by RH | Sep 26, 2024 | حقیقی کہانیاں, ناولز
مصنف : راجہ نذیر احمد خان
والد صاحب کا تعلق 1 انجینئر بٹالین سے تھا اور ان کی ریٹائرمنٹ 1983 یا 84 میں ہوئی۔ بطور JCO ریٹائرڈ ہوئے۔ وہ 65 اور 71 کے غازی تھے۔ 1979 میں انکی خدمات سعودیہ کو دی گئیں جہاں انہوں نے 3 سال سرو کیا۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ والد صاحب کی یونٹ اسکیم پر تھی، مشقوں کے لئے ان کی کیمپنگ گلگت بلتستان کا ایریا تھا۔ جہاں پر انہوں نے اندازہ ہے کہ ایک ماہ گزارا ہو گا۔
بچپن نے ہم نے والد سے اتنی فوجی کہانیاں سنیں کہ اب تک ازبر ہیں۔ اسکیم کے دوران کیمپ ایریا کے پاس کچھ چرواہے تھے۔ ایک خاتون شام کے ٹائم پر کیمپ ایریا میں آئی اور اپنی زبان میں کچھ فریاد کرنے لگی۔
پتا چلا کہ ان کی چھوٹی سی آبادی (گاؤں) ہے جہاں رات کو جنگلی درندے حملہ کرتے ہیں اور انکا نقصان کر دیتے ہیں۔ اب حملے تیز ہوئے ہیں اور ہر رات کوئی بخری کا بچہ مرغیاں وغیرہ مار دی جاتی ہیں اور غائب ہوتی ہیں۔
والد صاحب JCO تھے انہوں نے اس وقت خاتون کو واپس بھیج دیا اور علاقہ کی سن گن لی کہ یہاں کونسا درندہ ہو سکتا ہے۔ معلومات کی بنا پر پتا چلا کہ یہاں ریچھ کی اکثریت ہے غالب گمان یہی تھا کہ ریچھ ہی حملہ آور ہوتا ہے۔ کیونکہ چھوٹے جانور مرغی یا میمنے(بکری کا بچہ) حملہ میں مارے جاتے یا غائب ہو جاتے تھے۔
صوبیدار صاحب چند سپاہیوں کے ہمراہ اس بستی پہنچے جو پہاڑ کے دامن میں ایک ندی کنارے تھی۔ گاوں والوں نے خوب آو بھگت کی۔ زبان شناسی کے لئے بھی کوئی موجود ہو گا یہاں پہاڑ کے رہنے والے لوگ اردو یا کوئی اور زبان نہیں جانتے۔ ہمارے ہاں یہاں راولپنڈی میں گلگت کے رہنے والے بھائی شینہ زبان بولتے ہیں قیاس کرتا ہوں کہ اس علاقے کی زبان شینہ ہی ہو گی۔
مہم ترتیب دیکر والد محترم نے 2 دن کی چھٹی لی اور اپنے ساتھ راجہ لیاقت خان (بی ایچ ایم) Battalion Havaldar Major اور 2 بہادر سپاہی بھی رکھے۔ راجہ لیاقت خان صاحب والد کے دیرینہ دوستوں میں سے تھے۔ فوج کا ڈیکورم اجازت نہیں دیتا کہ کوئی دوران ڈیوٹی کسی مہم کا حصہ ہو۔
پہاڑ کی راتیں بہت خوفناک ہوتی ہیں، صبح جنت کا نظارہ ہوتا ہے اور شامیں پرندوں کی چہچہاہٹ میں اداس۔
والد صاحب اور ساتھیوں کو گاوں کنارے ایک مکان میں ٹھہرایا گیا۔ اسلحہ کا بندوبست گاون والوں کے ذمہ تھا۔ مغرب کے بعد والد محترم نے اپنے جانبازوں کو گاوں کنارے تعینات کیا، اور خود بھی چوکنے ہو کر اپنی کمین گاہ میں آ گئے۔
رات جوں جوں گہری ہو رہی تھی ندی کا شور اور درندوں کی آوازیں خوف کا سماں باندھ رہیں تھیں۔
والد نے بتایا، آدھی رات کے وقت میرے دروازے پر قدموں کی آہٹ ہوئی اور ہلکی دستک نے میرا دھان اپنی طرف کھینچا۔ میں نے جھٹ سے دروازہ کھولا تو ایک سپاہی باہر موجود تھا۔ اس نے بتایا کہ گاوں کے مغربی کنارے جانب کچھ ہل چل ہے اس نے اطمینان کرنے کے بعد ہی مجھے اطلاع دی تھی۔ میں اس جانب لپکا اور سپاہی سے کہا کہ دیگر لوگوں کو لیکر خاموشی سے اس طرف آو یاد رہے زیادہ آہٹ یا شور نہ ہو کہ شکار ہاتھ سے نکل جائے۔ یہ کہتے ہوئے والد نے بندوق لی جس کے بیرل پر خنجر بھی نصب تھا، یہ جی 3 ریفل تھی، اور اس جانب دوڑ لگا دی
ابو نے بتایا میرے دوڑنے سے پاوں کے نیچے آنے والے پتے چیخ رہے تھے۔ میں نے خود کو شور سے روکا اور دھیرے دھیرے منزل کی جانب بڑھنے لگا۔ تھوڑی دور جاکر گاوں کی گلیاں ختم ہونے کو تھیں کہ بائیں جانب سے آتی گلی میں آہٹ سنائی دی۔ میں ساتھ ہی ایک درخت کی اوڑھ لیکر چھپ گیا اور آنے والے کسی بھی لمحے کے لئے تیاری پکڑ لی۔ چند ساعتوں گزرے تھے کہ اندھیرے میں کچھ ہیولے دھرے دھیرے گلی کی نکڑ جانب آتے محسوس ہوئے۔ اندھیرے نے سب کو کیموفلاج کر رکھا تھا۔ پتا نہیں چل رہا تھا کہ کہ کون ہے۔ پھر تھوڑی ٹارچ کی روشنی نظر آئی تو میں سمجھ گیا کہ میرے آدمی ہیں۔ میں اپنی کمین گاہ سے نکل کر گلی کی نکڑ پر آ گیا اور مخصوص آواز سے آنے والوں کو خبر دار کیا۔ جواب میں بھی ایسی ہی آواز سے میں مطمئن ہو گیا کہ اپنے سپاہی ہیں۔
قریب آنے پر پتا چلا کہ میرے سپاہیوں کے علاوہ گاؤں کے دو چار نوجوان بھی ساتھ تھے جن کے ہاتھوں میں کلہاڑیاں تھیں جبکہ میرے سپاہی اسلحہ بردار تھے۔ یہ اسلحہ سرکاری نہیں تھا بلکہ گاوں والوں کا ارینج کردا تھا۔ اس علاقہ میں اسلحہ وہ بھی لائسنس کے بغیر رکھنا آج بھی شغف سمجھا جاتا ہے۔
اشاروں میں باتیں کر کے والد نے اس سپاہی سے پوچھا کہ کس جانب شک ہے کہ وہاں کوئی ذی روح موجود ہونگی۔ سپاہی نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے سمت بتائی اور میں نے کمان سنبھال کر آگے بڑھنا شروع کر دیا ۔۔۔
راستہ کے دونوں جانب خاردار جھاڑیاں تھیں جو کپڑوں کے ساتھ لگتی تو سرسراہٹ پیدا ہوتی، جس سے خود کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے۔
تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ دائیں جانب اوپر کی جھاڑیوں میں کسی ذی روح کا احساس ہوا۔ میں نے ہاتھ کے اشارے سے اپنی ساتھیوں کو روکا اور خود جھاڑیوں کے قریب جانا شروع کیا۔ پاوں کے سنگریزے کڑکنے کی آواز سے حملہ آور چوکنا ہو سکتا تھا اس لئے میری رفتار نہایت کم تھی۔
ٹارچ ہاتھ میں تھی لیکن بند۔ میں بغیر روشنی، ٹارچ بجھائے آگے بڑھ رہا تھا۔ میرے ساتھی میرے پیچھے پیچھے تھے۔
میں ان جھاڑیوں کے پاس پہنچ چکا تھا جس میں کسی ذی روح کا احساس تھا۔ میں نے ایک دم ہی ٹارچ آن کی اور ان جھاڑیوں پر اس کا رخ کر دیا۔ روشنی پڑتے ہی ان جھاڑیوں سے ایک کالا ریچھ اور اس کے دو بچے نکل کر پہاڑ پر ڈھلوان کے اوپر بھاگے۔ کہ۔ ان تینوں کی ایک جھلک ہی دیکھ سکا۔
