی ، اب وہ اپنے گھر کی ہو چکی تھی ، گھر میں اکثر اب شگفتہ اور اس کی

اماں ہوتیں ، تیمور شام گئے لوٹتے جبکہ ساجد کالج جاتا اور شام کو ایک دو گھنٹے کے لیے باہر دوستوں میں رہتا تھا۔

اس وقت شام کے چار کا وقت تھا ، آج موسم کے تیور صبح ہی سے خراب تھے ، آسمان پر کالے بادل چھا گئے تھے ، تیمور دفتر جانے سے گریزاں تھے مگر جب انہوں نے دیکھا کہ بارش نہیں ہورہی تو وہ ایک گھنٹہ لیٹ ہی نکل گئے ، ساجد کالج سے جلدی لوٹ آیا تھا اور سو گیا تھا ، اسے رات کو جاگنا پڑتا تھا اس لئے اس کی نیند پوری نہیں ہوتی تھی یوں وہ دوپہر میں نیند پوری کرنے کی کوشش کرتا تھا ، وہ دوپہر کو جاگا اور کھانا کھا کر پھر سوگیا ، دو گھنٹے مزید آرام کرنے کے بعد وہ باہر چلا گیا ، اب شگفتہ اور اس کی ماں تنہا گھر تھیں ۔

آسمان پر چھائے ہوئے کالے بادلوں کی وجہ سے سرشام ہی گھپ اندھیرا چھا گیا تھا ، ماں کچن میں کام کر رہی تھی جبکہ شگفتہ اپنے کمرے میں بیٹھی پڑھ رہی تھی ۔

 شگو رانی                !زرا ادھر آنا ۔  معااسے ماں نے پکارا ۔

وہ جی اماں آئی کہ کر اٹھی اور کمرے سے نکلی ۔

اس کی ماں کچن میں ہی تھی ، وہ ان کے پاس پہنچی ۔

ماں نے پالک کا بڑا سا تھال اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔

 ارے بیٹی زرا یہ پالک تو کاٹ دینا ، میں جب تک آٹا گوندھ لیتی ہوں ۔

 جی اچھا اماں                            ! ابھی کاٹ دیتی ہوں ۔ ‘ شگفتہ نے کہا اور کھڑے کھڑے وہیں پالک کی ڈنڈیان و پتے الگ کرنے لگی پھر اس کی مٹھیاں بنا کر چھری سے کترنے گی ماں بھی کچن کے ایک سلیب کے قریب کھڑی آٹا گوندھنے لگ گی ۔

بیٹی                            معا شگفتہ کو ماں کی آواز سنائی دی ۔

جی اماں                          ‘ ‘ وہ پالک کاٹتے ہوئے بولی ۔

 ہاں بیٹی                 کہو؟ ‘ ‘ ماں نے پوچھا ۔

 آپ                         آپ نے مجھے پکارا تھا ابھی ۔ شگفتہ نے قدرے چونک کر کہا ۔

میں نے      ؟ نہیں تو                     !! ماں نے کہا اور پھر وہ کام میں مشغول ہوگئیں ۔

بیٹی               !! ادھر دیکھو میری طرف   ۔معا دوبارہ شگفتہ کو ماں کی آواز سنائی دی ۔

اس نے ان کی طرف دیکھا مگروہ آٹا گوندھنے میں مشغول تھیں ،وہ اس کے قریب ہی کھڑی تھی ۔

اچانک شگفتہ کے ہاتھ سے چھری نیچے گری، وہ اسےاٹھانے کے لیے جھکی تو اس کی نگاہ اپنی ماں کے پاؤں پر پڑی تو بری طرح دہل    گئی    ماں کے پاؤں الٹے تھے، پہلے تو وہ یہ سمجھی کہ اس کی ماں نے شاید اپنارخ پھیرا ہوا ہے ، اس نے جھکے جھکے گردن اٹھا کر دیکھا ، وہ بدستور دوسری طرف رخ کیے کام میں مشغول تھی ۔

شگفتہ اٹھ کھڑی ہوئی اور ماں کے چہرے کو بغور دیکنے لگی پھر لرزتی آواز سے بولی       آ       آ                   آ                                                           ! آپ کے پاؤں الٹے ہیں ؟

تو پھر کیا ہوا ؟ ‘ ‘ یہ کہہ کر وہ دوبارہ کام میں مصروف ہوگئی ۔

ماں کے سرد اور سپاٹ جواب پر شگفتہ ہکا بکا رہ گئی،، اس پہ لرزہ طاری ہونے لگا ، چھری پکڑا ہوا ہاتھ کپکپانے لگا ، اس پر دوبارہ ہسٹریائی دورے کی سی کیفیت طاری ہونے لگی       پھر اچانک اسے کچن کے دروازے پر آہٹ سنائی دی ، اس نے چونک کر گردن موڑی تو مارے دہشت کے اس کی آنکھیں پھیل گئیں ۔

کچن کے دروازے پر اس کی ماں کھڑی تھی ، شگفتہ نے ایک لرزتی ہوئی نگاہ اس کے چہرے پر ڈالی پھر گردن موڑ کر اپنے دائیں جانب کھٹری آٹا گوندھتی ہوئی ماں کو دیکھا جس کے پاؤں الئے تھے ، اسے وہیں کھڑے پایا ۔

اپنی ماں کے دو ہمشکل کو اپنے سامنے دیکھ کر شگفتہ کی حالت غیر ہونے گی ۔

دفعتاً پھر اس کے کانوں سے ایک اور آواز ٹکرائی،جوباہرکسی کمرے سے ابھری تھی ۔

شگورانی                              !!!زرا ادھر آنا میرے پاس        یہ بھی اس کی ماں کی آوازتھی ۔

شگفتہ کو سکتہ ہوگیا،، تب پھر اس کے دائیں جانب کھٹرے الٹے پیروں والی ماں نے اچانک عجیب انداز میں ہنسنا شروع کر دیا ،شگفتہ خوف کے مارے پسینے میں نہا گئی ، ماں نے ہنستے ہنستے اس کی طرف دیکھا اور دوسرے ہی لمحے اس کے چہرے کے نقوش بدلنے لگے اور بھیانک چہرے والی شیطانی مخلوق کی صورت اختیار کر گئے ۔

شگفتہ نے ایک زور دار ہسٹریائی چیخ ماری اور اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھری ماں کے پیٹ میں اتار دی ، ماں کے حلق سے لرزہ خیز چینح ابھری اور ان کے پیٹ سے خون کا فوارہ ابل پڑا ، ماں اپنا پیٹ پکڑے زمین پر گر پڑی ۔

ماں کی ہمشکل غائب ہوگئی ، دوسری ہمشکل ماں جس کا چہرہ بھیانک ہوتا دیکھ کر شگفتہ نے اس کے پیٹ میں چھری گھونپ دی تھی ، وہ اب فرش پہ لیٹی تکلیف کے مارے بری طرح کراہ رہی تھیں ، ان کا چہرہ ٹھیک ہوگیا تھا اور بال بھی سیدھے ہو گئے تھے ۔

شگفتہ کانپنے لگی،، خون آلود چھری اس کے ہاتھ سے گر پڑی اور وہ ماں کو سنبھا لنے لگی ۔

یا الله                         !! یہ مجھ سے کیا ہوگیا ؟

‘‘ شگفتہ اپنی ماں کو سنبھالتے ہوئے رونے لگی ۔

ماں اپنا پیٹ کے درد سے چلا رہی تھی، شگفتہ نے بھی دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کردیا ۔

اس وقت دروازے پر دستک ہوئی شگفتہ روتی ہوئی دروازہ کھولنے لپکی ۔

درواز کھولا تو سامنے باپ کھڑا تھا ، تیمور نے جو اپنی بیٹی کے کپڑوں میں خون لگا دیکھا تو دہل گئے ۔

یہ!!              یہ           یہ کیا ہوا ؟ تت           تمہارے                                 یہ خون کیسا ؟ ‘‘ وہ بے رابط سے لہجے میں بولے ۔

ابو                          ابو                    وہ                                                  وہ شگفتہ نے اتنا ہی کہا تھا کہ غش کھا کر باپ کے بازوؤں میں جھول گئی ۔

وہ بری طرح ہراساں اور پریشان ہو گئے ، بے ہوش شگفتہ کو سنبھالتے ہوئے وہ جلدی سے اندر آئے تو انہیں کچن کی طرف سے اپنی بیگم کے جاں کنی کے انداز میں کراہنے کی آوازیں سنائی دیں ، وہ مزید پریشان اور متوحش ہو گئے ۔

شگفتہ کو صحن میں ہی بچھی ایک چارپائی پر ڈال کر وہ کچن کی طرف لپکے، اندر بیگم کو خون آلود زحمی دیکھ کر وہ سناٹے میں آگئے ۔

ایک طرف بیٹی بے ہوش پڑی تھی تو دوسری طرف بیگم جان کنی کے علم میں زخمی پڑی تھی، جو پیٹ پہ لگے گھاؤ کی وجہ سے شاید اب بےہوش ہو چکی تھی ۔

انہیں ساجد پر ہے تحاشا غصہ آنے لگا کہ وہ اس وقت گھر پر موجودنہ تھا ، وہ دہری پریشانی کا شکار ہو گئے تھے ۔

اچانک تیمور کی نظر فرش پر پڑی خون آلود چھری پر پڑی ۔ وہ جان گئے کہ ان کی بیگم کے پیٹ میں اس چھری سے وار کیا گیا تھا ۔

مگر کس نے ؟یہ سوالیہ نشان آنکڑے کی طرح ان کے ذہن میں اٹک گیا ۔

انہوں نے فوراً اپنے محتل حواسوں پر قابو پایا اور اپنی بیگم کو اٹھ کر کاندھے پر لادا اور باہر نکل آئے۔

آس پاس پڑوسی بھی جمع ہو گئے تھے ، تیمور نے جلدی جلدی پہلے اپنی بیگم کو کار کی عقبی نشست پر لٹایا اور پھر اندر بھاگا اور بے ہوشی بیٹی کو اٹھا کر باہر آ گئے ، محلے والوں نے ان کی مجبوری اور مصیبت کو دیکھتے ہوئے فورأ اپنی عورتوں کو ان کے ساتھ کر دیا اور ایک مرد بھی ان کی مدد میں شامل ہوگیا ۔

آناً فاناً وہ ہسپتال پہنچ ۔

شگفتہ کا کوئی خاص طی مسئلہ نہ تھا لیکن اس کی ماں کی حالت بہت ہی نازک تھی ، خون زیادہ بہ جانے کی وجہ سے ان کی حالت مزیدبگڑ چکی تھی ، ڈاکٹروں نے انہیں بچانے کی بہت کوشش کی مگر وہ جانبر نہ ہوسکیں اور ہسپتال میں ہی ذرا دیر بعد دم توڑ دیا ۔

پھر تو جیسے پورے گھر میں ہی نہیں پورے محلے میں کہرام مچ گیا محلہ تھاہی کتنا بڑا جنگل کی آگ کی طرح یہ بات مشہور ہوگئی کہ تیمور کی پاگل اور جنونی بیٹی شگفتہ نے اپنی ماں کے پیٹ میں چھری گھونپ کر اسے مار ڈالا ، پولیس بھی ضابطے کی کارروائی نمٹانے وہاں پہنچ گئی اور شگفتہ سے بیان لینا چاہا مگر بے چاری شگفتہ کی اپنی حالت دگرگوں ہورہی تھی ، ماں کے انتقال پر اس پر متواتر غشی کے دورے پڑ رہے تھے ، تیمور نے اپنے کیسی جانے والے کی مدد سے پولیس کے اعلی افسر سے بات کر کے اپنی مجبوری بیان کی اور معاملہ رفع دفع کروایا ، اس دوران انہیں اپنی جیب سے دینا دلانا بھی پڑا تھا۔۔

لوگوں نے تیمور کو یہ مشورہ دیا کہ اس سے پہلے کہ ان کی پاگل اور جنونی بیٹی شگفتہ کسی اور کا خون کرے اسے فوراً پاگل خانے داخل کروا دیا جائے ۔

تیمور نے شگفتہ کو پاگل خانے تو داخل نہیں کروایا البتہ اسے اپنی کار میں لے کر سیدھے ٹاہلی والے بابا کے پاس پہنچے اور بڑے رندھے ہوئے لہجے میں ساری بپتا سنائی ۔

 وہ    ایک بہت ہی بھیانک اور خطرناک شیطانی مخلوق ہے ۔

ساری بپتا سننے کے زرا دیر خاموشی کے بعد ٹاہلی والے بابا نے کہا ۔

ان کا چہرہ جوش وجلال سے کپکپارہا تھا ۔ تیمور ان کی بات سن کر بری طرح ٹھٹکےاور حیرت و پریشانی سے پوچھا ۔

 بھیانک مخلوق                 ؟ آخری کون ہے ؟ کہاں سے آئی ہے اور اور اس کی ہمارے ساتھ کیا دشمنی ہے ؟

ٹاہلی والے بابا بولے ۔  وہ کی سو برس پہلے مر چکی ہے ، یہ اس کی بدروح ہے ، رہی بات یہ کہ وہ تمہاری بیٹی کی دشمن کیوں ہے ؟ یہ پراسرار حقیقت ابھی راز میں ہے ۔

ہمیں بھی ابھی پوری طرح علم نہیں ہے لیکن وہ صرف تمہاری بیٹی کی نہیں بلکہ تمہارے سارے خاندان کی جان کی دشمن ہے، ابھی اس کے پاس وہ قوت نہیں ہے کہ اپنے زور بازو سے کسی کو جسمانی گزند پہنچا سکے مگر وہ اپنے شیطانی اور بھیانک مناظر کے سہارے اس طرح کارستانیاں سرانجام دیتی رہے گی جس طرح تمہاری بیٹی کو اس نے استعمال کیا ۔

وہ اتنا کہہ کر خاموش ہو گئے ۔

تیمور پرتشویش سوچ میں مستغرق ہو گئے پھر بولے ۔  اے اللہ کے نیک بندے                 اب آپ ہمیں اس بھیانک بدروح سے نجات دلائیے

ہاں                         !!سردست تو اس سے چھٹکارا پانے کا ایک ہی طریقہ ہے ۔

در حقیقت اس بھیانک بدروح کی قبر اس اندھیری کوٹھی کے اندر کسی کمرے میں بنی ہوئی ہے جو تمہارے محلے میں ایک ویران پلاٹ پر برسوں سے نظر آرہی ہے ۔

وہ بتانے لگے ۔

لیکن خبردار                               ! اس قبر کے قریب بھی پھٹکنے کی کوشش مت کرنا ، اس اندھیری کوٹھی کو اس کے مالک سے خرید کر تمہیں اسے بسانا ہوگا ۔

 کک                                  کیا ؟ ‘ تیموران کی بات سن کر پریشان ہو گئے ۔

ہاں              ! ابھی ہمارا علم ہی کہتا ہے کہ جو بھیانک بدروح تمہارے خاندان کی جان کی دشمن بن چکی ہے ، اس کا یہ پراسرار راز اس اندھیری کوٹھی سے تعلق رکھتا ہے ۔

ہم پوری طرح یہ پراسرار راز جاننے کے لیے اپنے علم کا زور لگائیں گے ، ہمیں امید ہے جلد یا بدکر اس خونی راز کو جان لیں گے لیکن تب تک اس بدروح کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہنے کا سردست سہی واحد طریقہ ہے کہ اس کوٹھی کو ویران اور اجاڑ نہ رکھا جائے ۔

 اے بزرگ                !! کیا ضروری ہے کہ اسے میں ہی آبادکروں ؟ کیا دوسرا کوئی                 ؟

نہیں ‘ بزرگ نے ان کی بات کاٹ کر واشگاف الفاظ میں کہا ۔  اسے تمہیں ہی آباد کرنا ہو گا کیونکہ اس سارے پراسرار اور خونی واقعات کا تعلق تمہارے ہی خاندان سے ہے ، ایسے اب زیادہ وقت برباد نہ کرواور اس کے مالک کو تلاش کر کے اس سے فوری کوٹھی خریدو          ۔

ٹھیک ہے میں ایسا ہی کروں گا مگر شگفتہ؟

 اس کی تم فکر نہ کرو۔ بزرگ نے کہا اور پھراپنے لمبے سفید کرتے کی جیب سے ایک تعویز نکال کر تیمور کو تھماتے ہوئے بولے۔

اسے ہمیشہ اپنے پاس رکھنا تمہارا خاندان بدروح کے شر سے محفوظ رہے گا ۔

ایک آخری بات پوچھنا چاہتا ہوں ۔

ہاں پوچھو         ؟

 کیا اس طرح ہمیشہ کے لیے ہماری اس بدروح سے جان چھوٹ جائے گی ؟

نہیں                        !! یہ ابھی اتنا آسان نہیں ۔ وہ بولے ۔ ابھی یہ پہلا مرحلہ طے کرو ، جب تک ہم بھی اس پر اسرار معاملے سے آگاہی کے لیے طویل ریاضت کریں گے ، تم ہمارے پاس آتے رہناء الله کی ذات پر بھروسہ رکھو ، ہم جلدی ہی یہ راز معلوم کر لیں گے ۔

تیمور ان کا شکریہ ادا کر کے وہاں سے رخصت ہو گئے ۔

ساجد اداس ساناصر کی دکان پر موجود تھا ، اسے اپنی ماں کی اندوہناک موت پر از حد دکھ تھا ، وہ ناصر سے اداس لہجے میں بولا          یار ناصر ! میرا خیال ہے میرے اس عمل کرنے پر شیطانی مخلوق نے غصے میں شگفتہ کے ذریعے میری ماں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے ، اب میں یہ عمل ہرگز نہیں کروں گا ۔

اس کی بات سن کر ناصر پریشان ہوگیا ۔ اسے اپنے کام کی فکر لاحق ہونے لگی اور وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولا ۔  ساجد                                 ! یہ تو کیسی بے وقوفوں والی باتیں کر رہا ہے عمل کو بارہ روز بیت چکے ہیں ، سات روز باقی ہیں ، اس طرح تم اپنی اور میری بھی ساری محنت ضائع کر دو گے ۔

 مجھے اس کی پروانہیں ساجد بیزاری سے بولا ۔

یار کیا تم اس عامل رنگاماتی کی بات بھول گئے جس نے کہا تھا کہ اس عمل سے شیطانی مخلوق کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے گا بصورت دیگر وہ تمہارے سارے خاندان کو موت کے گھاٹ اتار دے گی ۔

ناصر نے اسے ڈرانے کی کوشش کی ۔ تو اب کون سا ہم اس کے شر سے بچے ہوئے ہیں ۔ ساجد نے ناگواری سے کہا اور پھر جیسے اچانک اسے ایک خیال آیا تو وہ بولا تمہیں ایک بات تو میں بتانا بھول ہی گیا ۔  کیسی بات        ؟ وہ بات یہ ہے کہ میرے ابو ایک نیک بزرگ سے ملے تھے جو ٹاہلی والے بابا کے نام سے مشہور ہیں ، ابو نے انہیں ساری بات بتائی تھی ، وہ ہماری اس پراسرار مسئلے میں خاطر خواہ مدد کر رہے ہیں ، انہوں نے میرے ابو سے یہی کہا ہے جو عامل رنگا ماتی نے ہم سے کہا تھا ۔

کیا کہا تھا                 ؟

 ناصر جو بڑے غور سے اس کی بات سن رہا تھا بولا ۔ یہیں کہ ایک بھیانک شیطانی مخلوق کی بدروح ہماری جان کی دشمن بن گئی ہے لہذا اسی نیک بزرگ نے ابو کو یہ مشورہ دیا ہے کہ اس اندھیری کوٹھی کو ہم خرید کر اسے آباد کر یں ۔

ناصر اس کی بات سن کر چونک گیا پھر چند ثانیے کسی الجھن آمیزی میں مستغرق رہنے کے بعد بولا۔

تو پھر کیا اب تمہارے ابو اندھیری کوٹھی کو خریدنا چاہتے ہیں ؟

 ہاں                اس نے بتایا ۔

 کیا انہیں معلوم ہے کہ وہاں ایک قبر بھی ہے؟

ہاں               ! ٹاہی والے بابا نے ابو کو بتایا تھا کہ یہ اسی شیطانی مخلوق کی قبر ہے جس کی بدروح ہمارے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ساجد نے کہا ۔

مگر اس طرح تو الٹا تم سب لوگوں کی جان کو مزید خطرہ پیدا ہو جائے گا اور پھر ہمارا عمل بھی ادھورا رہ جائے گا ۔

ناصر بولا ۔

ایسا نہیں ہوگا ، ٹاہلی والے بایا اس پراسرار راز کا کھوج اپنے علم کے ذریعے لگانے کی کوشش میں مصروف ہیں ۔

 تو پھر اس قبر کے بارے میں انہوں نے کیا کہا ؟ کیا اسے ڈھادیا جائے گا ؟‘ ‘ ناصر نے کسی خیال کے تحت پوچھا ۔

ساجد نے نفی میں اپنا سر ہلاتے ہوئے کہا ۔

نہیں                       انہوں نے سختی سے ہمیں اس قبر کی طرف جانے سے بھی منع کر رکھا ہے ۔

 ناصر کی گہری سوچ میں ڈوب گیا پھر جب ساجد چلا گیا تو وہ اسی وقت عامل رنگا ماتی کے پاس پہنچا اور اسے ساری بات بتائی ۔

 یہ بہت برا ہوا ، ایسا نہیں ہونا چاہیے ساری بات بغور سننے کے بعد وہ تیز لہجے میں بولا ۔

 اگر ایسا ہوگیا اور وہ کوٹھی ساجد کے باپ نے خرید لی تو سارا عمل دھرا کا دھرا رہ جائے گا بلکہ الٹا اس کا نقصان بھی اسے بھگتنا پڑے گا ، تم ساجد کو سمجھاؤ کہ وہ اپنے باپ کو کوٹھی خریدنے سے منع کرے اور تم بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو پاو گے ۔

 ویسے ساجد اپنے باپ کے اس فیصلے کے حق میں نہیں ہے کہ وہ اچھا بھلا اپنا گھر چھوڑ کر آسیبی اندھیری کوٹھی میں جا بسیں لیکن اصل پریشانی کی بات یہ ہے کہ ساجد اپنی ماں کی موت کے بعد اس عمل سے بددل ہو چکا ہے اسی لئے اس نے وہ عمل آئندہ نہ کرنے کا پکا فیصلہ کر لیا ہے ۔

ناصر نے عامل رنگا ماتی کو اصل مسئلے سے آگاہ کیا تو عامل کے چہرے پر تشویش کے سائے مزید گہرے ہوگئے ۔

تم اس بے وقوف لڑکے کو سمجھاؤ ، اگر اس نےعمل ادھورا چھوڑا تو پہلے سے زیاد و بڑی مصیبتوں کے پہاڑ ان پرٹوٹ پڑیں گے ۔

 میں نے تو بہت سمجھانے کی کوشش کی ہے مگر اس نے میری بات ماننے سے اب صاف انکار کر دیا ہے ۔ ناصر نے کہا ۔

عامل رنگا ماتی نے ایک طویل ہنکاری بھر کے بولا  ٹھیک ہے پھر مجھے ہی کوئی دوسرا طریقہ سوچنا ہوگا ۔

ماں کے انتقال کے بعد شگفتہ بالکل گھٹ کر رہ گئی تھی ، وہ اپنی ماں کا قاتل خودکو سمجھے ہوئے تھی ، اگر چہ اس کے باپ اور بھائی ساجد نے اسے سمجھانے اور تسلی دینے کی کوشش کی تھی کہ اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے اور یہ ساری کارستانی اس پراسرار شیطانی مخلوق کی ہے ۔

شگفتہ کو اب اس بھیانک مخلوق سے نفرت ہوگئی تھی ، شدید نفرت               !! یہی وہ جذبہ تھا جس سے مغلوب ہو کر اسے اپنی ماں کے روپ میں دیکھ کر غیر ارادی طور پراس نے پیٹ میں چھری گھونپ دی تھی ۔

لیکن ٹاہلی والے بابا کی ہدایت کے مطابق جب تیمور نے وہ اندھیری کوٹھی خرید کر اس میں شفٹ ہونے کا اعلان کیا تو ساجداور شگفتہ نے اپنے باپ کے فیصلے پر شدید مخالفت کی ۔

ابو آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں ؟ یہ تو وہی بات ہوگئی کہا کہ آ بیل مجھے مار                         سب سے پہلے شگفتہ نے مخالفت کرتے ہوئے باپ سے کہا ۔

ساجد نے اپنی بہن کی تائید میں باپ سے یہی کہا ۔

 ہاں ابو شگو ٹھیک کہہ رہی ہے ، وہ اندھیری کوٹھی ہی تو بدروح کا مسکن ہے ، وہاں تو ہم سب کو باآسانی شکار کر لے گی ۔

 میرا فیصلہ نہیں ہے ، ٹاہلی والے بابا کا ہے ۔ تیمور ہوئے ۔ اور وہ اللہ کے ایک نیک بندے ہیں ، ضرور انہوں نے کچھ سوچ کر اور اپنے علم کے بل بوتے پر ہی ہمیں یہ مشورہ دیا ہو گا جس میں ہم سب کی بھلائی ہے ۔

نہیں ابو                 ! معاف کیجئے گا ، مجھے تو اس پر اسرار معاملے میں وہ بھی بے بس ہی نظر آتے ہیں ، انہوں نے ہم سے کوئی حتمی بات ابھی تک نہیں کی ہے کہ آخر اس خونی مخلوق کا خاتمہ کیسے ہو گا            ؟ شگفتہ نےسنجیدگی سے کہا ۔

تیمور اپنے بچوں کی بات پر نہیں ملائمت آمیزی کے ساتھ سمجھاتے ہوئے بولے ۔  دیکھو بچو                      کچھ ایسی باتیں مت کرو ، وہ اللہ کے نیک بندے ہیں اور پھر ان کی قوت کا اس بات سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سب جانتے ہیں ۔

کچھ بھی ہو ابو                ! ہمیں تو اس میں اندھیری کوٹھی میں رہائش اختیار کرنے کے تصور سے ہی ہول آرہا ہے ، ہم وہاں پر نہیں جائیں گے ۔ ساجد نے قطعیت سے کہا۔

اور تیمور خاموش ہوگئے ۔

یوں ہی معاملہ طوالت اختیارکرنے لگا گھر میں اب ایک انجانے سے خوف کی فضا پیدا ہوگئی تھی ،شگفتہ سے باپ اور بیٹا دونوں ہی ڈرے ہوتے رہتے تھے کہ نہ جانے کب وہ انہیں بھی اس بھیانک مخلوق کے روپ میں دیکھ کر غلطی میں ماں کی طرح چھری گھونپ دے ۔

ساجد زیاده پریشان تھا ، اس پریشانی اور خوف جیسی فضا میں بجائے کمی آنے کے اضافہ ہوتا رہا ۔

اس شام ساجد اپنے دوست سے مل کر واپس گھر کی طرف آرہا تھا کہ اچانک ایک شخص نے اس کا راستہ روک لیا ، وہ ٹھٹک کر رک گیا اس کے سامنے پراسرار عامل رنگاماتی کھڑا تھا ۔

وہ اسے تیز نظروں سے گھورتے ہوئے بولا ۔ تم نے عمل ادھورا چھوڑ کر اپنی اور اپنے گھر والوں کی موت کا سامان پیدا کر دیا ہے تم نے مزید عمل کرنے سے کیوں انکار کر دیا ہے ؟

ساجد پہلے تو اس کے تیور دیکھ کر ڈر گیا مگر پھر ہمت کر کے بولا میں اب عمل نہیں کرسکتا ، تمہیں ناصر نہیں بتایا کہ میری ماں کن حالات میں موت کا شکار ہوئی ہے ؟

اس کی کوئی اور وجہ ہوگی ، ان کی موت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا ۔  عامل نے کہا ۔

اور بھلا کیا وجہ ہوسکتی ہے ، مجھے پورا یقین ہوگیا ہے کہ میرے اس طرح عمل کرنے سے اس خونی مخلوق نے طیش میں آ کر انتقاماً شگفتہ کے ہاتھوں ماں کو قتل کروا دیا ہے   ۔ ساجد نے ٹھوس لہجے میں کہا ۔

یہ غلط ہے تمہیں وہ عمل ہر صورت میں اب پایہ تکمیل تک پہنچانا ہوگا ورنہ تمہارے ساتھ میری بھی شامت آجائے گی ہم اب اس عمل کو ادھورا نہیں چھوڑ سکتے ، اب باقی پانچ دن ہی تو رہ گئے ہیں ۔ عامل رنگ مائی نے اسے گھورتی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ۔

مگر تمہیں آخر ہمارے مسئلے سے اتنی دلچسپی ہی کیوں ہے ، میری مرضی              میرا مسئلہ ہے میں جانوں تمہارا کیا کام ہے ۔

 ہوں                            تو تم    ایسے نہیں مانو گئے،؟ اس کی ضد پر عامل    رنگا ماتی نے اسے گھور کر دھمکی آمیز لہجے میں کہا۔

ساجد کو اس کی آنکھوں میں سفاکی کی چمک لہراتی محسوس ہوئی اور چہرے پر کرختگی کے تاثرات بھی واضح طور پر ابھرآئے ۔

اس وقت اتفاقاً آس پاس کوئی نہیں تھا ، سناٹا طاری تھا ، عامل رنگاماتی نے ساجد کے چہرے کی طرف جارحانہ نظروں سے گھورتے ہوئے اپنی قمیض کے اندر ہاتھ ڈال کر جب باہر نکالا توساجد کے اوسان خطا ہو گئے ۔

اس پر اسرار عامل    رنگاماتی کے ہاتھ میں ایک تیز اور لمبے پھل والا چھرا دبا ہوا تھا ، چھرے کے پھل کی چمک اور رنگاماتی کی چمکتی آنکھوں کی سفاکی میں کوئی فرق نہ تھا ۔

ساجد کا چہرہ خوف سے پیلا پڑ گیا تھا ۔ اسے اپنی موت صاف نظر آرہی تھی ، اسے یقین ہوگیا کہ یہ سفاک عامل آج اس کی جان لے کر ہی رہے گا مگر ایسا نہ ہوا ۔

عامل رنگا ماتی اس کی سراسیمہ نظروں کے سامنے چھرا گھماتے ہوئے سفاکی سے بولا ۔

 اگر تو نے میری بات نہ مانی تو یاد رکھنا میں یہی چھرا تیرے پیٹ میں گھونپ دوں گا ، مجھے اسی وقت تو بتا وہ عمل پورا کرے گا یانہیں ؟

ساجد کے منہ سے خوف کے مارے آواز نہیں نکل رہی تھی ، جبکہ رنگا ماتی اسے اپنی خونی آنکھوں سے گھورے جارہا تھا ، اس نے چھرے کی نوک اس کی گردن پر چبوتے ہوئے دوبارہ اپنی دھمکی دہرائی ۔

ساجد نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا ۔  ہاں                 ہاں              مم میں وہ عمل ضرور پورا کروں گا ۔

اس کی بات سن کر عامل رنگاماتی کے پتلے پتلے بدہیت ہونٹوں پرزہریلی مسکراہٹ ابھری ۔

اس کے بعد اس نے چھرا قمیض کے اندر چھپا لیا اور غراہٹ آمیز آواز میں بولا ۔

ایک بات کان کھول کر سن لو ، مجھے دھوکا دینے کی کوشش مت کرنا ورنہ میں تمہیں کسی بھی وقت کسی بھی جگہ موت           

کے گھاٹ اتار سکتا ہوں ۔ وہ یہ کہ کر اپنے راستے پر ہولیا ۔

ساجد کی جان میں جان آئی اور پھر وہ اپنے گھر کی طرف بڑھ گیا ۔ گھر پہنچا ۔ اس کا پریشان چہرہ دیکھ کر تیمور صاحب نے اس سے پوچھا ۔  کیا بات ہے کیا ؟ تم پریشان کیوں ہو ؟ خیریت تو ہے ؟

جی ابو                           !!! پریشانی کی کوئی بات نہیں ۔ وہ گھبرا گیا ۔

تیمور صاحب تاڑنے والی نظر رکھتے تھے ، جان گئے کہ ساجد کسی تشویش کا شکار ہے لہذا انہوں نے بڑے شفقت بھرے لہجے میں اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے دوبارہ پوچھا ۔  دیکھو بیٹا                                     ! ہم سب اس وقت بڑی عجیب وغریب مصیبت کا شکار ہیں ، اگرتم سمجھتے ہو کہ تمہارے بتانے سے ہماری پریشانی میں مزید اضافہ ہوگا تو بے شک نہ بتاؤ لیکن اگر تمہاری پریشانی ہماری اس پراسرارمصیبت سے وابستہ ہے تو تمہیں اپنی اور ہم سب کی بھلائی کی خاطر چھپانا نہیں چاہیے ۔  تیمور صاحب کے نرم اور سمجھانے والے انداز نے ساجد کو بالآخر ساری حقیقت آشکار کرنے کا حوصلہ عطا کر دیا اور پھر اس نے ساری بات انہیں بتادی ۔

اتفاق سے اس وقت شگفتہ بھی وہیں موجود تھی ، باتوں کے دوران چونکہ ناصر کا بھی ذکر ہوا تھا اس لئے وہ چونکے بناہ نہ رہ سکی تھی مگر وہ کچھ بول نہ پائی تھی البتہ سوچنے لگی کہ اس سارے معاملے میں بھلا ناصر کا کیا کام تھا ۔

ہوں                   تو یہ بات ہے ؟ ‘ ‘ تیمور صاحب ایک پر سوچ ہنکاری بھر کر زیرلب بڑبڑائے ۔ میں اسے پولیس کے حوالے کر دوں گا اور ناصرکوبھی ۔

 نہیں ابو                 وہ عامل بہت سفاک اور خطرناک آدمی ہے ۔ ساجد نے خوف زدہ سے لہجے میں کہا ۔

اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں بیٹا وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تم مجھے ذرا اس کا گھر تو چل کر دیکھاؤ ، وہ رہتا کہاں ہے ؟

 تب شگفتہ نے کسی خیال کے تحت کہا ۔  آخر پتہ تو چلے کہ وہ پراسرار عامل بھائی ساجد اور اس لڑکے ناصر کے ذریعے یہ پراسرار عمل کس مقصد کے لیے کروارہا ہے؟ ‘

کیا ہو گا اس کا مقصد           ؟ ‘ ‘ تیمور صاحب نے غصے سے دانت پیس کر کہا ۔  ان لوگوں کے ایسے شیطانی عملوں سے اچھی طرح واقف ہوں ، وہ ضرور کوئی سفلی عمل کروانا چاہتا ہو گا دونوں سے،، مگر ساجد بیٹے               !!خبردارتم اب مزید عمل مت کرنا ، ایسا نہ ہوہم دوہری مصیبت کا شکار ہو جائیں ۔

 نہیں ابو              میں نے تو اپنے دل میں پکا ارادہ کر لیا ہے ، آپ بے فکر رہیں میں اس کی بات اب آئندہ ہرگز نہیں مانوں گا۔ساجد نے کہا ۔

شگفتہ نے پریشان کن لہجے میں باپ سے کہا ۔  ابو ! آپ نے شاید ساجد بھیا کی بات پرغورنہیں کیا ، اس عامل نے وہ عمل پورا نہ کرنے پر بھائی کو جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی ہے ۔

ہاں                   ! مگر میں اسے پولیس کے حوالے کر دوں گا ، ایسے لوگ صرف گیدڑ بھبکیاں دے کر خوف زدہ کرنا جانتے ہیں ، اس پرعمل کرنا نہیں ۔

یہ کہ کر وہ ساجد کی طرف متوجہ ہوئے اور پرجوش لہجے میں اپنے دونوں بچوں کو سمجھاتے ہوئے بولے ۔

تم دونوں تو اب یہ بات اچھی طرح جان گئے ہو کہ ایک خوفناک اور شیطانی مخلوق ہم لوگوں کی دشمن بن چکی ہے اور اگر ہم اس سے خوف زدہ ہوکر ہمت ہار بیٹھے تو وہ باآسانی ایک ایک کر کے ہم سب کو موت کے گھاٹ اتار دے گی ، اس لئے اللہ پر بھروسہ رکھو ، وہی ہماری دست گیری فرمائیں گے بس تھوڑے دنوں کی بات ہے ٹاہلی والے باباس بدروح کے بارے میں کھوج لگانے کی کوشش میں مصروف ہیں جیسے ہی وہ اس بھیانک راز سے پردہ اٹھائیں گے ، پھروہی اسے نیست و نابود کرنے کے سلسلے میں ہماری بھر پور مدد کریں گے لیکن یہ سب تبہی ہو پائے گا جب ہم اپنے اندر اس سے مقابلہ کرنے کے لیے حوصلہ اور ولولہ پیدا کریں گے ۔بالکل بے خوفی کے ساتھ اتنا کہہ کر تیمور صاحب خاموش ہو گئے ۔

باپ کی باتوں نے دونوں بہن ، بھائی کو کافی حوصلہ دیا تھا ، اب ان کے چہرے خوف سے نہیں بلکہ ایک ولولہ انگیز جوش سے تمتما رہے تھے ۔

ناصر کو اپنا معاملہ کھٹائی میں پڑتا نظر آرہا تھا ، اس کی وجہ تھی کہ ساجد نے اس سے ملناترک کر دیا تھا ، اگر چه عامل رنگاماتی نے اسے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے تسلی دی تھی کہ آج رات ساجد اس کے پاس آئے گا کیونکہ وہ اس کی دھمکی سے خوف زدہ ہو چکا ہے ۔

رات دھیرے دھیرے گہری ہوتی جارہی تھی لیکن ساجد نہ آیا ۔

ناصر کو تشویش ہونے لگی ، اب کیا ہوگا عمل ادھورا رہ گیا تو بقول اس پراسرار عامل رنگا ماتی خودانہیں بھی نقصان پہنچ سکتا ہے ۔

پر جب رات نصف سے زیادہ بیت گئی تو ناصر کی بے چینی فزوں تر ہوگئی ، اسے پورا یقین ہوگیا کہ اب ساجد کبھی نہیں آئے گا جبکہ آج رات کے عمل کو خالی بھی نہیں جانے دینا چاہتا تھا ، وہ پریشان ہو گیا اور سوچنے لگا کہ اب وہ کیا کرے ۔

تب اسے اور تو کچھ نہ سوجھا اس نے اسی وقت اس پر اسرار عامل رنگا ماتی سے ملنے کا ارادہ کیا ، دل کی لگن تھی اور کچھ اس پراسرار عمل کے ادھورا رہ جانے کا بھی انجانا خوف                !! چنانچہ وہ دل باندھ کر خاموشی کے ساتھ گھر سے نکلا اور رنگا آتی کے ٹھکانے کی طرف چل دیا ۔ جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے رنگاماتی کا گھر زیادہ دور نہ تھا ، محلے سے نکل کر بڑی شاہراہ پر چالیس پچاس قدم چلنے کے بعد ایک چوراہا آتا تھا جس کے دائیں جانب والی سڑک پر وہ چھوٹا سا پسماند محلہ تھا جہاں بیشتر غریب وغرباء ہی رہتے تھے ، وہیں رنگاماتی کا گھر تھا ۔

بہر طور ناصر تاریک اور ویران راستوں پر تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا اس کے ٹھکانے پر پہنچاتو دروازے پر تالا پڑادیکھ کر بری طرح ٹھنک گیا ۔

کدھر چلا گیا ؟ وہی سوچ کر زیرلب بڑبڑایا پھر الٹے قدموں واپس لوٹ گیا ۔

آج کی رات بغیر عمل کے گزری تھی ، وہ پریشان بھی تھا کہ جانے اب کیا ہوگا ، آیا اب یہ پورا عمل شروع سے دہرانا پڑے گا یا پھر کچھ اور کرنا پڑے گا تاہم اس نے اگلے دن دوباره عامل رنگاماتی سے ملنے کا ارادہ کیا ۔

اس نے حسب معمول صبح سویرے اٹھ کر دکان کھولی تو چونک پڑا ، اس نے دیکھا شگفتہ کے والد تیمور آرہے تھے ۔ چوکنے کی وجہ بھی کہ وہ اس کی دکان کی طرف آرہے تھے اور ان کے چہرے پر سخت برہمی کے تاثرات تھے ۔

ناصر اندر سے ڈر گیا کہ کہیں شگفتہ نے ان سے اس کی شکایت نہیں کر دی تھی یا پھر ساجد نے رنگاماتی کی دھمکی کے بارے میں انہیں ساری باتوں سے آگاہ تو نہیں کر دیا تھا ۔

بہر طور وہ سنبھل کر بیٹھ گیا     

پھر جب تیمور اس کی دکان کے قریب پہنچے ناصر نے نہایت ادب کے ساتھ انہیں سلام کیا ۔

 برخوردار           ! تم تو نہایت شریف لڑکے لگتے ہو ، تم کیسی خرافات میں پڑ گئے ہو ؟  تیمور نے اسے گھورتے ہوئے برہمی سے کہا ۔

ناصر فوراً سمجھ گیا کہ ساجد انہیں سب بتا چکا تھا لہذا زرا انجان بن کر کہا ۔

میں سمجھا نہیں انکل                         ! بات کیا ہے آخر ؟

بات تو تمہیں اب پولیس ہی اچھی طرح سمجھائے گی اور تمہارے اس عامل رنگاماتی کو بھی جس کے تم چیلے بن چکے ہو اور میرے بیٹے ساجد کو اس بدبخت کے کہنے پرسفلی علم کے اندھے راستے پر چلانا چاہتے ہو ۔

 تیمور دانت پیس کر بولے ۔ ناصر نے سوچا کہ اب خاموش رہنے کا کوئی فائدہ نہیں لہذا وہ بولا ۔

 انکل ! آپ غلط سمجھ رہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ میں جانتا ہوں آپ لوگ ان دنوں کیسی پراسرار آسیبی مشکلات کا شکار ہیں ، میں انسانی ہمدردی کے ناتے آپ لوگوں کی مدد کرنا چاہتا ہوں اس لئے رنگا ماتی نے مجھے بتایا تھا کہ کوئی بدروح آپ کے خاندان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ چکی ہے لہذا اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ اگر اس خاندان کا کوئی فرد یہ عمل کرے گا تو اس بدروح کو قابو کر کے ہمیشہ کے لیے فنا کے گھاٹ اتار دیا جائے گا ۔

تیمور نے بڑے غور سے اس کی بات سنی ۔ اسے جانے کیوں ناصر کے لہجے میں سچائی محسوس ہوئی تھی تاہم وہ بولے ۔

 اگروہ عامل رنگا ماتی ہمارا اتنا ہی ہمدرد ہے تو پھر وہ عمل زبردستی پورا کروانے کے لیے ساجد کے انکار پراسے مار ڈالنے کی دھمکی کیوں دے رہا تھا ؟

   ناصر صاف گوئی سے ان کی بات کی تائید کرتے ہوئے ذرا الجھ کر بولا ۔

جی ہاں انکل              یہی بات مجھے الجھن میں ڈالے ہوئے ہے ۔

تب تيمور معنی خیز مسکراہٹ سے بولے ۔ ‘ برخوردار              او عامل رنگاماتی ایک فراڈ معلوم ہوتا ہے ۔وہ اپنے کسی سفلی مقصد کے لئے تم دونوں کو بے وقوف بنا رہا ہے ، اس لیے میں نے ساجدکوسمجھا دیا ہے ، اب تم بھی سمجھ لو کہ اس کا ساتھ چھوڑ دو ۔

جی انکل                 ہوسکتا ہے آپ بالکل درست کہہ رہے ہوں ۔ ‘

ناصر نے دھیرے سے کہا اور اپنا سر جھکا دیا ۔

تیور اپنے دفتر کی طرف ہوئے مگر ان کے جانے کے بعد ناصرتذبذب کا شکار ہو گیا ۔ تیمور کی یہ بات اس کے دل کو لگی تھی کہ اگر ساجد عامل رنگاماتی کی بات نہیں مان رہا تھا تو پھر اسے ساجد کو ڈرانے دھمکانے اور وہ پراسرار عمل پورا نہ کرنے پر جان سے مار ڈالنے کی دھمکی کیوں دے رہا تھا ؟

کیا واقعی بقول تيمور صاحب اس کا کوئی اور شیطانی مقصد تھا ۔

ناصر فطرتاً ایک ذہین اور سمجھدار لڑکا تھامگر شگفتہ کی محبت نے جیسے اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ماؤف کردی تھیں مگر اب تیمور کے سمجھانے پر وہ اس بات پر غور کرنے لگا تو اچانک اس کے ذہن میں یہ خیال ابھرا کہ کہیں ایسا تو نہ تھاکہ وہ عامل رنگاماتی واقعی سفلی علوم کاماہر ہواور اس کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر خودا سے اور ساجد کو اپنے کئی گندے مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہ رہاہو ۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ اس شیطانی مخلوق کی روح کو قابو کرنا چاہتا ہوتا کہ وہ اسے اپنے تابع کر کے اپنے نفی مقاصد کے لیے استعمال کر سکے ؟

اسے اپنا یہ خیال زیادہ معنی لگا تاہم اس نے رنگاماتی سے ملنے کا ارادہ ترک نہ کیا تھا ۔ اب اس سے ساری حقیقت معلوم کرنا چاہتا تھا کہ آخر اسے اس سارے پر اسرار معاملے سے کیا دلچسپی تھی، چنانچہ جب اس کے ماموں شفقت حسین دکان پر آئے تو وہ کسی نہ کسی بہانے دکان سے نکل گیا ۔

وہ سیدھا عامل رنگاماتی کے گھر پہنچا تو اسے دروازہ کھلا ملا، وہ دھڑکتے دل کے ساتھ دروازه دھکیل کر اندر داخل ہوا تو اندر سے غیر معمولی خاموشی کا احساس ہوا ۔

یکلخت وہ اپنے دل میں عجیب سی بے چینی محسوس کرنے لگا پھر اس نے سامنے اجاڑ برآمدے میں بنے اکلوتے کمرے کے دروازے کی طرف دیکھا تو وہ تھوڑا کھلا ہوا تھا ، ناصرآگے بڑھا ۔

پر جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا ، ایک سرد ہوا کا جھونکا اس کے چہرے سے ٹکرایا تو سرتاپا ٹھٹر کر رہ گیا لیکن دوسرے ہی لمحے سامنے کا منظر دیکھ کر اس کی مارے خوف کے چیخ سی نکل گئی ، سامنے تخت نما پلنگ پر عامل رنگاماتی کا وجود اسی طرح بےسدھ پڑا تھا کہ دوسری طرف سے نصف نیچے جھول رہا تھا دونوں ہاتھ کھلے ہوئے تھے آنکھیں کھلی پڑی تھیں ، صاف نظر آر ہاتھا کہ اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی ۔

ناصر کادل یکبارگی سائیں سائیں کرتی کنپٹیوں میں دھڑکنے لگا ، اس نے عقلمندی کی فوراً خاموشی کے ساتھ واپس پلٹا اور مکان سے باہر نکل گیا ۔

تیمور دفتر گئے ہوئے تھے ،شگفتہ گھر پر اکیلی تھی ،ٹاہلی والے بابا سے لیا ہو تعویذ انہوں نے شگفتہ کو دے دیا تھا ۔ وہ جب بھی باہر جاتے تو وہ تعویز اتار کر شگفتہ کو تھما دیتے تھے جسے وہ اپنے دائیں بازو پر باندھ لیتی تھی ورنہ جب وہ گھر پر ہوتے تو اپنے بازو پر باندھ لیتے ۔ ٹاہلی والے ٹیک بابا نے انہیں یہی تاکید کر رکھی تھی ۔

ساجد حسب معمول کا تھا مگر اب وہ زیاده باہر نہیں رہتاتھا جلدی گھر لوٹ آتا تھا ، شام کے پانچ بجے کا وقت تھا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی ۔

وہ سمجھی ساجد آیا ہو گا کیونکہ عموماً اس کے ابو دیر سے ہی آتے تھے ، اس نے دروازہ کھول دیا تو چونک پڑی ، سامنے اس کے ابو کھڑے تھے ، اس نے باپ کو سلام کیا ، اور اندر داخل ہوئے ، ان کا چہرہ سپاٹ تھا ۔

شگفتہ جب اپنے کمرے کی طرف جانے لگی تو تیمور نے اسے مخاطب کر کے کہا ۔ شگفتہ                 وہ تعویز اتار کر طاقچے میں رکھ دینا ، میں بعد میں باندھ لوں گا ۔  یہ کہ کر وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے ۔

شگفتہ کو اپنے باپ کے تخاطب پر حیرت ہوئی،، تاہم اس نے ایسا ہی کیا اور اپنے بازو پر بندها تعویز اتار کر طاقچے میں رکھ دیا۔ طاقچہ اسٹور روم میں تھا ۔

وہ جب اسٹور روم سے باہر نکلی تو دوبار دروازے پر دستک ہوئی ۔  ساجد ہوگا ۔

 وہ لولے سے بڑبڑائی اور دروازہ کھولنے کے لیے آگے بڑھی ، دروازے پر ساجد ہی تھا    ۔

ابو گھر ہی ہیں کہاں رہ گئے تھے تم              ‘ شگفتہ نے تنبیہ والے انداز میں کہا ۔

ساجد گھبرا کر بولا باپ رے مارے گئے تم کہہ دینا کہ میں ابھی ابھی گیا تھا باہر ۔وہ بہن کی خوشامد کرتے ہوئے بولا     

وہ    مسکرا کر بولی       بے فکر رہو، ابو نے ابھی تمہارے بارے میں پوچھا ہی نہیں          ۔

ساجد خوش ہوگیا پھر دبے پاؤں اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔

شگفتہ اپنے باپ کو چائے وغیرہ پوچھنے کی غرض سے ان کے کمرے میں گئی توچونک گئی ، کمرہ خالی تھا ۔  ابو کدھر چلے گئے ؟ ابھی تو آئے تھے ؟  اس نے اٹھ کر سوچا ۔

پھر دوسرے کمرے میں بھی دیکھ لیا ، اس کے بعد وہ انہیں  ابو                               ابو                   کہ کر پکارنے لگی مگر کوئی جواب نہ ملا ، اسے حیرت ہوئی اس کے دل میں یہ خیال بھی آیا کہ ہوسکتا ہے ابو باہر نکل گئے ہوں لیکن اس نے فوراً ہی یہ خیال ذہن سے جھٹک دیا کیونکہ دروازے پرتو کنڈی چڑھی ہوئی تھی ۔

اس کی پکار سن کر ساجد آ گیا ۔ کیا ہوا ؟ خیریت تو ہے ؟ ‘

‘ اس نے بہن کی طرف دیکھ کر پوچھا ۔

 ابو نہیں کدھر چلے گئے اچانک ابھی ابھی تو آئے تھے ۔

اس نے جواب پریشانی سے کہا ۔ ساجد نے بھی پورے گھر میں باپ کو تلاش کیا لیکن وہ کہیں نظر نہیں آئے ۔

نہیں پورا یقین ہے کہ ابو آئے تھے ؟ بالآخر ساجد نے بطور بہن کے چہرے کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا ۔

شگفتہ نے پورے یقین کے ساتھ اثبات میں اپنا سر ہلاتے ہوئے کہا ۔

ہاں                       ! ابھی ابھی تو آئے تھے ، مجھ سے انہوں نے تعویذ اتارکر طاقچے میں رکھنے کوکہا تھا کہ بعد میں غسل کر کے وہ اسے باندھ لیں گے ۔

 اچھا           ساجد اس کی بات پر الجھ سا گیا ۔  پر یک دم جیسے وہ خوف زدہ سا نظر آنے لگا اور شگفتہ سے بولا ۔

شش                 شگو بہن                ! کہیں یہ اس آسیب کی کارستانی تو نہیں ، اس نے ضرور تمہارے بازو سے تعویذ اتارنے کے لیے یہ چال چلی ہوگی ۔

بھائی کی بات سن کر شگفتہ لرز گئی پھر کپکپاتی آواز میں بولی۔

 بھائی مجھے تو ڈر لگ رہا ہے ۔ساجد خود بھی پریشان تھا مگر بہن کو حوصلہ دیتے ہوئے بولا ۔

شگو           ! تو ڈر مت ، میں ہوں ناں تم بھول گئیں ابو نے ہمیں تاکید کی تھی کہ میں جرأت اور بہادری کے ساتھ ان پر اسرار                         

حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا ۔

 وہ تو ٹھیک ہے بھیا مگر                      وہ تعویز                      !

تم ٹھرو                            میں طاقچے سے لاتا ہوں ۔ ساجد نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا ۔

اور پھر جب وہ اسٹور روم کی طرف بڑھا تو شگفتہ بھی اس کے عقب میں ہوئی ۔ ساجد نے اسٹور میں داخل ہونے کے لیے جیسے ہی دروازو کھولا ،ان گنت لا تعداد چمکادڑیں چڑ چڑاتی ہوئی برآمد ہوئیں اور ان دونوں کے چہروں سے ٹکرائیں ۔

بے اختیار دونوں نے ایک تیز خوف زدہ سی چیخ ماری ، شگفتہ تو بھاگ صحن میں آ گئی مگر ساجد وہیں کھڑا بری طرح پ

چیحنے چلانے لگا ۔

بھائی کی چیخیں سن کر شگفتہ دوبار اس کی طرف بھاگی تو یہ دیکھ کر دہشت زدہ ہوئی کہ ایک چمگادڑ ساجد کے چہرے پر چمٹ گئی تھی اور وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کے بڑے بڑے پروں کو پکڑنے کی کوشش کررہا تھا ۔

شگفتہ بری طرح متوحش ہوگئی تھی ، وہ رونے لگی ، ادھر ساجد کی حالت لمحہ بہ لمحہ غیر ہوتی جارہی تھی ، وہ خونی چمگادڑ ساجد کے چہرے کے ساتھ چمٹی اس کے چہرے کو بری طرح جھنجھوڑ رہی تھی، یہاں تک کہ ساجد کے چہرے سے خون بہنا شروع ہوگیا ۔

ساجد پاگلوں کی طرح چینختا ہوا ادھر ادھر بھاگ رہا تھا ، شگفتہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ ساجد کی کس طرح مدد کرے مگر جب اس نے دیکھا کہ بھائی کے چہرے سے بری طرح خون بہنا شروع ہوگیا ہے تو وہ اپناخون بلائے اس کی مدد کو دوڑی ۔

ساجد اب فرش پر گر گیا تھا ،شگفتہ کے سر پر جنون سوار ہو گیا ، وہ آگے بڑھی اور جھک کر چمگادڑ کے پرکو پکڑ کر زور سے اسے اچھال دیا ۔

ساجد کا چہرہ بری طرح زخمی ہو کر مسخ ہو چکا تھا اور وہ تکلیف کی شدت سے تڑپے جارہا تھا اور چمگادڑ فرش پر پھڑپھڑا رہی تھی ۔

شگفتہ فوراً بھائی کی طرف متوجہ ہوئی ۔

وہ اس بات سے بالکل بے خبر تھی که فرش پر پھڑپھڑاتی ہوئی چمگادڑ اب تیزی کے ساتھ اپنی ہیت تبدیل کر رہی تھی ۔

ادھر جب شگفتہ اٹھ کر مدد لینے کے لیے باہر نکلنے کو اٹھی تو اچانک اس کی نگاہ چمگادڑ پر پڑی مگر اب وہ وہاں چمگادڑ کی بجائے وہی بھیانک صورت غیرانسانی مخلوق کوہان نکالے دھیرے دھیرے اس کی طرف رینگ رہی تھی ۔

وہ اپنی موٹی سی دم تیزی کے ساتھ ادھر ادھر مار رہی تھی ،شگفتہ کی مارے دہشت کے چیخ نکل گئی ۔

وہ اس آسیبی مخلوق کو اپنے اس قدر قریب پا کر گنگ سی رہ گئی تھی ، اس کے قدم جسے زمین نے پکڑ لئے تھے قوت گویائی سلب ہو کر رہ گئی تھی ، وہ کسی بھی لمحے زمین پر گرنے والی تھی ، اس نے بڑی مشکلوں سے خود پر قابو پا رکھا تھا اور خوف سے پھیلی ہوئی آنکھوں سے اس بھیانک مخلوق کو اپنی طرف بڑھتا ہوا دیکھ رہی تھی ۔

پھر جب وہ آسیبی مخلوق بالکل اس کے قریب پہنچ کر رکی تو اس نے کر یہہ انگیز آواز میں غراتے ہوئے اس سے کہا ۔

 میں تم سب کو ختم کر دوں گا ، کسی کو زندہ نہیں چھوڑوں گا ، تمہارے بھائی کی بے وقوفی سے اب مجھے آہستہ آہستہ اپنی کھوئی ہوئی قوت دوبارہ ملنے لگی ہے ،

ہا          ہا           ہا                 وہ بدروح ایک زور دار قہقہ مارکر ہنسی، ادھر شگفتہ کا پورا وجود خزاں رسیدہ پتے کی طرح کانپ رہا تھا ۔

اور زمین پر پڑے ساجد کی اذیت ناک چیخوں نے الگ اسے حواس باختہ کر رکھا تھا ، اچانک دروازے پر زور زور سے دستک ہونے لگی،، آسیبی مخلوق نے اپنے کوہان کو حرکت دی اور گردن موڑ کر دروازے کی طرف دیکھا ، اس کے بعد فوراً دھویں میں تبدیل ہونے گی ، شگفتہ غیر ارادی طور پر دروازے کی طرف لپکی ، درواز کھولا تو سامنے اپنے باپ کو پا کر اسے غش آ گیا ، تیمور نے بڑھ کر اسے تھام لیا ۔

تیمور کے خاندان کی دشمن اس آسیبی مخلوق نے دوسرا وار بھی ان کے گھر کے ایک فرد پر بہت کامیابی سے کیا تھا ، پہلے شگفتہ کے ہاتھوں اس کی ماں کوقتل کروایا اس کے بعد اس نے ساجد کوبھی زخمی کر دیا تھا ، اس کی دونوں آنکھیں پھوڑ ڈالی تھیں ، ساجد زندہ تو بچ گیا تھا مگر اب وہ ہمیشہ کے لیے نابینا ہو چکا تھا ۔

تیمور کے خاندان میں یہ دوسرا بڑا اور اندوہناک سانحہ تھا ۔

ساجد ان کا اکلوتا بیٹا تھا ، ان کا بازو تھا اور ان کے بڑھاپے کا سہارا تھامگر اب وہ بے چارہ خود دوسرے کے سہارے کا محتاج ہو گیا تھا ۔

شگفتہ نے باپ کو ساری بات بتادی تھی کہ ان کے ساتھ کیا ہوا تھا ۔

 ضرور اس آسیبی مخلوق کا ہی کام ہے ۔ وہ دانت پیس کر غصے سے بولے ۔

 اس نے سب سے پہلے میرا بہروپیا بن کر چالاکی سے تمہارے بازو پر بندھا ہواتعویذ اتروایا پھر اس کے بعد اس منحوس بدروح نے اپناوار کر ڈالا ۔

 شگفتہ ایک بار پھر خود کو مجرم تصور کرنے لگی، تاہم اچانک اسے اس آسیبی مخلوق کی وہ دھمکی یاد آئی ۔ اس نے کہا تھا کہ اس کے بھائی ساجد کی بے وقوفی کی وجہ سے ہی وہ اب اپنی اصل قوت حاصل کرنے لگی تھی ۔

اس نے یہ بات جب اپنے باپ کو بتائی تو ان کے چہرے پر مزید تشویش کن آثار پھیل گئے پھر پر سوچ لہجے میں بڑبڑاتے ہوئے بولے ۔       ۔ میرا خیال ہے یہ ساری کارستانی اسی بدبخت عامل رنگاماتی کے اس پراسرار عمل کی ہے جو ساجد اور ناصر دونوں مل کر اس اندھیری کوٹھی میں راتوں کو کرتے تھے ۔

مگر ابو وہ عمل تو ساجد بھائی نے چھوڑ دیاتھا ۔شگفتہ نے جیسے انہیں یاد دلایا ۔

ہاں                             !! لیکن یہ دونوں بے وقوف آدھے سے زیادہ عمل کر چکے تھے ۔ وہ پرخیال لہجے میں بولے۔

 اگلے روز تیمور دفتر سے دو گھنٹے پہلے ہی اپنی کار میں سیدھے ٹاہلی والے بابا کے حجرے کی طرف روانہ ہوگئے ۔

وہاں پہنچ کر انہیں اپنا سارا دکھڑا بیان کیا ۔ ٹاہلی والے بابا نے بغور ان کی بات سنی اور گہرے رنج وغم کا اظہار کیا ۔  الله تم لوگوں کا حامی و ناصر ہو ، اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک بدخصلت عامل کی وجہ سے اس بدروح کی ریشہ دوانیوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے ، درحقیقت وہ بدخصلت عامل اپنے مکروہ اور بھیانک مقاصد کی تکمیل کی خاطر اس بدروح کو اپنے تابع کرنا چاہتاتھا کیونکہ وہ اسرارعلوم کاماہر ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ اس بدروح کو قابو کرنا کسی کے بھی بس کی بات نہیں سوائے اللہ                              ! کے لیکن اس کے لیے بہت طویل انتظاراور کڑی محنت کی ضرورت ہوگی ۔ وواتنا کہہ کر خاموش ہو گئے ۔

تیمور نے پریشان کن بے چینی سے کہا ۔  بابا                       ! اب آپ ہی ہماری مدد کریں ، ہمارا تو بدروح نے جینا حرام کر ڈالا ہے ۔ آخر اس شیطان کی حقیقت کیا ہے کہ کسی طرح نیست و نابود ہو گی۔

تیمور کی بات سن کر ٹاہلی والے بابا نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے باریش چہرے پر پھیرا پھر بولے ۔ اللہ کی ذات پر بھروسہ رکھو ، وہی مسبب الاسباب ہے ، میں نے پچھلی ملاقاتوں میں تمہیں بتایا تھا کہ یہ ایک شیطان کی بدروح ہے جس نے آج سے کئی سال پہل خلق خدا کا جینا دوبھر کر رکھا،، پھر تمہارے ہی خاندان کے ایک نیک اور بہادر انسان نے اس کا خاتمہ کر ڈالا تھا پھر کئی برس تک اس شیطان کی بدروح انتقام لینے کے لیے ویرانوں میں بھٹکتی رہی ، اس وقت یہ بالکل بے بس تھی پر اسرار علوم کے ماہر جو ایک بے بس بدروحوں کو قابو کرنے کے لیے عمل اور جادو ٹونا کرتے رہتے ہیں ، ایسے ہی کسی عامل کے سفلی عمل نے اس بدروح کی شیطانی قوتوں کو مزید جلا بخشی اور اسے مہمیز کی مگر وہ خود بھی اس کے شر اور خونی پنجوں سے زندہ نہ بچ سکے اور خودتو کم بخت جہنم واصل ہوئے مگر اس بدروح کو آسیبی قوتوں سے ہمکنار کر گئے ۔

 وہ اتنا بتا کر چند ثانیے کو تھمے    ۔ تیمور بخور ان کی باتیں سن رہا تھا ۔

وہ پھر بتانے لگے ۔ یہ سب باتیں ہم نے تین روز کی خصوصی ریاضتوں سے معلوم کی ہیں اور اب اس کا ایک ہی حل ہے جو سردست مختلف مرحلوں کا حامل ہے اور خاصا طویل بھی ۔

 ان کی بات سن کر تیمور جوش سے بولے ۔  میں ہر مرحلے سے گزرنے کے لیے تیار ہوں بابا جی              ! آپ مجھے بتائیں ۔

 سب باتیں ہم مرحلہ وار ہی تمہیں بتائیں گے لیکن افسوس ہے کہ تم ابھی تک پہلا مرحلہ ہی سر کرنے میں ناکام رہے ہو ۔ بابا نے کہا ۔

تیمور یہ سن کر گھبرائے گئے پھر الجھن آمیز حیرت سے متستفسر ہوئے۔بابا                                  میں کون سے پہلے مرحلے میں ناکام ہوا ہوں ؟

  تم شاید بھول رہے ہو کہ ہم نے تمہیں کہا تھا کہ اس بدروح کو زیر کرنے کے لیے سب سے پہلے تمہیں اس اندھیری کوٹھی میں بسیرا کرنا ہوگا جدھر اس کی قبر ہے لیکن درحقیقت وہ اس کی قبر نہیں ہے ، اسے ہلاک کرنے کے بعد وہیں گڑھا کھود کر دبا دیاگیا تھا اور یہی غلطی ہوگئی حالانکہ اس شیطان کو مارنے کے بعد فوراً جلا کر خاکستر کر دینا چاہئے تھا ، یوں وہ جگہ عام لوگوں کی نظروں سے طویل عرصے تک اوجھل رہی تھی ، برسہا برس ویران پڑی رہنے والی اس اندھیری کوٹھی کا پراسرار آسیب ان دھڑکتے ویرانوں اور سناٹوں میں قوت پکڑتا چلا گیا ، ، اس بدروح کے خاتمے کا پہلا مرحلہ یہی ہے کہ اس اندھیری کوٹھی کو آباد کرنا ہوگا اور سب سے پہلے تمہیں ہی اپنے خاندان کے ساتھ وہاں رہائش پذیر ہونا پڑے گا ، پھر دھیرے دھیرے اس میں کوئی کرائے دار بھی لا سکتے ہو مگر خبردار جس کمرے میں اس شیطان کو گاڑھا ہوا ہے ، اسے اسی طرح پڑے رہنے دینا ۔

 تیمور نے حتمی لہجے میں کہا ۔  میں اب سب سے پہلے آپ کی اس ہدایت پر عمل مل کروں گا لیکن میرے بچوں کو اعتراض تھا ، وہ سمجھ رہے تھے کہ وہاں ہم بالکل غیرمحفوظ ہو جائیں گے ۔

 غیر محفوظ توتم لوگ اپنے گھر میں بھی ہو ۔ بابا نے کہا ۔

آپ نے درست فرمایا ، میرا خیال ہے اب میں اپنے دونوں بچوں کو سمجھا لوں گا ۔ تیمور نے پورے وثوق سے کہا پھر رخصت ہو گئے ۔

ناصر بری طرح پریشان تھا ، عامل رنگاماتی کی پراسرار ہلاکت اس کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی مگر اب وہ مر چکا تھا اور ناصر کو اپنے کام کی جوتھوڑی بہت امید تھی ، وہ بھی ختم ہوئی تھی ، اس کا دل اب شگفتہ کے خیال سے بے چین رہنے لگا تھا ، اس کی بہ کلی فزوں تر ہونے لگی تھی ، اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب شگفتہ کی اپنی محبت کو حاصل کرنے کی کون سی سبیل پیدا کرے ۔

شگفتہ کے سامنے اپنے حال دل کا اظہار کرنا ، اس کی ناراضی کا سبب بنتاتھا اور پھر اس نے اس کی دکان پر آنا ہی چھوڑ دیا تھا اس دن کے بعد سے ۔

 کیا میں شگفتہ سے دوبارہ بات کرنے کی کوشش کروں ؟ وہ سوچنے لگا مگر پھر شگفتہ کے سرد اور بے اعتنا رویے پر اسے اپنا ارادہ بدلنا پڑا ۔

اس کی بے رخی اس کے لیے پریشانی کا باعث بن رہی تھی تب اچانک اس کے دل میں اس مسئلے کا ایک بالکل سیدھاسا حل نظر آیا ، اس طرح وہ ناراض بھی نہ ہوگی اور وہ کامیاب ہوجائے گا ۔ چنانچہ یہ فیصلہ کر کے دو مطمئن سا ہوگیا ۔

عامل رنگاماتی کی موت آئی گئی بات ہوگئی تھی ، تیمور نے بھی اس کے پاس دوبارہ آکر اس کے بارے میں پوچھا بھی نہ تھا ۔

ذرا دیر گزری اس کے ماموں شفقت دکان کے اندرونی دروازے سے اندر داخل ہوئے ۔ ناصر نے چند گا ہکوں کو فارغ کیا ، شفقت نے ایک مونڈھے پر بیٹھ کر قلم اور رجسٹر سنبھال لیا ۔

پتر ناصر                        !! میں دکان کے کچھ سودے لکھ رہا ہوں ، یہ ذرا جا کر مارکیٹ سے لےآ ۔

انہوں نے دکان میں رکھنے والے آئٹموں کی فہرست پھاڑ کر اسے تھمائی پھر گن کر پیسے بھی اسے دے دیے ۔

ناصر نے خاموشی کے ساتھ ان سے دونوں چیزیں لے لیں ۔ شفقت کو وہ آج کھویا کھویا اور پریشان سا دکھائی دیا تب انہوں نے بڑے پیار سے پوچھا ۔

پتر ناصر                                 !! کیا بات ہے ، کچھ پریشان نظر آرہے ہو ؟   نن                                نہیں ماموں              ایسی تو کوئی بات نہیں ۔ ناصر نے انہیں ٹالنا چاہا ۔ وہ جانے لگا تو ماموں نے اسے پھر پکارا ، وہ رک گیا ، شفقت بہت غور سے اس کے اترے ہوئے اور خاموش خاموش چہرے کا جائزہ لے رہا تھا ۔

ان کا دنیا میں ناصر کے سوا کوئی نہ تھا ، وہ بے اولاد تھے ، ان کی بیوی کا بھی چند سال پہلے انتقال ہوگیا تھا جبکہ ناصر بھی یتیم تھا    شفقت اب اسے اپنی اولاد کی طرح چاہتے تھے ، یوں بھی وہ ان کا اپناخون تھا ، بھانجا بھی اپنا ہی خون ہوتا ہے ۔

ناصر بیٹا                                        ! تم مجھ سے کچھ چھپارہے ہو ؟

 ماموں                                    !! میں واپس آ کر آپ سے بات کروں گا ، پہلے دکان کا سودا لے آؤں، ۔ناصر نے کہا          ۔

شفقت نے آگے بڑھ کر اسے شانوں سے تھاما اور پھر اپنے سامنے مونڈھے پر بٹھادیا پھر خود بھی اس کے قریب بیٹھے ہوئے بڑی ملائمت آمیزی سے بولے ۔  دیکھو بیٹا                              ! تم میرے بھانجے ہی نہیں میری اولاد کی طرح بھی ہوں ، مجھے بتادو اپنی پریشانی ۔

 ناصر نے جس بات کا تہیہ کر رکھا تھا ، اس نے سوچا کہ یہی وقت ہے وہ ان سے صاف صاف کہ ڈالے ناصر ڈرتے ڈرتے ہوئے بولا ۔  ماموں                                     !آ                                     آپ مجھے ماریں گے تو نہیں ؟

 شفقت ہنس کر بولے ۔  ارے بیٹا                   ! میں نے آج تک تمہیں ڈانٹا تک نہیں ہے اور پھر تم نے ایسی کوئی غلط حرکت بھی نہیں کی کیونکہ تم اچھے بچے ہو ، باتؤ کیا بات ہے ؟

ناصرکواپنے ماموں کی بات سن کر کچھ حوصلہ ہوا لہذا بولا  ماموں                 وہ             وہ          میں ایک لڑکی کو پسند کرتا ہوں ۔

ماموں اس کی بات پر ہنس کر بولے ۔  ارے بیٹا                                  تو اس میں اتنا گھبرانے اور ڈرنے کی کیا بات تھی ، ویسے کیا تم نے اسے کہیں دکان میں آتے جاتے کہیں چھیڑ تو نہیں دیا؟

نہیں ماموں میں ایسی حرکتیں نہیں کرتا وہ دکان میں آئی تھی سودا لینے ۔

 اچھا کس کی بیٹی ہے ؟ تت                           !! تمور صاحب کی                         شگفتہ نام ہے اس کا ۔

 تیمور صاحب کی              ؟ ماموں نے دہرایا ۔ مگر ناصر نے ان کی بیٹی شگفتہ تو بہت پڑھی لکھی ہے ، انٹر پاس ہے وہ ، اور تم نے مشکل سے مڈل تک ہی پڑھا ہے ۔

 تو کیا ہوا ماموں میں کوئی چور اچکا تو نہیں ، آپ اس کے باپ سے بات تو کر کے دیکھیں ۔

 ناصر نے امید بھرے لہجے میں کہا ۔

شفقت کچھ سوچنے لگے تھے پھر بولے ۔  اچھا ! تیری یہی ضد ہے تو میں تیمور صاحب سے کسی وقت مل لوں گا ۔

ناصر خوش ہو گیا اور دکان سے نکل گیا ۔

ساجد والے اندوہناک واقعہ کے بعد سے گھر میں ایک عجیبی مردنی چھاگئی تھی ، تیمورنے گھر آ کر اپنے دونوں بچوں کو پاس بلا کر نہیں ساری بات سمجھائی ، اس بار وہ انکار نہ کر سکے تھے لہذا تیمور نے اگلے روز ہی اندھیری کوٹھی کے مالک شریف صاحب سے ملاقات کی ۔

اس نے بتایا کہ اب وہ کوٹھی رضوی صاحب کے دونوں بیٹوں کی ملکیت ہے پھر شریف نے انہیں ان کا پتہ بتادیا ۔ تیمور اسی وقت رضوی کے دونوں بیٹوں سے ملے اور اپنا مقصد بیان کیا ۔

ان دونوں بھائیوں کو حیرت تو ہوئی تاہم انہیں خوشی بھی تھی کہ چلو کسی طرح اس آسیبی کوٹھی کا کوئی گاہک تو ملا لہذا انہوں نے اونے پونے دام بتادیے جس دام پران کے مرحوم والد رضوی صاحب نے ملک شریف سے خریدی تھی ۔

سودا طے ہوگیا تو تیمور نے اندھیری کوٹھی کو قابل رہائش بنانے کے لیے چند مزدور لگا دیئے ۔ محلے والے حیران و پریشان تھے کہ آخر تیمور کو کیا سوجھی مگر تیمور نے یہ بات راز میں رکھی تھی جس کی ہدایت ٹاہلی والے اب انہیں پہلے ہی دے چکے تھے ۔

تیمور نے مزدوروں کو سمجھا دیا تھا سوائے ایک کمرے کے سارے کمروں کی صفائی وغیرہ کر ڈالیں ، نیز اندر باہر اور احاطے میں جوخودرو جھاڑیاں اگ آئی ہیں ، انہیں کاٹ ڈالیں ، بڑھئی کو بلوا کر اندھیری کوٹھی کے دروازوں وغیرہ کی بھی مرمت کروائی گئی جو بالکل ٹوٹ کر خستہ اور بیکار ہو گئے تھے چکے تھے انہیں نئے سرے سے بنایا گیا ۔ یوں چند دنوں میں ہی اندھیری کوٹھی رہائش کے قابل بنادی گئی ، اس دوران تیمور نے اپنی ذاتی رہائش گاہ کے لیے کرائے داربھی ڈھونڈ لئے ۔

اب صرف شفٹنگ کا مرحلہ باقی رہ گیا تھا جو اگلے روز طے ہونا باقی تھا ۔

اسی شام کا ذکر تھا کہ شفقت پڑوس ہی کے ایک جاننے والے کے ہمراہ تیمور کے ہاں آئے ۔

ایک ہی محلہ تھا ، سارے دیکھے بھالے اور جانے پہچانے لوگ تھے اس لئے ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا ۔

آیئے آیئے شفقت صاحب                                  ! آج آپ نے یہاں آنے کی زحمت کیسے گوارا کر لی ۔ تیمور نے شفقت کے ساتھ معانقہ اور مصافحے کے دوران کہا ۔

ان کی وسیع القبی اور شرافت سے پورا محلہ آگاہ تھا ۔

بھئی ایک ہی محلے میں رہتے ہیں آخر ایک دوسرے کی خیر خیریت پوچھنے کا فرض بھی بنتا ہے نہ                            ، آپ سنائیں کیسے ہیں آپ ؟

“ شفقت نے ان سے مسکرا کر دوستانہ لہجے میں کہا ۔

سب ایک کمرے میں بیٹھ گئے تھے ۔

کیا بتاؤں جناب مصیبت نے ہمارا گھر دیکھ لیا ہےہم آج کل بہت پریشان ہیں ۔ تیمور نے اپنی پریشانی کا ذکر کرتے ہوئے افسردہ لہجے میں کہا ۔

” ہاں تیمور صاحب                           !! ہمیں آپ کی پریشانیوں کا علم بھی ہے اور اندازہ بھی پہلے بھابھی کی دردناک موت کا سنا                   ، پھر اب چند روز پہلے ہی آپ کے بیٹے ساجد کے نابینا ہونے پر انتہائی دکھ ہوا ، ہم تو دعا ہی کر سکتے ہیں کہ الله تعالی آپ پر اپنا فضل فرمائے اور آپ لوگوں کی مصیبتیں دور کرے ۔ “ ” آمین ان کے ساتھ آئے ہوئے شمس الدین نے زیراب کہا ۔

چندثانیے پھر ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں ، اس کے بعد شفقت حسین ذرا کھنکھار کر آمدم برسر مطلب بیان کرتے ہوئے ان سے بولے ۔

موقع توایسانہیں ہے کہ ایسی بات کی جائے مگر ظاہر ہے بیٹیوں کو آخر ایک روز بیاہنا ہی ہوتا ہے ، میں دراصل آپ کی بیٹی شگفتہ کے رشتے کے سلسلے میں آیا تھا ، اپنے بھانجے ناصر کیلئے ۔

” اور وہ بھی تیمور سے بولے ۔ ہم سب ایک ہی محلے میں رہتے ہیں اور یہ محلہ ہی نہیں بلکہ ایک خاندان بھی ہے ۔ ہم سب افراد                   ناصر اچھا لڑکا ہے اور آپ کا بھی دیکھا بھالا ہے ، آپ کا کیا جواب ہے         ؟

ان دونوں کی باتیں سن کر تیمور چند ثانیے شش وپنج کا شکار ہو گئے پھر شفقت سے بولے ۔

آپ کے بھانجے ناصر کی تعلیم کتنی ہے ؟

تعلیم تو اس کی بس واجبی سی ہے مگر وہ انتہائی محنتی اور شریف لڑکا ہے ، میری تو ساری دوکان ہی اس نے سنبھال رکھی ہے اور وہی میرا سہارا بھی ہے ۔

مگر جناب                     !! میری بیٹی شگفتہ نے انٹر کر لیا ہے اور وہ اب سائنس گریجویٹ کے پہلے سال میں ہے ، میں منع تو نہیں کر رہا لیکن چونکہ زندگیاں لڑکا لڑکی نے ہی گزارنی ہوتی ہیں ، میں اس سلسلے میں پہلے اپنی بیٹی کا عندیہ لینے کی کوشش کروں گا ۔ تیمور نے کہا ۔

شفقت نے شمس الدین کی طرف دیکھا تو وہ تیمور سے بولے ۔ “ٹھیک ہے تیمور صاحب                            ! آپ بے شک اپنی بیٹی کا عندیہ ضرور لیں لیکن بہرحال فیصلہ آپ ہی کا آخری ہو گا ۔

“ ہاں                      !! لیکن میں اپنی جوان اولاد پردباؤ ڈالنے اور اپنی مرضی مسلط کرنے کا قائل نہیں ہوں ۔ تیمور نے ان کا اشارہ بھانپ کر نہایت سنجیدگی سے کہا ۔

پھر اس کے بعد وہ دونوں وہاں سے رخصت ہو گئے ۔

ان کے جانے کے بعد تیمور گیری سوچ میں مستغرق ہو گئے ۔

یہ پہلا رشتہ تھا جس نے ان کے دروازے پر دستک دی تھی ، اگرچہ یہ بات وہ بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ پورے محلے میں ان کی بیٹی سے متعلق یہ بات زبان زدعام تھی کہ اس پر کیا خوفناک آسیب کا اثر ہے اور اس کی وجہ سے اس پر خطرناک قسم کے آسیبی دورے پڑتے رہتے تھے اور اسی ہسٹریائی جنون میں آ کر اس نے اپنی ماں کے پیٹ میں چھری مار کر اسے ہلاک کر ڈالا تھا اور اپنی بڑی بہن فائز کا چہرہ بھی بری طرح زخمی کر ڈالا تھا ۔

ان واقعات کے بعد تو محلے کے لوگوں نے تیمور کو یہ مشورہ بھی دینا شروع کر دیا تھا کہ شگفتہ کو فی الفور پاگل خانے میں داخل کروا دینا چاہے تھایا پھر اسے کسی نیک عامل یاپیربابا کو دکھانا چاہئے تھا ۔

یہ سب باتیں تھیں جن پر تیمورغور کررہے تھے ۔ انہوں نے ایک اور بات بھی محسوس کی تھی کہ جب ان کی بڑی بھی قائز اپنی چھوٹی بہن شگفتہ کی عمرکو پہنچ چکی تھی تو اس کے دھڑادھڑ رشتے آنا شروع ہو گئے تھے جبکہ شگفتہ کے سلسلے میں ابھی تک کوئی رشتہ نہیں آیا تھا حالانکہ وہ شادی کی عمر کی ہو چکی تھی ۔

یہی سبب تھا کہ جب شفقت پہلی بار ان کی بیٹی شگفتہ کا رشتہ اپنے بھانجے ناصر کے لیے لینے آئے تو یہ جاننے کے باوجود کہ ان کا بھانجا ناصران کی بیٹی شگفتہ سے کم پڑھا اور ایک معمولی دکاندار تھا ، وہ کچھ سوچنے پر مجبور ہوگئے تھے ۔

بہر طور جب اس سلسلے میں انہوں نے اپنی بیٹی شگفتہ کو آگاہ کرتے ہوئے اس کا عندیہ لینا چاہا تو شگفتہ نے اس رشتے سے صاف انکار کردیا ۔

اگر چہ تیمور کو اس بات کی پوری توقع تھی کہ ان کی بیٹی شگفتہ اس رشتے سے صاف انکار کر دے گی لیکن موجودہ حالات کا انہوں نے جس دور اندیشی اور باریک بینی سے جائزہ لیا تھا ، وہ انہیں ٹال بھی نہیں سکتے تھے چنانچہ انہوں نے شگفتہ کو واضح الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کی ۔

دیکھو بیٹی                           !! میں تم پر اپنی مرضی مسلط کرنا نہیں چاہتا لیکن موجودہ حالات میں میراخیال ہے کہ ناصر جیسے سیدھے سادے اور شریف لڑکے کا رشتہ تمہارے لئے برانہیں شگفتہ نے سنجیدگی سے کہا ۔

” ابو                               ! میں آپ کی بات سمجھ رہی ہوں لیکن ابھی میں شادی کیسے کرسکتی ہوں ، میری پڑھائی ادھوری رہ جائے گی اور پھر اتنی جلدی کیا ہے؟

تیمور ، بیٹی کی بات سن کر خاموش ہوگئے ۔

اس کے چند روز بعد تیمور اپنے دونوں بچوں ساجد اور شگفتہ کے ساتھ اندھیری کوٹھی میں شفٹ ہو چکے تھے ، اپنا مکان انہوں نے کرائے پر دے دیا تھا ، اندھیری کوٹھی میں آ کر انہوں نے اپنے کمرے بانٹ لئے تھے ، ساجد بے چارہ نابینا تھا اس لئے اس کا کمرہ شگفتہ اور تیمور کے کمروں کے درمیان رکھا گیا تھا ۔

کوٹھی کی اوپری منزل کو بھی قابل رہائش بنادیا گیا تھامگروہ حصہ خالی تھا اور ٹاہلی والے بابا کی ہدایت کے مطابق اسے بھی آباد کرنا تھا چنانچہ تیور نے کرائے داروں کی تلاش شروع کردی اور انہوں نے کوٹھی کے باہر اوپری منزل کی بیرونی طرف ایک بڑا سا بورڈ بھی کرائے کے لیے خالی ہے “ لکھ کر لگا دیا تھا ۔

اندھیری کوٹھی کے جس کمرے میں اس آسیبی مخلوق کی شکتہ قبر تھی ، و کوٹھی کے جنوبی اور قدرے بعید ترین گوشے میں تھا ، اس کے دروازے کی مرمت کروا کے اسے بند کر دیا گیا تھا اور ٹاہلی والے بابا نے اس کمرے میں جانے سے انہیں سختی سے منع کر رکھا تھا ۔

یہ کام کرنے کے بعد تیمور نے ٹاہلی والے بابا سے ملاقات کرنا ضروری سمجھا اور وہ ایک روز ان کے پاس جا پہنچے۔

تم نے بہت اچھا کیا ۔ٹاہلی والے بابا نے کہا ۔

اب تم لوگوں کو اس شیطانی مخلوق سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ، وہ اب تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی مگرتم لوگوں کو اس کے شیطانی شعبدوں محتاط رہنا ہوگا بالخصوص شگفتہ کو                        ! اور ہاں اوپری منزل پرکون رہتا ہے ؟

“ وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے جوابا بولے       ۔ ابھی تک وہ حصہ بالکل خالی پڑا ہے ، ویسے میں کوشش کر رہا ہوں کہ کوئی کرائے دار مل جائے تو وہ حصہ بھی آباد ہوجائے ۔

ہمیں پورا یقین ہے کہ وہاں کوئی ر ہنے پر تیار نہ ہوگا ٹاہلی والے بابائے گمبھیر لہجے میں کہا ۔

تیمور متفکر ہو کر بولے ۔ ” تو پھر یہ مسئلہ کے حل ہوگا ؟ اس کی بات پر بابا نے برملا کہا ۔ تمہیں اپنی بیٹی شگفتہ کی شادی کرنا ہوگی اور پھر وہ اپنے شوہر کے ساتھ اوپری منزل کو آباد کرے گی ۔

لیکن بابا                            ! ان حالات میں کون میری بیٹی سے شادی کرے گا ؟ ‘ ‘ تیمور نے افسردہ سے لہجے میں کہا ۔

الله تعالی نے اس کا جوڑا پیدا کر رکھا ہوگا، تمہیں تلاش کرنا ہوگی ۔

” بابا                           !! حقیقت یہ ہے کہ جب سے میری بیٹی شگفتہ ان پر اسرار حالات کا شکار ہوئی ہے ۔ لوگوں نے ہم سے ملنا جلنا تک چھوڑ رکھا ہے ۔ انہیں ڈر ہے کہ کہیں شگفتہ اپنی ماں اور بھائی کی طرح ہمیں نقصان نہ پہنچادے اور اب جبکہ ہم سب اندھیری کوٹھی میں شفٹ ہوئے ہیں تو محلے کے رہنے والوں ، دور پار کے رشتے داروں اور دوستوں نے بھی ہم سے ملنا ترک کردیا ہے ، اب آپ ہی بتائیں ان حالات میں کون میری بیٹی شگفتہ سے شادی کرے گا اور وہ بھی گھر داماد بن کراس آسیبی کوٹھی میں رہائش بھی اختیارکرے ؟

” الله کی ذات پر بھروسہ رکھو ، وہ بڑامسبب الاسباب ہے کوئی نہ کوئی ایسا رحم دل اور نیک لڑکا تمہیں مل جائے گا ، اب تم جاؤ اور یہ دوسرا عمل کرو پھر میرے پاس آنا ۔

بابا نے اتنا کہہ کر استغراق کے عالم میں اپنی آنکھیں موند لیں ۔

تیمور کو ہمیشہ کی طرح ٹاہلی والے بابا کی طرف سے دلی طمانیت کا احساس ہوا اور خاموشی کے ساتھ واپس لوٹ آئے ، اب وہ سوچ رہے تھے کہ ناصر کے سوا ایسا لڑکا نہیں اور کہیں نہیں مل سکتا جوان حالات میں شگفتہ سے نہ صرف شادی کا خواہشمند تھا بلکہ نیک نیتی کے ساتھ اس کی مدد بھی کرنا چاہتا تھالیکن مشکل یہ تھی کہ ناصر جیسے کم پڑھے لکھے لڑکے سے شادی پر شگفتہ بالکل تیارنہ تھی بہر طور تیمور نے اسے آخری بار سمجھانے کا ارادہ کیا اور گھر کی طرف چل دیئے ۔

شفقت نے اپنے بھانجے ناصر کو بتا دیا تھا کہ تیمور نے شگفتہ کے سلسلے میں انہیں کیا جواب دیا تھا ۔

ناصر نے مایوس ہو کر اپنے ماموں سے کہا ۔

” ماموں                             شگفتہ شاید مجھ سے شادی پر رضامند نہ ہوگی ۔

ہاں              اس کی تو مجھے بھی توقع ہے ۔ شفقت پرخیال لہجے میں بولے ۔

” میرے دل کوتو اسی دن دھڑکا لگ گیا تھا جب تیمور صاحب نے ہم سے یہ کہا تھا کہ ان کی بیٹی تو خاصی پڑھی لکھی ہے اور اس کی تعلیم بھی ابھی جاری ہے جبکہ تمہارا بھانجا ناصر مشکل سے مڈل پاس ہے پر شاید ہمارا دل رکھنے کی خاطر انہوں نے اپنی بیٹی کا عندیہ لینے کا کہہ کر ہمیں ٹالدیا تھا ۔

وہ اتنا کہ کر خاموش ہوئے مگر پھر دوسرے ہی لمحے ناصر کوتسلی دیتے ہوئے دوبارہ بولے ۔

لیکن بیٹا           ! تم فکر نہ کروں شگفتہ ان دنوں جن حالات کا شکار ہے ، میں کہتا ہوں اس سے کوئی بھی شادی پر رضا مند ہوگیا تم خاطر جمع رکھو   ، میں کچھ روز بعد اپنے دوست شمس الدین کے ساتھ دوبارہ تیمور صاحب کے ہاں جاؤں گا ، دیکھیں تو ذرا وہ کیا جواب دیتے ہیں ۔

“ انہی دنوں جب محلے میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی کہ تیمور اپنے دونوں بچوں کے ساتھ اس آسیبی کوٹھی (اندھیری کوٹی ) میں شفٹ ہو گئے ہیں تو انہیں سخت تعجب ہوا ، ان کے حلق سے تیمور کی منطق نہیں اتر رہی تھی کہ آخر تیمور کو یہ کیا سوجھی کہ وہ یہ جانے کے باوجود کہ وہ کوٹھی آسیب زدہ تھی ، اچھا بھلا اپنا مکان چھوڑ کر وہاں شفٹ ہو گئے تھے ۔

محلے میں یہی چہ میگوئیاں ہونے لگیں    پھر جتنے منہ اتنی باتوں کے مصداق یہ افواہیں بھی گردش کرنے لگیں کہ درحقیقت تیمور خود بھی سفلی علم کرتے ہوں گے ، ورنہ نہیں کیا پڑی تھی کہ وہ جانتے بوجھتے یہ قدم اٹھاتے وغیرہ وغیرہ ۔

ناصر نے کچھ لوگوں کو یہ کہتے بھی سناتھا کہ تیمور صاحب کو کسی بزرگ نے مشورہ دیا ہے ۔

ناصر بے چین ہوگیا تھا ۔

شگفتہ اب اس کی دکان پر سودا سلف لینے نہیں آتی تھی مگر وہ ابھی بھی اسے آتے جاتے دیکھا کرتا تھا اور یاس زدہ آہیں بھرتا رہتا تھا ، ایک روز اس سے رہا نہ گیا ۔

ساجد چونکہ اس کا دوست رہ چکا تھا اس لئے وہ اس سے ملنے کے بہانے اندھیری کوٹھی جا پہنچا ۔

درحقیقت وہ ساجد سے یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ آخر کیا وجہ تھی وہ لوگ اپنا مکان چھوڑ کر یہاں آن بسے تھے ۔

کال بیل بجانے پر دروازه شگفتہ نے ہی کھولا تھا ، اسے دیکھ کر ناصر کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوتے ہیں، شگفتہ اسے اپنے گھر کے گیٹ پر دیکھ کر پہلے تو چونک سی گئی پھر ایک ناگوار سی نگاہ اس کے چہرے پرڈالتے ہوئے اس بولی تم                   تم یہاں کیا لینے آئے ہو ؟

“ ناصر نے بمشکل اپنی کیفیات پر قابو پایا اور بولا       وہ میں دراصل سس                                ساجد سے ملنے آیا تھا ۔

شگفتہ نے ناگواری سے کہا ۔ ” اس وقت گھر پر ابو نہیں ہیں ۔

لل                               ! لیکن میں تو اپنے دوست ساجد سے ملنا چاہتا ہوں ۔ ناصر نے بھی جرات دکھائی اور اس کے چہرے پر اپنی نظریں جمائے ہوئے بولا ۔

شگفتہ کے چہرے پر غصے کی تند لہر سی ابھری مگر کچھ سوچ کر اس نے اپنے طیش کو گہرے طنز میں سموتے ہوئے ناصر سے کہا ۔

تمہیں معلوم ہیں کہ وہ نابینا ہو چکا ہے                ؟ کیاتم کسی موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو ؟

“ آج یہ پہلا موقع تھا کہ دونوں کے درمیان ذرا طویل گفتگو ہوئی تھی ۔

ناصر کو شگفتہ کی بات سن کر دکھی ہوا،،، مگر وہ رنجیدہ لہجے میں بولا ۔ افسوس ہے کہ آپ اپنے دل میں میرے لئے اس قدر بدگمانی رکھتی ہیں ۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر آپ                        !!

مسٹر ناصر                              !! شگفتہ نے تلخی سے اس کی بات کاٹی ۔ میرے پاس آپ کی تمہید سننے کے لیے فضول وقت نہیں ہے ، ابو آجائیں گے تو پھر آ کر اپنے دوست سے مل لینا          ۔ اس نے لفظ ” دوست “ کو قدرے استہزایئہ انداز میں چلا کر کہا اور پھر گیٹ بند کر کے اندر چلی گئی ۔

ناصر کے دل پر ایک گھونسہ لگا ، اسے شگفتہ کے اس رویے پراز حد افسوس ہوا تھا پھر جب وہ اپنا دل مسوس کر وہاں سے لوٹنے لگا تو راستے میں ہی سامنے سے تیمور کی کار آتے دیکھ کر وہ جانے کیوں رک گیا ۔

تیمور کی بھی اس پر نگاہ پڑ چکی تھی ، انہوں نے اس کے قریب لے جا کر کار روک دی تو ناصر نے بڑے احترام سے انہیں سلام کیا ۔

وہ بڑی شفقت آمیزی سے سلام کا جواب دیتے ہوئے مسکرا کر بولے ۔

” کیا ساجد سے ملنے آئے تھے ؟ انہوں نے شاید دور سے ہی اسے کوٹھی کے گیٹ سے پلٹے دیکھ لیا تھا ۔

   جج                 جی ہاں                     مگر               !! ناصر کچھ کہتے کہتے رک گیا ۔

تیمور جیسے کچھ بھانپتے ہوئے کار سے اتر آئے اور مسکرا کر بولے تمہیں شاید شگفتہ اندر نہیں آنے دیا ہوا ؟ “ ناصر کو ان کے رویے سے ذرا حوصلہ ملا تھا ، لہذا اس نے اثبات میں اپنا سر ہلا دیا تو تیمور بڑی شفیق مسکراہٹ کے ساتھ اس کے کاندھے کو ہولے سے دبا کر بولے ” بے وقوف ہے وہ              آو میرے ساتھ بیٹھو گاڑی میں ۔ ” یہ کہ کر وہ ڈرائیونگ سیٹ پر جا بیٹھے ۔

ناصر ان کے مہربان رویئے پر حیران پریشان سا ان کی برابر والی سیٹ کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گیا ، کارآ گئے بڑھی پھر کوٹھی کے بیرونی گیٹ کے سامنے کھڑی ہوگئی ، تیمور نے ہارن بجایا گیٹ شگفتہ ہی نے کھولا ۔ تیمور کار اندر لے آئے ، شگفتہ نے اپنے باپ کے ساتھ ناصر کو بیٹھے دیکھا تو غصے سے سرخ ہوگئی مگر کچھ بولی نہیں ۔

تیمور اگنیشن سوئچ آف کر کے نیچے اتر آئے ساتھ ناصر بھی اتر آیا ۔

شگفتہ نے ناصر پر ایک نفرت بھری نگاہ ڈالتے ہوئے باپ سے کہا ۔

” ابو                      ! آپ ہر ایرے غیرے کو ساتھ لےآتے ہیں ، کیوں لائے ہیں اسے یہاں ؟

نہیں بیٹی                بری بات گھر آئے مہمان کے بارے میں ایسا نہیں کہتے ‘‘ تیمور نے ملائمت کے ساتھ اسے سرزنش کی ۔

ہنہ                         مہمان                            وہ تضحیک آمیز لہجے میں کہتی ہوئی اندر چلی گئی ۔

ناصر نے اپنا سر جھکا کر تیمور سے کہا ۔ ” انکل           ! میں پھر آجاؤں گا ۔ وہ یہ کہہ کر جانے لگا ۔

تیمور نے اسے روک دیا ۔

ٹھرو                      ! اس کی بات کا برا مت مانو بیٹا تمہیں معلوم ہے بےچاری ان دنوں کس مصیبت کا شکار ہے ، بلکہ اس کی وجہ سے تو ہم بھی پریشان ہیں ہیں تم آؤ اندر ۔۔ ناصر کو تیمور کا لہجہ ملتجیانہ سا محسوس ہوا تھا ، وہ خاموشی سے ان کے ساتھ چلتا ہوا اندر آگیا            !!