مادہ ریچھ نے بھانپ لیا تھا کہ خطرہ ہے، اگر وہ اکیلی ہوتی تو شاید خطرہ کا سامنا کرتی۔ ہم نے بھی تیز قدموں سے ریچھ کا پیچھا کرنے کی کوشش کی لیکن یہ جانور خود کو اپنے ماحول سے مانوس کر کے اپنی رفتار بناتے ہیں جس سے انکا پیچھا کرنا اور وہ بھی رات میں مشکل امر ہے۔ دوسرا اس جگہ پر جھاڑیاں زیادہ تھیں اور ہمیں اندھیرے میں رستہ کا تعین کرنا بھی مشکل تھا باوجود اس کے کہ ٹارچ کی روشنی تھی۔
ایک جگہ رک کر میں نے پلان B ترتیب دیا اور اپنے ساتھیوں کو واپس چلنے کو کہا۔
رات بھر ہم گاوں میں پہرا دیتے رہے لیکن فجر تک کوئی درندہ واپس گاوں کی جانب نہ آیا۔
صبح ہوتے ہی ہم نے تھوڑا آرام کا فیصلہ کیا اور سو گئے، 9 بجے کا وقت ہو گا ایک لڑکا ہانپتا کانپا گاوں میں داخل ہوا جس نے بتایا کہ پہاڑ میں تھوڑی دوری پر اس نے 4 عدد ریچھ دیکھیں ہیں۔ شاید آج کی رات ماں بھوکی رہی ہو گی جس کی وجہ سے اس کے بچے بھی بھوکے رہے۔ اب شکار کے ساتھ یہ۔احساس بھی تھا کہ بچوں والی ماں کے ساتھ سلوک کیا کیا جائ
والد گرامی صوبیدار محمد اسحاق خان کا بیان ہے، کہ ریچھ کے بچوں کو لیکر وہ پریشان تھے کہ کیا کیا جائے۔ بچوں والی ماں کو مارا نہیں جا سکتا، جبکہ وہ اور ان کے سپاہی پورا پروگرام ترتیب دیکر آئے تھے کہ اس جانور کو ختم کرنا ہے جو نقصان کرتا ہے۔
چار عدد اگھٹے ریچھوں کا سن کر والد گرامی کا خون گرم ہو گیا اور وہ نئا عظم و حوصلہ لیکر اپنے سپاہیوں اور چند دیہاتیوں کے ہمراہ اس جانب چل پڑے جہاں سے خبر تھی کہ وہاں 4 ریچھ موجود ہیں۔
والد کا بیان ہے کہ، میں پہاڑ کے درمیانی علاقہ میں پہنچا جہاں درخت اور جھاڑیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔
برفانی علاقہ میں خشک موسم میں یہ پہاڑ ویران اور سرد رہتے ہیں یہاں کا موسم اچھی گرمی میں بھی 20 ڈگری سے زیادہ نہیں ہوتا۔ ریچھ سال کا زیادہ عرصہ اپنے غاروں میں سو کر گزارتے ہیں جبکہ مارچ اپریل میں اپنے غاروں سے نکل کر دریائوں اور ندی نالوں پر زیادہ تر مچھلی کا شکار کرتے ہیں یا پھر چھوٹے جانوروں کو اپنی خوراک بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ دیہاتوں میں اناج پر بھی حملہ آور ہوتے ہیں۔ اگست تک اپنا وزن چار گناہ زیادہ کر کے خود پر چربی چڑھاتے ہیں اور پھر سردیوں کے آغاز سے ہی اپنی غاروں کو لوٹ جاتے ہیں اور چربی بطور خوراک استعمال کرتے سردیاں اپنی گفاوں میں گزارتے ہیں۔
گاوں سے تقریبا 1 کلومیٹر دور اوپر پہاڑ پر ایک چھوٹی گھاٹی تھی دائیں جانب فلک پوش پہاڑ تھا اور بائیں جانب اسی پہاڑ پر موجود ایک ٹیلہ یا چھوٹی چوٹی تھی اور درمیانی رستے نے اسکو گھاٹی بنا رکھا تھا۔ دائیں جانب پہاڑ پر ایک بڑی چٹان تھی۔ والد گرامی نے بتایا کہ وہ اس چٹان پر چڑھ گئے تاکہ ارد گرد جہاں تک نظر جائے ریکی کی جا سکے۔ انہوں نے بتایا “میں چٹان پر اوپر گھڑا نیچے ندی تک کا۔نظارہ کر سکتا تھا۔ جبکہ سامنے والا ٹیلہ میرے بالکل سامنے تھا جس کے دوسری طرف دیکھنا ناممکن تھا لیکن اس کے دائیں بائیں اور پہاڑ کے پچھلے جانب میری نظر جا رہی تھی۔ کچھ کچھ فاصلہ پر چند درخت تھے باقی سارا چٹیل پہاڑ عیاں تھا۔ گھاٹی سے آگے نیچے ندی کی جانب مجھے دو تین کالے نقطے نظر آئے اور غور کرنے پر مجھے پتا چلا کہ یہ وہی جنگلی جانور ہیں جن کی تلاش ہمیں یہاں تک لائی ہے۔
میں نے جوانوں کو آمادہ کیا اور اس جانب اترنا شروع کر دیا جس جانب مجھے ریچھ نظر آئے تھے۔ ہم اپنی رفتار سے زیادہ جوش سے ڈھکوان اتر رہے تھے، تھوڑا ٹائم گزرا تو ہم ان جانوروں کے اتنے قریب تھے کہ انکی کل تعداد کا بخوبی مشاہدہ کر سکتے تھے۔
وہ تعداد میں چار تھے دو بڑے اور دو چھوٹے۔ بڑے ریچھ بھی کچھ زیادہ قد آور نہیں تھے، اکثر مداری کے پاس درمیانی قد کا ریچھ ہوتا ہے والد بتاتے تھے کہ اسی قد کاٹھ کے دو ریچھ تھے اور دو بچے۔ ہم ایک قدرتی رستے سے نیچے اتر رہے تھے جبکہ اسی رستے کے عین نیچے 200 میٹر کی دوری پر 4 ریچھ ندی کی جانب جا رہے تھے۔
یہ حیرت کی بات تھی، مادہ ریچھ کے بارے سنا تھا کہ وہ بچے جننے کے بعد کسی اور ریچھ کو قریب نہیں آنے دیتی اسکو ڈر رہتا ہے کہ اس کے بچے مار دیئے جائیں گے۔ ایک ماں تھی، دو بچے تھے تو یہ چوتھا جانور کہاں سے آیا اور وہ کون تھا جس سے یہ پریوار مانوس تھا۔
بہرحال، جانور کا تعاقب جاری رکھا گیا لیکن حملہ کرنے کی ہمت کسی کو نہ تھی۔ شاید سب کو اس بات کا احساس تھا کہ ماں کے ساتھ بچے ہیں، جن کو ابھی ماں کی ضرورت ہے۔ دوسرا والد صاحب کے اشارے کے بغیر کوئی اپنی طرف سے خود فیصلہ بھی نہیں کر سکتا تھا۔
قدرتی رستہ چھوڑ کر ہم نے ڈھلوان اتری اور درندوں رک رسائی حاصل کر لی، اب ایک چٹان درمیان میں حائل باقی تھی جہاں سے ریچھ ندی کی طرف اتر رہے تھے اور چٹان کی پچھلی جانب ہم لوگ موجود تھے۔
والد بتاتے ہیں کہ میں نے اپنے دیرینہ دوست لیاقت خان سے مشورہ کیا کہ اب کیا کیا جائے؟ آیا ان تمام کو گولی مار دی جائے یا پھر کچھ اور ممکن ہو سکے تو؟ راجہ لیاقت خان ایک بہادر اور نڈر انسان تھے، انہوں نے جھٹ سے کہا کہ انکا سامنا کر کے انکو گولی ماری جائیگی کہ یہ نقصان کرتے ہیں لیکن والد گرامی اس کے حق میں نہیں تھے۔ دیہاتیوں سے پوچھا گیا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ انکو مار دیا جائے۔