ڈرائنگ روم خاصا آرام دہ اور پرتزئین تھا ۔

بیٹھو بیٹا،،،، ! میں ابھی ساجد کو بھیجتا ہوں،،، ‘ وہ یہ کہہ کر ایک کمرے کی طرف بڑھے۔ ناصر ایک صوفے پر بیٹھ گیا ، اچانک تیمور جاتے جاتے رکے پھر پلٹ کر بولے ۔ ” بیٹا                 ! تمہیں یہاں ڈ رتو نہیں لگ رہا ہے ؟

“ ناصر مسکرا کر بولا نہیں انکل ! بھلا ڈرنے کی کیا بات ہے؟

‘ تیمور چلے گئے ۔

تھوڑی دیر گزری تو ساجد نمودار ہوا مگر اس طرح کہ وہ اپنے دونوں ہاتھ ٹٹولنے کے سے انداز میں دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا تھا ۔

اس کی حالت دیکھ کر نا صر کو بڑا دکھ ہوا ، وہ یک دم اپنی جگہ سے اٹھ کر ساجد کی طرف بڑھا ۔

ناصر                             تم                 اچھا ہوا آگئے ، یار ! میں گھر پڑا پڑا بہت بور ہو جاتا ہوں ، آجایا کرو ناں         وہ ناصر سے ہاتھ ملا کر بولا ۔

اسی اثناء میں تیمور بھی آئے تھے ، وہ بھی ناصر سے بولے ۔ ” ہاں بیٹا ! آجایا کرو ، اس کا دل بہل جایا کرے گا

” ناصر ، ساجد کے لئے صوفے کی طرف بڑھا اور دونوں دوست بیٹھ کر ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے  

تیمور زرا دیر بیٹھنے کہ بعد اٹھتے ہوئے بولے،   تم دونوں آرام سے بیٹھ کر باتیں کرو میں چائے بھجواتا ہوں          ۔

پھر جب وہ چلے گئے تو ساجد نے سرگوشی میں اس سے پوچھا کیا ابو چلے گئے ؟

ہاں          ناصر نے بھی ہولے سے کہا           

” يار ناصر          مجھے اس عامل    رنگا ماتی سے بہت ڈر لگتا ہے تمہیں شاید معلوم نہیں کچھ روز پہلے ہی اس نے مجھے راستے میں پکڑا تھا اور چھرا دکھا کر دھمکی دینے لگا تھا کہ اس عمل کو پورا کرو ورنہ جان سے مار ڈالوں گا ۔

ساجد نے دھیمی آواز میں نا صر کو بتایا ۔ ” بے فکر رہو اب وہ تمہیں کبھی بھی جان سے مارنے کی دھمکیاں نہیں دے گا ۔ وہ آہستگی سے بولا ۔

ساجد اس کی بات پر چونک کر بولا کیا مطلب         ؟؟؟

اس لئے کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہا ۔ ناصر نے بتایا ۔

اس کی بات سن کر ساجد بری طرح چونکا ’ ’ کک        کیا           وہ مرگیا ؟ ‘

‘ ہاں              ؟

مگر کیسے        ؟

‘ اس کے پوچھنے پر ناصر نے اسے مختصراً بتادیا ۔

چلو اچھا ہوا ہماری جان چھوٹ گئی ورنہ ابو نے اسے پولیس کے حوالے کرنے کا ارادہ کر لیا تھا ۔ ساجد نے کہا ۔

مگر ناصر کچھ اور ہی سوچ رہا تھا ۔

” تم چپ کیوں ہوگئے ناصر                 ؟ ‘

اس کی خاموشی پرساجد نے پوچھا ۔

” یار              میں سوچ رہا تھا کہ اب کیا کریں کیونکہ مجھے تو اس سے پوری امید تھی کہ وہ ضرور ایک نہ ایک دن تم لوگوں کو اس مصیبت سے نجات دلادے گا ۔

“ نہیں یار ! وہ کم بخت کسی اور ہی چکر میں تھا ۔،”ساجد بولا ” مجھے لگتا تھا کہ وہ ہمارے زریعے اس بدروح کو قابو میں کرنا چاہتا تھا تا کہ اسے اپنے منفی اورسفلی مقاصد کے لیے استعمال کرے ۔

‘ لیکن ساجد              اب کیا ہوگا ؟ تمہاری بہن کے سر سے یہ مصیبت کس طرح ٹلے گی ، مجھے تمہارے حالات پر بہت افسوس ہوتا ہے ۔ “ ناصر نے ہمدردانہ لہجے میں کہا ۔

” ہاں یار ! واقعی ہم اس پر روح کی وجہ سے بہت تنگ آ چکے ہیں ، اس نے تو ہمارا جینا محال کر رکھا ہے ۔ پہلے فائزہ باجی کو شگفتہ کے ہاتھوں زخمی کروایا ، پھر امی جان کو مروایا اور           اور اس کے بعد        م     مجھے بھی اندھا کر ڈالا ۔ “ یہ کہتے ہوئے ساجد کی آواز بھر آئی ۔

ناصر دوستانہ انداز میں اس کے کاندھے کے گرد اپنے بازو حمائل کرتے ہوئے اسے تسلیاں دینے لگا ۔

اس اثناء میں تیور بھی کپڑے وغیرہ بدل کر وہاں آگئے اور ان کے عقب میں شگفتہ بھی نمودار ہوئی ، اس کے ہاتھوں میں چائے کی ٹرے تھی جو اس نے خاموشی کے ساتھ درمیان میں رکھی میز پر رکھ دی ۔

اور پھر تیمور کے کہنے پر چائے بنا کر ایک کپ ناصر کی طرف بڑھایا ، ناصر نے ہولے سے شکر یہ کہہ کر چائے کا کپ لیا ۔

ساجد نے اپنے باپ سے کہا ۔ ” ابو آپ نے سناوہ بد بخت عامل رنگا ماتی مرگیا ۔

” اچھا               !!! تمہیں کیسے پتہ چلا ۔ وہ قدرے چونک کر بولے تو اس نے ناصر سے سنی ہوئی ساری بات نہیں بتادی ۔

انکل                      ! آخر آپ لوگوں نے اس مصیبت سے چھٹکارا پانے کے لیے کچھ سوچا بھی ہے یا نہیں ؟ ” اس نے تیمور سے پوچھا ۔

ہاں بیٹا                ! ہم ایک نیک بزرگ ٹاہلی والے بابا سے ملے تو ہیں اور انہوں نے ہی ہمیں مشورہ دیا تھا کہ وہ آسیبی مخلوق بہت خطرناک ہے ، اسے ایک مرحلہ وار حکمت عملی کے تحت ہی ختم کرنا پڑے گا ، اس کے لیے سب سے پہلے ٹاہلی والے بابا نے مجھے اس اندھیری کوٹھی میں رہائش اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے ، دیکھیں اب آگے کیا کہتے ہیں لیکن جب سے ہم یہاں آکر آباد ہوئے ہیں ، لوگوں نے ہم سے ملنا جلنا بھی ترک کردیا ہے تم پہلے شخص ہو جو ہم سے ملنے آئے ہو       ۔

‘ ‘ انکل ! آپ پریشان نہ ہوں ، ان شاء الله آپ کی مصیبت ضرور دور ہو جائے گی اور                          اور میں بھی یہاں اپنے دوست ساجدسے ملنے کے لیے آتا رہوں گا ۔ “ ناصر نے تیمور سے کہا اور غیر ارادی طور پر اس کی نظر جب ان کے قریب بیٹھی شگفتہ پر پڑی تو وہ اسے بڑی طنزیہ نظروں دیکھ رہی تھی۔

وہ    پہلی    بار ناصر سے مخاطب ہوکر بولی نہیں           ہمیں تمہاری مدد کی ضرورت نہیں ہے ، تم جا کر اپنی دکان سنبھالو        

!ناصر خفیف سا ہو    گیا پھر جیسے اس کی بات کا برا منائے بغیر کھڑے ہو کر تیمور سے بولااچھا انکل                         اب میں چلتا ہوں ۔

بیٹی          بری بات ہے تمہیں ناصر سے ایسا سلوک زیب نہیں دیتا ۔

“ ناصر کے جانے کے بعد تیمور نے شگفتہ ٹوکتے ہوئے کہا ۔ “

ابو میں ناصر جیسے چھچھورے لڑکوں سے اچھی طرح واقف ہوں ، یہ دوسروں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں ، اگر کوئی ہم سے نہیں ملتا تو بے شک نہ لے ، ہمیں کسی کی ہمدردی کی ضرورت نہیں ۔

‘شگفتہ سے رہا نہ گیا تھا اور بالآخر اس نے اپنے دل کا غبار نکال دیا ۔

تیمور نے قدرے سنجیدہ لہجے میں شگفتہ سے پوچھا ۔ ” ناصر نے تم سے بھلا کس قسم کا چھچھورہ پن کیا ہے ؟ میں ہی نہیں اسے سارا مخلہ جانتا ہے وہ ایک شریف اور مخنتی لڑکا ہے۔

” مگر اب میں کسی کی ہمدردی کی ضرورت نہیں ہے ۔ وہ بولی ۔

تیمور کے دل و دماغ میں ہنوز ٹاہلی والے بابا کی نصیحت گونج رہی تھی لہذا وہ اس سے بولے ۔ ” بیٹی          ! ہم لوگ اس وقت جن نازک حالات سے دوچار ہیں ہمیں بعض کڑے فیصلے کرنے ہوں گے ۔ “ یہ کہ کر انہوں نے ٹاہلی والے بابا کی نصیحت کے بارے میں اسے صاف صاف بتادیا کہ اس پر اسرار آسیبی مصیبت سے چھٹکارہ پانے کے لیے انہیں مرحلہ واران کے کہنے پر حرف به حرف عمل کرنا ہوگا اور کوئی ایسا گھر داماد ڈھونڈنا پڑے گا جو اس سے شادی کے بعد کوٹھی کی اوپری منزل کو آباد کرے ۔

” تو ٹھیک ہے ابو کیا پھر ایک ناصری رہ گیا ہے گھر داماد بنانے کیلئے                  !!شگفتہ باپ کی ساری بات سننے کے بعد کسی قدر تلخی سے بولی   ۔

تو پھر اور کون شادی کرے گا ان حالات میں تم سے ؟ ‘ ‘

تیمور کو بھی بیٹی کی فضول ضد پر غصہ آگیا مگر پھر بیٹی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر انہوں نے خود پر قابو پایا اور بڑے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا ۔ ” سوری بیٹا میں نے پریشانی میں تمہیں ڈانٹ دیا ۔

کوئی بات نہیں ابو “ شگفتہ دوپٹے کے پلو سے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے دھیرے سے بولی ۔

دیکھو بیٹی ہمیں حالات کے مطابق چلنا ہوگا اور پھر ناصر میں کیا برائی ہے فقط یہ کہ وہ تم سے کم پڑھا لکھا ہے مگر یہ کوئی اتنا بڑا عیب نہیں پھر تم اپنے حالات بھی دیکھو ، ناصر کے دل میں ہماری مدد کرنے کا ایک جذبہ ہے ، وہ نیک اور شریف لڑکا ہے اور مخنتی بھی ، پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ تم سب سے بہت محبت کرتا ہے ، میرا دل کہتا ہے کہ تمہاری اس کے ساتھ اچھی زندگی گزرے گی اس لیے ہاں کر دو ، ایسا نہ ہو کہ وقت گزر جائے شگفتہ سے اپنے باپ کی یہ حالت دیکھی نہیں گئی ۔ وہ ساری بات سمجھ رہی تھی اور اس وقت کو بھی کوس رہی تھی جب اس منحوس آسیب نے ان کے گھر ڈیرا ڈال دیا تھا اور پھر آہستہ آہستہ حالات اس قدر مخدوش ہوتے چلے گئے کہ و خودمجرم بن کر رہ گئی ۔

اب نوبت یہ آگئی تھی کہ اسے ناصر سے شادی پر آمادہ ہونا پڑ رہا تھا ۔شگفتہ نے اسے اپنا نصیب جان کر بالآخر اقرار میں اپنا سر جھکا دیا ۔

شگفتہ کے اقرار کرنے کی دیرتھی کہ تیمور نے ناصر کے ماموں شفقت کے دوست شمس الدین سے ملاقات کر کے انہیں اشارہ دے دیا ۔

پھر کیا دیر تھی ، چٹ منگنی پٹ بیاہ والی بات تھی ۔

ناصر اور شگفتہ کی شادی کر دی گئی لیکن بات پکی ہونے سے پہلے تیمور نے ناصر کو ہی نہیں بلکہ اس کے ماموں شفقت کو ساری باتوں سے آگاہ کرتے ہوئے اپنی مجبوری کے بارے میں بتا دیا تھا کہ شادی کے بعد ناصر اور شگفتہ اس کوٹھی میں ہی رہیں گے اس آسیب سے چھٹکارا پانے کے بعد دونوں کی مرضی ہوگی کہ وہ کہیں بھی رہیں ۔

شفقت اور ناصر کو کوئی اعتراض نہ ہوا ہوں یہ دوسرا مرحلہ بھی خوش اسلوبی کے ساتھ طے پا گیا ۔

ناصر ، اپنی محبت کو پا کر خوشی سے نہال ہو گیا تھا ، اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ اس کی شادی شگفتہ سے ہوئی تھی ۔ اس شادی میں بہت تھوڑے لوگوں نے شرکت کی تھی ۔

دونوں کا کمرہ کوٹھی کی اوپری منزل میں سجا دیا گیا تھا ، رات بارہ بجے کا وقت تھا اور شگفتہ دلہن بنی حجلہء عروسی میں بیٹھی تھی ، اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا جواس کے شہابی رخساروں سے یوں بہے جا رہے تھے جیسے اس کے ارمانوں کا خون کر دیا گیا ہو ، اپنے نصیب پر رو رہی تھی ، ناصر ابھی کمرے میں نہیں آیا تھا مگر شگفتہ واحد نو بیاہتا دلہن تھی جس کے دل میں اپنے مجازی خدا کے انتظار کی ذرا بھی بے چینی نہ تھی ، اب کیا ہوسکتا تھا ، اس کی دلہن بن چکی تھی ، ناصر اس کا شوہر تھا اور وہ اس کی بیوی اسے اب بہر صورت یہ رشتہ نباہنا تھا ۔

وہ سر جھکائے آب دیدہ چہرے کے ساتھ گھٹری بنی بیٹھی تھی کہ معا دروازے پر آہٹ ہوئی ۔ وہ سمجھ گئی کہ اس کا دولہا یعنی ناصر اندر داخل ہوا ہے ۔ نوبیاہتا دلہن کے فطری احساس تلے مارے شرم کے اس کا دل بری طرح دھڑکنے لگا ، پھر قدموں کی چاپ ابھری کوئی دھیرے دھیرے چلتا ہوا بیڈ کی طرف بڑھ رہا تھا ، اس کے بعد بیڈ پہ اسے کسی کے دھنس کر بیٹھنے کا احساس ہوا پھر ایک ہاتھ نے دھیرے سے اس کا گھونگٹ اٹھایا اور اس کی تھوڑی پر ہاتھ لگا کر چہرہ اوپرکیا ۔

ایسے موقعوں پرکسی بھی نوبیاہتا دلہن کا دل مسرت و شادمانی سے لبریز ہوتا ہے لیکن شگفتہ کا دل نفرت کے شعلوں سے سلگ اٹھا ، وہ سمجھ رہی تھی کہ ناصر نے ان کی کمزوری سے خوب فائده اٹھایا ہے لہذا اس نے مسکرانا تو درکنار ایک عام نگاہ بھی اس پر نہیں ڈالی ۔

لیکن پھر دوسرے لمحے اس نے سوچا کہ ناصر کو وہ بھی خوش نہیں رہنے دے گی ، وہ اس کی جھکی ہوئی نگاہوں کو نئی نویلی دلہن کی شرم سے تعبیر نہ کرے لہذا اس نے یک دم آنکھیں کھول دیں ۔

ان آنکھوں میں ناصر کے لیے نفرت کے شعلوں کے سوا کچھ نہ تھا مگر دوسرے ہی لمحے جیسے شگفتہ کی سانسیں سینے میں اٹکنے لگیں ، اس کے سامنے ناصر کا چہرہ نہیں تھا بلکہ وہ تو ایک مکروہ چہرہ تھا،، وہ    گھناؤنااورآسیبی مخلوق کا بھیانک چیره                         

اس نے ایک زور دار چیخ ماری اور ناصر کو پرے دھکیل دیا ، ناصر کے روپ میں وہ بھیانک آسیبی چہرہ اس کی طرف اپنی بغیر پپوٹوں والی آنکھوں سے گھرے مسکرا رہا تھا۔۔۔

شگفتہ اپنا   اصل دشمن اسے ہی سمجھتی تھی جس کی وجہ سے اسے آج یہ دن دیکھنے پڑرہے تھے ۔

بار بار ایک ہی طرح پراسرار حالات سے گزرنے کے بعد انسان فطری طور پر عادی ہو جاتا ہے اور شگفتہ کا دل پہلے ہی نفرت کے احساس تلے بھرا ہوا تھا ۔

یہی سبب تھا کہ اب اس کے اندر خوف سے زیادہ اس نفرت انگیزی نے لے لی تھی ، چنانچہ جیسے ہی وہ بھیانک چہرہ ناصر کے روپ میں اس کی طرف اپنے کٹے ہوئے ہونٹوں سے لمبے لمبے دانتوں کی نمائش کرتا ہوا اسے دبوچنے کے لیے لپکا،،شگفتہ نے کمال ہمت اور پھرتی سے بیڈ سائیڈ ٹیبل پردھرے دودھ سے نصف بھرے شیشے کا بھاری جگ اٹھالیا اور آؤ دیکھا نہ تاؤ اپنی طرف بڑھتے ہوئے اس بھیانک چہرے کے سر پر مار دیا ۔

کمرے میں ایک تیز اور کرب ناک چینح ابھری مگر یہ چینح غیر انسانی مخلوق کی نہیں بلکہ اس کے دولہا ناصر کی تھی ۔

وہ بے چارہ اپنالہولہان سرتھامے فرش پر بے سدھ ہوکر لڑھک گیا ۔

شگفتہ بھی اس صورت حال پر بری طرح متوحش ہوگئی اور پھر ہذیانی انداز میں چلانےلگی ۔

تیمور دوڑے دوڑے کمرے میں پہنچے تو ناصر کو لہولہان فرش پر گرے پایا ، وہ گھبرا گئے ۔ پھر آنا فأنا انہوں نے اسے اپنے کاندھے پر اٹھایا اور بھاگم بھاگ سیڑھیوں سے نیچے اترنے لگے، گھبراہٹ اور پریشانی کے باعث اور کچھ ناصر کے ہے سدھ وزن نے سیڑھیاں اترتے ہوئے ان کے قدم لڑکھڑادیئے نتیجتاً تیمور کے پاؤں لڑکھڑا گئے اور پھر وہ اپنا توازن قائم نہ رکھ سکے اور سیڑھیوں سے فٹ بال کی طرح گرتے لڑھکتے قلابازیاں کھاتے ہوئے ناصر سمیت نیچے آرہے       ۔

پھر نچلی منزل کے فرش پر گرتے ہی ان کا سر کسی ٹھوس شے سے ٹکرایا اور ان کا ذہن تاریکیوں میں ڈوبتا چلا گیا ۔

اب ایک طرف ناصر لہولہان اور بے ہوش پڑا تھا جبکہ دوسری طرف تیمور شدیدزخمی اور بے سدھ پڑے تھے ۔

اور ادھر نیچےحیران پریشان کھٹرے ساجد نے بھی سیڑھیوں سے کسی کو گرتے ہوئے محسوس کر لیا تھا ، وہ بے چارہ پریشان اور ہراساں ہو گیا ، وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے فضا کوٹتولٹا ہوا آگے بڑھا تو سب سے پہلے ناصر کے مین بوس جسم سے ٹکرا کر گرا تو سیدھا اپنے باپ پر آن پڑا ۔ وہ اندھا ہونے کی وجہ سے نہیں دیکھ پا رہا تھا کہ فرش پر پڑے یہ دوہے سدھ وجود کس کے تھے تاہم اسے کچھ کچھ اندازہ ہورہا تھا ، اس نے ہذیانی انداز میں اپنی بہن کو آوازیں دینا شروع کردیں ۔

!شگفتہ                 !شگفتہ           ؟

اوپری منزل کے کمرے میں آنسو بہاتی ہوئی الم نصیب شگفتہ نےجو اپنے نابینا بھائی کی ہراساں چنیں سنیں تو وہ ٹھٹکی ، پھر حواس باختگی کے عالم میں کمرے سے نکل کر سیڑھیوں تک آئی ۔

جب اس نے ایک طرف اپنے شوہر ناصر اور دوسری طرف اپنے باپ تیمور کو بے سدھ اور زخمی پڑے پایا تو حلق کے بل زور سے چلاتی ہوئی دو دو تین تین سیڑھیاں پھلانگتی نیچے اتری ۔ شش             شگفتہ           بہن                         کک کیا             ہوا کیا ہوا ابو کو                 ؟ ‘ ‘ ساجد نے اپنی بہن کے چیخنے اور رونے کی آوازیں سنیں تو گھبرا کر بولا ۔

مگر شگفتہ اپنے ابو کو سنبھالنے کی کوشش میں بدستور روئے چلی جارہی تھی ۔

اس نے دیکھا اس کے ابو کی کنپٹی سے مسلسل خون بہے جارہا تھا ، وہ دہری پریشانیوں کے مارے روتی ہوئی آدھ موئی تھی ۔

شگفتہ           ! آخر ہوا کیا ہے ابو کو ؟ تم                               تم بتاتی کیوں نہیں ہو ؟ “ ساجد نے روہانسے لہجے میں چلا کر کہا شگفتہ نے لرزیدہ لہجے میں اسے بتایا ۔ ” س                 ساجد                 ! ابو سیڑھیوں سے گر کر بری طرح زخمی ہو گئے ہیں             

میرے خدا ، اب کیا کریں ، میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ۔ “ یہ کہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔

اب تو ساجد کے بھی ہوش اڑ گئے ۔شگفتہ نے اسے مختصراً بتا دیا تھا کہ کس طرح اس کے ابو بے ہوش ناصر کو اسپتال پہنچانے کے لیے اسے کاندھوں پر اٹھائے سیڑھیاں اترتے ہوئے گرے تھے ، ساجد شدید بے بسی محسوس کرنے لگا ، اسے آج اپنی”” مجبوری “” کا بری طرح احساس ہورہا تھا اور وہ کچھ نہیں کر پا رہا تھا ۔

بھائی                        !! ہمیں کچھ کرنا ہوگا ، ابوکا خون بہت تیزی سے بہہ رہا ہے       شگفتہ نے گلوگیر لہجے میں کہا ۔

ساجد بولا ۔ بہن                    ایسا کرتے ہیں کہ باہر نکل کر چیخ و پکار کرتے ہیں مجھے یقین ہے کہ لوگ ہماری مد دکوآجائیں گے ۔

پھر دونوں بہن ، بھائی یہی ارادہ کر کے کوٹھی سے باہر اندھیری سڑک پر آگئے ۔

انہوں نے مدد کے لیے چیخنا شروع کر دیا لیکن کوئی بھی ان کی مدد کے لیے نہ آیا ، چندلوگ اکٹھے تو ہوئے مگر جب شگفتہ نے انہیں پریشانی کی اصل وجہ بتادی تو وہ بھی کتراکر کھسک لئے ۔

اب تو یہ دونوں اور بھی پریشان ہو گئے ۔

” بھائی                               ! اب کیا ہو گا ، کوئی ہماری مدد نہیں کر رہا           ایو بہت زخمی ہیں ۔

شگفتہ نے رندھے ہوئے لہجے میں ساجد سے کہا ۔

وہ بے چارونابینا کیا کرتا ، وہ خود دوسروں کا محتاج ہوکر رہ گیا تھا مگر اس کے ذہن میں فوراً ایک خیال آیا اور وہ بولا ” شگفتہ بہن           !ہمیں فوراً ناصر بھائی کے ماموں شفقت کے گھر کا رخ کر نا چاہیئے ، وہ ضرور ہماری مدد کریں گے ، ان کا گھر بھی زیادہ دور نہیں ہے ۔

‘”شگفتہ کو بھائی کی بات معقول لگی ۔

لیکن بھائی تم ادھر ہی رہو ، میں دوڑ کر جاتی ہوں ۔

شگفتہ نے کہا اور پھر بھائی کے جواب دینے سے پہلے ہی وہ شفقت کے گھر کی طرف دوڑ پڑی جو اب اس کا سسرال تھا ۔

نصف سے زائد رات کا وقت ، تاریکی اور وحشت کا عالم اس پر مستزاد یہ مصیبت              ان عوامل نے شگفتہ کوتاریک اور ویران سڑک پر دوڑنے پر مجبور کر دیا تھا ۔

بالآخر وہ گرتی پڑتی شفقت کے مکان پرپہنچی اور اس کا دروازه زور زور بجانا شروع کردیا ۔

زرا دیر بعد شفقت آنکھیں ملتا ہوا اٹھا اور دروازہ کھول کر دیکھا تو بھونچکا رہ گیا۔

سامنے اس کی نو بیاہتا بہو عروسی جوڑے میں بڑے ہی برے حال میں بھیگے ہوئے چہرے کے ساتھ کھڑی تھی ۔

شگفتہ نے جلدی جلدی ساری بات بتائی ۔

تب اس نے اپنے قریبی دوست شمس الدین کے گھر کا درواز کھٹکھٹایا پھر دونوں دوست شگفتہ کے ساتھ دوڑے دوڑے سے اندھیری کوٹھی پہنچے ۔ شفقت نے اپنے اکلوتے بجھانے ناصر کو اس حال میں دیکھا تو اس کے اوسان خطا ہو گئے ۔

ان دونوں دوستوں نے کسی نہ کسی طرح ناصر اور تیمور کو ایک قریبی پرائیویٹ اسپتال پہنچایا ،شگفتہ اور ساجد بھی ان کے ساتھ تھے ۔

ناصر اور تیمور کو فوراً ایمرجنسی آپریشن میں منتقل کردیا گیا ۔

شگفتہ اور ساجد کوریڈور میں ایک بینچ پر بیٹھے اپنے باپ کی زندگی بچ جانے کی دعائیں کر رہے تھے اور دوسری طرف شفقت اپنے بھانجے ناصر کے لیے دعائیں کر رہا تھا ، اس کا دوست شمس الدین بار بار اس کا کاندھا تھپتھپا کراسے تسلیاں دےرہا تھا ۔

يار شمس                                   میرا ایک ہی بھانجا ہے ، تو دعا کریارا سوہنا رب اسے حیاتی دے ۔ گلوگیر لہجے میں اپنے دوست شمس الدین سے بولا ۔

حوصلہ کر یار                 للہ ضرور ناصر بیٹے کو زندگی دےگا شمس الدین نے اس سے ازراہ تشفی کہا ۔

پھر ایک ناگواری نظر اس نے سامنے ذرا فاصلے پر بیٹھے ان دونوں بہن ، بھائیوں شگفتہ اور ساجد پر ڈالی اور اپنے دوست سے بولا ۔ ” اوئے شفقت          !! میں نے تجھے سمجھایا بھی تھا کہ اس منحوس لڑکی سے اپنے بھانجے کا بیاہ نہ کر ، اس پر آسیب ہے ، پر تو نہیں مانا ۔

“ ہاں یار                 ! میں نے تیری بات نہ مان کر بہت بڑی غلطی کی ہے ۔

” شفقت اپنے آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے گلوگیر لہجے میں بولا ۔ ” پر یار           ! ناصر مانتا ہی نہیں تھا ، اس پر عشق کا بھوت سوار تھا ۔

” میری بات مان اب بھی وقت ہے اپنے بھانجے سے اس منحوس لڑکی کو طلاق دلوا دے ورنہ جس طرح اس نے اپنے گھر والوں کو بھی کہیں کا نہیں رکھا ہے ، ایک دن یہ تجھے اور تیرے بھانجے کو بھی چاٹ جائے گی          ۔

شمس الدین کہ بے رحم اور سفاک تبصرے پہ شفقت بہت بری طرح کانپ گیا ۔

خاصی دیر بعد آپریشن تھیٹر سے ڈاکٹر برآمد ہوا اور اس نے آندوہناک خبر دی کہ تیمورخون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے انتقال کر گئے ہیں ، جبکہ ناصر کی حالت خطرے سے باہر ہے ۔

شگفتہ اور ساجد کو جیسے سکتہ ہوگیا ۔

پھر جب ایک اسٹریچر پرتیمور کی لاش باہر کوریڈور میں لائی گئی تو دونوں بہن ، بھائی باپ کی لاش سے چمٹ کر دھاڑیں مارے رونے لگے ۔

    ناصر کی پیشانی میں پورے بارہ ٹانکےلگے تھے ، اسے وارڈ میں منتقل کیا جا چکا تھا ، اسے جب ہوش آیا تو اس نے اپنے قریب ماموں اور ان کے دوست شمس الدین کو بیٹھے پایا ۔ بھانجے کو ہوش میں آتا دیکھ کر شفقت اس پر جھک گیا اور ازراہ ومحبت اس سے دعائیہ انداز میں بولا – الله کا شکر ہے تجھے ہوش آگیا ۔

ناصر نے جب اپنی نئی نویلی دلہن شگفتہ کو وہاں نہ پایا تو بے چین ہو گیا ، اسے اب رفته رفته یاد آنے لگا تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا تھا ، وہ اس بات پر متعجب اور پریشان ہو رہا تھا کہ آخر شگفتہ نے اسے دیکھ کر مارے دہشت کے چینخ کیوں ماری تھی اور پھر یک دم اس پر شیشے کا جگ دے مارا تھا ، وہ اس سے ناراض نہ تھا ،سمجھ گیا تھا کہ یہ سارا چکر اس آسیب کا تھا جس نے اس کی بیوی شگفتہ کو ہی نہیں بلکہ اس کے پورے گھر والوں کا جینا دوبھر کر رکھا تھا ۔

ہوش میں آتے ہی اسے اپنی پیشانی پر درد کی ٹیسیں سی اٹھتی محسوس ہوئیں جس پر بینڈیج بندھی ہوئی تھی تاہم اس نے اپنے زم کی ٹیسوں کی پرواہ کئے بغیر اپنے ماموں سے بڑی بے قراری کے ساتھ اپنی بیوی شگفتہ کے بارے میں استفسارکیا ۔

ماموں              شش           شگفتہ کہاں ہے ؟ وہ ٹھیک تو ہے ناں ؟

“ اسے کیا معلوم تھا کہ اس بے چارگی کے ساتھ کیسی قیامت گزر چکی تھی ۔ شفقت نے قدر ےناگواری سے کہا ” شکر کر تیری جان بچ گئی اور نہ تو اس منحوس نے تجھے مار ہی ڈالا تھا ۔

مگر وہ ہے کہاں             ماموں     مجھے لے چلو اس کے پاس ۔ “ ناصر بے قرار ہوگیا ۔

اسی اثناء میں دو پولیس والے اندر داخل ہوئے ۔ ان میں اک وردی کے اعتبار سے سب انسپکٹر نظر آتا تھا ۔

شفقت نے اپنے دوست شمس الدین کے مشورے پرناصر سے کہا       بیٹے پہلے پولیس کو اپنا بیان لکھوا دے پھر گھر چلتے ہیں ، شگفتہ بھی وہیں ہے ۔ پھر وہ سب انسپکٹر سے بولا ۔

انسپکٹر صاحب                      آپ بیان لے لیں      ۔

ہاں بھئی کیا ہوا تھا تمہارے ساتھ           ؟ ‘ ‘ سب انسپکٹر نے سنجیدہ لہجے میں ناصر کی طرف دیکھ کر پوچھا تو ناصر ذرا تذبذب کا شکار ہو گیا ۔

وہ کیسے بتاتا کہ اس کی بیوی شگفتہ نے اسے اس حال تک پہنچایا تھا ۔

اور اپنے بھانجے کو تذبذب پاکر شفقت نے بڑی چالاکی کے ساتھ اپنے بھانجے ناصر سے کہا ۔ “انسپکٹر صاحب کو صاف صاف بتا دے کیونکہ یہ بات چھپ نہیں سکتی ، اس طرح ہم مزید مصیبت میں نہ پڑجائیں شگفتہ کاکیاقصور                 ؟ یہ تو اس آسیب کی کارستانی ہے ۔

ساده لوح ناصر اپنے ماموں کی باتوں میں آ گیا اور اس نے سب انسپکٹر کو ساری بات سچ سچ بتادی کہ کس طرح اچانک اس کی بیوی شگفتہ نے اسے زخمی کر ڈالا تھا ۔

لیکن انسپکٹر صاحب                   ! اس میں میری بیوی کا کوئی قصور نہیں ہے ، وہ بے چاری کسی آسیب کا شکار ہے ۔

ساری بات بتانے کے بعد ناصر نے شگفتہ کا دفاع کرنا چاہا ۔ سب انسپکٹر جس کا نام بشیر علی تھا “طنزیہ لہجے میں بولا ۔ ” ناصر              ! تمہاری بیوی پر کوئی آسیب واسیب نہیں ہے ، وہ پاگل ہے ، اسے اگر بہت پہلے تیمور صاحب پاگل خانے میں داخل کروا دیتے تو نہ اس کی ماں مرتی ، نہ اس کا بھائی ساجد اندھا ہوتا اور نہ ہی خود تیمور صاحب ہلاک ہوتے ۔

“ ک           کیا              ؟ انکل              ؟ کیا ہوا نہیں                ؟ناصر یکلخت ہراساں ہے میں بولا ۔

شفقت اور شمس الدین نے پہلے ہی سب انسپکٹر بشیرعلی کو ساری پٹی پڑھادی تھی اس لئے وہ کوئی جواب دیئے بغیر ناصر کا بیان لینے کے بعد چلا گیا ۔

بعد میں ناصر کو پتہ چلا کہ تیمور کا انتقال کیسے ہوا تھا ۔

اور شفقت کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہو چکا تھا کہ اس کا بھانجا ناصر ، شگفتہ کو کسی بھی صورت طلاق نہیں دے گا کیونکہ وہ اس سے بے اندازہ محبت کرتا تھا ، لہذا اس نے ایک دوسرا طریقہ اپنایا !! –

وہ شگفتہ کو پاگل خانے بھیجنے کی تیاری کر چکا تھا اور ناصر اس حقیقت سے لاعلم تھا ۔

ناصر کو ڈسچارج کردیا گیا تھا تاہم ڈاکٹر نے اسے پندرہ دن آرام کرنے کی تاکید کردی تھی اور سولہویں روز ٹانکے کھلوانے بلوایا تھا   ،۔

شفقت اپنے بھانجے ناصر کو اندھیری کوٹھی میں لے جانے کی بجائے اپنے گھر لے آیا تھا اور پھر وہ اسی وقت اندھیری کوٹھی جا پہنچا تھا ۔

شگفتہ اپنے نابینا بھائی ساجد کے ساتھ واپس اندھیری کوٹھی آگئی تھی ۔

شفقت نے دونوں بہن ، بھائیوں سے پہلے رسما تیمور صاحب کی اندوہناک موت کا ، افسوس کیا پھر سپاٹ لہجے میں شگفتہ سے بولا ” بیٹی میں تم سے ایک درخواست کرنے آیا تھا ۔

میں سمجھتا ہوں ناصر نے تم سے شادی کر کے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی تھی اور اب اسے اپنی ضد کی سزامل چکی ہے شکر ہے کہ وہ تمہارے ہاتھوں مرتے مرتے بچا ۔

انکل ! آپ کہنا کیا چاہتے ہیں ؟شگفتہ نے قدرے بیزاری سے پوچھا ۔

اس وقت اس کا بھائی ساجد بھی اپنی بہن شگفتہ کے قریب ہی بیٹھا تھا ۔

شفقت نے ہولےسے کھنکھار کر فوراً ہی مطلب کی بات پر آتے ہوئے کہا ۔

میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ تم ناصر کا پیچھا چھوڑ دو ‘ اس کی بات سن کر شگفتہ نے بھی تلخی سے کہا مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے اس کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا ۔

“ ان کی بات پر ساجد نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا ۔”شگفتہ تم کیا کہہ رہی ہو ؟وہ تمہارا شوہر ہے ۔

“ پھر وہ شفقت سے مخاطب ہو کر بولا ” انکل ! آپ ایسی باتیں مت کریں ، ناصرنے میری بہن سے اپنی مرضی سے شادی کی ہے ، آپ کون ہوتے ہیں دونوں کو جدا کرنے والے ؟

نه چاہتے ہوئے بھی ساجد کے لہجے میں تلخی عود کر آئی تھی ۔

شفقت نے اس کی بات کا برا مناتے ہوئے کہا ۔ ” تم آنکھوں سے ہی نہیں بلکہ عقل کے بھی اندھے ہو ، کیاتم اپنی پاگل اور جنونی بہن کے بارے میں نہیں جانتے ؟ جس نے پہلے تمہاری ماں کوقتل کیا اور اب میرے بھانجے کو بھی قتل کرنے لگی تھی ۔

شگفتہ کو اس کی باتوں سے سخت طیش آگیا وہ شفقت کو غصیلی نظروں سے گھورتی ہوئی بولی                ۔ شفقت صاحب ! آپ فورا یہاں سے نکل جائیں ” ۔

ٹھیک ہے ، میں دیکھ لوں گا تم دونوں کو” شگفتہ کو بھی غصہ آگیا اور وہ دھمکی دینے والے انداز میں اٹھ کر چلا آیا ۔

گھر پہنچا تو ناصر نے سب سے پہلے اپنے ماموں سے اپنی بیوی شگفتہ کے بارے میں پوچھا ۔ ” ماموں شگفتہ کہاں ہے ؟ وہ نہیں آئی ابھی تک؟        

وہ اب کھبی نہیں آئے گی تم اسے اب بھول جاؤ ” شفقت نے سرد لہجے میں کہا ۔

ناصر کو اس کی بات پر یقین نہیں آیا ۔ وہ ایک دم پریشان ہو کر بولا ” ماموں                       یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ، شگفتہ میری بیوی ہے ، وہ مجھے چھوڑ نہیں سکتی ، میں خود جا کر اس سے لاؤں گا ۔

“ وہ بستر سے اٹھنے لگا تو شفقت نے اسے منع کرتے ہوئے سفید جھوٹ بولا ” میری بات تو سنو پہلے ، میں اسے لینے گیا تھا اس نے یہاں آنے سے انکار کر دیا ۔

نہیں           ! وہ انکار نہیں کر سکتی ، اس نے مجھ سے شادی کی ہے ، میں اس سے محبت کرتا ہوں             ناصرروہانسا ہو گیا ۔

، شفقت جانتا تھا کہ شگفتہ نے اپنے مرحوم باپ تیمور کے دباؤ میں آ کر ناصر سے شادی کی تھی لیکن وہ اس بات سے پریشان تھا کہ اس کا کماؤ پوت بھانجا جو اس کہ بڑھاپے کا واحد سہارا تھا کسی صورت بھی شگفتہ کا خیال اپنے دل سے نہیں نکال سکتا لہذا اس نے بڑی مکاری سے کہا ۔

” ناصر                     تو ابھی آرام کر تیرے سر کے ٹانکے کھل نہ جائیں ، میں دوبارہ اندھیری کوٹھی جا کر شگفتہ کو ایک بار پھر منانے کی کوشش کرتا ہوں ۔

نہیں ماموں میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گا ، مجھے یقین ہے وو میرے ساتھ چلی آئے گی ۔ ناصر نے بے چینی سے کہا ۔

شفقت نے اسے پچکارتے ہوئے کہا ۔ ” دیکھو بیٹا ! تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے ، میں نے کہا نا تم فکر مت کرو ، میں اسے سمجھا بجھا کر لے آؤں گا ، اسے آنا پڑے گا کیونکہ وہ تمہاری بیوی ہے ‘۔

‘ ماموں کی مکاری پر ناصر نے مجبوراًچپ سادھ لی    ۔

شفقت تو ویسے بھی اس منحوس کوٹھی کا رخ نہیں کرنا چاہتا تھا اس لئے وہ وہاں جانے کی بجائے متعلقہ تھانےجا پہنچا اور انسپکٹر بشیر علی کے کان بھرنے لگا۔==========

اندھیری کوٹھی میں اب دونوں بہن ، بھائی اکیلے رہ گئے تھے ، ان کی بڑی بہن فائزه دوسرے شہر بیاہی ہوئی تھی ، وہ اپنے شوہر عثمان کےساتھ انہیں اپنے ساتھ لے جانا چاہتی تھی مگر یہ دونوں نہیں مانے تھے ۔ اگرچہ اس انکار میں زیادہ دخل شگفتہ کا ہی تھا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ وہ اپنی بڑی بہن فائزہ کو ایک مرتبہ بری طرح زخمی کر چکی ہےحتی کہ اس بچاری کی شادی بھی کھٹائی میں پڑ گئی تھی اس لئے وہ نہیں چاہتی تھی کہ دوبارہ کسی کے لیے مصیبت بنے جبکہ ساجد بھی اپنی مصیبتوں کی ماری بہن شگفتہ کو چھوڑنانہیں چاہتا تھا ، اس کی کوشش تھی کہ کسی طرح شگفتہ اپنے شوہر ناصر کے پاس چلی جائے مگر شگفتہ اپنے نابینا بھائی کو تنہا چھوڑنے پر رضامند نہ تھی ۔

دونوں بہن ، بھائی اس وقت بہت پریشان تھے اور یتیم ہونے کے بعد تو وہ اور بھی ہراساں سے ہو گئے تھے مگر انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا تھا ، یوں دونوں نے ایک دوسرے کا سہارا بن کر اس شیطانی مخلوق کو نیست و نابود کرنے کا عزم کر رکھا تھا ۔

ساجد میرا خیال ہے اب ہمیں اس منحوس کوٹھی کو خیر باد کہہ کے اپنے پرانے مکان میں شفٹ ہوجانا چاہیے “شگفتہ نے کسی خیال کے تحت بھائی سے کہا ۔

ساجد بھی اب انہی خطوط پرسوچ رہا تھا ، وہ گومگو سے لہجے میں بولا ” دل تو میرا بھی یہاں رہنے کو نہیں چاہتا شگفتہ            !! لیکن ابوکی نیت یہی تھی کہ اگر اس شیطانی مخلوق کو فنا کے گھاٹ اتارنا ہے تو ہمیں ادھر ہی مستقل ڈیرہ جمانا ہوگا ، کیا تم بھول گئیں ٹاہلی والے بابا کو              در حقیقت انہوں نے ہی تو ابو کو اس بات کی تلقین کی تھی ۔

مگر بھیا               !! اب ہم دونوں اس شیطانی مخلوق سے بھلا کس طرح مقابلہ کر سکتے ہیں ؟ ‘ ‘ شگفتہ نے قدرے پریشانی سے کہا۔

ساجد بھی سوچتے ہوئے بولا ۔ میرا خیال ہے ہمیں ٹاہلی والے بابا سے جا کر ملنا ہوگا اور انہیں تازہ ترین صورت حال سے آگاہ کرنا ہوگا ، وہ ضرور ہماری مدد کریں گے ۔

انہوں نے اب تک کیا کیا ہے ؟ الٹا ہمارے ابو        ؟ شگفتہ کا لہجہ رندھ گیا ۔ ساجد نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا ۔ ” دیکھو بہن ! ہمت نہ ہارو ، اللہ ہماری ضرور مدد کرے گا اور یہ بھی تو سوچو ابو کے انتقال کے بعد ہماری کفالت کس طرح ہوگی ؟ ہمارے پرانے وہ ان سے کرایا جاتا ہے تو گزر بسر ہوتی رہتی ہے ، اگر ہم وہاں شفٹ ہو جائیں گے تو آمدنی کا ہ لگا بندھا سلسلہ بھی ٹوٹ جائے گا اور پھر کوٹھی بھی اب ہماری ملکیت ہے بھلا یہاں کون کرائے پر رہے گا ۔

تو کیا ہم پھر اپنی جانوں سے ہاتھ بیٹھیں ؟ بھائی تم نے دیکھا نہیں یہاں آ کر بھی ہم اس شیطانی مخلوق کے شر سے محفوظ نہ رہ پائے ۔

شگفتہ نے رقت آمیز لہجے میں کہا ۔

شگفتہ اس میں تمہاری ہی غلطی ہے ، ہم نے آج تک ایک اہم بات پر غور کیا ہی نہیں ہے ۔ ساجد نے پر خیال لہجے میں کہا ۔ شگفتہ چونک کر بولی ۔ کون سی بات                          ؟؟

دیکھو ، میں نے آج تک پیش آنے والے ان سارے پراسرار واقعات کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لیا ہے بالآخر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ بدروح اپنے اندر اتنی طاقت نہیں رکھتی جتنی کہ اس کی دہشت ہے ، وہ اچانک گھر کے کسی قریبی فرد کے روپ میں اپنے بھیانک چہرے کے ساتھ نمودار ہو جاتی ہے اور تم پر غیرارادی اور فوری ردعمل کے تحت خوف آمیز خون چڑھ جاتا ہے اورتم اس بدروح پر فطری ردعمل کے تحت فورأ حملہ کر دیتی ہو   “میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگرتم ایسے موقع پرخود پر اور اپنے اعصاب پرقابو رکھو پھر دیکھتے ہیں وہ کیا کرتی ہے ۔

ساجد کی بات شگفتہ کے دل کو لگی تھی چنانچہ اس نے تائیداکہا ۔ ” شاید تم ٹھیک کہتے ہو بھائی              لل                               لیکن میں کیا کروں بھائی              ؟ اصل بات یہ ہے کہ پہلے میں اسے دیکھ کر خوف زدہ ہو جایا کرتی تھی مگر اب ایسا نہیں ہوتا ، اب جب بھی اس بھیانک مخلوق کا چہرہ اچانک میرے سامنے آتا ہے تو میرے اندر خوف سے زیادہ طیش آمیز جنونی کیفیت طاری ہونے لگتی ہیں اور بے اختیار میرا دل چاہتا ہے کہ اس پر حملہ کر دوں ۔

” یہی تو وہ بدروح چاہتی ہے کہ تم جنون میں آ کر اس پر حملہ کر دو اور وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوتی رہے ۔ ‘ ‘ ساجد نے یک دم کہا ، پھر اسے یاد دلاتے ہوئے مزید بولا تم ذرا ابتدائی حالات پر غور کرو ، سب سے پہلے تم نے فائزہ باجی پر اسی طرح حملہ کیا تھا اور ان کا چہرہ بگاڑ ڈالا تھا ، اس کے بعد جب وہ بدروح اپنے اصل بھیانک چہرے میں امی جان کے روپ میں ظاہر ہوئی تو تم نے ان کے پیٹ میں چھری اتار دی ، اس کے بعد اپنے شوہر ناصر                  !!

بس کرو بھائی                    ! خدا کے لیے بس کرو ، مجھے اب ہول آتا ہے ان ساری باتوں کویاد کرت ہوئے شگفتہ روہانسے لہجے میں قدرے چلا کر بولی اور ساجد اپنا دل مسوس کر رہ گیا ۔

ذرا دیر گزری کہ کال بیل بجی ۔ میں دیکھتی ہوں ۔ یہ کہہ کر شگفتہ اٹھنےلگی ساجد بھی اٹھ کھڑا ہوا ۔ میں بھی چلتا ہوں ۔ دونوں بہن ، بھائی باج گیٹ بینک آئے ۔ کون ہے ؟

‘شگفتہ نے گیٹ کے قریب آ کر قدرے بلند آواز سے کہا ۔ دروازہ کھولو بی بی                       باہر پولیس کھڑی ہے ۔ ایک کرخت آواز ابھری اور دونوں بہن ، بھائی پریشان سے ہو گئے ۔

ساجد دیکھ تو نہیں سکتا تھا مگر انسپکٹر بشیرعلی کی آواز سن لی تھی       یہ                یہ                   یہ                         آپ میری بہن کو کس جرم میں گرفتار کر رہے ہیں ۔ اس نے پرتشویش لہجے میں پوچھا ۔

انسپکٹر نے طنزیہ لہجے میں کہا ۔ ” بڑے بھولے بادشاہ بن رہے ہو جیسے آپ جانتے ہی نہیں کیا حالت کردی تمہاری بہن نے اپنے شوہر کی    بےچارہ مرتے مرتے بچا ہے ۔

لل        لیکن انسپکٹر صاحب                    وہ ایک انتہائی ردعمل تھا ، ناصرتو ساری حقیقت جانتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا تھا اور ویسے بھی اس نے شگفتہ کے خلاف تو کوئی بیان نہیں دیا تھا نہ ہی پرچہ کٹوایا ۔

‘ ‘ اس نے تو نہیں کٹوایا پر اس کے ماموں شفقت نے پرچہ کٹوایا ہے اور محلے والے بھی یہی چاہتے ہیں کہ تمہاری اس پاگل بہن کو فوراً پاگل خانے داخل کرا دیا جائے جہاں اس کا علاج ہو سکے ، بے فکر رہو اسے کوئی سزا نہیں ہوگی   ،،یہ کہ کر اس نے لیڈیز پولیس کو اشارہ کیا ۔

انہوں نے شگفتہ کو پولیس وین میں سوار کر دیا ۔

ساجد بے چارہ چیختا چلاتا رہ گیا مگر پولیس وین جا چکی تھی ۔

ساجد اپنی لاٹھی سمبھالےکوٹھی سے نکلا اور سیدھا ناصر کے گھر پر پہنچا ۔

اس وقت دکان پراس کا ماموں شفقت بیٹھا تھا ، اس نے ساجد کو دیکھ کر برا سا منہ بنا یا پھر اسے آواز دے کر بولا کیا بات ہے              ؟

و    وہ                       پپ           پولیس میری بہن کو گرفتار کر کے لے گئی ہے ۔ ساجد نے روہانسے لہجے میں کہا ۔

تو اچھا ہوا ، اس میں تمہارا بھی فائدہ ہے ورنہ اب اپنے باپ کے بعد تمہاری باری آنا تھی ۔ شفقت نے طنزیہ کہا ۔

ساجد دل مسوس کر رہ گیا اور ملتجیانہ لہجے میں بولا ” خدا کے لیے ہماری مدد کرو، میری بہن بےقصور ہے ، وہ مر جائے گی ۔

پولیس اسے کوئی سزا نہیں دے گی صرف پاگل خانے لے جائے گی جو اس کا اصل ٹھکانہ ہے ، یہ کام اگر تیمور صاحب اپنی زندگی میں پہلے ہی کر لیتے تو آج زندہ ہوتے ۔ “ شفقت نے بے رحمی سے کہا ۔

ساجد غم وغصے کے مارے چیخ پڑا ۔ شفقت صاحب ! اللہ کے عذاب سے ڈرو ، مجھے ناصر سے ملنے دو ، میں اس سے بات کرنا چاہتا ہوں ۔ ‘

‘ ادھر اندر ناصر صحن میں بچھی چارپائی پر لیٹا ہوا تھا ، اس نے ساجد کی آواز سنی تو بمشکل چارپائی سے اٹھا اور باہر آ گیا ۔

ساجد کو دیکھتے ہی وہ اس کی جانب لپکا اور پریشانی سے بولا کیا ہوا ساجد تم یہاں           ؟ اپنے بہنوئی ناصر کی آواز سن کر اس نے اسے ساری بات بتادی –

ناصر نے جب یہ سنا کہ اس کی محبوب بیوی شگفتہ کو پولیس گرفتار کر کے لے گئی ہے اور وہ بھی اس کے ماموں اور محلے والوں کی کہنے پرتو وہ غصے سے سرخ ہوگیا ۔

پھر وہ ایک ناگوار سی نظر اپنے ماموں پر ڈالتے ہوئے ساجد کوتسلی دے کر بولا تم فکر نہ کرو ساجد                                    ! تم آؤ میرے ساتھ میں ابھی تھانے چلتا ہوں اور دیکھتا ہوں پولیس شگفتہ کا کیا بگاڑتی ہے ۔

شگفتہ کی حالت بہت غیر ہورہی تھی ، اسے تھانے لاکر کاک اپ کردیا گیا تھا لیکن شگفتہ کو خود سے زیادہ اپنے بھائی ساجد کی فکر ہورہی تھی کیونکہ وہ نابینا تھا ۔ شگفتہ نے لاک اپ میں چیخنا چلانا شروع کر دیا مگر وہاں اس کی دادفریاد سنے والا کوئی نہ تھا ۔

سب بہرے بن گئے تھے ، پاگل خانے بھیجے جانے کے تصور سے ہی اسے ہول آرہاتھا اور وہ سچ مچ پاگل ہورہی تھی ، بالآخر چیخ چیخ کر نڈھال ہوگئی اور اس کا گلا بیٹھ گیا، ناچارہ وہ سلین زدہ دیوارسے لگ کر بیٹھ گئی ۔

ادھر ناصر اور ساجد تھانے پہنچے ۔

انسپکٹر بشیرعلی نے خشمگیں نظروں سے دونوں کی طرف دیکھا ۔

انسپکڑ صاحب                                  ! آپ نے میری بیوی شگفتہ کو کس جرم میں گرفتار کیا ہے ؟‘‘ ناصرنے انسپکٹر شیر علی کی خشمناک نظروں سے مرعوب ہوئے بغیر کہا ۔ شگفتہ کی محبت نے اسے نڈر بنادیا تھا ۔ اس کے سوال پر انسپکٹر بشیرعلی اپنی ابھری ہوئی توند کو سمبھالتا ہوا اٹھا اور ہاتھ میں پکڑے سیاہ رول کو اس کے قریب پہنچتے ہوئے سر پر بندھی پٹی پر رکھ کر استہزائیہ انداز میں بولا ” اس جرم میں جوتمہاری پیشانی سے ظاہر ہے ۔

“ لیکن اس میں شگفتہ کا کوئی قصور نہیں ، میں اس کی ضمانت دیتا ہوں ‘ ‘ ناصر بے خوفی سے بولا ۔

پر شیر علی نے کرخت لہجے میں کہا ۔ تمہاری ضمانت نہیں چل سکتی ، تمہارے ماموں اور محلے والوں نے یہ رپورٹ لکھوائی ہے کہ اس پاگل اور جنونی لڑکی کو فوراً گرفتار کر کے پاگل خانے بھیج دیا جائے ۔

“ ” میں اس کا شوہر ہوں ، میں خود اس کا علاج کرواؤں گا ، آپ اسے چھوڑ دیں ۔ ناصر نے احتجاج کیا ۔

مگر انسپکٹر بشیر علی اپنی بات پر اڑا رہاساجد نے بھی اس کی منت سماجت کی مگر وہ سنگدل اپنی ہٹ پر قائم رہا ۔

ناصر اور ساجد اس گھمبیر صورتحال پر پریشان ہو گئے ، انہوں نے اس کو دھمکی بھی دی کہ وہ عدالت میں جائیں گے مگر پھر بھی اس پر ذرا بھی اثر نہ ہوا ۔

بالا خر ناصر نے شگفتہ سے ملاقات کرنے کی درخواست کی جو مان لی گئی ۔ پھر جب ناصر اور ساجد کولاک آپ تک لایا گیا تو ناصر اپنی محبوب بیوی شگفتہ کی حالت زار دیکھ کر دل مسوس کر رہ گیا ۔

شگفتہ اسے اور اپنے بھائی کو دیکھ کر فوراً لپکی ۔

پھر سلاخ دار دروازے پر آکر ناصر سے روہانے لہجے میں بولی ۔ ناصر           م          م             مجھے یہاں سے نکال لو                                       یہ لوگ مجھے پپ           پاگل خانے میں داخل کرنا چاہتے ہیں ، میں تو میں تو جیتے جی مر جاؤں گی ۔

ووروری تھی ۔

ناصر اپنی محبوب بیوی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر پاگل سا ہو گیا ، دکھ اور کرب کی اذیت ناک لہر نے اسے تڑپا کر رکھ دیا پھر وہ اسے تسلی دیتے ہوئے بولا ۔ ”شگفتہ تم بالکل پریشان مت ہونا ، میں عدالت جاؤں گا اور تمہیں ضرور رہائی دلاؤں گا ۔

“شگفتہ کو اپنے شوہر کی بات پرڈھارس تو ہوئی لیکن پھر اپنے نابینا بھائی ساجد کی طرف دیکھ کر کہا لیکن              ناصر ، ساجد کا کیا بنے گا ؟یہ بے چارہ تو دیکھ بھی نہیں سکتا میرے بغیر       ۔!

شگفتہ              اتم میری فکر مت کرو ، میرا اللہ مالک ہے ۔ ‘ ‘ ساجد نے اسے تسلی دی ۔

ناصر ،شگفتہ کے آنسوؤں سے لبریز چہرے کو محبت پاش نظروں سے دیکھتے ہوئے اس کے سلاخوں پر رکھے ہاتھوں کو پیار سے تھامتے ہوئے بولا ” شگفتہ اتم ساجد کی فکر نہ کرو ، میں اس کے ساتھ ہوں ، میرا یقین کرو میں تمہیں یہاں سے نکال رہوں گا ، اس مصیبت کے وقت میں تم دونوں کو تنہا نہیں چھوڑوں گا ، میرا تم سے وعدہ ہے ۔

شوہر کی بات نے شگفتہ کا دل پگھلا کر رکھ دیا ، اسے اب اپنے رویے پر شرمندگی ہونے گی جواس نے اب تک اس کے ساتھ روا رکھا تھا ، آج اسے احساس ہورہا تھا کہ ناصر واقعی اس سےسچی محبت کرتا ہے ، تعلیم یافتہ نہ سہی لیکن ایک وفا شعار بہادر اور سچی محبت کرنے والا ساتھی اور ہمدم ثابت ہوا تھا ، آج پہلی بار اس کے دل میں بھی اپنے شوہر کے لیے محبت کا دیا روشن ہوتا محسوس ہوا تھا چنانچہ وہ نگاہیں جھکا کر ناصر سے مغموم لہجے میں بولی ۔

ناصر          ت          تم         مم                                     م                      مجھے معاف کر دینا ہم میں نے تمہیں ہمیشہ غلط سمجھا۔

“ ناصر کا دل خوشی سے بلیوں اچھلنے لگا ، اس کے بعد وہ دونوں اسے تسلی دے کر واپس چلے آئے ۔

اندھیری کوٹھی پہنچ کر دونوں نے سر جوڑ کر یہ پروگرام بنایا کہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے ۔

ساجد کی اس بارے میں یہ رائے تھی کہ عدالت کا معاملہ ذرا لمبا پڑ جائے گا البتہ اگرکسی بڑے اور ذمہ دار پولیس افسر سے ملاقات کی جائے تو زیادہ بہتر ہوگا ۔یہ تجویز ناصر کو پسند آئی ۔

وہ رات دونوں دوستوں نے ساتھ گزارنے کا ارادہ کیا ۔ ناصر کو اپنے ماموں شفقت سے نفرت ہوگئی کیونکہ وہ جان چکا تھا کہ یہ سب اسی کی وجہ سے ہوا تھا یہی سبب تھا کہ جب شام گئےتک ناصر گھر نہ پہنچا تو شفقت کا ماتھا ٹھنکا ۔ بھانجے سے اس کی محبت اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ تھی کہ وہ ناصر کو اپنے بڑھاپے کا سہارا سمجھتا تھا ، دکان بھی تقریباً وہی سمبھالتا تھا ، بھانجے کے سوا اور اس کا دنیا میں کوئی نہ تھا چنانچہ جب شام گئے ناصر نہ لوٹا تو وہ سمجھ گیا کہ اس کا بھانجا ناراض ہو کر ضرور اپنے برادرنسبتی ساجد کے ہاں چلا گیا ہو گا لہذا وہ دکان بند کر کے سیدھا اندھیری کوٹھی جا پہنچا لیکن ناصر نے اس کے ساتھ جانے سے صاف انکار کر دیا ۔

شفقت نے اس کی بہت منت سماجت کی لیکن ناصر نہ مانا اب اس نے یہ شرط رکھی کہ جب تک شگفتہ رہا نہیں ہو جاتی ، وہ اس کے ساتھ گھر نہیں جائے گا ۔ ناچار شفقت کو اکیلے ہی لوٹنا پڑا ۔ شفقت نے سوچا کہ ابھی نیانیا جوش ہے بعد میں خودی گھر آ جائے گا ۔

ناصر اور ساجد ایک ہی کمرے میں سوئے ہوئے تھے ، ان پریشان کن حالات میں دونوں کی بھی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی ،شگفتہ کی پریشانی اپنی جگہ تھی لیکن جیسے جیسے رات گہری اور تاریک ہونے لگی تھی ، ان کے اندر نہ جانے خوف نے بھی سر اٹھانا شروع کر دیا تھا ، دونوں الگ الگ بستروں پر دراز تھے ۔

رات دبے پاؤں سرک رہی تھی ، ہر سو خاموشی کا راج تھا ، دم بخود سا ماحول دھڑکتا ہوا محسوس ہورہا تھا ، کمرے میں زیرو پاور کا بلب روشن تھا ۔

نہ جانے کب ناصر کی آنکھ لگ گئی اور گہری نیند میں ڈوب گیا جبکہ ساجد کو ابھی تک نیند کا ہلکا سا جھونکا بھی نہیں آیا تھا ۔

اس کی بےنور آنکھیں کھلی ہوئی تھیں ، اچانک نہ جانے کیوں اس کا دل یکبارگی کہ انجانےخوف سے دھڑکا اور وہ اپنے اندر ایک عجیب و غریب قسم کی بےچینی محسوس کرنے لگا ، اس نے لیٹے لیٹے ہولے سے ناصر کو پکار مگر جواب نہ ملا تو وہ سمجھ گیا کہ ناصر گہری نیند میں ڈوب چکا ہے ۔

معا ہلکی سی آہٹ ابھری، وہ ٹھٹھکا پھر کسی کہ قدموں کی ہلکی سی چاپ ابھری ، اسے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی اس کی چارپائی کے قریب آ رہا ہو ۔

کک                                     کون               ؟ ‘‘اسے ناصر کی آواز سنائی دی ۔

وہ حیران ہوا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی اس نے ناصرکو پکارا تھا پھر اسے فوراً خیال آیا کہ ہوسکتا ہے ناصر اس وقت پانی وغیرہ پینے کے لیے کمرے سے باہر گیا ہو بہر طوراس نے لیٹے لیٹے پوچھا ۔ ” تم کہاں گئے تھے ؟ واش روم گیا تھا ‘ ‘ سے ناصر کی آواز سنائی دی ۔

جانے کیور اسے ناصر کا لہجہ بدلا بدلا سا محسوس ہونے لگا پھر دوبارہ ناصر کی آواز سنائی دی ۔ “

آؤساجد             زرا اوپر چل کر بالکونی میں ٹہلتے ہیں ، یہاں گھٹن محسوس ہورہی ہے ۔ کم بخت نیند بھی تو نہیں آرہی، زرا دل بہل جائے گا تو آکر سونے کی کوشش کریں گے ۔

ساجد اس کی بات سن کر اٹھ کھڑا ہوا ۔ اگر ساجد دیکھنے کے قابل ہوتا تو اسے ناصر کی بجائے ایک بے ربط سا سایہ فضا میں لہراتا ہوا نظر آتا اور دوسرے بستر پر گہری نیند سویا ہوا ناصر بھی دکھائی دے جاتا ۔ فضا میں معلق اس پر اسرار ہیولے کا چہرہ کسی تیز واٹ کے بلب کی طرح روشن تھا جو انتہائی مکروہ اور ڈراونا تھا ، یہ اس بدروح کا خوفناک چہرہ تھا جو اس کے خاندان کی ازلی اور جانی دشمن تھی مگر ساجد بے چاروتو خود نابینا تھا ، وہ بدروح کے دھوکے میں آ گیا ، وہ کمرے سے باہر آگیا ۔

وہ بدروح ناصر کی آواز میں بدستور ساجد سے باتیں کرتے ہوئے اس کے ہم رکاب تھی ، وہ اس طرح اسے راہ سجھاتی ہوئی اپنے پیچھے آنے پر مجبور کر رہی تھی ، ادھر ساجد کو اس بات پر حیرت بھی ہورہی تھی کہ آخر ناصر اسے سہارا دینے کی کوشش کیوں نہیں کر رہا ۔

تب اسے ناصر کی آواز سنائی دی ۔ ساجد                    میری آواز پر چلتے رہو ، در حقیقت میں چاہتا ہوں کہ تم بغیر سہارے کے بھی چلنے کی کوشش کرو ‘ ‘    

ساجد اس کی بات پر بے اختیار مسکرا دیا ۔ وہ بدروح ، ساجد کو لئے جب خاصی بلندی پر پہنچی تو ساجد نہیں جان سکا تھا کہ اس بالکونی کا زینہ آگے سے اکھڑ ا ہوا تھا اور اس کی جگہ نیچے تاریک خلا تھا ۔

نابینا ساجد دھیرے دھیرے زینے چڑھتا ہوا جب اس تاریک خلا میں اپنا پاؤں رکھنے لگا تو اچانک اسے عقب میں نیچے سے ناصر کی تیز چلاتی ہوئی آواز سنائی دی ۔

” ساجد                 رک جا آگے قدم مت بڑھانا زینہ ٹوٹا ہوا ہے ورنہ نییچےگر جاؤ گے ۔

“ ساجد اس آواز پر دم بخود رہ گیا اور فوراً ہی رک گیا ، اسے حیرت ہوئی کہ ناصر تو اس کے آگے آگے زینے طے کر رہا تھا پھر نیچے سے ناصر نے کس طرح اسے پکارا تھا ۔

حقیقت یہ تھی کہ ناصر کی اتفاق سے کیس کھٹکے پر آنکھ کھل گئی تھی ، وہ جاگا تو اس نے ساجد کو بستر پر نہیں پایا ، وہ جلدی سے اٹھ کر کمرے سے باہر آیا تو یہ دیکھ دہل گیا کہ ساجد بالکونی کا ایک ایسا زینہ طے کر رہا تھا جو اوپر سے ٹوٹا ہوا تھا ۔ اگر ناصر اسے بروقت آواز دے کر ہوشیار نہ کر دیتا تو یقینا نابینا ساجد کافی بلندی سے نیچے جا گرتا ۔ ساجد کے رکتے ہی ناصر جلدی جلدی زینے طے کرتا ہوا اس کے قریب پہنچا اور ساجد کو تھام لیا ۔

تم کیا کر رہے تھے ساجد        ؟ کیا پاگل ہو گئے ہو ؟ “ ناصر نے اسے سرزنش کی ۔ ساجد حیرت سے بولا ۔ ” تم ہی تو مجھے یہاں تک لائے تھے ۔

کیا              ؟”” ‘ ناصر دم بخود رہ گیا اور پھر ساجد نے اسے ساری بات بتادی تھی ۔

تب ناصر نے ایک گہری سانس لے کر کہا ۔ ” الہ کا شکر ہے کہ میں بروقت پہنچ گیا ، یہ ساری کارستانی اس بدروح کی ہی ہوسکتی ہے، آؤ میرے ساتھ                         زرا سمبھل کر                         یہ کہہ کر ناصر اسے تھامے دھیرے دھیرے نیچے اترنے لگا ۔

شیطانی مخلوق کا وہ بھیانک چہرے والا پراسرارسایہ غائب ہو چکا تھا ۔ ساجد موت کے منہ میں جانے سے بال بال بچا تھا ۔

شگفتہ کے چیخنے چلانے اور منتیں سماجنتیں کرنے کے باوجود اسے پاگل خانے میں داخل کر دیا گیا تھا ، یہاں کے عبرت انگیز ماحول کو قریب سے دیکھ کر ہی الم نصیب شگفتہ کانپ اٹھی ۔

یہ جگہ اسے جیل سے زیادہ بھیانک معلوم ہورہی تھی مختلف پاگل عورتوں کے قہقہے لگانے، کھبی بین کرنے اور بآواز بلند ہنسنے کی بے ہنگم آوازوں کے شور سے اس کے دماغ کی رگیں پھٹنے کے قریب ہونے لیں ، وہ بری طرح اعصاب زدہ ہورہی تھی ، اسے پورا یقین تھا کہ اگر وہ چند روز بھی یہاں رہی تو سچ مچ پاگل ہوجائے گی ۔

پاگل خانے کی عمارت بہت سالخوردہ تھی یہی حالت اندر ہونے کابک نما کمروں کی تھی ۔ صرف عورتوں کا پاگل خانہ تھا ، یہاں ہرعمر کی پاگل عورتیں تھیں ، جوان لڑکیاں ، ادھیڑ عمر عورتیں حتیٰ کہ بوڑھیاں بھی تھیں ۔ ہر کمرے میں چار چار پاگل عورتوں کو رکھا ہوا       بلکہ ٹھوسا ہوا تھا،، پاگل خانے کی منتظمِ اعلیٰ ایک ادھیڑ عمرکی کالی اور موٹی سی عورت تھی ، یہ بڑی خرانٹ عورت تھی ، اس کا نام شمسہ بیگم تھا ، دیگر عملے میں خواتین کے علاوہ دو مرد گیٹ کیپر یعنی چوکیدار بھی تھے ۔

شگفتہ کو جس کمرے میں رہائش کا ایک “کونا”ملا تھا ، وہاں ایک جھلنگا سی چار پائی بچھی ہوئی تھی ، اس پاگل خانے میں بیشتر ذہنی مریضائیں خستہ حالت میں نظر آتی تھیں ۔

کچھ نسبتاً بہتر حالت میں اور آرام دہ کشادہ کمرے بھی تھے مگر یہاں وہ پاگل عورتیں اور لڑکیاں رہتی تھیں جو دوسری عورتوں کی طرح لاوارث نہ تھیں ، ان کے خاندان کےافراد نے” دے دلا” کر انہیں نسبتاً بہتر جگہ میسر کروادی تھی ۔

جس کمرے میں شگفتہ تھی ، اس کی حالت تو انتہائی خستہ تھی ، اس میں شگفتہ کے علاوہ تین مزید پاگل عورتیں بھی تھیں ، ان میں دوتو خاصی ادھیڑ عمر کی نخیف اور ان کی حالت بھی نہایت خستہ ہو رہی تھی ، میلے کچیلے پھٹے پرانے کپڑے ، کچھڑی سے بال ، ان کی صورتیں پڑی ڈراونی تھیں ۔ وہ دونوں ایک طرف بیٹھیں خود سے عجیب عجیب انداز میں بڑ بڑاتے ہوئے باتیں کررہی تھیں ، جبکہ تیسری عورت نسبتاً بہتر حالت میں تھی ، اس کی عمر زیادہ نہ تھی ، پنتیس کے پیٹے میں تھی ، وہ ایک کونے میں چار پائی پر خاموش بیٹھی ہوئی تھی ، اس کے نقش بھی جاذب نظر تھے اور رنگ بھی صاف تھا ،شگفتہ بغور اس کی طرف دیکھے جارہی تھی ، جانے کیوں شگفتہ کو یہ احساس ہونے لگا کہ یہ عورت پاگل ہرگز نھی ۔

وہ عورت بھی ان کی طرف خاموش نگاہوں سے دیکھے جا رہی تھی ، شگفتہ اب اپنا سر گھٹنوں میں دے کر سسک سسک کر رونے لگی تھی ۔

معا اس کے سر کو کسی نے دھیرے سے چھوا تو اس نے اپنا سراٹھا کر دیکھا ، وہی عورت اس کے قریب کھڑی تھی ، وہ بھی اس کی طرح خاصی غم زدہ نظر آ رہی تھی ۔

مت رو بیٹی                          کیا فائده اپنی جان ہلکان کرنے کا ۔ وہ بڑی ملائمت سے بولی ۔

شگفتہ اپنا دکھ بھول کر حیرت زدہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھنے لگی ۔ اس عورت کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی اور آنکھوں میں ہمدردی کی چمک                          وہ اس کے قریب چار پائی پر بیٹھ گئی ۔

آآ              آپ شگفتہ اٹکتے ہوئے کہتے کہتے رکی ۔

وہ عورت اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے دھیرے سے بولی۔

ہاں مجھے بھی تمہاری طرح زبردستی یہاں پاگل خانے بھیج دیا گیا ہے ۔

“ اس کی بات سن کر شگفتہ کو زر ا حوصلہ ہوا اور اس نے پوچھا         ؟

آ                آ          آپ کو کیسے علم ہوا کے میں پاگل نہیں ہوں ؟

وہ عورت عجیب سے انداز میں مسکرائی اور بولی ۔

جس طرح تمہیں میرے بارے میں اندازہ ہوا ۔

میں نے تو آپ سے کچھ نہیں کہا کہ آپ          شگفتہ کچھ کہتے کہتے رک گئی پھر جانے کیوں خفت سے انداز میں مسکرادی ۔

میرا نام زینت ہے تمہارانام                    ؟ ‘ وہ عورت اپنانام بتاتے ہوئے مستفر ہوئی ۔

“شگفتہ        شگفتہ ناصر “

شادی شدہ ہو ؟ “ ہاں                                ؟

‘‘” ناصر نام ہے اس کا ؟

‘ ‘ ہاں           ! ؟

کیا اس نے تمہیں یہاں           ؟

نن             نہیں وہ تو بہت اچھے ہیں ، مجھ سے بڑی محبت کرتے ہیں ۔ “شگفتہ یک دم بولی ۔

تو پھر تم یہاں کیسے ؟ اچھی بھلی ہو          ۔

اس کی بات سن کر شگفتہ نےایک دردانگیز آہ بھری اور مغموم لہجے میں بولی ۔ ” یہ بہت لمبی کہانی ہے کیا کروگی سن کر    ۔

اپنا دکھ کہہ دینے سے اندر کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے ، میں بھی تمہیں اپنی دردناک کہانی سناؤں گی ۔ “ وہ عورت جس نے اپنا نام زینت بنایا تھا ، بولی ۔

لیکن تم خود کو سنبھالو تو سہی ، اسطرح اگر حوصلہ ہار بیٹھوگی تو گھٹ گھٹ کر مر جاؤ گی ، مجھے دیکھو پورے چھ ماہ سے یہاں قید ہوں، دکھ تو ہوتا ہے لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری ، جب میرے بچوں نے مجھے زبردستی یہاں داخل کروایا تھا تو مجھے ایسا لگتا تھا جیسے میں ایک پل بھی یہاں زندہ نہیں رہ پاؤں گی مگر پھر میں نے سارے دکھ درد کو بالائے طاق رکھ دیا اور سوچا کہ یہی تو میری جان کے دشمن چاہتے ہیں کہ میں یہاں گھٹ گھٹ کر مر جاؤں ، تب پھر میں نے خود کو سنبھالا اور حالات کا جرأت مندی سے مقابلہ کرنے کا سوچا وہ اتنا کہ کرچپ ہو    گئی۔شگفتہ نے قدرے حیرت سے پوچھا ۔

” آپ کو آپ کی اولاد نے یہاں بھیجا ہے ؟

‘ ‘ ہاں           لیکن وہ میری اولا نہیں ہے ، میرے شوہر کے بچے ہیں    

م                             مگر       مم                   مجھے دکھ تو اس بات کا ہے کہ میں نے تو انہیں سگی ماں کی طرح پالا تھا اور کھبی سوتیلی ماں کا سا برتاؤ نہیں کیا لیکن پھر جیسے ہی میرے شوہر امان اللہ کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہوئیں تو مجھے پاگل ، جنونی اور زہنی مریض قرار دلوا کر یہاں داخل کر دیا گیا ۔زینت اپنی رو میں کہتی جارہی تھی گویا اس طرح ہار ہلکا کرنا چاہ رہی ہو ۔ لیکن اب مجھے اس غم نہیں ہوتا کیونکہ یہ سارا دولت کا چکر ہے ، مجھے یقین ہے کہ اگر ان حالات میں میری اپنی سگی اولاد بھی ہوتی تو وہ بھی یہی کرتی لیکن اب میرے دل ودماغ میں ان کے لیے نفرت بھر گئی ہے ، میں بھی انہیں ان کے مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دوں گی “ اتنا بتا کر وہ خاموش ہوگئی ۔

شگفتہ نے دیکھا اس کا چہرہ طیش اور نفرت کی آگ سے سرخ ہو گیا تھا ، آنکھوں سے چنگاریاں سی پھوٹ رہی تھیں ، پہلی بار شگفتہ کو احساس ہوا کہیں یہ واقعی پاگل تو نہیں ؟

” تم بتاؤ تمہارے ساتھ کیا ظلم ہوا تھا ؟ زینت نے اچانک خود پر قابو پاتے ہوئے شگفتہ سے پوچھا۔

پھر جب شگفتہ نے اپنی پراسرار اور دہشت ناک داستان سنائی تو زینت ،شگفتہ کی عجیب و غریب اور نا قابل یقین داستان سن کر دم بخود رہ گئی ۔

پھر لکنت زدہ لہجے میں بولی ۔

کک                              کیا واقعی تت                                        تم پر          کسی جن کا سایہ ہے ؟

ہاں لیکن صرف مجھے پرنہیں ، بلکہ                    میرے سارے خاندان کا دشمن ہوگیا ہے وہ، مجھے تو اب اپنے بھائی ساجد کی فکر ہورہی ہے ، وہ بے چارہ تو دیکھ بھی نہیں سکتا ، پتہ نہیں اس کا کیا ہوگا ؟ بھائی کے ذکر پر وہ    سسک پڑی۔

زینت اسے تسلی دیتے ہوئے بولی ۔ ’ ’ حوصلہ رکھو شگفتہ                             ! اللہ بہتر کرے گا ، تمہاری خوفناک داستان سن کر تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں ، ویسے شکر کرو رب کا تمہارا شوہر ناصر تم سے سچی محبت کرتا ہے ، وہ چین سے نہیں بیٹھے گا اور ضرور تمہیں یہاں سے نکلوا کر رہے گا۔ اتنا کہ کر وہ زرا تھمی پھر بولی ۔ میرا شوہر امان اللہ بھی مجھ سے بہت محبت کرتا تھا ، اس نے مرنے سے پہلے اپنا سب کچھ میرے نام کر دیا تھا ، اسے شاید یہ ڈر تھا کہ اس کے مرنے کے بعد سوتیلی اولاد کہیں مجھے در بدر اور خاک بسر نہ کر دے لیکن باوجود اس کے وہ چاروں اپنی سازش میں کامیاب ہو گئے ۔ آئے روز مجھے تنگ کرنے لگے ، بری طرح ستاتے تھے مجھے ، الٹے سیدھے اور گندے گندے الزامات میرے سر پرتھوپتے رہتے اور مجھے پاگل سا بناڈالا ، وہ یہی چاہتے تھے کہ میں سچ مچ پاگل ہو جاؤں اور وہ لوگ مجھے پاگل قرار دے کر یہاں بھیج دیں لیکن                                 !! وہ اتنا کہ کر رکی ۔ شگفتہ نے دیکھا ، اس کے ہونٹوں پر بڑی زہر خند سکراہٹ تھی ۔ ” وہ لوگ اب بھی پوری طرح اپنی سازش میں کامیاب نہیں ہو پائے ہیں ، ان کا وکیل مجھے زہنی مریضہ قرار دینے کے بعد میرے شوہر کی ساری دولت و جائداد ہتھیا کرمشتاق ، اظہر نعیم اور ببلی کے نام کروادے لیکن جب وہ یہاں آ کر یہ دیکھنے کے لیے آتے ہیں کہ میں واقعی پاگل اور زہنی مریضہ ہو چکی ہوں یا نہیں تو انہیں اس وقت سخت مایوسی ہوتی ہے کہ جب مجھے وہ بالکل بھلا چنگا دیکھتے ہیں ، اب وہ چاروں اس بات کے انتظار میں ہیں کہ میں اس ماحول میں رہ کر سچ مچ پاگل ہو جاؤں تا کہ مجھے عدالت کے سامنے حاضر کر کے میرے پاگل ہونے کی حتمی تصدیق کی جا سکے ۔ اس لئے اب میں خود کو سنبھالے رکھتی ہوں لیکن اس گھٹن زده ماحول میں رہتے ہوئے کھبی کبھی مجھے خوف ہوتا ہے کہ میں کہیں سچ مچ پاگل ہی نہ ہو جاؤں ۔ “ اتنا بتا کر زینت کی آنکھوں میں بھی آنسو امڈ آئے ۔ شگفتہ کو اس کی دکھ بھری داستان سن کر بہت افسوس ہوا تھا ۔

بظاہر دونوں کا مسئلہ ایک ہی تھا ، زینت کو اس کی سوتیلی اولاد اپنے مذموم مقاصد کی خاطر پاگل قرار دینے پر تلی ہوئی تھی ، جبکہ شگفتہ کے شوہر کا ماموں شفقت اسے پاگل قرار دے کر اپنے بھانجے ناصر کو اس کی زندگی سے ہمیشہ کے لیے نکالنا چاہتا تھا ۔

شگف نے پوچھا تو کیا آپ کے شوہر نے اپنا سب کچھ ہی آپ کے نام کر دیا تھا ؟

‘ ‘ ” نہیں                               ! اس نے اپنی اولادوں کے نام ان کا حصہ کردیا تھا ، مجھے بھی حصہ دیا تھا لیکن چاروں بچوں کا حصہ میری کوٹھی میں موجودگی سے مشروط رکھا تھا کیونکہ شوہر کے کاروبار اور گھر میں میرا بھی حصہ تھا ، میں کاروباربھی سنبھالتی تھی۔ “ زینت نے بتایا ۔

” پھر ان چاروں کو ایسی نہیں کرنا چاہئے تھا جبکہ ان کا حصہ انہیں مل چکا تھا ۔ “ شگفتہ بولی ۔

زینت نے زہر خند مسکراہٹ سے کہا ۔ ” وہ لالچی ہیں ، میرے حصے پر بھی ان کی نظر تھی، مجھے تو ان سے جان جانے کا خوف ہونے لگا تھا ۔

“ کمال ہے جب آپ کو اپنا حصہ مل چکا تھا تو آپ کو اپنا دفاع کرنا چاہئے تھا کوئی اچھا وکیل کرسکتی تھیں ۔

شگفتہ نے اپنی فہم وفراست کے مطابق پوچھا ۔

وہ دوستانہ انداز میں اس کا گال چھو کر شوخی سے بولی ” خاصی سمجھدار ہو، تم سے دوستی خوب نبھے گی   ،، تم نے بالکل ٹھیک کہا شگفتہ     لیکن ان چاروں نے مجھے اس قدر پریشان اور حواس باختہ کر ڈالا تھا کہ میں ان کی اصل سازش جان ہی نہ پائی تھی ، وہ چار تھے اور میں اکیلی،، روزانہ منہ ماری ہوتی ، مجھے بری طرح طعن و تشنیع کانشانہ بنایا جاتا تھا ، مجھے اس قدر زودورنج اور پریشان کر کے رکھ دیا تھا کہ مجھ پر ہسٹریائی دورے پڑنے لگے ، میں پاگلوں کی طرح چیخیں مار مار کر بے ہوش ہو جاتی ، میرے ہاتھوں ببلی ، مشتاق زخمی بھی ہوئے تھے بس پھر کیا تھا مجھے ایک دن یہاں پہنچادیا گیا ، یہاں اس سے زیادہ بدتر حالات تھے ۔ اگر میں بروقت ہوش مندی سے کام نہ لیتی تو سچ مچ پاگل ہی ہو جاتی لیکن اب میں نے ان چاروں سازشی بہن ، بھائیوں سے بدلہ لینے کا پکا تہیہ کر لیا ہے ۔ وہ اتنا بتا کر چپ ہوگئی ۔

شگفتہ نے اس کے حالات کے پس منظر میں اپنا تجربہ کیا تو اسے ذرہ برابر بھی فرق محسوس نہ ہوا ، شفقت نے بھی اس کے خلاف یہی سازش کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ اس طرح اسے پاگل خانے پہنچا کر ہمیشہ کے لیے اسے ناصر سے جدا کرنا چاہتا تھا ۔

یوں زینت اور شگفتہ جلد ہی آپس میں گھل مل گئیں ۔

زینت کا خیال تھا کہ صرف ایک بار وہ یہاں سے نکل جائے تو اپنازیادہ مؤثر طریقے سے دفاع کر سکے گی ۔ کم و بیش یہی خیال شگفتہ کا بھی تھا ۔

یوں دونوں نے ایک رات فرار ہونے کا پروگرام بنایا ۔ دوران گفتگو زینت نے شگفتہ کو ایک اور لرزہ خیز حقیقت بھی بتائی تھی جسے سن کر شگفتہ دل و جان سے کانپ اٹھی ۔ زینت نے اسے اس پاگل خانے کی ناظم اعلی کے بارے میں بتایا تھا کہ وہ بہت خرانٹ اور ظالم عورت ہے ، اس کے بڑے بڑے لوگوں سے تعلقات ہیں اور کوئی بعید نہیں کہ وہ سازشی ٹولوں سے” لین دین” بھی کرتی ہو لہذا اب یہاں سے نکلنے کا ایک یہی طریقہ ہے یعنی فرار               !!

دونوں کو اب رات کا انتظار تھا ، رات کے کھانے میں انہیں باسی روٹی اور پتلی دال دی گئی تھی گویا یہ بھی کوئی جیل خانہ ہو، شگفتہ نے تو ہاتھ تک نہ لگایا تھا ، زینت نے بھی برائے نام چند لقے زہر مار کر لئے تھے ۔

رات ٹھیک نو بجے تمام کمروں کے دروازوں کو باہر سے لاک کر دیا جا تا تھا ،جو خطرناک زہنی مریضائیں تھیں ، انہیں آہنی زنجیروں سے باندھا ہوا تھا ۔

شگفتہ کی مجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بند دروازوں سے کس طرح باہر نکلا جائے گا کیونکہ اب ان کے کمرے کا بھی دروازہ باہر سے بند کر کے لاک کردیا گیا تھا ۔

کمرے میں موجود باقی دو عورتیں بھی اپنی اپنی چارپائیوں پر سوئی ہوئی خراٹے لے رہی تھیں ، زینت کے چہرے پرمضطربانہ جوش مترشح تھا ۔

شگفتہ نے قدرے پریشانی سے سرگوشی میں زینت سے کہا ۔ ” آخر ہم کس طرح یہاں سے فرار ہوں گے کمرے کا دروازہ تو باہر سے بند ہے ؟

‘ ‘ اس کے سوال پر زینت کے ہونٹوں پر اسرار بھری مسکراہٹ ابھری اور اس نے اپنے ہونٹوں پرانگلی رکھ کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور شگفتہ نے چپ سادھ لی مگر جانے کیوں وہ بے چینی محسوس کرنے لگی ۔

رات دبے پاؤں سرک رہی تھی ، کمرے کی روشنیاں گل کر دی گئی تھیں البتہ کمرے کی سلاخ دار کھڑکی سے کوریڈور میں ہونے والی روشنی کی مدہم کرن اندر آرہی تھی ۔

اچانک دروازے پر آہٹ سن کر شگفتہ بری طرح ٹھٹکی ۔

” وہ آگئی ۔ دروازے پر ابھرنے والی آہٹ زینت نے بھی سن لی تھی اور بے اختیار اس کے منہ سے سرگوشی ابھری تھی ۔

کون آگئی                 ؟شگفتہ نے ہولے سے پوچھا ۔ ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ اچانک کمرے کا دروازہ تھوڑا ساوا ہوا اور ایک سانولی سی ادھیڑ عمرعورت اندر داخل ہوئی ۔ وہ زینت کی طرف دیکھ کر بولی ۔ جلدی نکلو                            راستہ صاف ہے ۔

“ ” آؤ شگفتہ           ! جلدی کرو ۔ “ زینت نے حیران پریشانی شگفتہ سے کہا اور پھر وہ دونوں اس عورت کے ساتھ باہرنیم تاریک کوریڈور میں آگئیں ۔

اب وہ دونوں اس سانولی عورت کے ساتھ تیز تیز قدم چلتی ہوئی پاگل خانے کی عمارت سے باہر آ گئیں ۔

باہر تاریکی تھی ، سامنے ایک ذیلی سڑک تھی ۔ گیٹ سے باہر آ کر وہ ادھیڑ عمر عورت زینت سے بولی اب میرا کام ختم مگر اپناوعدہ یاد رکھنا میں برسوں تمہارے ہاں آؤں گی ۔ “

ہاں              ہاں              بہین                             میں اپنا وعدہ پورا کروں گی ، تم پرسوں میرے ہاں آجانا ، میں تمہیں مایوس نہیں کروں گی اور تمہارا یہ احسان کبھی بھی نہیں بھولوں گی ۔ “ زینت نے اس سے ممنونیت بھرے لہجے میں کہا اور پھر زینت نے شگفتہ کا ہاتھ تھاما اور اسے لئے تیز تیز قدموں کے ساتھ آ گئے تاریکی میں چلی گئی ۔

تھوڑی دیر بعد وہ دونوں تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی مین شارع پر آ گئیں مگر سڑک دور تک ویران تھی کوئی اکا دکا ٹرک یا پرائیویٹ کار زناٹے سے گزر جاتی اور اطراف کا سکوت لحمہ بھر کو تھرا اٹھتا                             !

اب ہم کہاں جارہے ہیں ؟ شگفتہ نے پوچھا ۔وہ قدرے متوحش سی نظر آرہی تھی ۔ زینت نے جوابا کہا” اپنے گھر               !!

لیکن وہاں تو تمہاری سوتیلی اولاد دوبارہ تمہیں پاگل خانے            !!! شگفتہ نے دانستہ اپناجملہ ادھورا چھوڑ دیا ۔

زینت زہر خند مسکراہٹ سے بولی ۔ اب وہ ایسا ہرگز نہیں کر سکتے کیونکہ اب میں ان کی گھناؤنی سازش سے اچھی طرح واقف ہو چکی ہوں ۔

شگفتہ چپ رہی۔

وہ دونوں سڑک کنارے چلی جارہی تھیں ، رات اپنے نصف پہر میں داخل ہو چکی تھی ۔

شگفتہ نے پریشان ہو کر ہانپتی ہوئی آواز میں پوچھا ۔ ” تمہارا گھر کہاں ہے ؟ کیا ہم پیدل پہنچ پائیں گے ؟

گھر تو میرا دور ہے لیکن ریلوے اسٹیشن قریب ہے ، وہاں سے ضرور ہمیں کوئی ٹیکسی مل جائے گی ، کیاتم تھک گئی ہو ؟

“ زینت نے پوچھا ۔

نہیں                                     ! ایسی تو کوئی بات نہیں ۔ شگفتہ نے ہولے سے مسکرا کر کہا لیکن اسے بار بار یہ خیال پریشان کر رہا تھا کہ زینت کی سوتیلی اولاد اسے دوبا پاگل خانے والوں کے حوالے کرنے کی کوشش کرسکتی تھی ، چنانچہ اس نے تجویز دیتے ہوئے کہا ۔ ” میرا خیال ہے آپ جلد بازی سے کام لے رہی ہیں ، اگر آپ اپنے گھر جانے کی بجائے میرے ساتھ چلیں تو زیادہ بہتر ہوگا ۔

اس کی بات پر زینت نے چلتے چلتے اس کی طرف دیکھا اور رک گئی پھر چند ثانیے سوچتے ہوئے بولی بات تو تمہاری ٹھیک لگتی ہے ، دراصل مجھے صبح ایک وکیل سے ملاقات کرنا تھی ، میرا خیال ہے کہ اپنے گھر جانے سے یہی بہتر رہے گا کہ پہلے تمہارے ہاں چلا جائے پھر اس کے بعد صبح ہوتے ہی میں اپنے وکیل سے رابطہ کر کے اس سے مشورہ کروں گی۔

یہ فیصلہ کرنے کے بعد دونوں ریلوے اسٹیشن کے قریب پہنچ گئیں ، شاید کوئی ٹرین آنے والی تھی ، باہراحاطے میں چند ٹیکسیاں نظر آرہی تھیں ، زینت نے ایک ٹیکسی والے سے کرایہ طے کیا اور پھر دونوں عقبی سیٹ پر براجمان ہوگئیں ٹیکسی آگے بڑھ گئی ۔

شگفتہ نے اپنے محلے کا پتہ بتایا تھا ، نصف گھنٹے بعدٹیکسی اس کے محلے میں داخل ہوئی اور شگفتہ کے بتائے ہوئے اشارے پر ڈرائیور نے ٹیکسی اندھیری کوٹھی کے سامنے روک دی ۔

زینت کے پاس کچھ رقم تھی ، اس نے کرایہ ادا کر کے اسے فارغ کیا ۔ شگفتہ اپنے گھر آ کر بہت خوش تھی ، اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ کال بیل پرانگلی رکھ دی ، دوسری بار کال بیل بجانے پر دروازہ جس نے کھولا تھا ، اسے دیکھ کر شگفتہ خوشی کے مارے کھل اٹھی وہ ناصر تھا ، اس کا شوہر جواسے دل و جان سے چاہتا تھا ۔

شگفتہ کو اصل خوشی اس بات کی تھی کہ ناصر نے اپنے وعدے کا پاس کیا تھا اور اس کے نابینا بھائی ساجد کو تنہا نہیں چھوڑا تھا ۔

شش                                        شگفتہ                      تم اس وقت                                آؤ            آؤ ‘ ‘ وہ حیرت و خوشی کے ملے جلے تاثرات سے بولا ، پھر زینت کی طرف دیکھ کر پوچھا ۔ ” یہ خاتون کون ہیں ؟!

” اندرتو آنے دو پہلے بتائے دیتی ہوں ۔شگفتہ نے کہا۔

ناصر نے فوراً انہیں راستہ دیا ۔

شگفتہ ، زینت کو لئے اندر داخل ہوگئی جبکہ ذرا دیر بعد ناصر گیٹ بند کر کے اندر کمرے میں آ گیا ، جہاں شگفتہ اور زینت ایک صوفے پر براجمان ہوئی تھیں ۔

کیا ساجد سور ہا ہے ؟شگفتہ نے ناصر سے اپنے بھائی کے بارے میں پوچھا ۔

ناصر نے اثبات میں سر ہلا دیا پھر ایک نگاہ زینت پر ڈالنے کے بعد قدرے پریشانی سے بولا،، شگفتہ تمہیں اچانک یہاں پا کر خوشی بھی ہورہی ہے اور حیرت بھی تم          ٹھیک تو ہو ناں        وہ کم بخت تھانیدار بتا رہا تھا تمہیں پاگل خانے بھیج دیا گیا ہے ۔

” ہاں شکرکرو کہ میں ان کی مدد سے فرار ہو کر یہاں تک آن پہنچی ہوں ۔ ‘ شگفتہ نے ایک گہری سانس لے کر کہا اور پھر ناصرکو ساری بات بتا دی ، زینت کے بارے میں بھی اسے تفصیلا آگاہ کر دیا ۔

ناصر نے بغور شگفتہ کی باتیں سنیں پھر زینت کی طرف دیکھ کر ممنون لہجے میں بولا ” آپ نے واقعی ہم پر احسان کیا ہے بہن جی                         اب فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ، میں سب سنبھال لوں گا ۔

‘ ‘ ناصر کی بات سن کر زینت نے اس سے کہا ” ناصر بھائی                        !! خطرہ ابھی سر سے ٹلا نہیں ہے ، میں اور شگفتہ دونوں ہی تقریباً ایک ہی قسم کی سازش کا شکار ہوئے ہیں ، ہم دونوں کو ہی سوچی سمجھی اور گہری منصوبہ بندی کے بعد زبردستی پاگل خانے میں داخل کرادیا گیا تھا لیکن میں نے فیصلہ کیا تھا کہ صبح ہوتے ہی میں اپنی ایک بچپن کی گہری سہیلی کے ہاں جاؤں گی ، وہ بہت اچھی وکیل ہیں ، مجھے امید ہے کہ وہ ہماری ضرور مدد کرے گی ۔

“ ناصر نے کہا ۔ ” وہ تو ٹھیک ہے لیکن میرا خیال ہے شگفتہ کو اب کسی وکیل کی ضرورت نہیں ، میں اپنے ماموں کو سمجھا دوں گا ۔

یہ تمہاری بھول ہوگی۔زینت نے نہایت سنجیدگی سے کہا۔شگفتہ نے مجھے تفصلا اپنے پر اسرار حالات کے بارے میں آگاہ کر دیا ہے ، اس کے ہاتھوں نہ صرف تم مضروب ہوئے تھے بلکہ اور بھی بہت سے لوگ ہوئے ہیں ، جن میں ان کی والدہ بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں حالانکہ میرا معاملہ اتنا زیادہ حساس نوعیت کا نہیں ہے مگر شگفتہ کے خلاف جرم ثابت ہو چکا ہے اور یقیناً تھانے میں اس کا ریکارڈ بھی مع گواہوں کے موجود ہوگا ، درحقیقت مجھے اپنے سے زیادہ شگفتہ کی فکر ہے ہمیں ضرور وکیل سے ملنا ہوگا ۔

” اس کی بات سن کر شگفتہ نے ناصر سے کہا ۔” ناصر زینت بہن ٹھیک کہہ رہی ہیں ، ہمیں اپنے دفاع کے لیے ضرور کچھ نہ کچھ کرنا چاہیئے ہے ۔

شگفتہ کے اصرار پر ناصر نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔

اگلے دن یہ لوگ صبح بیدار ہو گئے ، ساجد اپنی بہن کو پا کر بہت خوش ہوا ، زینت نے ساجد سے ملاقات کی ، وہ ساجد سے پانچ سال بڑی تھی ، اسے ساجد کی حالت زار پر بہت افسوس ہوا تھا ، وہ سو چنے لگی کہ ابھی اس بے چارے کی عمر ہی کیا ہے ، جوانی میں بھی بے چارہ نابینا ہو گیا تھا ۔

بہ طور ناشتے وغیرہ سے فارغ ہوکر یہ لوگ سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور یہ فیصلہ کیا کہ شگفتہ اور زینت تو وکیل صاحب کی طرف روانہ ہو جائیں گی جبکہ ناصر اور ساجد ٹاہلی والے بابا سے جا کر ملاقات کریں گے کیونکہ انہیں بھی تازہ صورت حال سے آگاہ کرنا ضروری تھا ۔

چونکہ یہ چاروں بیک وقت عجیب و غریب حالات کا شکار تھے ، اس لئے ان مختلف حالات پر قابو پانے کیلئے لازمی تھا کہ بیک وقت الگ الگ سمتوں پر عمل پیرا ہوں لہذا شگفتہ اور زینت کو روانہ کرنے کے بعد ناصر اور ساجد بھی ٹاہلی والے بابا سے ملنے کے لیے روانہ ہو گئے ۔  

وہ دونوں ٹاہلی والے بابا کے پاس پہنچے اور جب انہیں ساری صورت حال سے تفصیلا آگاه کیا تو انہیں تیمور کی اندوہناک موت پر بہت رنج ہوا ، پھر وہ چند ثانیے کی پر سوچ خاموشی کے بعد دھیمے لہجے میں بولے ۔ ” شاید تم لوگوں کو ابھی تک حالات کی نزاکت اور خطرناکی کا اندازہ نہیں ہے ورنہ تم دونوں کو تیمور صاحب کی موت کے فوراً بعد ہی مجھ سے ملنا چاہئے تھا ، خیر جو ہوا مجھے اس کا رنج ہے ۔تیمور نے شاید اپنی بیٹی شگفتہ کو میرے بار بار نصیحت کرنے کہ باوجود یہ اہم بات نہیں بتائی تھی کہ جب بھی بدروح سے سامنا ہو خود پر قابو رکھے ، کیونکہ ابھی اس کے اندر وہ طاقت نہیں ہے کہ وہ خود سے کوئی گل کھلا سکے ، پھر میں نے ایک تعویذ بھی دیا تھا ، اس کے ہوتے ہوئے کیا مجال کہ وہ بدروح تم لوگوں کا کچھ بگاڑ سکے ، وہ تعویذ اب کہاں ہے ؟ ” بابا نے پوچھا ۔

ساجد نے پریشان ہو کر کہا ۔ ” بابا              ! اس کا تو ہمیں علم نہیں ، دراصل ہم چند دنوں سے پے در پے کچھ ایسے پریشان کن حالات کا شکار ہیں کہ ہمیں اس کی طرف دھیان ہی نہیں رہا ۔

” اس کی بات سن کر ٹاہلی والے بابا نے کہا ۔ تم لوگوں کی انہیں بدحواسیوں اور پریشانیوں سے وہ بدروح ہر بار فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی رہتی ہے کیونکہ اس کا مقصد یہی ہے کہ وہ تم سب کواس قدر پریشان اور حواس باختہ رکھے کہ تم اس کی ہلاکت کا کوئی سامان نہ کر پاؤ ۔

“ مگر بابا ! اب ہمارے لئے آپ کی کیا نصیحت ہے ، اب تو میرے ابو بھی اس دنیا میں نہیں رہے ، خود میں بھی نابینا ہوگیا ہوں ، شگفتہ بہن کو الگ پولیس والے تنگ کرتے رہتے ہیں ، اس بے چاری کو تو انہوں نے پاگل خانے بھیج کر ہی چھوڑ ا ، وہ تو بھلا ہواس نیک عورت کا جس نے میری بہن کو کسی نہ کسی طرح پاگل خانے سے فرار کروا دیا مگر وہ پریشانی اب بھی ختم نہیں ہوئی ہے ،وہ دونوں اب کسی وکیل سے مشورہ کرنے کے لیے گئی ہوئی ہیں ، آپ ان کی کامیابی کے لیے دعا کریں ۔

‘ ‘ اللہ انہیں اپنے مقصد میں ضرور کامیاب کرے گا ۔ ” بابا نے جلالی لہجے میں کہا ۔ ” لیکن تمہیں اس گھمبیر مسئلے پر زیادہ توجہ دینی ہوا ہے اس بدروح کی تاریخ اور اس کا ماضک اس قدر قدیم ہے کہ مجھے روزانہ اس کی آگاہی حاصل کرنے کے لیے بڑی جانفشانی کے ساتھ چلہ کشی کرنا پڑتی ہے ، راتوں کو جاگ جاگ کر وظائف پڑھتا ہوں لیکن اتنی عرق ریزی اور محنت کے باوجود ہمارے لئے بھی”” دلی ہنوز دوراست “” والی بات ثابت ہوئی ہے یعنی ہمیں بھی مرحلہ وار اور بہت تھوڑی جانکاری مل پائی ہے ، جس سے تم لوگ اندازہ لگا سکتے ہو کہ یہ بدروح کس قدر پراسرار ہے لیکن ہمیں اللہ کی ذات پر پورا بھروسہ ہے ، وہ ہمیں اس خبیث روح کو نیست و نابود کرنے کی ضرور توفیق اور طاقت عطا کرے گا جو کمزور اور بے گناہ انسانوں کے لیے وبال جان بنی ہوئی ہے مگر ہمارے لئے بھی پریشانی کی اصل وجہ یہی ہے کہ ہمارا علم کامل تو ہے مگر اس کی رفتار بہت سست ہے ، اس سے خدشہ ہے کہ جب تک ہم پوری طرح آگاہی حاصل کر سکیں تو اس بدروح گل کھلانے کا موقع ملتا رہے گا لیکن اگر تم لوگ ہوش مندی اور بہادری کا مظاہرہ کرو تو کم از کم اتنا ضرور ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے عزائم میں ناکام رہے اور ادھر تب تک ہم اس کی پوری طرح اصلیت جان سکیں ۔ٹاہلی والے بابا اتنی صراحت کرنے کے بعد ذرا خاموش ہوئے ۔

ناصر نے پہلی بار لب کشائی کرتے ہوئے کہا ۔ ” بابا              ! تیمور صاحب تو اب اس دنیا میں نہیں رہے ، آپ اب ہماری رہنمائی کریں ، ہم آپ کی ہدایات اور نصیحتوں پر حرف بہ حرف عمل کرنے کی کوشش کریں گے ، آپ نے اب تک اپنی طویل ریاضتوں سے کچھ نہ کچھ تو اس بدروح کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کی ہوگی آخر وہ کس طرح نابود ہوگی ؟

“ٹاہلی والے بابا بولے ۔ انشاء اللہ ایسا جلد ہوگا “۔

آمین                    ؟ ‘ ساجد اور ناصر نے زیرلب دعائیہ کہا ۔

پھر ناصرکواچانک کچھ یاد آیا اور اس نے دوبارہ پوچھا ۔ ” بابا                   ! آپ نے تیمور صاحب کو اندھیری کوٹھی میں رہائش اختیار کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا ، اس کی کوئی خاص وجہ تھی ؟

ہاں              یہ بہت ضروری تھا ۔ بابا نے قدرے گونجدار آواز میں کہا ۔ میں نے تو ان سے یہ بھی کہا تھا کہ اوپری منزل بھی خالی نہیں ہونی چاہئے ، اس کوٹھی کو پوری طرح آبادرہنا چاہئے ، اسے ویران نہیں کرنا ہے ، وہاں زندگی کی گہما گہمی اور چہل پہل ہونی چاہئے ۔

” ان کی بات سن کر ساجد نے کہا ۔ لیکن بابا                 اس شیطانی روح نے تو وہاں بھی ہماری زندگی اجیرن کر کے رکھ دی تھی حتیٰ کہ ابو کو بھی اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے ۔

اس میں بھی شگفتہ کا ہی قصور تھا ۔ بابا نے فوراً کہا ۔ حالانکہ میں نے اچھی طرح یہ بات سمجھائی تھی کہ جب بھی وہ بدروح اپنے خبیث اور بھیانک روپ میں ظاہر ہو تو خود پر قابو پانے کی کوشش کی جائے خون جب عروج پر پہنچ جاتا ہے تو جنون کی صورت اختیار کر لیتا ہے ، اور انسان کو ہسٹریائی دورے پڑتے ہیں جو اپنے لئے اور دوسروں کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں ۔

‘ ‘ ٹھیک ہے بابا ہم سے غلطی ہوئی ، اب ہم اس بات کا آئندہ خیال رکھیں گے ، آپ ہمیں یہ بتائیں کہ اب ہم کیا کریں ؟ “ ناصر نے پوچھا ۔ بابا ایک گہری سانس لے کر بولے ۔ اس اندھیری کوٹھی کو آباد کرنے کا اہم مقصد یہ ہے کہ کا مقصد یہ ہے کہ وہاں اس بدروح کا ناپاک مرده وجود دفن ہے اور ہماری کوشش یہ ہے کہ اس بدروح کو واپس اس کے مدفن تک جانے پر مجبور کیا جائے ،اس کوٹھی کو آباد کرنے کا ایک اہم مقصد ہمارا یہ بھی ہے کہ اس کا مدفن محفوظ رہے ، جب تک ہم اس بدروح کو واپس اس کے مدفن تک محصور نہ کر دیں ۔ وہ اتنا بتا کر خاموش ہو گئے ۔

ساجد نے قدرے بے چینی سے پوچھا ” بابا              ! اس کے بعد کیا پھر ہمیشہ کے لیے ہماری اس بدروح سے جان چھوٹ جائے گی ؟

ہاں مگر ایک حد تک بابا نے کہا پھر خود ہی بتانے لگے ۔ فی الحال اتنا بھی ہو جائے تو سمجھو نصف سے زیادہ کامیابی حاصل ہو جائے گی ہمیں              اس کے بعد ہمیں ایک اور کٹھن عمل کرنا پڑے گا تا کہ وہ ہمیشہ کے لیے عالم برزخ میں چلی جائے ۔

بابا                                           ! آخر یہ سب کس طرح ممکن ہوگا ؟ “ ناصر نے پوچھا ۔

بابابتانے لگے ۔ سردست ہمیں اتناہی اشارہ ملا ہے کہ ہمیں سب سے پہلے اس بہادر اور نیک انسان کی روح سے رابط کرنا ہوگا ، جس نے اس شیطان کو ہلاک کیا تھا ، وہ یقیناً اس بدروح کے ماضی سے واقف ہو گا نیز اس کے پاس یقیناً ایسی طاقت ہوگی جس کی بناء پر اس نے ایک طاقتور شیطان کو موت کے گھاٹ اتارا تھا ، میں نے بہت کوشش کی کہ اس نیک روح سے رابط مکن ہو سکے مگر افسوس کہ ہمیں اب تک ناکامی ہوئی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں اتنا معلوم ہوا کہ بھیراں نامی ایک گاؤں ہے جہاں وہ نیک اور بہادر ہستی پیدا ہوئی اور وہیں اس کی قبر بھی ہے اس نیک اور بہادر انسان کا نام بھی ہمیں معلوم ہو چکا ہے ، بهادر زمان شاه نام تھا اس کا اس شیطان کا خاتمہ کرنے کے بعد وہ بے چارہ اپنی زندگی بھی ہار بیٹھا تھا ، اس لئے لوگوں نے اسے شہید” نیک شاہ ‘‘ کے خطاب سے نوازا ، اگر چہ اس خوفناک اور خونریز واقع کو کوئی سو برس بیت چکے ہیں اور بیشتر لوگ اس واقعہ کو ہی نہیں بلکه شهید نیک شاہ کو بھی دھیرے دھیرے فراموش کرنے لگے ہیں ، یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ شہید نیک شاہ اور اس کے ماضی سے متعلق جاننے والے کیا اب بھی اس گاؤں میں موجود ہوں گے ، ہوسکتا ہے سینہ بہ سینہ یہ خوفناک داستان چلی آرہی ہو اور کوئی واقف ہو ۔ بہرحال                  ! بابا نے چند لمحے توقف کیا پھر اصل بات کی طرف آتے ہوئے بولے ۔ بھیراں نامی وہ گاؤں شاہ پور کے جنوب میں واقع ہے ، چونکہ بہادر زمان شاه کاتعلق تیمور صاحب کے خاندان سے تھا ، اس لئے اب تیمور صاحب کی اولاد ہی اس بدروح کا خاتمہ کر سکتا ہے ، اور وہ بدروح بھی اس لئے شہید نیک شاہ کے سارے خاندان سے انتقام لے رہی ہے ، یہ سلسلہ نہ جانے کتنی نسلوں تک چلے گا ،یہی سبب تھا کہ اس بدروح نے اپنے دشمن شهید نیک شاہ کی نسل اور خاندان سے تعلق رکھنے والے اب تک نو خاندانوں کو اپنے انتقام کی بھینٹ چڑھا دیا ہے اور تیمور کے خاندان کا دسواں نمبر ہے اور بدقسمتی سے وہ اس خاندان کو بھی اپنے ازلی انتقام کا نشانہ بنا چکی ہے ، اس لئے اب اس شیطان کی بدروح کا خاتمہ بھی صرف اس خاندان کا کوئی بہادر فرد کر سکتا ہے ، لہذا اب ساجد یا شگفتہ کو بھیراں نامی گاؤں جا کر اس شہید نیک شاہ کی قبر تلاش کر کے اسے وہاں حاضرات کا عمل کرنا ہوگا ، اب اس کی نیک روح ہی اس بدروح کے خاتمے کے بارے میں ہمیں آگاہ کرسکتی ہے ، بس اب یہی ایک آخری صورت ہے اب تم جانو اور تمہارا کام                       ہمارا کام یہاں ختم ہوا ۔                                     ٹاہلی والے بابا اتنا کہہ کر خاموش ہو گئے ۔

ساجد نے یک دم پوچھا ۔ ” بابا                   مگر یہ حاضرات کا عمل ہمیں کون بتائے گا ؟

جوابا بابا نے کہا ۔ اس میں کسی خاص مشکل عمل کی ضرورت نہیں صرف باوضو ہوکر شهید شاہ کی قبر کے پاس بیٹھ جانا اور تین بار اپنے اس نیک مقصد کے بارے میں قدرے بلند آواز سے ان کا نام لے کر انہیں آگاہ کرنا ، آگے تمہارا کام آسان ہوجائے گا مگر یاد رکھنا یہ کام صرف تم یا تمہاری بہن شگفتہ ہی کرسکتی ہے ، اب جاؤ اور جتنی جلدی ممکن ہو سکے یہ کام کر ڈالو اتنا کہ کر ٹاہلی والے بابا دوبارہ آنکھیں موندے عبادت الہی میں مصروف ہو گئے ۔ ساجد اور ناصر وہاں سے واپس آگئے ۔    

زینت ، شگفتہ کے ساتھ اپنی جس دوست وکیل کے پاس گئی تھی ، اس کا نام ایڈووکیٹ خالدہ توفیق تھا وہ پینتیس چالیس سالہ ایک دبنگ خاتون نظر آتی تھی ، اسے وکالت کی پریکٹس کرتے ہوئے اگرچہ سات آٹھ برس ہی ہوئے تھے لیکن اس کے کریڈٹ میں خاصے پیچیدہ اور مشکل کیسوں کی کامیابیاں تھیں ، اس نے اب تک بے داغ پیشہ ورانہ زندگی گزاری تھی ، اس کا شوہر توفیق احمد ایک ایماندار اور فرض شناس پولیس انسپکٹر تھا ۔

بہر طور وہ اپنی پرانی اور بچپن کی سہیلی زینت کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی ۔

زینت نے اسے اپنے اور شگفتہ کے گھمبیر مسئلے کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کر دیا ، اور شگفتہ کے کہنے پر اس نے شگفتہ سے متعلق پراسرار حالات کو حذف کر دیا تھا۔

ساری تفصیل بغور سننے کے بعد ایڈووکیٹ خالدہ نے مسکرا کر زینت سے کہا ۔ ” ارے بھئی میں تو سمجھی تھی کہ کوئی پیچیدہ اور مشکل کیس ہوگا یہ تو سیدھا سادا اور عام سا کیس ہے ۔

“ بھئی تمہارے لئے تو سادہ اور آسان کیس ہوگا مگر ہمارے لیے تو دردسر ہے ، اب اس کا حل بھی بتادو ” زینت نے بھی دوستانہ بےتکلفی سے کہا ۔

وہ بولی ۔ میں ابھی کسی اچھے سے میڈیکل اسپیشلسٹ اور ایک سائیکاٹرسٹ سے تم دونوں کے میڈیکل سرٹیفکیٹ کا بندوبست کئے دیتی ہوں ، قصہ حتم ؟

اس کی بات سن کر زینت اور شگفتہ کو زرا ڈھارس ہوئی اور و مطمئن نظر لگی، لیکن پھر ایڈووکیٹ خالدہ نے پر سوچ لہجے میں زینت سے کہا ۔ ” شگفتہ کا معاملہ تو زیادہ گھمبیر نہیں ہے کیونکہ اس کا شوہر اس کا پورا پورا ساتھ دے رہا ہے لیکن زینت           ! تمہارے لئے یہ صورت حال خطرناک بھی ہوسکتی ہے کہ تم اپنے شوہر کی وفات کے بعد اپنی سوتیلی اولاد کے درمیان رہو اور بقول تمہارے وہ سب تمہاری جان کے دشمن بن چکے ہیں ، ان حالات میں تمہیں وہاں ان کے ساتھ ہرگز نہیں رہنا چاہئے ۔

اس کی بات سن کر زینت بھی کچھ سوچنے پر مجبور ہوگئی پھر بولی ۔ ” تم ہی بتاؤ پھر میں کیا کروں ؟ کہاں جاؤں                                              نقد حصہ تو میرے اکاونٹ میں جمع ہو چکا ہے جبکہ کوٹھی میں بھی میرا حصہ ہے ، میں اس سے بھی دستبردار ہونے کو تیار ہوں لیکن میں اپنے مرحوم شوہر کا پورا کاروبار سمبھال ہوئے ہوں،وہ کروڑوں کا کاروبار ہے، چونکہ میں نے ایم بی اے کر رکھا تھا اور تھوڑی بہت سوجھ بوجھ رکھتی تھی اسلیے میرے شوہر نے مجھے کاروبار میں لگا دیا اور مجھے عہدہ بھی دے دیا تا کہ میں باقاعدہ طریقے سے کام کر سکوں ، یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے اس سے پہلے اپنے دو بیٹوں مشتاق اور اظہر کو کاروباری سوجھ بوجھ سمجھانے کی کوشش کی تھی مگر وہ ایک نمبر کے ہڈ حرام نکلے ، انہوں نے بالکل دلچسپی نہ لی جس کا انہیں آخری وقت تک دکھ تھا ، اگرچہ مشتاق اور اظہر باپ کے ساتھ دفتر جایا کرتے تھے مگر امان اللہ کو جلد ہی ان کی نااہلی اور عدم دلچسپی کا احساس ہو گیا تھا ، انہوں نے خود مجھے سے انتہائی مایوسی کے عالم میں کہا تھا کہ ان کے دونوں بیٹےبالکل نکمے ہیں ، وہ اس کے مرنے کے بعد کاروبار کو مزید ترقی دینا تو کجا اس کی موجودہ ساکھ کو بھی برقرار رکھنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے البتہ وہ مجھ سے بالکل مطمئن تھے ، اب تم بتاؤ خالدہ کہ میں کاروبار سے کیسے الگ ہوسکتی ہوں ‘ ‘ وہ اتنا بتا کر خاموش ہوگئی ۔

ایڈووکیٹ خالدہ نے چند ثانیے پرسوچ خاموشی کے بعد پوچھا ۔ ‘ ‘ تمہارے شوہر امان اللہ کا کس طرح انتقال ہوا تھا ؟

‘ ‘ ” وہ ہارٹ کے مریض تھے ، انہیں ایک روز ہارٹ اٹیک ہوا تھا ،یہ دوسرا اٹیک تھا جس سے وہ جانبر نہ ہو سکے تھے ۔ ” زینت نے مغموم لہجے میں بتایا ۔

” اوہ                   ویریسیڈ               ! ایڈوکیٹ خالدہ نے کلمہ تاسف ادا کیا پھر بولی ۔ ” اب تم ایک کام کر سکتی ہو ، روپے پیسے کی تمہیں کمی نہیں ہے، تم

کاروبار سنبھالتی رہو البتہ اپنی رہائش فوراً الگ کر لو ، یہی ایک بہتر طریقہ ہے۔

ہاں                  ! تمہاری یہ بات ٹھیک لگتی ہے                                                   ! وہ کچھ کہتے کہتے رکی ۔

ایڈووکیٹ خالدہ اس کی ادھوری بات کا مطلب سمجھتے ہوئے مسکرا کر بولی ۔ ” تم فکرمت کرو زینت امان اللہ                ! اگر تمہیں تمہاری سوتیلی اولاد تنگ کرنے کی کوشش کرے تو مجھے بتادینا ، یہ میرا کارڈ ہے ، اس میں میرے آفس کے ٹیلیفون نمبر کے علاوہ میرے ذاتی موبائل کا نمبر بھی ہے ۔ یہ کہتے ہوئے ایڈووکیٹ خالدہ نے ایک وزینگ کارڈ اسے تھما دیا ۔

تھوڑی دیر بعد اس نے اپنے اثرورسوخ کے در پر فوری طور پر اپنے ریمارکس کے ساتھ شگفتہ اور زینت امان کو الگ الگ میڈیکل سرٹیفکیٹ کا بندوبست بھی کرا دیا ، علاوہ ازیں اس سے پہلے محض خانہ پری کے لیے ان دونوں سے ایک وکالت نامے پر دستخط بھی لے لئے ۔

خالده                       ! تم نے تو آج دوستی کا حق ادا کر دیا ، میں کس منہ سے تمہاراشکر یہ ادا کروں ؟ “ زینت نے بڑے ممنون لہجے میں اس سے کہا ۔

وہ مسکرا کر بولی ۔ ” شکریہ کرنے کی کوئی بات نہیں ، دوستی کے ناتے کم از کم اتنا تو میرا فرض بنتا ہی تھا ۔

اچھا اپنی فیس بتا دو                ابھی تو میرے پاس پیسے نہیں ہیں کیونکہ میں تو پاگل خانے سے فرار ہو کر سیدھی تمہارے پاس آئی ہوں ۔

” رہنے دوا بھی فیس                            پہلے تم اپنی الگ رہائش کا انتظام کرو اور کاروبار سنبالو اور ہاں ، تمہیں اب محتاط رہنے کی ضرورت ہے ، میں اپنے شوہر رفیق احمد سے بھی کہلوادوں گی تا کہ پولیس تم دونوں کو دو بار و تنگ نہ کرے ۔

اس کے بعد شگفتہ اور زینت واپس اندھیری کوٹھی لوٹ آئے ، وہاں ساجد اور ناصر ان سے زرا پہلے ٹاہلی والے بابا سے مل کر لوٹ آئے تھے ۔

ان چاروں نے ایک دوسرے کو اپنی اپنی کارگزاریوں سے آگاہ کردیا ۔

ساجد نے کہا ۔ ” اب ٹاہلی والے بابا کی ہدایت کے مطابق ہمیں سب سے پہلا کام یہی کرنا ہوگا کہ اوپری منزل کو آباد کرنا ہوگا ۔

“ لیکن اس آسیبی کوٹھی میں کون فیملی رہنے کوتیار ہوگی ؟ بالفرض محال دور پرے کی کوئی فیملی رضامند ہو بھی گئی تو مجھے پورا یقین ہے کہ وہ بد روح اپنے شیطانی روپ میں آ کر انہیں بھی ستائے گی اور کرائے داروں کو بھاگنے پر مجبور کر دے گی ، جس طرح اس سے پہلے ہوتا آیا ہے ۔ “ شگفتہ نے کہا ۔

زینت امان بولی ۔ ” لو یہ کونسا مسئلہ ہے ، میں جو ہوں ، ویسے بھی میرے لئے یہاں رہنا زیادہ و مناسب ہو گا ، میں نے شگفتہ کو اب اپنی بہن بنا لیا ہے اور پھر تم لوگ بھی میرے حالات سے واقف ہو ، میں اوپری منزل میں رہ لیتی ہوں لیکن صرف اس شرط پر کہ میں اس کا با قا عدہ کرایہ ادا کروں گی۔

ساجد ، زینت کو دیکھ نہیں سکتا تھالیکن اس کے کانوں کو زینت کی مترنم آواز بہت بھلی لگی تھی۔ ، اسے زینت کے دکھ کا بخوبی علم تھا ۔

ادھر شگفتہ نے زینت سے کچھ کہنا چاہا تو ناصر بول پڑا ۔ ” چلواب یہ مسئلہ بھی زینت بہن کی وجہ سے حل ہوا، اب ہمیں اصل مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہئے ہمیں ٹاہلی والے بابا کی ہدایت کے مطابق فوراً بھیراں نامی گاؤں کی طرف نکلنا ہوگا ۔

“ ناصر بھائی یہ کام ہم دونوں انجام دیں گے ۔ ساجد نے فوراً کہا ۔

شگفتہ اس سے بولی             ” بھائی              تم ادھر ہی رہنا ، میں اور ناصر اس مہم پر نکلیں گے ۔

ناصر نے کہا اب تم دونوں بہن ، بھائی مشورہ کر لو آپس میں کہ کون میرے ساتھ جائے گا کیونکہ تم دونوں میں سے کسی ایک کو میرے ساتھ چلنا ہوگا ۔

“ اب مسئلہ یہ تھا کہ اگر ساجد ناصر کے ساتھ جاتا ہے تو زینت اور شگفتہ گھر میں اکیلی ہوتی ہیں ، اس پر مستزاد ، زینت کو اپنے آفس بھی جانا ہوتا اور یقیناً اس کی واپسی شام گئے ہوتی ۔

اگر ساجد رہتا تو بھی یہ مسئلہ تھا کہ وہ بے چارہ نابینا تھا ، اگرچہ وہ کہیں باہر آجا نہیں سکتا تھا، لیکن گھر کے اندر خود کو سنبھال سکتا تھا مگر اس بدروح کا دھڑکا لگا رہتا اور پھر زینت اور ساجد کا کوٹھی میں تنہا رہنا بھی محلے والوں کو پسند نہ آتا، چنانچہ چند روز اور اس سوچ بچار میں گزر گئے ۔

اس دوران زینت نے دفتر آنا جانا شروع کر دیا تھا ، ایڈووکیٹ خالدہ اور اس کے پولیس انسپکٹر شوہر توفیق احمد کی وجہ سے پولیس کا مسئلہ بھی حل ہوگیا تھا ۔

زینت ایک روز ایڈووکیٹ خالدہ اور اس کے پولیس انسپکٹر شوہر توفیق کے ہمراہ اپنی کوٹھی جا کر اپنا سارا ضروری سامان سمیٹ کر اندھیری کوٹھی میں شفٹ ہو چکی تھی ۔

زینت اب ان میں گھل مل گئی تھی ، یہاں وہ خود کو بھی ایک فیملی میمبر تصور کرنے گئی تھی ۔

ادھر ناصر نے بھی ناراضی کے باوجود اپنے ماموں شفقت کو تنہا نہ چھوڑا تھا ، وہ ان کی اب بھی دکان سنبھاتا تھا اور رات کو گھر آتا تھا ۔

زینت شام چھے سات بجے تک گھر پہنچ جایا کرتی تھی ، رات کا کھانا یہ لوگ سب اکٹھے ہی کھایا کرتے تھے ، نصف گھنٹے بعد چائے اور باتوں کا دور چلتا، گفتگوکا محور بھیراں نامی گاؤں کی طرف روانگی ہی ہوتا ، زینت کو بدروح سے ذرا بھی دلچسپی نہ تھی ، سچی بات یہ بھی کہ اسے آج تک یقین ہی نہیں آیا تھا کہ کوئی بدروح ان کے خاندان کے خون کی پیاسی ہورہی تھی مگر زینت ساجد کی وجہ سے بیٹھی رہتی تھی اور شامل گفتگو رہتی تھی ۔

اسے یہ بانکا سجیلا نوجوان اچھا لگتا تھا ، یہی دلی کیفیت ساجد کی بھی ہورہی تھی ۔

اس روز رات کو حسب معمول زینت اوپری منزل میں اپنے کمرے میں سونے کے لیے آئی تو ٹھٹک گئی ، کمرے کی بتی روشن تھی اور دروازہ بھی تھوڑا کھلا ہوا تھا ، اس نے سوچا کہ ہوسکتا ہے وہ دن میں دروازہ کھلا اور لائٹ جلتی چھوڑ گئی ہوگی لہذا وہ کمرے میں داخل ہوئی ، شب خوابی کا لباس پہنا اور بیڈ پر دراز ہونے سے پہلے اس نے لائٹ آف کرنے کے لیے سویچ بورڈ کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اسے حیرت کا شدید جھکا لگا ، لائٹ کا سوئچ آف تھا مگر بتی جل رہی تھی ۔

کمال ہے بٹن تو آف ہے مگر یہ لائٹ کیسے جل رہی ہے ؟ وہ حیرت سے بڑ بڑائی ۔

شاید سویچ خراب ہو گا ۔ یہ سوچ کر اس نے بٹن آن کر کے دیکھا تولائٹ آف ہوگئی ۔ وہ خود پہ ہنس دی اور بیڈ پر آ کر لیٹ گئی ۔

کمرے میں زیرو پاور کا سبز بلب روشن تھا ۔

زینت پشت کے بل بیڈ پرلیٹی تھی اور دونوں ہاتھ سینے پر تھے مگر اسے نہ جانے کیوں نیند نہیں آرہی تھی ، حالانکہ اس سے پہلے وہ تھکاوٹ اور نیند بھی محسوس کر رہی تھی، مگر اب تو جیسے نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور ہوچکی تھی، اسےناجانے کیوں بے چینی سی بھی محسوس ہورہی تھی ۔ اچانک اسے ایک ہلکا سا جھٹکا محسوس ہوا یوں جیسے کسی نے بیڈ کو زور سے ہلایا ہو ، یہ جھٹکا اس قدر واضح تھا کہ زینت اسے اپنے وہم پر بھی محمول نہیں کرسکتی تھی ، وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی ۔

معا ہی دوبارہ جھٹکا لگا اور پھر تو جیسے بیڈ یوں مسلسل ہلنے لگا جیسے زلزلہ آ گیا ہو ، زینت بھی یہی سمجھی تھی لیکن پھر اس نے دیکھا کہ زلزلے میں تو دیواریں اور آس پاس پڑی دیگر اشیاء بھی تھرکنے لگتی ہیں تو اسے اچنبھا ہوا اور پھر دوسرے ہی لمحے اس نے اپنے بیڈ کو دھیرے دھیرے سے فضا میں اٹھتے دیکھا ، اب تو زینت کو جیسے سکتہ ہوگیا اور اس کی سماعتوں میں بدروح والی کہانی گونجے لگی ۔

خوف کے باعث وہ تھر تھر کاپنے گئی ، وہ پسینے سے شرابور ہوگئی اور سراسیمہ نگاہوں سے دائیں بائیں دیکھنے گی مگر اسے کوئی نظر نہ آیا ،مارے دہشت کے اس سے چینیحا بھی نہیں جارہا تھا کہ کم از کم بیڈ پر سے ہی وہ چھلانگ لگا دیتی ۔

بیڈ کو جیسے کسی غیر مرئی قوت نے فضا میں معلق کر رکھا تھا اور پھر اچانک جیسے اسے چھوڑ دیا گیا ۔

ایک دھماکے سے بھاری بھر کم بیڈ دوبارہ زمین پر آ رہا ، اس بار زینت کے حلق سے غیر ارادی چینح خارج ہوگئی اور وہ تیزی سے بیڈ پر سے چل کر دروازے کی طرف دوڑی ، وہ بری طرح خوف زدہ اور اس سے زیادہ بدحواس ہورہی تھی ، پھر اس نے جیسے ہی کمرے کا دروازہ کھولا تو سامنے اسے ایک سرتاپا سفید لٹھے کے کفن میں ملفوف شخص کھڑا نظر آیا مگر وہ شخص نہ تھا ، وہ تو کوئی بھیانک چہرہ تھا اسی بھیانک اور شیطانی مخلوق کا چیره           بغیر پپوٹوں والی بڑے بڑے ابرو والی ڈیلیوں کی سرخ انگارہ آنکھیں                ناک کی جگہ دو سوراخ ، ہونٹ کٹے ہوئے اور دو بڑے بڑے دانت جھانک رہے تھے ، دو شاخہ زبان بھی سانپ کی طرح لپا رہی تھی ۔

زینت کا دل دھڑکنا بھول گیا ، وہ دم بخود کھڑی ، پھٹی پھٹی دہشت زدہ نظروں سے اس کفن پوش بھیانک انسان کو تکے جا رہی تھی ۔

اسی وقت اسی بھیانک کفن پوش مخلوق نے غراہ کہ زینت سے کہا ۔

” اپنی زندگی چاہتی ہوتو یہاں سے چلی جاؤ ورنہ جان سے چلی جاؤ گی ۔ اس کے ساتھ ہی وہ بھیانک چہرے والی محلوق غائب ہوگئی مگر اب زینت اپنے آپ میں کہاں تھی ، اس کا دماغ ماؤف ہونے لگا اور پھر دوسرے ہی لیے وہ غش کھا کر وہیں ڈھیر ہوگئی ۔

جانے کتنی دیر بعد جب اس کی دوبارہ آنکھ کھلی تو اس نے خود کو ہنوز اپنے کمرے کے دروازے کی چوکھٹ پر ہی بے سدھ پڑے پایا ، چند لمحے تو اسے بھی یاد ہی نہ آیا کہ اس کے ساتھ ہوا کیا تھا مگر پھر جب وہ اٹھ کر کھڑی ہوئی اور بیڈ پر آ کر بیٹھی تو اسے چکر سا آنے لگا ، اس نے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر دھرے پانی سے بھرے جگ کو گلاس میں الٹ کر چند گھونٹ پانی پیا تو اسے رفتہ رفتہ یاد آنے لگا اور ایک بار پھر اس کے دل و دماغ پر خوف کا غلبہ طاری ہونے لگا ، اس کی آنکھوں کے سامنے اس بھیانک کفن پوش کا مکروہ چہرہ گردش کرنے لگا ۔

آف خدایا                  ا          کس قدر خوفناک اور ڈراؤنا چہرہ تھا ۔ وہ سراسیمہ انداز میں زیرلب بڑبڑائی ۔

اس وقت سپیدہ سحر نمودار ہونے لگا تھا مگر ابھی باہر اندھیرا سا پھیلا ہوا تھا اور ہرسو خاموشی کا راج تھا ، وہ حیرت سے سوچنے لگی کہ اس ساری ہڑبونگ میں ابھی تک کوئی بھی اس طرف متوجہ نہ ہوا تھا ۔

زینت فطرتاً ہوشیار اور حاضر دماغ عورت تھی ، وہ دلیر بھی تھی ، اگر چہ اس خوفناک صورت حال پروہ دہشت زدہ ضرور ہوگئی تھی مگر اب وہ کسی عجیب اور گہری اسرار بھری سوچ میں مستغرق ہو گئی تھی ، اسے چونکہ شگفتہ کی زبانی اور ان لوگوں کے ساتھ چنددن رہتے ہوئے ان پر اسرار حالات اور واقعات کے بارے میں علم ہو چکا تھا لیکن سچی بات تھی کہ اسے یقین نہ آیا مگر اب اس نے اپنی آنکھوں سے اس بدروح کو دیکھا تھا جس نے اسے دھمکایا بھی تھا ۔

حقیقت بھی کہ زینت کا اب اپنی سوتیلی اولاد سے دل کھٹا ہو چکا تھا جنہوں نے اس کے حسن سلوک کا بدلہ دیا تھا کہ اسے پاگل خانے پہنچا دیا تھا جو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا تھا ، زینت اب انہیں اس گھناؤنی سازش کا مزہ چکھانا چاہتی تھی نیز اس نے کہنے کوتو ایڈووکیٹ خالدہ سے کہا تھا کہ اسے کوٹھی کی بھی پروانہیں مگر در حقیقت ہ کوٹھی سے بھی دستبردار نہیں ہونا چاہتی تھی ، وہ جانتی تھی کہ اگر اس نے اپنی سوتیلی والا کو منہ توڑ جواب نہ دیا ان کا مقابلہ نہ کیا تو وہ ایک دن اسے کاروبار سے بھی الگ کر دیں گے ۔

چنانچہ اب زینت کے شاطر دل ودماغ میں کچھ اور ہی کھچڑی پکنے لگی تھی ۔ وہ جیسے جیسے اس پر غور کرتی جارہی تھی ، ویسے ویسے اس کے اند را یک زبردست تحریک پیدا ہونے لگی تھی اور پھر اگلے ہی لمحے اس کے لبوں پر ایک پراسرار مسکراہٹ پھیل گئی جیسے اندر ہی اندر وہ کسی نتیجے پر پہنچ چکی ہو ۔

یوں وہ اندر ہی اندر پل کے پل تیار ہونے والی منصوبہ بندی کی متوقع کامیابی کے احساس تلے بے اختیار اس کے لبوں سے بڑبڑاہٹ ابھری ۔

اور مجھے تو اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے بھرپور قائده                 کیونکہ وہ بدروح بہرحال میری دشمن نہیں ہے اور نہ ہوسکتی ہے ، کیونکہ میں تیمور کے خاندان یا شہید نیک شاہ کے خاندان سے بہر حال کوئی تعلق نہیں رکھتی ہوں ۔ “ یہ سوچ کر اس کی آنکھوں میں یکا یک ایک پراسرار چمک ابھری تھی ۔

☆ ============

زینت نہا دھو کر نیچے آگئی ، ناشتے کی میز پر سب موجود تھے ، زینت نے دانستہ رات والے خوفناک واقعہ کا کسی سے ذکر نہ کیا تھا ، ناشتے کے دوران ہی یہ پروگرام طے پا گیا کہ بھیراں نامی گاوں والی مہم کو اب حتمی شکل دے دینی چاہئے ۔

زینت بھی یہی چاہتی تھی ، چنانچہ اس نے بھی اس بات پر زور دیا کہ ناصر اور ساجد دونوں بھیراں گاؤں کی طرف نکل جانا چاہئے ، رہی بات شگفتہ کے تنها شام تک گھر رہنے کی تو اس سلسلے میں اس نے بھی تجویز پیش کی کہ اسے ہر روز اپنے ہمراہ دفتر لے جایا کرے گی ۔

چنانچہ یہ مسئل حل ہوتے ہی اگلے دن علی الصباح ناصر اور ساجد گاؤں کے لیے نکل گئے ۔

وہ دونوں ایک ٹرین کے لیے رات آٹھ بجے شاہ پور پہنچے ، یہاں سے بھیراں جانے کے لیے انہیں ایک دوسری گاڑی پکڑنی تھی جو ریل کار تھی ۔

یہ ریل کار شاہ پور رات بارہ بجے پہنچتی تھی، چونکہ لوکل ٹرین تھی اس لئے پورے تین گھنٹے ساجد اور ناصر نے جب شاہ پور کے اسٹیشن پر اتر کر ہی معلومات حاصل کیں تو انہوں نے اپنا سر پکڑ لیا ، یعنی پورے چار گھنے انہوں نے ریل کار کی آمد کا انتظار کرتا تھا ۔

سردی بھی کڑاکے کی پڑ رہی تھی ، اگر چہ دونوں نے موسم کی مناسبت سے گرم کپڑے پہن رکھے تھے مگر اس کےباوجو ٹھٹھرا دینے والی رات کی سردی نے ان کی رگوں میں دوڑتے ہوئے خون کو برف بنادیا تھا ۔

ویٹنگ روم پر بھی نہ جانے کیوں تالا پڑا ہوا تھا ، یہ ایک چھوٹا سا اسٹیشن تھا ۔ ناصر بھائی                 ! چار گھنے کا انتظار تو خاصا طویل ہو جائے گا کیوں نہ کوئی لاری یا مسافر ویگن دیکھی جائے ۔ ساجد نے سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے کہا ۔

ناصر بولا ۔ ” میرے ذہن میں بھی یہ بات تھی مگر ہم آدھی رات کے بعد بھیراں گاؤں پہنچ کر کریں گے کیا ؟ وہاں ہمارا کوئی جاننے والا تو ہے نہیں ، نا بندہ وہاں ملے گا نہ بندے کی زات ، کسی سے پوچھ پاچھ کر سرائے کا ہی پتہ معلوم کر لیں ، یہاں کم ازکم پلیٹ فارم پرتو موجود ہیں ناں              گاڑی آئے گی تو صبح سے پہلے پہنچ تھوڑا بہت وقت وہیں اسٹیشن میں کاٹ کر آگے بڑھ جائیں گے ۔

مگر ویٹنگ روم تو کھلوانے کی کوشش کر لینی چاہئے ہمیں ۔ ساجد نے پریشان کن بیزاری سے کہا ۔

ناصر بولا ” ہاں ! آو یہ کوشش کر کے دیکھتے ہیں ۔

وہ دونوں اسٹیشن ماسٹر کے پاس پہنے مگر وہ اپنے کوارٹر میں تھا ، گاڑی آنے کے وقت پر ہی وہ آتا تھا تب ناصر نے عملے کے کسی فرد کی مٹھی گرم کر کے ویٹنگ روم کھلوایا ۔

ویٹنگ روم زیادہ کشادہ نہ تھا بہرحال غنیمت تھا ۔

مختصر سا فرنیچر بے ترتیب پڑا تھا ، ایک آتشدان بھی تھا جو سردتھا ، ناصر اور ساجد وہاں موجود کرسیوں پر براجمان ہوگئے ، فقط ایک ٹیوب لائٹ روشن تھی، مچھروں کی بھر مارتھی مگر یہاں بہر حال سردی کا زور کم تھا ، وہ دونوں ریل کار کے منتظر تھے ، کرسیاں آرام دہ تھیں ، دونوں تھکے ہوئے بھی تھے ، پشت گاہ سے سر لگا کر بیٹھے تو ان کی آنکھ لگ گئی ۔

کافی دیر گزر گئی ، گاڑی کے آنے کا وقت ہوگیا کہ اچانک کمرے کی لائٹ آف ہوگئی اور ہر طرف گہری تاریکی چھا گئی ۔

ایسے میں ویٹنگ روم کا دروازہ ہلکی چرچراہٹ سے کھلا اور ایک بھیانک چہرے والی بدروح سفید لٹھے کے کفن میں ملبوس اندر داخل ہوئی ،وہ اپنی بغیر پپوٹوں والی آنکھوں سے ناصراور ساجد کو باری باری گھورنے لگی پھر ساجد کے قریب آ کر اس کے کٹے ہوئے ہونٹوں سے نوکیلے دانت کریہہ انگیز جھلک دکھانے لگے ، وہ مسکرا رہی تھی پھر اس نے ساجد کے کان میں سرگوشی کی ، لب و لہجہ ناصر کا ہی تھا ۔

ساجد             ساجد                    اٹھو ٹرین آنے والی ہے ۔

“ ساجد ہڑبڑا کر جاگ گیا پھر آنکھیں ملتا ہوا وہ باہر نکلا ، وہ یہی سمجھ رہا تھا کہ ناصر اس کے ہمراہ چل رہا ہے مگر حقیقت یہ تھی کہ وہ بدروح اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی پلیٹ فارم تک آگئی ۔

ناصر ہنوز اندر ویٹنگ روم میں ہی گہری نیند سو رہا تھا گاڑی واقعی پہنچنے والی تھی ، ساجد یہ دیکھنے سے قاصر تھا کہ اس کہ ناصر ہے یا غیر مرئی بدروح یہ دیکھنے سے قاصر تھا کہ اس کے ہمراہ ناصر تھا یا غیر مرئی بدروح                                  پلیٹ فارم پر چند مسافروں کی وجہ سے بدروح نے خود کو غائب کر رکھا تھا مگر وہ بدستور ساجد کے کان میں ناصر کی آواز میں سر گوشی کرتی ہوئی اسے پلیٹ فارم کے باہر ریلوے ٹریک کی طرف لے جارہی تھی ، سامنے سے ر یل کار کا انجن اپنی آہنی چمنی سے دھواں چھوڑتا چھک چھک چھک کرتا چلا آرہا تھا ۔ بدروح ساجد کو ناصر کی آواز میں پکارتی ریلوے لائن کے قریب آکر کھڑی ہوگئی ۔

پھر جیسے ہی چھک چھک چھک کرتی ریل قریب آنے لگی ، بدروح نے ناصر کی آواز میں ساجد کو آگے بڑھنے کا کہا ، اب وہ نابینا ساجد کو پٹری کے درمیان لے کر چل رہی تھی ۔

ساجد نے بھی اگر چہ ریل کا شور سن لیا تھامگر وہ یہی سمجھ رہا تھا کہ ریل دور ہے کیونکہ وہ نابینا تھا گاڑی ابھی پلیٹ فارم میں داخل نہیں ہوئی تھی تاہم اس کی رفتار خاصی تیز تھی اور پھر ساجد اور گاڑی کا فاصلہ چند فٹ کا رہ گیا تھا ۔

نابینا ساجدا پنی موت سے بے خبر چلا جا رہا تھا ، ریل کار کا انجن قریب آتا جا رہا تھا ، انجمن ڈرائیور اب زور زور سےہارن بھی دے رہا تھامگرساجد یہی سمجھ رہا تھا کہ وہ ناصر کے ساتھ الگ راستے پر چلا جارہا ہے ۔

یہی ساجد کی خوش قسمتی تھی کہ ریل کار کی آمد سے پلیٹ فارم پر مسافروں کی خاصی تعداد جمع ہوگئی تھی اور شور وشغب سے ناصر کی ٹھیک اسی وقت آنکھ کھلی تھی جب ساجد کو وہ بدروح ، ناصرکی آواز میں بہکا کر اپنے ساتھ ریلوے ٹریک کی طرف لے جارہی تھی ۔

ناصر ہڑبڑا کر اٹھا ، ویٹنگ روم کی لائٹ آچکی تھی ، ناصر نے جوساجد کو وہاں نہ پایا تو پریشان ہو گیا ، وہ جلدی سے پلیٹ فارم کی طرف دوڑا دائیں بائیں دیکھا پھر جس طرف سے ریل کار کے انجن کی روشنی آرہی تھی ، وہاں اس نے ساجد کو مین پٹری پر چلتے دیکھا ، اس کی روح فنا ہوگی ۔

وہ پاگلوں کی طرح مسافروں کو پرے دھکیلتا ہو مختصراً سے پلیٹ فارم کو طے کرنے کے بعد ساجد کے قریب پہنچا ، ادھر ریل کار کا انجن ڈرائیور وسل پر وسل دیئے جارہا تھا ۔ عین اس وقت جب انجین گرجتا دھاڑتا ساجد کے سر پر آن پہنچا تو ناصر نے بروقت جست لگائی اور ساجد کو رگیدتا ہوا دوسری طرف کی خالی پڑی پر جاپڑا ریل کار دندناتی ہوئی ان کے بالکل قریب سے گزرنے لگی ۔

گرنے سے دونوں کو معمولی چوٹیں آئی تھیں مگر شکر تھا کہ ناصر نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ساجد کو بچا لیا تھا ،ساجد بھی اب پریشان ہو گیا تھا ۔

ذرا دیر بعد جب ریل کارگزار گئی اور پلیٹ فارم پر جا کھڑی ہوئی تو ناصر ساجد کو لئے جلدی جلدی پلیٹ فارم کی طرف بڑھنے لگا ۔ ساجد نے اسے ساری بات بتائی ۔ ناصر سمجھ گیا کہ یہ کارستانی اسی بدروح کے سوا کسی کی نہیں ہوسکتی تھی ۔

ساجد اب تمہیں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔ ذرا دیر بعد جب وہ بوگی میں سوار ہوئے تو ناصر نے اس سختی سے تاکید کی ۔

, ساجد روہانسا ہو کر بولا ۔ ناصر بھائی تم نے آج مجھے مرتے مرتے بچالیا لیکن میں کیا کروں ، نابینا ہوں ، میں سمجھا تھا کہ تم مجھے پلیٹ فارم کی طرف لے جارہے ہو ؟

“ ” دیکھو                میری بات غور سے س                    ، وہ بد روح جانی پہچانی آواز میں تمہیں صرف بہکا سکتی ہے تمہیں چھونہیں سکتی جب کہ میں تمہیں چھوتا ہوں اور تمہیں بازو سے پکڑ کر سہارا دیتا ہوں ، پس تم اس واضح فرق کو ذہن میں رکھا کرو ٹھیک ہے ۔ ؟

“ ناصر نے اسے سمجھایا اور ساجد نے ہولے سے اثبات میں اپنا سر ہلا دیا ۔

گھنٹے بعد میں پھر ٹرین چل پڑی ۔

زینت کو پورا یقین تھا کہ وہ بدروح اسے دوبارہ دھمکانے کے لیے ایک بار پھر ظاہر ہوگی ۔

اگر چہ وہ خوف زدہ بھی تھی کہ کہیں اس کی دھمکی پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے وہ بدروح اسے کسی قسم کا جانی نقصان نہ پہنچا دے لیکن پھر ساجد اور ناصر کی زبانی ٹاہلی والے بابا کی یہ بات یاد آتے ہی کہ وہ بدروح ابھی طاقتور نہیں ہوئی ہے تاہم وہ بعض حالات میں محض ڈراونے مناظر کا سہارا لے کر انہیں خوف زدہ کرنے کے علاوہ بہکا ضرور سکتی ہے چنانچہ یہ خیال آتے ہی اس کے دل کو تسلی ہوئی ۔

زینت نے اب اس بدروح سے بذات خود ملاقات کرنے کا فیصلہ کیا تھا ، ایک انوکھا اور خطرناک فیصلہ                      وہ اس سے مخاطب ہونا چاہتی تھی ، اس سے بات کرنا چاہتی تھی مگر ایک بدروح سے یوں ہمکلام ہونا بھی بڑے دل گردے والی بات تھی ، اس کے لیے زبردست قوت ارادی ، حوصلے ، جرأت اور بہادری کی ضرورت تھی ۔ زینت نے اس کے لیے خود کو زہنی طور پر تیار کر لیا تھا ۔

ساجد اور ناصر کے جانے کے بعد وہ رات تو خیریت سے گزرگئی پھر اسی طرح دوسری رات بھی بغیر کسی پر اسرار واقعہ کے گزرگئی اور بدروح دوبارہ نہ آئی ۔

شگفتہ اور زینت اب دونوں ایک ساتھ ہی کمرے میں سویا کرتی تھیں ۔ تیسری رات لگ بھگ ایک بجے کے بعد زینت اپنے بیڈ پر لیٹی بدروح کی منتظرتھی ، شگفتہ بہت گہری نیندسوری تھی ، وہ اس کے برابر میں لیٹی ہوئی تھی    دونوں اوپری منزل کے ایک کمرے میں سوئی ہوئی تھیں ۔ کمرے میں مدہم روشنی پھیلی ہوئی تھی ، ماحول میں ٹھنکا دینے والا دم بخودسکوت طاری تھا ، دل دھڑکا دینے والی ایک عجیب سی ہولناک خاموشی طاری تھی ، زینت کو اچانک پھر ویسی ہی پراسرار بے چینی کا احساس ہونے لگا جیسے اسے اس رات محسوس ہوئی تھی ، جب وہ بدروح اچانک نازل ہوئی تھی ، جانے کیوں یکا یک اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا اور اسے اپناحلق بھی سوکھتا ہوا محسوس ہونے لگا ۔

دفعتاً اس کی ٹھٹکی ہوئی نگاہوں کے سامنے سیاہ رنگ کادھبہ ظاہر ہوا جس نے آنا فاناً بھیانک شکل اختیار کر لی ، زینت کا خوف کے مارے جیسے دل دھڑکنا بھول گیا ، یہ وہی کریہہ اور بھیانک صورت بدروح تھی جسے وہ کچھ دن قبل دیکھ چکی تھی تاہم اس نے بڑی مشکل سے اپنے خوف اور اپنی لرزش پر قابو پایا اور بہ مشکل اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گئی ۔

تم نے ابھی تک میری بات کیوں نہیں مانی ، کیا ہے موت مرنا چاہتی ہے ؟ ‘ ‘ وو بھیانک صورت بدروح غرا کر بولی ۔

اس کی بغیر پوٹوں والی آنکھیں زینت کو خونخواری سے گھورے جاری تھیں ۔

زینت نے بہ مشکل تھوگ نگلا اور اس سے مخاطب ہو کر بولی               د                د                                        دیکھو        تت           تم اگر میری اک مدد کردو تو میں تمہاری ہر بات ماننے کو تیار ہوں ۔

کیسی مدد                         ‘ ‘ بدروح نے غرا کر پوچھا  

۔ م           میرے کچھ دشمن ہیں تت                      تم میری طرف سے انہیں اس قدرخوف زدہ کر دو کہ وہ میری کوٹھی چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو جائیں اور میری ان سے جان بھی چھوٹ جائے کیونکہ وہ میری جان کے دشمن بن چکے ہیں ۔ “ اس کی بات سن کر بدروح کے کٹے ہوئے بدہئیت ہونٹوں سے کریہ دانتوں کی جھلک ابھری ، وہ مسکرائی تھی جبکہ زینت یہ سمجھی کہ وہ اس سے ناراض ہوگئی ہے ، وہ بد روح اس سے بولی ۔

ٹھیک ہے لیکر تمہیں بھی پھر میرا ایک کام کرنا ہوگا ۔

زینت کو ذرا حوصلہ ہوا اور وہ خوش ہو کر بولی ” م                                      مجھے منظور ہے مگر تمہارا کون سا کام مجھے کرنا ہوگا ؟

‘ ‘ ” اگر تم میرا ساتھ دیتی رہو تو تم بہت فائدے میں رہوگی ، بولو شرط منظور ہے؟

بدروح نے کہا ۔ ہاں              ہاں           مجھے منظور ہے ، تم جو کہوگی ، میں وہی کرنے کو تیار ہوں ۔ “ زینت نے جلدی سے کہا ۔ میں چاہتی ہوں کہ میں اتنی طاقتور بن جاؤں کہ میرے دشمن میری طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھنے کی جرأت نہ کرسکیں ۔

ہاں              ! ایسا ہی ہو گا ۔ صرف یہ نہیں بلکہ اگر تم میرا ساتھ دیتی رہو تو دنیا میں کوئی بھی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ، دولت اور شہرت تمہارے پیروں کی خاک بن جائیں گی پھر تم دیکھنا کہ میں تمہیں کہاں سے کہاں پہنچا دوں گا ۔

“ ہاں              ہاں میں بھی یہی چاہتی ہوں کہ جو میں چاہوں ، وہ ہو جائے مگر میں سب سے پہلے اپنے دشمنوں سے چھٹکارا پانا چاہتی ہوں ۔ “ زینت نے کہا ۔

بدروح سے مخاطب ہونے کے بعد اب اس کا خوف کم ہونے لگا تھا ۔ اس کی بات سن کر بدروح نے کہا میں تمہارے حالات سے اچھی طرح واقف ہوں ، تم اپنے گھر چلی جاؤ پھر دیکھنا میں کیا کرتا ہوں ۔

و              وہ              تو ٹھیک ہے مگر شگفتہ                   اس کی زمہ داری میرے سر پر ہے ، میں اسے یہاں تنہا نہیں چھوڑسکتی ۔

یہ بات اس نے قدرے ڈرتے ڈرتے کہی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ بدروح کو اس خاندان سےخدا واسطے کا بیر تھا ۔

مگر اس نے دیکھا کہ وہ بدروح غصے میں آنے کی بجائے سرد لہجے میں بولی ۔

” تم شگفتہ کو اپنے ساتھ اپنی کوٹھی میں لے جاسکتی ہو زینت خوش ہوگئی پھر اس نے پوچھا ۔

” لیکن تمہارا کون سا کام مجھے کرنا ہوگا ؟ بدروح کے دانتوں کی کریہہ جھلک ایک بار پھر ابھری اور زینت کو اپنے وجود میں خوف کی سرد لہر محسوس ہوئی ، پھر بدروح نے سنسناتی آواز میں کہا،، یہ میں تمہیں بعد میں بتاؤں گا ، پہلے تم اپنے دشمنوں سے چھٹکارا پالو ۔

اتنا کہنے کے بعد وہ بدروح سمٹتے سمٹتے دوبارہ سیاه دھبے میں تبدیل ہو کر غائب ہوگئی ۔

اگلے دن زینت نے شگفتہ سے کہا ۔

شگفتہ میں اب اپنے گھر جانا چاہتی ہوں ورنہ میری سوتیلی اولاد میر ے حصے پربھی قابض ہوجائے گی ۔

شگفتہ کو اس کی بات پر حیرانی ہوئی ، وہ پریشان ہو کر بولی ۔ ” م                               مگر زینت بہن                ! م                            میں اکیلی یہاں کیسے رہوں گی ؟

ساجد اور ناصرتو آجائیں پھر تم چلی جانا، اس کی بات سن کر زینت مسکرا کر اسے پچکارتے ہوئے بولی۔

تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ میں تمہیں اس کوٹھی میں تنہا چھوڑ کر چلی جاؤں گی ، ہرگز نہیں                   میں تمہیں بھی اپنے ساتھ لے جاؤں گی ۔

” لیکن ساجد اور ناصر کو تو آ لینے دو پھر کوئی فیصلہ کر لیں گے ، شگفتہ نے کہا ۔

نہ جانے انہیں کتنے روز لگ جائیں واپس آنے میں، تب تک تو نہ جانے کیا ہو جائے گا ۔ “ زینت نے کہا ۔

” لیکن تمہیں پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے ، ہم ہمیشہ کے لیے تو اس کوٹھی کو خیر آباد نہیں کہہ رہے ہیں ، ہم یہاں بھی آتے رہیں گے اور جب ساجد اور ناصر لوٹ آئیں گے تو تم دوبارہ یہاں آ جانا واپس ؟

شگفتہ بے چاری کیا جواب دیتی ، ناچار اس نے چپ سادھ لی، تاہم وہ زینت کے اس اچانک فیصلے پر کچھ پریشان اور بے چینی ہوگئی ۔

زینت نے اسے لے کر اپنے دفتر پہنچی اور پھر چند گھنٹے دفتر میں بیٹھنے کے بعد وہ شگفتہ کو لے کرسہ پہر چار بجے اپنی کوٹھی کی طرف روانہ ہوگئی ۔

زینت کے استعمال میں اپنے شوہر کی کارتھی جبکہ ایک کار ان کی اولاد کے زیر استعمال تھی ۔ زینت کی کوٹھی شہر کے ایک پوش علاقے میں تھی ، کوٹھی بہت عالیشان اور خوبصورت تھی ۔

شگفتہ کی تو آنکھیں پھیل گئیں ، باہر کی سج دھج سے زیادہ اندر کی شان و شوکت نے شگفتہ کو دنگ کر کے رکھ دیا تھا ۔

کوٹھی میں اس وقت زینت کے تینوں سوتیلے بچے مشتاق ، اظہر اور اور نعیم کے علاوہ سوتیلی بیٹی ببلی بھی موجود تھے ، وہ اس وقت ایک کمرے میں سر جوڑے اپنی سوتیلی ماں کے خلاف نئی سازش کے تارو پود بننے میں مشغول تھے ۔ اس کے پاگل خانے سے نکلنے کے بعد سے وہ بہت پریشان تھے ۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ اب وہ بالکل آزاد ہو چکی ہے نہ صرف یہ بلکہ وہ ایک بار پھر کاروبار بھی سنبھالنے کے قابل ہوئی لیکن آج جب ان چاروں نے اسے ایک اجنبی لڑکی کے ساتھ کوٹھی میں قدم رکھتے دیکھا تو ان کی پریشانی اب تشویش میں بدل گئی ۔

وہ چاروں دندناتے ہوئے اس کے پاس پہنچے اور سب سے پہلے بڑے بڑے مشتاق نے نہایت بدتمیزی اور غصیلے لہجے میں ماں سے کہا ۔

” تم یہاں کیوں آئی ہو اور           یہ کون ہے ؟ مشتاق نے شگفتہ تحقیر آمیز نظروں سے گھورتے ہوئے پوچھا ۔

مشتاق اور اس کے دیگر بھائی بہنوں کا خیال تھا کہ ان کی سوتیلی ماں اب بھی پہلے کی طرح ان سے دب جائے گی اور دم تک نہ مار سکے گی اور حقیقت بھی یہی تھی کہ زینت ان چاروں سے ذرا دبتی تھی ،وجہ ظاہر ہے یہی تھی کہ شوہر کے انتقال کے بعد وہ عدم تحفظ کا شکار ہونے لگی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ سوتیلی اولاد کی سازشیں بھی عروج پر پہنچ چکی تھیں ، جس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ زینت کو پریشان کر کے زہنی مریضہ بنا کر زبردستی پاگل خانے بھجوا دیا تھا مگر اب زینت کو حالات نے بہت کچھ سکھا دیا تھا، چنانچہ اب وہ نئی زینت کے روپ میں یہاں آئی تھی ۔

بڑے بیٹے کےخار کھائے لب و لہجے پراس نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے غصے سے کہا ۔

” پہلے اپنا لہجہ درست کرو پھر مجھ سے بات کرنا             سمجھے تم ؟ ‘ ‘ یہ کہ کر وہ شگفتہ سے بولی ۔

” آؤ شگفتہ           ؟ پھر وہ دونوں آگے بڑھنے لگیں تو اظہر نے آگے بڑھ کر اس کا راستہ روک لیا اور سرد لہجے میں بولا ” تم یہاں نہیں رہ سکتی ۔

زینت نے ایک جلتی سلگتی نگاہ اس کے چہرے پرڈالی پھر اپنے پرس میں سے موبائل فون نکال کر انسپکٹر توفیق احمد کا نمبر ملایا، رابطہ ہونے پر وہ ایک تیز اور چبھتی ہوئی نگاه اظہر اور نعیم پر ڈالتے ہوئے بولی ۔

انسپکٹر توفیق                 میں زینت امان اللہ بات کررہی ہوں ، آپ کی مسز ایڈووکیٹ خالدہ کی سہیلی، میں اس وقت اپنی کوٹھی میں موجود ہوں اور میری سوتیلی اولاد نے پھر مجھے بدمعاشی دکھانی شروع کردی ہے ، پلیز آپ ذرا تشریف لے آئیں ۔ دوسری طرف سے انسپکٹر توفیق کی پر جوش آواز ابھری ۔ آپ بے فکر ر ہیں ، میں ابھی پہنچتاہوں ۔

“ بہت بہت شکریہ انسپکٹر صاحب زینت نے ممنونیت کے لہجے میں کہا اور موبائل آف کرتے ہوئے اپنے پرس میں رکھا ، اس کے بعد وہ ان چاروں پر استہزائیہ نگاہ ڈال کر شگفتہ کا ہاتھ پکڑے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ، پھرکسی میں بھی اسے روکنے کی جرأت نہ ہوئی ، وہ چاروں دانت پیس کر رہ گئے۔

زینت ، شگفتہ کے ساتھ جیسے ہی اپنے کمرے میں پہنچی تو اچانک اس کی سوتیلی بیٹی ببلی دندناتی ہوئی اندر داخل ہوئی ، اس کا چہرہ غصے سے لال بھبھوکا ہورہا تھا ، وہ زینت کے بالکل قریب پہنچ کر طیش میں بولی، تمہیں پولیس کو یہاں بلانے کی کیا ضرورت تھی ، ہم تمہاری طرح بے عزت لوگ نہیں ہیں کہ یہاں پولیس آئے،، اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ زینت نے غصے سے دانت بھنچ کر ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے گال پر رسید کردیا ۔

چٹاخ کی زور دار آواز ابھری اور ببلی کی آنکھیں إحساس ذلت اور مارے طیش کے پھیل کر رہ گئیں ، اس کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ یہ ڈرپوک سی عورت ایسی جرآت بھی کرسکتی ہے ۔

زینت نے غصے سے پھنکتے ہوئے لہجے میں اس سے کہا ۔ سن لیامیرا جواب           ؟ اب دفع ہو جاؤ یہاں سے ۔

“ ببلی اپنے مضرب گال کو سہلاتے ہوئے اسے نفرت انگیز نظروں سے گھورتے ہوئے غرا کر بولی            ہوں                      تم پھر بھی ہمارا مقابل نہیں کرسکتیں ناگن                           !! ہم دیکھ لیں گے کہ تمہارے اندر کتازہر ہے ۔یہ دھمکی دینے کے بعد وہ غصے سے اپنا پاوں پٹختی ہوئی کمرے سے نکل گئی ۔

زینت کے چہرے پر زہریلی مسکراہٹ عود کر آئی تھی ، البتہ اس صورت حال نے بے چاری شگفتہ کو خاصا پریشان سا کر دیا تھا ۔ وہ متفکر ہو کر زینت سے بولی ۔ ’ ’ زینت           تم نے ابھی یہاں آکر بہت غلطی کی ہے ، ان چاروں بہن ، بھائیوں کے عزائم بہت خطرناک نظر آتے ہیں ۔

اس کی بات سن کر زینت نے زہر خند مسکراہٹ سے کہا ” شگفتہ تم بالکل فکر مت کرو میں اب ان چاروں سے اچھی طرح نمٹوں گی ۔ “ ایک گھنٹے بعد انسپکٹر توفیق چند پولیس والوں کے ساتھ وہاں آپہنچا ، اس نے زینت کا بیان لینے کے بعد اس کے سوتیلے بیٹوں مشتاق ، اظہر اور نعیم کو سخت الفاظ میں سرزنش کی اور زینت کو تسلی تشفی دینے کے بعد چلا گیا ۔

پولیس کے جاتے ہی مشتاق نے زینت سے واضح لفظوں میں کہہ دیا کہ وہ اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ پولیس اس کے ساتھ ہے ، وہ مگرمچھوں کے ساتھ دریا میں زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتی اسے اپنا الگ بندوبست کرنا ہی پڑے گا ۔

مگر زینت نے اس کی دھمکی کی کوئی پروا نہ کی ۔

شگفتہ کو اس جھگڑے میں اب اپنی جان کی فکر لاحق ہونے لگی تھی جو زینت سے چھپی نہ رہ سکی تھی مگر وہ اسے تسلی دینے کے سوا اور کیا کر سکتی تھی ۔

وہ اب منتظرتھی کہ کب وہ بدروح اس کی مدد کے لیے ظاہر ہوتی ہے ۔

ریل کار بھیراں پہنچی تو وہ دو گھنٹے لیٹ ہو چکی تھی ، دور مشرق کی سمت پو بھٹنے لگی تھی ، ساجد اور ناصر بوگی سے نیچے اترے ۔

سردی زوروں پر تھی ، شکستہ سے پلیٹ فارم پر اتر کر دونوں نے پہلے ایک نلکے سے منہ ہاتھ دھویا پھر ایک بوسیدہ سی سیمنٹ کی بنچ پر بیٹھ گئے ، اتنے میں ایک چائے والا چھینکا اٹھائے          چائے کیک چاۓ کیک ‘ ‘ کی آواز لگاتا ہوا وہاں سے گزرنے لگا تو ناصر نے اسے آواز دے کر بلایا پھر دونوں نے چائے کیک کا ناشتہ کیا ۔

ذرا سستائے ، پھر اس کے بعد اسٹیشن کی شکتہ عمارت سے باہرنکل آئے ، ہرسو ویرانی اور خاموشی تھی ، اکا دکا یکے والے کھڑے تھے ، پوچھنے پر پتہ چلا کہ آبادی یہاں سے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر تھی ، ایک یکے میں کئی مسافر بھرے تھے ۔ تھوڑی آبادی والے اس گاؤں میں یکوں کی یہ قلیل تعداد مشترکہ سواری اٹھاتی تھی ورنہ تو ایک مسافر کو کرایہ بہت ادا کرنا پڑتا تھا ، بہر طور دونوں ایک یکے میں پھنس پھنسا کر بیٹھ گئے ۔

ایک کلومیٹر کا سفر گویا دو کلومیٹر پر منتج ہوا۔ مختلف جگہوں پر سواریاں اتارتے ہوئے یکے میں اب صرف ساجد اور ناصر ہی رہ گئے تھے ، کچے پکے مکانوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا ، دور گندم اور گنے کے کھیت بھی نظر آ رہے تھے ۔

یکے والے نے ان سے پوچھا ” پترو             تمہیں کہاں اترنا ہے ؟ ‘

‘ ” چاچا جی ! یہاں کوئی سرائے نہیں ہے ۔ ہمیں وہیں لے چلو ” ناصر نے کہا ۔

سرائے           ؟ ” یکے والے نے حیرت سے کہا ۔ ” یہاں تو کوئی سرائے نہیں ، کیا تمہارا یہاں کوئی جاننے والا نہیں ہے؟

نہیں چاچا جی            ناصر نے نفی میں سر ہلایا ۔

اچھا تو پھر تم یہاں کسی سے ملنے آئے ہو ؟ یک والے نے حیرت سے پوچھا ۔

ناصر زرا گڑ پڑا سا گیا ، اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اسے کیا جواب دے ؟ تا ہم ساجد نے جلدی سے کہا ۔ ” چاچاجی                 ! بات دراصل یہ ہے کہ اس گاؤں کے قبرستان میں ہمارے ایک عزیز شہید نیک شاہ کی قبر ہے ، بس وہاں فاتحہ پڑھ کر آج کے آج واپس لوٹ جائیں گے ، اگر آپ ہمیں سیدها وہیں پنچھا دیں تو بڑی مہربانی ہوگی آپ کی            !!

یکے والا ساجد کی بات سن کر چونک پڑا پھر عجیب سی حیرت سے بولا ۔ کک                                     کیا تم بابا شهید نیک شاہ کے عزیز ہو ؟ شاوا بھئی شاوا                    یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے ، پورا گاؤں ان کا مرید ہے ، آپ تو بڑے معزز لوگ ہو ، بسم اللہ جی بسم الله                 وہ یک دم عقیدت و احترام سے سرشار ہو گیا اور نہایت انکساری کے ساتھ دونوں ہاتھوں سے باری باری ساجد اور ناصر سے بڑی گرمجوشی سے ہاتھ ملایا ۔

دونوں بے چارے حیران و پریشان سے ہو گئے ۔ یکے والا بولا ” تسی ہن فکر نہ کرو جی ، میں تانوں وڈے چوہدری جبار خان دے ڈکرے لے چلنا واں ‘ ‘ یہ کہ کر اس نے یکے کی رفتار تیز کر دی ۔

ناصر اور ساجد الجھن میں سوچ میں پڑ گئے ، ان سے یہ فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ وہ اب کیا کریں ، تاہم انہیں احساس ہوا تھا کہ انہیں یہ بات ابھی ظاہر نہیں کرنی چاہیئے تھی ، یوں ٹاہلی والے بابا کی نصیحت کے مطابق یہ بات راز میں نہیں رہ سکتی تھی ۔

دونوں نے آپس میں سرگوشی کرتے ہوئے صلاح مشورہ کیا اور پھر یکے والے کو رکنے کا کہا ناصر نے فوراً جیب سے کرایہ نکال کر اسے ادا کیا اور پھر ساجد کو سہارا دے کر نیچے اتر آیا ، یکے والا ۔ ”ارے           ارے کرتارہ گیا مگر ناصراور ساجد تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے کچے گھروں کی قطاروں میں غائب ہوگئے ۔

ذرا آگے جا کر ناصر نے ساجد سے کہا ۔ ” ساجد تمہیں یہ بتانے کی کیا ضرورت تھی اس یکے والے کو اس طرح تو سارا گاؤں ہمارے پیچھے پڑ جائے گا کیا تم بھول گئے کہ ہمیں یہ کام نہایت راز داری کے ساتھ کرنا ہوگا ۔

“ ساجد نادم ہو کر بولا ” ہاں ناصر بھائی                   ! واقعی مجھ سے بڑی غلطی ہوگئی لیکن اب کیا کریں ؟ یہاں تو کوئی سرائے بھی نہیں                         ہم کہاں جائیں گے ؟

ناصر مسکرا کر بولا ” ہم نے یہاں کون سا رہنا ہے ساجد                            ٹاہلیوالے بابا نے حاضرات کا جو عمل بنتایا ہے ، وہ آج کے مکمل کر کے صبح تڑکے لوٹ جائیں گےاور بس ۔

لیکن ناصر بھائی                   شہید نیک شاہ کی قبر کس طرح تلاش کریں ؟ اب تو کسی سے ان کے بارے میں پوچھ ہی نہیں سکتے ہم ‘۔

‘ ” تم فکر نہ کرو آؤ کم از کم گاؤں کے اس واحد قبرستان کے بارے میں تو کوئی نہ کوئی ہمیں بتا ہی دے گا ۔ ‘ ‘ – “

ناصر بھائی ! اگر خدانخواستہ ہمارے حاضرات کے عمل کے باوجود شہید نیک شاہ کی روح نے ہم سے رابطہ نہ کیا تو کیا ہوگا ؟ ‘ ‘ ساجد نے پرتفکر لہجے میں کہا ۔

” الله ما لک ہے ، ٹاہلی والے بابا کی بات تو غلط نہیں ہوسکتی ، وہ نیک روح ضرور ہماری مدد کو آئے گی ، بس ذرا دل مضبوط کرنا ہوگا ہمیں ‘ ‘ ناصر نے کہا اور ساجد نے دھیرے سے اثبات میں سر ہلا دیا ۔

قبرستان کا پتہ پوچھنا کوئی مشکل نہ تھا ، راہ چلتے ہوئے کسی سے انہوں نے گاؤں کے قبرستان کی طرف جانے والے راستے کے بارے میں کسی سے پوچھا تو اس نے کہا ۔

کون سے والے قبرستان میں جانا چاہتے ہو ؟ نئے یا پرانے والے میں اس شخص نے ان دونوں کی طرف دیکھ کر پوچھا ۔

اس کے سوال پر ساجد اور ناصر دونوں ہی سٹپٹا گئے پھراچاک ناصر نے کچھ سوچ کر کہا ” پرانے قبرستان ‘ ‘ و سر ہلاتے ہوئے بولا ۔ ” اچھا اچھا وہ بابا شهید نیک شاہ والا قبرستان                 ؟

دونوں کا دل خوشی سے دھڑ کا مگر وہ چپ رہے پھر اس شخص نے انہیں پرانے قبرستان کا راستہ بتا دیا ، انہوں نے اس بھلے مانس آدمی کا شکریہ ادا کیا اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چل دیئے ،

یہ راستہ کھیتوں کے درمیان سے بل نئے قبرستان کے قریب سے گزرتا ہوا ایک ندی کے اوپر سے کافی دور تک جاتا تھا ، وہ دونوں ثابت قدمی سے چلتے رہے ۔ سحر کی روشنی پھیلنے لگی تھی۔ مشرق کی سمت سورج کا آتشی گولا اٹھنے لگا تھا ، کسان کھیتوں کی طرف بڑھنے لگے تھے ، کچے پکے گھر بہت پیچھے رہ گئے تھے ۔

یہ دونوں نئے قبرستان سے ہوتے ہوئے ایک گھنے جنگل میں داخل ہو گئے ، یہاں دھریک اور سرس کے درختوں کی بہتات تھی ، ایک جگہ ساجد تھک کر رک گیا اور بری طرح ہانپنے لگا ناصر بھی بہت تھک چکا تھا ، دونوں ایک گھنے پیڑ کے نیچے زرا سستانے کے لیے بیٹھ گئے ۔

ہم کم از کم اس بھلے مانس شخص سے یہ تو پوچھ لیتے کہ پرانا قبرستان آبادی سے کتنی دور ہے ۔ ساجد نے چند گہری گہری سانسیں لینے کے بعد ناصر سے کہا ۔ وہ مسکرا کر ملائمت سے بولا کیا ابھی سے ہمت ہار بیٹھے        ؟ “

نہیں                       اب ایسی بات بھی نہیں ہے ، میں ویسے ہی کہہ رہا تھا ، آخر پتہ تو چلے ہمیں مزید کتنی دور چلنا ہوگا ۔ ساجد نے ہنس کر کہا ۔

پھر ذرا دیر بعد وہ اٹھ کر دوبارہ چل پڑے ۔ جنگل مختصر ثابت ہوا تھا ، آ گئے انہیں ایک چھوٹی سی نہر بہتی دکھائی دی تھی ، وہ پل پار کر کے دوسری طرف پہنچے تو ان کے سامنے چھدری چھدری جھاڑیوں والا میدان تھا ، سامنے ذرا دور انہیں چند درختوں کا ایک چھوٹا سانخلستان نما جھنڈ نظر آیا ۔

وہ تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے جھنڈ کے نزدیک پہنچے تو ناصر کو ٹنڈ منڈ درختوں کے سائے تلے بھی قبروں کا ایک طویل سلسل نظر آیا ، اس نے ساجد کو منزل کے قریب پہنچنے کی خوشخبری سنائی ، دونوں آگے بڑھ گئے ۔

یہ جنگل بیرونی طرف سے جتنا چھدرا اور مختصر نظر آرہا تھا ، اندر سے اتنا ہی وسیع اور پھیلاؤ رکھتا تھا ، بیشتر قبریں ٹوٹی پھوٹی اور شکستہ نظر آ رہی تھیں ۔

” ساجد بھائی           ! ہم پرانے قبرستان تو پہنچ گئے ہیں ، اب شہید نیک شاہ کی قبر ڈھونڈنی پڑے گی ، یہ قبرستان تو خاصا وسیع نظر آ رہا ہے ۔ ناصر نے اطراف میں نظریں دوڑاتے ہوئے کہا ۔

ساجد بولا ” مجھے یکے والے کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ گاؤں میں شہید نیک شاہ کے خاصے مرید رہتے ہیں ، یقیناً ان کی قبر بھی پکی اور واضح ہوگی ، میرا خیال ہے اسے ڈھونڈنا مشکل نہ ہوگا ، میں یہاں بیٹھتا ہوں ، تم تلاش کر لو پھر!                           !!!

نہیں ساجد میں تمہیں اس ہولناک ویرانے میں یوں اکیلا چھوڑ کر نہیں جاؤں گا ۔ “ ناصر فوراً اس کی بات کاٹ کر بولا ” تم ذرا سستا لو تو پھر ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

میں نے سستا لیا ہے          اٹھو ۔، اس کی بات پرب ساجد درخت کے تنے کو ٹتولتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا ، ناصر نے اس کا ہاتھ تھاما اور وہ دونوں شکستہ اور کٹی پھٹی قبروں کے درمیان میں چلنے لگے ۔

دن میں بھی یہاں وحشت طاری تھی ، ٹنڈ منڈ درختوں کی جھاڑیاں قبروں پر جھکی ہوئی پرااسرار منظر پیش کررہی تھیں ۔

ساجد تو دیکھنے سے قاصر تھا، مگر ناصر دھیرے دھیرے چلتا ہوا اپنے دائیں بائیں دیکھتا ، قبرستان کا نصف چکر پورا کر چکا تو اسے تب بھی شہید نیک شاہ کا مقبرہ دکھائی نہ دیا ، پھر اس نے ذرا سستانے کے بعد بقیہ نصف چکر پورا کرنے کے لیے قدم بڑھا دیئے ، اب اسے صیح معنوں میں اندازہ ہوا تھا کہ قبرستان کس قدرطویل تھا ۔

” کیا ہوا              ؟ ناصر بھائی              قبر    نہیں مل رہی ؟ ‘ ‘ ساجد نے قدرے ہانپتے ہوئے کہا ۔ ہاں یار ! بہت تھکا دیا ، ویسے ابھی آدھا حصہ باقی رہتا ہے ۔ ناصر نے بھی اپنی سانسیں درست کرتے ہوئے کہا ۔

میں تو سمجھ رہا تھا کہ اس چھوٹے سے گاؤں کا قبرستان بھی چھوٹا ہوگا لیکن لگتا ہے یہاں تو پورے دو گاؤں کی آبادیاں دفن ہیں ۔

“ ہاں یار ! مجھے بھی یہ    سن کر حیرت ہوئی تھی کہ بھلا یہ نیا پرانا قبرستان کیا بات ہوئی ؟ میرا خیال ہے آس پاس دوسرے گاؤں بھی ہوں گے ، وہ ادھر اپنے مردوں کو دفناتے ہوں گے ۔ ساجد نے خیال ظاہر کرتے ہوئے کہا ۔

ارے یہ کیا ؟ اچانک ساجد کو ناصر کی ٹھٹکی ہوئی آواز سنائی دی ۔

” کیا ہوا ناصر بھائی              ؟ “ اس نے قدرے چونک کر پوچھا ۔

” مجھے سامنے ایک کٹیا نظر آرہی ہے ، چلو وہاں چل کر پوچھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ناصر نے جوابا کہا ۔

” چلو ‘                         ‘ ساجد بولا ۔ پھر دونوں آگے بڑھ گئے ۔

کٹیا برگد کے گھنے بوڑھے پیڑ تلے بنی ہوئی تھی ۔

پھونس کی یہ کٹیا زیادہ بڑی تھی ، جھونپڑی نما تھی ، دروازے کی جگہ بوسیدہ سا ٹاٹ جھول رہاتھا قریب پہنچ کر ناصر نے با آواز بلند کسی کو پکارا ۔

کوئی ہے                 ؟

‘ ‘ جب کوئی جواب نہ آیا تو اس نے پھر اسی طرح پکارا کوئی ہے ؟

جواب ندارد             !

میرا خیال ہے کوئی اندر موجودنہیں ہے ۔ ساجد نے کہا ۔

ہاں           ! ایسا ہی لگتا ہے ، اب کیا کریں ؟

اپنے کام سے لگتے ہیں ۔

• نہیں مجھے سخت پیاس لگ رہی ہے ، اندر کم ازکم پانی تو ہوگا ، مجھے کسی گورکن کی ہی جھونپڑی لگتی ہے ۔

دونوں بوسیدہ ٹاٹ ہٹا کر اندر داخل ہوگئے ، زمین پر گھاس پھونس پھیلی ہوئی تھی ، ایک کونے میں بوسیدہ سا پھٹا پرانا بستر پڑا تھا ، پاس ہی پانی کا مٹکا بھی دو اینٹوں کے سہارے رکھا تھا جس کے اوپر ایک ٹیڑھا میڑھا جست کا گلاس اوندھا رکھا تھا ۔

ایک جانب سوکھی ٹہنیوں کا مختصر سا گھر بھی نظر آرہا تھا ، وسط میں چھت کو سنبھالے ہوئے ایک بدنما بانس بھی ایستادہ تھا جس سے ایک لاٹین جھول رہی تھی ۔

ایک طرف کچھ زنگ آلود اوزار نظر آرہے تھے ، ایک عجیب ہولناک وحشت سی چھائی ہوئی تھی اندر ۔۔۔

ناصر پانی کا گھڑا دیکھ کر خوش ہو گیا ، اس نے ساجد کو گھاس پر بچھے بستر پر بٹھا دیا پھر گھٹرے سے پانی نکال کر ساجد کو بھی پلایا اور خود بھی پیا ، دونوں ستانے کے لیے بیٹھ گئے ۔

” کیا یہاں کوئی بھی نہیں ہے ناصر                  !؟ زرا دیر ٹھٹکی ہوئی خاموشی کے بعد ساجد نے کہا ۔

ہاں              کوئی بھی نہیں ہے ۔ ناصر نے گومگوں سے لہجے میں کہا ۔ جانے کیوں اسے اس جھونپڑی کے اندر عجیب سی بے چینی کا احساس ہونے لگا تھا پھر اچانک اس نے یونہی قریب رکھے زنگ آلود اوزاروں کی طرف دیکھا اور پھر ذرا کھسک کر ان کا بغور جائزہ لینے لگا ۔

ان اوزاروں میں کیل کھینچنے والا زنبور،، تھوڑی کھیلیں ایک چھرا ایک قصائیوں والا بغدا اور وعد مختلف سائز کی چھوٹی بڑی چھینیاں تھیں ۔

ناصر کہاں ہوتم           ناصر کو خاموش پا کر ساجد نے اسے آواز دی ۔

ناصر کوگو سے لہجے میں بڑ بڑایا ۔ میں ادھری ہوں ، بس یہ اوزار دیکھ رہا ہوں ۔

“ کیسے اوزار ہیں ؟ ساجد نے پوچھا ۔ عجیب سے ہی ہیں ، بتھوڑی کھیلیں ، چھینیاں اور بغدا ‘   ،،،

پتہ نہیں کون یہاں رہتا ہے؟

‘ گورکن ہی کا ہوگا ۔

مگر گورکن کی جھونپڑی میں تو کدالیں اور بیلچے ہونے چاہئیں ۔

بیار ناصر امیرادل گھبرا رہا ہے ۔

ارے یار                      میں ہوں نا تمہارے ساتھ تم پریشان کیوں ہو گئے ۔ ‘ ‘ ناصر نے اسے تسلی دی ، ۔

چلو یار            پانی پی لیا          سستا بھی لیا       ‘ اب نکلو چلو             ساجد کی گھبراہٹ ختم نہیں ہوئی ” چلو یار           !۔

ناصر نے ہنس کر کہا ۔ ارے یار تم تو بلا وجہ ہی گھبرارہے ہو ، میرا خیال ہے یہ جھونپڑی گورکن کی ہی ہوگی ، ہم کہاں شہید نیک شاہ کی قبر کی تلاش میں مارے مارے پھریں گے ادھر ہی بیٹھ کر اس گورکن کا انتظار کر تے ہیں ، وہ آئے گا تو اس سے پوچھ لیں گے ، اسے ضرور معلوم ہو گا ۔

“ ساجد چپ ہورہا، ناصر وہیں زرا کمر سیدھی کرنے کی غرض سے لیٹ گیا ۔

-رات کے ایک بجے کا عمل تھا ۔

زینت اور شگفتہ اپنے کمرے میں سورہی تھیں ۔ یہ زینت کا بیڈ روم تھا ، جہازی سائز کے آرام دہ بیڈ پر شگفتہ تو لیٹتے ہی سوگئی تھی مگر زینت کی آنکھوں سے نیند ابھی تک کوسوں دور تھی ۔ درحقیقت اسے اس بدروح کا انتظار تھا جس سے اس نے معاہدہ کر رکھا تھا ، وہ بڑی بے چینی کے ساتھ بدروح کی منتظرتھی اور بار بار مضطربانہ بے چینی کے ساتھ دیوار کی گھڑیال کی طرف دیکھے جا رہی تھی ، پھر ایک گھنٹہ مزید اسی طرح گزر گیا اور رات کے دو بج گئے لیکن وہ بدروح نہ آئی ۔

زینت بے چینی سی محسوس کرنے لگی ۔ وہ سوچنے لگی کہ کہیں بدروح نے انہیں اس اندھیری کوٹھی سے ہے دخل کرنے کی خاطر کوئی چال تو نہیں چلی تھی ؟ کیوں کہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہاں کوئی ذی نفس نہ رہے ۔ وہ اسی طرح خالی رہے ۔ اچانک رات کے آخری پہر میں ایک تیز چیخ ابھری ۔

یہ چیخ بہت لرزہ خیزتھی ۔ جے سن کر ایک لمحے کے لیے زینت کا بھی دل لرز کر رہ گیا لیکن جب مسلسل چیخوں کی آوازیں ابھرنے لگیں تو زینت پہچان گئی ، یہ اس کی سوتیلی بیٹی ببلی کی چیخیں تھیں ، اب زینت کے لبوں پر زہریلی مسکراہٹ رقصاں ہو گئی، پوری کوٹھی میں بھگڈر مچ گئی ۔

شگبھی جاگ اٹھی اور پریشانی سے زینت کی طرف دیکھ کر بولی – کک           کون چیخ رہا ہے ؟

‘ زینت سمجھ گئی تھی کہ اس بدروح نے وعدے کے مطابق اپنا “” کام”” دکھانا شروع کر دیا ہے چونکہ یہ بات اس نے راز میں رکھنا تھی اس لئے انجان بن کر اور اپنے لہجے میں پریشانی سموکر بولی ۔

” پپ                   پتہ نہیں ، تم ٹھرو میں دیکھتی ہوں ۔

میں بھی ساتھ چلوں گی۔

نہیں                 ! تم ٹھرو           ادھر ہی اور خبر دار کمرے سے باہر مت نکلنا ، میں ابھی آتی ہوں ۔

“ زینت نے کہا اور اپنی خواب گاہ سے باہر آ گئی ۔ کوٹھی کی بتیاں روشن کر دی گئی تھیں ، ایک کشادہ کمرے میں وہ چاروں بہن ، بھائی موجود تھے ، ببکی کی حالت بہت غیر ہورہی تھی ، مشتاق ، اظہر اور نعیم اسے سنبھالنے کی کوشش کررہے تھے مگر ببلی کی حالت نہیں سنبھل رہی تھی ، وہ مارے خوف کے تھر تھر کانپ رہی تھی ۔

ابھی ان کی نظر زینت پہ نہیں پڑھی تھی تب پھر اچانک زینت کو اپنے کان میں ایک سرگوشی سنائی دی ۔

بے وقوف                               اتم واپس جاؤ اور مجھے اپنا کام کرنے دو۔

زینت کا دل یکبارگی زور سے دھڑکا ، وہ سرگوشی کو پہچان گئی تھی ،یہ اسی بدروح کی آواز تھی، وہ اس کی بات کا مطلب سمجھ کر خاموشی کے ساتھ الٹے پیروں واپس اپنی خواب گاہ کی طرف لوٹ گئی ، اس کے چہرے پر آسودہ سکراہٹ تھی ۔

خواب گاہ میں پہنچی تو شگفتہ نے ہراساں لہجے میں پوچھا کیا ہواز بیت           ؟

کچھ نہیں ہوا ببلی نے شاید کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ لیا ہے ۔

وہ رات گزرگئی مگر اس کے بعد ایسی آسیبی راتیں ہر روز آنے لگیں ۔

ببلی کو دراصل راتوں میں ایک کفن پوش انتہائی مکروہ صورت نظر آتی تھی پھر وہ صورت اپنے تینوں بھائیوں میں بھی دیکھنے لگی ، اس پر جنونی دورے پڑنے لگے اور وہ ان پر حملہ کرنے لگی ، جو شے اس کے ہاتھ میں آتی ، وہ آؤ دیکھتی نہ تاؤ ، ان کے چہرے پر جڑ دیتی ، تینوں بھائی بھی پریشان ہو گئے پھر یہی نہیں مشتاق ، اظہر اور نعیم کو بھی کفن پوش مکروہ صورت دکھائی دینے لگی ۔

ظاہر ہے یہ ساری کارستانی اسی بدروح کی تھی چنانچہ وہ چاروں بہن ، بھائی بری طرح خوفزدہ ہوگئے ، سازشی زہن کے مالک تھے ہی وہ سمجھ گئے کہ یہ مکروہ چہرہ اس کی سوتیلی ماں کو کیوں نہیں دکھائی دیتا یا اسے تنگ کیوں نہیں کرتا ضرور وہ کالے جادوکی ماہر تھی ۔

یہ بات جب علی الاعلان انہوں نے اپنی سوتیلی ماں زینت سے کی تو اس نے بھی غصے میں آ کر کے ڈالا ۔

ہاں              یہ ایک بد روح ہے جسے ایک کالے علم کے زریعے میں نے قابو میں کیا ہے ، اگر تم چاروں نے کی کوٹھی خالی نہ کی تو پھر تم سب کو ہلاک کر ڈالے گی اس لئے تم لوگوں کے لیے بہتری اسی میں ہے کہ اپنا بوریا بستر سمیٹو اور یہاں سے ہمیشہ کے لیے دفع ہوجاؤ۔

وہ چاروں ہکا بکا رہ گئے اور پھر وہی ہوا ایک روز کے اندر اندر ان چاروں بہن ، بھائیوں نے اپنا سامان سمیٹا اور کوٹھی کو خیر باد کہہ دیا ۔

طاقت کا اپنا ایک نشہ ہوتا ہے ، اب زینت اکیلی اس عالیشان کوٹھی کی مالک تھی ، طاقت کے نشے نے اسے اب واقعی پاگل اور جنونی کرڈالا تھا وہ پھر کوٹھی میں تنہا کھڑی قہقہے لگانے لگی          ہا       ہا          ہاہاہاہاہاہاہا ۔                                                           اب میں اس کوٹھی کی بلا شرکت غیرے مالک ہوں ، جلد ہی اپنے شوہر کے کروڑوں کے کاروبار کی مالک بھی بن جاؤں گی ، اے بدروح              ! میں تجھ سے بہت خوش ہوں ، تو کہاں ہے میرے سامنے آ           میں تیرا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں ۔

“شگفتہ اس وقت وہاں موجود نہ تھی تاہم اسے یہاں کے پراسرار حالات کا علم ہو چکا تھا ، اتنا تو وہ بھی جان گئی تھی کہ یہ ساری کارستانی اسی بدروح کی تھی ، پہلے پہل تو وہ بھی یہی سمجھی تھی کہ ہوسکتا ہے اس خاندان کا تعلق بھی اس کی طرح شہید نیک شاہ سے رہا ہو ، اس لئے اب وہ بد روح ان کی بھی جانی دشمن بن چکی تھی ، کیونکہ ان چاروں بہن ، بھائیوں کے ساتھ بھی بالکل ویسا ہی ہوا تھا جو شگفتہ اور اس کے گھر والوں کے ساتھ ہوا تھا ۔

شگفتہ کو اس بات پر بھی الجھن آمیز پریشانی بھی تھی کہ آخر وہ بدروح پھر زینت اوراسے کیوں نہیں ستا رہی ، جب اس نے زینت سے یہ سوال پوچھا تو اس نے نہایت مکاری سے کہا تھا ۔

میں تمہارے خاندان سے تعلق نہیں رکھتی ہوں ۔

یہ بات اس نے اس لئے کہی تھی کہ اسے شگفتہ کے پراسرار حالات سے پوری آگاہی تھی اور ناصر اور ساجد کی زبانی ٹاہلی والے بابا کی باتوں سے واقف تھی ۔

جب شگفت اوپر اس کی خواب گاہ میں گہری نیند سوگئی تو زینت نیچے پہنچ گئی تھی ۔

وہاں بدروح اس کے سامنے ظاہر ہوئی تو زینت نے اس کا شکر یہ ادا کیا اور بولی۔” میں اب چاہتی ہوں کہ میری سوتیلی اولاد ہمیشہ کے لیے میرا پیچھا چھوڑ دے میں انہیں کاروبار سے بھی الگ کرنا چاہتی ہوں تم میرا یہ کام کر دو “

اس کی بات سن کر بدروح کے مکروہ چہرے پر کر یہہ دانتوں کی قطار سی ابھری ،وہ بڑے ہولناک انداز میں مسکرائی تھی ۔

تم بے فکر رہو ، ایسا ہی ہوگا لیکن اب تمہیں میرا ایک کام بھی کرنا ہوگا ۔

ہاں              ہاں مجھے منظور ہے ، تم بتاؤ مجھے وہ کام مجھے کیا کرنا ہوگا ؟ “ زینت نے خوش ہو کر بے چینی سے کہا ۔

بدروح نے کہا ۔ ” جس اندھیری کوٹھی میں تم میرے دشمنوں کے ساتھ رہتی تھیں ، اسے جلا ڈالو                         ۔

‘ ‘ زینت اس کی بات سن کر سوچ میں پڑ گئی ۔

یہ مفادات کی جنگ تھی ، اگرچہ زینت جانتی تھی کہ بدروح ایسا کیوں چاہتی تھی اس لئے کہ اندھیری کوٹھی میں اس کا کئی سو سالہ پرانا مدفن تھا جبکہ شگفتہ ، ساجد اور ناصر ،ٹاہلی والے بابا کی ہدایت کے مطابق اس بدروح کو اپنے مدفن کی طرف لوٹنے پر مجبور کرنے کے لیے اتنے پاپڑ بیل رہے تھے جس کے بعد ان کی جان اس بدروح سے ہمیشہ کے لیے چھوٹ سکتی تھیں مگر اب زینت بدروح کا یہ مطالبہ مانے پر مجبور تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اگر اس نے اس کی بات نہ مانی تو وہ آئندہ اس کی کوئی مدد نہیں کرے گی بلکہ الٹا اس کی جان کی دشمن بن جائے گی ۔

پھر بدروح نے اسے شہرت ، دولت اور تحفظ کا وعدہ بھی دیا تھا ، دوسری طرف وہ یہ بھی نہیں چاہتی تھی کہ شگفتہ اور ساجد کوکسی قسم کا جانی نقصان ہو ، وہ ساجد کے معاملے میں خود بھی اس کے لیے اپنے دل میں اب ایک نرم گوشہ رکھتی تھی ، وہ عجیب مخمصے کا شکار ہوگئی تھی ۔

بدروح ہنوز اس کے سر پر کھڑی تھی ، اس نے زینت کی متردد خاموشی پر کہا ” تمہاری خاموشی کو میں کیا سمجھو ؟

“ زینت کے چالاک ذہن میں فوراً ایک خیال ابھرا ، لہذا وہ اپنے لہجے کوملتجیانہ بناتے ہوئے بولی ۔

” دیکھو ! مجھے تمہاری بات ماننے میں انکار نہیں ہے لیکن مجھے ڈر ہے کہ تم بعد میں شگفتہ اور ساجد کی جان کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کرو اور ساجد کو تو میں چاہنے بھی لگی ہوں ، میں اس سے شادی کی خواہشمند ہوں ۔

اس کی بات سن کر بدروح کا بھیانک چہرہ مزید کریہہ ہو گیا اور اس کے حلق سے ایک غراہٹ ابھری اور اس نے زینت کو گھورتے ہوئے کہا ۔تم وعدہ خلافی کر رہی ہو ، اس کا انجام جانتی ہو ؟ “

اس کی دھمکی پر زینت اندر سے لرز اٹھی ، وہ اس سے بگاڑنا نہیں چاہتی تھی لہذا کچھ سوچ کر وہ مکاری سے بولی۔” ٹھیک ہے                         میں تمہاری بات مان لیتی ہوں لیکن یہ کام اتنی جلدی نہ ہو سکے گا تھوڑے دنوں کی مہلت چاہیے مجھے ۔

“ ٹھیک ہے تمہیں صرف تین دنوں کی مہلت ہے ۔ “ وہ بدروح بولی اور آخر میں اسے سختی سے متنبہ کرتے ہوئے بولی ۔ مگر ایک بات یاد رکھنا تم نے کسی قسم کی چالاکی دکھانے کی کوشش کی تو میں تمہیں دوباره اسی مصیبت میں ڈال دوں گی جس سے میں نے تمہیں چھٹکارہ دلایا ہے ۔ یہ کہ کر وہ غائب ہوگئی ۔

زینت کے حلق سے بے اختیار ایک گہری سانس خارج ہوگئی پھر جب وہ اپنی خواب گاہ کی طرف پلٹنے لگی تو بری طرح ٹھٹک کر رک گئی ، زینے پر شگفتہ کھڑی اسے عجیب نظروں سے گھورے جا رہی تھی ۔

زینت کو شگفتہ کی نگاہوں میں گہری تشکیک محسوس ہوئی تھی ۔ کہیں اس نے میری باتیں تو نہیں سن لیں ۔ اس نے گھبرا کر سوچا مگر پھر دوسرے ہی لمحے وہ شگفتہ کو دیکھ کر مسکرائی ۔ ” آؤ       آؤ          تم ابھی تک سوئی نہیں ؟

شگفتہ دھیرے دھیرے نیچے اترتی ہوئی اس کے قریب آئی اور سپاٹ لہجے میں بولی ۔ ” تم کسی سے باتیں کر رہی تھیں ؟ م                         میں                       ک                                کسی سے نہیں                       ک                              کون تھا بھلا یہاں ؟ ‘ ‘ زینت نے ہکلاتے ہوۓ کہا ۔

جھوٹ مت بولو ، میں نے خود سنا تھا تم اس بدروح سے مخاطب تھیں ، وہ تمہیں تین دن کی مہلت دے رہی تھی تم نے ہامی بھر لی تھی ۔ شگفتہ نے اسے گھورتے ہوئے یا دلایا ۔

زینت کے اوسان خطا ہو گئے ، وہ اپنی گھبراہٹ پر مشکل سے قابو پاتے ہوئے بدستور انجان بنی رہی اور مصنوئی مسکراہٹ کے ساتھ بولی ۔تمہیں ضرور وہم ہوا ہوگا شگفتہ           ! بھلا اس بدروح سے میں کس طرح ہمکلام ہوسکتی ہوں                       وہ تو تم لوگوں کی دشمن ہے ۔

“شگفتہ نے بغور اس کے چہرے کو گھورا ، وہ سمجھ گئی تھی کہ زینت اس سے کچھ چھپارہی ہے جبکہ اسے پورا یقین تھا کہ اس نے خوداپنے کانوں سے زینت کے یہ الفاظ سنے تھے ۔

ٹھیک ہے میں تمہاری بات مان لیتی ہوں لیکن یہ کام اتنی جلدی نہ ہو سکے گا مجھ سے، تھوڑے دنوں کی مہلت چاہیے مجھے ۔

لیکن زینت کے پیہم انکار پر شگفتہ نے سردست چپ سادھ لی ۔

ناصر خاصا تھک چکا تھا اسی لئے گودڑ نما بستر لیٹتے ہی اس کی آنکھ لگ گئی جبکہ ساجد دم بخود بیٹھا تھا ، اس کا دل نہ جانے کیوں تیز تیز دھڑک رہا تھا ، وہ ایک انجانا سا خوف محسوس کر رہا تھا ، اس کے جی میں آئی کہ ناصرکو آواز دے ، یوں تو اس نے ناصر کو دو تین بار آوازیں بھی دی تھیں مگر ناصر کے ذرا ہی دیر بعد خراٹے بلند ہونے لگے تھے ، وہ سو گیا تھا ۔

پھر ساجد نے اسے جگانا مناسب نہ سمجھا ، ایک ایک نازک پل اندیشناک لمحوں کی دستک دیتا بیت رہا تھا کہ اچانک ساجد کو ایک آہٹ سنائی دی پھر وہ آہٹ ایک عجیب سی کھڑ بڑ میں بدل گئی ، اسے یوں لگا تھا کوئی یکایک جھونپڑے میں گھس آیا تھا ۔

اس نے بے اختیار چلا کر ناصر کو آواز دی اور اسے جھنجھوڑ نے لگا ۔ناصر                            ناصر                             اٹھو          کک                   کوئی آیا ہے ۔

ناصر ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا ، اس نے ایک کچھڑی سے بالوں والے بوڑھے شخص کو دیکھا ، اس کی کمر ذرا جھکی ہوئی تھی ، سر کے بال اوربھنویں غائب تھیں ، چہرے پر جھریوں کا جال سا پھیلا ہوا تھا ، وہ ایک آنکھ سے کانا بھی تھا ، اس نے ایک لمبا سا میلا چیکٹ کرتا نما چغہ سا پہن رکھا تھا ، دائیں ہاتھ میں ایک کینوس کا تھیلا تھا ۔

مجموعی طور پر اس کی وضع قطع بڑی کریہہ تھی ، وہ ناصر کو اپنی اکلوتی آنکھ سے گھورے جارہا تھا ، ناصر سمجھ گیا تھا کہ یہی اس جھونپڑی کا مالک کوئی گورکن تھا ۔

اس نے فوراً مسکرا کر معذرت خواہانہ لہجے میں اس سے کہا ۔

” ہم معافی چاہتے ہیں ، ہمیں پیاس لگی تھی تھک گئے تھے تمہاری کٹیا دیکھی ، یہاں ذرا سستانے کے لیے بیٹھ گئے تھے ۔

ناصر کو پہلے اس بوڑھے کے چہرے پر غصیلے پن کے آثار محسوس ہوئے تھے لیکن اب بدہیت ہونٹوں پر عجیب سی بے تاثر مسکراہٹ ابھری ، پھر وہ سر ہلاتے ہوئے اپنے بائیں ہاتھ کے اشارے سے ناصر کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا ۔

بیٹھو                   بیٹھو                کوئی بات نہیں ۔

اس کی آواز حد درجہ کھردری تھی جیسے کوئی پھٹا ہوا ڈھول پیٹ رہا ہو ، بوڑھے نے اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھیلے کو ایک کونے میں رکھا پھر ساجد کی طرف دیکھ کر ناصر سے مستفسر ہوا ۔

” تمہارا ساتھی کیا دیکھ نہیں سکتا ۔؟

ہاں             یہ بےچارہ نابینا ہے          ناصر نے کہا۔

اس بوڑھے نے خاموشی کے ساتھ اپنے کرتے کی جیب سے ایک پتلی سی ڈوری نکالی اور کینوس کے تھیلے کے سرے کی مٹھ بنا کر اس کے گرد لپیٹنے لگا ۔ ناصر کو انتہائی ناگواری بد بوکا احساس ہوا ہوا ، اس کی نظریں بار بار تھیلے پر اٹک رہی تھیں ، اسے لگا جیسے یہ بدبو اس گندے تھیلے سے آرہی ہو تاہم اس نے اس کا اظہار نہ کیا ۔ کیاتم گورکن ہو ؟ “ ناصر نے پوچھا ۔

ہاں              اور تم دونوں کون ہو ؟ کہیں جا رہے تھے ؟ بوڑھے نے پوچھا ۔

وہ اب مٹکے سے پانی پی رہا تھا ۔

نن                   نہیں ہم کہیں جا تونہیں رہے تھے ہمیں تو ادھر ہی آنا تھا ۔ ناصر نے کہا ۔

وہ بوڑھا پانی پی کر اپنے چغے کی آستین سے منہ پونچھتا ہوا عجیب سے لہجے میں بولا ”

ہاں           ! یہاں تو ایک نہ ایک دن سبھی کو آنا ہے ۔ اس کے عجیب اسرار بھرے لہجے پر ناصر اور ساجد دونوں لرز سے گئے ۔

ساجد نے اس کے کان میں سرگوشی کی ۔

ناصر بھائی اسے اپنے آنے کا مقصد بتاؤ اور نکل چلو یہاں سے ، میرا دل بہت گھبرارہا ہے ۔ ناصر نے اسے تھپکی دے کر تسلی دی پھر ہنس کر بوڑ ھے گورکن سے بولا ”

بابا                                  ! میں تمہاری بات سمجھ گیا مگر ہماری عمر ہی کیا ہے ، اچھا بابا تم ہمارا ایک کام کر دو گے ؟

کیا کام ؟

ہمیں ایک قبر کی تلاش ہے ۔ “ کس کی قبر                       ؟

شهید نیک شاہ کی قبر ناصر نے اسے بتایا ۔

بوڑھا گورکن اس کی بات سن کر اپنی اکلوتی آنکھ سے اسے گھورنے لگا ۔ ” کیا کہا ؟ شہید نیک شاہ کی قبر         !!!!!