والد بتاتے ہیں، میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا۔ میں نےاپنے لوگوں سے کہا کہ آپ لوگ اگر متفق ہوں ہو ہم انکو ڈراتے ہیں اور ان کو ہانک کر اس علاقے سے دور کر دیتے ہیں۔ ندی نالوں میں مچھلی کی کمی ہر گز نہیں تھی کہ وہ بھوکے مر جاتے اور اگر انکو اس علاقے سے دور دھکیل دیا جائے تو ہو سکتا ہے کہ یہ واپس اس علاقے میں نہ آئیں اور نقصان نہ کریں۔ لیکن سب مضر تھے کہ ان کا علاج گولی ہے۔ میں نے وقتی طور پر حامی بھر لی اور ان لوگوں سے کہا کہ گولی میں چلاونگا۔ سب متفق تھے۔ یہ بھی عہد کیا گیا کہ اگر درندوں نے جوابی حملہ کیا تو سب ان پر حملہ کر دیں گے۔
اس بات پر متفق ہو کر، میں نے ہلکے قدموں سے چٹان کے ساتھ پیش قدمی کی اور جب دوسری جانب جھانکا تو پتا چلا کہ کہ ریچھ شست سے نکل چکے ہیں چنانچہ دوبارہ انکا پیچھا کیا گیا۔ ریچھوں کی رفتار بتا رہی تھی کہ شاید انہوں نے ہوا سے خطرے کی بو سونگھ لی تھی۔ اس لئےوہ بہت تیزی سے ڈھلوان اتر رہے تھے۔ ہم نے بھی اپنی طاقت سے دوڑ لگائی اور فاصلہ کم ہو گیا۔ ایک پتھر پر کھڑے ہو کر میں نے ان کی رفتار دیکھی۔ اس رفتار سے انکو شوٹ کرنا ممکن نہ تھا جبکہ میرےپاس جی تھری تھی جس کاایک فائر نہ صرف انکو چوکنا کر دیتا بلکہ ان پر دسترس کو ناممکن بنا دیتا۔ ابھی تک انکو صرف خطرے کا احساس ہوا تھا خطرے دیکھ کر وہ اسی طرح بھاگتے جیسے رات کو تینوں بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔
اب ندی نزدیک آ رہی تھی اور ڈھلوں کم ہوکر وادی کی شکل اختیار کر رہی تھی ایسی زمین پر نشانہ لینا اور مار گرانا قدرے آسان تھا۔ ندی کنارے عمودی چٹان تھی جس کی لمبائی 200 گز تک تھی دور تک اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ مشرقی جانب دو سو گز دور ہی ندی میں اترنے کا رستہ موجود تھا۔
ہم نے ایک چٹان کے ساتھ پہنچ کر کمر کسی اور میں نے فائر کرنے کا ارادہ کر دیا۔ چٹان کے اوپر لیٹ کر میں نے شست لی اور ایک جانور پر نشانہ لگا لیا جو نسبت سب سے بڑا تھا۔ وہ جانور سب سے پیچھے تھا سب سے آگے جانور کا وزن میری آنکھ میں درمیانہ تھا اور اسی کو میں ماں سمجھ رہا تھا۔
ریچھ، عمودی چٹان کے اوپری حصہ پر مشرق کی جانب جا رہے تھے جہاں 200 گز کے اختتام پر شاید وہ ندی میں اترتے۔ وقت بہت کم تھا اور جو بھی کرنا تھا جلدی کرنا تھا۔ میں نے شست لیکر بڑے جانور کو نشانہ پر لیا لیکن جان بوجھ کر میں نے فائر خطا کر دیا۔ ٹریگر دباتے ہی علاقہ میں گولی کی گونج اٹھی اور ریچھ سرپٹ دوڑنے لگے، راجہ لیاقت نے اچانک رائفل سیدھی کی اور کھڑے کھڑے ایک اور فائر کر دیا جس کو سن کر ریچھوں کے رہے اوسان بھی خطا ہو گئے۔ وہ تیزی سے عمودی چٹان کے کنارے کی جانب دوڑے اور تھوڑے ہی وقت میں وہ عمودی چٹان کے آخری کونے سے ڈھلوان میں اتر گئے۔ ہم دوڑ کر عمودی چٹان کے اوپر پہنچے جہاں سے ندی میں چار ریچھوں کو تیرتے ہوئے ہم بآسانی دیکھ سکتے تھے۔
والد بتاتے ہیں کہ، میں نے دو ہوائی فائرنگ اور کئے جبکہ راجہ لیاقت غصہ میں تھے اور چاہتے تھے کہ وہ شست لیکر فائر کریں اور انکو مار گرائیں۔ لیکن میری وجہ سے وہ رکے رہے۔
ہم اس چٹان پر اس خاندان کو ندی کراس کر کے دور تک دیکھتے رہے، جب وہ نظروں سے اوجھل ہو گئے تو واپسی گاوں کی جانب قصد کیا۔
والد نے بتایا، کہ میں نے دشمن پر کبھی رحم نہیں کھایا، لیکن میں باوجود کوشش کے ایک ماں کو نہ مار سکا۔ اس بات کی خوشی مجھے ساری زندگی رہی۔
گاوں واپس آ کر میں نے گاوں والوں کو تسلی دی کہ ریچھوں کو اتنا ڈرا دیا گیا ہے کہ اب وہ شاید اس علاقہ کا رخ نہ کریں۔ لیکن پھر بھی کوئی اندیشہ ہو تو ہم حاضر ہیں۔
گاوں والوں نے محبت کے ساتھ ہمیں رخصت کیا اور ہم اسکیم پر دوبارہ پہنچ گئے۔ ہمارے وہاں سے کوچ کرنے تک ہمیں تسلی تھی کہ دوبارہ ریچھ نے اس علاقہ کا رخ نہیں کیا۔
ختم شد
by RH | Sep 26, 2024 | حقیقی کہانیاں, ڈراؤنی کہانیاں, ناولز
تحریر: راجہ نذیراحمد
اکثر اوقات ہمارے گھر کا آسیب کسی نہ کسی رشتہ کی شکل میں مجھ سے ملتا اور گھریلو باتیں ہوتیں۔ یہ سلسلہ 2000 عیسوی تک یوں ہی چلتا رہا۔ سنہ 2000 کے بعد میری زندگی میں بہت اہم واقعات ہوئے اور زندگی کے بڑے امتحانوں سے گزرنا پڑا۔
سنہ 1995ء میں میٹرک گورنمنٹ بوائز ہائی سیکنڈری سکول اصغرمال روڈ سے کیا، ایف ایس سی کے بعد بطور ایئرمین PAF سلیکشن ہوئی لیکن میں نے فورس جوائن نہیں کی۔ 1997ء میں ایک نیم سرکاری ادارہ میں جاب ہوئی بعد ازاں ڈگری لی اور اب تک بطور انجینئر وہیں کام کر رہا ہوں۔
سنہ 2000ء میں میں نے نیم سرکاری جاب کے علاوہ ایک اور ادارے کو بھی خدمات دیں اور اس ادارے کے ساتھ 2004 تک منسلک رہا۔
یہ ساری باتیں اس لئے بتائیں کہ 2000 کے بعد زندگی نے خوب امتحان لیا۔ جس میں سر فہرست والد محترم کی اچانک وفات __ جو طبعی نہ تھی۔ یہ 22 مئی 2004 تھا۔ زندگی سخت آزمائش سے گزر رہی تھی، زندگی اور حالات نے مایوسی کی شکل اختیار کر لی۔ دن رات اللہ سے ہمکلام ہوتا اور مدد کی فریاد کرتا۔ پھر ایک دن اللہ نے بندوبست کر دیا۔ میری ملاقات ایک بزرگ سے ہو گئی۔
یہ مغرب کی نماز کا وقت تھا، نماز کے دوران رونے کی وجہ سے میری ہچکی برآمد ہو گئی۔ جس نے نمازیوں کے سکون کو توڑا۔ نماز کے اختتام پر نوافل سے فارغ ہو کر جب اللہ سے فریاد شروع کی تو لوگ متوجہ ہونا شروع ہو گئے۔ یہ بھانپ کر کہ لوگ کہیں رحم نہ کھانا شروع کر دیں خاموشی اختیار کی اور مسجد سے نکلنے کے لئے پر تولے۔ ابھی آٹھ رہا تھا کہ ایک با ریش شخص سفید کپڑوں میں ملبوس پاس آ کر بیٹھ گیا اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے بیٹھنے کو کہا۔