” ہاں بابا              ! تم اس کی قبر پر فاتحہ پڑھنے آئے ہیں ۔ اس نے کہا ۔

بوڑھا گورکن جھکے جھکے کاندھوں سے چند قدم چلتا ہوا اس کے قریب آیا اور اپنی اکلوتی پھٹی ہوئی آنکھ ناصر کے چہرے پر جماتے ہوئے سرسراتے لہجے میں بولا ” تم لوگوں کا یہ کیا لگتا تھا ؟

‘ ‘ بابا              یہ ہمارا ایک دور پار عزیز تھا تم ہمیں اس کی قبر تک پہنچا دو تمہاری بڑی مہر بانی ہوگی ۔ اس بار ساجد نے لب کشائی کی تھی ۔

” اچھا اچھا ٹھیک ہے لے چلوں گا اس کی قبر تک مگر اس کی قبرتو آخری سرے پر ہے، ابھی میں تھکا ہوا آیا ہوں ، ذرا آرام کر لوں پھر لئے چلتا ہوں تم دونوں کو            ! بوڑھے گورکن نے کہا۔ پھر پوچھا ۔ ” تم لوگوں نے کچھ کھایا پیا ہے ؟ “

نہیں بابا                !ہمیں کھانے کی طلب نہیں ہورہی ، آپ ایسا کریں خود یہ زحمت نہ کریں صرف ہماری رہنمائی کر دیں ، ہم خودشهید نیک شاہ کی قبر تک پہنچ جائیں گے ۔ دراصل ہم دوسرے شہر سے آئے ہیں ، ہمارا اس گاؤں میں کوئی واقف کار نہیں ہے ، ہم فاتحہ پڑھ کر جلدی لوٹ جانا چاہتے ہیں ۔ ساجد نے کہا ۔

بوڑھے گورکن نے اپنی ایک آنکھ سے پہلے ساجد کو دیکھا پھر ناصر کی طرف دیکھ کر عجیب اور پراسرار ہے میں بولا ” صرف فاتحہ ہی پڑھنے آئے ہونا اور کوئی چکر تو نہیں                    ‘؟

‘ اس کی بات نے ناصر اور ساجد کو چونکا سا دیا انہیں یوں لگا جیسے یہ بوڑھا گورگن ان کے یہاں آنے کا اصل مقصد جان گیا ہے,    ۔

تاہم ناصر نے کہا ۔” نہیں بابا                                              ! بھلا اور ہم نے کیا کرنا ہے ، فاتحہ پڑھیں گے اور چلے جائیں گے۔

اس گاؤں میں واقعی تمہارا کوئی جاننے والا نہیں        ؟ بوڑھے گورکن نے جیسے اپنی تسلی کی غرض سے پوچھا ۔

ناصر نے نفی میں سر ہلا دیا ۔

اچھا ٹھیک ہے میں بتائے دیتا ہوں ،آؤ باہر، بوڑھے گورکن نے کہا اور پھر ان کو جھونپڑی سے باہر لے آیا پھر ایک طرف ٹوٹی ہوئی قبروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ۔

یہاں سے ناک کی سیدھ میں چلتے جاؤ تیس قدم گن کے ایک گہری کھائی آئے گی تم اس کے بائیں طرف مڑ جانا تھوڑا ہی آگے جاؤ گے تو ایک پرانی باؤلی دکھائی دے گی ، وہیں ایک برگد کا پیڑ نظر آئے گا ، اس کے نیچے وہ قبر ہے ۔ “

تمہارا بہت بہت شکر یہ بابا                ! ہم چلتے ہیں ۔ ناصر نے جلدی سے کہا اور پھر ساجد کا ہاتھ پکڑے مذکورہ سمت کی طرف بڑھ گیا ۔

شگفتہ کو زینت کی طرف سے ایک عجیب سی کھٹک پیدا ہو گئی تھی ، وہ پہلے ہی اس بات پر الجھی ہوئی تھی کہ آخر اس بدروح نے زینت کے سوتیلے بیٹوں کو کیوں خوف زدہ کر کے اس کوٹھی سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا ، ان کی بھلا کیا دشمنی تھی ؟

اگر چہ اس سلسلے میں زینت نے اسے بتایا تھا کہ ہوسکتا ہے یہ لوگ بھی اس کے خاندان یا نسل سے تعلق رکھتے ہوں ۔

اس وقت تو زینت کے اس جواب سے مطمئن ہوگئی تھی مگر وہ الجھ سی گئی تھی ، جانے کیوں اسے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے زینت کوئی چکر چلا رہی ہے ، اسے پورا یقین تھا کہ زینت اس رات بدروح سے ہی مخاطب تھی مگر اس کی یہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر زینت کس بات کی مہلت مانگ رہی تھی ، اب اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ زینت ان تین دنوں کی مہلت میں کچھ کرنا چاہتی تھی ، کیا کرنا چاہتی تھی ، اس کا اسے اب کھوج لگانا تھا ۔

چنانچہ اس نے اب زینت کی ٹوہ لینے کا فیصلہ کیا ، اب وہ کوشش کرتی تھی کہ ہر وقت ان کے ساتھ ساتھ رہے ، یوں بھی وہ اس کے ساتھ ہی دفتر آیا جایا کرتی تھی ،شگفتہ نے زینت سے اس موضوع پر زیادہ بحث نہ کی تھی لیکن ادھر زینت اب پریشان سی رہنے لگی تھی ، اس نے بدروح سے وعدہ کر کے تین دنوں کی مہلت تو لے لی تھی لیکن اب وہ سوچ رہی تھی کہ کیا کرے ، کیا واقعی اس بدروح کی بات مان لے یا پھر انکار کر دے ۔

انکار کرنے کی صورت میں اسے بدروح کی دھمکی یاد تھی اور اگر اس کی بات مان لیتی ہے تو شگفتہ ، ساجد اور ناصر کی ساری محنت اکارت جاسکتی تھی ، بلکہ ان کی جان بھی سخت خطرے میں پڑ سکتی تھی اور اس کا ضمیر بھی گوارا نہیں کر رہا تھا کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ دھوکہ کرے اور پھر ساجد کو تو وہ چاہتی تھی ۔ آخر بہت سوچ بچار کرنے کے بعد اس نے یہی فیصلہ کیا کہ وہ بدروح کی بات ہرگز نہیں مانے گی ، چاہے کچھ بھی ہو جائے تب اس نے شگفتہ کو ایک دن ساری بات بتادی ۔

شگفتہ نے فرطِ جذبات سے اسے اپنے گلے سے لگا لیا اور زینت کو تسلی دیتے ہوئے بولی ۔ زینت بہن بالکل فکر مت کرو تمہیں معلوم ہے نا کہ وہ بدروح ابھی ہمارا بال تک بیکا نہیں کرسکتی ، بس ہمیں ذرا ہوش مندی سے کام لینا ہوگا اور ہاں دعا کرو کہ ناصر اور ساجد خیریت اور کامیابی کے ساتھ واپس آجائیں ۔

” ہاں                      ! مجھے بھی ساجد کی بہت فکر رہتی ہے ۔ “ زینت ہولے سے کہا تو شگفتہ قدرے چونک کر اس کا چہرہ تکنے لگی ، پھر جیسے اس کی بات کا مطلب سمجھ کر مسکراتے ہوئے معنی خیز لہجے میں بولی ۔

اچھا اب میں سمجھی کہ تمہارے اندر کون سی کھچڑی پک رہی ہے لیکن زینت ہہن                   ! مجھے کوئی اعتراض نہیں ، کیا تم میرے بھائی ساجد کے ساتھ خوش رہ سکوگی ، میرا مطلب ہے کہیں بعد میں تمہیں کوئی پچھتاوا نہ ہو؟

نہیں شگفتہ                          ایسانہیں ہوگا ، ساجد واقعی مجھے بہت اچھا لگتا ہے لیکن میں کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ پتہ نہیں وہ مجھے پسند کرتا ہے کہ نہیں کیونکہ میں اس سے عمر میں بڑی جو ہوں ۔ “ زینت نے ہولے سے کہا ۔

شگفتہ بڑے رسان سے بولی ۔ تم بھائی کی طرف سے بے فکر رہو ، اس بے چارے کو خود بھی تم جیسے ہی سہارے کی ضرورت ہے اور پھر تمہاری کون سی اتنی زیادہ عمر ہے صرف چھ سات سال کا ہی تو فرق ہے بلکہ تم تو اپنی عمر سے بھی چھوٹی ہی دکھائی دیتی ہو ۔

اس کی بات سن کر زینت نے مسکرا کر شگفتہ سے کہا ۔

”شگفتہ           ! تم کیا سمجھتی ہو کہ میں ساجد کو ایسے ہی رہنے دوں گی ، ہرگز نہیں میں اس کا علاج کرواؤں گی ، مجھے یقین ہے کہ ایک دن وہ پھر سے ہم سب کو دیکھنے لگے گا۔

اللہ کرے ایسا ہی ہو “ شگفتہ نے فرطِ جذبات سے بندھے ہوئے لہجے میں کہا اور زینت نے زیر آمین کہا ۔

پھر دونوں سونے کے لیے بیڈ پر دراز ہوگئیں ۔ شگفتہ تو لیٹتے ہی سوگئی جبکہ زینت رات گئے کروٹیں بدلتی رہی ، نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دوتھی ۔ درحقیقت اس کا دل گھبرارہا تھا ۔

رات جب نصف پہر گزر گئی تو اچانک کمرے کی دیوار پر ایک سایہ ابھرا ، زینت دیوار پر ابھرتے ہوئے اس پر اسرار سائے کو دیکھ کر بری طرح لرز گئی۔ بدروح اس کے خوف زدہ زہن میں ابھرا ۔ پھر اس کے دیکھتے ہی دیکھتے اس پر اسرار سائے کی صورت واضح ہونے لگی ۔ یہ وہی بھیانک سی صورت تھی اسی بدروح کی صورت                         پھر وہ غصیلے لہجے میں زینت سے بولی ۔”تو نے میرے ساتھ وعدہ غلافی کر ڈالی کر ڈالی ، اب دیکھنا اپنا حشر ۔”

اس کی دھمکی سن کر زینت سہم سی گئی ، دہشت کے مارے اس کی زبان تالو سے جا چپکی تھی پھر وہ بدروح فوراً ہی غائب ہوگئی ۔

زینت ساری رات نہ سو پائی تھی ۔

زینت کی باتوں پر شگفتہ نے بہت غور و خوض کیا تھا ، اسے اب ٹاہلی والے بابا کی یہ عجیب و غریب منطق سمجھ میں آرہی تھی کہ انہوں نے اس اندھیری کوٹھی کو آباد رکھنے کا کیوں مشورہ دیا تھا۔

کوئی ایسی بات ضرور تھی جو اس شیطانی بدروح کے غلاف جاتی تھی ، تب اس کے ذہن میں ایک جھماکا ہوا ، اسے یاد آیا کہ جب ناصر اور ساجد ٹاہلی والے بابا سے جا کر ملے تھے تو انہوں نے دونوں سے یہ بھی کہا تھا کہ اس بدروح کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ تب ہی ہوسکتا ہے جب وہ واپس اپنے پرانے مدفن کی جانب لوٹنے پر مجبور ہو جائے اور یہی معلوم کرنے کو ناصر اور ساجد بھیراں گاؤں گئے تھے جہاں انہیں شہید نیک شاہ کی نیک روح نے اس سلسلے میں ان کی رہنمائی کرنا تھی ۔ اب شگفتہ کو بدروح کے اصل عزائم کے بارے میں اندازہ ہونے لگا تھا کہ وہ اندھیری کوٹھی کو غیر آباد کیوں ر ہنے دینا چاہتی تھی بلکہ اب تو وہ اس کوٹھی کو نذر آتش کرنے پرتلی ہوئی تھی ۔ یہ خیال آتے ہی شگفتہ بے چین سی ہوگئی ، اس نے سوچا کہ اس کوٹھی کو اب زیاره دیر غیر آباد نہیں رہنے دینا چاہئے چنانچہ اگلے روز زینت سے صاف صاف کہہ دیا کہ ناصر اور ساجد کی واپس جانے کب ہو گی اب وہ اندھیری کوٹھی کو زیادہ دن غیر آباد نہیں چھوڑ سکتی ۔

یہ             یہ                         یہ تم کیا کہہ رہی ہو شگفتہ           ؟ تم وہاں تنہا کس طرح رہوگی ؟ ساجد اور ناصر کو تو واپس آ جانے دیتیں۔زینت نے گھبرا کر کہا ۔

شگفتہ سمجھ گئ تھی کہ زینت اس کے ہمراہ اس آسیبی اندھیری کوٹھی میں نہیں جانا چاہتی تھی یوں بھی اسے اب کیا ضرورت تھی وہاں رہنے کی ، وہ اب یہاں اپنی عالیشان کوٹھی میں اپنا تسلط جما چکی تھی گویا اب یہ بھی ایک نیا مسئلہ پیدا ہوگیا تھا کہ اندھیری کوٹھی کی اوپری منزل خالی ہوچکی تھی بہر طور وہ سنجیدگی سے بولی ۔اس کوٹھی کو زیادہ دیر غیر آباد انہیں رہنا چاہیے زینت                               یہ ہم لوگوں کے حق میں بہتر نہ ہوگا ۔

ٹھیک ہے پھر میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی ۔”بالآخر زینت نے فیصلہ کن لہجہ میں کہا ۔

‘شگفتہ قدرے چونک کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی         اور تمہاری یہ کوٹھی خالی رہے گی؟

”بے شک                      مجھے اس کی پرواہ نہیں ۔”

اور اگر تمہاری سوتیلی اولاد نے دوبار اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کی “۔

وہ اب یہاں کھبی نہیں آئیں گے اور اگر آ بھی گئے تو وہ دوبارہ مجھے یہاں سے ہے دخل کرنے کی جرأت اب نہیں کر سکیں گے۔

زینت نے مستحکم لہجے میں کہا ۔

شگفتہ ہولےسے مسکرا دی ۔ اب اسے زینت کی نیت پر بالکل شبہ نہ رہا تھا ۔

دفتر سے واپسی پر شام چھ بجے جب وہ دونوں اپنی کار پراندھیری کوٹھی پہنچیں تو نصف گھنٹے بعد کال بیل بجی، دونوں چونک پڑیں کیونکہ یہاں بھلا کون آنے کی جرأت کر سکتا تھا مگر پھر دوسرے ہی لمحے انہیں خیال آیا کہ کہیں ساجد اور ناصر تو نہیں لوٹ آئے ۔

وہ دونوں ہی گیٹ پر پہنچیں ، دروازہ کھولا تو سامنے شگفتہ کا سسر اور اس کے شوہر ناصر کا ماموں شفقت کھڑا تھا اور اس کے ہمراہ محلے کے چند دیگر معتبر افراد بھی موجود تھے ، ان کے چہروں پر درشتی کے آثار تھے ، شفقت کے لیے زینت اجنبی عورت تھی ، اس نے ایک ناگواری نظر اس کے چہرے پر ڈالی پھر اپنی بہوشفتہ سے مخاطب ہو کر بولا ” میرا بھانجا ناصر کچھ دنوں سے غائب ہے ۔ کدھر ہے وہ           ؟ ‘

‘ وہ میرے بھائی ساجد کے ساتھ دوسرے شہر گئے ہوئے ہیں ۔ شگفتہ نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا ۔

اتنے میں ایک دوسرے محلے والے نے شگفتہ سے مخاطب ہو کر سرد لہجے میں کہا ۔ ” دیکھئے محترمہ              اگر آپ کے شوہر اور بھائی ہوتے تو ہم یہ بات انھی سے کرتے لیکن اب ہم مجبور ہیں ہمیں تم ہی لوگوں سے بات کرنا پڑے گی ” زینت نے کچھ کہنا چاہا لیکن شگفتہ نے اشارے سے اسے روک دیا اور اس کی طرف دیکھ کر متانت سے بولی ۔ ” آپ کو ہم سے کیا بات کرنی ہے ؟

“ اس پر ایک تیسرے محلے دار نے کہا ۔ ” بی بی ہم اس آسیبی کوٹھی سے عاجز آ چکے ہیں بلکہ پورا محلہ پریشان ہے ، پہلے تو ہمیں کوئی پریشانی نہیں تھی لیکن جب سے تم لوگوں نے یہاں ڈیرہ ڈالے رکھا ہے ، یہاں سے بہت عجیب وغریب ڈراؤنی آوازیں آتی ہیں ، ہم یہ برداشت کر لیتے مگر اب ہمارے محلے میں ہر روز کوئی نہ کوئی قتل ہورہا ہے، ہم جانتے ہیں یہ سب آپ لوگوں کی وجہ سے ہور ہا ہے ۔ اس نے اپنی بات ختم کی ۔

ضرور یہ لوگ یہاں کوئی سفلی عمل کرتے ہوں گے ۔ ایک اور نے کہا ۔

ان لوگوں کو پولیس کے حوالے کر دینا چاہئے  

زینت اور شگفتہ اپنی جگہ سن ہو کر رہ گئی تھیں تاہم زینت نے ہی ہمت کر کے ان لوگوں سے کہا ۔ ” آپ لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے ۔ ہم یہاں کسی قسم کا کوئی کالا یا سفلی جادو نہیں کرتے ہیں ۔

زینت کی بات سن کر شفقت کی تیوری پر بل پڑ گئے ۔ وہ زینت کو گھورتے ہوئے بولا ۔

” بیبی                       ! ہم کچھ نہیں جانتے تم لوگوں کو اسی وقت اپنا بوریا بستر یہاں سے سمیٹ کر جانا ہوگا ، مجھے شک ہونے لگا ہے کہ کہیں میرا بھانجا ناصر تم لوگوں کے کالے جادو کی بھینٹ نہ چڑھ گیا ہو “

اے مسٹر تمیز سے بات کریں ، سمجھے تم             یہ کوٹھی ہماری ملکیت ہے ، ہم اسے کیوں خالی کریں ؟ زینت بھی اڑگئی ۔

شگفتہ نے اپنے سسر کو سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ نہ مانا اور یوں وہ سب انہیں پولیس میں جانے کی دھمکی دے کر واپس چلے گئے ۔ اگر یہ بات راز میں رکھنے کے لیے ٹاہلی بابا نے تاکید نہ کی ہوتی تو یقیناً وہ انہیں آگاہ کر دیتیں مگر اب ایک نئی پریشانی نے شگفتہ متوحش سا کر دیا تھا لیکن زینت کو اس کی مطلقاً فکر نہ تھی ۔ اس نے شگفتہ کو تسلی دی اور کہا ۔ پولیس کو بھی آ لینے دو ، میں نمٹ لوں گی ان سے۔”

ناصر اور ساجد ، بوڑ ھے گورکن کے بتائے ہوئے راستے پر تیز تیز قدموں سے ٹوٹی ہوئی قبروں کے درمیان چلے جا رہے تھے ۔ پھر تیس قدم گن کر وہ رک گئے ۔ دن میں بھی چہار اطراف بو کا عالم تھا ، پورا قبرستان سانس لیتا ہوا محسوس ہورہا تھا ، ہرطرف آسیبی ویرانی کا راج تھا ۔ اس کے بعد وہ دونوں بائیں طرف مڑ گئے ، سامنے ہی پرانا کنواں نظر آگیا ، پھر اس کے قریب پہنچ کر وہ دونوں رک گئے ، ناصر نے چاروں طرف نظر دوڑائیں تو اسے اپنے دائیں جانب چند شکتہ قبروں کو چھوڑ کر برگد کا وہ پرانا پیڑ نظر آگیا جس کے نیچے ایک قبر تھی ۔

ناصر بھائی کیا شہید نیک شاہ کی قبر دکھائی دی ؟ ‘ معا ساجد نے پوچھا ۔

ہاں           ! آگئی نظر                      ، آؤ                ‘ ناصر نے کہا اور پھر اس کا ہاتھ پکڑ کے برگد تلے اس قبر کے قریب پہنچ کر رک گیا قبر کچی تھی مگر ٹھیک حالت میں تھی ، اس کے آس پاس کی مٹی کو دیکھ کر اندازه ہوتا تھا کہ قبر کی دیکھ بھال باقاعدگی سے نہیں تو اکثر و بیشتر ضرور کی جاتی ہے ۔

قبر کے سرہانے کتبہ بھی تھا          ناصر زرا جھک کر بخود پڑهنے لگا۔

” شهید نیک شاہ” نیچے مختصر تعارف تھا ۔ “

بھیراں کا بہادر اور نیک انسان جس نے کئی سو سال پہلے ایک بھیانک شیطان صفت انسان کا بڑی بے جگری سے مقابلہ کر کے اس کا خاتمہ کیا اور گاؤں والوں کو اس موذی سے نجات دلائی مگر اس مقابلے میں وہ خود بھی مارا گیا ۔

ناصر ایک گہری سانس خارج کر کے کھڑا ہوا اور ساجدکو کتبے کی تحریر سے زبانی آگاہ کیا ۔ ساجد خوش ہو کر بولا ” اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنی منزل کے قریب پہنچ گئے ہیں ؟

“ ” ہاں ساجد                ہمیں آج ہی رات بابا ٹاہلی والے کے بتائے حاضرات کا عمل کر کے شهید نیک شاہ کی روح سے اس شیطان کی روح کے بارے میں استغفار کرنا ہوگا ۔ مجھے امید ہے اس بہادر شہید کی نیک روح اس معاملے میں ضرور ہماری مدد کرے گی ۔ ‘ ‘ ناصر نے پر جوش ہے میں کہا ۔

اب انہیں رات کا انتظار تھا ، دو پہر ہو چکی تھی ، انہیں بھوک کا بھی احساس ہونے لگا ، پانی تو انہوں نے بوڑھے گورکن کی جھونپڑی سے پی لیا تھا ۔

معا ساجد نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے ناصر سے کہا ۔ ” ناصر بھائی                     !! تمہیں ٹاہلی والے بابا کی نصیحت تو یاد ہے نا کہ ہمیں یہ کام رات کی تاریکی میں اور نہایت راز داری کےساتھ کرنا ہے ؟

ہاں                   ہاں              مجھے یاد ہے ۔ ناصر جلدی سے بولا ۔

لیکن ہمیں اس بوڑ ھے گورکن سے بھی ہوشیار رہنا ہوگا ، وہ ہماری ٹوہ لینے کی کوشش کرسکتا ہے ، میں تو دیکھ نہیں سکتا لیکن تم نے اس بات کا ضرور دھیان رکھنا ہوگا ۔

” ہاں                            ساجد ! تم بے فکر رہو ، میں چوکنا رہنے کی کوشش کروں گا ، آؤ اب ذرا فاتحہ پڑھ لیتے ہیں ۔ ناصر نے کہا اور پھر دونوں نے فاتحہ پڑھی ۔

اب پیٹ پوجا کا مسئلہ تھا ، آبادی بہت دور تھی یوں بھی وہاں انہیں کوئی ہوٹل یا سراۓ وغیرہ نظرنہیں آئی تھی ، نہ ہی ان کا وہاں کوئی جاننے والا تھا لہذا انہوں نے ادھر ہی وقت گزاری کا سوچا ، البتہ ناصر نے ایک جنگلی بیری کا درخت تلاش کیا اور دونوں نے جنگی بیر کھا کر گزارا کیا ۔

اب انہیں آج کی رات اس قبرستان میں گزارنا تھی۔

اچانک اک کھرکھراتی ہوئی بھونڈی آواز ان کی ٹھٹکی ہوئی سماعتوں سے ٹکرائی ۔

لوگوں نے فاتحہ پڑھ لی ؟ دونوں اس شناسا آواز پر چونکے ، ناصر نے گردن موڑ کر دیکھا ۔

سامنے وہی جھکی جھجی کمر والا کانا گورکن کھڑا تھا اس کی اکلوتی آنکھ کا ڈیل تھرک رہا تھا وہ بغور ان دونوں کے چہروں کا جائزہ لے رہا تھا ، کانا ہونے کی وجہ سے دوسری آنکھے کچھ زیادہ ہی پھٹی ہوئی اور ابلی پڑتی نظر آرہی تھی ۔ اسے اچانک سامنے پا کر ناصر کچھ گڑ بڑا سا گیا تھا ، تاہم ناصر نے کہا ۔ہاں                 ! بس اب ہم واپس لوٹنے ہی والے تھے ، سوچا تھوڑی دیر سستا لیں پھر واپس لوٹ جائیں گے ، آبادی بھی تو بہت دور ہے ۔

” ہوں                          ٹھیک ہے لوٹ جانا ، خیال رہے شام جلد ہی اتر آتی ہے اس قبرستان میں ،ایسا نہ ہوکسی مصیبت میں پھنس جاؤ دونوں ‘ ‘ کانے گورکن نے اسرار بھرے لہجے میں کہا اور پھر وہ واپس لوٹ گیا ۔

یہ بد بخت کیوں ہمارے پیچھے پڑ گیا ہے ؟ ہماری مرضی ہم جس وقت بھی واپس لوٹیں ۔ “ ساجد نے اس کے جانے کا اندازہ کرنے کے بعد غصے سے کہا ۔

ناصر کسی سوچ میں گم تھا ، کالے گورکن نے کسی مصیبت کا ذکر کیا تھا اور وہ سوچ رہا تھا کہ کیا وہ انہیں اس طرح ڈرانے کی کوشش کر رہا تھا              ؟ وہ دونوں ذرا فاصلے پر جا کر ایک گھنے پیڑ تلے بیٹھ گئے ، ناصر بخور چوکنا انداز میں چہار اطراف گاہے بگاہے نظر دوڑ رہا تھا ۔ درحقیقت وہ یہ دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ کہیں وہ بوڑھا اسرار کانا گورکن وہاں رہ کر ان کی ٹوہ تو نہیں لے رہا مگر ایسا نہیں تھا ۔ دور دور تک اب ویرانی کا راج تھا ، ماحول میں دم بخودی خاموشی طاری تھی ، اندیشناک وسوسوں سے فضا دور کی محسوس ہورہی تھی ، دونوں وہیں بیٹھے رہے ، پھر کچھ سوچ کر انہوں نے ایک چکر قبرستان کا لگایا اور پھر اس مرتبہ کوئی محفوظ سی جگہ تلاش کر کے وہیں بیٹھ کر رات ہونے کا انتظار کرنے لگے ۔

یہ جگہ شہید نیک شاہ کی قبر سے تھوڑی ہی دورتھی ، ان کا خیال تھا کہ وہ کانا گورکن ضرور ایک بار پھر اپنی تسلی کرنے کی خاطر یہاں آئے گا کہ یہ دونوں واپس لوٹ گئے ہیں یا نہیں              ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر ی کانا گورکن انہیں کیوں شام سے پہلے پہلے یہاں سے لوٹ جانے کا کہہ رہا تھا ، اس میں کیا راز تھا ، کون سا پرا اسرار چکر تھا ؟ یہ دونوں نہیں جانتے تھے ۔

وقت گزرا ، شام جھکنے لگی ، یہاں تو دن میں بھی ہولناک ماحول محسوس ہوتا تھا مگر اب شام ہوتے ہی ماحول میں مزید وحشت طاری ہو گی ۔

ناصر بھائی                    شام تو ہوگئی ؟ معا ساجد نے پوچھا ۔ہاں شام تو ہو گئی لیکن ہم سے ایک غلطی ہو گئی ۔ ناصر نے سرگوشی میں کہا ۔

کیسی غلطی         ؟ “

ہمیں لالٹین اپنے ساتھ ضرور لانی چاہیے تھی ۔ ناصر نے بتایا ۔

کیا آسمان صاف نہیں ؟ چاند کی روشنی سے بھی کام لیا جاسکتا ہے ۔ ساجد نے کہا ۔

” ہاں          دیکھتا ہوں ، آسان تو صاف ہی ہے ۔ ناصر نے شفاف آسمان پر تارے ٹمٹماتے ہوئے دیکھ کر کہا ۔ شام کے بعد رات جھک آئی ، اب انہیں آوارہ جانوروں اور دیگر حشرات الارض کا بھی ڈر ہونے لگا۔ شکر تھا کہ طباق سا چاند ابھر آیا تھا اور پر اسراری طلسماتی چاندنی پورے قبرستان پھیل گئی تھی ، آس پاس اب آوارہ کتوں اور گیدڑوں کے چیخنے چلانے کی بھی آوازیں آنے لگی تھیں ۔ ساجد نے ہولے سے سرگوشی کی ۔

ناصر بھائی              لگتا ہے رات گہری ہوگئی ہے کیوں نا اپنا کام    شروع کیا جائے    

ناصر بولا ۔ ” چلو ۔ “

و دونوں اٹھے اور شہید نیک شاہ کی قبر کی طرف چل پڑے ۔

دفعتاً انہیں لگا جیسے کوئی ان کے عقب میں چلا آرہا ہو ، ناصر نے فوراً رک کر اپنے عقب میں دیکھا مگر اسے سوائے تاریکی کے اور ملگجی چاندنی کے کچھ نظر نہ آیا ، وہ اسے ماحول کا شاخسانہ قرار دے کر پھر آگے بڑھا تو اچانک اسے اپنے عقب میں آہٹ سنائی دی ، اس نے یک دم گردن موڑ کر عقب میں دیکھا تو اسے ایک سایہ درخت کی آڑ میں چھپتا ہوا نظر آیا ۔

کون ہے ؟ “ ناصر نے دھڑکتے دل سے پکارا مگر کوئی جواب نہ ملا ۔

ساجد                  تم ٹھرو زرا          ” ناصر نے ساجد کو وہیں کھڑا کیا اور اس درخت کی طرف بڑھنے گا جدھر وہ پراسرار سایہ چھپا تھا ، وہاں پہنچا تو کوئی نظر نہ آیا ، اس کے دل و دماغ کو انجانے خوف نے جکڑ لیا تاہم وہ واپس مڑا تو اچانک ٹھٹک کر رک گیا ، اس نے دیکھا کہ گم سم کھڑے ساجد کی طرف ایک سایہ دبے پاؤں بڑھ رہا تھا ، اس کے ہاتھ میں کدال تھی جسے اس نے دونوں ہاتھوں میں کھڑے اپنے سر سے بلند کر رکھا تھا ، اس کے جارحانہ تیور سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ سا جد پر حملہ کر نا چاہتا تها ناصر نے جو یہ دیکھا تو اسے ساجد کی جان    خطرے میں محسوس ہوئی اور وہ چشم و زون میں اس سائے کے قریب جا پہنچا پھر اس سے پہلے کہ وہ جھکے جھکے کندھوں والا سایہ کدال سے ساجد پر حملہ کرتا ، ناصر نے بڑے زور سے اسے دھکا دیا ، سایہ پرے جاگرا ، کدال اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی ، ناصر نے دیکھا وہ کاناگورکن تھا ، اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا ، اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کیوں ساجد کی جان کا دشمن بن گیا تھا ۔

ادھر کانے گورکن نے بھی اٹھنے میں زیادہ دیر نہ لگائی ، اس کے چہرہ پر درشتی کے آثار تھے اور اکلوتی آنکھ میں بڑی خوفناک سی چمک تھی ، اس نے دوبارہ کدال اٹھا کر اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ لی تھی ۔

پھر وہ ناصر کو گھور کر غصیلے لہجے میں بولا ” میں نے تم لوگوں سے کہا تھا کہ شام ہونے سے پہلے دفع ہو جانا ورنہ کسی مصیبت میں پھنس جاؤ گے، اب بھگتو                   ۔

یہ کہ کر وہ کدال اپنے ہاتھوں میں تولتا ہوا جارحانہ تیوروں کے ساتھ ان کی طرف بڑھنے لگا ۔

ناصر بھی محتاط ہو کر کھڑا ہو گیا تھا ، ساجد البتہ بے چارہ حیران و پریشان کھڑا تھا ناصر نے چلا کر کانے گورکن سے کہا ۔

ہماری مرضی ، ہم یہاں سے جائیں یا نہ جائیں تم کون ہوتے ہو ہمیں یہاں سے واپس لوٹنے پر مجبور کرنے والے ؟

‘ ‘ کا نے گورکن نے عجیب سے لہجے میں غرا کر کہا ۔ ”

بکواس مت کرو ، اب تمہارے لوٹنے کا سمے بیت چکا ، اب میں تم دونوں کی ادھر ہی قبریں بناؤں گا ۔

“ ناصر کے وجود میں خوف کی لہر دوڑ گئی مگر اس نے ہمت نہ ہاری اور بولا ۔ ” مگر تم ہماری جان کے دشمن                                     ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ اس کانے گورکن نے ناصر پر کدال سے حملہ کردیا ناصر نے اپنے حواس بحال رکھتے ہوئے اس کے کدال والے دونوں ہاتھوں کو روکا اور اس سے کدال چھین کر پیٹ میں ایک زور دار لات رسید کر دی ، کانے گورکن کو شاید ناصر سے ایسی بہادری کی توقع تھی ، وہ پیٹ پر لات کھاتے ہی خرخراتی آواز سے کئی قدم پیچھے ہٹ گیا ، اس کے چہرے کے تاثرات مزید بگڑ گئے اور چہرے پر ہولناک درشتی امڈ آئی تھی ، ناصر کا خیال تھا کہ اب یہ کانا گورکن واپس بھاگنے پر مجبور ہو جائے گا مگر دوسرے ہی لمحے اس نے دیکھا کہ اس کانے گورکن نے کھڑے ہوتے ہوئے اس سے کہا ۔ ” میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم دونوں یہاں کسی نیت سے آئے مگر میں ہرگز تمہارا وہ مقصد پورا ہونے نہ    دوں گا کیونکہ میں خود مقدس جافرموس کا پجاری ہوں ، میں تم دونوں کو ایک آخری موقع دے رہا ہوں کہ اب بھی وقت ہے یہاں سے فوراً چلے جاؤ “ ناصر اور ساجد اس کی بات پر چونکے۔

کانے گورکن نے خود کو کسی جا فرموس کا پیروکار بتایا تھامگر یہ تھا کون ؟

اس بارے میں استفسار کرنے کی ہمت ساجد نے ہی اس سے کی اور بولا ۔ ” یہ جا فرموس کون ہے ؟

مقدس جافرموس بولو,۔” وہ کانا گورکن درشت لہجے میں بولا ۔ ” وہ ناقبل تسخیر پراسرار قوتوں کا مالک تھا لیکن آج سے کئی سو سال پہلے زمان شاه نامی انسان نے اس کے ساتھ جنگ لڑنے کی جرأت کی ، اس نے مقدس جا فرموس کو موت کے گھاٹ اتار دیا مگر خود زمان شاہ بھی بچ نہیں سکا ، مقدس جافرموس جسمانی طور پر تو مر چکا ہے لیکن اس کی روح اب بھی بھٹکتی رہتی ہے ، زمان شاہ نے اسے یہاں سے دور اپنے ایک دور پرے کے رشتے دار کے گھر میں دفنا دیا تھا کیونکہ وہ مقدس جافرموس کی پر اسرار طاقتوں سے خوب واقف تھا اور جانتا تھا کہ مقدس جافرموس کسی وقت بھی دوبارہ زندہ ہوسکتا ہے مگر بعد میں زمان شاہ بھی نہ بچ سکا اور اب تم دونوں زمان شاه کی برسوں پرانی جنگ میں شامل ہونا چاہتے ہو ، میں تمہیں کھبی کامیاب نہ ہونے دوں گا ۔ یہ کہ کر وہ مارے غیظ و غضب کے ہانپنے لگا ۔ ناصر اور ساجدمبہوت سے اس کی یہ باتیں سنتے رہے تھے ۔

پیش آمدہ حالات کے مطابق وہ اس کانےگورکن کی باتوں کو سمجھ رہے تھے کہ جافرموس وہی شیطان تھا جس کی موت زمان شاہ المعروف شہید نیک شاہ کے ہاتھوں ہوئی تھی اور اب اس کی بدروح ان کے خاندانوں کی جانی دشمن بن چکی تھی اور یہ کانا گورکن اس کے چیلوں کے خاندان تعلق رکھتا ہوگا ۔

صورت حال عین وقت پر گھمبیر ہو گئی تھی مگر مایوس ہونے کے بجائے ناصر اور ساجد نے اس مشکل گھڑی سے نمٹنے کی ٹھان لی تھی لہذا ناصر نے جرأت اور ہمت سے کام لیتے ہوئے اس سے کہا ۔ ” اے شیطان کے چیلے                            تجھ پر الله کی مار ہو تو اور تیرا شیطان جافرموس ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور یہ بات بھی ہماری تم کان کھول کر سن لو کہ ہم صرف اور صرف اللہ سے ڈرتے ہیں اور وہی ہماری آگے بھی مدد کرے گا اور عنقریب اس جنگ کے خاتمے کے ساتھ تمہارے اس شیطان آقاجا فرموس کا بھی ہمیشہ کے لیے کام تمام ہو جائے گا ، اگر تم نے ہمارا راستہ کھوٹا کرنے کی کوشش کی تو تمہیں بھی ہم زند نہیں چھوڑیں گے۔”

ناصر کی جرأت آمیز گفتگو اور ارادوں کی پختگی نے کانے گورکن کو ایک لمحے کے لیے پریشان سا کر دیا مگر پھر دوسرے ہی لمحے اس نے اپنے حلق سے ایک بلند قہقہہ اگلا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو فضا میں بلند کر کے بولا ۔

” اے مقدس جا فرموس کے پیروکار                                                 ! قبروں سے نکل آؤ اور میری مدد کرو ‘      ۔

‘ اتنا کہنے کی دیر تھی کہ اچانک آس پاس کے ماحول میں عجیب سی گونج پیدا ہونے لگی ۔ ناصر گردن گھمائے چاروں طرف دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا ، اسے کچھ پراسراریت کا احساس ہورہا تھا جبکہ ساجد نے بھی یہ نے پراسرار سی گونج سن لی تھی ، وہ چلا کر ناصر سے بولا” ناصر بھائی                               ! اس خبیث گورکن کوختم کر دو ، یہ اسی بدروح کا چیلا ہے ۔

“ ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ اچانک ناصر کا دل خوف کے مارے اچھل کر حلق میں آن اٹکا ۔ نیم طلسماتی چاندنی میں وہ کیا دیکھتا ہے کہ اردگرد کی قبروں سے مردے سالم حالت میں اٹھ کر آہستہ آہستہ ان کی طرف بڑھنے لگے ۔ ایسا دہشت ناک منظر اچھے اچھوں کا پتہ پانی کر دیا کرتا ہے لیکن چونکہ ناصر نے اس بدروح کو ہمیشہ کے لیے نابود کرنے کا پختہ عزم کر رکھا تھا ، اس لئے اس نے اپنے اعصاب پر قابو رکھا تھا ، وہ بخور چاروں طرف سے مردوں کو اپنی طرف بڑھتا ہوا دیکھے جا رہا تھا ، یہ مردے کسی نئی قبروں سے شق ہو کر نہیں نکلے تھے بلکہ جو قبریں شکستہ اورٹوٹی ہوئی تھیں ، ان کے اندر سے برآمد ہوئے تھے پر حیرت کی بات تھی کہ وہ استخوانی حالت میں نہ تھے ، اپنے اصل رنگ و روپ میں تھے البتہ ان کے جسم سفید لٹھے کے کفن میں ضرور لپٹے تھے ، ان کے چہرے بھی عام انسانوں ہی جیسے تھے مگر آنکھیں پتھرائی ہوئی تھیں اور چہرے کسی تیز واٹ دودھیا بلب کی طرح روشن تھے ۔ ان کی تعداد دس بارہ کے لگ بھگ نظر آتی تھی مگر ان میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا تھا ۔

ناصر نے اپنے حواس مجتمع رکھتے ہوئے اپنے ہاتھوں میں پڑی ہوئی کدال کو مضبوطی سے تھام لیا اور پھر جیسے ہی ایک مردہ اس کے قریب آیا ، اس نے کدال کا نوکیلا آہنی پھل اس کے سینے پر رسید کر دیا ، مردے کے حلق سے کوئی چیخ برآمد تو نہ ہوئی البتہ وہ کدال کا وار کھاتے ہی لڑ کھڑا کر گر پڑا ، ناصر کو ہمت ہوئی اور یوں اس نے دوسرے مردے کا بھی یہی حشر کیا پھر تو جیسے ناصر پر جنون طاری ہو گیا مردے اس کی کدال کا وار کھا کھا کر زمین بوس ہونے لگے مگر گرتے ہی وہ اپنے ہاتھوں ، پیروں اور گھٹنوں کی مدد سے گھسٹنے کی کوشش کرنے لگے ، خون ان کے جسموں سے نہیں بہہ رہا تھا۔

پھر اچانک اسے ساجد کی ولدوز چیخ سنائی دی ، وہ ساجد کی طرف پلٹا اور دھک سے رہ گیا ، دو مردوں نے حیران پریشان ساجد کو دبوچا ہوا تھا ، ایک مردہ اس کی گردن میں اپنے دانت گاڑنے کی کوشش کر رہا تھا ، اور وہ خبیث کانا گورکن زور زور سے شیطانی قہقہے لگانے میں مصروف تھا ۔

ناصر نے جوش کے مارے ایک زور دار چیخ ماری اور کدال پکڑے ساجد کی طرف لپکا ، اس نے سب سے پہلے ایک مردے کی پشت پر کدال رسید کی اور اسے گردن سے پکڑ کر ساجد سے علیحدہ کر کے پرے دھکیل دیا پھر یہی حشر اس نے دوسرے مردے کا بھی کیا ۔

ساجدہ بے چارہ چیخ چیخ کر ناصر سے پوچھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ان پر کن لوگوں نے حملہ کر دیا ہے لیکن ناصر کے پاس اتناوقت نہ تھا ، تاہم اس نے خوفناک نظروں سے قریب کھڑے شیطانی قہقہے لگاتے ہوئے اس کانے گورکن کی طرف دیکھا اور پھر غصے سے دانت پیستے ہوئے وہ ایک جوشیلی چیخ مارکر اس کی طرف لپکا ۔

کانے گورکن نے جو ناصر کو کدال پکڑے جارحانہ تیوروں کے ساتھ اپنی طرف بڑھتے دیکھا تو اچانک اس کے قہقہوں کو بریک لگ گئ ، وہ پریشان سا نظر آنے لگا مگر پھر دوسرے ہی لمحے اس نے واپس پلٹ کر بھاگنے کی کوشش کی ، ناصر اب اس کے سر پر پہنچ چکا تھا ، اس نے کدال کی بھر پور ضرب اس پر رسید کر دی جوخبیث کا نے گورکن کے دائیں کاندھے پر پیوست ہوگئی ، اس کے حلق سے ایک کریہہ چیخ بلند ہوئی اور پھر وہ تیورا کر گرا ، کدال کا آہنی پھل اس کے دائیں کاندھے پر پوست تھا اور اب اس کے زخمی کاندھے سے خون جاری ہو گیا تھا ، کانا گورکن اذیت ناک کراہوں کے بعد اپنے ہاتھ پاؤں ڈھیلے چھوڑ کر ٹھنڈا پڑ گیا ۔

فرطِ جوش سے ناصر کا چہرہ بری طرح تمتما رہا تھا اور وہ زور زور سے ہانپنےبھی لگا تھا ، اچانک اسے پھر ساجد کی چیخ سنائی دی ، وہ بے اختیار پلٹا ، کیا دیکھتا ہے کہ تین چار مردوں نے اسے زمین پر گرا دیا تھا ، اس کی روح فنا ہوئی ، وہ کانے گورکن کو اسی حالت میں چھوڑ کر اس کی مدد کے لیے لپکا اورقریب پہنچا تو اچانک ٹھٹک کر رک گیا ، تمام مردے آنا فانا غائب ہونے لگے تھے ۔

ناصرنے فوراً آگے بڑھ کر سا جد کو سہارا دیتے ہوئے کھڑا کر دیا ، اس کے کپڑے مردوں سے کھینچا تانی کے باعث پھٹ گئے تھے ، ناصر نے اپنی سانسیں بحال کیں اور پھر جلدی جلدی اسے صورت حال سے آگاہ کرنے لگا ۔ قبرستان میں اب ایک بار پھر ہولناک سناٹا طاری ہو چکا تھا ۔

ان دونوں کو اب ایک نئی پریشانی نے آن گھیرا تھا ، سب سے زیادہ پریشانی شگفتہ کو ہورہی تھی ، اپنے سسراور محلے والوں کی دھمکی اور دو روز کے اندر اندر اس اندھیری کوٹھی کو خالی کرنے کی مہلت دینے سے وہ خاصی فکر مند ہوگئی تھی ، اس پر مستزاد ان لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ راتوں کو اب اس اندھیری کوٹھی سے زور زور سے رونے چلانے کی آوازیں اس قدر شدت اختیار کر چکی ہیں کہ مارے خوف کے محلے والوں کا جینا دوبھر ہو چکا ہے ، محلے والوں نے ان پر ہی الزام لگایا تھا کہ یہ سب انہی کی وجہ سے ہورہا تھا ، مزید یہ کہ اندھیری کوٹھی میں بیٹھ کر یہ لوگ سفلی علوم اور جادوٹونے کیا کرتے تھے ۔

شفقت اور محلے کے چند لوگ پولیس لانے کی بھی دھمکی دے چکے تھے لیکن شگفتہ کی بہ نسبت زینت کچھ زیادہ پریشان نہ تھی شاید اسے تسلی تھی کہ وکیل خالدہ توفیق اپنے پولیس افسر شوہر توفیق احمد کے ذریعے ایسی صورت حال کو سنبھال لے گی ۔

چنانچہ وہ دن تو خیریت سے گزر گیا البتہ اگلے دن جب دونوں تیار ہو کر دفتر جانے کی تیاریاں کرنے لگیں تو متعلقہ تھانے کی پولیس آ گئی ، ان کے ہمراہ ایک موٹا حوالدار بھی تھا ، یہ تھانہ انچارج تھا ۔

اس نے ان دونوں کے بیانات لئے ۔ زینت اور شگفتہ نے انہیں بتا دیا کہ وہ کافی عرصے سے یہاں مقیم ہیں اور اندھیری کوٹھی کے پراسرار واقعات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔

پولیس نے پوری کوٹھی کی تلاشی لے ڈالی ، محلے کے چند لوگ بھی آگئے تھے ، ان میں ناصر کا ماموں شفقت پیش پیش تھا اور وہ تھانیدار کے کان بھرنے کی کوشش میں دوسرے محلے والوں کی طرح بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا تھا ، بالآخر جب موٹا تھانیدار اس کمرے کے دروازے کے قریب پہنچا جہاں اس شیطانی بدروح کا مدفن تھاتو اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوارول بند دروازے کے زنگ آلود تالے پر ٹھوکتے ہوئے شگفتہ سے پوچھا ۔

اس کمرے میں کون رہتا ہے ؟ ‘ ‘ بے چاری شگفتہ پریشان سی ہو گئی البتہ زینت مرعوب ہوئے بغیر جواب بولی ۔۔       یہ کوٹھی کا سٹور روم ہے۔”

ہوں                    ؟ ‘ تھانیدار اس کے چہرے کو گھورتے ہوئے دانت پیس کر بڑبڑایا ۔ ” پراس پر تالا کیوں پڑا ہے ، کیا اسٹور روم میں کوئی خزانہ پوشیدہ ہے ؟

شفقت نے فوراً تھانیدار کے کان بھرتے ہوئے کہا ،تھانیدار جی جی                             یہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں ، اس کمرے کے اندر تو بیٹھ کر یہ لوگ سفلی عمل اور جادوٹونے کرتے ہیں ، آپ اسے ابھی کھلوانے کا حکم دیں پھر دیکھنا میری بات سچ ثابت ہوتی ہے کے نہیں ۔

محلے کے دیگر لوگوں نے بھی سر ہلا کر اس کی بات کی تائید کی ۔تب موٹے تھانیدار نے معنی خیز انداز میں اپنے سر کو معنی خیز انداز میں جنبش دیتے ہوئے شگفتہ سے اس کی چابی مانگی مگر چابی تو تھی ہی نہیں کیونکہ ٹاہلی والے بابا نے اس کمرے کو کھولنے یا اسے استعمال کرنے کی سختی سے ممانعت کر رکھی تھی چنانچہ شگفتہ کے اس جواب پر کہ چابی کھو گئی ہے ، اس کے شبہے کو تقویت ملی اور یوں موٹے تھانیدار نے کڑک دار لہجے میں اپنے سپاہیوں کو حکم دیا ۔

“یہ تالا توڑ دو “

تھانیدار کے اس حکم پر شگفتہ جی جان سے لرز اٹھی تھی ۔ اس نے تھانیدار کی بہت منت سماجت کی لیکن وہ اپنی بات پر اڑا رہا ، کیونکہ شگفتہ کے رونے پر اس کے شبہے کو مزید تقویت مل رہی تھی ، یہی حال محلے کے ان لوگوں کا بھی تھا جو شفقت کے ساتھ آئے تھے ۔ ادھر سپاہیوں نے فوراً ہی اپنے افسر کے حکم کی تعمیل کی اور بالآخر تالا توڑ دیا گیا ، اس کے بعد کمرے کا سالخورده درواز کھولا گیا تو ناگوار سی بدبو کا ایک جھونکا ان کے نتھنوں سے ٹکرایا اور سب کا جی الٹنے لگا ۔

ایک سپاہی نے ٹارچ کی روشنی اندر داخل کی تو چمگادڑوں کا ایک جھنڈ پھڑپھڑاتا ہوا باہر نکلا کسی کو اندر داخل ہونے کی ہمت نہ ہوئی تھی تب تھانیدار نے کڑک دار لہجے میں اپنے سپاہیوں کو حکم دیا ۔

کھڑے میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو ، اندر جا کر تلاشی لو ۔ “  

حکم حاکم مرگ مفاجات کے مصداق تین سپاہی ڈرتے ڈرتے اندر داخل ہوئے ۔ جس سپاہی کے ہاتھ میں ٹارچ تھی ، وہ لرزتے ہاتھوں سے ٹارچ کے روشن ہالے کو چاروں اطراف گردش دینے لگا ، اچانک ایک بھیانک اور کریہہ چہرے پرٹارچ کی روشنی پڑی ، یہ بدروح کا بھیانک چہرہ تھا ، باقی دو سپاہیوں کی بھی اس پر نظر پڑ چکی تھی ، سپاہی کے ہاتھ سے ٹارچ چھوٹ کر گر پڑی تھی اور پھر تینوں       بھوت                بھوت                بھوت                ‘ ‘ چلاتے ہوئے باہرکو دوڑے ۔

– اسی لمحے اندر سے ایک غراتی ہوئی خونخوار آواز ابھری ۔  

” چلے جاؤ سب یہاں سے ورنہ میں سب کو مار ڈالوں گا ۔ چلے جاؤ

“ بس پھر کیا تھا ماسوائے شگفتہ اور زینت کے سب لوگ خوف زدہ ہو کر عالم بدحواسی میں وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے ۔ شگفتہ نے زرا ہمت سے کام لیا اور فوراً آگے بڑھ کر کمرے کا دروازہ بند کر کے باہر سے کنڈی لگا دی ۔

” آو زینت                        ! اوپر چلیں             جلدی آؤ۔” شگفتہ نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا اور دونوں اپنے کمرے میں آگئیں ، باقی سب وہاں سے جا چکے تھے ۔

ناصر اور ساجد تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے ایک بار پھر شہید نیک شاہ کی قبر کے پاس پہنچے اور ناصر نے ہانپتی ہوئی آواز میں ساجد سے کہا ۔ ” ساجد                   !! تم اب جلدی سے ٹاہلی والے بابا کا عمل دہرانا شروع کر دو ، ہمارے پاس وقت بہت کم ہے ۔

ساجد نے ایسا ہی کیا اور پھر دل ہی دل میں اس نے تین بار وہی عمل دہرایا ۔

زرا ہی دیر بعد ناصر نے دیکھا کہ شہید نیک شاہ کی قبر کے اوپر ملگجے سے دھویں کے مرغولے اٹھنے لگے اور پھر ایک خاص حد تک اٹھنے کے بعد وہ مرغولے ٹھہر گئے اس کے بعد ایک ملائمت بھری آواز ابھری ۔ ” شاباش تم دونوں بہت اچھے لڑکے ہو ، مجھے تم دونوں کا ہی انتظار تھا ۔

ساجد نے ہمت کر کے کہا ۔ ” اے نیک روح                   ہماری مدد کر جس شیطانی مخلوق کوتو نے کئی برس پہلے ہلاک کیا تھا ، آج اس کی بدروح ہمارے خاندان کی دشمن بن چکی ہے ، اس نے میرے ماں باپ کی جان بھی لے لی اور مجھے بھی نابینا کر ڈالا ، وہ اب بھی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑ رہی ہے ، اے نیک بزرگ                ٹاہلی والے بابا کی نصیحت پر ہم یہاں آپ سے مدد لینے آئے ہیں ۔ خدارا ہماری مدد کریں ورنہ وہ بدروح ہمیں زندہ نہیں چھوڑے گی ۔

مدد صرف اللہ کرے گا ، ہم اس کا وسیلہ بنیں گے مگر ہمت تمہیں دکھانا ہوگی۔

ہم تیار ہیں اے نیک روح ۔                  مگر آپ ہمیں بتائیں تو سہی کہ آخر اس بدروح کا خاتمہ کس طرح ممکن ہوسکتا ہے ؟

ہاں           میں ضرور یہ بتاؤں گا ۔ ‘ ‘ نیک روح بولی ۔

کیونکہ صرف میں ہی اس شیطان کی بدروح کو حتم کرنے کا طریقہ جانتا ہوں سنو                        !!

ناصر اور ساجد ہمہ تن گوش ہوگئے ۔شہید نیک شاه کی روح نے بتانا شروع کیا ۔ سب سے پہلے تو یہ جان لو کہ تم مجھے بار بار حاضرات کے عمل سے نہیں بلا سکتے ، یہ ہماری اور تمہاری آخری ملاقات ہو گی۔اگر تم نے دوبارہ ہمیں بلانے کے لیے حاضرات کا عمل کیا تو تمہیں نقصان ہو گا اس لئے جو میں کہوں ، اسے دھیان سے سنو اب دوسری اور اہم بات یہ کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس شیطان جافرموس کی بدروح ہمارے خاندان کی دشمن بن چکی ہے کیونکہ وہ شیطان کاچیلہ تھا جو سفلی علوم کے ذریعے تیزی سے اپنا ایک مخصوص گروہ تشکیل دے رہا تھا ، جس کا نام اس نے “” آگرم “” رکھا تھا یعنی شیطان کے پجاری                       وہ کانا گورکن بھی اس آگرم گروہ سے تعلق رکھتا تھا ، تمہیں قدم قدم پر اس شیطانی گروہ کے لوگوں کا سامنا کرنا ہوگا جو جافرموس کو دوبارہ شیطانی قوتیں دلانے کے لیے کوشاں ہیں ، جا فرموس کو میں نے ہلاک کیا تھا ، اب وہ کھبی جسمانی طور پر زندہ نہیں ہوسکتا مگر بدقسمتی سے اس کی بدروح اپنے کالے کرتوتوں کے ذریعے عام لوگوں کے لیے وبال جان بن سکتی ہے ، ٹاہلی والے بابا کے مشورے پر تم نے سختی سے عمل کرنا ہو گا اور اس اندھیری کوٹھی کو غیر آبانہیں چھوڑنا کیونکہ وہاں جا فرموس کا نا پاک مدفن ہے ، جا فرموس کی بدروح کو سب سے پہلے اپنے اس مدفن کی طرف لوٹنے پر مجبور کرنا ہوگا اس کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی ، جا فرموس کی بدروح کو کس طرح اپنے مدفن کی طرف لوٹنے پر مجبور کرنا ہو گا کہ یہ میں تم کو بتاتا ہوں ۔

“ ناصراور ساجد بڑے غور سے اس کی باتیں سن رہے تھے ۔

تمہیں یہاں سے ایک طویل مسافت طے کر کے ڈھوک پورہ نامی ایک بستی کی طرف جانا ہو گا جو بھیراں کے شمال مغرب میں دو سو میل کی مسافت پر ہے ، جا فرموس وہیں کا باشندہ تھا کسی زمانے میں یہاں ایک بت پرست قوم آباد تھی جو” سانسی” کہلاتی تھی ،یہ قوم سفلی علوم کی ماہر سمجھی جاتی تھی ، جافرموس بھی انہی مردود لوگوں میں سے تھا ، اگر چہ اب اس قوم کا خاتمہ ہو چکا ہے اور اب وہاں ہندو و مسلم دونوں قومیت کے لوگ آباد ہیں لیکن اب بھی سانسی قوم کے چند گنے چنے لوگ وہاں موجود ہیں جو بظاہر خود کو ہندو کہتے ہیں مگر ان کا ہندو مذہب سے کوئی تعلق نہیں ، جا فرموںس کی ہلاکت کے بعد سانسی قوم کی تعداد گھٹنے لگی ، کچھ نے ہندو مذہب قبول کرلیا اور کچھ ہمارے آبا و اجداد کی دینی تبلیغ کے بعد سچے دل سے مسلمان ہو گئے مگر چند “” سانسی”” آج بھی جا فرموس کے پیروکار ہیں اور خفیہ طور پر جادو ٹونا کرتے رہتے ہیں ، جا فرموس کی ہلاکت کے بعد جو اگرم نامی گروہ وجود میں آیا ، وہ سانسی قوم کے ان بچے کچھے کچھ لوگوں کے ساتھ لمل گیا مگر اب سانسی قوم کو “آگرم” ‘ پر فوقیت حاصل ہے کیونکہ اب وہی جا فرموس کی شیطانی قوتوں کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے کوشاں میں ہیں ۔کانا گورکن بھی در حقیقت آگرم کے گروہ سے تعلق رکھتا تھا اور سانسوں کے ایماء پر ہی اس اس قبرستان میں رہتا تھا تا کہ وہ تم لوگوں کو مجھ سے ملنے نہ دے ، اس طرح اب سائنسی اور آ گرم دونوں مشترکہ طور پر اپنے شیطانی پیروکار جافرموس کے مفادات کے لیے کوشاں ہیں                    ڈھوک پر اس ہندو بستی کا نیا نام ہے ، پہلے کچھ اور ہوتا تھا ، ان لوگوں نے وہاں ویران جنگل میں چمائی نامی ایک مندر کے تہ خانے میں اپنی عبادت گاہ بنارکھی ہے اور وہیں جا فرموس کا بت بھی بنا رکھا ہے اور رات گئے تک وہاں جاپ الاپ اور جادو ٹونا کرتے رہتے ہیں ، ان کا سب سے اہم مقصد یہی ہے کہ جا فرموںس کی بدروح اس بت کے اندر سما جائے اور خود جا فرموںس کی بدروح بھی یہی چاہتی ہے ، اگر ایسا ہو گیا تو جا فرموںس سے مقابلہ کرنا تم لوگوں کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے لہذاتم نے چمائی کے اس پرانے مندر میں داخل ہو کر اس کے بت کو پاش پاش کرنا ہوگا ، کیونکہ جا فرموںس کی بدروح کے بس میں نہیں ہے کہ وہ تا قیامت اسی طرح سرگرداں مارا مارا پھرتا رہے پھر وہ خود ہی اپنے مدفن کی طرف لوٹ جائے گا ، اب تم نے میری باتیں غور سے سن لیں ، کوئی سوال ہے تو کر لو ، یہ ہماری آخری ملاقات ہوگی ۔ شہید نیک شاہ کی روح اتنا کہہ کر خاموش ہوگئی ۔

ساجد نے پوچھا ۔ ” اے نیک روح              ! آپ کا بہت شکریہ ہم ایسا ضرور کریں گے لیکن اگر خدانخواستہ اندھیری کوٹھی جہاں اس بدروح کا مدفن ہے ، اگر وہ ہم سے چھن جائے یا اسے لوگ نذر آتش کر ڈالیں تو ہمیں اس صورت میں کیا کرنا ہو گا کیونکہ وہاں محلے کے کچھ لوگوں کو ہم پر شبہ ہونے لگا ہے کہ ہم اندھیری کوئی میں بیٹھ کر جادو ٹونہ کرتے ہیں ؟ ساجد کے سوال پر شہید نیک شاہ کی روح نے کہا ۔

” ایسا ممکن ہے کیونکہ جا فرموںس کی بدروح بھی یہی چاہتی ہے کہ اس کے مدفن کا نام و نشان تک مٹ جائے اور وہ اسی طرح بھتکتی رہے اور معصوم اور بے گناہ انسانوں کو ستاتی رہے ، اس لئے تم لوگوں کو اس اندھیری کوٹھی کی بھی حفاظت کرنا ہوگی ، بس اب میرے جانے کا وقت ہوا چاہتا ہے ، اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو اور تمہاری اس نیک مقصد میں مدد فرمائے ۔ اس کے بعد شہید نیک شاہ کی قبر پر معلق وہ ملگجا سا دھواں دھیرے دھیرے اوجھل ہونے لگا اور مکمل طور پر غائب ہوگیا ۔

چلو اچھا ہوا          جان چھوٹی ہماری ، اب یہ لوگ ہمیں تنگ نہیں کریں گے ۔ ان سب لوگو کے جاتے ہی زینت نے ایک طمانیت بھری سانس لے کر کہا ۔

شگفتہ اس کے برعکس متفکر ہو کر بولی ”زینت                               یہ اچھا نہیں ہوا ، اس طرح ان لوگوں کو اپنی اس بات کا پختہ یقین ہو جائے گا کہ ہم اس کوٹھی میں جادو ٹونا کرتے ہیں اور مجھے پورا یقین ہے کہ اس بدروح نے جان بوجھ کر اپنی خوفناک جھلک انہیں دکھائی تھی تاکہ ہمیں یہاں سے بے دخل کرا دیا جائے ۔

شگفتہ کی بات زینت کو بھی معقول محسوس ہوئی ۔

یہی سبب تھا کہ اس کے چہرے پر تشویش کے آثار ابھر آئے اور پھر وہ اسی لہجے میں بولی ۔ ” تو پھر           ؟ اب کیا ہوگا ؟

دیکھیں کیا ہوتا ہے ، ان لوگوں کو تو موقع ہاتھ آنا تھا سو آ گیا ، اب یہ لوگ ضرور کوئی گل کھلائیں گے ، بلکہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں محلے والے مشتعل ہوکر اس کوٹھی کو آگ ہی نہ لگا دیں ۔ شگفتہ حد درجے پریشان ہوگئی

۔ زینت نے اسے تسلی دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔ حوصلہ کرو شگفتہ                      میں اپنی سہیلی ایڈوکیٹ خالدہ توفیق سے بات کروں گی ، پہلے دیکھیں تو سہی ہوتا کیا ہے؟

وہ دن خیریت سے گزر گیا ، اگلے دن صبح جب وہ دونوں دفتر جانے کی تیاریاں کرنے لگیں تو محلے کے چند لوگوں نے جن میں ناصر کا ماموں شفقت پیش پیش تھا ، انہیں الٹی میٹم دے دیا کہ اگر انہوں نے دو دنوں میں کوٹھی خالی نہ کی تو اس کوٹھی کو آگ لگا دی جائے گی ۔ یہ سن کر دونوں دفتر جانے کی بجائے سیدھی ایڈووکیٹ خالدہ کے پاس پہنچیں ۔

اس نے انہیں تسلی دی کہ محلے والوں کو کسی بھی املاک کو نذر آتش کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ، یہ قانوناً جرم ہے ۔ ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہہ دیا کہ وہ اپنے شوہر اگر توفیق احمد کے ذریعے متعلقہ تھانے کے انچارج پر بھی دباؤ ڈلوائے گی اور پولیس کے چند جوانوں کو بھی اندھیری کوٹھی کی حفاظت کے لیے وہاں تعین کر دیا جائے گا ۔

اس کی بات سن کر زینت اور شگفتہ کوقدرے تسلی ہوئی اور پھر یہی ہوا ۔

آنآ فأنا اندھیری کوٹھی کے گرد پولیس کے چند جوان متعین کر دیئے گئے ، ساتھ محلے والوں کو بھی سختی سے متنبہ کر دیا گیا کہ اگر انہوں نے قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تو سب کو اندر کر دیا جائے گا ۔

محلے والے ڈر تو گئے لیکن چند شر پسندوں بشمول شفقت نے دل میں تہیہ کر لیا تھا کہ کچھ بھی ہو اس منحوس کوٹھی کو نذر آتش کر کے ہی رہیں گے تاہم بظاہرانہوں نے بھی چپ سادھ لی ۔

وقت اندیشوں اور وسوسوں کے ان دیکھے سائے تلے گزرنے لگا ۔ یہ اس سے تیسرے روز کا ذکر تھا ، اندھیری کوٹھی کے باہر متعین چار پولیس والوں کی یہاں ڈیوٹی آٹھ آٹھ گھنٹوں کے حساب تین شفٹوں میں لگا کرتی تھی ، بالخصوص جو چار پولیس والے رات میں ڈیوٹی دیتے تھے ، ان پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی تھی ، وہ سخت بیزار ہو چکے تھے رات کے بارہ کے کا عمل تھا ، ہر سو گہرا اسناٹا طاری تھا ، سردی بھی کڑاکے کی پڑ رہی تھی ۔تاریک فضا پر گہری کہر چھائی ہوئی تھی محض چند گز کے فاصلے سے زیادہ کچھ دکھائی نہ دیتا تھا ۔ اندھیری کوٹھی پر گہرا سکوت طاری تھا ، اس کے گیٹ کے دونوں نئی ستونوں پر دودھیا گلوب روشن تھے ، پولیس والوں کے لیے کوٹھی کے اندر گیٹ کے پاس ہی ایک چھوٹا سا گارڈ کیبن بنادیا گیا تھا ۔ ان چاروں نے آپس میں یہ شبینہ ڈیوٹی بانٹ لی تھی شروع کے چار گھنٹے پہلے دو سپاہی گیٹ کے با برگشت کرتے تھے جبکہ باقی دو اندر گارڈ کیبن میں سوتے تھے ، چار گھنٹے پورے کرنے کے بعدان کے ساتھی اند جا کر خودسوجاتے ، چنانچہ اس وقت بھی اسی باہمی رضامندی کے مطابق دو سپاہی اندر کیبن میں سورہے تھے اور باقی دو سپاہی گیٹ کے باہر پہرہ دے رہے تھے ۔

دونوں سپاہیوں نے موسم کی مناسبت سے گرم شال اوڑھ رکھی تھی ، ایک کے ہاتھ میں ٹارچ تھی ، دونوں ہاہر ٹھٹھرتی سردی میں گشت کررہے تھے ۔ یار قادر سگریٹ تو ، بڑی سردی ہے ۔ ‘

ایک سپاہی نے اپنے دونوں ہاتھ آپس میں رگڑتے ہوئے اپنے دوسرے ساتھی قادربخش سے کہا ۔

وہ چڑ کر بولا                   تجھے پتہ بھی ہے رات کی ڈیوٹی سخت ہوتی ہے ، اپنا کوٹا تجھے لانا چاہئے تھا ۔ پہلا والا دوستانہ مسکراہٹ سے بولا ۔

” اچھایار بھول گیا ، ادھار سہی کل لاؤں گا تو دے دوں گا میں تجھے ، لا ادھر کر    ۔

مجبوراً قادر بخش نے اپنی جیب سے سگریٹ کی ڈبیا نکال کر ایک سگریٹ اسے تھمائی اور دوسری اپنے ہونٹوں میں سلگا لی ، دوسرے نے دیاسلائی جلائی ، دونوں لمبے لمبے کش لینے لگے۔قادر بخش کے ساتھی کا نام نواز تھا وہ کہنے لگا             قادرے                   تجھے پتہ ہے یہ کوٹھی آسیبی ہے؟

ہاں          ہاں                      معلوم ہے یہ ایسے ہی جھوٹی کہانی ہے تا کہ اس کا مالک اونے پونے داموں ایسے ہی اسے فروخت کردے ، قیمت گرانے کے یہ جھوٹے ہتھکنڈے بہت پرانے ہو چکے ہیں ۔

‘ قادر بخش نے منہ بسور کر کہا ۔

نواز نے کہا ۔ میں سچ کہہ رہا ہوں قادرے             اور مجھے تو یار بڑا ڈررلگ رہا ہے ۔

اچانک ان کی سماعتوں سے ایک عجیب آواز ٹکرائی             ٹھک            ٹھک            ٹھک          ” یہ ایسی آواز تھی جیسے کوئی پختہ زمین پر لاٹھی ٹیکتا ہوا چلا آرہا ہے ، دونوں نے چونک کر سامنے دیکھا ، وہاں گہری دهند کے سوا کچھ نہ تھا ۔

“یہ آواز کیسی ہے ؟ ‘ ‘ نواز نے کہا ۔

شاید کوئی چوکیدار ہے ۔ “ قادر بخش نے گھور کر سامنے چھائی ہوئی دبیز کہر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تب پھر اچانک دونوں کو دھند میں ایک انسان کا دھندلا دھندلا ہیولا نظر آیا ، اس کے دائیں ہاتھ میں لاٹھی تھی جسے وہ پختہ سڑک پر مارتے ہوئے دھیرے دھیرے بڑھا چلا آرہا تھا ، دونوں دم بخود سے اسے دیکھنے لگے ، پھر جب وہ انسانی ہیولا دھند کی دبیز تہ سے پوری طرح نکل آیا تو وہ دونوں ٹھٹکے ، اس کا سر نظر نہیں آرہا تھا ، پہلے وہ یہی سمجھے کہ شاید دھند کی وجہ سے ایسا ہے مگر جب وہ لاٹھی بدست شخص ان کے بالکل قریب آکر کھڑا ہو گیا تو دونوں کی مارے دہشت کے چخیں نکل گئیں اور وہ تھر تھر کانپنے لگے۔ اسی شخص کا سرغائب تھا ۔

نواز تو بھاگ کھڑا ہوا جبکہ قادر بخش نے ذرا ہمت سے کام لے کر اپنی رائفل اس سر کٹے انسان پر تان لی ، سر کٹا بڑی پھرتی کے ساتھ اسی سمت آن کھڑا ہوا جس رخ پر اس کا ساتھی نواز دہشت زدہ ہوکر دوڑ رہا تھا ، قادر بخش نے بھی گھبرا کر اپنا رخ موڑ ا اور سر کٹے پر گولی چلا دی ، رات کے سناٹے میں ایک انسانی چیخ ابھری، قادر بخش یہی سمجھا کہ سر کر کٹے کو گولی لگ گئی ہے مگر گولی سر کٹے کے جسم سے پار ہو کر دوڑتے ہوئے سپاہی نواز کی کمر میں پیوست ہوگئی تھی ، وہ تیورا کر گرا تھا ، سر کٹا جو درحقیقت جاموس کی بدروح ہی تھی ، اپنا گل کھلانے کے بعد غائب ہو چکی تھی ، قادر بخش کے جب ہوش ٹھکانے آئے تو اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ، وہ بدحواسی کے عالم میں دوڑتا ہوا اپنے زمین بوس پڑے ساتھی نواز کے قریب پہنچا ، اس اثناء میں گولی چلنے کے دھماکے سے باقی دو سپاہی بھی جاگ چکے تھے ، نواز بے سدھ پڑا تھا ، اس کی کمر سے خون بہے جا رہا تھا ، وہ مر چکا تھا ۔ ☆

قبرستان میں ہو کا عالم تھا ۔ شہید نیک شاہ کی باتیں سننے کے بعد ناصر اور ساجد کے چہروں پر جوش مترشح تھا ، دور مشرق کی سمت پو پھٹنے والی تھی ، دونوں نے ذرا دیر رک کر آپس میں صلاح مشورہ کیا اور پھر آبادی کی طرف بڑھ گئے ۔ انہوں نے یہ طے کیا تھا کہ””سانسیوں اور آگرم”” ‘ والوں سے جنگ کئے بغیر سب سے پہل” چمائی” کے مندر میں موجود جافرموس کے بت کو پاش پاش کر دیا جائے ۔

بصورت دیگر انہیں اگر سانسیوںاور آگرم والوں سے جنگ بھی لڑناپڑی تو وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔ ان کے ساتھ ایک مشکل تھی کہ ساجد نابینا تھا ، جبکہ جافرموس کے بت کو صرف ساجد ہی پاش پاش کرسکتا تھا کیونکہ وہ شہید نیک شاہ کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا ۔

بہر طور دونوں الله کا نام لے کر آبادی کی طرف چل پڑے ، ہاں انہوں نے کھیتوں میں کام کرتے ہوئے ایک مقامی شخص سے ڈھوک پورہ کے بارے میں معلومات حاصل کیں کہ وہ کس طرف ہے ، نیز وہاں تک انہیں پہنچانے کے لیے کوئی سواری مل سکتی تھی ؟ اس شخص نے بتایا کہ ذرا دیر بعد شاہ پور سے ایک لاری آئے گی جو بھیرا‌ سے ہوتی ہوئی سکھ پل جائے گی ، وہاں سے ڈھوک پورہ نوے کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور وہاں سے انہیں سیدھی ڈھوک پورہ جانے کے لیے ایک اور سواری مل جائے گی ۔

دونوں کو بھوک پیاس بھی ستارہی تھی کل رات سے انہوں نے کچھ نہیں کھایا تھا اس لئے انہوں نے سب سے پہلے ہوٹل کا پتہ پوچھا اور ایک چھپر نما ہوٹل پہنچ کر شکم سیری کی ۔

شاہ پور سے آنے والی لاری بھی وہیں رکتی تھی ،زرا دیر بعد لاری آگئی دونوں اس میں سوار ہوگئے پندرہ منٹ بعد لاری سکھ پل کی طرف روانہ ہوگئی ۔ مضافاتی اور دیہاتی راستوں پر سفر کرتی ہوئی لاری کئی چھوٹے چھوٹے گاؤں اور بستیوں میں رکتی رہی اور رات گئے انہیں سکھ پل اترنا نصیب ہوا ۔

سکھ پل ایک دریا پر تھاجسے پار کرنے کے بعد آبادی شروع ہو جاتی تھی ، غالباً اسی وجہ سے اس گاؤں کا نام سکھ پل رکھا گیا تھا ۔ ساجد اور ناصر لاری سے اترے تو انہوں نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ یہ ایک اچھا خاصا بڑا دیہی علاقہ تھا ، یہاں انہیں ایک سرائے بھی مل گئی ،رات انہوں نے وہیں بسر کرنے کا سوچا ، وہ سرائے میں داخل ہوئے ۔

سرائے کیا تھی ایک چھوٹا مٹی کی دیواروں والا دو منزلہ مکان تھا ، سرائے کی مالک ایک موٹی سی ہندو عورت تھی، سکھ پل میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی بھی خاصی تعداد تھی ، پھر گھر سکھوں کے بھی تھے ، سراۓ کی ما لک کا نام کلاوتی تھا ، وہ ایک سیاہ رنگ کی ادھیڑ عمر عورت تھی ، اس عورت کے علاوہ ایک جوان لڑکی اور مردبھی تھا ۔ بعد میں پتہ چلا کہ جوان لڑکی روہا اس کی بیٹی تھی اور جوان مرد اس کا شوہر یعنی کلاوتی کا داماد تھا ، تینوں نے اس سرائے کا ظم نسق سنبھالا ہوا تھا ، باقی ایک نوکر بھی تھا اس کا عبدل تھا ۔ وہ ایک جوان مرد تھا ۔

ناصر اور ساجد کو یہاں عجیب سی ویرانی اور وحشت کا احساس ہونے لگا ، انہیں ایک کمرا دے دیا گیا تھا ، کمرا چھوٹا تھا مگر دونوں کے لیے رات گزارنے کے لیے کافی تھا ، دو جھلنگا سی چارپائیوں پر میلے کچیلے بستر بچھائے گئے تھے ۔

”لگتا ہے ہمارے علاوہ اور کوئی مسافر یہاں نہیں ٹھہرا ہوا ۔ ناصر نے کہا ۔

” ہاں مجھے بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے ، ایک عجیب سی خاموشی اور ویرانی ہے یہاں ۔ ‘ ‘ ساجد نے اپنا خیال ظاہر کیا ۔

زرا دیر بعد کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی ۔

آجاؤ دروازہ کھلا ہے ناصر نے کہا ۔

سرائے کا ملازم عبدل اندر داخل ہوا ، وہ بغور دونوں کے چہروں کا جائزہ لیتے ہوئے سپاٹ لہجے میں بولا ” کچھ کھانے پینے کے لیے لاوں                             ؟

کیا ہے کھانے میں           ؟ ‘ ‘ ناصر نے پوچھا ۔

ترکاری ہے ۔ وہ بولا ۔

ٹھیک ہے لے آؤ‘‘ناصر نے کہا تو عبدل چند ثانیے وہاں کھڑا رہا ۔ ناصر کو ایسا لگا جیسے وہ کچھ بےچین سا تھا اور ان سے کچھ کہنا چاہتا تھا ۔

کیا بات ہے ؟ آخر ناصر نے پوچھ ہی لیا ۔ ” تت           تم لوگ مسلمان ہو ؟ ‘ ‘ عبدل نے ہولے سے پوچھا ۔

بولنے کا انداز سرگوشیانہ تھا ۔

ہاں                    ناصر نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے مختصراً کہا تو عبدل خاموشی سے لوٹ گیا ۔

ذرا دیر بعد سرائے کی مالکہ کلاوتی اندر آ گئی ، اس نے میلی سی ساڑھی باندھ رکھی تھی ، اس کی آنکھیں موٹی موٹی اور ابلی ہوئی تھی ، وو دونوں کے چہروں کو بغور دیکھتے ہوئے بولی ” بھوجن کے الگ سے پیسے دینے ہوں گے ۔

“ ناصر کو ناگوار گزرا تاہم وہ ضبط کر کے بولا ” ہاں دے دیں گے پیسے ، کتنے ہوئے ؟ “

” پچاس روپے۔ وہ عورت بولی ۔

ناصر نے اپنی جیب سے پچاس کا نوٹ نکال کر اس کی طرن بڑھا دیا، کلاوتی نے نوٹ لے کر اپنے گریبان میں آڑس لیا اور کمرے سے نکل گئی ، ذرا دیر بعد عبدل کھانے پینے کی ٹرے اٹھالایا ، کھانا کھانے کے بعد عبدل دوبارہ خالی برتن سمیٹنے اندر داخل ہوا اور پھر جب لوٹنے لگا تو رک گیا پھر ان کی طرف مڑا ، اس کی نظریں اس کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں ، وہ عجیب سے لب و لہجے میں ان سے بولا ” خدا کرے تمہاری رات خیریت سے گزر جائے۔

تم کہنا کیا چاہتے ہو ؟ “ ناصر اس کی بات پر چونک کر بولا ۔

عقلمندوں کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے ۔ وہ یہ کہتا ہوا کمرے سے نکل گیا ۔ ناصر اور ساجد پریشان سے ہو گئے ۔

کیا کہنا چاہتا تھا آخر یہ ؟ ‘ ‘ ساجد نے گومگوں لہجے میں ناصر سے پوچھا ۔

پتہ نہیں نہ جانے کیا بات ہے ۔ کم بخت ادھوری بات کہہ کر ہمیں بلا وجہ پریشان کر گیا ۔ “ ناصر نے اسے کوستے ہوۓ کہا ۔

اللہ مالک ناصر بھائی                     !!تم دروازے کو اندر سے کنڈی لگا کر سو جاؤ صبح تڑکے چلے تو جانا ہے ہم خواہ مخواہ کیوں پریشان ہوتے پھریں ۔ ساجد نے کہا ۔

ناصر نے اٹھ کر کمرے کے دروازے کو اندر سے کنڈی چڑھادی پھر دونوں چار پائیوں پر دراز ہو گئے تھکن کے باعث دونوں کا ہی نیند سے برا حال تھا اس لئے چارپائی پر لیٹتے ہی سو گئے البتہ کمرے کی لائٹ انہوں نہیں بجھائی تھی ۔ رات کے جانے کون سے پہر اچانک ناصر کی آنکھ کھلی ، اس کا دل جانے کیوں تیز تیز دھڑک رہا تھا ، وہ اٹھ کر بیٹھ گیا ، کمرے کی بتی روشن تھی ، ناصر کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس کی آنکھ کس وجہ سے کھلی تھی اس نے برابر والی چار پائی پر ساجد کو گہری نیند میں سوئے ہوئے پایا اچانک دروازے کے باہر ہلکی سی آہٹ ابھری ۔

ناصر بری طرح ٹھٹھک گیا اور بغور آنکھیں سکیڑ کر دروازے کی طرف دیکھنے لگا، دروازہ ہلنے لگا یوں محسوس ہوا جیسے کوئی باہر سے دروازے کو اندر دھکیل کر کھولنے کی کوشش کر رہا ہو ۔

کون ہے            ؟ ‘ ‘ ناصر نے وہیں چارپائی پر بیٹھے بیٹھے قدرے بلند آواز سے کہا تو یک دم دروازہ ہلنا بند ہوگیا ۔ تب ناصر نے کسی کے قدموں کی چاپ سنی ، باہر جو کوئی بھی تھا ، وہ اب واپس جا رہا تھا ، ناصر کے جی میں جانے کیا آئی وہ اٹھا اور دروازے کے قریب جا کر اس نے کنڈی کھول دی پھر دروازے کا ایک پٹ کھول کر باہر دیکھا ، اسے دائیں جانب مختصری نیم تاریک راہداری میں کوئی جاتا نظر آیا ، ناصر کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا ، وہ اس کے پیچھے دبے پاؤں چل پڑا ، وہ پراسرار شخص بائیں جانب ایک تنگ اور تاریک سی راہداری کے سرے پر پہنچا ، اس نے دیوار سے چپک کرآڑ سے بائیں جانب ایک اور تنگ سی راہداری میں جھانکا تو اچانک اس نے ایک دوسرے کمرے سے دو افراد کو نکلتے دیکھا ۔

پہلا والا شخص انہیں دیکھ کر رک گیا تھا پھر ان دونوں افراد میں سے ایک نے ذرا تلخ سرگوشی میں پہلے والے شخص سے کہا ۔

عبدل           تم نے ہمارا کام خراب کرڈالا ۔

“ ناصر ٹھٹکا ، وہ عورت کی آوازتھی لیکن یہ سرائے والی مالکہ کلاوتی نہ تھی ۔ گویا یہ عبدل ہی تھا جو دروازہ کھولنے کی کوشش کررہا تھا ۔ ناصر نے دل میں سوچا ۔ مگر کیوں           ؟اس نے الجھ کر خود سے سوال کیا پھر اسے عبدل کی آواز سنائی دی ، وہ خاصے درشت لہجے میں اس جوان عورت سے بولا ۔

روپا                         میں تم لوگوں کو یہ نہیں کرنے دوں گا ۔ تو روپا کہ ہمراہ کھڑے شخص نے دانت پیس کر غصیلے لہجے میں عبدل سے کہا ۔

تم ہمارے نوکر ہو اور نوکروں کی طرح رہو ، مجھے تم نے ان دونوں کو ضرور پہلے سے محتاط کردیا ہوگا ، اسی لئے وہ اندر سے کنڈی لگا کر سو گئے ہیں حالانکہ ہم نے تمہیں کتنی تاکید کی تھی کہ انہیں اوپر والے کمرے میں لے جانا جس کے دروازے پر سرے سے کنڈی موجود ہی نہیں ہے ۔

“ ناصراب اس کی بھی آواز پہچان گیا تھا ، یہ روپا کا شوہر تھا جس کا نام ابھی ناصرکو معلوم نہ ہو سکا تھا ، اور عبدل نے جوابا اسے مخاطب کر کے کہا ۔

شیکھر صاحب                                        ! میں تم لوگوں کا ملازم ضرور ہوں لیکن میں تمہیں ان کی جانوں سے کھیلنے نہیں دوں گا ، سمجھے تم ؟

ناصر عبدل کی بات سن کر دھک سے رہ گیا عبدل ان کا خیر خواہ نکلا تھا لیکن ناصر کی یہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر ان لوگوں کو ان سے کیا دشمنی تھی ؟

اچا نک ناصر نے دیکھا کہ عبدل کے عقب سے ایک اور انسانی ہیولا نمودار ہوا پھر جب تک ناصر کچھ سمجھنے کی کوشش کرتا ، اس موٹے تازے انسانی ہیولے نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی جانے کس شے سے عدل کی پشت پر وار کیا ۔ عبدل کے حلق سے گھٹی گھٹی چیخ خارج ہوئی ، ادھر روپا کے شوہر شیکھر نے جلدی سے آگے بڑھ کر عبدل کے منہ پر ہاتھ رکھ کر دیا، ناصر سرتاپا لرز گیا وہ اب اس موٹے تازے انسانی ہیولے کو پہچان گیا تھا، یہ کلاوتی تھی ، اس کے ہاتھ میں خون آلود چھرا تھا ، اس نے مزید دو تین وارعبدل کی پشت پر کیئے اور اسے ڈھیر کر دیا ۔

پھر کلاوتی نے ہانپتی ہوئی آواز میں شیکھر سے کہا ۔ اس کی لاش سرائے کے پچھواڑے پرانے کنویں میں پھینک دو اور جلدی لوٹ آو ، ان دونوں کا بھی یہی حشر کرنا ہوگا ۔

“ اس کی بات پرشیکھر ، عبدل کی لاش کو دونوں ٹانگوں سے پکڑ کر گھسیٹتا ہوا ایک طرف لے گیا ۔ لرزہ خیز منظر دیکھ کر ناصر کا رواں رواں کانپنے لگا ، اسے اب اپنی اور ساجد کی جانیں خطرے میں محسوس ہونے لگیں ، وہ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر واپس پلٹا اور تیز تیز مگر محتاط روی سے چلتا ہوا اپنے کمرے میں پہنچا پھر ساجد کوجھنجھوڑ کر جگانے لگا ۔

ساجد              ساجد        ! اٹھو                                           ۔,

ساجد فوراً ہڑ بڑا کر اٹھ گیا ۔ کک                                              کیا ہوا ؟ خیریت تو ہے ناصر بھائی؟