اس کی وضع قطع ایک عابد و زاھد کی سی تھی لیکن لہجہ مضبوط اور جسم کسرتی تھا۔ اس کی عمر 50 کے عشرے میں رہی ہو گی۔
میں اس کے مضبوط لہجے کی تاب نہ لاتے ہوئے وہیں بیٹھ گیا۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا راجہ صاحب کبھی اللہ کے سوا اپنے قریبی دوستوں سے بھی اپنی پریشانیاں شیئر کریں تو اللہ اسباب پیدا کر دیگا۔ اس کے منہ سے اپنا نام سن کر کچھ حیرت تو ہوئی لیکن خاموش رہا، وہ پھر گویا ہوا_
“آپ کے انا کو ٹھیس نہیں پہنچے گی، دنیا عالم اسباب ہے، اللہ کا حکم۔ ہے کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو، اور برائی کے کاموں سے دوری اختیار کرو”
مجھ پر اس کی بات کا اثر ہوا، اس نے بات آگے بڑھائی
“آپ کو حیرت ہوئی ہو گی کہ میں اپکا نام جانتا ہوں_ لیکن مشکل یہ ہے کہ آپ کی مشکل نہیں جانتا، کیونکہ غائب کا علم اللہ کو ہے، میں اپ کے لئے اجنبی ہوں مجھ سے بات شیئر کریں یا مجھے اپنے گھر کا ایڈریس بتا دیں”
میں نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور کہا_
“جب تک مجھے معلوم نہ ہو کہ آپ کس ارادے سے مجھے سے سوالات کر رہے ہیں _ گفتگو آگے نہیں بڑھائی جا سکتی”
میری بات پر وہ مسکرایا __ کہنے لگا
“آپ فکر مند نہ ہوں _ آپ نہیں بتانا چاہتے نہ بتائیں _ لیکن اتنا تو کر سکتے ہیں کہ مجھے یہ بتا دیں کہ جہاں ہم بیٹھیں ہیں یہاں سے نکل کر اگر آپ کے گھر جائیں تو کونسا راستہ اختیار کرنا ہو گا؟”
نجانے اس کے لہجے میں کیا اعتماد اور رعب تھا کہ میں نے اسکو گھر کا ایڈریس دے دیا۔
اس نے مجھ سے اجازت چاہی _ کہنے لگا
“کل __ اسی وقت اسی مسجد میں اسی جگہ ملاقات ہو گی۔”
یہ کہہ کر وہ ساعت ان میں وہاں سے غائب ہو گیا۔ میں مسجد کے باہر دوڑ کر پہنچا لیکن وہ چھلاوہ تھا، نکل گیا۔
مسجد سے نکل کر میں اپنے دفتر پہنچا _ عشاء بھی وہیں پڑھی لیکن وہ نظر نہ آیا۔ میرا گھر یہاں سے 25 کلومیٹر کی طویل مسافت پر تھا۔
دوسرے دن نجانے کیوں مجھے اس سے ملنے کی بے چینی تھی۔ میں آزان سے پہلے ہی مسجد جا کر بیٹھ گیا لیکن اقامت تک میری نظر اسکو نہ دیکھ سکی۔ وہ کون تھا میں نہیں جانتا تھا لیکن _ ایک سحر تھا اس کی شخصیت اور باتوں کا جس کا میں منتظر تھا۔ جماعت ختم ہوئی __ میں نے نوافل ادا کئے اور پھر مناجات شروع کر دیں لیکن اب یہ خیال تھا کہ اللہ سے ایسے ہمکلام ہوا جائے کہ کوئی ذی روح متوجہ نہ ہو۔
دعا ختم ہوئی تو میرے کندے پر ایک ہاتھ کا بوجھ پڑا __ میں نے جھٹ اپنی دائیں جانب دیکھا تو وہی شخص میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر میرے ساتھ بیٹھ رہا ہے۔
“راجہ صاحب کیسے ہیں؟ یقینا آپ میرے منتظر ہوں گے”
لیکن میں نے منہ سے کوئی جواب نہ دیا اور آنکھوں سے اسے بات کرنے کو کہا۔
“آج میں آپکو بتاونگا کہ میں کون ہوں _ آپ کون ہیں _ ہم کیا ہیں؟ ہمارے ساتھ کیا ہونا ہے؟ مشیت الہی کیا ہے اور ہم کیا کر سکتے ہیں؟” اسکی باتوں میں ربط تھا لیکن میں سمجھنے سے قاصر تھا۔
“آپ نے کل میرا نام لیا، اپنا تعارف نہیں کرایا مجھے سے میری پریشانی پوچھی، آپ کو مجھ سے کیا انٹرسٹ ہو سکتا ہے؟ یہاں کون کسی کو پوچھتا ہے؟ جبکہ میں کسی کو کچھ بتانا بھی نہیں چاہتا”
آج میرے لہجہ میں اعتماد لوٹ آیا تھا اور باوجود اس کے کہ اس کی شخصیت میں ایک جادو تھا _ میں نے اسے بے اثر کرنا چاہا۔
“ہم سب اللہ کی مخلوقات ہیں_ وہ خالق ہے اور اپنے نیاز مندوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا” اس کی بات جاری تھی “بندہ جلد باز ہے _ یہی بندے کی خامی ہے _ کچھ باتیں صرف اسی وقت وقوع پذیر ہوتی ہیں جب ان کا وقت مقررہ آتا ہے، آزمائش کا ایک خاص ٹائم ہوتا ہے، آپ نے پہاڑ دیکھا ہے، اس کی چاروں جانب ڈھلوان ہوتی ہے جبکہ اس کے درمیان اس کا قد ہوتا ہے، آپ سمجھی یہ آزمائش ہے جو اپنی چوٹی پر جا کر پھر ڈھلوان اختیار کرتی ہے اور انسان سہل ہو جاتا ہے” اسکی باتوں میں سحر تھا جو سر چڑھ کر بول رہا تھا _ “پہاڑ کے پہلو اور دامن میں بسنے والی صاف ندیوں کا پانی بھی چوٹیوں سے آتا ہے _ اسی پانی سے اپنی زندگی کو تعبیر کر لیں” _ اس دوران اس نے صرف اپنا نام بھی بتایا۔ “مجھے محمد احمد کہتے ہیں”
میرے جسم کے بال کھڑے ہونا شروع ہو گئے _ میں نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پانے کی کوشش کی اور کہا _ “حضرت کام کی بات ہو جائے، لیکچر بعد مین سن لونگا”
وہ مسکرایا اور بتانے لگا۔
“آپکا گھر __ جیسا کہ آپ نے بتایا تھا فلاں جگہ واقعہ ہے، اسکا دروازہ فلاں رنگ کا ہے، صحن میں فلاں فلاں پودے اور درخت موجود ہیں، عقب میں اتنی کمرے ہیں، صحن کے عین بیچ ایک کنواں ہے، فلاں کمرے میں اتنی الماریاں ہیں، فلاں فلاں کانسی کے برتن فلاں فلاں جگہ موجود ہیں”
بات گھر کی لوکیشن یا رنگ تک محدود ہوتی تو شاید مجھے حیرت نہ ہوتی لیکن یہ شخص تو گھر کے برتن اور درختوں اور پودوں کے نام تک بتا رہا تھا۔ اور سب سے حیران کن بات تو یہ تھی کہ کانسی کے برتنوں کی بابت بات ہو رہی تھی جو صرف شو پیس رہ گئے تھے انکا استعمال ترک ہو چکا تھا۔
“آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟” میں نے اپنی حیرانگی پر قابو پاتے ہوئے اس پر سوال داغا۔
“میں کچھ ثابت نہیں کرنا چاہتا، لیکن یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں آپ کی آزمائش تک پہنچ چکا ہوں، آپ کو فلاں آزمائش کا سامنا ہے” _ وہ اعتماد سے گویا ہوا۔