ناصر نے کہا ۔

پھر دونوں دروازے کی طرف بڑھے اور جیسے ہی ناصر باہر نکلا ، اسے سامنے شیکھر ہاتھ میں ایک بڑا سا ڈنڈا تھامے کھڑا نظر آیا ، اس نے جیسے ہی وہ ڈنڈا ناصر کے سر پر رسید کرنا چاہا تو ناصر نے اپنے سر کو ڈنڈے کی ضرب سے بچانے کی خاطر جھکائی کی نتیجتاً ڈنڈا اس کے سر پہ نہ    لگاالبتہ اس کے بائیں کاندھے پر پڑا ، ناصر کے حلق سے کرب ناک چیخ بلند ہوگئی ساجد کے بےچار ناصر کی چیخ سن کر پریشان ہوگیا ، ادھر ناصر نے جلد ہی خود کو سنبھالا ، اسے اچھی طرح اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ خونی لوگوں کے ہتھے چڑھ گئے ہیں ، اگر وہ ڈر گیا تو وہ لوگ دونوں کو جان سے مار ڈالیں گے چنانچہ ادھر شیکجر نے دوبارہ ڈنڈے سے ناصر پر وار کرنا چاہا تو ناصر نے اپنے مضروب کاندھے کی تکلیف بھلا کر ایک زور دار لات شیکھر کے پیٹ پر رسید کردی ، وہ لڑ کھڑا کر دیوار سے جا ٹکرایا ، ناصر اسے سمجھنے کا موقع دیئے بغیر اس پر جھپٹا اور ایک گھونسا اس کی ناک پر جڑ دیا گونسے کی ضرب زور دار ثابت ہوئی شیکھر کے حلق سے کریہہ چیخ خارج ہوئی اور اس کی ناک کا بانسہ ٹوٹ گیا ، اس کی ناک سے بہنے والا خون اس کے چہرے کو مزید خوفناک بنارہا تھا ، اچانک ناصر نے کلاوتی کو ہاتھ میں وہی خون آلود چھرا پکڑے دوڑتے ہوئے اپنی طرف آتے دیکھا ، ناصر نے زخمی شیکھر سے ڈنڈا چھین لیا تھا جو ناک پر پڑنے والی ایک ضرب سے ڈھے گیا تھا ، کلاوتی جیسے ہی اس کے قریب آئی ، ناصر نے لہرا کر ڈنڈا اس کے چھرے والے ہاتھ پر رسید کردیا، کلاوتی کت منہ سے چیخ خارج ہوگئی اور چھرا اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گیا ، ناصر نے لپک کر چھرا اٹھا لیا اور کلاوتی کو دبوچ کر اس کی موٹی سیاه گردن پر اس کی دھار رکھتے ہوئے بولا ” قاتل عورت        !بتا تو ہمیں کیوں ہلاک کرنا چاہتی تھی                 ؟

بول تو نے بے گناہ عبدل کا خون کیوں کیا ورنہ تجھے زبح کر ڈالو گا بول                 ؟ کہتے ہوئے ناصر نے اس کی گردن پر چھرے کی نوک چبو دی ۔

کلاوتی کے سارے کس بل نکل گئے تاہم وہ لکنت زدہ لہجے میں بولی ۔ ” ہم تمہیں لوٹنا چاہتے تھے ۔

“ ناصر سمجھ گیا کہ یہ حرافہ سفید جھوٹ بول رہی ہے لہذا اس نے اس کا منہ کھلوانے کے لیے دوسرا طریقہ اختیار کرنا چاہا اور دانت پیس کر بولا ” جھوٹ مت بول کتیا ۔ میں نے تم لوگوں کی ساری باتیں سن لی تھیں اور تمہیں میں نے عبدل کا خون کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا ، اگر تو نے سچ سچ بتادیا کہ تم لوگ ہماری جانوں کے دشمن کیوں تھے تو ہم خاموشی سے نکل جائیں گے ورنہ دوسری صورت میں تمہاری گردن ادھیڑ ڈالوں گا ۔

“ ناصر کا یہ حربہ کامیاب ثابت ہوا ، کلاوتی تھوڑے تردو کے بعد بتانے گی ۔

ہمیں جافرموس کی آتما نے بتایا تھا تم دونوں ڈھوک پورہ جانا چاہتے ہو تالہ چمائی کے اس پرانے مندر کے خفیہ تہہ خانے میں رکھے جافرموس کے بت کو پاش پاش کرسکو ۔ اتنا بتا کرخاموش ہوگئی ۔

ناصر بری طرح ٹھٹکا پھر اس نے غرا کر پوچھا ۔ ” کیا تم لوگ بھی جافرموس کے پجاریوں آگرم کے گروہ سے تعلق رکھتے ہو ؟

” ہاں ! ہمارا تعلق اسی قوم سے ہے ، ہم نے ہندو مذہب کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے اور در پردہ دوسرے لوگوں کو بھی یہی ترغیب دیتے ہیں ۔

اس کی بات سن کر ناصر کو بری طرح طیش آ گیا ، اس کا جی چاہا کہ اس شیطان کی پجاری کو زبح کردے جو بھٹکے ہوئے لوگوں کو اپنے گروہ میں شامل کرنے کا گھناؤنا اور مکروہ عمل کر رہی تھی مگر وہ اس کے گندے خون سے اپنے ہاتھ خراب نہیں کرنا چاہتا تھا ، اس کا حل اس نے پہلے ہی سوچ لیا تھا ، اسے کچھ سوچتا پاکر کلاوتی اس بار ناصر کو گویا دھمکی دیتے ہوئے بولی تم دونوں کے لیے یہی بہتر ہوگا کہ یہاں سے چپ چاپ لوٹ جاؤ اور چمائی کے مندر جانے کا خیال ترک کر دو ، کیونکہ تم دونوں سانسیوں اور آگرم قوم کا مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ مقدس جافرموس کی آتما ہمیں تم    لوگو کے عزائم کی پل پل خبر دیتی رہتی ہے ، سانسی اور آگرم خبر دار ہو چکے ہیں اور تمہارے خون کے پیاسے ہورہے ہیں ، تم دونوں کو ڈھوک پور ہ پہنچتے ہی جان سے مار دیا جائے گا ۔

“ ناصر کو اس کی دھمکی پر غصہ تو بہت آیا تاہم اس نے چالاکی سے کام لے کر کہا ۔ اگر یہ بات ہے تو ہمیں واقعی اپنی جانوں کی پروا کرنا چاہئیے ، ویسے سانیسیوں اور آگرم کی تعداد کتنی ہے ؟

کلاوتی غرور میں آ کر بتانے لگی تھی ۔ یوں تو اب ہماری قوم تقریباً ختم ہوچکی ہے اور آگرم کے نام سے ایک چھوٹے گروہ تک ہی محدود ہوگئی ہے گنتی کے چند لوگ ہیں مگر جتنے بھی ہیں ، وہ سب کالے علم کے ماہر ہیں ۔

تم بھی تو آگرم ہو ، کیا تم بھی کالا علم جانتی ہو ؟ کسی خیال کے تحت ناصر نے پوچھا ۔

وہ بولی – صرف گرم ہی جادو ٹونا جانتے ہیں جبکہ ہم سانسی قوم سے تعلق رکھتے ہیں ۔

“ ناصرکو شہید نیک شاہ کی بات یاد آگئی تھی کہ آگرم کا گروہ جا فرموس کے مرنے کے بعد وجود میں آیا تھا جس کے زمے جافرموس کی بدروح کو ایک خاص عمل کے تحت اس کے مجسمے کے اندر حلول کرنا تھا ۔یہ جافرموس کے چیلے بھی تھے ۔

معلومات حاصل کرنے کے بعد ناصر نے کلاوتی اور بے ہوش شیکھر کو ایک کمرے میں لےجا کر چارپائی کی پائنتی والی رسی سے دونوں کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انہیں بند کر کے باہر سے کنڈی چڑھادی پرشیکھر کی بیوی روپا کو تلاش کر کے اسے دوسرے کمرے میں اسی طرح ڈال کر بند کر دیا اور دونوں اس منحوس سرائے سے باہر آ گئے ۔

صبح کاذب کی روشنی چاروں طرف پھیلنے لگی تھی ، ناصر اور ساجد کا وہاں کے سرپنج سے ملے اور اسے صرف عندل کے قتل کی حد تک ایک مسافر کی حیثیت سے ساری رواداد بتا ڈالی ، ساتھ ہی سرائے کے پچھواڑے اس پرانے کنویں کی بھی نشاندہی کردی جس کے اندر بےگناہ عبدل کو قتل کر کے اس کی لاش پھینک دی گئی تھی ۔

گاؤں کا سر پنج بھلا مانس تھا ، اس نے اسی وقت اپنے آدمیوں کے ذریعے کارروائی کی اور ساتھ ہی متعلقہ تھانے کے انچارج کو بھی اطلاع دے دی ، کلاوتی ، شیکھر اور روپا کی گرفتاری کی تسلی کے بعد ساجد اور ناصر ڈھوک پورہ جانے والی لاری میں سوار ہو گئے ۔

ڈھوک پورہ ، لاری سہ پہر کے قریب پہنچ گئی تھی ،لاری سے اترنے کے بعد ساجد نے ناصر سے سرگوشی میں کہا ۔ ” ناصر بھائی ہمیں اب یہاں محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی کیونکہ جافرموس کے چیلوں آگرموں کو ہمارے عزائم کے بارے میں علم ہو چکا ہے ۔

” تم فکر نہ کرو ساجد اللہ نے ہمیں اپنی منزل کے قریب پہنچا دیا ہے ، وہ آگے بھی ضرور ہماری مدد کرے گا ناصر نے ازراہ تشفی کہا ۔

ناصر بھائی              ! ڈھوک پورہ کتنا بڑا گاؤں ہے ؟

‘چند ثانیے بعد ساجد نے اس کے ہاتھ تھام کر پوچھا ۔

ناصر جوابا مسکرا کر بولا ۔ ارے بھئی یہ تو چھوٹی سی بستی ہے ، ایسا لگتا ہے لاری نے ہمیں آبادی سے دور اتارا ہے ، آؤ چلتےہیں ۔ وہ آگے بڑھا ۔

ساجد نے پوچھا ۔ ” ہمیں چمائی کے مندر کے بارے میں کون بتائے گا ؟ ناصر نے چلتے چلتے کہا ۔

کسی سے پوچھ کر دیکھ لیتے ہیں ، کوئی نہ کوئی تو بتا ہی دے گا ۔

“ دونوں چلتے رہے سامنے کچھ گھروں کا سلسلہ نظر آیا، وہ اس سمت اب تیز تیز قدموں سے بڑھنے لگے ، سہ پہر کے بعد شام کا اندھیرا پھیلنے لگا تھا اور وہ دونوں اندھیرا پھیلنے سے پہلے پہلے آبادی تک پہنچ جانا چاہتے تھے ، آبادی تک پہنچتے پہنچتے انہیں شام نے آلیا ، ایک مقامی شخص کوروک کر ناصر نے اس سے چمائی کے مندر کے بارے میں پوچھا تو نفی میں سر ہلا کر عجیب سے لہجے میں بولا ” ہم نے تو کھبی اس نام کا مندر نہیں سنا ، ہاں دو ایک مندر ہیں تو سہی ، وہ ر ہے سامنے مگر ان کا نام چمائی نہیں ہے ۔  

ناصراورساجد دونوں تیز تیز قدموں سے مذکورہ مندروں تک پہنچے لیکن وہاں انہیں کوئی غیر معمولی بات محسوس نہ ہوئی ، گیروے رنگ کی دھوتی اور بنیان پہنے ایک پجاری نے ان سے پوچھا ۔ کون ہو تم لوگ           ؟ کیا یہاں رات بسر کرنا چاہتے ہو ؟ “

ہمیں چمائی کے مندر کی تلاش ہے ، ہم وہاں جانا چاہتے ہیں ۔ ناصر نے اس سے کہا ۔

چمائی کا مندر                ؟ پجاری الجھے ہوئے انداز میں بڑبڑیا پھر جیسے اسے یاد آ گیا اور بولا کہیں تم اس مندر کی تو بات نہیں کر رہے ہو جواب بالکل ویران اور کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے۔

ہاں                      ہاں                      مہاراج                 ! ہم اسی مندر کی بات کر رہے ہیں ۔ ناصر نے امید بھرے لہجے میں جلدی سے کہا ۔

دو پجاری بغور دونوں کے چہروں کا جائزہ لیتے ہوئے بولا۔

آخرتم لوگوں کو اتنے صدیوں پرانے مندر میں کیا لینا ہے ؟ اگر تم    سمجھتے ہو کہ وہاں سونا دفن ہے تو اسی وقت لوٹ جاؤ، وہاں تمہیں کچھ نہیں ملے گا سوائے کتے ، بلیوں اور چمگادڑوں کے “

مہاراج                دراصل آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ، ہم دراصل پرانے مندروں کی تاریخ لکھنا چاہتے ہیں

ہم ایک اخبار سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ‘ ‘ ناصر نے بات بنانے کی کوشش کی ۔ آپ کی بڑی مہربانی ہوگی کہ آپ ہمیں اس مندر کا راستہ بتادیں ۔

“ تمہارا نام کیا ہے ؟ اور یہ تمہارا ساتھی اندھا ہے کیا ؟ ‘ ‘ پجاری نے ساجد کو دیکھ کر پوچھا ۔ ناصر کو اس سے اب بیزاری ہونے لگی تھی ، اس نے کہا ۔” ہاں                     ! یہ بے چارہ دیکھ نہیں سکتا ، ایک حادثے میں اس کی آنکھیں ضائع ہو گئی تھیں۔

تم نے اپنے نام نہیں بتائے ؟ اس نے اب کی بار دونوں کو تشکیک بھری نظروں سے گھور کر اپنا سوال دہرایا تو ناصر نے دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے اپنے اور ساجد کے غلط نام بتائے وہ بولا ” میرا نام ارجن ہے اور میرادوست وکرم ہے ۔

“ ” ہوں                 پجاری نے ایک لمبا ہنکارہ بھرا اور پھر ہاتھ کے اشارے سے ایک جانب دیکھتے ہوئے بتانے لگا ۔ وہ سامنے چائے کے کھیت دیکھ رہے ہو ، ان کے درمیان میں ایک بل کھاتا کچا راستہ جارہا ہے ، اس پر چلے جاؤ ، یہ راستہ اسی پرانے مندر پر ختم ہوتا ہے ۔ پچاری اتنا بتا کہ مندر کی سیڑھیوں سے واپس لوٹ گیا ۔

وہ دونوں مندر کے باہر کھڑے ہو گئے ، انہیں اتنا تو معلوم تھا کہ چمائی کا مندر ڈھوک پورہ کی آبادی سے چند میل دور ایک ویران جنگل میں تھا ، ورنہ وہ اس مندر کو دیکھ کر دھوکہ کھا سکتے تھے    بہ طور وہ دونوں پجاری کے بتائے ہوئے راستے پر چل پڑے ۔

فیصلہ کن گھڑی آن پہنچی تھی ، ان کا اب کسی وقت بھی آگرم گروہ سے ٹکراؤ ہونے والا تھا ۔ اس بات کا ان دونوں کو بھی احساس تھا مگر نیک مقصد اور سچے جذبے کی لگن انہیں کشاں کشاں آگے بڑھنے پر مجبور کر رہی تھی ۔

    نواز نامی سپاہی کی ہلاکت نے پورے محلے میں سنسنی پھیلا دی تھی ، اس کے دوسرے ساتھی سپاہی قادر بخش کوگرفتارکرلیا گیا تھا ، اس نے چیخ چیخ کر اپنی صفائی میں یہ کہنا چاہا تھا کہ اس کی نواز سے کوئی دشمنی نہیں تھی بلکہ اس نے سر کٹے پر گولی چلائی تھی مگر لوگ یہی سمجھ رہے تھے کہ قادر بخش نے ان پر اسرار حالات سے فائدہ اٹھا کر نواز کے ساتھ اپنی دشمنی نکالی تھی ، اسے گرفتار کرنے کے بعد تفتیش شروع کر دی گئی تھی البته نواز کے قتل کے سلسلے میں محلے والے سپاہی قادر بخش کی اس رائے سے متفق تھے کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہا تھا ، لہذا نواز کے قتل کا الزام بھی محلے والوں نے مشترکہ طور پر اندھیری کوٹھی کے باسیوں کے سر تھوپ دیا تھا ۔

اندھیری کوٹھی پر پولیس کا پہرہ جوں کا توں تھا ، محلے کے چند لوگوں نے ان پولیس والوں کے کان بھی بھرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنی جانیں خطرے میں نہ ڈالیں اور یہاں سے چلے جائیں ۔

اگرچہ کچھ سپاہی اس لرزہ خیز واقعے کے بعد اندر سے خوف زدہ بھی ہو چکے تھے مگر وہ اپنے افسر کی حکم عدولی کس طرح کر سکتے تھے ۔

ادھر زینت اور شگفتہ بھی ایک سپاہی کی ہلاکت پر رنجیدہ ہیں مگر وہ کیا کرسکتی تھیں ، جانتی وہ بھی تھیں کہ یہ سارا کیا دھرا اسی بدروح کا تھا جس کی بیخ کنی کے لیے ساجد اور ناصر بھیراں نامی گاوں گئے ہوئے تھے جنہیں گئے کافی روز بیت چلے تھے اور ان کے اب تک واپسی کے آثار تک نہیں نظر آرہے تھے نہ ہی ان کی کوئی خیریت معلوم ہوئی تھی کہ خدانخواستہ وہ زندہ بھی تھے یا مر چکے تھے ۔

شگفتہ نے تو اپنے بھائی ساجد اور شوہر ناصر کی اس طویل جدائی میں رو رو کر اپنا برا حال کر لیا تھا ، زینت اسے تسلیاں دینے کے سوا اور کر بھی کیا سکتی تھی۔

وقت گزرتا گیا ، اور شفقت کو بھی اب اپنے بھانجے کی فکر لاحق ہونے گئی تھی ، اسے بار بار ، خیال پریشان کئے دے رہا تھا کہ پتہ نہیں وہ زندہ بھی ہے یا نہیں، پھر اسے شگفتہ کے نابینا          بھائی ساجدکا بھی خیال آیا تھا کہ وہ بھی تو اسی دن سے غائب تھا ، آخر یہ دونوں اچانک کہاں غائب ہوگئے تھے ، ان کا کچھ پتہ نہ تھا ۔

بالآخر ایک دن وہ اپنی بہو سے ناصر کے بارے میں پوچھنے کی خاطر اندھیری کوٹھی جا پہنچا مگر وہاں موجود پولیس نے اسے روک دیا ۔

” شگفتہ میری بہو ہے ، میں اس سے ملنا چاہتا ہوں ۔ اس نے پولیس والے سے کہا ۔

ٹھیک ہے ہم پہلے اندر شگفتہ بی بی سے پوچھ لیتے ہیں کہ وہ تم سے ملنا چاہتی ہے یا نہیں ۔

ایک پولیس والے نے سنجیدہ لہجے میں کہا اور پھر ایک سپاہی کو اندر شگفتہ سے اجازت لینے کے لیے بھیج دیا ۔

شگفتہ نے ملنے کی اجازت دے دی تو شفقت کو اس کے پاس پہنچادیا گیا ۔

شفقت نے اس بار جوش اور غیظ کی کینچلی اتار کر نہایت ملتجیانہ لہجے میں شگفتہ سے کہا ۔ ” شگفتہ بیٹی آخرتم مجھے بتاتی کیوں نہیں ہو کہ ناصر یوں اچانک کہاں غائب ہو گیا ہے ؟ وہ میرے بیٹوں کی طرح ہے تمہیں الله کا واسطہ ہے اس کے بارے میں بتا دو ، ایک وہی تو میرے بڑھاپے کا سہارا تھا ۔

“ شگفتہ کو اپنے سسر کی آہ زاری پر ترس آگیا اور پھر اس نے اسے سب کچھ سچ سچ بتانے کا فیصلہ کرلیا کہ شاید ساری حقیقت جاننے کے بعد اسے یقین ہو جائے کہ اصل بات کیا تھی اور اس طرح ان کی پریشانی بھی ذرا کم ہوجائے ۔

اندھیری کوٹھی کو تباہ یا نذر آتش کرنے کے سلسلے میں شفقت محلے والوں میں سب سے آگے تھا بلکہ اصل محرک ہی وہی تھا لیکن اب اپنے بھانجے ناصر کی پر اسرار گمشدگی نے اسے ایک نئی پریشانی میں مبتلا کردیا تھا کیونکہ اس کا دنیامیں ناصر کے سوا اور کوئی نہ تھا ۔ یہی سبب تھا کہ وہ اب اپنی بہوشگفتہ سے اس سلسلے میں ملنے پر مجبور ہوا تھا ، وہ بہت دکھی ہورہا تھا ۔

ادھر شگفتہ نے بھی اپنے سسر کو ملول ہوتا دیکھ کر بالآخر اسے ساری حقیقت سے آگاہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تاکہ اس طرح اس کی بھی حمایت انہیں حاصل ہو جائے اور وہ محلے کے دیگر لوگوں کےساتھ اس کوٹھی کو نذر آتش کرنے کا فیصلہ بدل دے ، چنانچہ شگفتہ نے اسے ساری حقیقت سے آگاہ کردیا اور یہ بھی بتادیا کہ ناصر اور اس کا بھائی ساجده ٹاہلی والے بابا کے کہنے کے مطابق اس بدروح کا ہمیشہ کے لیے قضیہ نمٹانے کے لیے ایک طویل اور پرخطر مہم پر روانہ ہو چکے ہیں ۔

اپنی بہو شگفتہ کی ساری کتھا سننے کے بعد شفقت چند ثانیے کی گہری اور پرسوچ خاموشی میں مستغرق ہوگیا تھا ۔

پلیز ہم پہلے ہی بہت پریشان ہیں ، ہمیں آپ کی مدد کی ضرورت ہے ، خدا کے لیے آپ اس کوٹھی کو تباہ کرنے کا خیال اپنے دل سے نکال دیں ، اگر ایسا ہو گیا تو نہ صرف ہماری ساری محنت اکارت چلی جائے گی بلکہ وہ بدروح بھی ہمارے بعد دوسرے بے گناہ لوگوں کی زندگی اجیرن کر دے گی، پھر ہم نہ اس کہ شر سے بچ پائیں گے نہ آپ لوگ        شگفتہ نے اسے آنے والے خطرے سے آگاہ کر دیا ۔

شفقت اب پہلی بار اپنے مزاج سے ہٹ کر کچھ سوچنے پر مجبور ہو گیا تھا ۔ جو بات شگفتہ نے بڑی تفصیل کے ساتھ اسے سنائی تھی ، پہلے پہل تو اسے ان باتوں پر یقین ہی نہ آیا تھا لیکن گزشتہ حالات کے تناظر میں باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد شفقت کو یقین ہونے لگا تھا کہ اس کی بہو شگفتہ ہرگز جھوٹ نہیں بول رہی ہے ، کیونکہ ناصر کے ساتھ اس کے اپنے نابینا بھائی ساجد کی زندگی بھی داؤ پر لگی ہوئی تھی ۔ چنانچہ شفقت نے پہلی بار اپنا دست شفقت شگفتہ کے سر پر رکھتے ہوئے اس سے کہا ۔

بیٹی مجھے واقعی کچھ غلط فہمی ہو گئی تھی مگر تم پریشان مت ہو ، میں تمہارے ساتھ ہوں ، ہم سب مل کر اللہ سے دعا کریں گے کہ وہ ہمیں اس نیک مقصد میں کامیاب و کامران کرے ۔ “ ” آمین “ شگفتہ نے بے اختیار دعائیہ کلمہ ادا کیا ۔ وہ بہت خوش تھی ۔

میں محلے والوں کو اس سلسلے میں اعتماد میں لینے کی کوشش کروں گا ، خدا کرے ناصر اور ساجد بہت جلد خیریت اور کامیابی سے لوٹ آئیں ۔ اس نے شگفتہ کو تسلی دی تو بے اختیار شگفتہ نے اپنا سر ان کے شانے سے لگا دیا اور شفقت ملائمت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا ۔

پجاری کے بتائے ہوئے راستے پر ناصر اور ساجد چائے کے کھیتوں کے درمیان بنی بل کھاتی پگڈنڈی پر تیز قدموں سے آگے بڑھے چلے جارہے تھے ۔ گہری شام کے دراز ہوتے سائے اب رفته رفته رات کی اندیشناک تاریکی میں بدلنے لگے تھے    ۔

۔ ہر سوتار یک سناٹا اترنے لگا تھا ، ساجد تو دیکھنے سے قاصر تھامگر ناصر اپنے اطراف پھیلی ہوئی تاریکی میں محتاط نظروں سے دیکھے جارہا تھا ۔

پجاری نے اسے سانسی قبیلے کے بارے میں بتایا تھا کہ انہوں نے گاؤں ڈھوک پورہ سے کافی دور ایک تاریک ایک گھنے جنگل میں رہائش اختیار کر رکھی تھی ، یوں تو وہ لوگ گاؤں میں ہی سب کے ساتھ مل کر رہتے تھے لیکن اپنے خاص مزہبی دنوں اور تہواروں میں وہ لوگ آبادی سے میلوں دور گھنے جنگلوں میں سرکنڈوں کی جھونپڑیاں بنا کر رہتے تھے جن میں انہوں نے اپنی عبادت گاہیں بھی بنا رکھی تھیں ۔

۔

ناصر کوسب سے زیادو اس بات کی تشویش تھی کہ ڈھوک پورہ کی سرائے کی ما لکہ کلاوتی نے سنسنی خیز انکشاف کیا تھا کہ سانسیوں کوحقیقت کا علم ہو چکا تھا کہ وہ دونوں ان کے مقدس جافرموس کے بت کو پاش پاش کرنے کی نیت سے چمائی کے مندر میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں چنانچہ وہ لوگ انہیں دیکھتے ہی موت کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کر سکتے تھے ۔ یہی سبب تھا کہ ناصر کچھ زیادہ ہی محتاط تھا ۔

اگر ساجد کی ضرورت نہ ہوتی تو ناصر اسے پہلی فرصت میں لے کر واپس شہر کا رخ کرتا اور پر خود اکیلا آ کر یہ کام سرانجام دیتا لیکن اس مہم میں ساجد کی موجودگی لازمی قرار دی گئی تھی کیونکہ بقول شہید نیک شاہ کی روح اس شیطان جا فرموس کا خاتمہ اس کے خاندان کا کوئی شخص ہی کر سکتا ہے اور سردست اس خاندان کے صرف یہ دو بہن ، بھائی یعنی ساجداور شگفتہ زندہ بچے تھے تاہم ناصر اس کی رہنمائی میں آخر تک اس کے ساتھ رہنا چاہتا تھا ۔

وہ دونوں لگ بھگ کوئی ڈیڑھ دو کلومیٹر پیدل چلتے رہے تھے ۔ جنگل کا سلسلہ ابھی شروع نہیں ہوا تھا ، وہ ابھی چھدری چھدری جھاڑیوں والے ہموار میدان سے گزر رہے تھے البتہ کہیں کہیں ٹنڈمنڈ درخت پراسرار ہیولوں کی طرح ایستادہ نظر آرہے تھے ، ان درختوں کی شاخیں سوکھی تھیں ۔

تاروں بھرا آسمان صاف اور روشن تھا جس سے آس پاس کا علاقہ کافی روشن تھا ۔ اچانک ناصر چلتے چلتے تھک کر رکا ، اسے یوں لگا تھا جیسے کوئی ان کے پیچھے پیچھے چلا آرہا ہو مگر ناصر کو عقب میں دھڑکتی ہوئی تاریکی کے سوا کچھ دکھائی نہ دیا ۔ناصر اسے اپنا وہم سمجھ کر پھر چل پڑا ۔

ناصر بھائی میں تو بہت تھک گیا ہوں ، کوئی ایسی جگہ نہیں نظر نہیں آتی جہاں سستا لیا جائے ؟ ساجد نے چلتے چلتے قدرے ہانپتی ہوئی آواز میں کہا ۔

ناصر نے رک کر دائیں بائیں دیکھا ، قریب ہی اسے ایک موٹے سے تنے والا درخت نظر آگیا ، وہ ساجد کو لے کر وہاں جا پہنچا ۔ قدرتی طور پر دو تین موٹے تنے جڑ کر ایک وسیع پھیلاؤ رکھنے والے درخت کی شکل اختیار کر گئے تھے مگر اس کی بھی ساری شاخیں سوکھی ہوئی تھیں ، ایک پتہ بھی نہیں تھا ، بالکل ٹنڈ منڈ درخت تھا ۔

چاند کی طلسماتی ٹھنڈی روشنی میں خزاں رسیدہ درخت بڑا پراسرار منظر پیش کر رہا تھا مجھے کوئی بھاری بھرکم عفریت اپنے کئی ہاتھوں اور بازوؤں کو پھیلائے کھڑاہو ۔

وہ دونوں اس درخت کے موٹے اور کشادہ تنے سے پشت ٹکائے بیٹھ گئے ۔ ناصر بھائی           ہم نے رات میں نکل کر غلطی تو نہیں کی ؟ چند ثانیے کی دھڑکتی خاموشی کے بعد ساجد نے ناصرکو مخاطب کر کے کہا ۔

نہیں سانسیوں کی بستی میں داخل ہونے کا یہی وقت زیادہ مناسب رہے گا   ۔

ناصر نے جوابا کہا ۔

لیکن ناصر بھائی ۔             ہمیں ان کی آبادی میں جانے کی کیا ضرورت ہے ہمیں تو صرف چمائی کے مندر تک ہی پہنچتا ہے ۔ ساجد نے قدرے الجھے ہوئے لہجے میں کہا ۔

” تم نے شاید اس پجاری کی بات پر دھیان نہیں دیا تھا ۔ ناصر بولا ”چمائی کا مندر جس گھنے اور تاریک جنگل میں ہے ، سانسیوں کی جھونپڑیاں بھی وہیں عقب میں واقع ہیں ۔

تو گویا اس کا مطلب ہے کہ ہمیں ان کی آبادی سے بچ کر گزرنا ہوگا ؟ ‘ ساجد کے لہے میں تشویش تھی ۔ ’ ’

یقیناً                             ‘ ‘ ناصر نے ہولے سے کہا ۔

اچانک اسے سامنے والے ایک نسبتاً چھوٹے اور کم شاخوں والے ٹنڈ منڈ درخت کے عقب میں ایک سایہ حرکت کرتا دکھائی دیا ۔ ناصر بری طرح ٹھٹکا ۔ کون ہے ؟

وہ بے اختیار بڑ بڑایا ۔ اس کی دھڑکتی نظریں ہنوز اسی درخت پر مرکوز تھیں ۔

کون ہے ناصر بھائی ‘                      ‘ ساجد نے جلدی سے پوچھا ۔ ” تم یہاں ٹھرو ، میں دیکھتا ہوں ، مجھے سامنے والے درخت کے عقب میں کو ئی چھپا ہوا محسوس ہورہا ہے ۔ ناصر نے سرسراتی سرگوشی میں کہا اور پھر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا ، اس کے بعد وہ ساجد کو وہیں چھوڑ کر دھیرے دھیرے سامنے والے درخت کی جانب بڑھنے لگا ۔ اس کا دل سینے میں تیزی کے ساتھ دھڑک رہا تھا ، ابھی وہ درخت کے قریب پہنچا تھا کہ اچانک اسے ایک ہلکی غراہٹ سنائی دی ، وہ ٹھٹک کر وہیں رک گیا ، اسے درخت کے موٹے تنے کے عقب میں چاند کی مدہم روشنی میں کوئی چھپا ہوا دکھائی دیا ، وہ کسی جانور کا سایہ تھا جس کی پچھلی دونوں

ٹانگیں مع دم صاف نظر آرہی تھیں ۔

ناصر کسی خونخوار درندے کے تصور سے اب الٹے پیروں پلٹنے لگا تب اچانک ہی وہ    درندہ درخت کی آڑ سے برآمد ہوا جسے دیکھ کر ناصر کے پورے وجود میں کپکپی طاری ہوگئی ۔

وہ ایک کالے رنگ کا شیر تھا ، اس کی آنکھیں بہت چھوٹی اور چندی چندی تھیں مگر ان میں بلا کی سرخی اور وحشت مترشح تھی ۔

ناصر اس سیاہ اور خونخوار درندے سے اس قدر خوف زدہ ہو گیا کہ اس کی ٹانگیں لرزنے گئیں نتیجتاً اس کے پیچھے ہٹتے ہوئے قدم لڑکھڑائے اور وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا ، وہ جیسے ہی بھر بھری مٹی والی زمین پر گرا تھا ، ٹھیک اسی وقت وہ سیاہ رنگ کا درندہ اپنی چندی چندی سرخ آنکھوں سے اسے گھورتا ہوا تیزی سے اس کی جانب لپکا ۔

اس کے حلق سے غراہٹ ابل رہی تھی ، ناصر کا خون خشک ہوگیا ، اسے اپنی موت صاف نظر آنے لگی موت کو سامنے پاکر اس کے اعصاب یک دم ہی جواب دے گئے تھے ۔

ادھر ساجد نے بھی اس سیاه درندے کی خراہٹیں سن لی تھیں ، وہ متوحش سا ہو کر اٹھ کھڑا ہوا اور ناصر کو پکارنے لگا ۔ادھر اس سیاه درندے نے بھی ناصر کے علا وہ سامنے ایک اور شخص کو دیکھا تو وہ ناصر کے بالکل قریب پہنچ کر رک گیا ، اس کا اور ناصر کا درمیان فاصلہ صرف چند قدم کا رہ گیا تھا ۔

ناصر کالہو جیسے منجمد ہو چکا تھا ، ایک خونخوار اور خوفناک درندے کو اپنے بالکل سر پر پاکر جیسے اس کے حواس جواب دے گئے تھے ، اس کے وجود کی جیسے ساری قوت سلب ہو چکی تھی ، اس کے اندر اتنی ہمت نہ ہو پا رہی تھی کہ وہ اٹھ کر بھاگنے کی ہی کوشش کر لیتا ۔ دوسر طرف ساجد حیران و پریشان کھڑا تھا ، اسے درندے کی خطرناکی کا اندازہ نہیں تھا ، نہ ہی ناصر اسے کوئی جواب دے رہا تھا ۔

ناصر کو یہ دیکھ کر ذرا ہمت ہوئی کہ کالا شیر قریب پہنچنے کے بعد رک گیا تھا نیز وہ اب اس کی طرف گھورنے کی بجائے ٹکٹکی باندھے ساجد کی طرف دیکھے جا رہا تھا ، ناصر یہی سمجھا کہ شاید یہ کالا شیر اب ساجد پر جھپٹے گا مگر وہ خود حیران تھا کہ کالا شیر اپنی جگہ سے ذرا بھی ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا یوں ناصر نے ذرا حوصلہ پکڑا اور لیٹے لیٹے پیچھے کی طرف سرکنا شروع کر دیا اور جیسے ہی وہ ساجد کے قریب پہنچا ، ادھر کالے شیر نے بھی دھیرے دھیرے ان کی طرف بڑھنا شروع کر دیا ، ناصر کی مارے دہشت سے ابھی تک گھگی بندھی ہوئی تھی ، وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنی طرف بڑھتے ہوئے کالے شیر کو تکے جارہا تھا ، اس شیر کی آنکھوں میں جانے کیا مقناطیسی کشش تھی کہ ناصر گم صم ساہوکر رہ گیا تھا ، ساجد نے ناصر کی موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے اس سے دوبارہ کچھ پوچھنے کی کوشش کی تھی بمشکل ناصر کے منہ سے بے ربط کالا نکلا             

شش                         شیر

کیا                   ‘ ‘ ساجد زور سے چلایا ۔ اس اثناء میں وہ کالا شیر ساجد کو گھورتا ہوا قریب آگیا تب ایک حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا ، وہ کالا شیراپنی دم ہلانے لگا اور اس کے ساتھ ہی وہ ساجد کے بالکل قریب آکر اس کی ٹانگوں سے اپنے وجود کو مس کرنے لگا پھر اس کے قدموں میں بیٹھ کر اس نے اپنا سرزمین پر رکھ دیا ۔

اسی سماجد                 ! اپنی جگہ سے بالکل مت ہلنا ۔ ناصر نے ہلکی سی سرگوشی میں اس سے کہا ۔

ساجد نے بھی اپنی ٹانگوں کے ساتھ کسی جانور کے وجود کا لمس محسوس کر لیا تھا ۔

نن                         ناصر بھائی            !!!! کچھ ہو تو بتاؤ یہ کیا معاملہ ہے ؟ ناصر خود حیران تھا ، اس کا ڈر اور خوف اب شدید حیرت

میں بدل گیا تھا تب ناصر نے ساجد کو بتایا ” ساجد ایک کالا شیر تمہارے قدموں میں سر رکھ کر بیٹھا ہوا ہے ، پتہ نہیں کیا معاملہ ہے ، میری خود سمجھ میں نہیں آرہا ۔

ابھی ناصر نے اتنا ہی کہا تھا کہ وہ شیر اپنی جگہ سے اٹھا اور چند قدم آگے بڑھنے کے بعد رک گیا ۔

پھر دوبارہ ان کی طرف دیکھ کر اپنی دم ہلانے لگا ۔ ناصر کی کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے تب وہ کالا شیر دوبارہ ان کی طرف پلٹا ، ہولے سے غرایا پھر آگے بڑھ گیا اور روک کر ان کی طرف دیکھنے لگا ، اب وہ اپنی دم کوبھی زور زور سے ہلانے لگا ۔

میرا خیال ہے یہ ہمیں کہیں لے جانا چاہتا ہے    آؤ            !!!

، ناصر نے جیسے کالے شیر اشارہ بھانپتے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تو ساجد نے بھی ہولے سے اثبات میں سر ہلا دیا ۔

اب وہ دونوں اس کالے شیر کے عقب میں چلنے لگے ، کالا شیران کے آگے آگے چلنے لگا ۔

رات گہری ہونے لگی ، آسمان پر ٹکے طباق چاند کی طلسماتی روشنی سے اطراف کا ماحول خاصی حد تک منور تھا ، وہ دونوں کالے شیر کے پیچھے پیچھے چلتے رہے اور تھوڑی دیر بعد ناصر کو سامنے چاند کی روشنی میں ایک بوسیدہ عمارت کا ہیولا نظر آنے لگا ، وہ شیر اس کھنڈر نما عمارت کے اندر داخل ہوگیا ،ناصر ایک دم رک گیا ، ساجد کے قدم بھی زمین میں گڑ گئے ۔

” ہم کہاں آگئے ہیں ناصر بھائی ساجد نے پوچھا ۔

ناصر نے بتایا کہ شیر میں ایک کھنڈر کے قریب لے آیا ہے ،پتہ نہیں یہ کیا اسرار ہے              ؟

میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ۔ ” ساجد نے کچھ سوچنے کے بعد پر خیال لہجے میں کہا ۔

ناصر بھائی              ! لگتا ہے یہ شیر ہماری کوئی مددکرنا چاہتا ہے ، وہ کہاں گیا ؟

“ مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے ۔ ناصر نے بھی کچھ بھانپتے ہوئے کہا ۔ ہمیں اس کے پیچھے چلناہوگا                ،آؤ         !!

کالا شیر انہیں رکتا دیکھ کر اپنی گردن موڑے ان کی طرف دیکھنے لگا اور دوبارہ اپنی دم ہلانے لگا پھر جب ان دونوں نے اس کی طرف آگے قدم بڑھائے تو اس نے بھی چلنا شروع کردیا ۔

وہ دونوں اب کالے شیر کے پیچھے چلتے ہوئے کھنڈر کے اندر داخل ہوگئے ۔ یہ ایک ٹوٹا ہوا بوسیدہ سا ہال نما کمرا تھا جس کی چھت امتداد زمانہ سے منہدم ہو کر گر چکی تھی ، اس کا ملبہ آس پاس بکھرا ہوا تھا ۔

وہ کالا شیر ایک کونے کی طرف بڑھ گیا ، اچانک ایک آہٹ پر یہ لوگ بری طرح ٹھٹکے وہ کالا شیر بھی ٹھٹکے ہوئے انداز میں رک گیا تھا ، ناصر نے عقب میں گردن موڑ کر دیکھا تو اسے چار پانچ افراد تیزی سے اندر داخل ہوتے دکھائی دینے لگے، ان سب کے ہاتھوں میں قرولیاں اور برچھیاں تھیںجن کے پھل ٹوٹی ہوئی چھت سے پڑتی چاندنی میں چمک رہے تھے ،کالا شیر ان لوگوں کی موجودگی محسوس کرتے ہوئے ایک ٹوٹی ہوئی دیوار سے جست لگا کر باہر نکل چکا تھا ۔

وہ پانچوں افراد ہاتھوں میں قرولیاں اور برچھیاں تھامے اندر داخل ہوئے تھے اور دونوں کو گھیرے میں لے لیا ، ناصر کے چہرے پرتشویش کے آثار امڈ آئے ، اس نے ساجد کے کان میں سرگوشی کر کے اسے خطرے سے آگاہ کر دیا تھا ، ساتھ ہی ناصر کو اس بات پر حیرت بھی ہوئی تھی کہ آخر وہ پراسرار کالا شیر کدھر غائب ہوگیا ، تاہم اس نے اپنے حواس بحال رکھے ۔

وہ پانچوں افراد تنو مند اور سیاہ رنگت کے تھے ، ان کے اوپری جسم برہنہ تھے اور نیچے دھوتی ٹائپ کوئی تہہ دار کپڑا لپیٹ رکھا تھا ، ان کے سر گنجے تھے اور کانوں میں پیتل کے بالے جھول رہے تھے ، ان کی آنکھوں میں وحشتیں ہلکورے لے رہی تھیں ، البتہ کے قد و قامت دبتے ہوئے تھے ۔

کون ہو تم لوگ                  ؟ ان میں سے ایک نے درشت لہجے میں ناصر کو گھورتے ہوئے پوچھا

۔ وہ نسبتاً زیادہ ڈیل ڈول کا مالک تھا ۔

ناصر کو کچھ کچھ اندازہ ہوا تھا کہ یہ لوگ سانسی قبیلے کے افراد ہی ہو سکتے تھے تاہم وہ اپنے حواس بحال رکھتے ہوئے بولا ۔ ” ہم شاہ پور سے آئے ہیں ، ایک اخبار کے لیے کام کرتے ہیں ، تاریخی مقامات کی سیر کرنا اور ان برسوں پرانے کھنڈرات کے بارے میں لکھنا ہمارا پیشہ ہے ۔

“ ناصر کی بات سن کر ایک دوسرا ان دونوں کا بغور جائزہ لیتے ہوئے مکروہ مسکراہٹ سے بولا ” تمہاری یہ چالاکی کام نہیں آسکتی کیونکہ ہم تمہیں اچھی طرح جان گئے ہیں کہ تم کون ہو، مقدس جافرموس نے ہمیں سب بتا دیا ہے ۔

اس کی بات سن کر ناصر اور ساجد کا دم خشک ہونے لگا ، یہ دونوں ان پانچوں خونخوار سانسیوں کے گھیرے میں بری طرح پھنس چکے تھے ۔

تم دونوں اب مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ ‘ ‘ تیسرے نے انہیں گھور کر غراتے ہوئے کہا اور اس کے ساتھ ہی یہ پانچوں اپنے ہاتھوں میں برچھیاں اورقرولیاں لہراتے ہوئے اپنا گھیرا تنگ کرنے لگے ۔

ناصر کو اپنی موت صاف نظر آنے لگی ، وہ تنہا اور نہتا تھا ، ان پانچوں خونخوار اور تنومند سانسیوں سے نہیں لڑ سکتا تھا جو جافر موس کے پجاری تھے ۔

تب پھر اچانک کھنڈر کے اندر ایک دھاڑ گونجی ،ان دونوں کی طرف بڑھتے ہوئے وہ پانچوں سانیسی بری طرح ٹھٹکے ٹھیک اسی وقت ایک درندے نے ان پر جست لگائی تھی ، ناصر نے دیکھا یہ وہی پراسرار کالا شیر تھا ، اس نے سب سے پہلے ایک سانی کی گردن کو اپنے جبڑوں تلے نوکیلے دانتوں سے ادھیڑ ڈالااور پھر دوسرے کونوکیلے ناخنوں والا پنجہ مار کر اس کا چہرہ نوچ ڈالا ۔۔

باقی تینوں سانسی کالے شیر کے مقابلے پر ڈٹ گئے ، ان کے انداز و اطوار بڑے جنگجوانہ طرز کے تھے ، ناصر اور ساجد ایک کونے میں سمٹ گئے تھے ، وہ تینوں سانسی اپنے ہاتھوں میں قرولیاں تولے کالے شیر کو گھیرے میں لئے ہوئے تھے ، کالا شیر ان میں سے کسی ایک پر جست لگانے کے لیے پرتول رہا تھا اور ان کی طرف گھور گھور کر غرا رہا تھا ۔

تب پھر اچانک ہی اس نے ایک سانسی پر چھلانگ لگا دی ، وہ سانسی بھی اس حملے کے لیے پہلے ہی چوکس تھا ، اس نے فوراً جھکائی دی اور پھر جیسے ہی کالا شیرزمین پر آیا ، وہ تینوں سانسی اس پر جھپٹ پڑے ، ایک نے اپنی قرولی کا وار اس کے پہلو پر کیا اور دوسرے نے گردن پر جبکہ تیسرے کو وار کرنے کا موقع نہ مل سکا ، کالے شیر نے ایک زوردار دھاڑ ماری اور پلٹ کر ایل پنجہ ایک سانسی کی گردن پر مارا اور اس کی گردن ادھیڑ ڈالی ، وہ کریہہ چیخ کے ساتھ وہیں ڈھیر ہوگیا ۔

تیرے سانسی نے کالے شیر کے پیٹ پر اپنی قرولی گھونپنے کی کوشش کی تو کالے شیر نے زخمی ہونے کے باوجود اس نرخرہ اپنے پنجے میں دبوچ ڈالا ، وہ بری طرح تڑپنے لگا ۔

جو سانسی اکیلا بچا تھا ، اسے دوبارہ کالے شیر پر حملے کی جرأت نہ ہوئی تھی چنانچہ اس نے بھاگنے میں ہی عافیت جانی اور باہر کو دوڑ لگا دی ۔

کالا شیر اپنے دوسرے شکار کوٹھکانے لگانے کے بعد ہانپنے لگا ، اس کی گردن اور پہلو سے خون نکل رہا تھا ، اس نے تیسرے فرار ہونے والے سانسی کا تعاتب نہیں کیا تھا ، ناصر فوراً شیر کی طرف بڑھا اور اس کے زخموں کا جائزہ لینے لگا مگر وہ کیا کر سکتا تھا سوائے دکھ اور افسوس کے           کالے شیر نے ناصر کی طرف دیکھا پھر اپنے زخم پر زبان پھیرنے لگا ، اس کے بعد وہ بمشکل اٹھا اور اپنی دم ہلاتا ہوا ایک گوشے کی طرف بڑھ گیا ۔

ناصر نے ساجد کو جلدی جلدی مختصراً ساری صورت حال سے آگاہ کیا اور اسے لے کر شیر کے پیچھے چل دیا ، کالا شیر ایک انتہائی بعید ترین گوشے میں آ کر اپنے دونوں اگے اگلے پنجوں سے جلدی جلدی مین کھرچنے لگا ۔

ناصر اور ساجد دم بخود سے کھڑے تھے ، ناصر بخور اس کی یہ حرکت دیکھ رہا تھا کالے شیر نے آن واحد میں ایک خاصا گہرا گڑھا کھود ڈالا اور پھر اپنا منہ گڑھے میں ڈال کر جب باہر نکالا تو ناصر نے دیکھا ، اس کے جبڑوں میں ایک چوڑے پھل والی کلہاڑی دبی ہوئی تھی جو اس نے ساجد کے قریب آکر اس کے قدموں میں رکھ دی  

قریب آ کر اس کے قدموں میں رکھ دی ، اس کے بعد ایک نظر ان دونوں کو باری بار دیکھا اور دھیرے دھیرے چلتا ہوا کھنڈر سے باہر نکل گیا ۔

ناصر نے فوراً آگے بڑھ کر ساجد کے قدموں سے وہ کلہاڑی اٹھا لی اور اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر بغور اس کا معائنہ کرنے لگا ۔

اس کلہاڑی کا پھل تیز دھار تھا اور خاصا چوڑا بھی تھا لیکن دستہ بہت پرانی مگر مضبوط لکڑی کا تھا مجموعی طور پر ناصر کو کلہاڑی قدیم طرز کی محسوس ہوئی تھی ۔

اس نے ساجد کو اس کے بارے میں بتایا ، ساجد زرا الجھ سا گیا ، اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر اس پراسرار کالے شیرکا اس کے قدموں میں ہی کلہاڑی رکھنے کا آخر کیا مقصد تھا لیکن ناصر کچھ کچھ سمجھنے لگا تھا کہ اس کا کیا مطلب تھا لہٰذا اس نے ساجد سے کہا ۔

” ساجد                 ! اس کالے شیر نے یہ کلہاڑی صرف تمہارے قدموں میں رکھی تھی جس کا ایک ہی مقصد ہوسکتا ہے کہ یہ کلہاڑی تمہارے لئے ہے اور جا فرموس کے بت کو صرف تم ہی مسمار کر سکتے ہو

” لل        لیکن ناصر بھائی             میں تو دیکھ نہیں سکتا ۔ میں کسی طرح اس کلہاڑی سے                        کیسے جافرموس کے بت کو پاش پاش کرسکتا ہوں ؟

” اس کی بات سن کر ناصر نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا ۔ ’ ’ ساجد              ! اللہ نے اب تک ہماری ساری رکاوٹیں دور کی ہیں ، وہ آگے بھی ہماری مدد کرے گا پھر میں بھی تو تمہارے ساتھ ہوں ۔

‘مگر وہ کالا شہر کہاں چلا گیا ؟وہ کیا معاملہ تھا؟

‘ ‘ ساجد نے پوچھا ۔

ناصر ایک گہری سانس خارج کرتے ہوئے بولا ” ساجد میاں ! ہم جن پر اسرار اور نا قابلِ یقین حالات سے گزر رہے ہیں ، ان میں یہ سب ممکن ہے ، ہوسکتا ہے اس پر اسرار کالے شیر کاتعلق کبھی شہید نیک شاہ سے رہا ہو ، آؤ اب آگے بڑھیں ، ایک سانسی بھاگ چکا ہے ایسانہ ہو وہ اپنے دیگر ساتھیوں کو بھی یہاں بلا لائے” ناصر نے کہا اور پھر جب دونوں کھنڈر سے باہر نکلنے لگے تو ناصر نے مردہ پڑے سانسیوں کی دو دو قرولیاں اٹھا لیں اوراپنی ٹانگوں کی دونوں پنڈلیوں پر باندھ لیں ، کلہاڑی البتہ اس نے اٹھا رکھی تھی ۔

دونوں کھنڈر سے باہر آ گئے ۔

کاش                             ! وہ کالا شیر ہماری چمائی کے مندر تک رہنمائی کر دیتا ۔

کھنڈر سے نکلتے ہی ساجد نے خود کلامی میں کہا ۔

ناصر بولا ” فکر نہ کرو ہم چمائی کے مندر کے علاقے میں داخل ہو چکے ہیں ، مندر بھی نظر آہی جائے گا ۔

مگر تمہیں کیسے اندازہ ہوا ؟

تم بہت بھولے ہو ۔ “ ناصر نے مسکرا کر کہا ۔ ” ہم پر جن پانچ افراد نے حملہ کیا تھا ، وہ سانسی ہی تو تھے تم نے ان کی دھمکی نہیں سنی تھی ؟

ہاں                       ہاں                یادآیا ، میں تو بھول ہی گیا تھا ۔ وہ ہولے سے ہنس کر بولا ۔

” ہم ابھی میدانی علاقے میں ہی کھڑے ہیں ، مجھے دور ایک جنگل کے آثار تو نظر آرہے ہیں ، میرا خیال ہے وہی سانیسیوں کی آبادی ہوگی ۔ ‘ ‘ ناصر نے کہا اور پھر دونوں آگے بڑھ گئے ۔

شگفتہ اور زینت دونوں کو اب اس بات کی خوش تھی کہ شفقت راہ راست پر آگیا تھا اور سارے حالات سے آگاہ ہونے کے بعد اس نے اب اپنے دل سے اندھیری کوٹھی کو نذر آتش کرنے کا خیال نکال دیا تھا نیز اس نے انہیں تسلی بھی دی تھی کہ وہ اس محلے والوں کو بھی اس سلسلے میں اعتماد میں لینے کی کوشش کرے گا ۔

چنانچہ شفقت کی دکان نما بیٹھک پر جب محلے کے چند لوگ اکٹھے ہوئے تو انہیں شفقت نے ساری بات سے آگاہ کر دیا ۔

جھوٹ ہے ، وہ دونوں عورتیں اپنے جادو ٹونے کو جاری رکھنا چاہتی ہیں ۔ ریاض نامی ایک شخص نے نفی سے کہا تو اس کی دیکھا دیکھی ایک دوسرا بھی اس کی تائید میں بولا                ریاض بھائی کی بات درست ہے ، اس اندھیری کوٹھی کو کالے اور سفلی عمل کا گڑھ بنایا جارہا ہے ، ایک پولیس والا بھی ان کی بھینٹ چڑھ چکا ہے کسی روز ہماری بھی باری آسکتی ہے ۔

شفقت نے ٹھنڈے دماغ سے انہیں سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔ تم لوگوں کو میری بات پر بھروسہ کر نا چاہیے ، میرا بھانجا ناصر بھی تو آخران کے ساتھ ہی رہتا ہے اور میں کیوں اس کا برا چاہوں گا جلدبازی اور اشتعال میں آکر معاملہ پہلے سے زیادہ بگڑ سکتا ہے ۔

محلے کے چند لوگوں میں شفقت کا دوست شمس الدین بھی موجود تھا ۔ یہ وہی شخص تھا جس کے ساتھ تیمور کے گھر جا کر انہوں نے ناصر کے لیے شگفتہ کا رشتہ مانگا تھا ، اس نے بھی شفقت کی حمایت میں محلے کے ان لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی ، چنانچہ وہ لوگ خاموشی سے اٹھ کر چلے تو گئے تھے مگر حقیقت یہ تھی کہ وہ شفقت کی باتوں سے ذرا بھی متفق نہیں ہوئے تھے ، ان میں ریاض نامی شخص سب سے آگے تھا ، لہذا اس نے چند لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیا اور اس اندھیری کوٹھی کو آگ لگانے کا منصوبہ تیار کیا جانے لگا ، وہ لوگ اب یہ بھی کہ رہے تھے کہ شفقت اپنے بھانجے ناصر کی وجہ سے دب گیا ہے لہذا اب یہ کام انہیں خود مل کرانجام دینا ہوگا ۔

نواز نامی پولیس والے کی ہلاکت کے باوجود اندھیری کوٹھی پر پولیس کا پہرہ موجود تھا ۔

ریاض اور اس کے ساتھیوں نے سب سے پہلے اس بات کا پتہ لگایا کہ رات کی شفٹ میں کتنے پولیس والے پہرے پر ہوتے ہیں تب انہیں معلوم ہوا کہ رات کے وقت چونکہ شر پسندی کا زیادہ خطرہ تھا ، اس لئے رات میں اب پانچ پولیس والے تعینات کر دیئے گئے تھے جبکہ دن اور شام کی شفٹوں میں صرف دو دو پولیس والوں کا پہرہ ہوتا تھا ۔

ریاض نے اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے ساتھ چھ افراد کو ملا لیا ، یہ کام بڑی راز داری کے ساتھ کیا جانے والا تھا ، سب سے پہلے انہوں نے پٹرول اورمٹی کے تیل کے چار کینوں کا بندوبست کیا اور دو افراد کے حوالے ایک ایک کین کر دیا گیا ۔

جس ٹولے میں ریاض تھا ، ان کے پاس دو کین تھے ، اب منصوبہ تھا کہ ایک ٹولہ اندھیری کوٹھی کے عقب سے دیوار پھاند کر اندر داخل ہونے کی کوشش کرے گا جبکہ دوسرا ٹولہ جنوبی دیوار سے نقب لگائے گا ،جبکہ خود ریاض اور اس کے بقیہ دوست کوٹھی کے دائیں جانب والی و بوار کو پھاندنے کی کوشش کریں گے ، چنانچ منصوبہ حل ہوتے ہی اس پر عمل شروع کر دیا گیا ۔

کوٹھی کی اصل عمارت کے گرد چار دیواری زیادہ بلند نہ تھی تاہم پھر بھی اسے نقب لگا کر با آسانی پھاندا جا سکتا تھا ۔رات جب اپنے نصف پور میں داخل ہوئی تو یہ لوگ تین ٹولیوں میں بٹ کر اندھیری کوٹھی کی طرف چل دیئے ۔

جیسا کہ مذکور ہو چکا ہے کہ یہ کوٹھی الگ تھلگ اور ایک مختصر سے میدانی علاقے میں واقع تھی، کوٹھی کے چاروں طرف کا علاقہ خالی پلاٹوں پر مشتمل تھا اس لئے آگ لگنے کی صورت میں اس کے پھیلاؤ کا خطرہ نہ تھا ، بہر طور ۔ لوگ اپنے اپنے مقررہ مقام تک پہنچے لیکن انہیں دیوار پھاندنے کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو لوگ کوٹھی کے عقب میں دوبارہ اکٹھے ہو گئے ۔

ریاض بھائی                 ! دیوار پھلانگنا تو ممکن نظر آ رہا ہے ، اب کیا کریں ؟ ‘ ‘ ایک نے فکر بھرے لہجے میں کہا ۔

ریاض سرگوشی میں جواباً بولا ” ہمت کیوں ہارتے ہو ضروری نہیں کہ اب ہم سب لوگ ہی اندر داخل ہوں ، اگر کسی طرح دو افراد بھی ہمت کریں تو اندر کود سکتے ہیں ۔

مگر کیسے           ؟ ‘ ‘ دوسرے نے پوچھا ۔

ہم خود سیڑھیاں بن سکتے ہیں ۔ ریاض نے کہا ۔

پھر انہیں سمجھانے لگا ۔ وہ سب ریاض کی زہانت کے قائل ہو گئے۔

اب یہ طے کیا گیا تھا کہ صرف ریاض اور اس کا ایک ساتھی اندر داخل ہوں گے بعد میں رسی کی مدد سے پٹرول کے گیلن اوپر لئے جائیں گے لہذا ایسا ہی کیا گیا ۔

سب سے پہلے عقبی دیوار کے سہارے ایک نسبتاً تنومند شخص کو کھڑا کر دیا گیا پھر اس کے کاندھوں پر ایک دبلے پتل شخص کو سیدھا کھڑا کر دیا گیا ، اس کے بعد ریاض مزید دو آدمیوں کے سہارے اس دبکے شخص کے کاندھوں پر ٹک گیا ، وہاں سے اس نے اپنے دونوں ہاتھ منڈیر پر پھنسائے اور اپنے وجود کو بازوؤں کے سہارے اوپر کر دیا ، پھر اسی طرح دوسرے شخص کو بھی اپنے اوپر لاد کر دیوار کی منڈیر تک پہنچا دیا گیا ، اس کے بعد ایک رسی کے ذریعے پٹرول کے دو گیلن بھی اوپر کھینچ لیے گئے ۔

ریاض اور اس کا ساتھی اندر پائیں باغ میں کود گئے مگر اس سے پہلے وہ دونوں گیلن اندرا تار چکے تھے ۔

چند ثانیے وہ گھنے پودوں میں دم سادھے کے بیٹھے رہے پھر اس کے بعد ریاض سرگوشی میں اپنے ساتھی کو ہدایت دینے لگا ۔

پھر ان دونوں کو جہاں جہاں موقع ملا ، وہاں انہوں نے پٹرول چھڑک دیا، یہ کوٹھی قدیم طرز کی تھی اور زیادہ تر اس میں عمارتی لکڑی کا استعمال کیا گیا تھا ، اس لئے بڑی آسانی سے باہری باہر کا کام نمٹانے کے بعد دونوں پلٹے ، ریاض نے تھوڑا پٹرول بچارکھا تھا جسے وہ اپنے قدموں پر چھڑکتا ہوا واپس عقبی دیوار تک پہنچا ۔

پھر دونوں ایک گھنے اونچے درخت پر چڑھ گئے جو دیوار کی منڈیر کے بالکل قریب تھا ، دوبارہ واپس باہر کودنے کے لیے ریاض نے پہلے ہی سے اس درخت کا انتخاب کر رکھا تھا ، درخت پر چڑھنے کے بعد ریاض نے اپنی قمیض کی جیب سے ماچس نکالی اور زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ دیا سلائی جلا کر پٹرول کی بنائی ہوئی لکیر کی طرف اچھال دی ، پٹرول کی لکیر نے جلتی ہوئی دیا سلائی کے گرتے ہی آگ پکڑ لی اور ایک آتشی لکیر نے تیزی کے ساتھ اندھیری کوٹھی کی چوبی دیواروں کو کسی آتشی اژدھے کی طرح نگلنا کے لیے اپنا سفر شروع کردیا ۔

اپنا کام نمٹانے کے فوراً ہی بعد دونوں نے درخت سے منڈیر پر چھلانگ لگائی اور پھر باہر نیچے تاریکی میں کود گئے ۔

آگ نے جیسے ہی کوٹھی کی دیوار کو چھوا اچانک آسمان پر زور سے بجلی کڑکی اور پھر موسلا دھار بارش کا سلسلہ شروع ہو گیا جو اس قدر شدید اور طوفانی تھا کہ پیٹرول کی بھڑکتی ہوئی آگ بھی اس آناً فاناً شروع ہونے والی طوفانی ہواؤں اور بارش میں بجھ کر رہ گئی ، کوٹھی کے مکینوں کو پتہ ہی نہ چل سکا تھا کہ مشیت ایزدی سے ایک گھناؤنی سازش خود اپنی موت مر چکی تھی ۔ ☆

وہ دونوں بدستور تاریکی میں آگے بڑھتے رہے ، ان پانچ سانسیوں کے حملے کے بعد سے ناصر اب پہلے سے زیادہ محتاط ہو گیا تھا لہذا وہ اپنے گردوپیش میں گہری نظریں ڈالے ہوئے ساجد کے ساتھ تیز تیز قدموں سے آگے بڑھ رہا تھا ، ناصر کا دل تیز تیز دھڑک رہا تھا ، اسے اب ہر قدم پر خطرہ سانپ کی طرح پھن گاڑھے گھات میں بیٹھا محسوس ہورہا تھا ، جنگل قریب آنے لگا تھا، یہ اس قدر گھنا اور تاریک جنگل تھا کہ ناصر کے لیے اس کے اندر داخل ہونے کا تصور ہی محال ہورہا تھا مگر وہ    محتاط اور چوکس تھا ، جنگل کے قریب پانچ کر وہ زرا دیر کے لیے رک گیا ، جنگل کے اندر آسیبی سناٹا طاری تھا ۔ بہرطور ذرا دیر بعد ناصر اور ساجد نے الله کا نام لے کر آگے قدم بڑھا دیئے ۔

وہ دونوں اب گھنے جنگل میں داخل ہوئے تھے اور ناصر کی کوشش یہی تھی کہ وہ جلدی جنگل سے نکلیں۔

اس کے دل میں کھٹک سی ہورہی تھی ۔

تھوڑی دور نکل آنے کے بعد جنگل کا گھنا پن ختم ہونے لگا اور خودرو جھاڑیوں کا ایک مختصر میدان نظر آنے لگا ، ایک مقام پر ناصر ٹھنک کر رک گیا اور بغور آنکھیں سکیڑے سامنے تکنے لگا، اسے ذرا دور گھاس اور خودرو جھاڑیوں کے میدان میں سرکنڈوں کی چھوٹی چھوٹی جھونپڑیاں نظر آنے لگیں ، چند ایک جھونپڑیوں سے روشنی کے جگنو سے چمکتے دکھائی دے رہے تھے ، اس کا دل ہے اختیار مسرت سے دھڑک اٹھا ، وہ اس خوشی میں ساجد سے سرگوشی میں بولا ” ساجد لگتا ہے ہم منزل کے قریب پہنچ چکے ہیں ۔

” اچھا                ۔ ‘ ‘ ساجد بھی دھیمی آواز میں خوشی سے بولا کیا ہم پرانے مندر کے قریب آچکے ہیں ؟  

نہیں                 ! ہم ابھی سانسیوں کی آبادی تک آ پہنچے ہیں ، ہمیں اب راستہ بدل کر آگے بڑھنا ہوگا ،چمائی کا وہ پرانا مندر آبادی سے ذرا ہی دور ہے ، آؤ چلیں ۔ ‘ ‘ ناصر نے کہا اور دونوں ایک بار پھر آگے بڑھ گئے ۔

ناصر نے اب احتیاطاً اپنی ایک پنڈلی سے قرولی نکال کر ساجد کی پنڈلی پر باندھ دی تھی کہ بوقت ضرورت کسی فوری اور ممکنہ خطرے کے پیش نظر وہ اسے استعمال میں لا سکتے تھے ۔

اب وہ دونوں سانسیوں کی آبادی سے ذرا ہٹ کر آگے بڑھ رہے تھے ، ذرا ہی دیر بعد سرکنڈوں کے جھونپڑے بہت دور چلے گئے ، یہاں پر جنگل کم گھنا تھا اور چٹکی ہوئی چاندنی میں آس پاس کا ماحول خاصی حد تک روشن تھا ، اس مدہم روشنی میں ناصر کو اچانک اپنے دائیں جانب زرا فاصلے پر ایک مخروطی اور کھنڈر نما عمارت کے آثار نظر آئے ، وہ فوراً بھانپ گیا کہ یہی چمائی کا پرانا مندرتھا ۔

ناصر کامیابی کے جوش میں اب تیز تیز قدموں کے ساتھ آگے بڑھنے لگا ، ابھی وہ دونوں تھوڑی ہی دور چلے تھے کے اچانک ناصر کو اپنے دونوں پیروں میں جکڑن کا احساس ہوا، پھر اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتا، اچانک اس کے دونوں پاؤں ایک جھٹکے سے اوپراٹھے ، بے اختیار اس کے حلق سے ایک تیز چیخ خارج ہوگئی ، اگلے ہی لمحے وہ سر کے بل اوپر اٹھتا چلا گیا ، کلہاڑی بھی اس کے ہاتھوں سے چھوڑ کر نیچے خودرو جھاڑیوں میں گر پڑی ، ساجد نے بےچارہ حیران پریشان کھڑا تھا ، وہ ناصرکو آوازیں دینے لگا ٹھیک اسی وقت آس پاس کی جھاڑیوں سے چھ سات ننگ دھڑنگ سانسی اپنے ہاتھوں میں قرولیاں اور نیزے سنبھالے نمودار ہوئے اور انہوں نے حیران و پریشان کھٹرے ساجد کو چاروں طرف سے گھیر لیا ۔

ناصر نے ساجد کوخطرے میں پایا تو اس کے وجود میں جوش کی ایک تیز لہر سی آئی، منزل کے قریب پہنچ کر وہ شکست سے دوچار نہیں ہونا چاہتا تھا چنانچہ اس نے ہمت اور جرأت سے کام کیا اور کسی طرح زور لگا کر اپنے سر کے بل فضا میں معلق وجود کو سمیٹ کر اپنی پنڈلی پر بندھی ہوئی قرولی نکال لی پھر ٹانگوں کی رسی کاٹ ڈالی لیکن اس نے یہ احتیاط رکھی تھی کہ اس کا دوسرا جھولتا ہوا سرا اس کے ہاتھوں میں ہی مضبوطی سے تھما رہے ورنہ سر کے بل گرنے سے اس کی گردن کی ہڈی ٹوٹ سکتی تھی ۔

بہرطور دونوں پیروں کے جکڑ بند کاٹنے کے بعد وہ نیچے کود گیا ، پانچوں سانسی اب اس کی طرف متوجہ ہوئے ، ناصر نے یہاں جوش کی بجائے ہوش سے کام لیا اور چلا کر ان سے بولا ۔

بے وقوفو                              ! جلدی کرو وہ دونوں مسلمان تمہاری عبادت گاہ میں داخل ہو چکے ہیں ، انہیں روکو ، وہ مقدس جافرموس کا بت پاش پاش کرنے والے ہیں ، ان کے ہمراہ کالا شیر بھی ہے جس نے تمہارے دوسرے ساتھیوں کو بھی ہلاک کر ڈالا ہے ۔

ناصر کی بات سن کر ان پانچوں سانسیوں کے چہروں پر ایک لمحے کے لیے الجھن کے تاثرات امڈ پڑے ۔

ناصر نے بغور ان کے چہروں کا جائزہ لیتے ہوئے پہلے یہ اطمینان کرلیا تھا کہ ان میں وہ شخص تو موجود نہ تھا جو کالے شیر کے پنجوں سے جان بچا کر بھاگ گیا تھا۔ورنہ وہ    ان دونوں کو پہچان لیتا۔

مگر تم کون ہو            ؟؟ ایک سانسی نے قرولی لہرا کر قدرے تیز لہجے میں اس سے پوچھا۔,

ہمیں کلاوتی نے بھیجا ہے یہاں تاکہ تمہیں خطرے سے آگاہ کر سکیں ۔”ناصر کو چونکہ معلوم تھا کہ ڈھوک پورہ کے سرائے کی مالکہ کلاوتی بھی سانسی قبیلے ہی سے تعلق رکھتی تھی جسے بعد میں انہوں نے پولیس کے حوالے کروا دیا تھا لہذا یہی سبب تھا کہ کلاوتی کا حوالہ دینے پر وہ لوگ کچھ سوچنے پر مجبور ہو گئے تھے لہذا وہ سب انہیں چھوڑ کر پرانے مندر کی طرف دوڑے مگر دوسرے ہی لمحے ایک گونجدار آواز پر وہ ٹھٹک کر رک گئے ۔

خبردار                               ! ان کے جھانسے میں نہ آؤ ، یہ دونوں وہی موذی ہیں ، جو میرے بت کو پاش پاش کرنے آئے ہیں ، ان دونوں کو ترنت ختم کر ڈالو۔

ناصراور ساجد اس آواز کو پہچان کر لرز اٹھے ، یہ جافرموس کی بدروح کی آواز تھی۔خطرہ محسوس کرتے ہی ناصر نے سب سے پہلے زمین پر پڑی کلہاڑی اٹھائی اور پھر ساجد کا ہاتھ پکڑ کر دائیں جانب کی قد آور جھاڑیوں کی طرف دوڑتا چلا گیا ، وہ پانچوں سانسی اب خونخوار آوازیں نکالتے ہوئے ان کی طرف دوڑے ، ناصر اور ساجد جھاڑیوں اور درختوں کے گنجان سلسلوں کی آڑ لیتے ہوئے ایک لمبا چکر کاٹ کر چمائی کی کھنڈر نما عبادت گاہ کی عقبی دیوار کے قریب جا پہنچے ۔

چند ثانیے وہ وہاں دم سادھے کھڑے رہے ، اس کے بعد ناصر نے ساجد کو اپنے عقب میں آنے کا کہا اور پھر دونوں دیوار سے چپکے چپکے عبادت گاہ کے مرکزی دروازے کی طرف بڑھنے لگے، عبادت گاہ کا دروازہ شکتہ اورٹوٹا ہوا تھا ، ناصر کو حیرت ہوئی تھی کہ انہوں نے اپنی اس عبادت گاہ کی نئے سرے سے مرمت تو ایک طرف تھوڑی سی ٹھوکا ٹھاکی بھی نہ کی تھی ، آخر وجہ کیا تھی ، کیا جافرموس کے بت میں اس کی بدروح حلول ہونے تک اسے دانستہ ایسا ہی رہنے دیا گیا تھا ، ایک یہی وجہ اس کے ذہن میں آئی تھی ، ان کا تعاقب کرنے والے وہ پانچوں سانسی بھٹک گئے تھے ، ناصر کو ان میں عقل کا فقدان محسوس ہوا تھا ، وہ جانگلی قسم کی قوم معلوم ہوئی تھی ۔

بہرطور وہ دونوں تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عبادت گاہ کے دروازے کے شکستہ دروازے کی طرف پہنچ گئے ، ناصر نے ساجد کو وہیں ایک کونے میں کھڑے رہنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا ۔ ” ساجد           منزل ہمارے قدموں تلے ہے ، ہمیں جلد بازی سے کام نہیں لینا ہو گا ، تم ادھر ہی ٹھرو میں ذرا اندر کی سن گن لے کر آتا ہوں ۔ یہ کہہ کر ناصرمحتاط قدموں اندر کا جائزہ لیتے ہوئے داخل ہوا، اندر عبادت گاہ کی شکستہ چوکھٹ کے قریب پہنچ کر رکا اور اندر جھانکنے لگا   ، لیکن یہ دیکھ کر اسے شدید حیرت کا سامنا ہوا کہ اندر کوئی بھی ذی نفس موجود نہ تھا البتہ اندر چند مشعلیں روشن تھیں ۔

وہ دھڑکتے دل کے ساتھ اندر داخل ہو گیا پھر اس نے عبادت گاہ کا کونا کونا چھان مارا مگر اسے کوئی بت دکھائی نہ دیا ، وہ بہت پریشان ہوا ، ایک خیال اس کے ذہن میں یہ بھی ابھرا تھا کہ کہیں وہ غلط جگہ پر تو نہیں آ گیا تھا              ؟

کبھی اسے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ اچانک باہر کچھ لوگوں کے زور زور سے بولنے کی آوازیں ابھرنے لگیں ، ناصر کا دل یکبارگی زور سے دھڑکا کا پھر وہ ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر ایک ٹوٹے ہوئے ستون کی آڑ میں ہوگیا ۔ تب اسے بیرونی دروازے سے وہی پانچوں سانسی اندر داخل ہوتے دکھائی دیے ، ناصر نے گویا اپنی سانسیں روک لیں ، وہ پانچوں وسط میں آ کر کھڑے ہو گئے پھر اطراف میں ایک نگاه ڈالنے کے بعد وہیں کھڑے ہو کر آپس میں باتیں کرنے لگے ۔

ایک سانسی بولا       ہمارا تو خیال تھا وہ دونوں ادھر ہی کا رخ کریں گے مگر کہاں گئے وہ دونوں           ؟

دوسرا ساتھی بولا ”          وہ دونوں مورکھ یہاں ضرور آئے ہوں گے لیکن مقدس جافرموس کا بت نہ پا کر واپس چلے گئے ہوں گے ۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ انہیں اس حقیقت کا علم ہو چکا ہو کہ ہم نے خطرے کی وجہ سے مقدس جافرموس کا بت کسی اور جگہ منتقل کر دیا ہے ؟ ‘ ایک تیسرے سانس نے خطرہ ظاہر کرتے ہوئے کہا اور پھر چوتھے نے بدحواس ہوکر ہی مشورہ دیا ۔

” میرا خیال ہے ہمیں اسی وقت جانا ہوگا ، کیا خبر وہ دونوں مورکھ وہاں تک پہنچ نہ گئے ہوں ۔

‘ ‘ سب نے اس کی بات پر صاد کرتے ہوئے بیک وقت سر ہلایا اور باہر کو دوڑے ۔

ناصر نے ان کی باتیں سن لی تھیں ، چنانچہ وہ بھی ایک لمحہ ضائع کئے بغیر عبادت گاہ سے باہر آیا ، پانچویں سانسیوں کے تیز تیز قدموں سے تاریکی میں بڑھتے ہوئے ہیولے اسے صاف نظر آرہے تھے ۔

فرط جوش سے ناصر کی رگوں میں خون کی گردش تیز ہوگئی ، اس نے ساجد کو ساتھ لیا اور پھر دونوں ان کے تعاقب میں چل پڑے ۔

خاصی دور نکل آنے کے بعد چھوٹے بڑے ٹیلوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ، ایسے ہی ایک نسبتاً بلند ٹیلے کے ایک تاریک غار کے سامنے وہ پانچوں سانسی کھڑے ہو گئے ۔

ناصر اور ساجد بھی ایک چھوٹے ٹیلے کی ڈھلوانی آڑ لے کر ان کی طرف دیکھنے لگے ۔ انہوں نے دیکھا کہ غار کے اندر روشنی ہو رہی تھی اور اندر سے مزید تین نیزه بردار سانسی باہر نکلے ، وہ پانچوں نو وارد سانسی ان سے کچھ باتیں کرنے گئے پھر وہ    مطمئن ہو کر واپس پلٹ گئے ۔

ان کے جاتے ہی غار کے اندر سے برآمد ہونے والے وہ تینوں سانس بھی اندر چلے گئے ، جب وہ پانچوں سانسی بہت دور تاریکی میں غائب ہو گئے تو ناصر نے کلہاڑی ساجد کو تھماتے ہوئے جوش سے لرزتی آواز میں کیا ۔ ” ساجد اب اس بدروح سے چھٹکارا پانے کا وقت آ گیا ہے ، آؤ میرے ساتھ         !!

‘ ‘ ساجد نے کلہاڑی اپنے ایک ہاتھ میں تھام لی ۔

پھر دونوں دھیرے دھیرے قدموں سے چلتے ہوئے غار کے دہانے پر پہنچے اور زرا ہی دیر بعد وہ اندر داخل ہو گئے ۔

پر بہت تنگ ساغار تھا اور محروطی چھت والا کمرا تھا جس کے وسط میں ناصر کو شعلوں کی روشنی میں ایک چھ فٹ لمبا اور چار فٹ چوڑا سیاہ اور بھیانک صورت والابت ایستادہ نظر آیا ، اس کے گرد وہی تینوں سانسی بھی چوکس کھڑے تھے ۔ ناصر نے ہاتھ میں قرولی پکڑ لی تھی ، اچانک ایک سانسی کی نظر ان دونوں پر پڑی ، وہ زور سے چلایا ۔

ناصر نے ساجد کو ہوشیار ہونے کا کہا پھر جیسے ہی ایک تیز و بردار سانسی اس کی طرف بڑھا ناصر نے جھپٹ کر اس کے ہاتھ سے نیزہ چھین لیا اور پھرتی کے ساتھ اس کے پیٹ میں گھونپ دیا ۔ وہ کریہہ چین کے ساتھ گر پڑا ۔

ناصر نے دوبارہ نیزہ کھینچا باقی دونوں سانسیوں میں سے ایک ناصر کی طرف اور دوسرا ساجد کی طرف بڑھا ، ناصر نے اپنی طرف بڑھنے والے ساتھی کی طرف نیزہ اچھال دیا جو اس کے سینے میں ترازو ہو گیا ، وہ خرخراتی آواز کے ساتھ وہیں ڈھیر ہو گیا ۔

پھر ناصر نے ساجد کی طرف بڑھتے ہوئے تیسرے سانسی پر چھلانگ لگا دی اور اسے زمین بوس کردیا ، وہ دونوں گتھم گتھا ہوگئے ۔

پھر ایک موقع ملتے ہی ناصر نے چلا کر ساجد سے کہا ۔ ” ساجد اپنی ناک کی سیدھ میں بڑھو ، جلدی              جافرموس کا بت تمہارے سامنے ہے ، اسے پاش پاش کردوں۔!!!!!

یہ سننا تھا کہ ساجد دونوں ہاتھوں میں کھلاڑی پکڑے آگے بڑھا اور پھر بت کو چھوتے ہی اس نے اس پر پے در پے وار کرنا شروع کردیئے ۔

بت پاش پاش ہونے لگا ، ساجد کے وجود میں غصے اور جوش غیظ کی بجلیاں سی دوڑ رہی تھیں ، اس کی نظروں کے سامنے اپنی ماں اور باپ تیمور کے چہرے رقصاں تھے جو اسی مردود شیطان کی بھینٹ چڑھ چکے تھے اور جس کی وجہ سے خود ساجد بھی نابینا ہو گیا تھا ۔

ادھر تیسرا سانسی ناصر کو پچھاڑنے کی تگ و دو میں لگا ہوا تھامگر ناصر نے اسے موقع نہ دیا ۔ ساجد جوش غم و غصے میں جافرموس کا بت پاش پاش کر چکا تھا ، کام ختم ہوتے ہی ناصر نے اپنے مدمقابل سانسی کو زخمی کر کے پرے دھکیلا اور ساجد کو لئے ہوئے دوڑتا ہوا غار سے باہر آگیا    دونوں کا رخ اندھیری کوٹھی کی طرف تھاجہاں شگفتہ اور زینت ان کی منتظر تھیں            !!!

ختم شد – ☆ ======ہ   ======☆    

سیاہ محل

سیاہ محل

حامدہ رانی

دفع ہو جاؤ تم یہاں سے مجھے اکیلا رہنے دو یہ سارے مرد ایک ہی جیسے ہوتے ہیں دھوکے بعض نکمے نکارا۔۔۔”،کشش ہتھیلی کی پشت سے آنسوؤں کو چہرے سے رگڑتی ہے۔۔۔”

میں کبھی معاف نہیں کرونگی اسے مجھے پیار کا جھانسا دے کر خود غائب ہوگیا شادی والے دن مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔۔ “

زور سے گالا پھاڑ کے چلائی تھی۔۔۔”

اگر یہی سب کرنا تھا تو مجھے یو رسوا تو نہ کرتے دھوکے دیتے کچھ دن سوگ منا لیتی مگر شادی کے دن دولہا ہی نہیں ۔۔۔”

کچھ سال بعد۔۔۔۔۔(حالات نارمل ہوتے ہیں… )

وجے پور کا پرانا گاؤں جو کچھ خاص مشہور نہیں ہے بس وہاں کی ایک بات ہی خاص ہے جسکی وجہ سے وہ وہاں کا جانا مانا گاؤں بن گیا ہے اسکی خاص بات پتا ہے کیا ہے۔۔۔

کشش نے ہاتھوں کی کلائی کو گھماتے ہوئے کالی بڑی بھنوں والی آنکھوں کو تجسس سے سکیڑتے کہا۔۔۔”

” سیاہ محل۔۔۔”

سیاہ محل۔۔۔

ردا نے بات کو دوہرایا۔۔۔”،

کیوں اس محل میں ایسا کیا خاص ہے۔۔۔”

بھئ وہ تو اب اس کتاب میں نہیں لکھا

(لاپروائی سے شانے اچکاتے ہوئے کتاب کو ہوا میں اچھالتے کہتی ہے)

بس جو وہاں جاتا ہے اسی کا ہو کے رہ جاتا ہے۔۔۔”

{“خانہ خرابہ پتہ نشتہ چہ التہ کم سوغات دی سوک چہ التہ لاڑشی ہغہ ہم دہ ہغہ زی شی۔۔۔”}

خانہ خراباں پتا نہیں وہاں کونسی سوغات ہے جو لوگ ادھر ہیچ کے ہوکے راہ جاتے ہیں…

کشش بڑبڑائ تھی

اے کشش یہ تو کیا کہہ رہی ہے ہمیں نہیں سمجھ آئی

ردا دور کھڑی ہاتھ کے اشارے سے بول کر کہتی ہے۔۔

ہونٹوں میں انگلی دبائے … اوہ تم چھوڑو تم کو کیا لینا ۔۔۔

چلو جو کام کرنے آئے ہے ہم وہی کرتا ہے یہ کتابیں رکھو ۔۔۔

کشش کے ہاتھ سے ردا کتاب لے لیتی ہے دوبارہ کتاب چھپٹتے ہوئے لائبریری میں بنی بک رینک میں رکھتی ہے۔۔”

ردا سر پکڑے کشش کو بولتی ہے۔۔۔ “

اففف اپنا پڑھا نہیں جاتا یہ کہانیاں کون پڑھے۔۔۔”

دونوں باتیں سیاہ محل کے متعلق باتیں کرتے باہر نکل جاتی ہیں کشش مڑ کے پیچھے دیکھتی ہے کتاب اپنی جگہ پے نہیں ہوتی نیچے گری ہوتی ہے۔۔۔

کچھ دیر یونہی ساکت کھڑی گری ہوئی کتاب کو دیکھتی رہتی ہے۔۔”

ہاں بھئی تم کہاں کھو گی چلو اب۔۔۔، ردا کندھے سے ہلاتی ہے چلو ناں۔۔۔

بس سوچ رہی تھی اس جگہ پے جا کر دیکھوں آخر ایسا کیا راز ہے۔۔۔”

فی الحال کلاس میں چلو پیپر شروع ہونے والا ہے۔۔ ‘

ہاں چلو۔۔۔’

ہاں ماں بولوں حیران ہوگی نا اتنی صبح جو اٹھ گیا

(میر بائیک پے بیٹھے اپنی ماں سے فون پے بات کررہا ہوتا ہے۔۔۔)

ہاں بیٹا میں بھی یہی سوچ رہی ہوں سورج کہاں سے نکلا ہے بائیک کی سپیڈ کو تیز کرتے اچھا ماں میں فون رکھتا ہوں یونیورسٹی جا رہا ہوں اور اب جو میں کروں گا اس سےتو ہل جائے گی۔۔۔

میر یونیورسٹی کے سامنے جا کر بریک لگاتا ہے۔۔۔

صبح کے نو بجے”

اوئے تم اتنی جلدی آگے ابھی تو پیپر شروع ہونے میں کافی وقت ہے’ پاس سے گزرتے ایک لڑکے نے ٹوکا۔۔۔

گھر میں بلڈ پریشر بڑھ رہا تھا اس لیے آگیا تجھے کیا مسلہ ۔۔۔”

مارو گا ایک منہ پے چھاپڑ”

مارنے کے لئے آتا ہے اس سے پہلے وہ لڑکا بھاگ جاتا ہے۔۔۔

نوٹس بورڈ پے جا کر رولنمبر چیک کرتا ہے

ارے یاررر!

ہاتھ پے باندھی گھڑی کو دیکھتا ہے ابھی تو بہت ٹائم پڑا ہے۔۔۔”

چلو ایک چکر لائبریری کا لگا آتا ہوں ۔۔۔

بھاگتے ہوئے جا رہا ہوتا ہے راستے میں سر گزرتے کہتے ہے۔۔

کیوں جاگنگ ہورہی ہے ۔۔۔

نہیں سر وہ کیا ہے پیر ہے ناں تو وارم اپ ہورہا ہوں ۔۔

ہوں سر سے شغل بنتیاں ۔۔”

مارکس بتائے گے کیا ہو رہا ہے۔۔

سر سر بات تو سنے۔۔۔

میر سر کے گرد بازو حائل کرے کھڑا ہوتا ہے۔۔۔

ہاں بولوں ۔۔۔” سر بات یہ ہے کہ کھانا زیادہ کھا آیا تھا ہضم کر رہا تھا پھر بعد میں برابلم ہوتی ہے۔۔ سمجھے کرے ناں۔۔

ہونہہ

میر کا کندھے سے ہاتھ جھٹکتے بڑبڑاتے وہاں سے گزر جاتا ہے۔۔۔” اوہ شکر

بلا ٹلی۔۔۔

( سر کے جانے پے شکر ادا کرتا ہے)

کاریڈور سے وشمہ اور ردا نکل رہی ہوتی ہیں ۔۔۔

میر کے قریب سے گزرتے کشش بڑبڑاتی ہے۔۔

{“دا بیکار سڑے ہمیشہ زما لار دہ تور پیشو پہ شان ساتی یو روز بہ زہ دے نہ پریدم۔۔۔۔”}

یہ نکما ہمیشہ کالی بلی کی طرح میرا راستہ کاٹ دیتا ہے ایک دن میں نے اسی کا پتہ کاٹ دینا ہے…

(کشش ہمیشہ میر کو دیکھ صلواتیں سناتی تھی )

اوہ مس پٹھانی یہ مجھے دیکھ کر تمہیں کرنٹ کیوں لگ جاتا ہے۔۔۔

میر ایک پیر پے گھومتے ہوئے کشش کو انگلی سے اشارہ کرتے کہتا ہے۔۔”

پیروں تک آئ میرون فراک کھلے بال گلے میں ڈوپٹہ بڑی بڑی آنکھیں ۔۔ “

مورنی کی سی چال چلتے میر کے سامنے کھڑی ہوجاتی ہے۔۔

آنکھوں کو چھپکتے ہوئے معصومانہ انداز میں کہتی ہے۔۔۔

میری کیا مجال میں آپ جیسے مہان انسان کو کچھ کہو۔۔۔ “

ہائے لا ایسی نظر سے مت دیکھ

تمہارے ایسے دیکھنے سے مجھے کچھ کچھ ہونے لگا ہے۔۔

(میر اپنی شرٹ کا کالر ہونٹوں میں دبائے شرارتی انداز سے کہتا ہے)….

کشش بھی چہرے پے مسکراہٹ لئے لفظوں کو چبا کے کہتی ہے۔۔۔

{“چہ پہ دی کی ہارٹ اٹیک اوشی نو مزہ بہ اوکی۔۔۔۔”}

اس کچھ کچھ میں ہارٹ اٹیک ہوجائے تو مزہ ہی آ جائے۔۔۔۔۔”

اردو بولا کرو یہ کیا

شاہ منگ چوئی لگائے رکھتی ہو۔۔۔ میرے تو پلے نہیں پڑتی۔۔

اس سے اچھی تو چائنز ہے ۔۔۔

ناں انکو ہماری سمجھ آتی ہے ناں ہمیں انکی۔۔۔(ہاہاہا)

وہ میر بھائی میں تو بس ویسے ہی کہہ رہی تھی ردا کو کہ آج آپ بہت اچھے لگ رہے ہے۔۔

کیا کہا بھائی۔۔۔!