میرے ہاتھوں کے توتے اڑ گئے جب اس نے میری آزمائش پر لب کشائی کی، میں اپنا اعتماد کھو بیٹھا اور میری آنکھوں کی نمی نے میرا سارا بھید کھول دیا۔ میں نے جھٹ سے آنکھیں بند کیں اور رب سے التجا کی کی میرا راز کیوں فاش ہوا _ لیکن اللہ کی یہ شان نہیں کہ وہ بندوں سے ہمکلام ہو مگر صرف انبیاء سے _ ہم پر شرح صدر ہونا ہی کمال ہے۔ جو کبھی ہوتا ہے کبھی نہیں ہوتا۔
میں نے اپنی رہی سہی ہمت اگھٹی کی اور اس سے پوچھا _ “آپ پہلے مجھے یہ بتائیں کہ آپکو یہ ساری باتیں کیسے معلوم ہوئیں؟ کس نے بتائیں اور ان باتوں کو جاننے کا آپ کا مقصد کیا ہے؟”
میرا پوچھنا بنتا تھا _ میں ایک مواحد مسلمان ہوں اور انبیاء کی صفات کو جانتا ہوں لیکن ایک انجانا شخص مجھےایسی باتیں بتائے جو صرف میری زات سے منسوب یوں تو حیرانگی بنتی ہے۔ اس کی شخصیت اور باتوں کا سحر اب بھی میں محسوس کر رہا تھا۔ میں نے دل میں لاحولا ولا قوہ الا باللہ حی العلی یاالعظیم پڑھا لیکن وہ غائب نہ ہوا __ مجھے کچھ اطمنان ہوا کہ یہ شیطان تو نہیں لیکن یہ کون ہے؟ میں اب متجسس تھا۔
اس نے اپنا نام بتا دیا تھا __ اب مجھے اس کی ذات میں اس کو جاننے کی دلچسپی تھی۔
“حضرت _ آپ کون ہیں؟ کہاں سے ہیں اور مقصد کیا ہے ان باتوں کا جو میں پہلے پوچھ چکا ہوں_ یہ بتائیں” میں اب اعتماد میں تھا اور کچھ دیر پہلے کا سحر رفو کر چکا تھا۔
اس شستہ سوال پر اس نے اپنا تعارف کرایا کہ وہ ایک ریٹائر بنک مینیجر ہے _ اس نے اپنا علاقہ اور مسکن بتانے سے معذرت کی __
“یقینا _ آپ نے مسجد میں بیٹھ کر اپنا نام اور پیشہ درست بتایا ہو گا” _ میری سوال پر اس کے ماتھے پر شکن نمودار ہوئی _ لیکن محبت سے گویا ہوا۔
” ہمیں جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں ہے، اور اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں، میں نے جو باتیں چھپانی تھیں، وہ بتانے سے معذرت کر لی”
اس کے جواب میں وزن تھا۔ “اب آپ جب میری آزمائش سے واقف ہو چکے ہیں تو یہ بتانا مناسب سمجھیں گے کہ _ آپ کو یہ باتیں کیسے پتا چلیں؟ بجائے آپ مجھے اور باتوں میں الجھائے رکھیں سیدھی بات نہ کر لیں” میں نے سوال کیا تو وہ آمادہ نظر آیا
“آپ شاید یقین نہ کریں _ یہ کوئی علم غیب نہیں __ بلکہ میرے موکلات کا بتانا ہے۔
میں موکلات سے لا علم تھا کہ یہ کس بلا۔کا نام ہے
“میں پچھلی کئی ایک دنوں سے آپ کو دیکھ رہا تھا یہاں _ میں نے بہت جلد ریٹائرمنٹ لی تھی اور اس کے بعد خدمت خلق پر لگ گیا _ ہم فلاں روحانی سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارے ذمہ ہے کہ ہم لوگوں کی اصلاح کے ساتھ ساتھ ان کی آزمائشوں کا روحانی علاج بھی کریں، جو لوگ مستفید ہوں ان پر لازم ہے کہ اچھی باتیں آگے بھی پہنچائے، لوگوں کا بھلا کرے اور لوگوں کی آزمائشوں سے نکلنے میں مدد کرے”
یعنی میری آزمائش کا اس کے پاس کوئی حل تھا۔
اس نے کہا “میں نے فلاں وقت میں کسی کو آپ کا نام پکارتے سنا تھا، جب آپ مارکیٹ میں سیگریٹ خرید رہے تھے، ادھر سے مجھے اپکا نام پتا چلا”
مجھے چنداں حیرت اس بات پر نہیں تھی کہ اسکو میرا نام پہلے سے معلوم تھا لیکن مجھے اس بات پر حیرت تھی کہ وہ مسلسل میرا پیچھا کرتا رہا تھا۔
“پھر _ میرے گھر کا آپکو کیا معلوم __ میری آزمائش کیسے پتا چلی” میں نے دوبارہ پوچھا
“بتاتا ہوں _ ہم خدمت پر معمور ہیں _ خدمت خلق _ اسی دوران ہمیں روحانی طاقتیں ملتی ہیں جس سے ہم موکلات پر قابو پا لیتے ہیں _” اس نے بتایا
مجھے اب موکالت کی سمجھ آ گئی کہ یہ کوئی جنات وغیرہ ہیں _
“جب میں نے آپ سے گھر کا ایڈریس پوچھا تھا _ تو اسی رات میں نے موکلات کو بھیج کر آپ کے گھر کی بابت باتیں پتا کرائیں _ آپ کی آزمائش کی بابت موکلات کو کافی تگ و دو کرنا پڑی _ آپ کے گھر میں رہائش جنات نے آپ کی ذاتی معلومات نہیں دینا چاہتے تھے، وہ آپ سے خاصے مانوس ہیں اور اپ کے ہمدرد ہیں” __اس نے کہا
“جب تک آپ کے گھر کے جنات کو یہ یقین نہیں دلایا گیا کہ اس پوچھ گچھ کے پیچھے نیک نیتی ہے وہ بتانے سے مانع تھے” _ میں اس کی بات سن کر مسکرایا لیکن اس نے بات جاری رکھی
“موکلات نے بتایا کہ آپ کے گھر میں کیا واقعات پیش آئے _ آپ اپنی آزمائش صرف فلاں جن سے ڈسکس کرتے ہیں اور جنات میں فلاں بھی موجود تھی اس نے کہا کہ بچہ پریشان بہت ہے، کہیں خود کشی نہ کر لے” __ مجھے سن کر حیرت ہوئی میں آج تک “اس فلاں” کو اپنا وہم سمجھ رہا تھا جو رات کو ملاقات ہوتی تھی
“میں یقین کر لیتا ہوں، لیکن آپ کو پتا چلنے پر سوائے میری آزمائش آشکار ہونے کے مجھے کیا ملا، آپ سے شناسائی نہ سہی لیکن میرا راز صرف آشکار ہوا ہے اسکا کوئی حل تو نہیں نکلا” __ میرے لہجے میں اب طنز عود آیا تھا
“ایسا نہیں _ میرا مقصد قطعا یہ نہیں تھا کہ صرف آپکو وہ آزمائش بتا کر آپکو شرمندہ کروں جس کی مناجات آپ صرف اللہ سے کرتے ہیں، میں تو اس کے حل کے لئے آپ کے پاس آیا ہوں” __ اس نے محبت سے کہا تو مجھے تھوڑی ڈھارس بندھی
“لیکن _ جو حیران کن حالات ہیں کہ ہر روز ایک نئی آزمائش مجھ سے آن ٹکراتی ہے اس کا سدباب تو اللہ ہی کے پاس ہے۔ اب بار بار ایک ہی دن میں 3 مختلف اوقات اور مختلف جگہوں پر میرے ساتھ چھوٹے چھوٹے حادثے ہونا تو تقدیر ہے _ آزمائشوں تقدیر میں لکھی ہیں تو ان کا سدباب تو ممکن نہیں” میں نے ایمان سلامت رکھتے ہوئے محتاط سوال کیا
وہ بولا “بے شک آزمائشیں من جانب اللہ ہوتی ہیں لیکن _ جادو کا وجود بھی ہے جو اچھوں اچھوں کے کس بل نکال دیتا ہے، دنیا عالم اسباب ہے، جب تک تدارک نہ کیا جائے شیاطین کو بھگانا مشکل ہے” _ مجھے حیران ہوا کہ میں کیوں اتنا اہم ہوں کہ کوئی مجھ پر یا میرے گھر پر جادو کرے گا۔
“میں _ معاشرے کا ایک عام سا فرد ہوں جس کے ہونے نہ ہونے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ ناممکن ہے کہ کوئی مجھے اتنی اہمیت دے کہ مجھ پر جادو کرائے” _ میں نے کہا
“کوئی کسی کے لئے کتنا اہم ہے یہ بندہ خود سے اندازہ نہیں لگا سکتا، یہ بات اسے معلوم ہوتی ہے کہ آپ کتنے اہم ہیں جو غلط عملیات کرتے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ کس نے کیا لیکن آپ اور آپکا خاندان کالے جادو کے زیر اثر ہیں اور اسکا حل بھی میں ہی بتاونگا” _ اس کے اس جواب پر میں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا کہ شاید وہ مجھ سے پیسے بٹورنے کی نیت سے یہ سب کہہ رہا ہے _ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں تو کہنے لگا
“آپ غلط سمجھ رہے ہیں، شاید میں آپ سے توڑ کے لئے مال کا تقاضہ کروں، ایسا ہر گز نہیں، جس دن میں نے مال کا تقاضہ کیا مجھ سے میری روحانی طاقت سلب کر لی جائیگی اور میں کسی کے کام نہیں آ سکوں گا” _ اس جواب پر میں تھوڑا مطمئن ہوا
“آخری بات _ میں آپ کو عمل بتا کر رخصت چاہوں گا اور شاید زندگی میں ہماری دوبارہ ملاقات نہ ہو، لیکن یاد رہے کہ بغیر لالچ کے آپ لوگوں کے کام آتے رہیں گے، جب آپ آسودہ ہو جائیں” اس نے ملاقات کو ختم کرنے کا عندیہ دیا تو میں نے بھی اثبات میں سر ہلا دیا
اس نے مجھے ایک کتابچہ دیا جس پر “منزل” جلی حروف میں لکھا تھا _ اور ایک آیت بتائی جو اس مسئلہ و آزمائش کا حل تھا۔
اس نے کہا “صبح فجر کی نماز پڑھ کر منزل پڑھ لینا _ ایک گلاس پانی لیکر دم کر لینا اور ایک ایک گھونٹ گھر کے سب لوگ پی لینا _ تھوڑا پانی بچا کر گھر کے کونوں میں چھڑک دینا انشاءاللہ بہت جلد تمہیں اس جادو کے اثر سے نجات مل جائیگی _ لیکن یہ عمل جب تک جاری رہے گا تب تک کالے جادو کا اثر زائل رہے گا_ اس کو مکمل ختم ہونے میں 2 سال تک لگ سکتے ہیں فلاں آیت جو بتائی اسکو بروز سوموار بکثرت پڑھنا اور اللہ سے مدد طلب کرنا جو کام رکے ہوئے ہیں نکل پڑیں گے۔
میں نے احسان مندی سے اس کی باتیں سنیں اسے چائے کی آفر کی بلکہ بے انتہا کوشش کی لیکن اسکی ضد تھی کہ یہ نذرانے میں آتا ہے اس لئے اس نے رخصت لی اور دوڑ کر مسجد سے نکل گیا _ میں بھی اس کے پیچھے پیچھے نکلا لیکن پلک جھپکتے وہ کل کی طرح غائب ہو گیا۔
میرے جسم سے بوجھ کم ہونا شروع ہو چکا تھا۔ لیکن شاکی بھی۔
میرا ایک شناسا تھا _ سائیں فلاں جو کالے علم کا ماہر سمجھا جاتا ہے لیکن میں اس کو ایک فراڈ کے سوا کچھ نہیں سمجھتا تھا _
میں نے بزرگ کے دیئے گئے عمل پر صبح ہی وظیفہ شروع کر دیا لیکن پتا نہیں کیوں مجھے خارش ہوئی اور میں تیسرے دن سائیں فلاں کے آستانے پر پہنچ گیا۔ اس کے سیاہ و سفید کو ہم جانتے تھے اس لئے وہ ہماری ہمیشہ ہی آوبھگت کرتا تھا۔ ہم دو دوست اکثر اس کے پاس گپ بازی کے لئے جاتے تھے۔ _ میں اس دن اکیلا ہی اس کے پاس گیا __
اس کے گھر کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا تھا اور عین دروازے کے سامنے بڑے تخت پر آلتی پالتی مار کر بیٹھتا تھا _ اس نے لمبے بال رکھے ہوئے تھے اور انکو پونی کرتا _ بیٹھ بیٹھ کر اور نحس کام کر کر کے اس کے چہرے پر اس کے کرتوتوں کی پھٹکار صاف نظر آتی تھی۔
اس نے مجھے دروازے سے داخل ہوتے دیکھ کر دور سے ہی میرے نام کا شور مچانا شروع کر دیا۔ اور اپنی بیوی کو آوازیں دینے لگا کہ “توا تتا کر بھلئے لوکے، راجہ آیا ای تے روٹی کھا کے جائےگا” _ میرے قریب پہنچنے پر اس نے اعزازی بغل گیری کی کیونکہ اپنے جثہ عظیم کی بنا پر وہ اٹھنے بیٹھنے سے قاصر ہو چکا تھا۔ ہلنا جلنا اس کے لئے محال تھا لیکن وہ آداب میزبانی سے واقف تھا۔
سلام دعا کے بعد _ اس نے کہا “بادشاہو آج سنگی ساتھ لے کے نہیں آئے، کلے ای آ گئے خیر اے”
(آپ اپنے دوست کے بغیر آئے ہیں خیریت ہے)
“ویسے ہی آج اکیلے آنے کا موڈ بنا گیا” میں نے مختصر جواب دیا
“سائیں _ بتاو کالا جادو کیا ہوتا ہے؟ یہ کیسے کام کرتا ہے؟ اور اس کو کیسے کیا جاتا ہے” __ میں نے یک مشت اس پر ایسے سوالات کئے کہ اس کا منہ کھل گیا
وہ نہ بتانے والے انداز میں کہنے لگا “راجہ صاحب آپ پوچھ کر کیا کریں گے؟ دوسرا میں تو سفلی علم دیکھتا ہوں اور علم اعداد کا ماہر ہوں، بھلا میں کالے جادو کے بارے میں علم کہاں رکھتا ہوں؟”
“سائیں، میں کب کہہ رہا ہوں ہوں کہ تم کرتے ہو، میں تو صرف پوچھ رہا ہوں کہ یہ کیسے ہوتا ہے؟” میں نے دھیمے اور مضبوط لہجے میں بات جاری رکھی “سائیں __ میں یہ تو نہیں جانتا کہ تم کونسا عمل کرتے ہو لیکن یہ جانتا ہوں کہ میرے سوالوں کے جواب تمہارے سوا کوئی نہیں دے سکتا، کیا ایسا نہیں ہے؟”
“راجہ صاحب، وہ بات یہ ہے کہ کچھ باتیں صرف اہل علم سے ہی کی جاتی ہیں، لیکن آپ استفسار کرتے ہیں تو جو مجھے معلوم ہے ضرور بتاونگا” __ اس نے آمادگی کا اظہار کر دیا تھا
تو پھر بتاو __ “اب میرا لہجہ تحکمانہ ہو گیا تھا” اس پر اس نے رد عمل دینا چاہا لیکن میرا تعلق جس محکمہ سے تھا وہ آڑے آ گیا۔
اس نے کہا “راجہ صاحب، کالے جادو کی عملیات کے لئے کفر اختیار کرنا پڑتا ہے اور یہ بنیادی بات ہے اس کے عمل کے لئے، عامل نام کا مسلمان تو ہو سکتا ہے لیکن اس علم کے حصول کے لئے اسے شیطان کو خوش کرنا پڑتا ہے اور اس کے نتیجہ میں شیطان اس کی برے کاموں میں بڑھ چڑھ کر مدد کرتا ہے۔ برے جنات کی اس کے ساتھ ڈیوٹی لگا دی جاتی ہے جو اس کو معلومات فراہم کرتے ہیں اور انسانوں کے ذریعے وہم اور وسوسے ڈال کر لوگوں سے کام کرائے جاتے ہیں، جس پر جادو کیا جاتا ہے، یہ جادو اسکو مور تو نہیں دے سکتا لیکن اس کو بدحال کر کے بیمار ضرور کر دیتا ہے، اسکا سکون برباد ہو جاتا ہے، اکثر لوگ نفیساتی مریض بن جاتے ہیں، کالے جادو کو کالا جادو ہی توڑ سکتا ہے”