دیکھو تم سے پانچ چھ سال چھوٹا ہوں اب تم یہ بات مانو گی نہیں وہ الگ بات بن جائے گی۔۔۔

کشش ناک بھنوں چڑھائے

شکل دیکھی ہے اپنی پانچ چھ سال چھوٹے ہو۔۔۔

کشش میر کی بات کی نقل اتارتی ہے ۔۔۔

ارے چھوڑ کشش جانے دے ناں کیوں صبح صبح اس لنگور کے منہ لگ رہی ہو ردا بات کو بڑھانے سے روکتی ہے۔۔۔”

ہاں بے شک

میری بلا سے تو بھاڑ میں جائے۔۔۔۔”

اففف چلو بھئی

اس سے پہلے میر کچھ کہتا

ردا زبردستی کشش کا بازو کھینچ کر لے جاتی ہے۔۔۔”

توبہ توبہ کیا تھی اور کیا بن گی اففف میر کانوں کو ہاتھ لگائے بول رہا ہوتا ہے۔۔۔

لڑکیوں کو کوئی نہیں سمجھ سکتا ابھی اتنی بھولی بن رہی تھی اور منٹ میں جنگلی بلی بن گی توبہ میر دوبارہ کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے۔۔۔”

یا اللہ جو پڑھا ہے بس وہی آجائے اگزیمز میں

ارے کہاں وہی آتا ہے کیوں ہلکان ہو رہا ہے آسان سا پیپر ہے فزکس کا۔۔۔

موحد گردن کوجھٹکا دیتے گھورتا ہے آج میتھ کا پیپر ہے۔۔۔

ابرار لیز منہ میں ٹھونستے حیران ہوتا ہے۔۔۔

ہاں تو اب مجھے کیا گھور رہا ہے موٹے گینڈے یہ لے اور کھا یہ ٹھونس اپنے کنوئے میں

موحد لیز کا سارا پیکٹ ابرار کے منہ میں بھرتے بول رہا ہوتا ہے۔۔۔

ارے کوئی نہیں یار چل کر تو نو پیپر میں فیل ہو چکا ہے دس کا سین بنا لے پھر پارٹی کرے گے۔۔۔۔”

ابرار لیز کھاتے کھاتے موحد کے کندھے پے ہاتھ مارتے کہتا ہے۔۔۔۔”

موحد کندھے سے ابرار کا ہاتھ جھٹکتا ,اوہ چل یار تو چل مل کر میرا پاب مجھے گھر سے نکال دے گا۔۔۔

دیکھ گھنٹی بج گی۔۔۔

تیری بجی کیا؟ (ابرار ہنستے ہوئے موحد کو چڑاتا ہے)

ابرار کے کان کے نیچے لگاتا ہے۔۔ ارے بےوقوف اگزیمز ٹائم شروع پہلے بھی ایسے ہی ہوا تھا میں کتاب چاٹ رہا تھا اور تو یہ ٹھونس رہا تھا پھر بعد میں لیٹ ہوگے چل جلدی کر۔۔۔

سارا سال پڑھتے نہیں جب اگزیمز کا وقت آتا ہے تو دعائیں پے دعائیں ۔۔۔

کلاس روم میں آتے ٹیچر پیپر ڈائس پے رکھے اپنی روداد گھڑتی ہے۔۔۔

چلو سب اندر آتے جاؤ آئ چیک کرواؤ۔۔

گڈ مارننگ میم۔۔۔

میر ہاتھ ہلاتے چہرے پے مسکراہٹ سجائے کہتا ہے۔۔

ہاں ۔۔۔

اوہ

تم پہلے سے موجود ہو

ٹیچر ہودا چونک جاتی ہے۔۔۔

ٹیچر سوچتی ہے آج یہ اتنی جلدی۔۔ کلاس میں تو کبھی وقت پے نہیں آیا۔۔۔

ارے میم کیا سوچ رہی ہیں پیپر دیں ۔۔۔

ہوں دیتی ہوں صبر سے کام لو۔۔۔

جی جی ۔۔۔

تمام طلبہ بھی پیپر دیتے ہیں کشش بھی بیگ اٹھائے منہ میں بلبل چبائے ٹھاٹھ سے آتی ہے۔۔۔

چلتی تو ایسی ہے جیسے اسکے پاب کا کالج ہے۔۔۔

میر اسے دیکھ کے سوچتا ہے

سر جھٹکتے پییر سالو کرنے لگتا ہے۔۔۔”

ابھی پیپر دیکھے کچھ وقت ہی گزرتا ہے کہ میر شیٹ مانگنتا ہے۔۔’

اکسٹرا شیٹ میم۔۔۔

کچھ توقف کے بعد

اکسٹرا شیٹ۔۔۔

ہاں پوری کلاس میر کو گھور رہی ہوتی ہے۔۔۔

دھڑا دھڑ اسکا ہاتھ لکھنے میں چل رہا ہوتا ہے۔۔۔

کچھ آتا بھی ہے یا بس شیٹ کالی کرنی ہے۔۔۔

ٹیچر ہودا میر کو پیپر حل کرتے دیکھ کے پوچھتی ہے۔۔۔”

ہاتھ میں پہنے ریسٹ واچ کو دیکھتا ہے۔۔۔”

(اففف ٹائم کم ہے)

بعد میں جواب دو نگا وقت نہیں ۔۔

شیٹ کو اکٹھا کرکے سٹپلرل لگاتا ہے۔۔”اسکو کر دو ٹائٹ اوہ جی تو یہ ہوگیا ہمارا فیوچر برائٹ۔۔

میم بس ہوگیا اب۔۔۔

کیا اتنی جلدی۔۔۔؟

ہاں میم جب سب اتنا آسان تھا تو کر ہی لیا اب جاؤ ۔۔۔

گڈ اب بیٹھ جاؤ

ابھی ٹائم باقی ہے ارے میم مجھے ارجنٹ کام ہے کہی جانا ہے۔۔۔

ابھی بھی ٹائم باقی ہے تم جا کر بیٹھ جاؤ۔۔۔

میر معصوم چہرہ بنائے

وہ میم ماں کی دوائیاں لے کر آنی ہے یہی وقت ہے میرے پاس بھی اور انکے پاس بھی۔۔۔

ٹیچر ہودا شک کی نگاہ سے گھورتی ہے۔۔ “

پکی بات ہے۔۔

ج جی میم آپ یہاں کسی سے بھی پوچھ سکتی ہیں ۔۔۔”

میر اپنی بات کی جھوٹی تصدیق کے لئے ایسے ہی کہہ دیتا ہے۔۔۔”

(کشش جو کب سےاپنا پیپر چھوڑ کے میر اور ہودا میم کی بات سن رہی ہوتی ہے)

کشش اپنی چیئر پے بیٹھے ہاتھ اٹھا کے کہتی ہے۔۔۔

یس میم یہ سہی کہہ رہا ہے۔۔۔”

میر کی آنکھیں باہر کو آجاتی ہے منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے کہ کشش اسکا ساتھ دے رہی ہے۔۔ “

میر کو آنکھ مارتی ہے اور پھر سے تیزی سے ہاتھ چلاتے لکھنا شروع کر دیتی ہے۔۔۔ “

میر کھانستے ہوئے اپنا رخ دوسری طرف کر لیتا ہے۔۔

جاو میم اب میں ۔۔۔’

اچھا ٹھیک ہے جاؤ

اس سے اتنا ارجنٹ کونسا کام ہے پتا لگانا پڑے گا کشش جلدی سے پیپر جمع کروانے کے بعد میر کے پیچھے نکل جاتی ہے۔۔۔۔

میر اپنی بائیک پے جاتا ہے۔۔۔۔ راستے میں کچھ کیک اور پیسڑیز وغیرہ لیتا ہے ساتھ میں کچھ غبارے بھی بائیک کے ہینڈل ساتھ باندھ لیتا ہے۔۔۔

کشش اس کے پیچھے ہوتی ہے میر کچے راستے پے بائیک کو لے جاتا ہے۔۔۔”

یہ کیا کشش اپنی کار کی سپیڈ آہستہ کر لیتی ہے۔۔۔” یہ یہاں اس ویران جگہ پے لے کر آیا ہے یہ سب،آخر کیوں ۔۔۔؟

میر کی بائیک کشش کو نظر نہیں آتی۔۔۔

چیک کرنے کے لئے کار سے باہر آتی ہے۔۔۔آس پاس کچھ نظر نہیں آتا۔۔۔

اوہ شٹ لگتا ہے اسے معلوم ہوگیا تھا میں اسکا پیچھا کر رہی ہوں ۔۔ “

بہت زور سے اپنا ہاتھ گاڑی کے بونٹ پے مارتی ہے۔۔۔”

اچانک میر پیچھے سے نازل ہوجاتا ہے اسکی آنکھیں شدید لال ہوتی ہیں ۔۔۔

کشش اچانک میر کے آجانے پے ڈر جاتی ہے۔۔۔”

چینخ کو روکنے کے لئے منہ پے ہاتھ رکھ لیتی ہے۔۔۔

اسکی سانسیں زور سے چل رہی تھی

کشش میر کی آنکھوں میں دیکھتی ہے تو اسکی ریڑھ کی ہڈی میں خوف کی لہر دوڑتی پورے جسم کو ہلا دیتی ہے۔۔۔

وہ بھی نہیں جانتی تھی کہ اسے کیا ہو گیا ہے۔۔ “

میر آہستہ آہستہ کشش کے قریب بڑھاتا ہے۔۔۔” کشش پیچھے کو جاتی ہے۔۔۔”

جیسے میر ایک قدم آگے بڑھتا ہے کشش دو قدم پیچھے رکھتی ہے۔۔۔

بہت ڈری سہمی ہوئی پیچھے دیکھتی ہے جہاں کانٹے دار جھاڑیاں ہوتی ہیں

آہ اب کیا کروں گی میں ۔۔۔

ایک نظر میر کو دیکھتی ہے جو میر نہیں کچھ اور ہی لگ رہا ہوتا ہے۔۔۔

شیطانی مسکراہٹ سے میر کشش کو دیکھتے ہنوز آگے بڑھ رہا ہوتا ہے۔۔۔۔

کشش آنکھیں بند کرتی ہوئی پیچھے کو ہوتی ہے ۔۔۔

جیسے جان بوجھ کر گرنے لگی ہو۔۔۔”

کشش جھاڑیوں میں گرنے ہی لگتی ہے کہ ۔۔۔۔میر لمبے قدم اٹھاتے ہوئے کشش کو کمر سے تھام لیتا ہے۔۔۔

“زما شہرذای۔۔ “

{…میری شہزادی۔۔۔ }

آہستگی سے کشش کو پکڑتے کہتا ہے۔۔ “

کشش کو تھامتے ہی میر جھٹکے سے اسے اپنے سینے سے لگاتا ہے۔۔

اپنے بدن پے میر کا لمس

محسوس کرتے کشش آنکھیں کھولتی ہے۔۔۔”

میر کی آنکھیں ہنوز لال ہوتی ہیں ۔۔ “

خوف کے مارے کشش پھر سے آنکھیں موند لیتی ہے۔۔۔”

جب دوبارہ آنکھیں کھولتی ہےتو خود کو کار کے قریب پاتی ہے میر وہاں پے کہی موجود نہیں ہوتا ۔۔۔

کشش گھبرا جاتی ہے۔۔۔

اسکی سانسیں بھولی ہوئی ہوتی ہے۔۔۔ ماتھا پسینے سے شرابور ہوتا ہے

حواس قابو سے باہر تھے کچھ دیر میں جب سنبھلتے ہے تو بجلی کی تیزی سے کار میں بیٹھتی ہے” اچانک رونما ہونی کاروائی سے گھبرائی کشش تیزی سے کار ڈرائیور کرتی سڑک پے فراٹے سے جا رہی ہوتی ہے۔۔۔”

ارے کہا رہ گیا یہ نکما

موحد گھڑی کو آٹھویں بار چیک کرتے بے قراری سے کہتا ہے۔۔۔

ابرار پوپ کارن پے ہاتھ صاف کرتے ۔۔۔ بس کر کیا بار بار ایک ہی بات کہا رہ گیا۔۔۔کان پک گے ہے میرے۔۔ آجائے گا۔۔۔

موٹے گینڈے تیرا کھانا کبھی ختم نہیں ہوگا۔۔۔”

موحد ابرار کے بیٹ پے تھپڑ مارتا ہے۔۔

اوہ تمیز سے اسے کچھ نہ کہا کرو بہت کچھ ہوتا ہے اس میں ۔۔۔

ہاں گینڈے تیرے اس ڈرم میں وہی سارا دن کا کھانا بھرا ہوتا ہے ۔۔۔”

لو! وہ دیکھو آگیا ناں۔۔۔

ابرار موحد کی بات کو نظر انداز کرتے سامنے آتے میر کی طرف دیکھتے کہتا ہے۔۔۔ “

کہا رہ گیا تھا ۔۔۔؟

کب سے تیرا ویٹ کر رہے ہیں ۔۔۔

موحد میر کے آتے ہی اس پے چڑھائی شروع کر دیتا ہے ۔۔۔

(ہاہاہا) ارے وہ مس پٹھانی ہے ناں میرا پیچھا کر رہی تھی ایسا چکما دے کر آیا ہوں راستہ بھول گی ہوگی۔۔

بس اسی چکر میں تھوڑی دیر ہوگی۔۔۔۔”

وہ تیرا پیچھا کیوں کر رہی تھی۔۔ ہاں دال میں کچھ کالا تو نہیں ۔۔۔

ابرار میر کے کندھے پے ہاتھ رکھ کے اپنی تھوڑی نیچے ہاتھ رکھتے شرارتانا کہتا ہے۔۔۔”

ارے ہٹ یار۔۔

وہ پٹھانی میرے ٹائپ کی نہیں ہے میں تو اسے منہ بھی نہیں لگاتا ۔۔۔

تم دونوں کیا بکواس باتیں لے کر بیٹھ گے ہو۔۔۔

ہمیں پہلے دیر ہورہی ہے۔۔

ہاں یار میر چلو اب موحد ٹھیک کہہ رہا ہے۔۔ ” شکر ہے اس ابرار کو میری کوئی بات تو سمجھ آتی ہے۔ “

دونوں دوست میر کے سقتھ بائیک پے بیٹھے آنات آشرم جاتے ہیں ۔۔۔

میر ہر ہفتے آنات آشرم جاتا تھا وہاں کے بچوں کا برتھڈے سیلیپریٹ کرنے۔۔۔۔

معمول کی طرح آج بھی تینوں دوست وہی جا رہے تھے۔۔۔”

کشش گھر پہنچتی ہے سیدھا اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے۔۔۔”

جاتے ہی کمرہ اندر سے لاک کر لیتی ہے۔۔۔”

نوکرانی آوازیں دیتی آتی ہے۔۔

میم صاحب ۔۔۔ میم صاحب کیا ہوا آپکو۔۔۔

آپ ٹھیک تو ہیں ۔۔۔

ادھیڑ عمر کی رقیہ بیگم جس نے بچپن سے کشش کی دیکھ بھال کی ماؤں کی طرح چاہنے والی ہر وقت کشش کا خیال رکھتی تھی ۔۔۔ گھر سے بہت دور فارم ہاؤس میں بھی کشش کے ساتھ رہنے کے لئے اسکے ساتھ موجود ہوتی ہے۔۔۔”

میم صاحب بتاؤ کیا ہوا۔۔ دروازہ کھٹکھاٹے پوچھتی ہے ۔۔۔

کشش بامشکل خود کو قابو کرتے جواب دیتی ہے۔۔ ۔رقیہ آنا آپ جائے میں ٹھیک ہوں ۔۔۔

کشش کی آواز کانپ رہی تھی وہ اس لمحے کے بارے میں سوچتی تو جسم میں جھرجھری سی دوڑ جاتی۔۔۔

کچھ دیر یونہی ساکت بیٹھی رہتی ہے۔۔

رقیہ بھی کشش کا جواب سن کر چپ چاپ چلی جاتی ہے ۔۔۔

کچھ دیر بعد طبعیت سنبھلتی ہے تو خود کو مصروف رکھنے کے لئے کتاب اٹھا کے پڑھنا شروع کر دیتی ہے۔۔۔”

اگر ایک کپ چائے مل جائے اففف یہ سر درد بھی ختم ہوجائے ۔۔

سر پکڑتے ہوئے کچن میں جاتی ہے۔۔۔

{خانہ خرابہ سہ ضرورت او چہ تہ ہغہ پسی تلی۔۔۔۔۔}

” خانہ خرابہ کیا ضرورت تھی اس چھچھورے میر کے پیچھے جانے کی واہ کشش تو بھی کمال ہےکرتی ہے۔۔۔”

چائے بناتے خود کو ہی کوس رہی ہوتی ہے۔۔۔۔”

چائے کی چسکی لیتے

کھڑکی کے پاس بیٹھے کتاب پڑھنے میں مگن ہوتی ہے۔۔۔

کھڑکی سے اندر آتی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کشش کے چہرے کو چھو رہی ہوتی ہے بالوں کے لٹیں ہوا سے اٹکلیاں کرتے چہرے سے مس ہوتی ہیں جیسے وہ بار بار کانوں کے پیچھے کرتی ہے۔۔ کشش کو بھی ہوا بہت اچھی لگ رہی ہوتی ہے۔۔۔

میز کے پاس رکھا گلدان نیچے گر جاتا ہے۔۔

کشش پہلے تو دیکھتی رہتی ہے کہ کیسے گرا۔۔ ہوا کے جھونکے سے کتاب کے صحفے پلٹتے ہیں۔۔۔

اوہ اچھا ہوا سے گرا ہو گا۔۔

گلدان کو دوبارہ میز پے رکھ دیتی ہے۔۔۔

جب دوبارہ کتاب پڑھنے کے لئے کھڑکی کے پاس جاتی ہے وہاں کالی بلی بیٹھے اپنا پنچہ چاٹ رہی ہوتی ہے اسکی آنکھیں لال ہوتی ہے لیکن بنا کوئی شور کئے کتاب کے پاس بیٹھے مزے سے پنچہ چاٹتی ہے جیسے کچھ کھا کر آئ ہو اور اب صاف کر رہی ہو۔۔۔

کشش تجسس سے بلی کی حرکات کو دیکھتی ہے پھر سوچتی ہے یہ یہاں آئی کیسے ۔۔۔

کیونکہ کشش کا کمرہ اوپر والے پورشن پے تھا وہاں تو چڑیا وغیرہ بھی نظر نہیں آتی تھی کیونکہ وہاں آس پاس کوئی درخت نہیں تھا آج یہ بلی۔۔۔ وہ بھی اچانک۔۔۔

کشش بلی کی طرف آہستہ آہستہ کانپتے ہوئے ہاتھ لے جاتی ہے۔۔۔”

میاؤں۔۔۔۔

بلی چنگھاڑتے ہوئے باہر چھلانگ لگا لیتی ہے۔۔۔

کشش فورا کھڑکھی سے باہر جھانک کے دیکھتی ہے ۔۔۔ تب تک وہ جا چکی ہوتی ہے۔۔۔

کتاب کی طرف نظر پڑتی ہے تو وہاں کتاب کوئی اور موجود ہوتی ہے۔۔ “

اپنی آنکھوں کو شدت سے مسلتی ہے اسکے کان سائیں سائیں کر رہے ہوتے ہیں ۔۔۔

یہ کیا ۔۔ ؟

یہ کتاب یہاں کیسے آئی ۔۔۔

کتاب کو اٹھاتے پڑھتی ہے۔۔۔

وہاں پے عیجب سا کچھ لکھا ہوتا ہے جیسے پڑھنا بھی کشش کو مشکل لگ رہا ہوتا ہے۔۔۔

เจ้าหญิงฉันรอคุณอยู่۔۔۔۔۔”

{ princess Im waiting for you…..}

ارے یار یہ کیا لکھا ہے۔۔۔؟

کتاب کو کبھی الٹا تو کبھی سیدھا کرتی لیکن بے سودھ کچھ سمجھ نہیں آرہی ہوتی۔۔۔

بہم بڑی بات ہے بلی اپنا آٹو گراف دے کر گی ہے۔۔۔”

کچھ سوچتے ہوئے ردا کو کال کرتی ہے۔۔۔

رنگ جانے ہے ردا کال ریسیور کر لیتی ہے۔۔۔”

یار تمہیں تمام ساؤتھ لینگوئجز آتی ہے۔۔۔

کیا بات کر رہی ہو مجھے تو اردو بھی بہت مشکل سے آتی ہے۔۔۔

یاررر۔۔۔۔

موبائل کھول گوگل انکل سے پوچھ لے ناں میرا کیوں دماغ کھا رہی ہو۔۔۔

حال احوال پوچھا نہیں لینگوئج کی پڑھ گی کل مجھے چھوڑ کے کہاں بھاگی تھی ۔۔۔؟

افف کل کی وجہ سے یہ سارا کام بگڑا ہے

اور تمہیں کیا لگتا میں تمہیں کال کر کے عجیب سی لینگوئج کا کیوں پوچھوں گی۔۔۔ کل کا معاملا یونی آکر بتاؤ گی۔۔۔

یہاں نیٹ کی سروس کا مسلہ ہے۔۔۔ ورنہ میں گوگل کر چکی ہوتی۔۔۔

ہممم اچھا ایک کام کرو ۔۔ صبح لائبریری جا کر معلوم کر لینا ۔۔۔”

ہاں یہی ٹھیک رہے گا۔۔۔”

ردا بھی یہی کہتی ہے۔۔

موبائل رکھ کے

کشش کتاب کو اٹھا کے بیگ میں ڈال لیتی ہے۔۔۔”

باہر اندھیرا چھا رہا تھا سورج مغرب کے کسی گوشے میں روپوش ہورہا تھا۔۔۔ آسمان پے سرخی نمودار تھی۔۔۔

مطلب رات ہونے کو تھی چاند کی چاندنی آسمان پے بکھرنے لگی تھی۔۔۔

معمول کے مطابق کشش تمام کام نمٹائے اپنے کمرے میں سونے کی غرض سے جاتی ہے۔۔۔”

سارے دن کے معملے کو دوہراتے بیڈ سے اٹھتی ہے بیگ سے وہی کتاب نکالے پھر سے پڑھنے کی کوشش کرتی ہے۔۔۔

یہ آخر لکھا کیا ہے۔۔۔

کافی دیر تک اپنا دماغ کھاپاتی رہتی ہے۔۔۔

اونگوھتے ہوئے۔۔ آبس بہت ہوگیا پتا نہیں کیا چبل لکھا ہے۔۔۔

بیڈ کے سائڈ پے بنی میز پر کتاب رکھے لحاف اوڑھے لمبی تان کے سو جاتی ہے۔۔۔”

کشش کو سکون نہیں ملتا دائیں بائیں کروٹتے بدلتی رہتی ہے۔۔۔”

اسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اسکے علاوہ کوئی اور بھی کمرے میں موجود ہے۔۔۔

کشش کے کان کی لو کسی کی سانسوں کی تپش سے گرما جاتی ہے۔۔۔

پھر سے آواز آتی ہے

زما شہزادی ۔۔۔۔۔”

آواز سے زیادہ سانسوں کی سائیں سائیں تیز ہوتی ہے وہ سمجھ ہی نہیں پاتی کوئی کیا بول رہا ہے۔۔۔۔

{آآآں زممممما…}

“صرف میری۔۔۔۔”

کشش کو اپنے گالوں پے کچھ چلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔۔۔

جیسے کوئی اسے چھو رہا ہو۔۔۔

کشش کے لمبے سلکی بالوں میں ہاتھ پیھرتا ہے اور سونگھتا ہے۔۔۔

جن زاد کی اس حرکت سے واضح تھا کہ وہ کشش کے خوبصورت لمبے سلکی بالوں کا دیوانہ ہوگیا ہے۔۔۔”

{ہوں عطر شہزادی۔۔۔”}

خوف سے ٹانگیں کانپنے لگتی ہے۔۔۔”

سانسوں کی گرماہٹ تیز ہوتی جاتی ہے۔۔۔'”

وہ زور سے چلانا چاہتی تھی بھاگنا چاہتی تھی لیکن اسکی آواز گلے میں ہی بندھ جاتی ہے۔۔۔۔”

اپنا ہاتھ تک نہیں ہلا پاتی۔۔۔۔

کوئی غیر مرئی مخلوق اس پے قابض تھی۔۔۔۔

زبان جیسے تالو سے چپک گی ہو۔۔۔” کچھ بھی بولنا محال تھا۔۔۔

بہت زور لگا کے کہتی ہے۔۔۔

ککککک۔۔۔۔۔۔۔ کو ۔۔۔۔۔۔کون۔۔۔؟

کافی دیر تک کشش اسی حالت میں ساکت لیٹی رہتی ہے۔۔۔

لیکن کوئی جواب نہیں دیتا۔۔۔۔

یہ اسکے ساتھ پہلی بار ہوا تھا انجان سا خوف کشش کے دماغ پے چھا گیا تھا۔۔۔۔”

وہ رات کشش نے کانٹوں پے لوٹتے گزاری تھی ۔۔۔

اور وہ نہیں جانتی تھی آئندہ بہت سی راتیں ایسے ہی گزارنی پڑے گی۔۔۔۔”

رات گزری سورج چمکارے مارتا ہوا ابھرا سب کی صبح معمول کے مطابق ہوئی۔۔۔ ہنستی کھکھلاتی ہوئی لیکن کشش کی صبح میں پہلے جیسی رمق نہیں تھی۔۔۔

آنکھیں بجھی بجھی سی چہرہ اداس سا۔۔۔

ایسے لگتا تھا جیسے کتنی ہی راتوں کی جاگی ہوئی ہو۔۔

کشش بجھے سے چہرے کے ساتھ کندھے پے بیگ ڈالے گھر سے باہر نکلتی ہے۔۔۔” میم صاحب ناشتہ تو کر لے ۔۔۔ رقیہ مین گیٹ کو پکڑے اونچی آواز سے کہتی ہے۔۔

رقیہ آنا میں یونیورسٹی سے کچھ کھا لوں گی مجھے جلدی جانا ہے کچھ کام ہے۔۔۔

کشش وہی رکے بنا مڑے جواب دیتی ہے۔۔۔

ارے بچہ کچھ تو کھا لو۔۔۔

کشش لان عبور کرتے پارکنگ میں چلی جاتی ہے۔۔۔

رقیہ بس پکارتی رہ جاتی ہے۔۔۔”

اگر رقیہ کشش کا اترا چہرہ دیکھ لیتی تو سو سوال جواب کرتی کشش نہیں چاہتی تھی کہ انہیں کچھ معلوم ہو۔۔۔”

یونی پہنچتے کشش کی نگاہیں میر کو تلاشتی ہے کوریڈور میں کھڑا میر کسی سے باتیں کر رہا ہوتا ہے کشش کی طرف سے اسکی بیٹھ ہوتی ہے لیکن وہ پہچان لیتی ہے یہ میر ہی ہے۔۔۔”

میر کی حرکت کو سوچتے ہوئے

غصے سے اسکے کندھے پے ہاتھ رکھتی ہے۔۔ میر اپنے کندھے کی جانب دیکھتا یے پھر پیچھے کشش کی طرف مڑتا ہے۔۔۔

کچھ نہیں کہتا بس

سوالیہ نگاہوں سے دیکھتا ہے۔۔۔

انگلی کے اشارے سے لفظوں کو چباتے کہتی ہے۔۔۔

تمہاری وجہ سے ہوا یہ سب۔۔

اوہ میری وجہ سے کیا ہوا۔۔۔؟ ذرا بتانے کا کشت اٹھائے گی۔۔۔

میر ہاتھوں کو بغل میں دبائے اطمینان سے پوچھتا ہے۔۔۔

میر کی طمناعیت پے کشش دنگ رہ جاتی ہے۔۔

یعنی، تمہیں نہیں معلوم۔۔۔

میر نفی میں گردن ہلاتا ہے۔۔۔

اوکے ٹھیک ہے۔۔۔

ہاں ناں تمہیں کیوں بتاؤ گا۔۔

اور ویسے بھی سچ میں بتاو گا اور جھوٹ میں بولنا نہیں چاہتا۔۔۔”

اگر میں کہو کہ دونوں میں سے کوئی ایک بتا دو تو کیا بتانا پسند کرو گے۔۔۔

میر سوچتے ہوئے جواب دیتا ہے۔۔۔ ” جھوٹ۔۔۔”

ہاں کیو کس، خوشی میں سچ بتاتے ہوئے کیا ہوتا ہے۔۔

دیکھو اگر میں نے سچ بتا دیا تو میرا کچھ نہیں جائے گا تمہارا نقصان ہوگا,اور اگر جھوٹ بتا دیا تو دونوں ہی بچ جائے گے۔۔۔”

کشش کچھ بولنے لگتی ہے میر ٹوک دیتا ہے۔۔۔اور ایک بات میں تمہیں کچھ نہیں بتانے والا۔۔۔

کشش بنا کوئی جواب دیئے میر کو چھوڑے آگے بڑھ جاتی ہے۔۔

ویسے میری جاسوسی کس خوشی میں ہورہی تھی وجہ جان سکتا ہوں ۔۔۔”

کشش کے چلتے قدم وہی رک جاتے ہیں جب میر پیچھے سے آواز لگائے اس سے پوچھتا ہے۔۔۔”

سیاہ سلکی بالوں کو سائیڈ پے کئے مڑتی ہے۔۔۔

ایک قدم آگے بڑھتے کہتی ہے بس یہی جاننا تھا اتنی ایمرجنسی کیوں تھی پیپر کو چھوڑ کے۔۔۔

بس کسی اپنے کے لئے گیا تھا

میر کندھے اچکائے جواب دیتا ہے۔۔۔ یہی جاننا کافی ہے تمہارے لئے ۔۔۔۔۔کشش زچ ہوتی ہے میر کبھی کچھ تو کبھی کچھ کہتا ہے۔۔۔۔

اے کشش تم آگی میں کب سے تمہارا انتظار کر رہی ہوں ۔۔۔

ردا کشش کو میر کے ساتھ باتیں کرتے دیکھ کر آواز لگاتی ہے۔۔۔

ہمم بس طرف ہی آرہی تھی۔۔۔

{۔۔۔۔۔۔۔ملاؤ شو راتا…}

۔۔۔۔”چھچھونددر مل گیا تھا ایک”

منہ بسورتے میر کو دیکھے کہتی ہے۔۔۔

چلو ناں ۔۔

میر کشش کو ایسے بولتا دیکھ کر تلملا اٹھتا ہے ۔۔۔ کیونکہ اسے کچھ سمجھ ہی نہیں آتی کہا کیا ہے۔۔۔

ردا کشش ہاتھ تھامے لابئرری لے جاتی ہے۔۔۔

کشش رات کی گزری ساری روداد ردا کو سناتی ہے۔۔۔

ردا کا منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے۔۔۔

ویسے یار مجھے لگتا تمہارا وہم ہوگا ۔۔۔

ایسے تو نہیں ہوتا اور اتنے بڑے فام ہاؤس میں تم اکیلی ۔۔۔

اکیلی کہاں ہوتی ہوں ماما نے رقیہ آنا کو ساتھ بھیجا ہوا ہے اور پھر ملازم گارڈ بھی تو موجود ہوتے ہیں ۔۔۔

اففف کشش یہ سب چھوڑ یہ بتا کہ اگزیئمز ختم ہیں آج کہیں چلے۔۔

ردا کشش کی باتوں کو پٹارے میں بند کرے اپنا گھومنے کا پٹارہ کھولتی ہے۔۔

ہاں جاؤ گی میں ۔۔۔

واؤ کہاں جائے گے۔۔”

کشش ہاتھ میں پکڑی کتاب کو دیکھتی ہے۔۔۔

بغور دیکھتی رہتی ہے۔۔۔

کشش۔۔۔

ردا کشش کو بازو سے پکڑ کے پکارتی ہے۔۔۔

بتاو تو سہی۔۔۔

بس جگہ مجھے معلوم ہے تم جانے کی تیاری کرو۔۔۔

یہ کیا بات ہوئی کچھ تو بتاو کونسا علاقہ ہے گرم ہے سرد ہے تاکہ اسکے مطابق بیکنگ کروں ۔۔۔

یہ تو مجھے بھی نہیں پتا بس جو دل میں آئے وہی کرو۔۔

اچھا ٹھیک ہے۔۔۔

ردا منہ بھلا لیتی ہے۔۔

اب ایسے نہ بیٹھو دیکھنا ایک نیا ایڈونچر ہوگا مزہ آئے گا۔۔۔

اچھا پھر کب ہے جانے کاپلین ہے۔۔۔

بس کل صبح پکا جانا ہے۔۔

کشش نے وجے پور جانے کا ارادہ باندھ لیا تھا۔۔

تو نے اپنی ماما کو بتا دیا۔۔۔

یار انہی کب میری پرواہ ہے ویسے بھی میں نے کہا ہوا تھا کہ سٹڈی سے فری ہونے کے بعد دوستوں کے ساتھ آونٹنگ پے جاؤ گی۔۔۔

ردا کل جانے کا سن کر اکسائٹڈ ہو جاتی ہے جبکہ کشش دل ہی دل میں سوچتی یے کہ وہ ابھی وہاں پہنچ جائے اور اس راز کا پتا لگائے۔۔۔

تینوں دوست پیپر دینے کے بعد کیفے ٹیریا میں موجود ہوتے ہیں ۔۔

اوئے سن گینڈے تو اپنے وہی دادا والے بنگلے میں کب لے کر جارہا ہے۔۔۔ جس کے روز قصے سنا کر دماغ کی دہی کرتا ہے۔۔۔

نولکھا حویلی میں ۔۔۔؟

ابرار چپس کھانے میں مصروف ہوتا ہے۔۔ میں تجھ سے کچھ پوچھ رہا ہوں ۔۔ موحد دوبارہ کہتا ہے۔۔

ابرار کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملتا اسے بس کھانے کی پڑی رہتی ہے۔۔۔

دیکھ یار کھانے دے تنگ نہ کر دادا جی کہتے تھے کھاتے ہوئے کسی سے بات نہیں کرتے۔۔۔

دیکھ رہا ہے تو اسکے کام۔۔۔

موحد میر سے کہتا ہے۔۔۔ بس یار پیپر ختم اب یہی ہوگا گھومنا پھرنا ابرار جان چھڑاتے کہتا ہے۔۔۔

سوچتے ہے کچھ۔۔۔

میر دونوں بازوؤں کو ہوا میں بلند کرتے انگڑائی لیتا ہے۔۔۔

آوے میر تو اس پٹھانی سے کیا کہہ رہا تھا ۔۔۔ موحد کشش اور میر میں ہونے والی جھڑپ کی بات کرتا ہے۔۔۔

کچھ نہیں یار بس دماغ خراب ہے اسکا۔۔ ویسے یہ پٹھانی زبان میں لیکچر وغیرہ کہا ملتے ہیں پتا کر جب جی میں آیا اپنی زبان اگل دیتی ہے۔۔۔ میں بھی سیکھو گا۔۔۔

ہاہاہا میری مان تو اس پے فدا ہو گیا ہے۔۔۔

موحد میر کی بے قراری کو بھانپتے کہتا ہے۔۔۔

میر کچھ کہنے ہی لگتا ہے کہ ابرار کہتا ہے۔۔۔

چلو میں نے کھا لیا اب بتاؤ بات کیا ہے۔۔ ابرار ہاتھ چھاڑتے ہوئے شرٹ کو سہی کرتے اکھڑا ہوتا ہے۔۔۔”

موحد غصے سے ابرار کو ایک چھاپڑ لگاتا ہے۔۔ تیری یہ کھانے کی عادت کسی دن تجھ پے ہی بھاری پڑی گی۔۔۔

میر بھی ہنستے ہوئے کرسی سے اٹھتا ہے۔۔۔”

شام کے اور ہاتھ میں وہی کتاب تھامے گہری سوچ میں ڈوبے لان کے چکر لگا رہی ہوتی ہے۔۔۔ کچھ دیر بعد لان میں رکھے میز پے پڑا موبائل وائبریٹ ہوتا ہے۔۔۔

چونکتے ہوئے موبائل کو دیکھتی ہے پھر قدم بڑھاتے ہوئے موبائل اٹھاتی ہے۔۔۔

اوہ آج ماما کو میری یاد کیسے آئ۔۔۔

چہرے پے طنزیہ مسکراہٹ لئے موبائل کان سے لگا لیتی ہے۔۔۔

سلام دعا کے بعد خیریت دریافت کرتی ہے۔۔۔”

ماما آپ کو بتایا تھا کل میں اپنی دوستوں کے ساتھ گھومنے جارہی ہوں ۔۔۔

لیکن کشش بیٹا پہلے ایک چکر گھر لگا لیتی ۔۔۔۔ نہیں ماما بس کچھ ہی دنوں کی بات ہے پھر گھر ہی آؤ گی۔۔۔

رقیہ مسکراہٹ چہرے پے سجائے جوس کا گلاس لے کر آتی ہے۔۔۔

اچھا ماما آپ سے بعد میں بات ہوگی۔۔۔ کشش رقیہ کو آتے دیکھ کر موبائل بند کر دیتی ہے۔۔۔

اوہ شکریہ رقیہ آنا میرا بہت دل کررہا تھا فریش اورنج جوس کا۔۔۔ آپ میرا کتنا خیال رکھتی ہیں اور ایک ماما ہے۔۔۔

کشش افسردگی سے کہتی ہے۔۔۔

بیٹا وہ تمہاری ماں ہے اور پھر باہر کے کام آفس اور میٹنگز وغیرہ یہ سب بھی تو وہی دیکھتی ہے ہاں۔۔۔

ایسا نہیں کہتے۔۔۔

رقیہ کشش کو سمجھاتی ہے۔۔۔

مجھے جب بھی بخار ہوا مجھے جب بھی انکی کمی محسوس ہوئی وہ وہاں موجود نہیں تھی۔۔۔ نوکروں کے رحم وکرم پے چھوڑ جاتی تھی۔۔۔

کشش روہانسی انداز میں کہہ رہی تھی۔۔۔”

رقیہ کشش کو گلے لگا لیتی ہے۔۔ میرا بچہ بس تم نے انکی مجبوری کو نہیں سمجھتی وہ بہت پیار کرتی ہے تم سے۔۔۔

رقیہ کشش کے دل میں ماں کے لئے پھوٹنے والی بدگمانی کو مٹانا چاہتی تھی۔۔۔

چلو شاباش جلدی سے یہ جوس ختم کرو میں تمہاری پسند کا کھانا بناؤ گی ۔۔۔۔۔”

کشش ایک سانس میں سارا جوس پی جاتی ہے۔۔۔”

اب ٹھیک رقیہ آنا۔۔۔

میری بچی۔۔ رقیہ سر پے ہاتھ پھیرتی ہے۔۔۔’

کچھ توقف کے بعد۔۔۔

رقیہ خالی گلاس اٹھائے چلی جاتی ہے۔۔۔

پہلے کی طرح کشش لان میں کتاب کو پڑھتے ادھر سے ادھر چکر لگا رہی ہوتی ہے۔۔۔۔”

اچانک ایک بہت ہی خوبصورت پھول کشش کے پیروں میں آ کر گرتا ہے۔۔۔

پہلے تو دیکھتی ہے پھر جھک کے اٹھا لیتی ہے۔۔۔

اتنا خوبصورت پھول ہر بتی قوس وقزع کی طرح سات رنگ کی ہوتی ہے۔۔۔

کشش اس پھول کی خوبصورتی میں کھو جاتی ہے۔۔

اتنا پیارا پھول اور انوکھا کبھی نہیں دیکھا تھا۔۔۔”

پھول کے سحر سے نکلتے نگاہ کمرے کی کھڑکی پے ڈالتی ہے جہاں وہی کالی بلی بیٹھی اپنا پنچہ چاٹ رہی ہوتی ہے۔۔۔

لان میں کھڑے ہوکر بہت غور سے اس بلی کو دیکھ رہی ہوتی ہے۔۔۔ آج پھر یہ یہاں ۔۔ ؟

رات کے کھانے کے بعد اپنے کمرے میں جاتی ہے۔۔۔

پھول کو میز پے رکھ دیتی ہے۔۔۔

اففف آج بہت تھکاوٹ ہوگی ہے۔۔۔

ایسے ہی کھڑکی کو دیکھتی ہے وہاں اب بلی موجود نہیں ہوتی لیکن یہ محسوس ہوتا ہے کمرے میں اسکے علاوہ کو دوسرا بھی موجود ہے۔۔۔

کمبل کو دونوں ہاتھوں سے تھامے اپنے چہرے کے آگے کرتی ہے۔۔۔

ڈری ڈری سی بڑی بڑی آنکھوں سے کمرے کے اطراف کا جائزہ لیتی ہے۔۔۔ کوئی عجیب حرکت رونما نہیں ہوتی لیکن کسی کے ہونے کا احساس اعصاب پے حاوی ہوتا ہے۔۔۔”

سیاہ رات میں چاند کی چاندنی کھڑکی سے جھلک کر کمرے میں آ رہی ہوتی ہے۔۔۔ میز پے رکھا پھول چمکنے لگتا ہے۔۔۔ کشش کے لیے وہ منظر خوبصورت کے ساتھ حیرت انگیز بھی ہوتا ہے۔۔۔”

کشش کو اپنے بالوں پے کسی کی انگلیوں کی حرارت محسوس ہوتی ہے۔۔۔”

کشش کی سانس اٹک جاتی ہے گال دہک رہے ہوتے ہیں مزاحمت کرتے ہوئے سائڈ پے ہوتی ہے۔۔۔

وہ اپنے بالوں کو چھڑانا چاہتی تھی۔۔۔

ہمت کرتے ہوئے بیڈ سے اٹھنے کی کوشش کرتی ہے۔۔۔

جن زاد زور سے اسکے بالوں کو کھینچتا ہے۔۔۔

کشش درد سے کراہتی ہے۔۔۔”

سانسوں کی سائیں سائیں کی آوازیں آتی ہے جیسے ایک ہی بار میں پتا نہیں کتنے لوگ سانس لے رہے ہو۔۔۔

مجھے غصہ نہ دلاؤ شہزادی ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔۔۔۔”

گونجدار کرخت آواز ہوتی ہے۔۔۔ کشش کو کچھ خاص سمجھ نہیں آتی بس گونجتی آواز کانون میں ڈرم کی طرح لگتی ہے۔۔

جن زاد کی اس حرکت سے صاف تھا کہ وہ اسکے بالوں پے فدا ہے۔۔۔

کشش کی آنکھوں سے آنسوؤں کا لاوا امڈ آتا ہے۔۔۔۔”

کشش بے جان مورت بنے وہی آنکھیں موندے لیٹی رہتی ہے۔۔۔

کیونکہ جن زاد اب بھی وہی موجود تھا آواز میں ہلکی ہلکی غراہٹ تھی جیسے بہت مشکل سے سانس لے رہا ہو ۔۔۔ سانسوں کی گرماہٹ کشش کے چہرے کو جھلسا رہی ہوتی ہے۔۔۔”

نا جانے کتنی ہی دیر کشش اسی پوزیشن میں لیٹی رہی خوف کے مارے کوئی حرکت نہیں کی۔۔۔

دل ہی دل میں دعا کرتی ہے کہ رقیہ آنا آ جائے کوئی تو آجائے جو اسے خوفناک رات سے بچا لے۔۔۔

کچھ توقف کے بعد کشش کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کی آنکھوں پے بھاری بوجھ ہے۔۔۔ جس سے وہ اپنی آنکھیں نہیں کھول سکتی۔۔۔

پھر اس پے غنودگی چھا جاتی ہے اسے نہیں معلوم پڑتا کہ کب آنکھ لگی اور وہ سو جاتی ہے۔۔۔

جن زاد اپنے ہاتھوں کی مٹھیوں کو کھولتا ہے اس کے ہاتھ پے لال رنگ کا سونے سے سجا ہوا باکس حاضر ہو جاتا ہے

کشش کی آنکھوں سے چھلکتے آنسوؤں کو جن زاد اپنی انگلی سے موتی کی طرح اٹھاتا ہے اور لال رنگ کے ڈبے میں رکھ دیتا ہے اس میں پہلے سے ہی کچھ سفید موتی موجود ہوتے ہیں۔۔۔”

جن زاد کشش کو دیکھتے دیکھتے غائب ہو جاتا ہے۔۔۔”

اگلی صبح جب کشش کی آنکھ کھلتی ہے اسے نہیں معلوم پڑتا کب آنکھ لگی۔۔۔ اسکی جگہ بھی بدلی ہوئی ہوتی ہے بیڈ کی دوسری سائیڈ پے لیٹی ہوتی ہے۔۔۔”

کمرے میں کھڑکی سے سورج کی روشنی جھلکتی ہے۔۔ وہ بیڈ پے لیٹی رات والے واقعے کا سوچ رہی ہوتی ہے۔۔۔

پہلے دن ہوئے واقعے کی کڑی سب کو جوڑ کر گھتی سلجھانے کی کوشش کرتی ہےسب میں ایک بات مشترکہ تھی جن زاد نے کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچایا ۔۔۔

آخر یہ چاہتا کیا ہے۔۔ ؟

کشش کے سوچوں کے حصار کو ردا کی کال نے توڑا۔۔۔ یار کہاں ہو کب سے ویٹ کر رہی ہوں تمہارا سات بجے کا ٹائم دیا تھا ناں اب خود ہی لیٹ ہو۔۔۔

ردا فر فر بولتی چلی جاتی ہے۔۔۔۔۔”

کشش بیڈ سے اٹھتی ہے۔۔ ہاں بس ردا آدھے گھنٹے میں ملتے ہیں ۔۔۔

اوکے زرا جلدی کرنا۔۔۔

موبائل بیڈ پے رکھتے بالوں کا جوڑا بناتی ہے جو بکھرے ہوئے ہوتے ہیں ۔۔۔

ایک لمحے کو جن زاد کے بارے میں سوچتی ہے۔۔۔

خیال کو جھٹکتے ہوئے جوتا پہنے نیچے جاتی ہے۔۔۔

رقیہ آنا جلدی سے میرے ناشتہ لگائے میں بس فریش ہوکے آئی۔۔۔

ناشتہ کرنے کے بعد کشش ڈرائیور کرتے ہوئے ردا کے پاس پہنچتی ہے وہ بس سٹینڈ پے اسکا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔۔۔

چلو آئے چلتے ہیں اب۔۔۔

ردا کسی کو آواز دے کر کہتی ہے۔۔۔

کشش حیرانگی سے۔۔۔ کیا مطلب کوئی اور بھی ہمارے ساتھ آئے گا کیا۔۔۔

سائیڈ سے میر ہاتھ ہلاتے ہوئے آتا ہے۔۔۔

کشش ردا کو غصے سے گھورتی ہے۔۔۔

ردا مسکرانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کشش کو دیکھتی ہے۔۔۔

بس کوئی ہونا چاہیے تھا سیفٹی کے لئے اس لیے سوچا کیونکہ یہ لوگ بھی آجائیں۔۔۔

دیکھو کشش اب تم موڈ خراب مت کرنا پلیز مان جاؤ ناں۔۔۔

ردا کشش کی تھوڑی کو ہاتھ لگاتی ہے۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے۔۔۔ میر کو دیکھتے کہتی ہے۔۔۔”

{…زه نه پوهیږم چې څنګه زغم …}

پتا نہیں کیسے برداشت کروں گی اسے۔۔۔”

ہاں کیا مجھے کچھ کہا ۔۔۔ میر پوچھتا ہے۔۔۔

کشش منہ بسورے جواب دیتی ہے۔۔۔

جی نہیں آپ سے میں کچھ کہہ بھی نہیں سکتی۔۔۔”

موحد اور ابرار بھی اپنے بیگ کندھے پے لادے کار میں بیٹھ جاتے ہیں ۔۔۔

کشش ڈرائیونگ سیٹ پے بیٹھنے لگتی ہے کہ میر پکارتا ہے۔۔۔ اگر برا نہ لگے تو میں ڈرائیور کر لوں ۔۔۔

اممم۔۔۔ کیوں لڑکی کار چلائے تمہیں برا لگے گا کیا۔۔۔؟

نہیں میں تو اس لئے کہا کہی تم تھک نہ جاؤ۔۔۔ بعد میں تم ڈرائیور کر لینا۔۔۔ میر اپنا سجھاؤ ساتھ ہی پیش کرتا ہے۔۔۔

کشش فورا مان جاتی ہے کیونکہ اسے بہت تھکاوٹ ہوتی ہے اور کمر میں شدید درد ہوتا ہے جیسے ساری رات ہوا میں لٹکی رہی ہو۔۔۔

میر کے ساتھ بیٹھتے ہے اور راستے کا بتاتی ہے۔۔۔

تم مت بتاو مجھے معلوم ہے کہاں جانا ہے۔۔۔ میر کی آواز بدل جاتی ہے۔۔ کشش میر کی آنکھوں میں دیکھتی ہے جو دہکتی ہوئی آگ کی مانند لال ہوتی ہیں ۔۔۔

کشش کے سانس سوکھ جاتے ہیں اب ان لوگوں کی کار سڑک پے چل رہی ہوتی ہے۔۔۔

کچھ ہی منٹوں کی مسافت پے گاڑی محل نما کوٹھی کے وسط میں جا کے رکتی ہے۔۔

سفر کے دوران کشش نے میر سے کوئی بات نہیں کی تھی۔۔۔” وقتعا وقتعا میر کا چہرہ دیکھتی رہتی تھی۔۔۔

وجے پور سے 5 کلو میڑ دور جنگلات نما علاقے میں چھوٹا سے محل تھا۔۔۔

آبادی سے کافی دور تھا جسکے آس پاس ہری ہری گھاس اگی ہوئی تھی۔۔۔

محل کی دیواریں سیاہ تھی اسکے گیٹ پے بہت بڑی عجیب ہی مخلوق کا عکس بنا ہوا تھا۔۔۔

ہممم پراسرار جگہ ہے۔۔۔ موحد اپنے کمیرے سے تصویر بناتے کہتا ہے۔۔۔

چلو اندر چلتے ہیں ردا گیٹ کو ہاتھ لگاتے کہتی ہے۔۔۔”

ویسے یہ جگہ تھی تمہاری گھومنے کی اس سے اچھا ہارر ہاؤس چلے جاتے ویسا ہی لگ رہا ہے۔۔۔

کشش کچھ نہیں بولتی بس محل کو گھورتی رہتی ہے۔۔۔

میر کشش کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے۔۔۔

اندر چلیں اب۔۔

چہرے پے مسکراہٹ سجائے کہتا ہے۔۔۔

میر دروازہ کھولتا ہے۔۔۔ زور سے چیر کی آواز سے کھولتا ہے ردا کانوں پے ہاتھ رکھ لیتی ہے۔۔

محل کا دروازہ کھلتے ہی آس پاس درختوں پے موجود پرندے اڑنے لگ جاتے ہیں ۔۔۔

آسمان بھی پرندوں سے سیاہ ہو جاتا ہے۔۔

کشش اوپر چہرہ کیے انہیں دیکھ رہی ہوتی ہے۔۔۔۔

ابرار کار سے لیز اور چپس کے پیکٹ نکالتا ہے جبکہ باقی سب اپنا سامان اندر لے جانے کی غرض سے نکالتے ہیں ۔۔۔

اوہ بھوکڑ اپنا سامان بھی اٹھا جب دیکھو کھاتا رہتا ہے گینڈا کہی کا۔۔۔ موحد ہمیشہ کی طرح ابرار کو ڈانٹتا ہے۔۔۔”

محل کے اندر قدم رکھتے ہی چمگادڑ اڑ کے باہر نکلتی ہیں ۔۔۔ سارے نیچے جھک جاتے ہیں ۔۔۔

انکو بھی آج ہی آزادی ملی تھی ابرار چڑتے ہوئے کہتا ہے۔۔۔

محل خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ خوفناک بھی ہوتا ہے۔۔۔”

دیواروں پے پیٹنگ لگی ہوتی ہے جس پے دھول گرد جمی ہوتی ہے۔۔ ردا ہاتھ سے دھول کو صاف کرتے ایک پیٹنگ دیکھتی ہے انتہائی خوبصورت دوشیزہ کی تصویر بنی ہوتی ہے ۔۔۔

واہ یار کشش یہ دیکھ پیٹنگ ایسے لگ رہا اصلی ہو تصویر میں بیٹھی گھور رہی ہے۔۔۔

ردا حیران ہوتے ہوئے کشش کو پکارتی ہے ۔۔۔ وہ محل میں جلنے والی مشالوں کو غور سے دیکھ رہی ہوتی ہے۔۔۔

امم۔۔۔ کیا ہے ردا۔۔۔

یار یہ دیکھ نہ تصویر۔۔۔

موحد دونوں کو پیٹنگ پے تبصرے کرتے دیکھتے ہوئے ان کے پاس آجاتا ہے۔۔۔

Wow its Amazing…

موحد کے منہ سے بے ساختہ نکلتا ہے۔۔۔

کشش ہاتھ سے سارا گرد اچھی طرح صاف کرتی ہے۔۔۔ موحد اپنے کیمرے سے تصویر بناتا ہے۔۔۔

ابرار اپنی کاروائی کرتا ہوا محل کے درودیوار کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔۔۔”

یار یہ بنا کب ہوگا۔۔۔؟ اتنا پرانا بھی نہیں لگتا ۔۔۔ کوئی تو اسکی دیکھ بھال کو آتا ہوگا۔۔۔

میر پیچھے سے ابرار کی بات کا جواب دیتا ہے۔۔۔”

اصغر کاکا۔۔۔

ابرار پلٹتے ہوئے ۔۔۔۔

ہاں یہ کون ہے اور تمہیں کیسے پتا۔۔۔”

مجھے ابھی ملے ہیں انہی سے بات کر رہا تھا میں ۔۔۔

اصغر کاکا پانچ سال سے یہی کام کرتے ہیں ۔۔۔

ہاں تو کہاں گے اب تیرے اصغر کاکا۔۔۔؟

موحد بات میں حصہ ڈالتا ہے۔۔۔

اجائے گے شایدکچھ سامان لینے گے ہو۔۔۔

ابرار ایک کمرے کو کھولتے جائزہ لے رہا ہوتا ہے۔۔۔

گائز یہ میرا روم ہوگیا۔۔۔

یہاں اکیلا ہی رہونگا پہلے بتا رہا ہو۔۔۔

اتنے کمرے ہیں یہاں موقع مل رہا ہے فل چل کرنے کا۔۔۔۔

میں کسی سے شئر نہیں کرنے والا بس بتا دیا۔۔

تو واقعی ہی پاگل ہے تیری مرضی موحد کندھے اچکائے باقی کمروں کو دیکھتا ہے۔۔۔”

کمرے انتہائی نفیس طرز کے ہوتے ہیں بالکل صاف البتہ کہی کہی دھول جمی ہوتی ہے۔۔۔

کشش ردا کے ساتھ مل کے کمرے کا معائنہ کرتی ہیں ۔۔۔

ردا بیڈ پے اچھل کے بیٹھتی ہے۔۔۔

واہ یار کتنا نرم ہے بہت مزے کی نیند آئے گی ۔۔۔”

کشش کھڑکیوں سے باہر جھانکتی ہے جہاں دور دور تک کوئی نہیں ہوتا چاروں طرف درختوں کی لائن لگی ہوتی ہے۔۔۔”

ردا کچھ کھاؤ گی۔۔۔”

اپنا رخ مورٹے کشش پوچھتی ہے۔۔۔

نہیں یار میں تو تھکی ہوئی ہوں کچھ دیر آرام کرونگی۔۔۔”

اچھا تم کچن سے آتے ہوئے پانی لیتی آنا ۔۔۔

کشش کو ایک دم ایسے محسوس ہوتا ہے کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔۔۔

جاتے وقت رک جاتی ہے۔۔۔ اطراف میں دیکھنے لگتی ہے۔۔۔

کشش کیا ہوا۔۔۔” ردا اسے کھڑا دیکھتے ہوئے پوچھتی ہے۔۔

اممم۔۔ کچھ نہیں بس جارہی ہوں ۔۔۔”

کچن میں فرج کے علاوہ سب موجود ہوتا ہے ایک ٹوکری میں تازہ فروٹس ہوتے ہیں ۔۔۔ کشش نل سے گلاس میں پانی بھرتی ہے۔۔۔ میر کچن میں آتے سیب اٹھا لیتا ہے ۔۔۔

یہ دھو کے دو مجھے۔۔ سیب کشش کی طرف پڑھائے حکم چلاتا ہے۔۔۔”

کشش پانی لئے سائڈ پے ہو جاتی ہے۔۔۔

تم خود دھو لو تمہارے ہاتھ نہیں ہے کیا۔۔۔

اچھا چھوڑو ۔۔۔”

میر اپنی شرٹ سے رگڑ کے صاف کرتا ہے۔۔۔ بائٹ لیتے بس ہوگیا صاف کھا بھی رہا ہوں۔۔۔”

اچھا اب میرا دماغ کیوں کھا رہے ہو۔۔۔”

ارے یارررر۔۔

سگنل کیوں نہیں آتے ایسی ویران جہگوں میں حکومت کو چاہے یہاں بھی ایک ٹاؤر لگا دیں۔۔۔ ابرار اپنے فون کو ہوا میں کبھی کہی گھوماتا ہے تو کبھی کہی۔۔۔”

موحد اور میر ایک ہی کمرے میں شفٹ ہوتے ہیں موحد کھینچی گی تصاویر کو چیک کر رہا ہوتا ہے۔۔۔”

کشش جانے لگتی ہے۔۔۔ میر اسکا ہاتھ پکڑ لیتا ہے۔۔۔

کشش ٹھٹک سی جاتی ہے ۔۔بنا پیچھے مڑے میر کو کہتی ہے۔۔۔

یہ اچھی بات نہیں ہے ہاتھ چھوڑو میرا۔۔۔”

یہ حرکت اچھی نہیں ۔۔۔”

میر جھٹکے سے کشش کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔۔۔”

سٹیل کا پانی سے بھرا گلاس نیچے گر جاتا ہے۔۔۔”

کشش میر کے سینے سے جا کر لگتی ہے۔۔۔”

کشش کے بال ہوا میں اڑنے لگتے ہیں وہ آہستہ سے اپنا چہرہ اوپر اٹھائے میر کو دیکھنا چاہتی تھی ہمت ہی نہیں ہوئی کہ دیکھ سکے۔۔۔ سانسوں کی رفتار تیز ہوجاتی ہے۔۔۔”

میر بازوؤں کا حصار بنائے کشش کو اور قریب کر لیتا ہے۔۔۔” کشش اپنا ہاتھ میر کے سینے پے رکھتے ہوئے زور لگاتی ہے تاکہ الگ ہوسکے۔۔۔”

میر کے چہرے پے ظالمانہ مسکراہٹ ہوتی ہے۔۔۔”

چھوڑو مجھے یہ کیا بدتمیزی ہے میر۔۔۔”

میر کشش کے کان کی لو کو ہونٹوں سے چھوتا ہے ابھی کہاں شہزادی کب سے تمہارا انتظار کر رہا تھا۔۔۔

اس محل کو صدیوں سے شہزادی کی تلاش تھی ۔۔

کشش کی حالت ناگوار ہوجاتی ہے۔۔۔”

کشش کے ہونٹ کانپنے لگتے ہیں ۔۔۔ زور سے چینخ مارتی ہے۔۔۔ کچھ ہی دیر میں تمام لوگ وہاں آجاتے ہیں ۔۔۔

کشش کانوں پے ہاتھ رکھے آنکھیں موندے کھڑی ہوتی ہے۔۔۔

کشش کیا ہوا ایسے کیوں کھڑی ہو کیوں چلائی۔۔۔ ردا بے فکری سے پوچھتی ہے۔۔۔”

ردا کی آواز سنتے کشش آنکھیں کھولتی ہے۔۔۔” حیرانگی سے سینک کو دیکھتی ہے جہاں کچھ دیر پہلے میر اسے تھامے کھڑا تھا۔۔۔

میر دوڑتا ہوا کشش کے پاس آتا ہے۔۔۔

سارے کشش کو دیکھ کے پریشان ہوتے ہیں ۔۔۔”

کیا ہوا ہے سب ٹھیک تو ہے۔۔۔

کشش میر کی آواز پے چونکتی ہے۔۔۔

تتت۔۔۔۔ تتم۔۔۔ میر کی طرف لڑکھڑاتی آواز میں اشارہ کرتی ہے۔۔۔

تت۔۔۔ تم یہاں کیسے؟

ارے کیا ہوا میں اپنے روم میں تھا۔۔۔”

میر کشش کی طرف بڑھتا ہے۔۔۔

نہ وہی کھڑے رہو قریب مت آنا۔۔۔

تم ابھی یہی تھے۔۔۔

یہاں۔۔۔ کشش متعلقہ جگہ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔۔۔”

کیا بات کر رہی ہو میں تو کچن میں آیا بھی نہیں موحد سے پوچھ لو بے شک ۔۔

کشش ڈری سہمی کونے میں دبک کے کھڑی ہوتی ہے۔۔۔

ارے بتاو تو سہی ہوا کیا ہے۔۔۔

میر پھر سے کشش کے پاس جاتا ہے۔۔۔

روک جاؤ وہی کہاں ناں میرے قریب مت آنا۔۔۔”

(جن زاد میر کی شکل میں آکر کشش کو ڈراتا ہے وہ میر کو بھی وہی سمجھ رہی ہوتی ہے )

ردا کشش کو پکڑ کے کمرے میں لے جاتی ہے۔۔۔”

میر حیرانگی سے دیکھتا ہے اسے کیا ہو گیا۔۔۔”

سب باری باری اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں ۔۔۔” ردا پانی پلاتے ہوئے اطمینان سے پوچھتی ہے۔۔۔ مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے کیوں ڈر رہی ہو۔۔۔”

نہیں کچھ نہیں ۔۔۔”

مجھے سونا ہے کشش اپنے اوپر لحاف اوڑھتے لیٹ جاتی ہے۔۔۔

ہممم چلو آرام کرو۔۔۔”

ردا بھی اسی کمرے میں موجود ہوتی ہے۔۔۔”

رات کے سناٹے میں خوفناک آوازیں آتی ہیں ۔۔۔

کشش کو اپنے بیڈ کے سامنے کسی کا سایہ نظر آتا ہے۔۔۔

وہ کبھی ایک جگہ نہیں ہوتا ادھر اُدھر ہل رہا ہوتا ہے۔۔۔”

بے سکونی میں نیند بھی نہیں آرہی ہوتی اس لیے لحاف سائیڈ پے کرتی اٹھ جاتی ہے۔۔۔

ڈوپٹے کو گلے میں ڈالے باہر کی جانب بڑھتی ہے۔۔۔”

کمرے کے باہر کوئی بھی موجود نہیں ہوتا ۔۔۔ کوریڈور میں میر ہاتھ میں کلہاڑا تھامے کھڑا ہوتا ہے۔۔

کشش ڈر جاتی ہے۔۔۔

سہمے سہمے قدم اٹھائے باہر کو جاتی ہے۔۔۔

کچھ فاصلے پے کھڑے ہوکر آواز لگاتی ہے۔۔۔ میر کے پہلے والے حلیے کو سوچتے بدن تھر تھر کانپ رہا ہوتا ہے ہاتھوں میں رعشہ پیدا ہوتا ہے۔۔۔

میر۔۔۔”

کشش کی آواز پے پیچھے مڑتا ہے۔۔۔

اوہ شکر ہے۔۔۔ تم ہی ہو۔۔۔

یہاں پے کلہاڑے کے ساتھ کیا کر رہے ہو۔۔۔

مجھے کچھ آوازیں آرہی تھی مجھے لگا شاید کوئی جنگلی جانور نہ آگیا ہو بس یہی ملا اور اٹھا لیا۔۔۔”

ہممم۔۔۔

ٹھیک ہے۔۔۔”

تم کیوں جاگ رہی ہو ابھی تک۔۔۔ مجھے بھی آوازیں آرہی تھی۔۔۔

دونوں مسکرانے لگتے ہیں ۔۔ “

کشش اپنے کندھوں پے سردی کے وجہ سے ہاتھ پھیرتی ہے۔۔۔

چاند کتنا خوبصورت لگ رہا ہے۔۔۔

مجھے لگتا ہے تمہیں ٹھنڈ لگ رہی ہے۔۔۔

ہاں بس جلدی میں شال نہیں لی اب مجھے کیا معلوم یہاں رات کو ٹھنڈ بڑھ جاتی ہے۔۔۔”

میر مسکرائے کہتا ہے۔۔۔ مجھے بھی نہیں معلوم تھا۔۔۔

ویسے مجھے تم سے سوری کہنا تھا۔۔۔

کس لئے ۔۔۔؟

کالج میں تمہیں تنگ کیا اور پھر بن بلائے مہمان کی طرح یہاں بھی آگیا۔۔ “

بس ردا نے آفر کی تو میرے دوست مان گے میں نے تو انکار کیا تھا بس اب زبردستی لے آئے۔۔۔

کوئی نہیں بات نہیں بلکہ اچھا ہوا جو تم لوگ بھی آگے۔۔۔”

کشش شنرمندہ ہوتے ہوئے کہتی ہے۔۔۔”

اچھا اب میں چلتی ہوں ردا کہے مجھے کمرے میں نہ پاکر ڈھونڈنے ناں نکل جائے۔۔۔”

کشش۔۔۔

میر آواز لگاتا ہے۔۔۔

ہوں۔۔۔ کشش مڑتی ہے۔۔۔

وہ مجھے کچھ پوچھنا تھا۔۔۔

ہاں بولوں سن رہی ہوں ۔۔۔

تمہیں کیا ہوا تھا اس وقت مطلب وہ کالج میں مجھے ٹانٹ کرنا اور اب بھی۔۔۔

میں کچھ سمجھ نہیں رہا۔۔۔

کچھ دیر کشش خاموش رہتی ہے۔۔

سامنے اسے میر کے پیچھے وہی کالی بلی نظر آتی ہے۔۔۔”

وہ۔۔۔ کچھ نہیں میر بس ایسے ہی تمہیں تنگ کرنا تھا۔۔۔

کشش بات کو ہوا میں اڑا دیتی ہے۔۔۔اور اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے۔۔۔”

میر بھی اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے۔۔۔ دروازہ بند کرتے کلہاڑا دروازے کی اوٹھ میں رکھ دیتا ہے۔۔۔” موحد جمائی لیتے ہوئے کہتا ہے۔۔ ہاں مل آئے پٹھانی سے۔۔

ارے تو جاگ رہا ہے۔۔ ہاں تیرا انتظار کر رہا تھا۔۔۔ افف چل سو جا اب صبح بہت کام ہیں ۔۔۔ ہیں، تجھے کونسے کام ہے۔۔ موحد تعجب سے پوچھتا ہے۔۔

ارے یہاں تھوڑی بیٹھے رہے گے گھومے پھرے گے ۔۔۔

اپنی بات مکمل کرنے کے بعد موحد کو دیکھتا ہے وہ تقریبا سو چکا ہوتا ہے۔۔ “

میر ہنستے ہوئے کروٹ بدل لیتا ہے۔۔۔”

ابرار بڑے ہی مزے سے بیڈ پےبے ہنگم طریقے سے سویا ہوتا ہے۔۔’ اسکے سر میں آکر کوئی چیز زور سے لگتی ہے وہ ہڑبڑا کے اٹھتا ہے۔۔۔”

ادھر اُدھر نگاہیں روڑائے کہتا ہے۔۔ کون ہے بھئی سامنے آئے۔۔۔

کچھ دیر دیکھتا ہے کوئی حرکت رونما نہیں ہوتی ۔۔ پھر لیٹ جاتا ہے۔۔۔”

کچھ توقف کے بعد پھر سے کوئی چیز آکر لگتی ہے۔۔۔

اب کی بار زور کا تھپڑ گال پے لگتا ہے۔۔

ابرار گال پے ہاتھ رکھے ہکلاتا ہے۔۔۔

ککککک۔۔۔ کون ہے۔۔۔”

سس۔۔۔ سامنے آئے ۔۔۔”

لحاف کو ہاتھوں میں دبوچے چہرے کے سامنے کر لیتا ہے۔۔۔”

دروازے کے سایڈ پے رکھے سٹول پے کالی بلی بیٹھی ہوتی ہے۔۔۔

میاؤں۔۔۔

ابرار کی توجہ بلی کی طرف جاتی ہے۔۔۔

اوہ اچھا تم ہو یہاں۔۔۔

اوہ پیاری بلی۔۔۔ کوچو کوچو۔۔۔

دور سے ہی بچوں کی طرح بہلانے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔”

سرکتے ہوئے بیڈ سے اترتا ہے۔۔۔

کوچو کوچو۔۔

“مانو بلی کا کھائے گی۔۔۔”

میرے پاس بہت سی چیزیں ہیں ۔۔۔”

بلی پنجہ چاٹتی ہے۔۔۔”

میاؤں۔۔۔”

ابرار اسے ہاتھ سے پکڑنے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔وہ چھلانگ لگا کے بیڈ پے چلی جاتی ہے۔۔۔

الےےےے۔۔۔ “

مانو ناراض ہو گی ۔۔۔ بولو بولو کا کھانا ہے۔۔۔

(ابرار بلی کو بچوں کی طرح ٹریٹ کرتا ہے)

مجھے کالی کالی آنکھیں کھانی ہیں ۔۔۔

بلی ابرار کے سامنے انسانوں کی طرح بول کے کہتی ہے۔۔ “

ککک۔۔۔ ابرار اتنا ہی بول پاتا ہے۔۔

ہاں مجھے کالی کالی موٹی لذیز آنکھیں کھانی ہے۔۔۔

بلی کے دوبارہ بولنے پے ابرار کی سٹی گم ہوجاتی ہے۔۔۔

وہ بے ہوش ہوجاتا ہے۔۔ “

بلی کھڑکی پے چھلانگ لگاتی ہے۔۔

پوچھا کیوں تھا کیا کھانا ہے جب بتایا تو بہوش ہوگیا۔۔۔

بلی ابرار کو کہتی ہوئی باہر چھلانگ لگا لیتی ہے۔۔۔

کشش کروٹیں بدل بدل کے سونے کی کوشش کرتی ہے۔۔۔” لیکن مجال ہے جو نیند آنکھوں میں ابھر آئے۔۔۔

اس وقت سب گہری نیند میں سو گے تھے لیکن وہی جاگ رہی تھی فضا میں حبس کی کیفیت بھی تھی اور عجین سی گھٹن بھی۔۔۔

کشش کے دل میں عجیب سا خوف امڈ رہا تھا۔۔۔”

کشش اٹھ کے بیٹھ جاتی ہے۔۔۔”

اپنے گلے پے ہاتھ پھیرتی ہے جیسے سانسیں گھٹ رہی ہو۔۔۔”

میاؤں۔۔۔

بلی کی آواز کشش کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔۔۔

ایک دم سہم جاتی ہے۔۔۔

ردا کو دیکھتی ہے وہ ہنوز اسی حالت میں سوئی ہوتی ہے۔۔۔”

کشش سکتے کے عالم میں بلی کو دیکھتی رہتی ہے جو فارم ہاؤس پے بھی تھی اب یہاں بھی اسے کچھ سمجھ نہیں آتا۔۔۔

” کشش حیرانگی سے بلی کو کہتی ہے۔۔۔”

تم یہاں بھی۔۔۔”

بلی کھڑکی سے نیچے چھلانگ لگاتی کشش کے قدموں میں بیٹھ جاتی ہے۔۔۔”

مالک نے حکم دیا ہے آپکے ساتھ رہو۔۔۔”

کشش کا دل کنپٹیوں میں دھڑک رہا ہوتا ہے وہ بلی کے انسانی آواز میں بولنے پے نہایت خوفزدہ ہوجاتی ہے۔۔۔

اسکی آنکھوں سے دہشت جھانکنے لگتی ہے۔۔۔”

کشش میں دہشت کے مارے اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ ردا کو آواز دے سکے۔۔۔

خوف سے اسکے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔۔۔

بلی ہنوز گردن جھکائے کشش کے سامنے بیٹھی ہوتی ہے۔۔۔

گھبرائے نہیں مالکن۔۔۔”

کشش آنکھوں کو ملتی ہے۔۔۔”

کیککک۔۔۔ کیا یہ خواب ہے۔۔۔”

تتت ۔۔۔ تم کب سے مجھے نظر آتی ہو۔۔۔ تتت۔۔۔۔۔ تب کیوں نہیں بولا۔۔۔۔

کشش کی آواز میں واضح لڑکھڑاہٹ ہوتی ہے۔۔۔

بلی ادب سے جواب ہے مالکن آپ نے کبھی ہمیں پکارا ہی نہیں ۔۔۔”

کشش کے اندر تھوڑا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔۔۔

تمہارا مالک کون ہے۔۔۔”

بلی معزرت کرتے کہتی ہے۔۔۔

معاف کیجئے گا مالکہ آپکو میں نہیں بتا سکتی۔۔۔”

کشش کے لئے ایک بات صاف تھی بلی نہایت مودئب طریقے سے بات کرتی ہے۔۔۔”

مالکن ایک گزارش ہے۔۔۔”

ارے وہ کیا۔۔۔” کشش کے چہرے پے مسکراہٹ ہوتی ہے۔۔۔ ڈر جیسے غائب ہوجاتا ہے۔۔۔

وہ سامنے رکھے گلاس سے شربت پی لیں۔۔”

شربت۔۔۔۔؟” سوالیہ نگاہوں سے دیکھتی ہے۔۔

کشش سنگھار شیشے کی طرف دیکھتی ہے۔۔۔”

وہاں پے کالا رنگ کا گلاس رکھا ہوتا ہے ۔۔۔ اسکے اندر لال رنگ کا محلول نما کچھ موجود ہوتا ہے۔۔۔”

کشش بلی کی طرف ایک نظر دیکھتی ہے۔۔۔

مالکن یہ آپ پی لیجئے ۔۔۔

آپ گھبرائے مت۔۔۔

کشش گلاس ہاتھ میں اٹھا لیتی ہے۔۔۔”

بے خودی سے منہ کو لگائے گٹا گٹ پی جاتی ہے۔۔۔”

پینے کے بعد مڑتی ہے تو بلی موجود نہیں ہوتی ۔۔۔ جوس پینے کے بعد کشش کو انتہائی نیند آ رہی ہوتی ہے۔۔۔”

پوری کوشش کرتی ہے کہ آنکھیں کھلی رہے ۔۔۔۔ کشش کو اپنے سرہانے ہنسی کی کلکاری سنائی دیتی ہے۔۔

اور پھر نیند کی وادیوں میں کھو جاتی ہے۔۔۔۔”

کشش کی آنکھ جب کھلتی ہے اردگرد نگاہیں دوڑاتی ہے ۔۔۔ وہ ایک الگ ہی نوعیت کے کمرے میں موجود ہوتی ہے۔۔۔ کمرے کی سجاوٹ بہت خوبصورت ہوتی ہے۔۔۔

شہزادی کے تخت کی طرح بیڈ کی سجاوٹ ہوتی ہے۔۔۔بیڈ پھولوں سے بھرا ہوتا ہے گویا کشش پھولوں میں سما گی ہو اور پھول بھی سترنگے ہوتے ہیں بالکل اسی پھول کی طرح جو بلی نے پھینکا تھا۔۔۔ بیڈ کے اطراف میں منفرد جالی نما دیوار بنی ہوتی ہے۔۔۔

پھولوں کی مہک ہوا کو معطر کر رہی ہوتی ہے۔۔۔

زمین پے لال رنگ کا ریشم سے بنا ملائم قالین بچھا ہوتا ہے اس پے خونخوار درندے کی کالے رنگ کی تصویر چسپاں ہوتی ہے ۔۔۔”

اسطرح معلوم ہوتا جیسے اصل کا بیٹھا ہوا ہو۔۔۔ سرخ رنگ کے پردے۔۔۔ اسی طرح کالے رنگ کی خونخوار تصویر موجود ہوتی ہے۔۔۔ فرنیچر قدیم اور جدید کے ملاپ سے بنا ہوا بہت اعلی نوعیت کا منفرد ہوتا ہے۔۔۔

کشش بغور معائنہ کرتی ہے آنکھوں میں ستائش ہوتی ہے۔۔۔ جس نے بھی یہ سجاوٹ کی ہے بہت عمدہ ہے پراسرار بھی اور خوبصورت بھی۔۔۔”

لیکن ۔۔۔۔!!

لیکن میں یہاں آئی کیسے کہی خواب تو نہیں دیکھ رہی۔۔۔

نہیں شہزادی ۔۔۔”

عقب سے مردانہ آواز کشش کے کانوں سے ٹکرائی۔۔۔

پیچھے مڑ کے دیکھتی ہے کوئی نہیں ہوتا۔۔

شہزادی آپ نے ہماری خواب گاہ میں پہلی بار قدم رکھا یہ توکچھ بھی نہیں ۔۔۔

پیچھے دیکھنے کے بعد سیدھا رخ کرتی ہے تواسکے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔۔۔

کشش سبک جاتی ہے۔۔۔”

آآااپ کون۔۔۔!

کانپتے ہونٹوں سے پوچھتی ہے۔۔۔۔

لمبا قد۔۔۔ دودھ جیسا رنگ۔۔۔” سنہرے بال۔۔۔” گہری نیلی آنکھیں ۔۔۔

کندھوں تک بال پرکشش جاذب چہرہ ہونٹوں پے مسکراہٹ لئے کشش کے سامنے کرسی پے ٹانگ پے ٹانگ رکھے مسکرا رہا ہوتا ہے۔۔۔

یک دم کشش بھی اسکی خوبصورتی میں مدہوش ہوجاتی ہے ۔۔۔”

آپ نے ہمیں پہچانا نہیں شہزادی ۔۔۔؟

کشش نفی میں سر ہلا دیتی ہے۔۔۔

واہ شہزادی ہم آپکے لئے پل پل تڑپے ہیں ہمارے قلبی احساس کو ہمارے وجود کو پہچاننے سے انکار کر دیا۔۔۔

جن زاد کی آنکھیں لال انگارے کی طرح سرخ ہوجاتی ہے۔۔

کشش تھر تھر کانپنے لگتی ہے۔۔ “

جن زاد فاصلہ ایک منٹ میں تہہ کرتا اسکے روبرو کھڑا ہوتا ہے۔۔۔

کشش کو اتنی تیزی سے آنے کی امید نہیں تھی وہ ہڑ بڑا کے پیچھے کو گرنے لگتی جن زاد اسے تھامتا نہیں بلکہ گرنے دیتا ہے۔۔۔”

کشش ٹھٹک سے قالین پے گرتی ہے لیکن چوٹ نہیں لگتی بس دہل جاتی ہے۔۔۔

شہزادی یہ تو کچھ بھی نہیں آپکو گستاخی کی اس سے بھی بڑی سزا مل سکتی تھی ۔۔۔ بس یہ وارننگ دی ہے ہماری بات کا انکار ہمیں قطعی منظور نہیں ۔۔۔۔”

کشش ہنوز قالین پے بیٹھی ہوتی ہے جن زاد بھی اسکے ساتھ گھٹنے ٹکائے بیٹھ جاتا ہے اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہے۔۔۔

کشش کو یاد آتا ایسے پہلے بھی کسی نے کیا تھا لیکن اسکا چہرہ نہیں دیکھا۔۔۔

کشش گردن کو پیچھے کرتی ہے تاکہ وہ دوبارہ ایسا نہ کر سکے۔۔۔”

دروازہ چڑ کی آواز سے کھلتا ہے۔۔۔ دونوں دروازے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔۔۔ کالے رنگ کی بلی ۔۔۔

کشش حیرانگی سے کبھی جن زاد تو کبھی بلی کو دیکھتی ہے۔۔۔” بلی چلتے چلتے خونخوار جانور میں تبدیل ہورجاتی ہے اسکے پنچے بڑے ہورہے تھے ۔۔۔

دانت چبڑوں سے زیادہ بڑے اور باہر کو نکل آئے ۔۔۔”

آنکھیں دہکتے انگاروں کی طرح سرخ ہوجاتی ہیں ۔۔

بلی کاحجم کسے درندے میں تبدیل ہوجاتا ہے۔۔

مکمّل تبدیل ہونے کے بعد جن زاد کے پیروں میں بیٹھ جاتا ہے۔۔۔”

اتنے قریب سے دیکھنے پے

کششِ کا جسم بے جان ہونے لگتا ہے خوف کے مارے گلا خشک ہوجاتا ہے۔۔۔۔

آنسو آنکھوں سے روا ہوتے ہیں ۔۔۔

ڈرو نہیں شہزادی یہ کچھ نہیں کہے گا۔۔۔۔”

جن زاد کششِ کی حرکات سے لطف اندوز ہوتا ہے۔۔۔

شہزادی۔۔۔”

جن زاد لمبا سانس لیتا ہے۔۔ “

وہ نم آنکھوں سے دیکھتی ہے۔۔۔ کیا ہوا رونا بند کرو تمہارے آنسو مجھے تکلیف دیتے ہیں ۔۔۔

جن زاد اپنا ہاتھ اسکے رخساروں پے رکھتا ہے۔۔۔ جن زاد کے ہاتھ میں کشش کے آنسوں سفید موتی بن جاتے ہیں ۔۔۔

کشش مزید رونا شروع کر دیتی ہے۔۔۔ شہزادی بس کرو تمہارے یہ بہتے اشک میرے درد کو بڑھاتے ہیں ۔۔۔

جن زاد بے قراری سے کشش کے گالوں کو چھوتے کہتاہے۔۔۔جن زاد کی اسطرح کہنے پے کشش زور سے رونے لگتی ہے پورا کمرہ کشش کی سسکیوں سے گونج رہاہوتا ہے۔۔۔

جن زاد اسے اپنی باہوں میں لے لیتا ہے وہ جن زاد کے دل پے ہاتھ رکھے اسکی گردن میں منہ چھپائے رو رہی تھی کشش روتے روتے خاموش ہوجاتی ہے۔۔۔

اسے اب ڈر نہیں لگ رہا ہوتا جن زاد کے قریب جا کر سکون ملتا ہے۔۔۔ بہت اپنائیت محسوس ہوتی ہے جیسے بچھڑا ساتھی مل گیا ہو۔۔۔”

وہ نہیں جانتی ایسا کیوں محسوس ہو رہا ہے۔۔۔

جن زاد سے الگ ہوتی کہتی ہے۔۔۔

ایک بات پوچھو۔۔۔

جن زاد کشش کے بالوں میں انگلیاں پھیرتا ہے۔۔

پوچھو شہزای۔۔۔”

کشش کی آنکھوں میں کوئی خوف نہیں ہوتا۔۔۔”

وہی خوف آنسوؤں میں بہہ جاتا ہے۔۔۔”

آپ۔۔۔”

(کشش ہچکچا رہی ہوتی ہے)

آپ کون ہے ۔۔۔ میرا مطلب کیا نام ہے آپکا۔۔۔”

اور۔۔۔ “

کشش مزید بولنے لگتی ہے جن زاد اسکے لبوں پے انگلی رکھ لیتا ہے اسے انگلی پے بوسہ دیتا ہے۔۔۔

جن زاد کی اس حرکت کا علم نہیں ہوتا چونک کے پیچھے ہٹتی ہے۔۔۔”

کیا ہوا شہزادی جاننا نہیں چاہتی کہ میں کون ہوں ۔۔۔؟

کشش اثبات میں سر ہلا دیتی ہے۔۔۔”

جن زاد آگے ہاتھ بڑھاتا ہے۔۔۔

چلو آو پھر دیکھاتا ہوں میں کون ہوں ۔۔۔

کشش جن زاد کے ہاتھوں کو دیکھتی رہتی ہے۔۔۔

گھبراؤ نہیں ۔۔۔

کانپتے ہوئے ہاتھ آہستہ سے ہاتھ آگے بڑھاتی ہے۔۔۔”

جن زاد کشش کو کھینج کر اپنا سر اسکے سر سے ملا دیتا ہے۔۔۔”

آنکھوں کے سامنے بہت سی چیزیں گھومتی ہیں ۔۔۔ کشش کا سر چکراتا ہے۔۔۔

اچانک تیز روشنی ہوتی ہے پھر سب نارمل ہوجاتا ہے۔۔۔”

کچھ توقف کے بعد کششِ زمین پے بے سدھ پڑی ہوتی ہے۔۔۔” جن زاد ہنسنے لگ جاتا ہے۔۔۔ شہزادی مجھے یقین ہے اگلی بار آپ ہم سے ملے گی تو خوش ہونگی۔۔۔”

ابرار کے شور سے سب اسکے کمرے کے باہر جمع تھے کشش ہی تھی جو اب تک خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھی ۔۔۔

ابرار باضد تھا کہ اب وہ ایک رات بھی یہاں نہیں رکے گا کیونکہ یہاں کے جانور بھی بات کرتے ہیں ۔۔۔”

گینڈے تجھے کہاں بھی تھا کم کھایا کر دیکھ زیادہ کھانے سے تیرے دماغ پے چربی جم گی ہے۔۔۔موحد اس پے طنز کرتے کہتا ہے۔۔۔ دیکھ ہم بھی تو اس محل میں تھے ہمیں تو کسی بلی نے ہیلو نہیں کہا ہاہاہا تو نے بس کوئی خواب دیکھا ہے۔۔۔” موحد ابرار کو چڑاتا ہے۔۔۔”

ابرار غصے سے تیوری چڑھائے۔۔۔” کہتا اوہ بھائی تو اپنے یہ باسی جوک اپنی جیب میں رکھ تیرے ساتھ یہ ہوا تو لگ پتا جائے گا ۔۔۔ مجھے یاد ہے میں فرش پے بے ہوش ہوا تھا۔۔۔

اوہ اچھا پھر بیڈ پے تجھے اس بلی نے لٹا دیا تھا کیا۔۔۔؟

موحد پھر سے تنگ کرتا ہے۔۔۔”

اوہ گائز کیا ہوگیا ہے۔۔ ایسے کیوں ری ایکٹ کر رہے ہو۔۔ پرانا محل ہے آس پاس جنگل ہے کسی جانور کی آواز کو سن لیا ہوگا۔۔۔ردا بھی دونوں کی باتوں میں حصہ ڈالتی ہے۔۔۔”

کشش بیدار ہوتی ہے۔۔ اپنے آپ کو کمرے میں پاکر حیران ہو جاتی ہے۔۔ ۔۔۔

میں یہاں کیسے پہنچی۔۔۔رات والا واقعہ کسی فلم کی طرح دماغ میں گھوم رہا ہوتا ہے۔۔۔”

اففف میرا سر ۔۔۔

کشش سر پکڑے اٹھتی ہے۔۔۔

افف کتنا گھوم رہا ہے اور یہ شور۔۔۔

یہ شور کیسا ہے۔۔۔”

ردا کے بیڈ کی طرف دیکھتی ہے وہاں پے موجود نہیں ہوتی۔۔۔

سر پکڑے ڈوپٹہ گلے میں ڈالے باہر جاتی ہے۔۔ دروازے کے باہر جھانکتی ہے تو موحد ابرار اور ردا بحث میں الجھے ہوتے ہیں ۔۔۔”

بس۔۔۔ میں نے کہا ناں کوئی خواب نہیں تھا حقیقت تھی۔۔۔ سہی کہتی ہے دنیا گوشت سے ناخن الگ نہیں ہوتا اب خواب سمجھ کے یہ غلطی مجھ پے ہی ڈالو گے۔۔

یہ کیا ہو رہا ہے کیوں صبح صبح بکرا منڈی لگائی ہوئی ہے۔۔۔

کشش دروازے پے کھڑے ہی کہتی ہے۔۔۔

ارے یار کشش یہ ابرار پاگل ہو گیا ہے کہتا ہے کسی بولنے والی بلی سے بات کی ہے۔۔ لو بھلا اب جانور کب سے بولنے لگے میں نے یہاں کوئی بلی نہیں دیکھی ۔۔۔۔

۔۔

تم نے دیکھی کیا۔۔۔؟

کشش کچھ دیر ردا کو دیکھتی رہتی ہے۔۔۔ اسے کچھ سنائی نہیں دیتا بس ردا کے لبس موومنٹ کو دیکھتی ہے۔۔۔”

کیا ہوا۔۔۔ درا کشش کے سامنے ہاتھ لہراتی ہے۔۔ کہاں کھو گی ۔۔۔

ہاں کیا کہہ رہی تھی ۔۔۔

لوں جی ساری بات بتا دی اب پوچھ رہی ہو کہانی کا ہیرو کون تھا ۔۔۔

مجھے لگتا ہے ابھی بھی تمہارا دماغ سو رہا ہے۔۔۔

ایک منٹ میں منہ پے پانی کے چھپکے مار آو پھر ناشتے پے سنتی ہوں سبکی روداد۔۔۔

کشش منہ کو ڈوپٹے سے صاف کئے آرہی ہوتی ہے۔۔۔

راستے میں میر سے ٹکراؤ ہوجاتا ہے۔۔۔”

اوہہ تم۔۔۔ دیکھ کر نہیں چل سکتے کیا۔۔۔؟ کشش اپنے سر کو سہلاتے کہتی ہے۔۔۔

ارےےےے۔۔۔۔

میں تو دیکھ کے چل رہا تھا تم ٹکرائی مجھ سے۔۔۔

اممم مجھ پے ہی الزام ڈالوں گے ہٹو سامنے سے ۔۔۔

میر دونوں ہاتھوں کو پھیلائے کہتا ہے۔۔

جایئے شہزادی۔۔۔۔”

کشش جاتے ہوئے حیرانگی سے دیکھتی ہے۔۔۔”

میر مسکراتے ہوئے چلا جاتا ہے۔۔۔”

کشش ایک پیر پے گھومتی ہوئی میر کو آواز لگاتی ہے۔۔۔”

میر۔۔۔!

میر وہی رک جاتا ہے۔۔۔ چل کے اسکے پاس جاتی ہے۔۔ “

تم نے مجھے ابھی شہزادی کہا۔۔۔؟

ہونہہ تم۔ اور شہزادی ۔۔۔۔

وہ بھی میں کہوں گا۔۔۔”

میر کا انداز تمسخرانہ ہوتا ہے۔۔۔”

ہاں ابھی تم نے کہا

” جائیے شہزادی۔۔۔۔”

ارے میں کیوں کہو گا۔۔۔

تو۔۔۔ پھر۔۔۔

کشش میر کی آنکھوں میں دیکھتی ہے۔۔۔ جیسے معلوم کر رہی ہو یہ شخص کوئی بہروپیا تو نہیں ۔۔۔

کشش اپنا سر جھٹکے کہتی ہے اچھا چھوڑو یہ بتاؤ رات تم کدھر تھے۔۔۔

میر کشش کو بغور دیکھتا ہے۔۔۔ میری اتنی فکر۔۔۔؟ کبھی کچھ پوچھتی ہو تو کبھی کچھ۔۔۔۔”

کشش زچ ہوتے ہوئے ۔۔۔۔

بس جو پوچھا ہے تم سے وہ بتاؤ۔۔

رات کو کیا کرتے ہیں سوتے ہے ناں تو میں بھی سو ہی رہا تھا۔۔۔ میر چڑتے ہوئے کہتا ہے۔۔۔

ہمم۔۔ ۔۔۔ اچھااااں۔۔۔

تم کیوں اتنی تفشیش کر رہی ہو۔۔۔

میر، کشش کے ماتھے پے الٹا ہاتھ رکھ کے چیک کرتا ہے۔۔۔ کہیں بخار تو نہیں ہوگیا جو میری فکر۔۔۔ اوہ کہیں مجھ سے پیار تو نہیں ہوگیا۔۔۔

میر منہ پے ہاتھ رکھتے کہتا ہے۔۔۔

ایں۔۔۔۔

بہت بکواس کر رہے ہو تم۔۔۔ کشش میر کے کندھے پے تھپڑ مارتی ہے۔۔۔

ویسے ایک بات کہوں کشش۔۔۔”

میر سنجیدہ ہو کے کشش کو مخاطب کرتا ہے۔۔

مجھے تم بہت اچھی لگتی ہو۔۔۔

ایک پل کو لگا کہ وہ دونوں الجھ کے رہ گے ہیں دونوں آپس میں گفتگو محو ہوتے ہیں ۔۔۔

کشش میر کی کیفیت پے توجہ نہیں دیتی۔۔۔”

کیا۔۔۔۔۔!!!

کشش تقریباً چلائی تھی۔۔۔”

ماتھے پے بل پڑتے ہیں ۔۔۔۔

میر کشش کا ہاتھ تھامے کہتا ہے۔۔۔

ہااااں کشش۔۔۔ مجھے نہیں معلوم یہ سب کب کیسے ہوا ۔۔۔ لیکن میرے دل نے اسکا انکشاف اس رات کیا جب ہم ایک دوسرے سے اپنے کئے کی معافی مانگ رہے تھے۔۔۔

کشش کا دماغ الجھا ہوا تھا وہ میر اور جن زاد میں فرق نہیں کر پارہی تھی ۔۔۔

(میر کا اچانک قریب آجانا جن زاد کا عیجب سے وہم اسطرح سے مخاطب کرنا یہی سب سوچ رہی ہوتی ہے)

میر کشش کے سامنے ہاتھ لہراتا ہے کہاں کھو گی تم۔۔۔

کشش چونک کے میر کو دیکھتی ہے

ہوں۔۔ ککک کیا ہوا۔۔۔”

میں نے تم سے کچھ پوچھا ہے کشش۔۔۔۔

اتنے میں ردا کی زور دار آواز آتی ہے۔۔۔

کشش ۔۔۔۔

وہ ردا بلا رہی ہے۔۔۔ میں بعد میں سن لو گی تمہاری بات۔۔۔

کشش جان چھڑانے کے لئے کہتی ہے۔۔۔۔

کشش کے چہرے پے خوف اور حیرانگی واضح تھی۔۔۔”

میر عقب سے خود سے مخاطب ہوتا ہے۔ اسے کیا ہوگیا ہے۔۔۔”

میر کندھے اچکائے کشش کے پیچھے چل پڑتا ہے۔۔۔

سارے دوست ناشتے کی میز پے موجود ہوتے ہیں ۔۔۔

ابرار کا وہی بلی والا قصہ شروع ہوجاتا ہے۔۔۔”

اففف یار تو بس کھانا کھا تیرا اور کام نہیں ہم نہیں سن سکتے تیرا یہ گھسا پٹا راگ۔۔۔ موحد کھانے سے انصاف کرتا ابرار کو سناتا ہے۔۔

میر تو میری بات سن ایسا ہوتا ہے ناں۔۔۔۔ ہے ناں۔۔۔ بتا سبکو۔۔۔

کشش خاموشی سے سن رہی ہوتی ہے۔۔۔

ہممم یمی۔۔۔!!

یار یہ کیا ڈش ہے کتنی لزیز ہے۔۔۔ اصغر کاکا۔۔۔ کا کُب نکلا ہوتا ہے جھکتے ہوئے کندھے پے رومال ڈالے ردا کے سامنے کھڑے ہوکر کہتا ہے۔۔۔ یہ بہت خاص پکوانوں میں سے ایک ہے۔۔۔ ردا دوسرا چمچ منہ میں ڈالتے کہتی ہے۔۔ اسکی رسیپی کیا ہے کاکا۔۔۔

میری بات کا کیا ۔۔۔ تمہیں ڈش کی پڑی ہے ابرار اپنی بات پے ڈٹٹا رہتا ہے۔۔۔

کاکا سب کی باتوں پے کان لگائے ہوتا ہے۔۔۔”

دنیا میں ایسی بہت سی انہونی چیزیں ہوتی ہیں جنکا وجود عام آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا ایسے واقعات ان ویران جہگوں پے دفن بھی ہوسکتے ہیں ۔۔۔

اصغر کاکا کے لہجے میں کوئی خوف نہیں تھا بلکہ روانی سے اپنی بات جاری کیے ہوئے تھے۔۔۔

اور اسطرح کی جادوئی چیزوں کو آج کا دور نہ ہی مانتا ہے نہ ہی یقین رکھتا ہے۔۔۔۔

اس نے کچھ دیر کا توقف کیا پھر بولا۔۔۔

اور ہاں یہ جو ڈش بنائی گی ہے یہ بٹیر کی کالی کالی گول آنکھوں کو نکال کر شیر کے خون میں دھوکر فرائی کر کے آپکی خدمت میں پیش کی ہیں ۔۔

ردا یہ سن کے الٹی آنے کی وجہ سے منہ پے ہاتھ رکھ لیتی ہے۔۔۔

موحد کھانے سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔۔۔ حیرانگی سے کاکا کی طرف دیکھتا ہے۔۔۔

ابرار بیچارہ کالی آنکھوں کا سن کے کانپنے لگتا ہے۔۔۔

اااصغر کاکا۔۔۔ آاپ مذاق بہت اچھا کر لیتے ہیں ۔۔۔ ردا خوفزدہ انداز میں بولی۔۔۔

لیکن اصغر کاکا بنا کوئی جواب دئے چہرے پے سنجیدگی لائے وہاں سے چلے جاتے ہیں ۔۔۔

میر سب کے اترے چہرے دیکھ کر قہقہہ لگاتا ہے۔۔۔

کشش ہنوز خاموش تماشائی ہوتی ہے۔۔۔

کم آن یار۔۔۔

تم لوگ کاکا کی باتوں میں آگے وہ بس مذاق کر رہے ہونگے۔۔۔

میر سبکو ٹرانس سے نکالتا ہے۔۔۔

موحد سنجیدگی سے روہانسی ہوکر بولتا ہے۔۔۔ اتنا سنجیدہ مذاق کون کرتا ہے۔۔۔

ہاں یار۔۔۔ ابرار بھی ہاں میں ہاں ملاتا ہے۔۔۔

کچھ توقف کے بعد اصغر کاکا دوبارہ لوٹتے ہے۔۔۔” سب ناشتہ کر چکے ہوتے ہیں ۔۔۔”

موحد کاکا کو دیکھتے ابرار کے کان میں سرگوشی کرتا ہے۔۔۔ یار یہ کاکا آخری بار کب ہنسا ہوگا۔۔۔

شششی چپ کرو تم لوگ ردا موحد کی بات سنتے خاموش رہنے کا کہتی ہے۔۔۔

موحد ردا کی طرف دیکھتے ہوئے گردن ہلاتے ہوئے کندھے اچکاتا ہے۔۔۔”

(جیسے کہہ رہا ہو مجھے مجبور کیا گیا انکو دیکھ کے یہ پوچھو )

کچھ توقف کے بعد

موحد باہر کی اجلی نیچرلی چیزوں کو کیمرے کی آنکھ میں مقید کر رہا ہوتا ہے۔۔۔ “

ابرار بھی اسکے پیچھے لگا ہوتا ہے۔۔ پلیز یار بسسس ایک فوٹو لے لے پیاری سی۔۔۔

ابرار موحد سے بار بار تصویر لینے کا اسرار کرتا ہے۔۔۔

اوہ گینڈے تیری کوئی چھتیس تصویریں لے چکا ہوں ہر تصویر میں تیرا ہاتھ منہ میں پھنسا ہوا ہے۔۔ تو پہلے آرام سے ٹھونس لے۔۔۔ پھر آنا چل نکلو یہاں سے مجھے تنگ نہ کرو اور تو اتنا موٹا ہے تصویر بھی چھتیس ٹکروں میں آئی ہے۔۔

موحد ایک سٹیچو کی تصویر لیتا ہے جو محل کے وسط میں باہر کی جانب نصب ہوتا ہے۔۔۔”

اور سناؤ کیسا چل رہا ہے فوٹو شوٹ۔۔ میر موحد کو کلک کرتے کہتا ہے۔۔

بس دیکھ لے۔۔۔ اچھا پکس دیکھا۔۔۔ موحد باری باری ساری پکس دیکھاتا ہے۔۔۔ ہوں کمال کی ہیں بیٹا تو بہت آگے تک جائے گا۔۔۔ میر موحد کی گرافکس کی تعریف کرتے ہوئے کندھے پے ہاتھ مارتا ہے۔۔۔” دونوں مسکرانے لگ جاتے ہیں ۔۔۔۔

کشش دروازے سے سبکو باتوں میں مگن دیکھتی ہے۔۔۔

اردگرد نگاہ دوڑاتی ہے۔۔۔”

ارے کشش وہاں دیکھو کتنے پیارے پھول ہیں چلو دیکھتے ہیں کشش کا ہاتھ تھامے سائیڈ پے بنی پھولوں کی کیاریوں کی طرف چلی جاتی ہیں۔۔۔”

واؤ ریڈ روز کتنے فریش لگ رہے ہیں نااااں۔۔۔

اس ویرانے میں کون دیکھ بھال کرتا ہوگا انکی۔۔۔۔

بہت نایاب نسل کے ہیں یہ پھول انہیں توڑنے کی غلطی مت کرنا۔۔۔

اصغر کاکا ردا کی لیفٹ سائیڈ پے کھڑے اسے تنبہہ کرتا ہے۔۔۔

دونوں چونک کے دیکھتی ہیں ۔۔۔

ردا دل پے ہاتھ رکھتی ہے افف کاکا ڈرا دیا کیا جن کی طرح یک دم نازل ہوجاتے ہیں ۔۔۔

آخر کیا برا ہوگا ایک توڑ لینے میں کیا حرج ہے۔۔ کشش کاکا سے مخاطب ہوتی ہے۔۔ ہاااں کاکا یہ سہی کہہ رہی ہے…

میرا کام صرف آگاہ کرنا تھا ۔۔۔

اصغر کاکا جنگل کی طرف نکل جاتے ہیں ۔۔۔

یار میں اس اصغر کاکا سے بہت تنگ ہوں ۔۔۔ اتنے سیریس ہوکے بات کرتے ہیں یہ۔۔۔

سارے موڈ کی بینڈ بجا دی چلو اندر چلتے ہیں ۔۔۔

ہہم تم جاؤ میں ابھی آتی ہوں ۔۔۔

کشش جو کب سے پھولوں کو دیکھ رہی ہوتی ہے۔۔۔ ادھر ہی تکتے ہوئے کہتی ہے۔۔۔

اچھا جلدی آنا پھر میں ان نمونوں کو دیکھ لوں ۔۔ ردا میر لوگوں کی طرف اشارہ کرتے کہتی ہے۔۔۔

موحد ردا کو دور سے آتے دیکھ کر ہاتھ ہلاتا ہے۔۔۔

موحد کے ہاتھ کے اشارہ، کے تعاقب میں سے میر اور ابرار ادھر ہی دیکھتے ہیں ۔۔

کشش پھولوں کے پاس جھک کے بیٹھ جاتی ہے۔۔ انکے اوپر ہاتھ پھیرتی ہے۔۔۔

پھول چمکنے لگ جاتے ہیں اسکے اندر سے سترنگی روشنی قوس و قزاع کی طرح نکلتی ہے۔۔۔

پھول خوبصورت سات رنگوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں ۔۔۔

نا چاہتے ہوئے بھی کشش پھولوں کو توڑ لیتی ہے۔۔۔”

اسکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتاہے۔۔۔

اپنے سر پے کسی کا لمس محسوس کرتی ہے ۔۔۔

آہستہ آہستہ آنکھیں کھولتی ہے۔۔۔”

بیڈ کے اطراف میں دیکھتی ہے ۔۔۔

اسکے پاس جن زاد بیٹھے مسکرا رہا ہوتا ہے۔۔۔

“شہزادی آپکو ہماری یاد آئی تھی تو بس پکارا ہوتا ۔۔۔ ہم حاضر ہو جاتے لیکن آپ تو سیدھا ہمارے پاس چلی آئی۔۔۔

کشش اٹھنے کی کوشش کرتی ہے۔۔۔”””

آاا نہ شہزادی ایسے ہی رہے آپ۔۔۔”

جن زاد اسے اٹھنے سے روکتا ہے۔۔۔

گردن کا رخ دوسری جانب کرتی ہے

ہاتھ میں وہی پھول ہوتا ہے۔۔۔

ہااں یہ۔۔۔۔ یہ پھول۔۔۔ بے اختیار کشش کے منہ سے نکلتا ہے۔۔۔”

جو چیز ہماری شہزای چاہے اور وہ نہ آئے ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔

آپ سے ہم نے جینا سیکھا ہے آپ جان ہو ہماری۔۔۔

یہاں ۔۔۔ یہاں دل نہیں بلکہ آپ بسی ہو ۔۔۔

جن زاد دل پے ہاتھ رکھے جنونی انداز میں کہتا ہے۔۔۔”

کشش بے خوف ہنسنے لگ جاتی ہے۔۔۔

مجھ سے جینا سیکھا ہے۔۔۔؟ کیسے۔۔۔

آپ نہیں جانتی یہ ہنسی کتنی قیمتی ہے آپ کا ہنسی ہمارے اندر ایک نئی روح بھونک دیتی ہے شہزادی ہم آپ کے لئے قربان ہوسکتے ہیں۔۔۔

سہی کہا ہم مر کے بھی آپ پے مر گے شہزادی ۔۔۔

جن زاد کی باتوں میں والہانہ تڑپ ہوتی ہے۔۔۔ ناچاہتے ہوئے بھی کشش کو اس پے ٹوٹ کے پیار آتا ہے۔۔۔

ہاتھوں کو سیدھا کرتے کہتی ہے۔۔۔ میں تو آپ کا نام بھی نہیں جانتی ۔۔۔

جن زاد کشش کے بالوں میں پھول لگائے کہتا ہے۔۔۔

“بالاج۔۔۔”

آپ ہم کو بالاج پکار سکتی ہے ۔۔۔

بالاج۔۔۔ کشش نے زیر لب دوہرایا۔۔۔۔

لیکن۔۔۔!!

ہمم شہزادی آج بےخوف وہ سب کہہ دیں جو آپکے دل میں ہے ہم قطعی غصہ نہیں کرے گے۔۔۔

بالاج کشش کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے ۔۔۔

کشش بیڈ پے بیٹھے خوبصورت نقوش والے شخص کو دیکھتی ہے۔۔۔

شہزادی ہاتھ تھامے۔۔۔

کشش کب سے تکے جارہی تھی بالاج کے کہنے پے ہوش میں آتی ہے۔۔۔

کشش بالاج (جن زاد) کے ہاتھ پے ہاتھ رکھتے پوچھتی ہے کہاں جارہے ہیں ہم۔۔۔

بالاج چہرے پے مسکراہٹ سجائے کہتا ہے۔۔۔ اس جہاں سے الگ دوسرے جہاں لے جانا چاہتا ہوں ۔۔۔

اپنے دامن ميں بسانا چاہتا ہوں دنیا سے دور الگ جہاں بسانا چاہتا ہو۔۔۔”

گردن ہلائے کہتی ہے۔۔۔ مطلب میں سمجھی نہیں آپکی بات۔۔۔

بالاج کشش کو بازوؤں سے تھام کے اپنے سامنے کر لیتا ہے۔۔۔”

اسکے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام کے اپنے سر کے ساتھ لگا لیتا ہے۔۔۔

کشش آنکھیں بند کر لیتی ہے۔۔۔”

ردا بے چینی سے کمرے میں ادھر ادھر چکر لگاتی ہے۔۔۔ کہاں رہ گی یہ کشش کی بچی ایک تو ویران جگہ لا بھٹایا۔۔۔ اوپر سے یہ سب پتا نہیں کدھر نکل گے۔۔۔

ردا ایک بار پھر کھڑکی سے نیچے جھانکتی ہے جہاں کچھ دیر پہلے موحد کے ساتھ سب تصویریں بنانے میں مگن تھے لیکن کشش پھولوں والی جگہ سے غائب تھی۔۔۔

بس اب بہت ہوگیا میں ہی دیکھ کے آتی ہوں ۔۔ کب تک یونہی بیٹھی رہو گی۔۔۔

ردا خود سے باتیں کرتے ہوئے باہر نکلتی ہے۔۔۔

محل کو دیکھتے ہوئے جاتی ہے کبھی چھت کو دیکھتی ہے وہاں خوبصورت ڈیزائن نقش ہوتا ہے۔۔۔

واؤ۔۔۔ بے اختیار اسکے منہ سے نکلتا ہے۔۔۔”

چلتے چلتے ردا اچانک رک جاتی ہے۔۔۔ عقب کی طرف مڑ کے دیکھتی ہے۔۔۔

یہ کمرہ۔۔

یہاں دیکھتی ہوں شاید کوئی یہاں پے ہو۔۔۔”

دروازہ جام ہوتا ہے کافی عرصہ بند رہنے کی وجہ سے۔۔۔

افف کھل جا۔۔۔ کھل جا سم سم۔۔۔

ردا بمشکل کافی جدوجہد کے بعد دروازہ کھولتی ہے۔۔۔”

دروازہ کھولتےہی وہاں عجیب سیا دھواں اڑتا ہے اور وہاں خون کے نشانات ہوتے ہیں خون کافی مقدار میں جمع ہوا ہوتا ہے۔۔ بہت بدبو بھی پھیلی ہوتی ہے۔۔۔ ردا اکلائی لیتی ہے۔۔۔ بدبو کی وجہ سے منہ پے ہاتھ رکھ لیتی ہے۔۔۔

یہ سب کیا ہے۔۔۔؟

آہستہ آہستہ ڈرتے ہوئے آگے قدم بڑھاتی ہے۔۔۔ اسکے پیر سے نیچے گری کوئی چیز ٹچ ہوتی ہے۔۔۔

خوف کے مارے کانوں پے ہاتھ رکھے چینخ مارتی ہے۔۔۔

ہانپتے ہوئے پیچھے کو ہوتی ہے۔۔۔

آپ کو یہاں نہیں آنا چاہئے تھا ۔۔ اصغر کاکا کی آواز عقب سے ابھرتی ہے ۔۔۔

ردا پیچھے مڑتی ہے۔۔۔

کاکا ہمیشہ کی طرح جھکے ہوئے کمر ہے رومال ڈالے آنکھوں کو اوپر کی جانب کرے شاطرانہ طرز سے دیکھتے ہے۔۔۔

وہ۔۔۔۔ یہ۔۔۔ خ خ۔۔۔ خون۔۔۔

ردا پوری طرح خوف سے چور ہوتی ہے۔۔۔ اٹک اٹک کے کہتی ہے۔۔۔

آپ گھبرائے نہیں یہ کسی جانور کا ہوگا۔۔۔ کوئی جانور مر گیا ہوگا۔۔۔ چلیں آپ۔۔۔

اصغر کاکا ردا کو باہر بھیجنا چاہتا تھا۔۔

ردا کا چہرہ پیسنے سے شرابور ہوتا یے دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی ہے۔۔

چلے یہاں سے میں صاف کر دونگا۔۔۔۔

ردا کمرے سے نکل کے گہری سانس لیتی ہے ۔۔”

چہرے پے آئے پسینہ کو صاف کرتی ہے بہت گھبرائی ہوئی ہوتی ہے۔۔۔

توبہ یہ سب کیا تھا۔۔۔

کچھ ہی دیر میں تمام دوستوں کی آوازیں آتی ہیں ۔۔۔ ردا کھڑکی سے باہر جھانک کے دیکھتی ہے۔۔۔ پھر تیزی سے باہر کی طرف جاتی ہے۔۔۔

تم سب لوگ کہاں تھے۔۔۔

ردا ہانپ رہی ہوتی ہے۔۔۔

ارے سانس لو آرام سے ایسے کیوں ہانپ رہی ہو ڈری سہمی کیوں ہو۔۔

موحد ردا کو مطمئن کراتا ہے۔۔۔

موحد چلو یہاں سے۔۔ میں اب یہاں نہیں رکو گی۔۔۔ یہاں کچھ تو عجیب ہے۔۔۔

میر سینے ہے ہاتھ باندھے کھڑا ہوتا ہے۔۔۔

تم ہی لوگوں کو شوق تھا یہاں آنے کا اور یہ بھکڑ بھی یہاں سے فرار ہونا چاہتا ہے۔۔۔

میر ابرار کے بیٹ پے ہاتھ مارتا ہے۔۔

کشش کشش کہاں ہے۔۔۔

وہ تمہارے ساتھ تھی ناں۔۔۔

میر حیرانگی سے کہتا ہے۔۔۔

نہیں ۔۔

میرا مطلب ہااں۔۔

کچھ دیر پہلے میرے ساتھ تھی۔۔۔۔ ردا کنفیوژ تھی ۔۔۔۔”

ابھی ہم جنگل کی طرف سے آرہے ہیں وہاں عیجب طرح کا حادثہ ہوا ہمارے ساتھ۔۔۔

کچھ تو غلط ہے جو یہاں ہو رہا ہے۔۔۔ میر تھوڑی پے ہاتھ رکھے سوچتے ہوئے کہتا ہے۔۔۔

کشش ۔۔۔۔

کشش کو ڈھونڈ نا ہوگا۔۔۔

کشش آنکھیں کھولتی ہے اسکی آنکھوں کے سامنے پانچ سال والا منظر آجاتا ہے۔۔۔

ماضی۔۔۔”

پانچ سال پہلے کسی سے محبت کرتی تھی گھر والوں سے دور ایک انجان شہر کے انجان باسی پے اپنا دل ہار بیٹھی لیکن عین نکاح کے وقت وہ شخص نہیں آیا۔۔ سب نے اسکا مذاق اڑایا۔۔۔ کشش نے خود کو زندگی سے آزاد کر دینا چاہا۔۔۔ دنیا کا محبت کے بدلے محبت کی بجائے دھوکہ دینا پرانا رواج یے کشش اسے فراموش کر کے محبت کی رہ پے چلی گی تھی۔۔۔ کشش کی زندگی ردا نے بچائی ۔۔۔ااس آخری وقت میں ساتھی بنی اور آہستہ آہستہ زندگی کی طرف واپس لے کے آئی

کشش کے سامنے وہ تمام منظر کسی ریکارڈ فلم کی طرح چل رہا ہوتا ہے۔۔

کشش کے گرتے آنسو موتی میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔۔۔ وہ یہ دیکھ کے حیران ہوجاتی ہے۔۔۔

یہ تو ۔۔۔۔ یہ تو بہت عرصہ پہلے ہوا تھا مطلب تم یہ سب جانتے ہو ۔۔۔ اور تم سب یہ کیسے جانتے ہو ۔۔

مطلب آج کیوں بتایا۔۔۔

آخر یہ سب کیا ہے۔۔۔ بالاج۔۔۔۔

تم مجھے یہ سب کیوں دیکھا رہے ہو۔۔

میں جس بات کو اپنے دل میں دفن کر چکی ہوں مجھے وہ مت دکھاؤ۔۔۔

کشش روہانسی ہوئی چہرے پے ہاتھ رکھ لیتی ہے ۔۔

شہزادی۔۔۔

آپکا رونا مجھے چھلنی کر دیتا ہے۔۔۔ آپ ایسے مت روئے۔۔۔ بالاج کشش کو سینے سے لگا لیتا ہے۔۔۔ آپ نہیں جانتی یہ آنسو میرے دل پے گرتے ہیں اور میں تڑپ اٹھتا ہوں ۔۔۔ آپ مجھے درد دے رہی ہیں شہزادی رو کر۔۔۔

کشش سوں سوں کرتے ناک رگڑتی ہے۔۔۔

بالاج سے الگ ہوتے کہتی ہے۔۔۔ پھر مجھے یہ سب کیوں دیکھا رہے ہو ۔۔

جن زاد ہاتھ کے اشارے سے تمام پرچھائیوں کو پرے کرتا ہے۔۔۔

لو جی خوش، اب یہ سب ہم نہیں دیکھائے گے۔۔۔”

„لیکن ایک چیز دیکھانا چاہو گا۔۔۔„

اور وہ کیا ہے بالاج۔۔۔

کشش تجسس سے پوچھتی ہے۔۔۔!

جن زاد مڑتے ہوا ہاتھ ہوا میں لہراتا ہے۔۔۔ آنکھیں بند کر لیتا ہے۔۔۔ کچھ دیر اسی حالت میں رہتا ہے۔۔۔ آنکھیں کھولنے کے بعد کشش کی طرف رخ کرتا ہے اسکے ہاتھ میں لال رنگ کا خوبصورت ڈبہ ہوتا ہے۔۔۔

اسکے کھلتے ہی سفید موتی ہوا میں ہوتے ہیں ۔۔۔

آنکھوں کو چندھیا دینی والی تیز روشنی نکلتی ہے۔۔

کشش ہاتھ کو آنکھوں کے سامنے کر لیتی ہے

دیکھتے ہی دیکھتے سفید موتی خوبصورت ہار میں تبدیل ہوجاتے ہیں ۔۔۔

ہار ابھی بھی ہوا میں لہرا رہا ہوتا ہے۔۔۔

شہزادی۔۔۔

یہ آپکے لئے ۔۔۔

„کیا سچ میں „۔۔۔ بہت خوبصورت ہے یہ تو۔۔۔

جن زاد ہار کو کشش کے گلے میں پہنا دیتا ہے۔۔۔

کشش کے آنسو سے بنے موتیوں کا ہار اب اسی کے گلے میں ہوتا ہے۔۔۔

شہزادی مجھ سے شادی کرے گی آپ۔۔۔

کشش پہلے تو حیران ہوتی ہے۔۔۔

کچھ توقف کے بعد جن زاد اپنا سوال دوہراتا ہے۔۔۔

کشش بنا سوچے سمجھے اثبات میں سر ہلا دیتی ہے۔۔۔

جن زاد خوشی سے کشش کو گلے لگا لیتا ہے۔۔۔

میر تم اسے بھی اپنے ساتھ لے جاتے۔۔۔ اب اتنے بڑے محل میں کہاں ڈھونڈے گے۔۔۔ موحد پریشانی سے کہتا ہے۔۔۔

ابرار خوف سے کانپ رہا ہوتا ہے۔۔۔ مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے۔۔۔

جنگل میں ندی بھی تھی جب موحد تصویر بنا رہا تھا وہاں پے عجیب سی آوازیں آرہی تھی۔۔۔ ہم نے سمجھا شاید کسی جانور کی ہوگی کیونکہ دور دور تک کوئی آدم ذات موجود نہیں تھا۔۔۔”

ہذیانی قہقہوں کی آوازیں چاروں طرف سے آنے لگی ۔۔۔ ابرار نے بات کرتے ہوئے جھرجھری لی۔۔۔

مجھے بھی بہت ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔

ریلیکس ہم کشش کو تلاش کرتے ہیں پھر بس نکلتے ہیں ۔۔۔

میر تسلی دیتے ہوئے باہر نکل جاتا ہے۔۔۔

میر تم کہاں جا رہے ہو۔۔۔

موحد آواز لگاتا ہے۔۔۔

“بس ابھی آیا۔۔۔ شاید کشش، باہر ہی ہو دیکھتا ہوں۔۔ ٹھیک ہے ہم اندر تلاشتے ہیں ۔۔۔”

کچھ توقف کے بعد۔۔۔

تم کہاں تھی کشش سب کتنا پریشان ہوگے تھے۔۔ ارے کہا جانا تھا یہی تھی بس۔۔۔ اچھا پیکنگ کر لو ہم آج ہی واپس جائے گے۔۔

لیکن کیوں اتنی جلدی۔۔۔ کشش جانے کو تیار نہیں ہوتی۔۔۔

ہاں بسس کہہ دیا۔۔

واہ بھئی مہارانی سیر سپاٹوں سے آگی واپس۔۔۔ میر طنزیہ کہتا ہے۔۔۔ ہممم تم سب لوگ جا رہے ہو۔۔۔ جی محترمہ آپ بھی تیاری کرے بس۔۔۔

تم اس سے شادی نہیں کرسکتے۔۔۔ وہ ایک انسان ہے تم جانتے ہو وہ مر جائے گی۔۔۔ نہیں بی جان میں اسے مرنے نہیں دونگا ۔۔۔

میں نے فیصلہ کر لیا ہے میں کشش سے شادی کرونگا وہ بھی مجھ سے محبت کرتی ہے۔۔ مجھے بہت عرصے بعد کسی سے شدید محبت ہوئی ہے۔۔۔ میں اب کسی قانون کسی بات کو نہیں مانو گا۔۔۔”

بالاج اٹل لہجے میں کہتا ہے۔۔۔”

وہ بھی میرے بغیر جی نہیں پائے گی میں جانتا ہوں ۔۔۔ ویسے بھی مجھے اس انسانی روپ میں رہنا اچھا لگتا ہے۔۔۔

بالاج اٹوٹ انداز میں بی جان کو بتا رہا ہوتا ہے۔۔۔ لیکن بیٹا تم جن زاد ہو ہمارے نئے شہزادے اس جن نگری کے وارث۔۔۔ یہاں ہزاروں جن زادیاں مل جائے گی اس لڑکی کو چھوڑ دو۔۔۔

مجھ سے مت الجھے بی جان بس ایک بار شادی ہو جائے وہ صرف میری ہوجائے گی، بالاج کی۔۔۔

جن زاد ہاتھ پھیلائے بلند آواز سے کہتا ہے۔۔

اور جو کوئی ہمارے درمیان آئے گا۔۔ ۔۔۔ تو۔۔۔ ہاہا ہا۔۔

سپاٹ لہجے میں کہتا ہنستا ہے۔۔۔”

لیکن بیٹا جب اسے سچائی پتا چلے گی تب خود انکار کر دی گی۔۔۔

بی جان میری بھولی بی جان۔۔۔ بالاج بی جان سے لپٹ کے کہتا ہے۔۔

میں بالاج ہوں اور کبھی کوئی کام ادھورا نہیں چھوڑتا پانچ سال۔۔۔ “

پانچ سال انتظار کیا اس دن کے لئے ۔۔۔ یہ میرے لئے آسان نہیں تھا۔۔۔

بالاج اپنی بات کہتے اندھیرے میں غائب ہوجاتا ہے۔۔۔

اوئے گینڈے تجھے کشش ملی کیا۔۔۔ موحد ابرار کا منہ چلتے دیکھ کے بے اختیار کہتا ہے۔۔۔ نہیں ملی فضول میں یہاں آئے ہم میرے دادا کی حویلی سہی ہے جو اسطرح خوفناک تو نہیں ہے۔۔۔

ابرار منہ بسورے کہتا ہے۔۔۔”

ہمم چلو کافی دیر ہوگی یے میر بھی اب گم ہوگیا دیکھتے ہیں ردا کے پاس چلتے ہیں ۔۔۔

ہاں چلو۔۔۔”

دونوں دوست ردا اور کشش کے مشترکہ کمرے کی طرف بڑھتے ہیں ۔۔ اچھا ابرار تم چلو میں زرا پانی پی کر آیا۔۔ راستے میں کچن کو دیکھتے موحد کو خیال آتا ہے۔۔۔

اور ہاں اگر کچھ کھانے کو ملے تو لیتے آنا۔۔۔ ابرار چنے چباتا آگے نکل جاتا ہے۔۔۔۔”

موحد دونوں ہاتھوں کو چہرے پے پھیرتا نل سے پانی لیتے ہوئے پینے ہی لگتا ہے کہ دیکھتا ہے کہ پانی کا رنگ تبدیل ہوجاتا ہے۔۔۔

گلاس کو پھینک کے مارتا یے۔۔۔ اور دوڑتا ہوا کمرے میں جاتا ہے۔۔

بھاگتے ہوئے ردا کے کمرے میں جا کر بھولی سانس بحال کرتا ہے۔۔۔

{تہ چرتہ مقابلہ کے حصہ اخلی سو چی داسی منڈے وخی…”}

اررے تم کیا ریس میں حصہ لے رہے ہو جو اسطرح بھاگتے پھر رہے ہو۔۔۔

“کشش بے ساختہ کہتی ہے۔۔۔”

ردا گھوررتے ہوئے کشش کو دیکھتی ہے۔۔۔

کشش نے مسکراتے ہوئے کہا تھا ردا کو سمجھ تو کچھ نہ آئی لیکن گھورا ضرور۔۔۔

تمہیں یہ سب مذاق لگ رہا ہے اس سے یہ پوچھنے کی بجائے کہ کیا ہوا ہے۔۔۔ الٹا باتیں بنا رہی ہو۔۔۔ پتابھی ہے ہم سب کتنے پریشان تھے۔۔۔

کشش نے تذبذب کی سی کیفیت میں سر جھٹکا۔۔۔”

ریکیلکس ردا ۔۔۔ کیا ہوا گیا تم ایسے کیوں ری ایکٹ کر رہی ہو۔۔۔

کشش تمہیں معلوم بھی ہے یہاں کیا ہوا رہا ہے۔۔۔ میر ردا کو خاموش رہنے کا اشارہ کرتےہوئے کشش سے مخاطب ہوتا ہے۔۔۔

تم دونوں آپس میں مت الجھوں۔۔۔ میں سب بتاتا ہوں ۔۔۔

موحد ہنوز اسی حالت میں ہوتا ہے۔۔۔ ابرار اسے پانی پلاتے ہوئے کندھے سہلاتا ہے۔۔۔”

دیکھو کشش مجھے نہیں معلوم تم کچھ جانتی ہو یا نہیں لیکن مجھے اتنا پتا ہے تم ہم سے کچھ چھپا رہی ہو ہر کام میں تمہاری خاموشی کھٹک رہی ہے۔۔۔

کشش ابرو اچکائے کہتی ہے۔۔۔

“تو اب مجھے تمہیں بتانا ہو گا کہ کیا سہی ہے اور کیا غلط۔۔۔”

کبھی کبھی پر اسرار چیزیں انسان کو اندھیرے میں دھکیل دیتی ہیں جہاں وہ اکیلا رہ جاتا ہے۔۔۔

میر اپنی بات اطمینان سے کرتا ہے۔۔۔

میں کچھ نہیں چھپا رہی اور ہااں جیسے جانا ہے وہ شوق سے جا سکتا ہے میں کسی کو زبردستی ساتھ نہیں لائی تھی۔۔۔

ابرار تم موحد کو کمرے میں لے کر جاؤ اور دیکھو کہی چوٹ تو نہیں لگی۔۔۔

ہم صبح اس ٹاپک پے بات کرے گے۔۔۔ موحد ابرار کے ساتھ چلا جاتا ہے۔۔۔ رکو میں بھی تمہارے ساتھ چلتی ہوں ردا پیچھے سے آواز دے کے کہتی ہے۔۔۔

(کشش کو غصے سے گھورتے اسکے سامنے سے نکل جاتی ہے)

میر بھی جانے لگتا ہے۔۔

کشش میر کے چہرے کے سامنے ہاتھ گھماتے چٹکی بجاتی ہے۔۔۔

بس اتنا ہی کہنا تھا میر صاحب ۔۔۔

“میر غصے بھری نگاہوں سے کشش کو دیکھتا ہے۔۔ “

اگر تمہاری وجہ سے میرے دوستوں کو نقصان پہنچا تو اسکا ہرجانہ تم بھرو گی۔۔۔

میر انگلی اٹھا کر وارن کرتا ہے۔۔۔

کشش بس دیکھتی رہتی یے۔۔

میں آخری بار پوچھ رہا ہوں مجھ سے کچھ مت چھپاؤ۔۔۔ “میر لفظوں کو چبا چبا کے ادا کرتا ہے۔۔۔”

کیا جاننا چاہتے ہو۔۔۔ ہااں۔۔۔

کیا، بتاوں۔۔۔

کشش کے بازوں کو اپنی گرفت میں لیتا ہے۔۔۔ تم ہی یہاں آئی تھی اس جگہ کا صرف تمہیں علم تھا ۔۔۔

میر کشش کو بازو سے پکڑ کے جھٹکے دیتا ہے۔۔

چھوڑو میر مجھے درر ہورہا ہے۔۔۔

میں یہ درد تمہیں دینا نہیں چاہتا کشش، لیکن اپنے دوستوں کے لئے کچھ بھی کرونگا سمجھی۔۔۔

میر جھٹکے سے کشش کو چھوڑتے ہوئے تن فن کرتا باہر نکل جاتا ہے۔۔۔

کشش اپنا بازو سہلاتی ہے جو میر کی مضبوط گرفت میں سُن ہوچکا تھا۔۔۔

پاگل کہی کا کیا سمجھتا ہے خود کو اور ردا کو بھی میرے خلاف کر دیا ہے۔۔۔

کشش غصے میں میر کو برا بھلا کہتے باہر نکل آتی ہے۔۔۔

لوفر بدتمیز کہی کا ایسے کسی لڑکی کو زور سے پکڑتے ہیں ۔۔۔

ابھی تک درد ہو رہا ہے۔۔۔

میر کیا ہوا تو اتنے غصے میں کیوں ہے۔۔۔ ؟

“موحد میر کو غصہ کی حالت میں دروازہ بند کرتے کہتا ہے۔۔۔”

بس کچھ نہیں یار تو سنا اب کیسا محسوس کر رہا ہے۔۔۔”

ہممم میں بہتر ہوں ۔۔۔

میر ہمیں کچھ کرنا ہوگا صبح ہوتے ہی جائے گے یہاں سے بس کشش کو منانا ہے۔۔۔ میں اسے بھی ساتھ لے کر جاؤ گی ناجانے کن خیالوں میں مگن ہوتی ہے۔۔

ہاں بالکل۔۔۔ ابرار بھی حامی بھرتا ہے۔۔۔

ہممم مشکلات کا مطلب یہ تھوڑی ہوتا ہے کہ ہم سب چھوڑ کے بھاگ جائے بلکہ اسے حل کرنا ہوتا ہے ہم نے ہار نہیں ماننی نہ کسی کو اپنے اوپر غالب آنے دے گے

میر سبکو سمجھاتا ہے

اگر ہمیں کچھ ہوگیا مطلب ہم مر گے یہاں سے نہ نکل سکے پھر۔۔۔ “ابرار نے ڈرتے ہوئے کہا۔”

تم اب نحوست نہ پھیلاؤ۔۔

“موحد نے غصے میں کہا”

کشش لان میں ٹہل رہی ہوتی ہے آسمان پے لال رنگ کی سرخی بکھری ہوتی ہے ۔۔۔

لان میں چکر لگاتے ہوئے اسکا پیر کسی چیز سے ٹکراتا ہے۔۔۔

آؤئچ۔۔۔۔””

کشش درد سے کراہاتی ہے۔۔۔

اب کیا مصیبت ہے نیچے بیٹھ کر پاؤں پے لگی چیز دیکھتی ہے۔۔۔”

کسی نوکیلی چیز کے لگنے سے انگوٹھے سے خون ریس رہا ہوتا ہے۔۔۔”

کشش ہاتھ سے صاف کرتی ہے۔۔۔

آنکھوں سے درد کی وجہ سے آنسو امڈ آتے ہیں ۔۔۔

یہ بھی ہونا باقی تھا دوست الگ مجھ سے ناراض ہیں اب یہ ۔۔۔

اففف سہی کہتے ہیں مجھے آنا ہی نہیں ۔۔۔۔

شہزادی ۔۔۔۔

کشش اپنی بات مکمّل نہیں کر پاتی کہ بالاج کی آواز کان کی لو سے ہوا کی طرح ٹکراتی ہے۔۔۔”

کشش کے چہرے پے مسکراہٹ نمودار ہوتی ہے گال دہکنے لگتے ہیں ۔۔۔

کشش اٹھتے ہوئے اردگرد دیکھتی ہے وہاں کوئی موجود نہیں ہوتا۔۔۔

کندھے پے ہاتھ مارتے بالاج سامنے آتا ہے۔۔

شہزادی میں یہاں ہوں ۔۔۔

کشش پیچھے مڑتی ہے۔۔۔

آپ کب آئے۔۔۔؟

میں گیا ہی نہیں تھا آپکے پاس ہی تھا۔۔۔”

سیر پے چلیں گی ہمارے ساتھ تاکہ ہماری اداس شہزادی کا موڈ اچھا ہوجائے۔۔۔

جن زاد کشش کی لال ہوتی ناک کو چھو کے کہتا ہے۔۔۔

یہ بھی آپکو معلوم تھا کہ میرا موڈ خراب ہے۔۔۔

کہا ناں ہمیشہ سب معلوم ہوتا ہے۔۔۔”

بالاج گھٹنوں پے جھکتے ہوئے اسکے سامنے ہاتھ بڑھاتا ہے۔۔۔

کشش ہنستے ہوئے بالاج کا ہاتھ تھام لیتی ہے۔۔۔”

کچھ ہی لمحے میں وہ ایک خوبصورت باغ میں ہوتے ہیں ۔۔۔”

باغ تھا کہ گویا جنت کا نظارہ ہر طرح کے ہر نسل کے رنگ برنگے پھول اطراف میں پھیلے ہوتے ہیں آسمان پے قوس وقزع کے تمام رنگ بکھرے ہوتے ہیں نرم نرم گھاس مخملی سا احساس دیتی ہے۔۔۔

آس پاس تتلیاں بہت ہی انمول چڑیا اور فاختہ اڑ رہی ہوتی ہیں ۔۔۔

بالکل کشش کے ڈریم لینڈ والی جگہ ہوتی ہے۔۔۔ انوکھی اور پراسرار۔۔۔

پرندوں کے چہچہاہٹ مدھر سا سنگیت کانوں میں رس گھول رہا ہوتا ہے۔۔۔

سامنے خوبصورت آبشار اسکا چلتا شور ب

کانوں کو سکون پہنچاتا ہے۔۔۔”

کشش کا دل بے دھڑک دھڑکنے لگتا ہے۔۔۔

ایک دم اتنی حسین وادی میں پہنچ گی۔۔۔”

آنکھوں میں اتری چمک مانند پڑ جاتی ہے۔۔۔”

بالاج کا ہاتھ چھوڑ دیتی ہے۔۔۔”

شہزادی کیا ہوا۔۔۔؟ ایسے پریشان کیوں ہوگی۔۔۔

کشش کچھ نہیں کہتی خاموش رہتی ہے۔۔۔”

بالاج دوبارہ سے ہاتھ پکڑے کہتا ہے۔۔

محبت بہت میٹھا اور سادہ لفظ ہے لیکن تمہارے سامنے کچھ نہیں، تمہیں دیکھ کے مجھے لگا میری تلاش مکمل ہوگی ہے تم ہی وہ لڑکی ہو میری سانسوں کی تپش صبح کی پہلی سوچ ہو رات کا آخری خیال، تم میری خوشی میری زندگی میری دھڑکن میری جنت سب کچھ ہو میں اپنے اندر تمہیں سما لینا چاہتا ہوں ۔۔۔

یہ کہتے ہوئےاسکی کی آنکھوں میں دیکھتا ہے وہ اس سے نظریں چرا لیتی ہے۔۔۔”

بالوں کو کانوں کے پیھچے کرتی وہ سیدھا بالاج کے دل میں اتری تھی۔۔۔”

جن زاد اس مسحور کن ادا پے لٹ ہی تو گیا تھا۔۔۔”

اچھا شہزادی ایک بات بتاو۔۔۔

جن زاد( بالاج) نے کشش کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے کہا۔۔

جو اسکی گود میں سر رکھے لیٹی تھی۔۔۔

جی پوچھے۔۔۔

“مجھے اپنے دوستوں سے کب ملاؤ گی۔۔۔؟

آپکو میرے دوستوں سے ملنا ہے ۔۔۔؟ ٹھیک ہے صبح مل لے گے۔۔۔ بلکہ ایسا کرتے ہیں ابھی جاتے ہی ملوا دونگی۔۔۔”

کچھ توقف کے بعد۔۔۔

آپ چپ کیوں ہوگے۔۔۔

کشش اچانک بالاج کی خاموشی پے جھنجھلا کے بولتی ہے۔۔۔!

میں بول رہا تھا تھوڑی دیر پہلے۔۔۔

ہاں جی میں سن رہی تھی۔۔۔”

تم صرف میری ہو اور میری ہی رہنا۔۔۔ بالاج ایک ایک لفظ اطمینان سے اور پر سکون انداز سے کہتا ہے۔۔۔

تم دھڑکن ہو اور دھڑکن بنا دل بھی رک جاتا ہے۔۔۔

کشش سیدھا ہوتے ہوئے کہتی ہے۔۔۔

آپکی یہ دیوانہ وار باتیں اففف کبھی کبھی مجھے شدید ڈر لگتا ہے آپ سے۔۔۔

جن زاد مسکرانے لگتا ہے۔۔۔”

میں نے کہا بھی تھا اس لڑکی سے یہ اب نہ ملے تو کیسے ہوا یہ سب۔۔۔

ملکہ اصغر کاکا پے دھاڑتے ہوئے اپنی کرسی سے اٹھتی ہے۔۔۔

“وہ دونوں لال باغ میں کیا کر رہے ہیں …”

سہنرے رنگ کے بیضوی شکل والے گولے میں کشش اور بالاج کو دیکھ کے پیشانی شکن آلودہ ہوئی تھی۔۔۔

و۔۔۔ و۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔ ملکہ۔۔۔ میں ۔۔۔ وہ۔۔۔۔ سردار۔۔۔ پتا نہیں ک۔۔۔۔کیسے۔۔۔۔ مم۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔

آآااااااں بند کرو میمنانا ۔۔۔۔”

بی جان ہاتھ میں پکڑی چھڑی غصے سے زمین پے مارتی ہے۔۔۔

اس پے سانپ کی شکل کا مجسمہ بنا ہوتا ہے۔۔۔”

تم سے ایک کام نہیں ہو پایا اس لڑکی کے دوستوں کو نہیں بھگا سکے مجھے ہی کچھ کرنا پڑے گا۔۔۔

دفع ہو جاؤ گم کرو اپنی یہ شکل ایسا نہ ہو کہ سارا غصہ تم پے نکال دو۔۔۔

ج۔۔۔ج۔۔۔جی۔۔۔ ججج۔۔۔۔جی ملکہ ۔۔۔۔”

اصغر کاکا ہاتھ باندھے چہرے کو جھکائے کمرے سے باہر نکل جاتے ہے۔۔۔”

کشش سیر وتفریح کے بعد تھک جاتی ہے۔۔۔ اپنے کمرے میں جاتی ہے ردا وہاں موجود نہیں ہوتی۔۔۔

اوہ لگتا ہے میڈم ابھی تک ناراض ہے۔۔۔”

اففف اب کیا، بھی کیا جا سکتا ہے ۔۔۔

اونگھتے ہوئے منہ پے ہاتھ رکھتی ہے۔۔۔

بس اب صبح دیکھو گی مجھے تو بہت نیند آرہی ہے۔۔ “

کشش اپنی خواب گاہ کی طرف بڑھتی ہے اور خوابوں میں کھو جاتی ہے۔۔ “

کچھ توقف کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی اسکا لحاف اتار رہا ہو۔۔۔

کشش کھسماتے ہوئے پھر سے اپنے اوپر اوڑھ لیتی ہے۔۔۔

کچھ دیر بعد کوئی نوکیلی چیز اسکے پیروں کے تلووں پے چھبتی ہے۔۔۔

وہ پیر پے پیر رکھتے محسوس کرنے کی کوشش کرتی ہے۔۔۔۔ مسلسل جھبنے کی وجہ سے

کشش ہاتھ سے اپنا پیر پکڑ لیتی ہے۔۔۔

تنگ آکر اٹھ کے دیکھتی ہے۔۔۔”

کمرے کے لیٹ جلاتی ہے تو آس پاس بے شمار کالے رنگ کے سانپ رینگ رہے ہوتے ہیں ایک دو اسکے بستر پے بھی ہوتے ہیں ۔۔۔

کشش آنکھ بند کرتے زور سے چینخ مارتی ہے۔۔۔

میر ردا سمیت باقی سب اسکے کمرے میں آجاتے ہیں ۔۔۔

اچانک اندھیرا ہوجاتا ہے کشش کو کچھ دیکھائی نہیں دیتا۔۔۔

ردا ٹارچ مارتی کشش کو تلاش کرتی ہے۔۔۔

میر سوئچ بورڈ کو دیکھتا ہے۔۔۔

کچھ ہی دیر میں کمرہ روشن ہوجاتا ہے۔۔۔ کشش قد آور مضبوط شخص کے سینے سے لگی ہوتی ہے۔۔۔ میر اسے دیکھتے ہوئے کشش کا بازو پکڑ کے الگ کرتا یے۔۔۔

لیکن بالاج کشش کا دوسرا بازو تھامے ہوتا ہے۔۔ “

کشش کچھ سمجھتے ہوئے میر سے اپنا بازو چھڑاتی ہے۔۔۔

چھوڑو مجھے ۔۔۔

بالاج کے ساتھ جا کر کھڑی ہو جاتی ہے۔۔۔

سب خیریت ہے کشش تم چلائی کیو اور یہ کون ہے۔۔۔ ردا بالاج کی طرف اشارہ کرتے پوچھتی ہے۔۔۔

یہ بالاج ہے۔۔۔

معذرت میں اپنا تعارف کرواتا ہوں ۔۔۔

ہاں جی کروائے کیو نکہ آج سے پہلے آپ کبھی نظر نہیں آئے یہاں ۔۔۔۔ میر ماتھے پے بل ڈالے شکن آلود نگاہوں سے دیکھتا ہے۔۔۔

جی میں بالاج اس گھر کا مالک۔۔۔ کچھ اہم کام کے سلسلے میں شہر سے باہر گیا تھا آج ہی لوٹا ہوں اصغر کاکا نے آپ لوگوں کے بارے میں بتایا تھا ۔۔۔

سوچا آپ لوگوں سے صبح ملاقات کرونگا لیکن انکی چینخنے کی آواز سنی تو دوڑا چلا آیا۔۔۔

بالاج بہت ہی صضائی سے چھوٹ بولتا ہے۔۔۔

اچھا چھوڑو کشش تمہیں کیا ہوا تھا کوئی برا خواب دیکھا کیا۔۔۔ ؟

کشش سہمی سی بالاج کے پیچھے کھڑی تھی۔۔۔

دروازے کے باہر کشش کو کالے رنگ کا سانپ پھنکارتے ہوئے نظر آتا ہے۔۔۔

وہ۔۔۔۔ و۔۔۔وہ سانپ۔۔۔

ردا ہٹو تمہیں کاٹ لے گا۔۔۔

ردا دروازے کے پاس کھڑی ہوتی ہے۔۔۔

کہاں ہے سانپ ۔۔؟؟ اردگرد نگاہیں دوڑاتے کشش سے کہتی ہے۔۔۔

تتت۔۔۔تمہارے پیچھے ۔۔۔۔

کشش کانپتی انگلی سے اشارہ کرتے کہتی ہے۔۔۔”

خوف کے مارے کشش کا برا حال تھا۔۔۔

اچانک سے سب غائب ہوجانا وہ بری طرح چونک اٹھی تھی۔۔۔

لیکن بالاج کی پیشانی پے بل نمودار ہوئے تھے ۔۔۔

اصغر کاکا۔۔۔۔

اصغر کاکا۔۔۔۔

ااا۔۔ تیسری آواز دینے سے پہلے وہ اسکے سامنے ہاتھ سر جھکائے موجود تھا ۔۔۔

جاؤ کشش کے لئے فریش شربت لاؤ۔۔۔

آنکھوں ہی آنکھوں میں اصغر کو سمجھاتا ہے۔۔۔

آپ بے فکر رہے شہزادی، میرا مطلب کشش سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔

میر کو اسکے اتنا قریب جانا کھٹکا تھا۔۔۔ پہلی ہی نظر میں بالاج زہر لگا ۔۔۔

کچھ ہی دیر بعد کاکا ہاتھ میں گلاس لئے حاضر ہوتا ہے۔۔۔

لال رنگ کا گاڑھا محلول گلاس میں ہوتا ہے۔۔۔۔

بالاج کاکا سے گلاس تھامتے ہوئے کشش کو دیتا ہے۔۔۔

یہ پی لیں آپ بہتر محسوس کرے گی۔۔۔۔

کشش بالاج کو دیکھتی ہے۔۔۔

وہ آنکھوں سے پینے کا اشارہ کرتا ہے ۔۔۔ کشش گلاس لیتے ہی منہ کو لگائے سب پی جاتی ہے۔۔۔”

بالاج مسکرائے کہتا ہے امید ہے آپ اچھا محسوس کرے گی۔۔۔

اور پھر کمرے سے باہر نکل جاتا ہے اسکے ساتھ ہی میر اور باقی دوست بھی چلے جاتے ہیں ۔۔۔ ردا وہی کشش کے پاس ٹھہر جاتی ہے۔۔۔

بالاج دھاڑتے ہوئے کمرے میں داخل ہوتا ہے۔۔۔”

بی جان۔۔۔ !!!

یہ سب کیا تھا؟

“ہم نے آپکو بولا تھا اس لڑکی کو کچھ نہیں کہے گا کوئی بھی۔۔۔ بالاج کا چہرہ غصے سے لال ہوتا ہے اور گلے کی رگ غصے سے بھول رہی ہوتی ہے۔۔۔”

میں اس جہاں کو آگ لگا دونگا اگر کشش کو ایک خراش تک بھی آئی۔۔۔ ہم جانتے ہیں آپ ہم پے نظر رکھے ہوئے ہیں لیکن بی جان اگر اب اسے ڈاریا تو ۔۔۔۔

تو آپ میرا چہرہ کبھی نہیں دیکھ سکے گی۔۔۔”

جسطرح پھنکارتے ہوئے داخل ہوا تھا ویسے ہی پلٹ جاتا ہے۔۔۔

لمبے قدم اٹھاتا اندھیرے والی جگہ پے غائب ہوجاتا ہے۔۔۔”

ملکہ کرسی پے سرد جمی بیٹھی کی بیٹھی رہ جاتی ہے۔۔ “

کیونکہ وہ جانتی تھی بالاج اپنی بات کا پکا ہے۔۔ اور جو کہتا ہے وہ کر کے ہی دم لیتا ہے۔۔۔”

معمول کے مطابق سب لوگ کھانے کی میز پے موجود ہوتے ہیں ۔۔۔ میر کشش کے بولنے کا انتظار کر رہا ہوتا ہے کہ رات والے واقعے کی وضاحت دے گی ۔۔۔

ابرار خاموشی سے تنگ آئے کہتا ہے۔۔ مجھے گھر جانا ہے۔۔۔”

تم چپ نہیں کر سکتے کیا ہر منٹ بعد یہی راگ لگا لیتے ہو۔۔۔ “موحد چڑ کے کہتا ہے۔۔۔”

تو اور کیا کروں یہاں تم لوگوں کی وجہ سے پھنس کے رہ گیا ہوں ۔۔۔ اوہ بات سن۔۔۔ تو یہاں اپنی مرضی سے آیا ہے۔۔۔

تو مجھے کیا معلوم کہ یہاں ۔۔ میر نے ابرار کی بات کاٹی۔۔۔”

اچھا تم دونوں خاموش ہو جاؤ ہم یہاں سے جلد جائے گے۔۔۔

کشش کی طرف دیکھتے ہوئے آخری جملہ بولتا ہے۔۔۔

اتنے میں بالاج گلہ صاف کرتے کھانستے ہوئے کشش کے برابر والی کرسی کھنیچ کے بیٹھ جاتا ہے۔۔۔

میر کے ماتھے پے بالاج کو دیکھے بل پڑ جاتے ہیں ۔۔۔

تو کیا ہو رہا ہے۔۔۔؟

بالاج سب سے مخاطب ہوتا ہے۔۔۔!!

ویسے عجیب نہیں ہے کہ اس گھر کا مالک اچانک نازل ہوگیا۔۔۔

میر ایک ایک لفظ چبا کے ادا کرتا ہے۔۔ “

اوہ سوری دوستوں میں انہیں جانتی تھی بس تعارف نہیں کروا سکی۔۔۔

بالاج یہ میرے تمام یونی ورسٹی کے دوست ہیں ۔۔

یہ میر۔۔۔ (منہ بسورتے ہوئے چہرہ پھیر لیتا ہے)

یہ موحد ہے۔۔۔ ہائے۔۔۔

یہ ابرار ہے۔۔۔ ابرار بھی ہاتھ سے ہیلو بولتا ہے۔۔

اور یہ میری بیسٹ فرینڈ ردا ہے۔۔

ردا ہلکی سی مسکراہٹ سے سلام کرتی ہے۔۔۔

اور دوستوں یہ بالاج ہیں ۔۔۔

بتایا تو تھا انہوں نے کہ اس گھر کے مالک ہیں ۔۔۔

کشش کے چہرے کی مسکراہٹ الگ ہی نوعیت کی ہوتی ہے۔۔۔

ہاں میں سنا تھا یہاں کوئی کہہ رہا تھا کہ واپس جانا ہے۔۔

بالاج وہی بات دہراتا ہے جو آتے وقت ابرار کے منہ سے سنی تھی۔۔۔

ہاں بس اب گھر بھی واپس جانا ہے ہوسٹل سے سیدھا یہ لوگ یہی آگے تھے۔۔

کشش جوس کا گلاس اٹھاتے مزید وضاحت دیتی ہے۔۔۔۔”

تو کوئی مسئلہ نہیں کاکا ڈرائیور سے کہہ کے آج ہی سبکو گھر بھیجوا دے گا۔۔۔

کیا سچ میں اوہ شکر ہے خدا کا۔۔۔ ابرار خوش ہوتا ہے۔۔۔۔

ابرار کی خوشی کی انتہا نہیں ہوتی جب بالاج اُسے جانے کے علاوہ خود چھوڑ کر آنے کی آفر کرتا ہے۔۔۔” کشش کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن بالاج ہاتھ کے اشارے سے خاموش رہنے کا کہتا ہے۔۔۔۔

(جیسے چاہ رہی ہو کہ وہ یہاں سے نہیں جانا چاہتی)

میر غصے سے بالاج کو گھور رہا ہوتا ہے۔۔۔’

کچھ ہی پل بعد سب اپنے اپنے گھروں میں موجود ہوتے ہیں البتہ کشش اُداس ہوتی ہے ۔۔۔

میرا بچہ آگیا ۔۔۔ بتا دیا ہوتا میں کسی کو لینے بھیج دیتی ۔۔۔

رقیہ کشش کو دیکھتے باہیں بھلا کراس کو گلے سے لگاتی ہے۔۔۔

کشش بوجھل قدموں سے اپنے کمرے کی طرف رخ کرتی ہے۔۔۔ رقیہ آنا۔۔۔”

میں کچھ دیر آرام کرنا چاہو گی۔۔۔”

ماربل سے بنی سڑھیاں اُس پے کشش کے جوتوں کی ٹک ٹک پورے گھر میں گونج رہی تھی۔۔۔”

کمرے کا دروازہ کھولتی ہے ۔۔ ایک لمبا سانس لیتی ہے پھولوں کی مہک پورے کمرے میں پھیلی ہوتی ہے آنکھیں بند کئے اُسے محسوس کرتی ہے۔۔۔

میں جانتی ہوں آپ یہاں پے ہیں ۔۔۔”

ہنوز آنکھیں بند کئے کہتی ہے۔۔۔

اوہ شہزای آپ ہمیں کتنا جان چکی ہیں ۔۔۔”

کان کی لو کو چھوتے کشش کو کندھوں سے تھامے جن زاد کہتا ہے۔۔۔”

جسطرح آپ مجھ میں بس چکے ہیں آپکی ہر حرکت سے واقف ہو ۔۔۔

کشش چھپے الفاظ میں محبت کا اظہار کر دیتی ہے۔۔ “

اوئے تو کہا چلا اب۔۔۔؟

موحد ،میر کو بائک پے بیٹھے دیکھ کر سوال داغ دیتا ہے۔۔۔

اتنی مشکل سے اس بھوت بنگلے سے نکلے ہیں کہی تو وہی تو نہیں جا رہا۔۔۔

موحد شکی انداز میں پوچھتا ہے۔۔۔

مجھے کسی پاگل کتے نے نہیں کاٹا جو ادھر جاؤ بس۔۔!!!

وہ تو۔۔۔

ہاں بتا۔۔۔” (موحد نے بے قراری سے پوچھا)

ارے وہ تو بس کشش ۔۔۔

اوہ بھائی چھوڑ دے اسکا پیچھا۔۔۔ وہ تتلی تیرے ہاتھ نہیں آنے والی دیکھا نئ کیسے جنگلی بلی کی طرح لڑتی ہے۔۔

موحد کشش کا ذکر سنتے اسے نہ جانے کی تلقین کرتا ہے۔۔۔”

میر گردن جھٹکے ہوئے اپنی ہیوی بائک کو کک مارتے فراٹے سے نکل جاتا ہے۔۔۔”

یہ لڑکا نہیں سدھرے گا، مجھے بھی مروائے گا دیکھا نہیں تھا اس ڈائن کی آنکھیں کیسے لال تھی۔

موحد خود کلامی کرتے ہوئے ابرار کو فون ملاتا ہے۔۔

بھووووو۔۔۔۔۔۔!!!

ہاہاہاہا کتنی ڈرپوک ہوتم دیکھو اپنی شکل۔۔۔۔

ردا اچانک سے آکر کشش کو ڈرا دیتی ہے۔۔۔”

اجھلنے پے ردا اسکا مزید مذاق اڑاتی ہے۔۔۔”

اوہ بہت بری ہو تم۔۔۔ بتا تو دیتی ۔۔۔”

کشش نے سنبھلتے ہوئے کہا۔۔۔۔”

ارے میں کب سے آئی ہوئی تھی تم پتا نہیں کن خیالات میں مگن تھی۔۔۔

کشش دل پے ہاتھ رکھے ٹھٹکتی ہے۔۔۔

ردا کو گھورتے ہوئے صلواتیں سناتی ہے۔۔۔ بہت بری ہو تم۔۔ “

ردا کندھے اچکائے کہتی ہے۔۔۔ سو تو ہوں ۔۔۔۔”

اچھا یار یہ چھوڑو اور بتاو کیا کرتی ہو سارا دن۔۔

مجھے کال بھی نہیں کی اسکا مطلب مِس بھی نہیں کیا مجھے۔۔۔”

ردا نے نروٹھے پن سے کہا۔۔۔”

ارے نہیں ۔۔۔!!

اب ایسی بھی کوئی بات نہیں بس میں بالاج کے ساتھ گھومنے جاتی ہوں ۔۔۔

بالاج۔۔۔۔!!!

یہ بالاج کون ہے۔۔۔؟

ردا نام زیرِلب دوہراتے ہوئے سوال کرتی ہے۔۔

وہ۔۔۔ وہ۔۔۔!!!

ہونٹ میں انگلی دبائے تعارف کے لئے الفاظ تلاشتی ہے۔۔۔( کیونکہ بے دھیانی میں ہی سہی اسکا ذکر ردا سے کر دیتی ہے)

ہاں بتاؤ وہ کیا۔۔۔

اور کب ملا ،کہاں ملا، کیسے ملا۔۔۔؟؟؟

ردا ایک ہی سانس میں سب سنا دیتی ہے۔۔۔۔””

ارے صبر سے کام لو سب بتاتی ہوں ۔۔۔

بیڈ پے ردا اور قریب رکھے صحفے پے کشش برجمان ہوتے بالاج کا تعارف کرواتی ہے۔۔۔”

تمہیں یاد ہے ردا بہت دن پہلے میں نے ذکر کیا تھا کہ کوئی مجھے تنگ کرتا ہے۔۔۔

میرے۔۔۔””” (تامُل کے بعد) میرے قریب آتا ہے۔۔ !!

ہمم پھر۔۔۔”

کیا وہی بالاج ہے۔۔ ؟

ردا بات کو ناسمجھی میں پوچھتی ہے۔

ہاں یہ وہی ہے۔۔ “”

اسکا مطلب یہ بھوت ہے۔۔۔

کشش اثبات میں سر ہلاتی ہے۔۔۔۔”اور وہ تم پے عاشق ہے۔۔۔

ہاہاہا۔۔۔ !!!

ردا کا انداز تمسخرانہ ہوتا ہے۔۔۔۔”

اور تو اُس بھوت سے محبت کرتی ہے۔۔۔۔

لگتا ہے تو پاگل ہوگی۔۔۔۔”

(ہاہاہا)

بس یار اب مزید نہیں ہنس سکتی۔۔۔۔

ردا پیٹ کو پکڑے کہتی ہے۔۔ ۔دیکھ ہنس ہنس کے پیٹ دُکھنے لگ گیا۔۔

(ہاہاہا ایک جن سے محبت کرتی ہے ۔۔۔ ہاہاہا اور تم شادی کر لو گی تمہارے بچے کیا نظر آئے گے کیا وہ ہوا میں اڑے گے یا پھر اندھیرے میں رہے گے۔۔۔”ہاہا)

ردا مسلسل ہنسے جاتی ہے۔۔۔”

کشش ردا کو ایک نظر دیکھتی ہے اسکے پیچھے کسی کا سایہ نظر آتا ہے۔۔۔

پہلے تو اسکے چہرے پے بھی مسکراہٹ ہوتی ہے لیکن نظر آنے والے شخص کو دیکھتے ہی غائب ہوجاتی ہے۔۔

صحفے سے آہستہ سے اٹھتی ہے۔۔۔”

بالاج غصہ سے بھری لال آنکھوں سے ردا کے پیچھے کھڑا ہوتا ہے۔۔۔

ردا اس بات سے انجان کشش کا مذاق بنانے میں مصروف ہوتی ہے۔۔۔

اسی طرح تالی بجائے ایک ہاتھ پیٹ پے رکھے ہنسی سے لوٹ پوٹ ہورہی ہوتی ہے۔۔۔۔”

کشش نفی میں گردن ہلائے بالاج کو کچھ نہ کرنے کا اشارہ کرتی ہے۔۔ “

بالاج کی سانیس تیز ہوتی ہے ۔۔۔ زور زور سے سانس لے رہا ہوتا ہے۔۔۔

ب۔۔۔ب۔۔۔بالاج۔۔۔

درا کشش کو اس طرح پریشان دیکھتے چُپ ہوجاتی ہے۔۔۔۔

تجھے کیا ہوا۔۔۔؟

میں تو بس مذاق کر رہی تھی۔۔۔”

کشش ردا کی بات پے کوئی توجہ نہیں دیتی اُسے تو بس بالاج کے غصے کا ڈر تھا جو ردا پے آرہا تھا۔۔۔

کشش ۔۔۔

کشش میں تجھ سے بات کر رہی ہوں تو کسے دیکھ رہی ہے۔۔۔

ردا کشش کا نظروں کے تعاقب میں پیچھے دیکھتی ہے۔۔۔

وہاں کون ہے کشش۔۔۔۔؟

کشش۔۔۔

بالاج۔۔۔۔!!!

کیا۔۔۔۔!!!

ردا حیران ہوئے کہتی ہے۔۔۔۔

وہ بالاج۔۔۔۔

کشش کچھ کہنا ہی چاہ رہی تھی کہ ردا کو اپنا آپ ہوا میں کھڑا محسوس ہوا۔۔۔

گونج دار چینخ ردا کے حلق سے برآمد ہوئی ۔۔۔۔

کشش یہ کیاہو رہا ہے۔۔۔ پلیز مجھے بچاؤ۔۔۔

یہ سب کیا ہے۔۔۔۔

ردا آہستہ آہستہ اپنی جگہ سے اوپر کی جانب ہوا میں گھوم رہی ہوتی ہے۔۔۔”

کشش تیزی سے بالاج کہ طرف بڑھتے ہوئے قدموں میں گر جاتی ہے۔۔۔

خدا کے لئے بالاج میری دوست کو چھوڑ دے وہ بس مذاق کر رہی تھی۔۔۔۔

بالاج میری خاطر چھوڑ دے اسے۔۔۔

کشش روتے ہوئے التجا کر رہی تھی۔۔۔”

بالاج سرد نگاہوں سے کشش کو دیکھتا ہے۔۔۔

رو رو کر اسکا چہرہ سرخ ہوجاتا ہے۔۔۔

وہ وہی پگھل جاتا ہے۔۔۔ ردا کو نیچے اتار دیتا ہے۔۔۔

نیچے آتے ہی اسکا سر گھوم رہا ہوتا ہے۔۔۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے اور وہ بہوش ہوجاتی ہے۔۔۔۔”

کشش کو کندھوں سے تھامے اپنے روبرو کھڑا کرتا ہے۔۔۔۔

مجھ سے برداشت نہيں ہوئی یہ بات کہ کوئی آپکو تنگ کرے۔۔۔۔

اس نے ہماری۔۔۔ یعنی بالاج کی محبت کا مذاق بنایا۔۔۔

جو ایسا کرے گا اسکا یہی انجام ہوگا۔۔۔۔

شہزادی ۔۔۔”

کشش کی تھوڑی کو ہاتھ لگائے چہرے کو اوپر کرتا ہے۔۔۔۔

کشش آنکھیں بند کئے رخ اوپر کرتی ہے۔۔۔۔

آنسوؤں کے نشان ابھی بھی چہرے پے ہوتے ہیں کچھ پلکوں میں موتیوں کی مانند اٹکے ہوتے ہیں ۔۔۔

شہزادی آنکھیں کھولے۔۔

ہماری طرف دیکھے۔۔۔””

کشش آنکھیں نہیں کھولتی۔۔۔”

شہزادی ایک بار ہمیں دیکھے تو سہی۔۔۔ آنکھیں تو کھولے۔۔۔

آپ نے ہمیں دُکھ دیا ہے۔۔۔ ہمارا دل دکھایا ہے۔۔۔

ہنوز کشش کی آنکھیں بند ہوتی ہیں وہ ایسے ہی کہتی ہے۔۔۔

شہزادی صرف ایک بار ہمیں دیکھ تو لے۔۔۔۔

بالاج کشش ہا ہاتھ لئے اپنے سینے پے رکھ دیتا ہے۔۔۔

یہ سُنے میرا دل آپکا ہی نام پکار رہا ہے۔۔۔

محسوس کیجئے شہزادی ۔۔۔

بالاج کے دل کی دھڑکنوں کی رفتار اس قدر تیز ہوتی ہے کہ گویا محسوس ہوتا کہ پسلیوں کو چیرتا ہوا ماس کو پھاڑ کے باہر آگرے۔۔۔

کشش یک دم سے ہاتھ پیچھے کر لیتی ہے۔۔۔

شہزادی اب بھی آنکھیں نہیں کھولے گی۔۔۔”

بالاج کے لہجے میں اٹوٹ پیار ہوتا ہے۔۔۔

اسکے اسطرح پوچھنے پے کشش موندی آنکھیں کھول لیتی ہے۔۔۔۔”

بالاج بلا جھجھک سینے سے لگا لیتا ہے۔۔۔”

ہمیں معاف کردے ہم آئندہ ایسا نہیں کرے گے۔۔۔”

بس ہم اب آپ کو اپنے ساتھ لے کر جائے گے۔۔۔ جہاں بس آپ اور میں رہے گے۔۔۔۔”

اور کوئی بھی ہمارے بیچ نہیں آئے گا۔۔۔۔

بالاج جذبات میں گندھے لہجے سے بولتا ہے۔۔۔”

کچھ ہی دیر میں بہوش پڑی ردا ہوش میں آتے سر تھامتی ہے۔۔۔ آہاااااں۔۔

درد سے کراہتے ہوئے

میرا سر کیوں درد کررہا ہے۔۔۔

اور میں یہاں کیوں سو رہی ہوں ۔۔ کشش ردا کے سامنے بیٹھی ہوتی ہے بالاج جا چکا تھا۔۔۔

کچھ نہیں ردا تم پانی پیئو۔۔۔

کشش گلاس میں پانی انڈیل کر ردا کو دیتی ہے۔۔۔””

مجھے ہوا کیا تھا اففف کچھ یاد نہیں آرہا۔۔۔

ردا سر تھامے دماغ پے زور دیتے کہتی ہے۔۔۔”

کچھ نہیں ہوا تھا بس تم تھکاوٹ کی وجہ سے سو گی تھی۔۔۔

کشش سجمھ گی تھی کہ بالاج نے غلطی کے تلافی کے لئے ردا کے وہی یاداشت مٹا دی تھی

اب بھول کے بھی کشش اسے بالاج کے متعلق نہ بتانے کا عہد دل ہی دل میں لے چکی تھی

موحد پریشانی کے عالم میں ابراد کو فون کرتا ہے۔۔”

پہلی بل پے ابرار کال ریسو کر لیتا ہے۔۔۔۔

موحد گھبرائی آواز میں کہتا ہے ۔۔۔

یار میر تمہاری طرف آیا ہے کیا۔۔۔۔؟ کب سے نکلا ہوا تھا شام ہونے کو آئی لیکن ابھی تک نہیں لوٹا۔۔۔۔

نہیں ۔۔۔” خیریت کہا گیا ہے۔۔۔ میں تو یہاں دادا کی حویلی پے آیا ہوں ۔۔۔ مجھ سے تو کوئی رابطہ نہیں کیا میر نے۔۔۔

موحد مزید پریشان ہو جاتا ہے ۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔۔

اوئے کیا ٹھیک ہے تق مجھے سیدھی طرح سے بات بتا۔۔۔

اگر موحد سامنے ہوتا تو یقیناً ابرار اسے ایک لگا بھی دیتا۔۔۔

وہ اس ڈائن میرا مطلب کشش کے عشق میں گرفتار ہوئے ہتھ کڑیاں لگوانے گیا تھا۔۔

وہی اظہارِ عشق کرنے نکلا تھا۔۔۔

مگر ابھی تک نہیں آیا۔۔۔۔”

اچھا تو ایک کام کر ردا سے کال کر کے پوچھ میر کا، اسے کیا پتا معلوم ہو لے وہ کشش سے ملا ہو، اور کشش کے انکار کے بعد کہی دل کا غم ہکلا کر رہا ہو۔۔۔

ہممم ابرار کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہتا ہے ابھی کرتا ہوں کال۔۔۔۔

ردا کو کال ملاتا ہے۔۔۔

لیکن وہ کال ریسو نہیں کرتی۔۔۔ ارے یاررر اسے کیا ہوگیا اب۔۔۔۔ پک اپ دی کال

خود کلامی کرتے کہتا ہے۔۔۔”

دوبارہ ملاتا ہے۔۔۔۔

اوہ پلیز اٹھا لینا کال اب۔۔۔۔

دل ہی دل میں دعا کرتا ہے۔۔۔۔

دل بے تربیتی سے دھڑک رہا ہوتا ہے۔۔۔

کچھ انہونی ہونے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔۔۔۔

موحد ردا کو کال ملاتے ہوئے فون کان سے لگاتا ہے۔۔۔۔۔” بس اب آخری بار کر رہا ہوں پھر خودی ہی جاتا ہوں کدھر چلا گیا۔۔۔۔”

موحد عجلت میں خود کلامی کرتے بائیک نکلاتا ہے۔۔۔

موبائل پینٹ کی جیب میں رکھتا ہے۔۔۔”

اتنے میں موبائل بجتا ہے۔۔۔”

بائیک کو سٹینڈ پے کئے کال اٹینڈ کرتا ہے۔۔۔”

آپ میر کو جانتے ہیں ۔۔۔ ؟

نسوانی آواز دوسری طرف سے سوالیہ بن کے برآمد ہوتی ہے۔۔

ہا۔۔۔ہا۔۔۔ ہاں جی۔۔

موحد نا جانے کیوں ہکلاہٹ سے جواب دیتا ہے۔۔۔۔”

جی ۔۔۔ معلوم ہو گیا پیشنٹ کے گھر والوں کا۔۔۔۔

اب کی بار وہ موحد کو نہیں پیچھے کسی کو بتا رہی ہوتی ہے۔۔۔

مطلب کیا ہے آپکا کون پیشنٹ۔۔۔ ؟؟

موحد دھڑکتے دل سے پوچھتا ہے۔۔۔۔

میں ہوسپیٹل سے نرس بات کر رہی ہوں میر نامی شخص یہاں پے بہت بری حالت میں لایا گیا تھا۔۔۔۔”

کیا۔۔۔۔!!!

میر۔۔۔ ” ہوسپیٹل ۔۔۔!!

دوسری طرف کی لائن ڈسکنٹکٹ ہوچکی تھی لیکن ہنوز موحد سکتے کی حالت میں موبائل کان کو لگائے کھڑا تھا۔۔۔۔”

کچھ توقف کے بعد سنبھلتے ہوئے ہسپتال کی طرف رخ کرتا ہے۔۔۔۔”

ہسپتال پہنچتا ہے تب تک ابرار بھی وہاں پہنچ چکا ہوتا ہے۔۔۔ موحد ابرار کو بھی میر کے بارے میں بتادیتا ہے۔۔۔۔۔

دونوں دوست بہوش میر کو آپریشن تھیٹر میں شیشے سے پار دیکھ کے دکھی ہوتے ہیں ۔۔۔۔

موحد آنسوؤں کو روکتے آنکھوں پے ہاتھ رکھتا ہے۔۔۔

میں نے کہا بھی تھا اسے مجھے ساتھ لے جاؤ۔۔۔” لیکن نہیں مانا۔۔۔۔ کر لیا نہ اپنا یہ حال۔۔۔۔”

موحد سرگوشی کرتا ہے۔۔۔”

موحد سے میر کی حالت دیکھی نہیں جاتی۔۔۔۔

ابرار موحد کا کندھا تھپتھپائے حوصلہ دیتا ہے جبکہ وہ دونوں ایک دوسرے کو حوصلہ دیتے ہیں ۔۔۔۔”

نرس سفید لباس میں ملبوس انکے پاس آتی ہے ہاتھ میں لفافہ تھاما ہوتا ہے۔۔۔”

آپ لوگ پیشنٹ کے ریلٹیو ہیں ۔۔۔” نرس نے سامنے کھڑے دو ہینڈسم لمبے نوجوانوں کو مخاطب کرکے کہا

نرس بات کی تصدیق کرنا چاہتی تھی۔۔۔

دونوں نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔۔”

پیشنٹ کا بلڈ بہت ضائع ہو گیا ہے۔۔۔ صرف یہی ایک خون کی تھیلی باقی ہے۔۔۔ ہمارے پاس بھی سٹاک ختم ہوگیا ہے۔۔۔ جلد از جلد خون کا انتظام کرے۔۔۔۔” ورنہ۔۔۔۔!! جان بھی جا سکتی ہے۔۔۔”

لیکن نرس انکو یہاں کون لایا۔۔۔۔؟ اور یہ سب کس طرح ہوا آپ کچھ جانتی ہے۔۔۔۔”

موحد بلڈ کا انتظام کرنے چلا جاتا ہے۔۔۔ ابرار نرس سے تفشیش کرتا ہے۔۔۔”

یہ تو ہمیں بھی نہیں معلوم کیونکہ مریض سٹیچر پے ہسپتال کے باہر بےہوش پڑا تھا وہ تو عملے میں سے کسی نے دیکھا تو ہم نے بھی موبائل وغیرہ چیک کیا تو انکے دوست کا نمبر ملا اور آپ لوگ آگے۔۔۔ “

جی شکریہ۔۔۔ ابرار رسماً کہتاہے۔۔۔۔

شکریہ کی کوئی بات نہیں یہی تو ہمارا کام ہے۔۔۔

نرس جواب دیتے سامنے بنے کمرے میں چلی جاتی ہے۔۔۔۔”

موحد پاگلوں کی طرح سر کو تھامے ہسپتال کے باہر رکھے بینچ پے بیٹھا ہوتا ہے۔۔۔”

بلڈ کا انتظام اتنا ارجنٹ کرنا مشکل تھا وہ کسی کسی بھی قیمت پے میر کو نہیں کھونا چاہتے تھے ۔۔۔”

ابرار موحد کے کندھے پے ہاتھ رکھتے ہوئے اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔۔۔”

پریشان نہ ہو۔۔۔

میر اب خطرے سے باہر ہے۔۔۔

یہ سنتے ہی موحد چونک کے ابرار کو دیکھتا ہے۔۔۔

اللہ تیرا شکر ہے۔۔۔ آسمان کی طرف چہرہ کئے کہا۔۔

کیسے ہوا یہ سب۔۔۔؟

وہی جسکو کو تم برا بھلا کہہ رہے تھے اسی نے کیا۔۔۔؟

مطلب۔۔۔؟؟

موحد ناسمجھی میں کہتا ہے۔۔۔۔

ابرار پیچھے مڑ کے دیکھتا ہے اسی کی نظروں کے تعاقب میں موحد دیکھتا ہے، وہاں کشش کھڑی ہوتی ہے۔۔۔ موحد سختی سے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچے رہ گیا۔۔۔”

(موحد سمجھ جاتا ہے کشش نے بلڈ کا انتظام کیا ہے)کشش کے چہرے پے ندامت صاف ظاہر ہوتی ہے۔۔۔

لیکن کیوں یہ بات سمجھ سے باہر ہوتی ہے۔۔۔۔”

تمہیں کیا ضرورت تھی یہاں آنے کی، میرا جو دوست اس وقت زندگی اور موت کی جنگ لڑھ رہا ہے اس میں تمہارا ہاتھ ہے۔۔۔

تم سے ملنے جا رہا تھا وہ۔۔۔”

موحد چلایا تھا۔۔۔۔”

ارےے تم سمجھتی کیا ہو خود کو۔۔ اب یہ احسان جتانے آئی ہو۔۔۔”

موحد غصے اور جذبات کی ملی جلی کیفیت میں کشش کو باتیں سناتا ہے۔۔۔”

کشش خاموش تماشائی بنے سب سنتی رہتی ہے۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فلیش بیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میر کے جانے سے پہلے ہی بجن زاد ساری حقیقت جان لیتا ہے وہ کسی بھی قیمت پے کشش کو میر سے ملنے نہیں دیتا ۔۔۔۔ اور اسے بے دردی سے مارنے کی کوشش کرتا ہے عین وقت پے کشش وہاں پہنچ جاتی ہے میر کو بالاج (جن زاد)کی ہی مدد سے بروقت ہسپتال پہنچاتی ہے۔۔۔”

بالاج (جن زاد) میر کو زندہ چھوڑنے کے لئے ایک شرط رکھتا ہے کہ اسکے بچ جانے کے بعد وہ کشش کو اپنے ساتھ لے کر جائے گا۔۔۔۔

کشش سمجھ جاتی ہے اگر اس نے انکار کیا تو میر کے ساتھ ساتھ وہ اپنوں کو بھی کھو سکتی ہے۔۔۔۔

اس لئے فورا یہ شرط مان جاتی ہے۔۔۔ اور میر کے لئے بلڈ کا انتظام بالاج کرتا ہے کشش کے ساتھ مل کے۔۔۔۔”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب آگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابرار موحد کو خاموش کروتا ہے۔۔۔ کیا ہوا گیا یار وہ ماضی تھا بس جو ہوا سو ہوا اب ہمارا میر خطرے سے باہر ہے۔۔۔

ڈاکٹر نے کہا ہے آپریشن کامیاب رہا چلو جا کر دیکھتے ہیں ۔۔۔۔

موحد جاتے ہوئے بھی کشش کو گھور رہا ہوتا ہے۔۔۔۔”

لمبے لمبے ڈاگ بھرتا ابرار کے پیچھے جاتا ہے جو کہ اب میر کے آپریشن والے کمرے کی طرف بڑھتے ہیں ۔۔۔”

کچھ گھنٹے بعد میر کو روم میں شفٹ کر دیتے ہیں ۔۔۔۔”

کشش کو بالاج کی وجہ سے بہت شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے۔۔۔”

وہ اب اس سے نہ ملنے کا عزم کرتی ہے۔۔۔”

کشش دونوں ہاتھوں سے سر کو تھامے بیٹھی ہوتی ہے۔۔۔” ابرار اور موحد جاچکے ہوتے ہوئے ۔۔ “

کچھ گھنٹے بہوش رہنے کے بعد ہوش آنے پے میر اپنے ارد گرد دیکھتا ہے۔۔۔ موحد اور ابرار میر کے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں ۔۔۔۔”

میر دونوں کو دیکھ کے مخاطب ہوتا ہے ۔۔۔ تم کیا کراماً کاتبین میرے سر پے کھڑے ہو۔۔۔ میر کی شوخی سی بات پے سب ہنس دیتے ہیں ۔۔ “

یار تو موت کے منہ سے واپس آیا ہے تجھے شررات سوجھ رہی ہے۔۔۔ ” موحد نے ماتھے پے بل ڈالے کہا۔۔۔”

ہاں اور کیا۔۔۔ ابرار ہاں میں ہاں ملاتا ہے۔۔۔”

اچّھا ٹھیک ہے بابا کچھ نہیں کہتا تم دونوں تو مجھے کھانے کو آرہے ہو۔۔۔”

اب گھر کب جانا ہے میں مریض بن کے یونہی پڑا رہو گا۔۔۔؟

دیکھ اسکو کتنی جلدی ہے گھر جانے کی۔۔۔ اگر اتنا ہی شوق تھا گھر رہنے کا تو کیوں نکلے باہر۔۔۔ موحد طنزیہ کہتا ہے۔۔۔”

اتنے میں نرس ہاتھ میں چارٹ پیر تھامے اندر داخل ہوتی ہے نرس کو دیکھتے ہی دونوں کے منہ پے فقل پڑھ جاتے ہیں ۔۔۔”

آئے اندر لے کر آئے۔۔۔ نرس پیچھے سے کسی کو اندد آنے کا کہتی ہے۔۔

کوئی وہیل چیئر کو لئے اندر داخل ہوتا ہے۔۔۔

نرس یہ کس لئے ۔۔۔؟ ابرار چہرے کے اڑتے رنگ کے ساتھ پوچھتا ہے۔۔۔”

یہ پیشنٹ کے لئے ہے۔۔۔ انکی ٹانگیں حادثے میں ضائع ہوچکی ہیں اب یہ کبھی چل نہیں پائے گے شاید کوئی معجزہ ہی انہیں چلا سکے۔۔۔”

دونوں دوستوں کے رنگ فق ہوجاتے ہیں ۔۔۔ موحد تو لڑکھڑایا تھا۔۔۔”

خود کو سنبھالتے ہوئے قریب رکھی کر سی پے بیٹھ گیا۔۔۔ “

میر خاموشی سے دونوں کو دیکھتا ہے۔۔ “

ابرار کی پلکو میں آنسو اٹک کے رہ گے۔۔۔

میر جانتا تھا یہ سب ہوش میں آنے کے باوجود اس طرح خوش تھا جیسے نئی زندگی ملی ہو ٹانگیں چلی جانے سے مغموم نہیں دکھائی دیا۔۔۔

کتنا ہمت والا ہے۔۔۔ ارے یارو ریلکس ! یہ سب تو ہوتا رہتا ہے اور پھر تم لوگ ہو نہ میرے ساتھ مجھے ان سہاروں کی بھی ضرورت نہیں ۔۔۔۔”

ابرار موحد میر کے کندھے لگ کے دل کا غم ہلکا کرتے تھے۔۔۔

کشش بکھرے وجود کے ساتھ گھر پہنچتی ہے۔۔۔۔” سارا واقعہ فلش بیک فلم کی طرح بلیک اینڈ وائٹ موڈ میں دماغ کی سلیٹ پے گردش کر رہا ہوتا ہے۔۔ “

اسکا دل یہ ماننے کو کبھی تیار نہیں ہوتا کہ اسکا بالاج یہ سب کر سکتا ہے۔۔ “

ہواؤں کے جھونکوں کے ساتھ بالاج حاضر ہوتا ہے۔۔۔”

کشش کے گالوں پے آنسوؤں کے نشان ابھی بھی باقی ہوتے ہیں ۔۔۔۔” کیا ہوا شہزادی آپکی آنکھوں میں آنسو کیوں؟

کشش بے یقینی سے بالاج کو دیکھتی ہے۔۔۔

جسے پوچھ رہی ہو خود ہی دئے ہیں اور مجھ سے معلوم کر رہے ہو۔ “

اوہ تو آپکو نہیں معلوم ایک جن ہوتے ہوئے نہیں معلوم۔۔۔ کتنے معصوم ہیں ناں آپ۔۔۔”

کشش اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے چلائی تھی۔۔۔”

آپکا کوئی حق نہیں بنتا جسکو آپ نا پسند کرے اسے ختم کردے۔۔۔ کیا قصور تھا اسکا۔۔۔ کہ وہ مجھے پسند کرتا تھا۔۔۔ ارے میں نے تو آپکو پسند کیا تھا ناں۔۔۔ کیا فرق پڑتا کہ وہ مجھے پسند کرتا ہے۔۔۔ پھر کیوں۔۔۔۔”

پھر کیوں بالاج۔۔۔ آخر کیوں آپ نے اسکو مارنا چاہا۔۔۔”

بالاج کے ہوش اڑ جاتے ہیں اس نے آج سے پہلے کشش کو کبھی اس حال میں اس طرح کی حرکتیں کرتا نہیں دیکھا۔۔۔

شہزادی مجھے نہیں سمجھ آرہی آپ کس کی بات کر رہی ہے ۔۔۔”

اتنے معصوم مت بنے بالاج ۔۔۔ آپ سب کچھ کر کے کیسے انکار کر سکتے ہیں میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ میر کی کار کو کسطرح روکا اور کھائی میں پھیکنا چاہا۔۔۔”

کیا۔۔۔؟؟

میں ایسا نہیں کرسکتا شہزادی میں جن ہو اور آدم ذات کا خون نہیں کرسکتا۔۔۔

کیا آپ مجھے جانتی نہیں ۔۔۔؟

میں ۔۔۔

وہ میں نہیں تھا شہزادی ۔۔۔

بالاج کی آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں ۔۔۔”

کشش کوئی بھی بات سننے سے انکار کر دیتی ہے۔۔۔”

شہزادی میری بات سنے، کوئی ہمیں الگ کرنا چاہتا ہے کوئی ایسا ہے جو نہیں چاہتا ہم ایک ہو۔۔۔

لیکن میں اپنی بے گناہی ثابت کر کے رہو گا۔۔۔”

وہ میں نہیں تھا شہزادی ۔۔۔۔

کشش اپنی کلائی پے چاقو رکھے کہتی ہے۔۔ چلے جاؤ یہاں سے۔۔۔ ورنہ میں اپنی نس کاٹ لو گی ختم کر دو گی خود کو۔۔ ۔چلے جاؤ۔۔۔

بالاج آگے بڑھنے لگتا ہے۔۔۔

رکو ۔۔۔ ایک قدم بھی آگے مت بڑھانا ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔۔۔۔ کوئی غائبانہ حرکت مت کرنا میں نے خود کو ختم کر لینا ہے۔۔۔”

اچھا اچھا آپ یہ نیچے رکھے میں نہیں آتا آپکے قریب۔۔۔

لیکن میں اپنی بے گناہی ثابت کرکے رہو گا۔۔

بالاج ہوا کے جھونکے کے ساتھ غائب ہوجاتا ہے۔۔۔

کشش گھنٹنے ٹیکے زمین پے بیٹھ کے رونے لگ جاتی ہے۔۔۔”

*****

ہاں کاکا کیا خبر لائے ہو۔۔۔ کام ہوگیا۔۔۔ بی جان نے گھومتے ساتھ ہی کہا۔۔۔ جبکہ اندھیرا ہونے کی وجہ سے بی جان ٹھیک سے دیکھ نہ سکی اور بنا جواب سنے اپنی جیت کے جشن مانے کی تیاریاں کرنے لگی۔۔۔

اب بالاج کو عقل آئے گی فضول میں اس لڑکی کے عشق میں پڑ گیا اب اسکا اعتبار ٹوٹے گا اور جدائی اعتبار پے بہت بڑی چوٹ ہوتی ہے۔۔۔

واہ بی جان! آپ نے بہت اچھا کھیل کھیلا۔۔۔”

بی جان کی بات مکمّل ہونے کے بات بالاج تالیاں بجاتا ہے۔۔۔ آپ کامیاب ہوگی بی جان ،ہوگی کامیاب آپ۔۔۔

آپکو آخر کیا ملا اپنے بیٹے کا دل دکھا کر۔۔۔”

وہ لڑکی تمہیں ہم سے دور کر رہی تھی ہم کبھی نہیں چاہے گے تم یہ سب چھوڑ دو۔۔۔

بسس! بہت ہوگیا۔۔۔۔”بالاج ہاتھ اٹھا کے بی جان کو خاموش کرواتا ہے، میں نے کہا بھی تھا اب آپ نے ایسا کچھ کیا میں سب چھوڑ دونگا۔۔۔،آپ نے مجھے مجبور کر دیا ہے۔۔۔

اصغر کاکا کو گلے سے پکڑ کے گھسیٹے ہوئے اندر لاتا ہے۔۔۔”

یہی وہ مہرا میرے پیچھے لگایا ہوا تھا ناں ۔۔۔۔اب آپ اسے بھی ساری عمر نہیں دیکھ پائے گی۔۔۔

بالاج کاکا کو کوہ قاف کے اندھے کنوئے میں قید کر دیتا ہے جو شائد ساری عمر وہی رہے گا۔۔۔”

بالاج اپنی بات مکمّل کرتے تن فن وہاں سے نکل جاتا ہے۔۔۔ بی جان بوجھل قدموں سے آگے بڑھتی ہے اور زمین پے گر جاتی ہے۔۔۔ روتے ہوئے کہتی ہے آج میں نے اپنا ثبوت کھو دیا صرف ایک انسان کی وجہ سے میں اپنی انا کو قربان نہ کر سکی۔۔۔”

*****

کچھ دنوں بعد میر کو ہسپتال والے ڈسچارج کر دیتے ہیں ۔۔۔”،میر اپنے آبائی گاؤں واپس چلا جاتا ہے ۔۔۔

کشش اس سے ملنے کی کوشش کرتی ہے لیکن سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔۔۔”

کافی دن یوں ہی بیت جاتے ہیں بالاج کا کوئی پتا نہیں ہوتا کشش سمجھتی ہے میں نے اسے ناراض کر دیا جسکی وجہ سے وہ روٹھ کر چلا گیا ہے۔۔۔”

لیکن روز کشش کو اپنے کمرے میں کالی بلی کے ساتھ سترنگی گلاب ملتا تھا جسے چھوتے ہی وہ غائب ہو جاتا تھا۔۔۔”

آج بھی معمول کے مطابق اسے گلاب نظر آیا جب اٹھانے لگی تو وہ گلاب کے اندد ہی چلی گی۔۔۔

وہاں اسے عجیب نظارے دکھائی دیئے ۔۔۔”

ایک جن بالاج کی صورت میں تھا اور وہ مسلسل میر پے نظر رکھے ہوئے تھا۔۔۔ میر جب بائک پے کشش سے ملنے جارہا ہوتا ہے اسکا اکسڈینٹ نظر آتا ہے ۔۔۔

اسکے بعد بالاج کا چہرہ بدل جاتا ہے کیونکہ وہ بالاج کی شکل میں بہروپیا ہوتا ہے۔۔۔

یہ سب دیکھنے کے بعد کشش ہوش میں آتی ہے وہ بیڈ پے بیہوش لیٹی ہوتی ہے۔۔۔ پھول چھونے کے بعد کیا ہوا صحیح سے اسے بھی معلوم نہیں ہوتا۔۔۔

بس ایک خواب کے روپ میں تمام حقیقت اسکے سامنے آجاتی ہے۔۔۔۔”

کشش جان چکی ہوتی ہے سب کچھ بالاج نے نہیں کیا ہوتا اب وہ بے چین ہوتی ہے کہ کب بالاج سامنے آئے اور وہ معافی مانگ سکے۔۔۔”

_______کچھ دنوں بعد________

بڑے سے شیشے کے سامنے کھڑی وہ گہرا سرخ رنگ کا لمبا گھیراو والا فراک پہنے اونچا جوڑا بنائے خود کو گھور رہی تھی۔۔۔”

اتنی خوبصورت وہ آج سے ہیلے کبھی نہیں لگی خود کو ستائشی نظروں سے دیکھنے لگی۔۔۔” فراک کے گھیراؤ کو سیدھا کرتے ردا نے سرگوشی کی۔۔۔ بس اب دلہے راجہ کے لئے باقی شرما بچا کے رکھو۔۔ “

اسکی بالاج سے شادی تھی تمام لوگ موجود تھے۔۔۔ میر اور اسکے دوست بھی وہاں موجود تھے۔۔۔

کشش منہ بسورے کہتی ہے۔۔۔

تم خود تو چھپی رستم نکلی پیار بھی کر لیا اور شادی بھی، ہتا تک چلنے نہیں دیا موحد اور تم نے۔۔۔”

ردا مسکرائی تھی۔۔۔”

ارے مجھے خود نہیں معلوم ہوا کہ وہ بدھو رشتہ بھی لے کر آجائے گا اور میرے گھر والوں نے بھی چٹ منگنی پٹ بیاہ کر دیا۔۔۔”

دونوں ہنسنے لگی۔۔۔”

نیچے سے کوئی لڑکی پیغام لے کے آئی ۔۔۔ دلہن تیار ہے تو نکاح کے لئے مولوی صاحب بلا رہے ہیں ۔۔۔ باقی تمام لوگ وہی موجود ہیں ۔۔۔

ردا جواب دیتی ہے۔۔۔ تم جاؤ ہم بس ابھی آتے ہیں ۔۔۔”

سیڑھیوں سے اترتے ہوئے ایک ہاتھ سے فراک کو تھامے کشش کسی اپسرا سے کم نہیں لگ رہی تھی۔۔۔”

سٹیج پے سامنے بالاج برجمان تھا جسکا مکمّل دھیان کشش کی جانب تھا آج تو وہ اپنے ہوش گنوا بیٹھا تھا۔۔۔”

کشش کا سنگھار توبہ شکن ہوتا ہے۔۔۔ “

آگے بڑھتے ہوئے کشش کا ہاتھ تھامے سٹیج پے چڑھنے میں مدد کرتا ہے۔۔۔”

مولوی صاحب نکاح کے تمام لوازمات پورے کرتے ہوئے نکاح پڑھاتا ہے۔۔۔”

قبول ہے کی صدا سے حال تالیوں سے گونج اٹھتا ہے اور چاروں جانب سے مبارکباد پیش کی جاتی ہے ۔۔۔”

رخصتی کے وقت دونوں کا خوبصورت پھولوں سے استقبال کیا جاتا ہے۔۔۔”

وہاں موجود چند مہانوں سے ملتی ہے ۔۔۔

بالاج رداصل کشش کو اپنے خاص بالاج ولا لے کر جاتا ہے جہاں پے وہ انسانی روپ میں رہتا ہے۔۔۔”

پریااں اور نوکر انسانی روپ میں کشش کا استقبال کرتے ہیں ۔۔۔

تھکن سے کشش کا جسم چور چور ہوتا ہے اب وہ بس آرام کرنا چاہتی ہے ۔۔”

بالاج سمجھ جاتا ہے کشش تھک چکی ہے۔۔۔ وہ اسے کمرے میں لے جاتا ہے اور کپڑے تبدیل کر کے آرام کرنے کو کہتا ہے۔۔ ۔تقریبا دو گھنٹے بعد بالاج کمرے میں داخل ہوتا ہے۔۔۔واہ کتنا حسین ہے سب کچھ۔۔۔

بالاج کشش کے کان میں سرگوشی کرتا۔۔۔

آہ! ڈرا دیا آپ نے۔۔۔ کشش جو آنکھوں پے ہاتھ رکھے بیڈ سے پشت لگائے بیٹھی تھی اچانک بالاج کے آنے سے ڈر جاتی ہے۔۔۔

بالاج مسکرائے کہتا ہے۔۔۔

عادت ڈال لیجئے میری اس عادت کی اب اکثر آپکو چونکہ دیا کرو گا۔۔۔

بالاج بات کرتے ہوئے جھک کے اسکے ماتھا کو چوما۔۔۔ جس سے کشش شرماتے ہوئے نچلا لب کاٹا ۔۔۔

بالاج کو اپنی بی جان کی بات یاد آتی ہے اگر، اسے زندہ رکھنا چاہتے ہو تو اسکی تمام یادیں مٹانی ہوگی ورنہ وہ مر بھی سکتی ہے وہ ایک جن زادے کا پیار نہیں سہہ سکتی۔۔۔

بالاج یہی کرتا ہے اپنے پیار کے سائے میں کرتے ہوئے اسکی تمام یادوں کو رات کے کالے سائے میں کہیں گم کر دیتا ہے۔۔۔”

ایک حسین صبح کشش کا انتظار کرتی ہے۔۔۔” وہ بیڈ کے رائٹ سائڈ پے دیکھتی ہے بالاج وہاں نہیں ہوتا ۔۔۔۔” کچھ دیر بعد پیچھے دیکھتی ہے وہ روازرے میں کھڑا مسکرا رہا ہوتا ہے ۔۔۔

کشش شرماتے ہوئے چہرہ نیچے کر لیتی ہے۔۔۔”

کچھ توقف کے بعد واش روم سے نکلتی ہے۔۔۔ ایک طرف سر کو گرائے تولیے سے بالوں کو سکھا رہی ہوتی ہے۔۔ جب بالاج پیچھے سے کندھے پے ہاتھ رکھتا ہے۔۔۔ کشش چونکتے ہوئے سائیڈ پے ہوتی ہے۔۔۔

اوہ بالاج آپ نے تو مجھے ڈرا دیا۔۔”

بالاج آگے قدم بڑھاتے ہوئے کہتا ہے۔۔۔ عادت ڈال لو اس کی اکثر ایسا ہی ہوا کرے گا۔۔۔

کشش کی پشت دیوار سے لگ جاتی ہے۔۔ بالاج ایک ہاتھ دیوار پے رکھے دوسرے ہاتھ سے کشش کے چہرے پے آئے گیلے بالوں کا ہٹاتا ہے۔۔۔”

کشش سانس کھینچتے ہوئے آنکھوں کو بند کر لیتی ہے۔۔۔”

بالاج نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔ “

آپ کی انہی حرکتوں پے تو ہم فدا ہیں ۔۔۔

اور پھر اپنے لب اسکی آنکھوں پے رکھ دیتا ہے۔۔۔۔

ختم شد

آسیب بسیرہ

آسیب بسیرہ

“میری چارپائی ہلائی گئی تھی”

چارپائی پر مجھے اکیلا سونے کی عادت تھی۔ بیوی بچے دوسری کمرے میں سوتے تھے، آہٹ اور ہلچل تھی۔ کمرے میں اندھیرا تھا، روشنی میں مجھے نیند نہیں آتی۔ اس لئے گھر کی تمام روشنیاں جن کی رسائی میرے کمرے تک ہو سکتی ہے رات گًل کر دی جاتی ہیں۔

لیکن چارپائی زور سے ہلی تھی، خیال آیا کہ شاید زلزلہ ہے۔ لیکن آنکھ نہ کھولی، کلمہ شہادت پڑھا اور کروٹ بدل لی، لیکن احساس ہوا کہ کوئی چارپائی کے پاس کھڑا ہے، یہ چارپائی سے مس ہونے کا احساس تھایا سرسراہٹ۔ ایک دم گردن پلٹ کر دیکھا تو ایک ہیولہ دیکھا — نیند میں تھا ــــ ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کا سر چھت سے لگ رہا ہو۔ لمبے بالوں سے ڈھکا چہرہ، میں اٹھ بیٹھا اور کرخ لہجے میں پوچھا ــــ “کون ــــکیا چاہتے ہو؟

یہ میں ہوں ـــ جہاں آراء ـــ مجھے ڈر لگ رہا ہے، اس لئے آپکے کمرے چلی آئی۔ یہ میری مسز تھیں ـــ میں دل ہی دل میں نادم ہوا۔اندھیرے اور نیند کے خمار نے پہچاننے میں غلطی کی تھی۔

،”ڈر، کیسا ڈر؟” ــــ آپکی طبیعت ٹھیک ہے؟ ـــ میں ـــ میں نے پوچھا

“میری چارپائی، بار بار زور زور سے ہل رہی ہے”، بیگم نے بتایا ـــ “بچے سو رہے ہیں، مجھے ڈر لگا اس لئے چلی آئی”ــــ انہوں نے کہا

چارپائی میری بھی ہل رہی تھی ــــ اسکا مطلب ہے کہ زلزلہ آیا تھا ــــ میرے کمرے میں سر کی جانب ایک اور چارپائی بچھی رہتی تھی ـــ میں نے اس کی طرف اشارہ کرکے کہا

‘یہاں لیٹ جائیں” ـــــ میں جاگ رہا ہوں

وہ ـــ چارپائی پر بیٹھ گئیں ـــ میں بھی بیٹھا ہوا تھا ـــ آپ سو جائیں میں جاگ رہا ہوں ـــ پریشان نہ ہوں ـــ شاید زلزلہ تھا ـــ سو جائیں۔

وہ ـــ لیٹ گئیں اور میں حفظ ما تقدم کے طور پر بیٹھا رہا ـــ کہ اگر دو بارہ کوئی افٹر شاک آئے تو دیکھا جا سکے۔

جہاں آراء بیگم ـــ نے چادر اوڑھی اور آنکھیں بند کر لیں۔ میں بھی چارپائی کے اوپر بیٹھ گیا اور دیوار سے ٹیک لگا لی۔ ابھی چند لمحے گزرے تھے کہ میرے جسم کے بال کھڑے ہونا شروع ہو گئے ـــ میری چارپائی ہل رہی تھی ـــ میں نے کمرے میں اور چیزوں پر نظر دوڑائی کہ زلزلہ کو محسوس کر سکوں ـــ لیکن دروازہ ساکت تھا ـــ سامنے ٹنگی ہوئی گھڑی ساکت تھی ـــ جبکہ میری چارپائی زور زور سے ہل رہی تھی ـــ میں نے آیت الکرسی پڑھنی شروع کر دی ـــ اسی اثناء میں جہاں آرا بیگم بھی اٹھیں اور دوڑ کر کمرے کی لائٹ آن کر دی ـــ میں حیرت زدہ چارپائی پر آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا ـــ ٹھیک اسی وقت ایسا محسوس ہوا کہ گرم ہوا کا ایک تیز جھونکا دروازے سے مشرقی جانب کھڑکی سے کود گیا ہو ـــ سرسراہٹ، اور رونگھٹے کھڑے کرنے والا کوئی اسیب گھر سے نکل بھاگا تھا۔ روشنی میں ہمیں صرف کچھ سیراب نظر آیا لیکن وہ تھا کیا؟ یہ معلوم نہ تھا۔

جہاں آراء بولیں ـــ دیکھا ـــ یہاں کچھ تھا ـــ میں نے جوابا کہا ـــ آپ نیند میں ہیں کچھ نہیں تھا ــــ لیکن حقیقت میں ـــ میں خود بھی خوفزدہ ہو گیا تھا۔

ہم ـــ دوسری منزل کے اس سرکاری فلیٹ میں چند دن پہلے ہی شفٹ ہوئے تھے۔ اس ٹاور میں کل 8 فلیٹ تھے ـــ ہر منزل دو فلیٹس پر مشتمل تھی ـــ3 نمبر میں ایک فیملی رہتی تھی ــــ جو پہلی منزل پر تھا ـــ دوسری منزل پر ہم رہتے تھے یہ 5 نمبر تھا۔ باقی رات جاگ کر گزاری ــ منزل پڑھ کر پانی دم کیا اور فلیٹ کے کونوں میں پھینکا ـــ بچوں کو پلایا اور مسز کو بھی۔ سحری کر کے سو گئے۔

اگلی شام ــــ ابھی افطاری میں کچھ وقت بقایا تھا ـــ میں فلیٹ کے اپنے کمرے میں بیٹھا تھا کہ مسز تیز قدموں سے دروازے سے داخل ہوئیں ـــ اپنے روز مرہ کے سخت لہجے میں کچھ بڑبڑائی اور بالکونی کے دروازے سے نکل گئیں۔ میرے جسم کے بال کھڑے ہو گئے ـــ اچانک کمرے میں گرمی زور پکڑ گئی۔

ابھی چند لمحے بھی نہ گزرے تھے کہ وہ بالکل اسی دروازہ سے دوبارہ داخل ہوئی جہاں سے پہلے آئیں تھیں اور میرے پاس آ کر بیٹھ گئیں۔ میں محو حیرت تھا کہ بالکونی سے کوئی اور راستہ فلیٹ کے اندر رسائی کا نہیں تھا سوائے میرے کمرے کے۔ یہ بالکونی تھی ہی میرے کمرے کی۔ تو پھر یہ اصل جہاں آراء ہیں یا وہ؟ میں دوڑ کر بالکونی میں گیا تو وہاں کوئی نہ تھا۔ جھٹ واپس کمرے میں آیا ـــ جہاں مسز ابھی بیٹھیں تھی۔

اب مجھے ـــ سمجھ آ گئی کہ یہاں کچھ اور ماجرہ ہے۔ اب اگلے دو تین دن میں نے مسلسل منزل پڑھی اور اپنے کنبے پر دم کرتا رہا۔ اب صرف آہٹیں آتیں تھیں ـــ مسز نے بتایا کہ دن میں فلیٹ کی گھنٹی خود بخود بجنے لگتی ـــ وہ خراب ہو سکتی تھی ـــ میں نے بدلا دی لیکن ڈھاک کے تین پات ـــ اوپر والی منزل پر کوئی نہیں رہتا تھا ـــ لیکن اوپر شور آتا ـــ آوازیں آتی ـــ جا کر فلیٹ میں دیکھتا کچھ نہ ہوتا۔

ویک اینڈ پر گھر جانا ہوا تو ـــ رات اپنے گھر کے پرانے آسیب سے ملاقات کی ـــ اسکو بتایا کہ میرے فلیٹ میں یہ معاملہ چل رہا ہے ــــ میں اس پر بھی شاکی تھا کہ میرے گھر چھوڑنے پر یہ گھر کا آسیب ـــ شرارت نہ کر رہا ہو۔ اپنے قارئین کو بتاتا چلوں کہ میرے ساتھ بچپن سے ہی ایک آسیب مانوس تھا ـــ جو شاید 7 نسلوں سے گھر کے بڑے بیٹے کے ساتھ مانوس رہتا ہے۔ یہ ایک خاتون مسلمان جن ہے ـــ شرارت نہیں کرتا ـــ ہم پورا خاندان اسکو “ماسی” کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔اپنی مرضی سے صرف میں مل سکتا ہوں ـــ جبکہ باقی گھر والوں کو وہ کبھی کبھار خود سے اپنے ہونے کا احساس دلاتا رہتا ہے۔

میں نے “ماسی” کو فلیٹ کی صورتحال سے آگاہ کیا ـــ اس نے تسلی دی کہ وہ اس معاملہ کو دیکھے گی ــــ بات آئی گئی ہو گئی۔

اس کے بعد ـــ ہم آج تک اسی فلیٹ میں سکون سے رہائش پزیر ہیں۔

اس رمضان کے اختتام پر میں عید پر جب گھر گیا ـــ تو عید کے دوسرے روز رات کو “ماسی” حاضر ہو گئی ــ اس نےبتایا کہ وہ اس فلیٹ کے علاقہ میں گئی تھی ـــ جہاں چند جنات آباد ہیں ـــ اس نے ان سے اس بابت پوچھا ـــ ان کے بڑے نے سب سے پوچھا کہ فلاں جگہ کون دھما چوکڑی مچا رہا ہے؟ لیکن کوئی بھی نہ مانا ـــ تو ان کے سربراہ نے تسلی دی کہ اگر ہم میں سے کسی نے یہ حرکت کی بھی ہے تو مستقبل میں نہیں ہو گی ـــ اس نے کہا کہ ہم خود خیال رکھیں گے کہ کوئی باہر سے آ کر یہ حرکت نہ کر رہا ہو۔