اس کے آخری جملہ پر مجھے اعتراض تھا لیکن یہی اس کی مارکیٹنگ تھی _ میں نے اس کو آس دلائی اور بولنے مجبور کیا۔
“تم، میرے بارے اپنا علم استعمال کرو _ ذرا قلم اٹھاو اور دیکھو کہ کہیں میں اس علم کی زد میں تو نہیں” _ میں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے اسے دانہ ڈالا
“راجہ صاحب، دنیا میں سب سے پہلے دشمن اپنے ہوتے ہیں، جو دوستی کی آڑ میں حملے کرتے ہیں” _ اب وہ میری نفسیات سے کھیلنا شروع ہو چکا تھا میں نے اسے نہیں روکا
“آگے چلو، بتاو تمہارا علم میرے بارے میں کیا کہتا ہے” _ میں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی
اس نے ایک کاپی اٹھائی اور مجھ سے میری والدہ کا نام پوچھا _ سنہ پیدائش اور مقام پوچھا جو میں نے اسے بتا دیا اس کے بعد وہ 14 منٹ تک جمع تفریق کرتا رہا _ میں اس عمل سے نابلد تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔
اس کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ اس کا علم اس کو کچھ اچھی خبریں نہیں دے رہا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لوگوں کے نفسیات سے کھیلنے کی یہ ایک ترکیب ہو۔ لیکن وہ کافی پریشان لگ رہا تھا۔
کاپی پنسل ایک سائیڈ پر رکھ کر اس نے ایک گلاس پانی پیا اور چہرے پر ہاتھ پھیرا۔ کہنے لگا
“راجہ صاحب، میرا علم جس پر مجھے دسترس ہے کبھی جھوٹ نہیں بولتا _ آپ کالے جادو کے زیر اثر ہیں، اور آپ کا گھر بھی” اس کے بعد اس نے وہ ساری باتیں مجھے بتائیں جو وہ انجان بزرگ مجھے بتا چکے تھے۔ لیکن سائیں نے مجھے حل نہیں بتایا شاید وہ مجھ سے اس بات کا سوال کروانا چاہتا تھا۔
میں نے پوچھا “سائیں بتاو اس کا علاج کیا ہے؟ اس کا روحانی علاج ممکن ہے یا پھر اس کی کاٹ کالا جادو ہی ہے”
“میں اس کی کاٹ سفلی علم سے کرنے کی کوشش کرونگا _ کیونکہ میں کالا جادو نہیں کرتا لیکن یہ حقیقت ہے کہ کالے جادو کو کالا جادو ہی کاٹ کرتا ہے” اس نے کہا
وہ مجھے مجبور کرنا چاہتا تھا کہ میں اس سے کہوں کہ تم کالا جادو کرو _ لیکن میں نے احتیاط کا دامن پکڑا اور کہا کہ تم سفلی علم استعمال کرو اللہ بہتر کریگا _ مجھے آج بھی یہ معلوم نہیں کہ سفلی علم کہتے کس کو ہیں۔
“مجھے کچھ اشیاء کی ضرورت ہو گی سفلی علم کے لئے، میں آپ سے پیسے تو نہیں لونگا اپنے علم کے لیکن اس عمل کے لئے مجھے کچھ اشیاء درکار ہیں وہ مجھے لا دیں _ میں کل ہی سے عمل شروع کر دونگا لیکن آپکو عمل میں میرے ساتھ رہنا ہوگا یا کچھ کام کرنا ہونگے” _ اس نے کہا
میں نے نیم رضامندی ظاہر کی اور اس سے پوچھا وہ کیا سامان ہے جو تمہیں اس عمل کے لئے چاہئے؟ میں جاننا چاہتا تھا کہ یہ کرتے کیا ہیں؟ مجھے یقین ہو چلا تھا کہ کالے جادو کو یہ سفلی علم کہہ رہا ہے۔
اس نے کاغذ پر چند سطریں لکھیں اور میرے حوالے کر دیں کہ یہ چیزیں لے آو _ کالے علم کی کاٹ میرے ذمہ ہے۔ میں نے لسٹ پڑھی تو اس میں لکھا تھا۔
ایک فٹ شیر کی کھال
زعفران 10 گرام
تازہ پانی کی زندگی مچھلی [600 گرام تک وزنی]
بکرے کا دل تازہ جس پر چھری کا کٹ نہ ہو
بکرے کی سری جس کا وزن 1 کلو تک ہو
میں نے لسٹ پڑھی اور استفسار کیا کہ ان چیزوں کا تم کیا کرو گے؟ اور مجھے کیا کرنا ہو گا۔ اس نے کہا یہ بعد کی باتیں ہیں پہلے تم یہ اشیاء لیکر آو۔ لیکن میں بضد تھا کہ جب تک مجھے ساری بات معلوم نہ ہو میں یہاں سے نہیں جاؤنگا۔ اسی دوران چائے اور سموسے آ گئے اور بات تھوڑی دیر کو رک گئی، چائے سموسے رکھ کر اس کی بیوی بھی پاس ہی بیٹھ گئی، آج سے 5 برس پہلے وہ اس کی مریدنی تھی پھر یوں ہوا کہ اسکا خاوند داعی اجل کو لبیک کہہ گیا اور پھر وہ سائیں کے 9ویں عقد میں آگئی۔ اولاد دونوں کی نہیں تھی، سائیں کو خادمہ درکار تھی اور خاتون کو چھت _ دونوں کا ملاپ ہو گیا _ سائیں کی پہلی 4 بیویاں فوت ہو گئیں تھیں اور 3 کو سائیں طلاق دے چکا تھا۔ گدی کا فیض تھا کہ سائیں کبھی بھی کنوارہ، رنڈوہ یا مطلقہ نہ رہا __
میں نے پھر سے تکرار پکڑی _ زچ ہو کر سائیں نے بتایا۔
“میں نے شیر کے چمڑے پر تعویذات لکھنے ہیں، جو زعفران سے لکھے جائیں گے۔ اس کے بعد ان تعویذات کو میں نے مچھلی، بکرے کے دل اور سری میں ڈالنا ہے۔ اس کے بعد آپ نے یہ تینوں چیزیں لیکر کسی پرانے قبرستان جانا ہے اور پرانی سے پرانی قبر دریافت کرنی ہے۔ رات کے پچھلے پہر آپ نے وہ قبر کھولنی ہے اور یہ چیزیں آپ نے اس قبر کے اندر پھینک کر قبر کو بند کر دینا ہے، قبر کو بند کرنے کے بعد آپ نے بآواز بلند کہنا ہے کہ اے قبر والے میری مشکلات آسان کر دے میں ترے نام کی نیاز دونگا، اس کے بعد صبح آپ نے 10 کلو جلیبی لیکر محلے میں اس نیت سے بانٹنی ہے کہ قبر والا آپ کے کالے جادو کی کاٹ کرے۔ کام ختم، کالا جادو ٹل جائیگا’
بے اختیار میرے منہ سے نکلا __ “کام اور ایمان دونوں ختم، یہ سفلی علم ہے یا کالا جادو؟”
میرے اس سوال پر سائیں بوکھلا گیا _ راجہ صاحب آپ کچھ بھی کر لیں اس عمل کے بغیر آپ کالے جادو سے چھٹکارہ نہیں پا سکتے۔
مجھے غصہ آ گیا _ یعنی ایمان اتنا سستا کہ میں اللہ کی بھیجی آزمائش کو دور کرنے کی خاطر شرک کا ارتکاب کروں _