اس کے بعد ہم نے کبھی اس جگہ کوئی آسیب محسوس کیا ـــ نہ دیکھا ــــ ہاں ماسی کبھی کبھی ملنے آ جاتیں ہیں ـــ لیکن ان سے بھی اس موضوع پر کبھی بات نہیں ہوئی۔ ہم سے پہلے جن کے پاس یہ فلیٹ تھا ـــ ان سے ایک مرتبہ ملاقات ہوئی تو انہوں نے تصدیق کی کہ وہ صرف 6 ماہ رہ سکے تھے اس فلیٹ میں ـــ انہوں نے صرف اس وجہ سے فلیٹ چھوڑا تھا کہ ـــ کوئی اسیب تھا جو تنگ کر رہا تھا۔

کالا جادو

کالا جادو

اکثر اوقات ہمارے گھر کا آسیب کسی نہ کسی رشتہ کی شکل میں مجھ سے ملتا اور گھریلو باتیں ہوتیں۔ یہ سلسلہ 2000 عیسوی تک یوں ہی چلتا رہا۔ سنہ 2000 کے بعد میری زندگی میں بہت اہم واقعات ہوئے اور زندگی کے بڑے امتحانوں سے گزرنا پڑا۔

سنہ 1995ء میں میٹرک گورنمنٹ بوائز ہائی سیکنڈری سکول اصغرمال روڈ سے کیا، ایف ایس سی کے بعد بطور ایئرمین PAF سلیکشن ہوئی لیکن میں نے فورس جوائن نہیں کی۔ 1997ء میں ایک نیم سرکاری ادارہ میں جاب ہوئی بعد ازاں ڈگری لی اور اب تک بطور انجینئر وہیں کام کر رہا ہوں۔

سنہ 2000ء میں میں نے نیم سرکاری جاب کے علاوہ ایک اور ادارے کو بھی خدمات دیں اور اس ادارے کے ساتھ 2004 تک منسلک رہا۔

یہ ساری باتیں اس لئے بتائیں کہ 2000 کے بعد زندگی نے خوب امتحان لیا۔ جس میں سر فہرست والد محترم کی اچانک وفات __ جو طبعی نہ تھی۔ یہ 22 مئی 2004 تھا۔ زندگی سخت آزمائش سے گزر رہی تھی، زندگی اور حالات نے مایوسی کی شکل اختیار کر لی۔ دن رات اللہ سے ہمکلام ہوتا اور مدد کی فریاد کرتا۔ پھر ایک دن اللہ نے بندوبست کر دیا۔ میری ملاقات ایک بزرگ سے ہو گئی۔

یہ مغرب کی نماز کا وقت تھا، نماز کے دوران رونے کی وجہ سے میری ہچکی برآمد ہو گئی۔ جس نے نمازیوں کے سکون کو توڑا۔ نماز کے اختتام پر نوافل سے فارغ ہو کر جب اللہ سے فریاد شروع کی تو لوگ متوجہ ہونا شروع ہو گئے۔ یہ بھانپ کر کہ لوگ کہیں رحم نہ کھانا شروع کر دیں خاموشی اختیار کی اور مسجد سے نکلنے کے لئے پر تولے۔ ابھی آٹھ رہا تھا کہ ایک با ریش شخص سفید کپڑوں میں ملبوس پاس آ کر بیٹھ گیا اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے بیٹھنے کو کہا۔

اس کی وضع قطع ایک عابد و زاھد کی سی تھی لیکن لہجہ مضبوط اور جسم کسرتی تھا۔ اس کی عمر 50 کے عشرے میں رہی ہو گی۔

میں اس کے مضبوط لہجے کی تاب نہ لاتے ہوئے وہیں بیٹھ گیا۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا راجہ صاحب کبھی اللہ کے سوا اپنے قریبی دوستوں سے بھی اپنی پریشانیاں شیئر کریں تو اللہ اسباب پیدا کر دیگا۔ اس کے منہ سے اپنا نام سن کر کچھ حیرت تو ہوئی لیکن خاموش رہا، وہ پھر گویا ہوا_

“آپ کے انا کو ٹھیس نہیں پہنچے گی، دنیا عالم اسباب ہے، اللہ کا حکم۔ ہے کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو، اور برائی کے کاموں سے دوری اختیار کرو”

مجھ پر اس کی بات کا اثر ہوا، اس نے بات آگے بڑھائی

“آپ کو حیرت ہوئی ہو گی کہ میں اپکا نام جانتا ہوں_ لیکن مشکل یہ ہے کہ آپ کی مشکل نہیں جانتا، کیونکہ غائب کا علم اللہ کو ہے، میں اپ کے لئے اجنبی ہوں مجھ سے بات شیئر کریں یا مجھے اپنے گھر کا ایڈریس بتا دیں”

میں نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور کہا_

“جب تک مجھے معلوم نہ ہو کہ آپ کس ارادے سے مجھے سے سوالات کر رہے ہیں _ گفتگو آگے نہیں بڑھائی جا سکتی”

میری بات پر وہ مسکرایا __ کہنے لگا

“آپ فکر مند نہ ہوں _ آپ نہیں بتانا چاہتے نہ بتائیں _ لیکن اتنا تو کر سکتے ہیں کہ مجھے یہ بتا دیں کہ جہاں ہم بیٹھیں ہیں یہاں سے نکل کر اگر آپ کے گھر جائیں تو کونسا راستہ اختیار کرنا ہو گا؟”

نجانے اس کے لہجے میں کیا اعتماد اور رعب تھا کہ میں نے اسکو گھر کا ایڈریس دے دیا۔

اس نے مجھ سے اجازت چاہی _ کہنے لگا

“کل __ اسی وقت اسی مسجد میں اسی جگہ ملاقات ہو گی۔”

یہ کہہ کر وہ ساعت ان میں وہاں سے غائب ہو گیا۔ میں مسجد کے باہر دوڑ کر پہنچا لیکن وہ چھلاوہ تھا، نکل گیا۔

مسجد سے نکل کر میں اپنے دفتر پہنچا _ عشاء بھی وہیں پڑھی لیکن وہ نظر نہ آیا۔ میرا گھر یہاں سے 25 کلومیٹر کی طویل مسافت پر تھا۔

دوسرے دن نجانے کیوں مجھے اس سے ملنے کی بے چینی تھی۔ میں آزان سے پہلے ہی مسجد جا کر بیٹھ گیا لیکن اقامت تک میری نظر اسکو نہ دیکھ سکی۔ وہ کون تھا میں نہیں جانتا تھا لیکن _ ایک سحر تھا اس کی شخصیت اور باتوں کا جس کا میں منتظر تھا۔ جماعت ختم ہوئی __ میں نے نوافل ادا کئے اور پھر مناجات شروع کر دیں لیکن اب یہ خیال تھا کہ اللہ سے ایسے ہمکلام ہوا جائے کہ کوئی ذی روح متوجہ نہ ہو۔

دعا ختم ہوئی تو میرے کندے پر ایک ہاتھ کا بوجھ پڑا __ میں نے جھٹ اپنی دائیں جانب دیکھا تو وہی شخص میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر میرے ساتھ بیٹھ رہا ہے۔

“راجہ صاحب کیسے ہیں؟ یقینا آپ میرے منتظر ہوں گے”

لیکن میں نے منہ سے کوئی جواب نہ دیا اور آنکھوں سے اسے بات کرنے کو کہا۔

“آج میں آپکو بتاونگا کہ میں کون ہوں _ آپ کون ہیں _ ہم کیا ہیں؟ ہمارے ساتھ کیا ہونا ہے؟ مشیت الہی کیا ہے اور ہم کیا کر سکتے ہیں؟” اسکی باتوں میں ربط تھا لیکن میں سمجھنے سے قاصر تھا۔

“آپ نے کل میرا نام لیا، اپنا تعارف نہیں کرایا مجھے سے میری پریشانی پوچھی، آپ کو مجھ سے کیا انٹرسٹ ہو سکتا ہے؟ یہاں کون کسی کو پوچھتا ہے؟ جبکہ میں کسی کو کچھ بتانا بھی نہیں چاہتا”

آج میرے لہجہ میں اعتماد لوٹ آیا تھا اور باوجود اس کے کہ اس کی شخصیت میں ایک جادو تھا _ میں نے اسے بے اثر کرنا چاہا۔

“ہم سب اللہ کی مخلوقات ہیں_ وہ خالق ہے اور اپنے نیاز مندوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا” اس کی بات جاری تھی “بندہ جلد باز ہے _ یہی بندے کی خامی ہے _ کچھ باتیں صرف اسی وقت وقوع پذیر ہوتی ہیں جب ان کا وقت مقررہ آتا ہے، آزمائش کا ایک خاص ٹائم ہوتا ہے، آپ نے پہاڑ دیکھا ہے، اس کی چاروں جانب ڈھلوان ہوتی ہے جبکہ اس کے درمیان اس کا قد ہوتا ہے، آپ سمجھی یہ آزمائش ہے جو اپنی چوٹی پر جا کر پھر ڈھلوان اختیار کرتی ہے اور انسان سہل ہو جاتا ہے” اسکی باتوں میں سحر تھا جو سر چڑھ کر بول رہا تھا _ “پہاڑ کے پہلو اور دامن میں بسنے والی صاف ندیوں کا پانی بھی چوٹیوں سے آتا ہے _ اسی پانی سے اپنی زندگی کو تعبیر کر لیں” _ اس دوران اس نے صرف اپنا نام بھی بتایا۔ “مجھے محمد احمد کہتے ہیں”

میرے جسم کے بال کھڑے ہونا شروع ہو گئے _ میں نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پانے کی کوشش کی اور کہا _ “حضرت کام کی بات ہو جائے، لیکچر بعد مین سن لونگا”

وہ مسکرایا اور بتانے لگا۔
“آپکا گھر __ جیسا کہ آپ نے بتایا تھا فلاں جگہ واقعہ ہے، اسکا دروازہ فلاں رنگ کا ہے، صحن میں فلاں فلاں پودے اور درخت موجود ہیں، عقب میں اتنی کمرے ہیں، صحن کے عین بیچ ایک کنواں ہے، فلاں کمرے میں اتنی الماریاں ہیں، فلاں فلاں کانسی کے برتن فلاں فلاں جگہ موجود ہیں”

بات گھر کی لوکیشن یا رنگ تک محدود ہوتی تو شاید مجھے حیرت نہ ہوتی لیکن یہ شخص تو گھر کے برتن اور درختوں اور پودوں کے نام تک بتا رہا تھا۔ اور سب سے حیران کن بات تو یہ تھی کہ کانسی کے برتنوں کی بابت بات ہو رہی تھی جو صرف شو پیس رہ گئے تھے انکا استعمال ترک ہو چکا تھا۔

“آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟” میں نے اپنی حیرانگی پر قابو پاتے ہوئے اس پر سوال داغا۔

“میں کچھ ثابت نہیں کرنا چاہتا، لیکن یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں آپ کی آزمائش تک پہنچ چکا ہوں، آپ کو فلاں آزمائش کا سامنا ہے” _ وہ اعتماد سے گویا ہوا۔

میرے ہاتھوں کے توتے اڑ گئے جب اس نے میری آزمائش پر لب کشائی کی، میں اپنا اعتماد کھو بیٹھا اور میری آنکھوں کی نمی نے میرا سارا بھید کھول دیا۔ میں نے جھٹ سے آنکھیں بند کیں اور رب سے التجا کی کی میرا راز کیوں فاش ہوا _ لیکن اللہ کی یہ شان نہیں کہ وہ بندوں سے ہمکلام ہو مگر صرف انبیاء سے _ ہم پر شرح صدر ہونا ہی کمال ہے۔ جو کبھی ہوتا ہے کبھی نہیں ہوتا۔

میں نے اپنی رہی سہی ہمت اگھٹی کی اور اس سے پوچھا _ “آپ پہلے مجھے یہ بتائیں کہ آپکو یہ ساری باتیں کیسے معلوم ہوئیں؟ کس نے بتائیں اور ان باتوں کو جاننے کا آپ کا مقصد کیا ہے؟”

میرا پوچھنا بنتا تھا _ میں ایک مواحد مسلمان ہوں اور انبیاء کی صفات کو جانتا ہوں لیکن ایک انجانا شخص مجھےایسی باتیں بتائے جو صرف میری زات سے منسوب یوں تو حیرانگی بنتی ہے۔ اس کی شخصیت اور باتوں کا سحر اب بھی میں محسوس کر رہا تھا۔ میں نے دل میں لاحولا ولا قوہ الا باللہ حی العلی یاالعظیم پڑھا لیکن وہ غائب نہ ہوا __ مجھے کچھ اطمنان ہوا کہ یہ شیطان تو نہیں لیکن یہ کون ہے؟ میں اب متجسس تھا۔

اس نے اپنا نام بتا دیا تھا __ اب مجھے اس کی ذات میں اس کو جاننے کی دلچسپی تھی۔

“حضرت _ آپ کون ہیں؟ کہاں سے ہیں اور مقصد کیا ہے ان باتوں کا جو میں پہلے پوچھ چکا ہوں_ یہ بتائیں” میں اب اعتماد میں تھا اور کچھ دیر پہلے کا سحر رفو کر چکا تھا۔

اس شستہ سوال پر اس نے اپنا تعارف کرایا کہ وہ ایک ریٹائر بنک مینیجر ہے _ اس نے اپنا علاقہ اور مسکن بتانے سے معذرت کی __

“یقینا _ آپ نے مسجد میں بیٹھ کر اپنا نام اور پیشہ درست بتایا ہو گا” _ میری سوال پر اس کے ماتھے پر شکن نمودار ہوئی _ لیکن محبت سے گویا ہوا۔

” ہمیں جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں ہے، اور اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں، میں نے جو باتیں چھپانی تھیں، وہ بتانے سے معذرت کر لی”

اس کے جواب میں وزن تھا۔ “اب آپ جب میری آزمائش سے واقف ہو چکے ہیں تو یہ بتانا مناسب سمجھیں گے کہ _ آپ کو یہ باتیں کیسے پتا چلیں؟ بجائے آپ مجھے اور باتوں میں الجھائے رکھیں سیدھی بات نہ کر لیں” میں نے سوال کیا تو وہ آمادہ نظر آیا

“آپ شاید یقین نہ کریں _ یہ کوئی علم غیب نہیں __ بلکہ میرے موکلات کا بتانا ہے۔

میں موکلات سے لا علم تھا کہ یہ کس بلا۔کا نام ہے

“میں پچھلی کئی ایک دنوں سے آپ کو دیکھ رہا تھا یہاں _ میں نے بہت جلد ریٹائرمنٹ لی تھی اور اس کے بعد خدمت خلق پر لگ گیا _ ہم فلاں روحانی سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارے ذمہ ہے کہ ہم لوگوں کی اصلاح کے ساتھ ساتھ ان کی آزمائشوں کا روحانی علاج بھی کریں، جو لوگ مستفید ہوں ان پر لازم ہے کہ اچھی باتیں آگے بھی پہنچائے، لوگوں کا بھلا کرے اور لوگوں کی آزمائشوں سے نکلنے میں مدد کرے”

یعنی میری آزمائش کا اس کے پاس کوئی حل تھا۔

اس نے کہا “میں نے فلاں وقت میں کسی کو آپ کا نام پکارتے سنا تھا، جب آپ مارکیٹ میں سیگریٹ خرید رہے تھے، ادھر سے مجھے اپکا نام پتا چلا”

مجھے چنداں حیرت اس بات پر نہیں تھی کہ اسکو میرا نام پہلے سے معلوم تھا لیکن مجھے اس بات پر حیرت تھی کہ وہ مسلسل میرا پیچھا کرتا رہا تھا۔

“پھر _ میرے گھر کا آپکو کیا معلوم __ میری آزمائش کیسے پتا چلی” میں نے دوبارہ پوچھا

“بتاتا ہوں _ ہم خدمت پر معمور ہیں _ خدمت خلق _ اسی دوران ہمیں روحانی طاقتیں ملتی ہیں جس سے ہم موکلات پر قابو پا لیتے ہیں _” اس نے بتایا

مجھے اب موکالت کی سمجھ آ گئی کہ یہ کوئی جنات وغیرہ ہیں _

“جب میں نے آپ سے گھر کا ایڈریس پوچھا تھا _ تو اسی رات میں نے موکلات کو بھیج کر آپ کے گھر کی بابت باتیں پتا کرائیں _ آپ کی آزمائش کی بابت موکلات کو کافی تگ و دو کرنا پڑی _ آپ کے گھر میں رہائش جنات نے آپ کی ذاتی معلومات نہیں دینا چاہتے تھے، وہ آپ سے خاصے مانوس ہیں اور اپ کے ہمدرد ہیں” __اس نے کہا

“جب تک آپ کے گھر کے جنات کو یہ یقین نہیں دلایا گیا کہ اس پوچھ گچھ کے پیچھے نیک نیتی ہے وہ بتانے سے مانع تھے” _ میں اس کی بات سن کر مسکرایا لیکن اس نے بات جاری رکھی

“موکلات نے بتایا کہ آپ کے گھر میں کیا واقعات پیش آئے _ آپ اپنی آزمائش صرف فلاں جن سے ڈسکس کرتے ہیں اور جنات میں فلاں بھی موجود تھی اس نے کہا کہ بچہ پریشان بہت ہے، کہیں خود کشی نہ کر لے” __ مجھے سن کر حیرت ہوئی میں آج تک “اس فلاں” کو اپنا وہم سمجھ رہا تھا جو رات کو ملاقات ہوتی تھی

“میں یقین کر لیتا ہوں، لیکن آپ کو پتا چلنے پر سوائے میری آزمائش آشکار ہونے کے مجھے کیا ملا، آپ سے شناسائی نہ سہی لیکن میرا راز صرف آشکار ہوا ہے اسکا کوئی حل تو نہیں نکلا” __ میرے لہجے میں اب طنز عود آیا تھا

“ایسا نہیں _ میرا مقصد قطعا یہ نہیں تھا کہ صرف آپکو وہ آزمائش بتا کر آپکو شرمندہ کروں جس کی مناجات آپ صرف اللہ سے کرتے ہیں، میں تو اس کے حل کے لئے آپ کے پاس آیا ہوں” __ اس نے محبت سے کہا تو مجھے تھوڑی ڈھارس بندھی

“لیکن _ جو حیران کن حالات ہیں کہ ہر روز ایک نئی آزمائش مجھ سے آن ٹکراتی ہے اس کا سدباب تو اللہ ہی کے پاس ہے۔ اب بار بار ایک ہی دن میں 3 مختلف اوقات اور مختلف جگہوں پر میرے ساتھ چھوٹے چھوٹے حادثے ہونا تو تقدیر ہے _ آزمائشوں تقدیر میں لکھی ہیں تو ان کا سدباب تو ممکن نہیں” میں نے ایمان سلامت رکھتے ہوئے محتاط سوال کیا

وہ بولا “بے شک آزمائشیں من جانب اللہ ہوتی ہیں لیکن _ جادو کا وجود بھی ہے جو اچھوں اچھوں کے کس بل نکال دیتا ہے، دنیا عالم اسباب ہے، جب تک تدارک نہ کیا جائے شیاطین کو بھگانا مشکل ہے” _ مجھے حیران ہوا کہ میں کیوں اتنا اہم ہوں کہ کوئی مجھ پر یا میرے گھر پر جادو کرے گا۔

“میں _ معاشرے کا ایک عام سا فرد ہوں جس کے ہونے نہ ہونے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ ناممکن ہے کہ کوئی مجھے اتنی اہمیت دے کہ مجھ پر جادو کرائے” _ میں نے کہا

“کوئی کسی کے لئے کتنا اہم ہے یہ بندہ خود سے اندازہ نہیں لگا سکتا، یہ بات اسے معلوم ہوتی ہے کہ آپ کتنے اہم ہیں جو غلط عملیات کرتے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ کس نے کیا لیکن آپ اور آپکا خاندان کالے جادو کے زیر اثر ہیں اور اسکا حل بھی میں ہی بتاونگا” _ اس کے اس جواب پر میں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا کہ شاید وہ مجھ سے پیسے بٹورنے کی نیت سے یہ سب کہہ رہا ہے _ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں تو کہنے لگا

“آپ غلط سمجھ رہے ہیں، شاید میں آپ سے توڑ کے لئے مال کا تقاضہ کروں، ایسا ہر گز نہیں، جس دن میں نے مال کا تقاضہ کیا مجھ سے میری روحانی طاقت سلب کر لی جائیگی اور میں کسی کے کام نہیں آ سکوں گا” _ اس جواب پر میں تھوڑا مطمئن ہوا

“آخری بات _ میں آپ کو عمل بتا کر رخصت چاہوں گا اور شاید زندگی میں ہماری دوبارہ ملاقات نہ ہو، لیکن یاد رہے کہ بغیر لالچ کے آپ لوگوں کے کام آتے رہیں گے، جب آپ آسودہ ہو جائیں” اس نے ملاقات کو ختم کرنے کا عندیہ دیا تو میں نے بھی اثبات میں سر ہلا دیا

اس نے مجھے ایک کتابچہ دیا جس پر “منزل” جلی حروف میں لکھا تھا _ اور ایک آیت بتائی جو اس مسئلہ و آزمائش کا حل تھا۔

اس نے کہا “صبح فجر کی نماز پڑھ کر منزل پڑھ لینا _ ایک گلاس پانی لیکر دم کر لینا اور ایک ایک گھونٹ گھر کے سب لوگ پی لینا _ تھوڑا پانی بچا کر گھر کے کونوں میں چھڑک دینا انشاءاللہ بہت جلد تمہیں اس جادو کے اثر سے نجات مل جائیگی _ لیکن یہ عمل جب تک جاری رہے گا تب تک کالے جادو کا اثر زائل رہے گا_ اس کو مکمل ختم ہونے میں 2 سال تک لگ سکتے ہیں فلاں آیت جو بتائی اسکو بروز سوموار بکثرت پڑھنا اور اللہ سے مدد طلب کرنا جو کام رکے ہوئے ہیں نکل پڑیں گے۔

میں نے احسان مندی سے اس کی باتیں سنیں اسے چائے کی آفر کی بلکہ بے انتہا کوشش کی لیکن اسکی ضد تھی کہ یہ نذرانے میں آتا ہے اس لئے اس نے رخصت لی اور دوڑ کر مسجد سے نکل گیا _ میں بھی اس کے پیچھے پیچھے نکلا لیکن پلک جھپکتے وہ کل کی طرح غائب ہو گیا۔

میرے جسم سے بوجھ کم ہونا شروع ہو چکا تھا۔ لیکن شاکی بھی۔

میرا ایک شناسا تھا _ سائیں فلاں جو کالے علم کا ماہر سمجھا جاتا ہے لیکن میں اس کو ایک فراڈ کے سوا کچھ نہیں سمجھتا تھا _

میں نے بزرگ کے دیئے گئے عمل پر صبح ہی وظیفہ شروع کر دیا لیکن پتا نہیں کیوں مجھے خارش ہوئی اور میں تیسرے دن سائیں فلاں کے آستانے پر پہنچ گیا۔ اس کے سیاہ و سفید کو ہم جانتے تھے اس لئے وہ ہماری ہمیشہ ہی آوبھگت کرتا تھا۔ ہم دو دوست اکثر اس کے پاس گپ بازی کے لئے جاتے تھے۔ _ میں اس دن اکیلا ہی اس کے پاس گیا __

اس کے گھر کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا تھا اور عین دروازے کے سامنے بڑے تخت پر آلتی پالتی مار کر بیٹھتا تھا _ اس نے لمبے بال رکھے ہوئے تھے اور انکو پونی کرتا _ بیٹھ بیٹھ کر اور نحس کام کر کر کے اس کے چہرے پر اس کے کرتوتوں کی پھٹکار صاف نظر آتی تھی۔

اس نے مجھے دروازے سے داخل ہوتے دیکھ کر دور سے ہی میرے نام کا شور مچانا شروع کر دیا۔ اور اپنی بیوی کو آوازیں دینے لگا کہ “توا تتا کر بھلئے لوکے، راجہ آیا ای تے روٹی کھا کے جائےگا” _ میرے قریب پہنچنے پر اس نے اعزازی بغل گیری کی کیونکہ اپنے جثہ عظیم کی بنا پر وہ اٹھنے بیٹھنے سے قاصر ہو چکا تھا۔ ہلنا جلنا اس کے لئے محال تھا لیکن وہ آداب میزبانی سے واقف تھا۔

سلام دعا کے بعد _ اس نے کہا “بادشاہو آج سنگی ساتھ لے کے نہیں آئے، کلے ای آ گئے خیر اے”
(آپ اپنے دوست کے بغیر آئے ہیں خیریت ہے)

“ویسے ہی آج اکیلے آنے کا موڈ بنا گیا” میں نے مختصر جواب دیا

“سائیں _ بتاو کالا جادو کیا ہوتا ہے؟ یہ کیسے کام کرتا ہے؟ اور اس کو کیسے کیا جاتا ہے” __ میں نے یک مشت اس پر ایسے سوالات کئے کہ اس کا منہ کھل گیا

وہ نہ بتانے والے انداز میں کہنے لگا “راجہ صاحب آپ پوچھ کر کیا کریں گے؟ دوسرا میں تو سفلی علم دیکھتا ہوں اور علم اعداد کا ماہر ہوں، بھلا میں کالے جادو کے بارے میں علم کہاں رکھتا ہوں؟”

“سائیں، میں کب کہہ رہا ہوں ہوں کہ تم کرتے ہو، میں تو صرف پوچھ رہا ہوں کہ یہ کیسے ہوتا ہے؟” میں نے دھیمے اور مضبوط لہجے میں بات جاری رکھی “سائیں __ میں یہ تو نہیں جانتا کہ تم کونسا عمل کرتے ہو لیکن یہ جانتا ہوں کہ میرے سوالوں کے جواب تمہارے سوا کوئی نہیں دے سکتا، کیا ایسا نہیں ہے؟”

“راجہ صاحب، وہ بات یہ ہے کہ کچھ باتیں صرف اہل علم سے ہی کی جاتی ہیں، لیکن آپ استفسار کرتے ہیں تو جو مجھے معلوم ہے ضرور بتاونگا” __ اس نے آمادگی کا اظہار کر دیا تھا

تو پھر بتاو __ “اب میرا لہجہ تحکمانہ ہو گیا تھا” اس پر اس نے رد عمل دینا چاہا لیکن میرا تعلق جس محکمہ سے تھا وہ آڑے آ گیا۔

اس نے کہا “راجہ صاحب، کالے جادو کی عملیات کے لئے کفر اختیار کرنا پڑتا ہے اور یہ بنیادی بات ہے اس کے عمل کے لئے، عامل نام کا مسلمان تو ہو سکتا ہے لیکن اس علم کے حصول کے لئے اسے شیطان کو خوش کرنا پڑتا ہے اور اس کے نتیجہ میں شیطان اس کی برے کاموں میں بڑھ چڑھ کر مدد کرتا ہے۔ برے جنات کی اس کے ساتھ ڈیوٹی لگا دی جاتی ہے جو اس کو معلومات فراہم کرتے ہیں اور انسانوں کے ذریعے وہم اور وسوسے ڈال کر لوگوں سے کام کرائے جاتے ہیں، جس پر جادو کیا جاتا ہے، یہ جادو اسکو مور تو نہیں دے سکتا لیکن اس کو بدحال کر کے بیمار ضرور کر دیتا ہے، اسکا سکون برباد ہو جاتا ہے، اکثر لوگ نفیساتی مریض بن جاتے ہیں، کالے جادو کو کالا جادو ہی توڑ سکتا ہے”

اس کے آخری جملہ پر مجھے اعتراض تھا لیکن یہی اس کی مارکیٹنگ تھی _ میں نے اس کو آس دلائی اور بولنے مجبور کیا۔

“تم، میرے بارے اپنا علم استعمال کرو _ ذرا قلم اٹھاو اور دیکھو کہ کہیں میں اس علم کی زد میں تو نہیں” _ میں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے اسے دانہ ڈالا

“راجہ صاحب، دنیا میں سب سے پہلے دشمن اپنے ہوتے ہیں، جو دوستی کی آڑ میں حملے کرتے ہیں” _ اب وہ میری نفسیات سے کھیلنا شروع ہو چکا تھا میں نے اسے نہیں روکا

“آگے چلو، بتاو تمہارا علم میرے بارے میں کیا کہتا ہے” _ میں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی

اس نے ایک کاپی اٹھائی اور مجھ سے میری والدہ کا نام پوچھا _ سنہ پیدائش اور مقام پوچھا جو میں نے اسے بتا دیا اس کے بعد وہ 14 منٹ تک جمع تفریق کرتا رہا _ میں اس عمل سے نابلد تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔

اس کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ اس کا علم اس کو کچھ اچھی خبریں نہیں دے رہا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لوگوں کے نفسیات سے کھیلنے کی یہ ایک ترکیب ہو۔ لیکن وہ کافی پریشان لگ رہا تھا۔

کاپی پنسل ایک سائیڈ پر رکھ کر اس نے ایک گلاس پانی پیا اور چہرے پر ہاتھ پھیرا۔ کہنے لگا

“راجہ صاحب، میرا علم جس پر مجھے دسترس ہے کبھی جھوٹ نہیں بولتا _ آپ کالے جادو کے زیر اثر ہیں، اور آپ کا گھر بھی” اس کے بعد اس نے وہ ساری باتیں مجھے بتائیں جو وہ انجان بزرگ مجھے بتا چکے تھے۔ لیکن سائیں نے مجھے حل نہیں بتایا شاید وہ مجھ سے اس بات کا سوال کروانا چاہتا تھا۔

میں نے پوچھا “سائیں بتاو اس کا علاج کیا ہے؟ اس کا روحانی علاج ممکن ہے یا پھر اس کی کاٹ کالا جادو ہی ہے”

“میں اس کی کاٹ سفلی علم سے کرنے کی کوشش کرونگا _ کیونکہ میں کالا جادو نہیں کرتا لیکن یہ حقیقت ہے کہ کالے جادو کو کالا جادو ہی کاٹ کرتا ہے” اس نے کہا

وہ مجھے مجبور کرنا چاہتا تھا کہ میں اس سے کہوں کہ تم کالا جادو کرو _ لیکن میں نے احتیاط کا دامن پکڑا اور کہا کہ تم سفلی علم استعمال کرو اللہ بہتر کریگا _ مجھے آج بھی یہ معلوم نہیں کہ سفلی علم کہتے کس کو ہیں۔

“مجھے کچھ اشیاء کی ضرورت ہو گی سفلی علم کے لئے، میں آپ سے پیسے تو نہیں لونگا اپنے علم کے لیکن اس عمل کے لئے مجھے کچھ اشیاء درکار ہیں وہ مجھے لا دیں _ میں کل ہی سے عمل شروع کر دونگا لیکن آپکو عمل میں میرے ساتھ رہنا ہوگا یا کچھ کام کرنا ہونگے” _ اس نے کہا

میں نے نیم رضامندی ظاہر کی اور اس سے پوچھا وہ کیا سامان ہے جو تمہیں اس عمل کے لئے چاہئے؟ میں جاننا چاہتا تھا کہ یہ کرتے کیا ہیں؟ مجھے یقین ہو چلا تھا کہ کالے جادو کو یہ سفلی علم کہہ رہا ہے۔

اس نے کاغذ پر چند سطریں لکھیں اور میرے حوالے کر دیں کہ یہ چیزیں لے آو _ کالے علم کی کاٹ میرے ذمہ ہے۔ میں نے لسٹ پڑھی تو اس میں لکھا تھا۔

ایک فٹ شیر کی کھال
زعفران 10 گرام
تازہ پانی کی زندگی مچھلی [600 گرام تک وزنی]
بکرے کا دل تازہ جس پر چھری کا کٹ نہ ہو
بکرے کی سری جس کا وزن 1 کلو تک ہو

میں نے لسٹ پڑھی اور استفسار کیا کہ ان چیزوں کا تم کیا کرو گے؟ اور مجھے کیا کرنا ہو گا۔ اس نے کہا یہ بعد کی باتیں ہیں پہلے تم یہ اشیاء لیکر آو۔ لیکن میں بضد تھا کہ جب تک مجھے ساری بات معلوم نہ ہو میں یہاں سے نہیں جاؤنگا۔ اسی دوران چائے اور سموسے آ گئے اور بات تھوڑی دیر کو رک گئی، چائے سموسے رکھ کر اس کی بیوی بھی پاس ہی بیٹھ گئی، آج سے 5 برس پہلے وہ اس کی مریدنی تھی پھر یوں ہوا کہ اسکا خاوند داعی اجل کو لبیک کہہ گیا اور پھر وہ سائیں کے 9ویں عقد میں آگئی۔ اولاد دونوں کی نہیں تھی، سائیں کو خادمہ درکار تھی اور خاتون کو چھت _ دونوں کا ملاپ ہو گیا _ سائیں کی پہلی 4 بیویاں فوت ہو گئیں تھیں اور 3 کو سائیں طلاق دے چکا تھا۔ گدی کا فیض تھا کہ سائیں کبھی بھی کنوارہ، رنڈوہ یا مطلقہ نہ رہا __

میں نے پھر سے تکرار پکڑی _ زچ ہو کر سائیں نے بتایا۔

“میں نے شیر کے چمڑے پر تعویذات لکھنے ہیں، جو زعفران سے لکھے جائیں گے۔ اس کے بعد ان تعویذات کو میں نے مچھلی، بکرے کے دل اور سری میں ڈالنا ہے۔ اس کے بعد آپ نے یہ تینوں چیزیں لیکر کسی پرانے قبرستان جانا ہے اور پرانی سے پرانی قبر دریافت کرنی ہے۔ رات کے پچھلے پہر آپ نے وہ قبر کھولنی ہے اور یہ چیزیں آپ نے اس قبر کے اندر پھینک کر قبر کو بند کر دینا ہے، قبر کو بند کرنے کے بعد آپ نے بآواز بلند کہنا ہے کہ اے قبر والے میری مشکلات آسان کر دے میں ترے نام کی نیاز دونگا، اس کے بعد صبح آپ نے 10 کلو جلیبی لیکر محلے میں اس نیت سے بانٹنی ہے کہ قبر والا آپ کے کالے جادو کی کاٹ کرے۔ کام ختم، کالا جادو ٹل جائیگا’

بے اختیار میرے منہ سے نکلا __ “کام اور ایمان دونوں ختم، یہ سفلی علم ہے یا کالا جادو؟”

میرے اس سوال پر سائیں بوکھلا گیا _ راجہ صاحب آپ کچھ بھی کر لیں اس عمل کے بغیر آپ کالے جادو سے چھٹکارہ نہیں پا سکتے۔

مجھے غصہ آ گیا _ یعنی ایمان اتنا سستا کہ میں اللہ کی بھیجی آزمائش کو دور کرنے کی خاطر شرک کا ارتکاب کروں _

“مجھے رات کو قبرستان جانے اور کھولنے سے خوف نہیں ہے سائیں، اگلے الفاظ پر غور کر _ کیا یہ ایمان کی خرابی نہیں ہوگی؟ کیا اس سے شیطان خوش نہیں ہوگا؟ تم خود بتا چکے ہو کہ شیطان کو خوش کر کے ہی کالا علم کیا جا سکتا ہے”

اب اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا _ “میری صحت اور جسم اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ میں خود چل کر کہیں جاوں ورنہ میں یہ سب عمل خود کر لیتا اور تمہیں کالے جادو سے بچا لیتا” اس نے آخری پتہ پھینکا اور کہا

مجھے اپنے ایمان کی فکر ہے _ لیکن ایسا بیہودہ عمل میں نہیں کرونگا اور نہ کرنے کا کہونگا۔ غصہ کی حالت میں __ میں یہ کہتے ہوئے وہاں سے نکل آیا۔

گھر پہنچنے تک میرے دماغ میں گھنٹہ گھر بچتا رہا کہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر کہاں جارہے ہیں؟ _ اس کے در کے سوا کیا کوئی اور ہے جو بندے سے برائی دور کرے۔

میں نے عافیت اسی میں جانی کہ اس بزرگ والے عمل کو جاری رکھوں۔ میں وظیفہ کرتا رہا اور میرے حالات بتدریج ٹھیک ہونا شروع ہو گئے۔ آج میں بہت سکھی ہوں اور اس بزرگ کے لئے دعا گو ہوں جس کو اللہ نے مجھ سے ملوایا، میں شاکر ہوں کہ اللہ نے آزمائش میں ایمان بھی سلامت رکھا۔

ختم شد

خوفناک جزیرہ

خوفناک جزیرہ

قسط 24

آخری قسط

تحریر سراج انور

پچھلی قسط کا خلاصہ :

اس خوفناک جزیرے کی عجیب و غریب مخلوق دیوزاد مکھی کو ختم کرنے کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے فیروز مکھی کے راستے میں کھڑا ہو گیا تھا۔ اور اوپر سے جان اور جیک نے لرزتی چٹان کو دھکے دے کر نیچے لڑھکا دیا جو ٹھیک مکھی کے پیٹ پر جا گری۔ مکھی کا پیٹ پھٹتے ہی پیٹ میں سے گرم گرم لاوا نکل کر ہر طرف بہنے لگا جس طرف بھی لاوا گیا، اس نے ہر چیز کو جلا کر خاک کر دیا۔ فیروز زمین پر گر کر بےہوش ہو چکا تھا اور لاوا بہتے بہتے فیروز کے قریب پہنچنے والا تھا کہ ملاح نے بہادری اور تیزرفتاری سے دوڑتے ہوئے جا کر فیروز کو بچا لیا۔

اب سوال یہ تھا کہ مکھی کی آنکھیں کس طرح نکالی جائیں۔۔۔؟!

۔۔۔ اب آپ آگے پڑھئے ۔۔۔

“۔۔۔ ترکیب عمدہ تھی اس لئے ہم نے اس پر فوراً عمل کیا اور نتیجہ کے طور پر ہم نے مکھی کا سر اپنی طرف کھینچ لیا۔ جب سر ہمارے قریب آ گیا تو ہم نے اس کی آنکھوں کو غور سے دیکھا۔ آنکھیں کیا تھیں۔ دو بہت بڑے بڑے گول نگینے سے تھے اور ان نگینوں میں ہزاروں رنگ نظر آتے تھے، کسی طرف سے بھی دیکھنے کے بعد یہ رنگ پلٹنے لگتے تھے۔ بڑی دیر تک ہم ان شیشوں کو حیرت سے دیکھتے رہے اور پھر ملاح نے ایک تیز خنجر سے وہ قیمتی آنکھیں سر میں سے نکال لیں۔ ان آنکھوں کو حفاظت سے اپنے ساتھ لے کر ہم جلدی جلدی آگے بڑھے۔

ملاح پانی کے اس ذخیرے کے قریب رک گیا جو پہلے ہمیں گرم لگا تھا مگر پینے کے لائق تھا۔ جب میں نے پوچھا کہ وہ کیوں رک گیا ہے؟

تو اس نے کہا کہ جتنی جلدی ہو سکے ہم جہاز میں سے پانی کے ڈرمز لے کر آئیں تاکہ پینے کا پانی یہاں سے جمع کر سکیں۔ مزے کی بات تو یہ ہے فیروز، کہ جس ملاح پر ہم پہلے حکم چلایا کرتے تھے، اب وہی خود ہم پر حکم چلا رہا تھا اور ہم بغیر چوں چرا کئے اس کی ہر بات مان رہے تھے۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ہمارا محسن تھا اور اس نے کچھ دیر پہلے ہماری جانیں بچائی تھیں۔

خیر ہم جلدی جلدی پہاڑ پر چڑھے، جہاز میں سے دو ڈرم نکالے میں نے جھانک کر تمہیں دیکھا، تم اس وقت تک بےہوش پڑے ہوئے تھے۔ یہ سمجھ کر کہ تم جلد ہوش میں نہ آؤ گے، ہم ڈرمز لے کر پہاڑ سے نیچے آئے، ملاح نے ڈرمز میں پانی بھرا اور پھر ایک ڈرم اپنے کندھے پر رکھ کر وہ پہاڑ پر چڑھنے لگا۔ قصہ مختصر یہ کہ اس طرح ہم نے زیادہ سے زیادہ ڈرام پانی سے بھر لئے۔ جس وقت ملاح آخری ڈرم لے کر پہاڑ پر چڑھ رہا تھا، یکایک زمین زور سے ہلی اور نہ جانے کیا بات ہوئی کہ ہمارے دیکھتے دیکھتے اچانک جزیرہ ڈانواں ڈول ہونے لگا۔ پہاڑ پر چڑھتے چڑھتے ہم نے غور سے جزیرے کی زمین کو دیکھا تو بہت اچنبھا ہوا۔ بپھرتے ہوئے سمندر کا پانی آہستہ آہستہ زمین کی طرف بڑھ رہا تھا۔ مطلب یہ کہ جزیرہ ڈوب رہا تھا!”

“وقت سے پہلے ہی ڈوب رہا تھا۔؟” میں نے حیرت سے دریافت کیا۔

“ہاں فیروز! وقت سے پہلے ہی، اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ سب اس خوف ناک مکھی کے اچانک مر جانے سے ہوا تھا۔” جان نے تمباکو کے لمبے کش لگانے کے بعد کہا۔

“جب جزیرہ سمندر میں ڈوبنے لگا تو اس کے ساتھ ہی ہمارا جہاز بھی آہستہ آہستہ نیچے آنے لگا۔ جہاز ابھی تک پہاڑ کی چوٹی پر ٹکا ہوا تھا۔ جب یہ پہاڑ بھی سمندر میں ڈوب گیا تو ہمارا جہاز بھی آپ ہی آپ پانی کی سطح سے لگ گیا۔ ہم تینوں نے مل کر جلدی جلدی بادبان کھولے اور لمبے لمبے بانسوں کی مدد سے جہاز کو پہاڑ کی چوٹی سے دور ہٹا دیا۔ ہم چوٹی سے بانس لگا کر زور لگاتے اور جہاز اپنی جگہ سے تھوڑا کھسک جاتا اور آخرکار اس طریقے سے جہاز چوٹی سے ہٹ کر پورا کا پورا پانی میں آ گیا۔۔۔ کوشش ہم نے یہی کی کہ جلد سے جلد اس موت کے جزیرے سے دور چلے جائیں اور اس میں کامیاب بھی ہو گئے۔ راستے میں ہم نے تمہاری مرہم پٹی کی اور اگلے دن سورج کی پہلی کرن کو مکھی کی آنکھوں سے گزار کر یہ سونا اور ہیرے بنائے۔ لو یہ دیکھو۔”

اتنا کہہ کر جان نے مجھے چند ہیرے اور سونے کا ایک ٹکڑا دکھایا۔ اس نے بتایا کہ ہیرے تو چند چھوٹے پتھروں سے بنے ہیں اور سونا ایک ٹوٹے ہوئے چاقو کے پھل سے۔ یہ چیزیں دیکھ کر میری حیرت کی کچھ حد نہ رہی۔ اب تک تو میں یہی سمجھتا رہا تھا کہ مکھی کی آنکھوں والی کہانی میں کچھ سچائی نہیں ہے۔ ولیم نے کتاب میں جو کچھ لکھا ہے وہ بالکل جھوٹ ہے، مگر حقیقت میرے سامنے تھی اور اب میں اسے کسی بھی طرح نہیں جھٹلا سکتا تھا !

آپ کو یہ بتانا تو اب بالکل بےکار سا لگتا ہے کہ ہم لوگ کس طرح ہندوستان کے ساحل کومورن تک پہنچے۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ ہزاروں مشکلیں جھیلتے، طوفانوں سے لڑتے، نت نئی بلاؤں کا مقابلہ کرتے آخرکار دس ماہ بعد کومورن پر اترے۔ تب ہمیں اتنی خوشی ہوئی کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ کپڑے اتنے پھٹے ہوئے تھے کہ ہم اس حالت میں بستی کے اندر نہیں جا سکتے تھے۔ مجبوراً ملاح کو بھیجا۔ وہ ہمارے لئے سونے کی ایک چھوٹی سی ڈلی کے بدلے ایسا لباس لے آیا ہے جسے پہن کر ہم انسان نظر آنے لگے (یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ سونے کی ڈلی دراصل مکھی کی آنکھوں ہی کا کرشمہ تھی)۔

چند دن اسی بستی میں آرام کرنے کے بعد ہم نے اپنے گھوڑے لئے اور ساتھ ہی بستی سے چند بڑے بڑے مضبوط تھیلے بھی خرید لئے، اس کے بعد ہم اس مقام کی طرف روانہ ہوئے جہاں اب سے کافی دن پہلے خزانہ دریافت کیا تھا۔ چوں کہ اب ہم تازہ دم تھے اس لئے جلد ہی اس خوف ناک جنگل میں داخل ہو گئے۔ جہاں دوبارہ داخل ہونے کی تمنا ہم میں سے کسی کو نہ تھی۔ کیونکہ اس جنگل میں ہمارے ساتھ بڑے عجیب حادثے پیش آ چکے تھے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو یہ لکھتے ہوئے میرا دل اب بھی کانپ رہا ہے کہ خزانے کے زمین دوز دروازے کے اوپر ہی ایک انسانی ڈھانچہ مونہہ کھولے، بڑی بے بسی کی حالت میں پڑا ہوا ملا اور وہ ڈھانچہ عبدل کے سوائے اور کسی کا نہیں تھا۔۔۔!

وہ انسان جو کبھی بڑھ چڑھ کر باتیں بناتا تھا اب مٹھی بھر خاک اور سوکھی ہوئی ہڈیوں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ کیسی عبرت کا مقام تھا! جیک اور ملاح نے مل کر وہ زمین پھر کھودی، راستہ دوبارہ صاف کیا اور ہم نے وہ خزانہ ایک بار پھر حاصل کر لیا۔ ہمارے دل خوشی سے پر تھے۔ بوریاں تو موجود تھیں ہی اس لئے خزانہ بوریوں میں بھرنے کے بعد ہم واپس کومورن پہنچ گئے۔ یہاں ہم نے اپنے گھوڑے بیچ دیئے اور دو ملاح اور حاصل کئے۔ ہمارے ساتھ جو ملاح تھا اس نے ہم سے درخواست کی تھی کہ اب وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ ہی رہنا چاہتا ہے چوں کہ اس نے ہماری مدد بھی بہت کی تھی اس لئے ہم نے اس کی یہ التجا قبول کر لی۔

کومورن سے روانہ ہونے پر جان کو ایک عجیب و غریب بیماری لاحق ہو گئی۔ شاید سمندر میں زیادہ عرصے تک رہنے کی وجہ تھی یا پھر اس کا بڑھاپا۔ اس بیماری کے باعث وہ کافی کمزور ہو گیا تھا۔ کیوں کہ خشکی کا راستہ بہت مشکل اور تکلیف دہ تھا اس لئے ہم نے جان بوجھ کر سمندری راستہ اختیار کیا تھا۔ خیال یہ تھا کہ اس بات کا فیصلہ کرنے کے لئے کہ آئندہ ہمیں کیا کرنا ہو گا، ہم بمبئی پہنچ کر ہی سوچیں گے۔ اور پھر وہیں اس کا فیصلہ کریں گے اور سوچیں گے کہ خزانے کا کیا کیا جائے؟

مختصر یہ کہ بمبئی پہنچنے کے بعد ہم ایک ہوٹل میں مقیم ہو گئے۔ قسمت کی خوبی دیکھئے کہ میں پہلے دلی کے ایک ہوٹل میں بیرا تھا مگر اب بمبئی کے ایک عالیشان ہوٹل میں کسی بگڑے ہوئے رئیس کی طرح بڑے کروفر سے رہ رہا تھا۔ یہاں آ کر ہم نے خزانے کے کئی حصے کئے۔ حکومت کو اس کا حصہ دینے کے بعد بھی ہمارے پاس اتنا بچا تھا کہ ہماری ہزار پشتیں بھی اپنی زندگیاں آرام سے گزار سکتیں تھیں۔ جان اور جیک نے فیصلہ کیا کہ چند ہفتے وہ اسی ہوٹل میں مقیم رہیں گے، پھر اس کے بعد امریکا جانے کا پروگرام بنائیں گے۔ ہم اب غریبوں اور محتاجوں کی بھی اتنی مدد کر رہے تھے کہ ہر طرف ہمارا شہرہ ہو گیا، بڑے بڑے لوگ ہم سے ملنے آنے لگے۔ میں خوب سمجھ رہا تھا کہ یہ لوگ ہم سے ملنے نہیں بلکہ ہماری بے شمار دولت سے ملنے آ رہے ہیں۔

ایک دن کا ذکر ہے کہ میں اور جان ہوٹل کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ہمارا بیرا آیا اور میرے سامنے ادب سے جھک کر کہنے لگا :

“جناب آپ سے ایک شخص ملنا چاہتا ہے۔ حکم دیں تو یہیں بلا لوں۔”

میں نے جواب طلب نظروں سے جان کو دیکھا اور ان نظروں کا مطلب سمجھ کر جان نے بیرے سے کہا۔

“نہیں۔ ہم فیروز کے کمرے میں چلتے ہیں، وہیں بلا لاؤ۔”

بیرا سر جھکا کر واپس چلا گیا اور پھر ہم دونوں بھی اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گئے، جیک شاید کہیں گیا ہوا تھا۔ اس لئے وہ ہماری ہونے والی گفتگو میں شامل نہ ہو سکا۔ ہم ابھی اپنے کمرے میں آ کر بیٹھے بھی نہیں تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ جان کے “کم ان” کہنے پر دروازہ کھلا اور بیرا ایک ادھیڑ عمر شخص کو اپنے ساتھ لئے ہوئے اندر داخل ہوا۔ بغیر کسی سلام و دعا کے وہ شخص بڑی تیزی سے میری طرف ہاتھ پھیلا کر بڑھا۔ اور پھر “میرے بچے” کہہ کر مجھ سے زبردستی لپٹ گیا۔ میں نے بڑی مشکل سے خود کو چھڑایا اور پھر اس سے بولا:

“آپ کون ہیں اور کیوں مجھ سے بغل گیر ہو رہے ہیں؟”

“مجھے معلوم تھا میرے بچے کہ تم مجھے نہیں پہچانو گے۔ ارے میاں میں جمال ہو جمال۔ تمہارا چچا۔”

حیرت کا ایک شدید حملہ مجھ پر ہوا۔ خود جان کی بھی یہی حالت تھی۔ شاید وہ اس اجنبی کی گفتگو سمجھ گیا تھا۔ جیسا کہ میں آپ کو پہلے بتا آیا ہوں وہ دنیا کی تقریباً سب ہی زبانیں تھوڑی تھوڑی ضرور جانتا تھا۔

“چچا۔۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں جناب، کیا واقعی آپ فیروز کے چچا ہیں؟” اس نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں پوچھا۔

جان کی زبانی اتنا سنتے ہی وہ شخص زار و قطار رونے لگا۔ ہم اس کی شکل تکے جاتے تھے اور وہ روئے جاتا تھا، کافی دیر تک یہ ڈرامہ ہوتا رہا۔ آخر مجھے خود ہی اس کو خاموش کرنا پڑا۔ میں نے کہا:

“تعجب ہے کہ مجھے آج تک معلوم نہ سکا کہ میرا کوئی چچا بھی ہے؟ جس وقت میں روٹی کے دو ٹکڑوں کو محتاج تھا اور ایک ہوٹل میں بیراگری کر رہا تھا اس وقت آپ کہاں تھے؟”

“آہ فیروز، میرے بیٹے۔ میرے دل پر چرکے مت لگاؤ۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ تم پر کیا بیتی ہے؟ میں جاپان گیا ہوا تھا۔” اس شخص نے پھر مجھے گلے لگانے کی کوشش کی مگر میں پیچھے ہٹ گیا۔ اور اسے تیز نظروں سے گھورتے ہوئے بولا۔

“چلئے مان لیتا ہوں کہ ایسا ہی ہے۔ مگر اب آپ میرے پاس کیا لینے آئے ہیں؟”

“کیا لینے آیا ہوں؟” اس نے حیرت سے کہا : “بیٹا تمہیں اپنے ساتھ لے جانے آیا ہوں!”

“جی شکریہ۔ تکلیف کی ضرورت نہیں، مجھے آپ کے ساتھ نہیں جانا۔ لہذا اب آپ تشریف لے جا سکتے ہیں!”

“مگر بیٹا۔ آخر تمہیں ۔۔۔”

وہ شخص اتنا ہی کہنے پایا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ جان نے فون اٹھایا اور پھر آپریٹر کی بات سن کر بولا: “انہیں بھی بھیج دیجئے۔”

“کون ہے؟” میں نے جان سے پوچھا۔

“دیکھتے جاؤ کیا ہوتا ہے۔ اس کا نام دنیا ہے۔ فیروز! تمہارے ایک دوسرے چچا آ رہے ہیں۔”

میں ابھی حیرت سے جان کو دیکھ ہی رہا تھا کہ دروازہ کھلا اور ایک نوجوان آدمی، بہترین سوٹ پہنے اندر داخل ہوا۔ مجھے دور سے ہی انگریزی ملی اردو میں بولا۔

“ہیلو ڈیر فیروز۔ ہاؤ ڈو یو ڈو۔ تم کیسے ہو؟ میٹ می۔ آئی آیم یؤر انکل۔”

میں جان کو دیکھ کر مسکرایا اور پھر جان نے انگریزی میں ہی ان حضرت سے کہا۔

“آپ فیروز کے چچا ہیں۔۔۔؟”

“یقیناً۔ میں ہی فیروز کا چچا ہوں۔”

“مگر کون سے چچا ہیں؟ پہلے، دوسرے، تیسرے یا چوتھے۔؟”

“کیا مطلب؟” انہوں نے چونک کر پوچھا “جنٹلمین! ہم صرف دو بھائی ہیں۔ وہ مجھ سے بڑے تھے اور میں چھوٹا۔”

“خوب! تو پھر آپ انہیں بھی پہچانئے۔”

جان نے پہلے آنے والے میرے ‘چچا’ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا “یہ بھی فیروز کو اپنا بھتیجا کہتے ہیں!”

“واہ جناب، یہ اچھی رہی۔ یہ کوئی طریقہ ہے۔ فیروز میرا بھتیجا ہے، کمال ہے کہ اب دوسرے لوگ بھی اس کے چچا بن کر آنے لگے۔!”

اتنا کہہ کر وہ صاحب میرے پہلے “چچا” سے لڑنے لگے۔ ہم دونوں خاموش بیٹھے ان کی نوک جھونک دیکھتے رہے اور جب یہ لڑائی بڑھتی ہی گئی تو میں نے اکتا کر ان سے کہا:

“خاموش رہئے، صاحبان! لڑئیے مت اور براہ کرم فوراً یہاں سے تشریف لے جائیے، میں ایک یتیم لڑکا ہوں اور جہاں تک مجھے معلوم ہے میرا کوئی چچا نہیں ہے، اس لئے آپ دونوں یہاں سے فوراً نکل جائیے۔”

وہ دونوں حیرت سے میرا مونہہ تکنے لگے۔ انہوں نے کچھ کہنے کے لئے مونہہ کھولا ہی تھا کہ جان نے انہیں ڈانٹ دیا اور وہ لرزتے کانپتے باہر چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد جان سوچ میں پڑ گیا۔ آخر کچھ دیر بعد بولا:

“یہ تو بڑی مصیبت ہوئی فیروز۔ اس طرح تو روزانہ کوئی نہ کوئی تمہارا چچا یا ماموں بن کر آنے لگے گا۔ آخر ایسے لوگوں سے ہم کس طرح نجات حاصل کریں گے۔ ویسے ایک بات ہے فیروز۔۔۔!”

“فرمائیے کون سی؟”

“تم نے تو آج تک مجھے بھی اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا کہ تم کون ہو، اور تمہارے والدین کون تھے، ان کا پیشہ کیا تھا؟”

“والدہ کے بارے میں تو میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔” میں نے سوچتے ہوئے کہنا شروع کیا:

“میں بہت چھوٹا سا تھا جب کہ ان کا انتقال ہو گیا تھا۔۔۔ ہاں بس مجھے اتنا یاد ہے کہ تین یا چار سال کی عمر تک میں ایک بہت بڑے اور صاف ستھرے مکان میں رہتا تھا۔ ایک عورت تھی جو شاید میری آیا تھی۔ وہ مجھے بڑے لاڈ و پیار سے رکھتی تھی اور مجھے میرے والد کے قصے مزے لے لے کر سناتی تھی۔”

“والد کے قصے!” جان نے حیرت سے کہا “اس کا مطلب ہوا کہ تم نے اپنے والد کو نہیں دیکھا؟”

“جی ہاں یہی سمجھئے۔ صرف دو تین بار دیکھا تھا۔ پانچ چھ سال کی عمر میں ایسی باتیں یاد کسے رہتی ہیں۔ میری عمر اتنی ہی تھی۔ ہلکا سا نقشہ میرے ذہن میں محفوظ ہے۔ وہ ایک لمبے تڑنگے آدمی تھے اور ان کی مونچھیں بھی تھیں۔ شاید وہی میرے والد ہوں گے۔”

“پھر وہ کہاں گئے۔۔۔؟” جان نے جلدی سے پوچھا۔

“پتہ نہیں کہاں گئے، میں کہہ نہیں سکتا۔”

“تو تم دلی کے ہوٹل میں کس طرح ملازم ہوئے؟”

“مجھے اتنا یاد ہے کہ اس بوڑھی عورت نے مجھے ایک گھر میں بھیج دیا تھا۔ جہاں بچے ہی بچے تھے۔ ان بچوں کے ماں باپ بھی نہیں تھے۔ اس وقت تو مجھے معلوم نہ تھا کہ اس گھر کو کیا کہتے تھے، ہاں مگر اب میں جانتا ہوں کہ وہ یتیم خانہ تھا اور اسی یتیم خانے سے بعد میں مجھے دلی کے اس ہوٹل میں بیرا بنا کر بھیج دیا گیا۔ بس یہی میری کہانی ہے۔”

اتنا کہہ کر میں افسردہ ہو گیا۔ دل میں عجیب عبجیب خیالات آنے لگے۔ ماں اور باپ جنہیں میں نے بہت ہی کم دیکھا تھا مجھے یاد آ گئے۔ دل سے ایک ہوک سی اٹھی اور آپ ہی آپ میری آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں۔ میں پھر اتنا بے تاب ہوا کہ مونہہ چھپا کر بری طرح رونے لگا۔ یہ دیکھ کر جان نے جلدی سے اٹھ کر مجھے اپنے سینے سے لگا لیا۔ میرے آنسو پونچھے اور کہنے لگا۔

“گھبراؤ مت فیروز! میرے بیٹے، میں کل بمبئی کے سب یتیم خانوں میں جاؤں گا۔ اور خدا نے چاہا تو تمہارے والد کے بارے میں بہت کچھ پوچھ کر آؤں گا۔ تم اپنا دل چھوٹا مت کرو اور آرام کرو۔”

آرام تو اب مجھے کرنا ہی تھا۔ کیوں کہ اب میں اتنا دولت مند تھا کہ میری پوری زندگی عیش و آرام میں گزر سکتی تھی۔ مگر جسے سکون کہتے ہیں، وہ مجھے میسر نہیں تھا۔ لوگوں کے کہنے سے بار بار یہ بات دل میں کھٹکتی تھی کہ آخر میں کون ہوں؟

میرے ماں باپ کون تھے؟

میرے والد زندہ ہیں یا مر گئے؟

ہر وقت بس میں یہی بیٹھا ہوا سوچتا رہتا۔ بہت سے لوگ مجھ سے ملنے آئے، مگر میں نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا۔ مجھے یقین تھا کہ ان میں سے بیشتر میرے چچا، ماموں، بھائی یا دور کے رشتے کے عزیز ہوں گے۔ کچھ چندہ مانگنے آئے ہوں گے اور کچھ مجھے اپنے کلب کا ممبر بنانے۔ زندگی اسی طرح گزر رہی تھی کہ ایک دن جان ایک بوڑھی عورت کو اپنے ساتھ لئے ہوئے میرے کمرے میں آیا۔ عورت لاٹھی ٹیک کر چل رہی تھی۔ اس کی کمر جھکی ہوئی تھی اور وہ بہت زیادہ عمر رسیدہ تھی۔

“فیروز! یتیم خانوں میں پوچھ گچھ کے بعد میں نے تہماری آیا کو ڈھونڈ نکالا ہے۔ دیکھو یہی تمہاری وہ آیا ہیں جو تمہیں بچپن میں بہت پیار کرتی تھیں؟ آؤ ان سے ملو۔”

“فیروز بیٹا! تو کہاں ہے۔ میرے پاس آ، مجھے بہت کم دکھائی دیتا ہے میرے لال۔” عورت نے لرزتی آواز میں کہا۔

لفظ تو سن کر ہی میں سمجھ گیا کہ درحقیقت وہ میری آیا ہے۔ خوشی کے مارے کپکپاتا ہوا میں اس کے پاس پہنچا۔ میری شکل خوب غور سے دیکھنے کے بعد اس نے مجھے اپنے سینے سے لگا لیا اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔

“میرے چاند! میں نے تجھ پر کتنے ظلم ڈھائے ہیں۔ ہائے، میں بھی کتنی کمبخت ہوں کہ تجھے پال نہ سکی۔ مجھ نصیبوں جلی نے تجھے یتیم خانے میں داخل کرا دیا۔ مگر بیٹے اللہ گواہ ہے کہ میرے پاس کھانے کے لئے ایک دانہ بھی نہ تھا۔ تو میرے پاس رہتا تو فاقوں سے مر جاتا میرے بچے۔۔۔!”

اتنا کہہ کر وہ پھر رونے لگی۔ میں خود بھی اس سے لپٹ کر رو رہا تھا۔ جب ہم دونوں کے دلوں کا بوجھ ہلکا ہوا تو جان نے عورت سے کہا۔

“اماں۔۔۔ اب تو تم نے پہچان لیا کہ یہ فیروز ہے۔ تم راستے میں کہتی تھیں کہ اس کے سینے پر ایک کالا داغ ہے، میں دیکھ چکا ہوں کہ وہ داغ واقعی اس کے سینے پر ہے۔ فیروز تم انہیں وہ داغ بھی دکھا دو۔”

میں نے سینہ کھول کر آیا کو وہ داغ دکھایا تو وہ پھر مجھ سے لپٹ کر رونے لگی۔ جان کے بار بار یہ کہنے پر کہ وہ میرے والد کے بارے میں بتائے، بڑھیا نے کہنا شروع کیا:

“فیروز کسی معمولی خاندان سے نہیں ہے صاحب، بلکہ اس کی رگوں میں نوابی خون دوڑ رہا ہے۔ اس کے دادا نواب تھے اور کلکتہ میں ان کی بہت بڑی جائداد تھی۔ اس کے والد بہت پڑھے لکھے آدمی تھے انہوں نے امریکہ میں ڈاکٹری کی تعلیم پائی تھی اور بڑے عرصے کے بعد بمبئی لوٹے تھے۔ بمبئی ہی میں ان کی شادی ایک بوہرے سیٹھ کی لڑکی سے ہوئی۔ شادی کے بعد ہی جنگ شروع ہو گئی۔ اس کے والد بہت بڑے سرجن تھے اس لئے انہیں بھی لڑائی پر جانا پڑا۔ تب ہی فیروز پیدا ہوا۔ اس کی پیدائش کے دو مہینے کے بعد اس کی ماں ایک بیماری میں مر گئی۔ اور ننھے فیروز کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے گئی۔ تب میں نے اسے پالا پوسا اس کے والد صرف دو بار اسے دیکھنے آئے تھے، اور پھر ان کا پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں گئے۔ میں سمجھتی ہوں کہ وہ جنگ میں کام آ گئے ہوں گے۔”

یہ خبر سن کے میرے دل کو ایک دھچکا لگا۔ مگر یہ انکشاف میرے لئے خوشی کا باعث تھا کہ میں ایک اعلی خاندان سے تعلق رکھتا ہوں۔ بڑھیا نے سانس لے کر پھر کہنا شروع کیا۔

“میں اتنی بے وقوف تھی کہ میں نے قانون کی مدد لئے بغیر فیروز کو گھبرا کر یتیم خانے میں داخل کرا دیا۔ میں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ وہ ایک بہت بڑی جائداد کا مالک ہے اور اسے یتیم خانے میں داخل ہونے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، میں تو بس اپنی غریبی سے عاجز تھی۔ پریشان تھی اسی لئے یہ عجیب کام کر بیٹھی۔”

“مگر اماں، فیروز کے والد کا نام کیا تھا۔ یہ تم نے نہیں بتایا؟”

“کرنل پرویز تھا ان کا نام۔ وہ بہت خوب صورت اور بہادر ۔۔۔”

“کرنل پرویز۔۔۔!” جان نے چونک کر کہا:

“اور تم نے کہا ہے کہ انہوں نے امریکہ میں تعلیم حاصل کی تھی؟”

“جی ہاں۔ میں کیا بتاؤں کتنے اچھے آدمی تھے وہ۔”

“فیروز۔۔۔۔!” جان نے اپنے دونوں ہاتھ میری طرف پھیلاتے ہوئے کہا :

“فیروز میرے بچے، تمہارے نقلی چچا تو تمہیں بہت سے ملے مگر اب اپنے اصلی چچا سے بھی مل لو۔”

“کیا مطلب یہ۔۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟” میں نے تعجب سے کہا۔

“کاش مجھے پہلے سے معلوم ہوتا! مگر خدا کی مرضی بھی یہی تھی۔ میرے بیٹے، تمہارے والد کو میں نے اچھی طرح دیکھا ہے۔ کیوں کہ وہ میرے ساتھ ہی کالج میں پڑھتے رہے ہیں۔ آؤ میرے سینے سے لگ جاؤ۔”

میں حیرت سے ایک ایک کو دیکھ رہا تھا۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ کیا قصہ ہے۔ جان نے مجھے گلے لگانے کے بعد سب باتیں تفصیل سے بتائیں۔۔۔

والد صاحب کے بارے میں ہر چھوٹی سے چھوٹی بات تک مجھے بتائی۔ اس نے بتایا کہ والد کافی عرصے تک واشنگٹن کے ایک کالج میں اس کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے رہے تھے اور دونوں بہت ہی اچھے دوست تھے۔ جان نے مجھ سے وعدہ کیا کہ اس کے پاس والد کی جو تصویریں ہیں ان میں سے بہت سی وہ مجھے بھیج دے گا۔ آخر میں اس نے کہا:

“مجھے فخر ہے فیروز کہ تم ایک بہت اچھے خاندان سے ہو۔ پہلے تمہاری باتیں سن سن کر میں حیرت کیا کرتا تھا کہ ایک معمولی سا لڑکا آخر کس طرح ایسی عقل مندی کی باتیں کر سکتا ہے! مگر مجھے اب کوئی حیرت نہیں ہے۔ تم اس باپ کے بیٹے ہو جو کالج میں ہمیشہ اول آیا کرتا تھا، جو بے حد بہادر اور ذہین تھا اور اس کی یہ ذہانت اور بہادری ہی تمہارے اندر پائی جاتی ہے۔”

یہ ہے وہ عجیب و غریب داستان جسے پڑھتے ہوئے کئی بار آپ نے اپنے دل میں کہا ہوگا کہ یہ نا ممکن ہے۔۔۔!

مگر یہ حقیقت ہے اور مجھ پر بیتی ہے۔ ان واقعات کو بیتے ہوئے اب عرصہ ہو گیا ہے۔ اس وقت میں اپنے عالیشان کمرے میں بیٹھا ہوا یہ کہانی لکھ رہا ہوں۔ میری بیوی دوسرے کمرے میں بیٹھی ہوئی میری ننھی سی بچی کے لئے اونی سوئٹر بن رہی ہے۔۔۔ میرے دادا اور میرے والد کی جتنی بھی جائداد تھی اس کا اب میں تنہا مالک ہوں۔ اس کے ساتھ ہی میری اپنی ایک جہاز کمپنی بھی ہے، میرے جہاز دور دراز کے ملکوں میں آتے جاتے ہیں۔ یہی اب میرا کاروبار ہے اور خدا کا شکر ہے کہ میری ایمان داری کی بدولت یہ کام خوب چل رہا ہے، جہاں تک میں سمجھتا ہوں مجھے یہ عزت صرف اس وجہ سے ملی ہے کہ میں ہمیشہ دوسروں کا وفادار رہا۔ میں نے کبھی لالچ اور بے ایمانی نہیں کی۔

جان کے بارے میں مجھے اتنا اور بتانا ہے کہ مکھی کی آنکھیں حفاظت سے بند کر کے وہ انہیں اپنے ساتھ امریکہ لے گیا۔ رہے جیک اور ملاح، تو جیک تو جان کے ساتھ ہی امریکہ چلا گیا تھا۔ ملاح جس کا نام کرشنا سوامی ہے، اب میرے ساتھ ہی ہے اور میرے کام کو چلاتا ہے، ایک طرح سے وہ میرے کام میں میرا سب سے بڑا مددگار بنا ہوا ہے۔

جان آج کل واشنگٹن میں اندھے بچوں اور بیواؤں کا ایک اسکول چلا رہا ہے۔ اس خوف ناک مکھی کی آنکھوں کی مدد سے اس نے بہتیرے بچوں کی آنکھوں کو روشنی عطا کی ہے، اور ہزاروں بیواؤں کی مالی امداد بھی کی ہے۔ اب بھی اس کے خط میرے پاس آتے رہتے ہیں اور ان خطوں کو پڑھ کر ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دنیا میں صرف مجھ سے، میری بیوی زرینہ اور بچی نجمہ سے محبت کرتا ہے۔ کئی بار وہ بذریعہ ہوائی جہاز امریکہ سے بمبئی آیا اور مجھ سے مل کر گیا۔ اس سے بچھڑتے وقت مجھے ہمیشہ ایسا محسوس ہوا جیسے میں اپنے حقیقی باپ سے جدا ہو رہا ہوں!

ایک خوش خبری اور سنئے۔ چند دن پہلے ہی مجھے جان کا خط ملا ہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ اس نے اپنی تمام دولت میری ننھی نجمہ کے نام لکھ دی ہے۔ میرے نام اس لئے نہیں لکھی کہ اب اسے مجھ سے زیادہ میری بچی نجمہ پیاری ہے۔

مجھے اب دنیا میں کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ میری محنت، ہمت اور وفاداری نے مجھے وہ کچھ دے دیا جو شاید کسی شہنشاہ کو بھی نہ ملا ہوگا۔ دولت، عزت، شہرت اور دنیا بھر کے عیش و آرام۔۔۔ مجھ سے زیادہ خوش نصیب شاید ہی اس دنیا میں کوئی ہو!

میرے حیرت انگیز، خوفناک اور طویل سفر نے مجھے یہی سبق دیا ہے کہ اگر ہم مصیبتوں سے نہ گبھرائیں، ہر حال میں خدا سے لو لگائے رکھیں، ڈر اور خوف کو دل کے قریب بھی نہ آنے دیں۔ ہمت، ایمان داری اور محنت سے ہر کام کریں تو خدا ہماری مدد ضرور کرے گا اور ہم ایک ایسے درجے پر پہنچ جائیں گے کہ دنیا رشک کرے گی۔ میری مثال آپ کے سامنے موجود ہے۔

اچھا اب اجازت چاہوں گا۔ دوسرے کمرے سے زرینہ مجھے سوئٹر کا نمونہ پسند کرنے کے لئے بلا رہی ہے اور میں دو گھنٹے سے یہی کہہ رہا ہوں کہ بس ایک منٹ میں آیا۔

اب چلتا ہوں، خدا حافظ

خوفناک جزیرہ

خوفناک جزیرہ

قسط:23

سراج انور

پچھلی قسط کا خلاصہ :

جیک اور اس کی ٹیم نے دیوزاد خوفناک مکھی کی پناہ گاہ ڈھونڈ لی تھی اور اب وہ لوگ اس مکھی کو ختم کرنے کا منصوبہ بنانے لگے۔ منصوبے کے ایک حصے کے طور پر جیک کی ہدایت پر ان لوگوں نے کاہی کے علاقے میں جگہ جگہ آگ لگا دی جس سے شام کے وقت کاہی کھانے والے پرندے آگ کے سبب ان چٹانوں پر اتر نہ سکے اور کاہی کھائے بغیر وہ تمام چیختے چلاتے لوٹ گئے۔چونکہ خوفناک مکھی انہی کاہی کھا کر مدہوش ہوئے پرندوں کا شکار کرنے رات کے وقت اپنے ٹھکانے سے باہر نکلتی تھی ، اور اس بار جب وہ باہر نکلی تو اسے ایک بھی پرندہ نظر نہ آیا ۔۔۔

۔۔۔ اب آپ آگے پڑھئے ۔۔۔

روشنی اتنی تیز تھی کہ ہم ایک ایک چیز صاف طور پر دیکھ سکتے تھے۔ پیروں کے بعد ایک لمبی سی سونڈ دکھائی دی، اسی سونڈ میں سے وہ تیز شعلہ بار بار نکل رہا تھا۔ شعلہ اندازً اس کی ناک سے پندرہ گز دور تک پہنچتا تھا اس خطرناک مکھی کے پیر آگے جا کر ایک پنجہ سا بن جاتے تھے۔۔۔ بالکل کبوتر کے پیروں کی طرح اور اپنے اسی پنجے کو دلدلی زمین میں گاڑتی ہوئی وہ آہستہ آہستہ اوپر آ رہی تھی۔ جلد ہی ہمیں اس کا سر بھی نظر آ گیا، کیا بتاؤں کہ یہ سر کتنا بڑا تھا! دہلی کی جامع مسجد کے پہلو والے گنبد سے بس ذرا سا ہی چھوٹا ہو گا۔ اس سر میں اس کی دو لمبوتری آنکھیں خون کی طرح سرخ نظر آتی تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے آنکھوں کی جگہ دو بڑے انگارے جڑے ہوئے ہوں۔ ہم لوگ چٹان کی اوٹ میں دبکے ہوئے خاموشی سے اسے دیکھ رہے تھے اور اب وہ پوری طرح غار سے باہر آ چکی تھی!

اس کا جسم بہت لمبا تھا۔ خیال تو یہ تھا کہ ہاتھی سے بڑی ہو گی، مگر اب جب آنکھوں سے دیکھا تو حقیقت کھلی وہ دراصل وھیل مچھلی سے بھی لمبی تھی۔ اس کے جسم میں آگ دہک رہی تھی، کیوں کہ جسم بالکل سرخ تھا۔ خدا کی قدرت کی کیا تعریف کی جائے! کیسے کیسے جانور اس نے دنیا میں پیدا کر دیئے ہیں! غار سے باہر آنے کے بعد مکھی نے وہی تیز سیٹی جیسی آواز نکالنی شروع کر دی اور کچھ دیر کے لئے آرام کرنے لگی۔ آپ نے ہوائی اڈے پر کسی ہوائی جہاز کو اڑنے سے پہلے ضرور دیکھا ہو گا۔ وہ پہلے ایک جگہ کھڑا رہ کر سیٹی کی سی آواز نکالتا ہے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد اڑتا ہے۔ یہی حال اس مکھی کا تھا مگر ہمیں ابھی معلوم نہ ہو سکا تھا کہ وہ اڑتی بھی ہے یا نہیں۔ اس کے دو بہت بڑے پر نظر تو آ رہے تھے۔ مگر ابھی تک ہم نے اسے ان پروں سے کام لیتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ اچانک کچھ دیر بعد اس میں حرکت ہوئی۔ سیٹی کی آواز اور تیز ہو گئی اور پھر اس کے دونوں بڑے پر تیزی سے ہلنے لگے۔ پروں کے ہلنے کے ساتھ ہی آس پاس کے درخت بری طرح لرزنے لگے، مٹی اڑنے لگی، ایسا لگتا تھا جیسے طوفان آ گیا ہو۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے وہ ہوا میں بلند ہو کر اڑنے لگی۔ مگر وہ زیادہ اونچی نہیں اڑ رہی تھی۔ مشکل سے زمین سے کوئی پانچ گز اونچی ہو گی اور بس۔!

یہ دیکھ کر ہم نے خدا کا شکر ادا کیا کہ ہم جس پہاڑ پر کھڑے ہوئے تھے وہ کافی اونچا تھا۔ اگر نیچا ہوتا تو ہم مکھی کی تیز نظروں سے ہر گز نہ بچ سکتے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ وہ اڑتی ہوئی ان دو پہاڑوں ہی کی طرف آ رہی تھی۔ جلدی سے ہم پہاڑ کی چوٹی پر ٹکی ہوئی چٹان کے نیچے دبک گئے اور اور مکھی دو پہاڑوں کے درمیان سے گرزتی ہوئی اس طرف جانے لگی جہاں ہم نے آگ لگائی تھی مکھی کے اس طرف جاتے ہی جان نے گھبرا کر کہا۔

“بس اب عمل کا وقت آ گیا ہے۔ وہ دوڑ کا مقابلہ میں نے اسی وقت کے لئے کرایا تھا۔ بد قسمتی سے فیروز اس مقابلے میں اول آیا تھا۔ مگر فیروز کو موت کے مونہہ میں جھونکنا مجھے پسند نہیں۔ وہ بچہ ہے، اسے زندگی گزارنی ہے۔ مگر میں نے اپنی زندگی کے دن پورے کر لئے ہیں، اس لئے میں ہی اب پہاڑ سے نیچے جاتا ہوں۔”

“کیا کہہ رہے ہیں آپ۔ یعنی اس کا مطلب کیا ہے۔۔۔؟” میں نے تعجب سے پوچھا۔

“مطلب۔۔۔ ہاں مطلب بھی مجھے ضرور بتانا چاہئے۔” جان نے کہنا شروع کیا۔ “دیکھو فیروز میں نے دراصل یہ سوچا ہے کہ مکھی جہاں اس وقت گئی ہے وہاں اسے کوئی پرندہ نظر نہ آئے گا۔ وہ بھوکی ہو گی اس لئے سب جگہ کی خاک چھاننے کے بعد مجبورًا وہ واپس اپنے غار میں چلی جائے گی۔ اس مکھی کی خاصیت ہے کہ وہ زیادہ دیر تک سمندر سے اوپر نہیں رہ سکتی۔۔۔ میں نے یہ سوچا ہے کہ میں پہلے پہاڑ کے نیچے اتر کر کھڑا ہو جاتا ہوں۔ ان دونوں پہاڑوں سے کم از کم چالیس گز دور کھڑے ہونے سے یہ فائدہ ہو گا کہ مکھی کے غار سے بھی قریب رہوں گا اور سمندر سے بھی۔ پہاڑ سے نیچے اس کے سامنے کھڑے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے مکھی پہاڑوں کے درمیان سے نہ گزرے تو مجھے دیکھ کر لازمی طور سے وہ پہاڑوں کے بیچ میں سے گزرے گی۔ اب غور سے سنو کہ کرنا کیا ہے۔ مکھی جب اپنے غار یا گھر کی طرف واپس آ رہی ہو گی تو لازمی تھکی ہوئی ہو گی۔ اس لئے ہو سکتا ہے کہ وہ یا تو زمین پر گھسٹتی ہوئی چلے یا زمین سے بہت ہی تھوڑے فاصلے پر اڑے۔ تم لوگوں کا کام یہ ہو گا کہ پہاڑ کی ٹکی ہوئی اس بڑی چٹان کو زور سے ہلانا شروع کر دو۔ اور کوشش یہ کرو کہ جیسے ہی وہ مکھی مجھے دیکھ پہاڑوں کے درمیان آ جائے یہ چٹان اس کے جسم پر جا کر گرے۔ میرے خیال میں یہی طریقہ اسے ختم کرنے کا ہو سکتا ہے۔

یہ سنتے ہی میرے پیروں تلے کی زمین نکل گئی۔ کیوں کہ اس میں تو خطرہ ہی خطرہ تھا!

لیکن اگر ہمارا نشانہ خطا ہو گیا تو؟” جیک نے جلدی سے کہا “مطلب یہ کہ چٹان مکھی پر نہ گری تو۔؟

“تو یہ کہ میں تیز دوڑتا ہوا سمندر میں جا کر گھس جاؤں گا اور تیرتا ہوا اس طرف نکل آؤں گا جہاں ہم نے آگ لگائی ہے۔ جان نے جواب دیا۔

مگر آپ تیز کس طرح دوڑیں گے؟ آپ تو مقابلہ میں پہلے ہی دم توڑ چکے تھے!” جیک نے کہا۔ “نہیں مسٹر جان یہ کام میں کروں گا، میں نیچے جاتا ہوں۔”

“نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔” میں نے چلا کر کہا “انصاف سے کام لیجئے۔ دوڑ میں اول میں آیا تھا، اس لئے یہ معرکہ بھی مجھے ہی سر کرنا ضروری ہے، پھر دوسری بات یہ کہ چٹان آپ تینوں مل کر جلدی ہلا سکیں گے۔ میں ہوں گا تو اس میں وقت لگے کا کیونکہ میں عمر میں کم ہوں اور کم طاقت ور ہوں اس لئے اب میں نیچے جاتا ہوں۔”

اس سے پہلے کہ جان اور جیک مجھے روکتے، میں تیزی سے پہاڑ کی ڈھلان کی طرف بھاگا۔ انہوں نے مجھے بہتیری آوازیں دیں۔ مگر میں نے کسی کی ایک نہ سنی اور نیچے اترتے اترتے پکار کر کہا۔

“مجھے مت روکئے سر۔ بحث میں وقت صرف ہو گا، ایسا نہ ہو کہ وہ مکھی واپس آ جائے۔”

یہ کہہ کر میں جلدی جلدی پہاڑ سے نیچے اترنے لگا اور پھر کچھ ہی دیر بعد میں ان دونوں پہاڑوں سے چالیس گز کی دوری پر کھڑا تھا مجھے وہاں دیکھ کر مجبوراً جان، جیک اور ملاح اس ہلتی ہوئی چٹان پر دونوں ہاتھ رکھ کر کھڑے ہو گئے۔ طوفان بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ سیٹی تیز سے تیز ہوتی جا رہی تھی۔ بڑی ہیبت ناک آوازیں آ رہی تھیں خوف کے مارے میرا رؤاں رؤاں لرز رہا تھا۔ میں کہہ نہیں سکتا کہ میری کیا حالت تھی، پسینے چھوٹے ہوئے تھے اور جسم کپکپا رہا تھا۔ میں نے یہ سوچ لیا تھا کہ اگر عین وقت پر چٹان مکھی کے جسم پر نہ گری تو میرا خاتمہ یقینی ہے۔ مکھی پندرہ گز دور ہی سے مجھے جلا کر خاک کر ڈالے گی۔ یہ سوچتے ہی میں نے ڈبڈبائی آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھا۔ آسمان کی طرف نظر کرتے ہی میرے آنسو بہنے لگے اور میں بے اختیار سجدے میں گر گیا۔ میرا دل خدا تعالی سے خاموش دعا مانگ رہا تھا۔ میں نے ایک لفظ مونہہ سے نہ نکالا، مگر دل دعا مانگتا رہا آنسو بہتے رہے اور پھر اچانک یوں لگا کہ میرا جسم کپکپانا بند ہو گیا ہے۔ دل میں نہ جانے کہاں سے طاقت آ گئی۔ ایسا معلوم ہوا کہ اس وقت اگر سامنے سے ہاتھی بھی آ جائے تو اسے چٹکی سے مسل کر رکھ دوں گا۔! اچانک دھب دھب کی تیز آواز مجھے سنائی دی۔ ساتھ ہی ایسا دھماکا بھی سنائی دیا جس کی وجہ سے زمین لرزنے لگی۔۔۔ میں جلدی سے کھڑا ہو گیا، کیونکہ سامنے دو پہاڑوں کے بیچ میں سے مجھے وہ خوف ناک مکھی زمین پر چلتی ہوئی اپنی طرف آتی دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے پہاڑ کی چوٹی پر نظر اٹھا کر دیکھا تو جان نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ ہوشیار! اور پھر وہ تینوں مل کر چٹان کو ہلانے لگے۔ مکھی ویسے تو آہستہ چل رہی تھی، لیکن کبھی کبھی چلتے چلتے پھدک کر آگے بڑھ آتی تھی۔ چٹان برابر تیزی سے ہل رہی تھی۔۔۔ مکھی قریب آتی جا رہی تھی اور میں نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے، چپ چاپ کھڑا اسے دیکھ رہا تھا اور پھر وہی ہوا جو جان نے کہا تھا۔ مکھی نے مجھے دیکھ کر زور کی پھنکار ماری اور میری طرف تیزی سے بڑھنے لگی۔ میں سینہ تانے اسے گھور رہا تھا۔ چٹان اور زور زور سے ہل رہی تھی۔ میں نے صرف اتنا دیکھا کہ مکھی جیسے ہی پہاڑوں کے بیچ میں پہنچی، اوپر سے چٹان لڑھک کر اس کی طرف گرنے لگی اور مکھی زور سے پھدک کر میری طرف آئی اور پھر۔۔۔۔ پھر مجھے معلوم نہیں کہ کیا ہوا؟ دہشت کی وجہ سے میں بے ہوش ہو کر زمین پر گر گیا۔۔۔!

جب مجھے ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ میں اپنے بادبانی جہاز کے ڈیک پر چت لیٹا ہوا ہوں۔ چمکیلی دھوپ نکل رہی ہے۔ ہر طرف سکون سا ہے اور جان مجھ پر جھکا ہوا غور سے مجھے دیکھ رہا ہے، مجھے ہوش میں آتے دیکھ کر اس نے خدا کا شکر ادا کیا اور پھر جیک کو آواز دی۔ جیک اندر کیبن میں سے دوڑتا ہوا آیا اور میرے قریب بیٹھ کر میرے سر کو سہلانے لگا اس کی آنکھوں میں خوشی کی چمک تھی۔ جب اس نے میرے سر کو سہلایا تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے سر میں پٹی بندھی ہوئی ہے اور سر میں ہلکی سی تکلیف بھی محسوس ہو رہی ہے۔ یہ اندازہ لگا کر میں نے بڑی کمزور آواز میں پوچھا۔

“میرے سر پر پٹی کیوں بندھی ہوئی ہے۔۔۔ مجھے کیا ہوا؟”

“گھبراؤ مت فیروز۔” جان نے میرا سر تھپتھپا کر جواب دیا۔ “اب تم بالکل ٹھیک ہو۔ بات یہ ہے کہ تم گر گئے تھے اور تمہارا سر ایک پتھر سے ٹکرایا تھا۔ گرتے ہی تم بے ہوش بھی ہو گئے تھے اور پورے تیس گھنٹے تک بے ہوش رہے۔ آج تم ہوش میں آئے ہو، خدا کا شکر ہے کہ اب تم بالکل ٹھیک ہو جاؤ گے۔ تمہارے دماغ کو گرمی پہنچانے کی ضرورت تھی اس لئے ہم نے تمہیں دھوپ میں لٹا رکھا ہے۔”

“اوہ! یہ بات ہے۔” میں نے کمزور آواز میں کہا۔ اچانک مجھے وہ دیوزاد مکھی یاد آ گئی۔ خوف کے باعث میرا جسم لرزنے لگا اور میں خوف زدہ آواز میں چلایا “مکھی۔ وہ مکھی کہاں ہے۔؟”

جیک نے جان کو معنی خیز نظروں سے دیکھنے کے بعد کہا “فیروز اپنے دماغ پر زور مت ڈالو۔ فی الحال اتنا سمجھ لو کہ تم مکھی کے حملے سے بچ گئے ہو۔ جب تم بالکل تندرست ہو جاؤ گے تو ہم تمہیں ایک ایک بات بتا دیں گے۔”

میں چوں کہ سب حال جاننے کے لئے بہت بےتاب تھا اس لئے میں نے جلدی سے کہا “نہیں نہیں اب میں بالکل ٹھیک ہوں۔ خدا کے لئے مجھے سب کچھ بتائیے آخر یہ ماجرہ کیا ہے؟ وہ جزیرہ کہاں گیا۔ وہ مکھی کیا ہوئی اور اب ہم کہاں جا رہے ہیں؟”

جان نے جواب دیا “اچھا تو پھر تم اندر چل کر لیٹ جاؤ۔ ہلو جلو مت اور بولو بھی کم۔ تب میں تمہیں پوری باتیں سناؤں گا۔”

میں نے اس کی بات مانتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کی۔ ان دونوں نے مجھے سہارا دیا اور پھر اندر کیبن میں لے جا کر میرے بستر پر لٹا دیا۔ اس کے بعد جان نے اپنا پائپ سلگایا اور دھواں چھت کی طرف چھوڑتے ہوئے کہنے لگا۔

“باتیں بڑی عجیب ہیں فیروز! مختصراً تمہیں بتاتا ہوں۔ جب تم ہمارا کہنا نہ مانتے ہوئے پہاڑ سے نیچے اترنے لگے تو مجھے بڑی گھبراہٹ ہوئی۔ پہاڑ پر کاہی جمی ہوئی تھی اور ہر لمحہ تہمارے نیچے پھسل جانے کا خطرہ تھا، مگر اس سے بھی بڑا خطرہ وہ تھا جس سے مقابلہ کرنے کے لئے تم نیچے جا رہے تھے۔ ہمارے دلوں کی عجیب حالت تھی۔ ہمارے سامنے تم موت کے مونہہ میں جا رہے تھے اور ہم کچھ نہ کر سکتے تھے، اتنا وقت ہی نہیں تھا کہ ہم تمہیں زبردستی اوپر کھینچ کر لاتے۔ مکھی آہستہ آہستہ پہاڑ کی طرف بڑھتی آ رہی تھی۔ میں دل ہی دل میں خود کو ملامت کر رہا تھا کہ بڑا بہادر ہوں! خود تو جان بچا کر پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا ہوں اور ایک چھوٹا سا لڑکا موت سے ٹکر لینے نیچے جا رہا ہے۔ مگر وقت اتنا نازک تھا کہ سوچنے سمجھنے کی نہیں بلکہ عمل کی ضرورت تھی۔ آخر مجبور ہو کر ہم عمل کے لئے تیار ہو گئے۔ جب ہم نے دیکھا کہ تم پہاڑوں سے کافی دور جا کر مکھی کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو گئے ہو، تو ہم تینوں نے اس چٹان کو ہلانا شروع کر دیا۔۔۔ جو چٹان انگلی لگانے سے ہلنے لگی تھی وہ اب ہم تینوں کے زور لگانے سے بری طرح ہلنے لگی۔ مکھی پھنکاریں مارتی ہوئی تہماری طرف بڑھتی چلی آ رہی تھی۔ چوں کہ وہ بہت زیادہ تھکی ہوئی اور شاید بھوکی بھی تھی۔ اس لئے ہوا میں اڑ نہیں سکتی تھی۔ اگر خدانخواستہ اڑنے لگتی تو پھر ہمارا خدا ہی حافظ تھا۔ اس نے صرف تمہیں ہی دیکھا تھا اس لئے تمہاری ہی طرف بڑھنے لگی۔ ہم لوگوں کے ہاتھ پاؤں کا دم سا نکل رہا تھا۔۔۔ سوچ رہے تھے کہ اگر چٹان بر وقت اس پر جا کر نہ گری تو ہم تم سے ہاتھ دھو لیں گے۔ کیوں کہ مکھی کے قریب آ جانے کے بعد تم تیزی سے سمندر کی طرف نہیں بھاگ سکتے تھے لہذا مکھی اپنے شکار کو بھاگتے دیکھ کر ایک زوردار حملہ ضرور کرتی۔ خیر ہم چٹان کو ہلاتے رہے اور جب وہ دیوزاد مکھی دونوں پہاڑوں کے درمیان میں پہنچ گئی۔ تو ہم نے چٹان زور لگا کر گرا دی۔ ہماری خوش قسمتی تھی اور خدا کا کرم کہ چٹان بالکل اس کے پیٹ پر جا کر گری۔ بڑے زور کے چھپاکے اڑے۔ اور اس کے پیٹ میں سے گرم گرم لاوا نکل کر ہر طرف بہنے لگا جس طرف بھی لاوا گیا، اس نے ہر چیز کو جلا کر خاک کر دیا۔ چھوٹی چھوٹی چٹانیں تو اس لاوے میں اس طرح پگھل گئیں، جیسے چینی پانی میں گھل جاتی ہے۔ مکھی مر رہی تھی اور وہ اپنی دم زور زور سے زمین پر پٹخ رہی تھی۔ اس کی ناک سے نکلنے والے شعلے اب مدہم ہوتے جا رہے تھے اور لاوا بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ ہم نے تمہیں بے ہوش ہو کر زمین پر گرتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ اور اب ہمیں یہ خدشہ ہونے لگا تھا کہ لاوا کہیں بڑھتے بڑھتے تم تک نہ پہنچ جائے! سچ بات تو یہ ہے کہ اس موقع پر میں ملاح کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہ ایک لفظ کہے بغیر تیزی سے پہاڑ کے نیچے اترنے لگا۔ جب وہ پہاڑ کے نیچے پہنچ گیا تو ہم نے دیکھا کہ لاوا آہستہ آہستہ پہاڑ کو چاروں طرف سے گھیر رہا ہے۔ مگر اس سے پہلے کہ لاوا پہاڑ کو گھیرتا ملاح ایک چھلانگ لگا کر لاوے کے اوپر سے گزر گیا اور پھر چٹانوں کی آڑ لیتا ہوا دوڑ کر تم تک پہنچ گیا۔ لاوا آہستہ آہستہ تمہاری طرف بڑھ رہا تھا۔ اس نے جلدی سے تمہیں اٹھا کر اپنے کاندھے پر ڈالا اور دوڑتا ہوا اس طرف پہنچنے کی کوشش کرنے لگا جہاں لاوا ابھی تک نہیں آیا تھا۔ تمہیں لاوے سے بچاتا ہوا آخرکار وہ وہاں پہنچ گیا جہاں ہم نے پہلے پہل ایک غار میں رات گزاری تھی۔ لاوا اس مقام تک کسی صورت سے بھی نہیں پہنچ سکتا تھا۔”

“اور آپ پہاڑ سے کس طرح نیچے اترے؟” میں نے ایک ٹھنڈا سانس لینے کے بعد پوچھا۔

“ہم دونوں پہاڑ پر کھڑے مکھی کو اپنا سر زمین پر پٹختے دیکھتے رہے۔ سورج پوری طرح آسمان پر نکل کر چمک رہا تھا اور ہم کھڑے سوچ رہے تھے کہ اب کیا کریں؟ کوئی چھ گھنٹے اسی طرح کھڑے کھڑے گزر گئے۔ آخرکار کافی دیر کے بعد ہمیں ملاح کی شکل دکھائی دی۔ وہ اپنے ساتھ موٹے موٹے رسے لئے ہوئے آ رہا تھا۔ ہمیں یقین ہو گیا کہ ملاح لازمی طور پر اپنے جہاز میں پہنچا ہو گا اور وہیں سے یہ رسے نکال کر لایا ہو گا۔ اس نے ہمیں نیچے اترنے کا اشارہ کیا۔ جب ہم پہاڑ کے نیچے پہنچ گئے تو ہم نے دیکھا کہ کسی صورت سے بھی ہم زمین پر قدم نہیں رکھ سکتے تھے۔ لاوے نے پہاڑ کو ہر طرف سے گھیر رکھا تھا اور اس میں سے بلبلے اور بھاپ اٹھ رہی تھی! یہ دیکھ کر ملاح نے دور سے چلا کر کہا کہ وہ رسہ ہماری طرف پھینکتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ رسے کا ایک سرا پہاڑ پر اگے کسی درخت سے باندھ دیں۔ ہم نے ایسا ہی کیا اور ملاح نے بھی رسے کا دوسرا سرا پہاڑ سے کافی فاصلے پر اگے ہوئے ایک دوسرے درخت سے باندھ دیا۔ اس کے بعد اس نے ہم سے کہا کہ رسے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر لٹکتے ہوئے ہم آگ کا یہ دریا پار کریں۔

آخر ہمیں اس کا کہنا ماننا ہی پڑا کیوں کہ اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ بھی نہیں تھا۔ ہمارے نیچے گرم گرم لاوا ابل رہا تھا اور ہم اس کے اوپر رسے سے لٹکتے ہوئے گزر رہے تھے۔ مختصر یہ کہ ملاح کی عقل مندی سے ہم نے اس لاوے کے دریا سے نجات پائی۔ ملاح کے پاس پہنچے تو اس نے مجھ سے کہا کہ وہ تمہیں جہاز کے اندر کیبن میں چھوڑ آیا ہے۔ غار اسے محفوظ معلوم نہیں ہوا ساتھ ہی وہ مکھی کا سر کاٹنے کے لئے کلہاڑا بھی لیتا آیا ہے۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ مکھی کا گنبد نما سر کس طرح کٹے گا جب کہ لاوا اس کے چاروں طرف کھول رہا تھا؟ تو اس نے ایک بڑی اچھی ترکیب بتائی اس نے کہا کہ وہ دوسرے رسے کا ایک پھندا سا بنائے گا۔ پہلا رسہ تو دونوں درختوں سے بندھا ہوا تھا اور وہ کسی صورت سے نہیں کھل سکتا تھا۔ کیوں کہ اسے کھولنے کے لئے ہمیں پھر پہاڑ پر جانا پڑتا۔ اس لئے اس دوسرے رسے کا پھندا دور کھڑے کھڑے وہ مکھی کے سر کی طرف پھینکے گا پھندا اگر مکھی کے سر پر اٹھے ہوئے دو سینگوں میں جا کر پھنس گیا تو وہ ہم دونوں کی مدد سے زور لگا کر مکھی کو اپنی طرف کھینچ لے گا

جاری ہے….