“مجھے رات کو قبرستان جانے اور کھولنے سے خوف نہیں ہے سائیں، اگلے الفاظ پر غور کر _ کیا یہ ایمان کی خرابی نہیں ہوگی؟ کیا اس سے شیطان خوش نہیں ہوگا؟ تم خود بتا چکے ہو کہ شیطان کو خوش کر کے ہی کالا علم کیا جا سکتا ہے”
اب اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا _ “میری صحت اور جسم اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ میں خود چل کر کہیں جاوں ورنہ میں یہ سب عمل خود کر لیتا اور تمہیں کالے جادو سے بچا لیتا” اس نے آخری پتہ پھینکا اور کہا
مجھے اپنے ایمان کی فکر ہے _ لیکن ایسا بیہودہ عمل میں نہیں کرونگا اور نہ کرنے کا کہونگا۔ غصہ کی حالت میں __ میں یہ کہتے ہوئے وہاں سے نکل آیا۔
گھر پہنچنے تک میرے دماغ میں گھنٹہ گھر بچتا رہا کہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر کہاں جارہے ہیں؟ _ اس کے در کے سوا کیا کوئی اور ہے جو بندے سے برائی دور کرے۔
میں نے عافیت اسی میں جانی کہ اس بزرگ والے عمل کو جاری رکھوں۔ میں وظیفہ کرتا رہا اور میرے حالات بتدریج ٹھیک ہونا شروع ہو گئے۔ آج میں بہت سکھی ہوں اور اس بزرگ کے لئے دعا گو ہوں جس کو اللہ نے مجھ سے ملوایا، میں شاکر ہوں کہ اللہ نے آزمائش میں ایمان بھی سلامت رکھا۔
ختم شد
by RH | Sep 26, 2024 | حقیقی کہانیاں, ناولز
تحریر: راجہ نذیراحمد
جولائی کی ایک یاداشت
مون سون کی بارشیں اور ساون کی آندھیاں اب کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جبکہ گاؤں میں بارش دور سے آتی نظر آیا کرتی تھی اور آندھیوں کا پتا قبل از وقت بادلوں کے موڈ سے چل جاتا تھا۔ اب شاید شہر بن گئے اور وہ موسم ہم سے روٹھ گئے۔
جو واقعہ آپ کو سنانے جا رہا ہوں وہ اسی موسم کا ہے اور بقول شخصے سچا اور سُچا واقعہ ہے۔
رات ــــ بہت بارش تھی، بادلوں نے پوری رات کڑک کڑک کر ماحول کو گرمائے رکھا۔ رات پچھلے پہر سرخ آندھی نے خوب مینہ برسایا۔ عموما سرخ آندھیاں دن میں ہی آتیں تھیں ـــ ظاہری بات ہے ــــ ہم جاگ رہے ہوتے تھے تو ہمیں یہی لگتا کہ یہ دن میں آتیں ہیں۔ لیکن اس رات سرخ آندھی نے بہت خوفزدہ کیا تھا ـــــ ویسے بادلوں کا شور اور تیز ہوائوں کی آوازیں ہمیں بھی رات ڈراتی رہی تھی ـــ سرخ آندھی کا ہمیں امی نے بتایا تھا۔
یہ سنہ 1984ء کا جولائی تھا۔
جب کبھی سرخ آندھی آتی ماں جی کہتیں کہیں بڑا ظلم ہوا ہے ـــ کہیں کوئی قتل ہوا ہے ــــ ہم دادی اماں کو ماں جی کہتے تھے۔ ایسا وہ اپنے تجربہ کی بنیاد پر کہتیں تھیں ـــ وہ بتاتیں کہ جس سال پاکستان بنا تھا اس سال بھی بہت سی سرخ آندھیاں آئیں تھیں۔
اس رات بھی سرخ آندھی آئی اور ہمارے گاؤں کے جنوبی میدان سے آنے والا پانی کا ریلا ہماری حویلی کے مغرب میں واقع برساتی نالے سے گزر کر شمالی جانب نشیب کی طرف گیا تھا۔ جہاں اب ایک چھوٹا بازار بن رہا تھا ـــ اس بازار کے ـــ مشرق کی طرف ایکسپریس وے تھی جہاں سے ایک بڑی گلی آتی اور اس بازار کے درمیان سے گزر کر رحیم ٹاؤن جاتی تھی۔ رحیم ٹاؤن ہمارے گاؤں شکریال کا پہلا قصبہ تھا ـــ اس بازار سے آگے شمال میں خلیل ستی کے کھیت تھے ــــ افغان مہاجروں نے یہاں ڈیرے ڈالے تھے ــ کچی جھونپڑیاں اور ترپال کے ٹینٹ ـــ ان سے اٹھتا کچی لکڑ کا دھواں ـــ عجیب ماحول بناتا تھا ـــ مہاجرین کی اس عارضی بستی نے گاؤں کو قصبہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ـــ بکریوں اور دنبوں کے ریوڑ لئے ـــ یہ افغان مہاجر ــ بڑی بڑی پگیں پہنے ـــ بچوں کو ڈرانے کا آسیب تھے۔
جنوبی میدان، جو ہمارے گاؤں سے قدراونچائی پر واقع تھا کبھی میلوں ٹھیلوں کا مسکن رہا تھا۔ یہ سرکار کی اراضی تھی ـــ پاکستان ایئر فورس کی ملکیت ـــ یہاں بھی ایک مہاجر کیمپ لگایا گیا تھا ـــ اس کے ساتھ 71 کی ـــ بنگلہ کالونی تھی ـــ جو اب بہاری کالونی کہلاتی ہے ـــ اس کے ساتھ کاسویوں کی ایک ڈھوک تھی ـــ شریف آباد۔
صبح ــــ شمالی افغان بستی کی جانب جانا ہوا ـــ میری عمر اس وقت بمشکل 5 سال ہو گی۔ گولی ٹافی کھانے کے لئے ہمارے پاس دو دوکانیں تھیں ـــ ایک حوالدار کی دوکان اور دوسری گلبدین افغان کی دوکان ـــ گلبدین افغان کی دوکان تک رسائی قدرے دشوار تھی ـــ درمیان میں ایک بڑا چھپڑ (تالاب) تھا جہاں ہماری بطخیں رہتی تھیں۔ اس چھپڑ کے دائیں جانب سے نکل کر ہم درزیوں کے گھر سے بائیں مڑتے تو ایک بڑا نالا کراس کر کے ہمیں افغان بستی کی اس دکان پر پہنچنا ہوتا تھا۔ یہ نالا اسی چھپڑ سے نکل کر آتا تھا جو ہم کراس کرتے۔
رات بارش بہت ہوئی ـــ سرخ آندھی آئی ـــ شمالی میدان ـــ اس میں واقع تالاب ـــ ہمارے گاوں کے چھپڑ ـــ اور اردگرد سے جو کباڑ تھا سب پانی کے ریلے میں بہہ کر آگے نکلا گیا ــ یہ پانی خلیل ستی کے کھیتوں سے نکل کر ایکسپریس وے کی پلی سے نکلتا دریائے کورنگ میں گر جاتا تھا۔
گاوں کے چپڑ کے بعد 200 گز دور نالے میں ـــ ایک بھری ہوئی بوری پھنس گئی تھی جس نے نالے کے پانی کو روک رکھا تھا، اس رکاوٹ نے گاؤں کا چھپڑ پانی سے بھر دیا تھا۔ اس بوری کو مولوی حبیب نالے کے کنارے کھڑا ڈنڈے سے ہلانے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ پانی نکلے ـــ چھپڑ کنارے اس کا گھر تھا اور ساتھ ہی مسجد ـــ شاید پانی رکنے کی وجہ سے اس کا گھر زیر آب تھا۔
اس کےگمان میں بھی نہ تھا کہ اس بوری میں کیا ہے ـــ اسے پتا ہوتا تو اس کو چھیڑنے کا سوچتا بھی نہ۔ بڑے ڈنڈے سے وہ بوری کو ہلا جلا رہا تھا لیکن کامیابی نہیں مل رہی تھی۔ یہ تماشہ دیکھنے کے لئے ہم بھی وہاں رک گئے۔ ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا کہ بجائے اس بوری کو ہلانے کے اس کے منہ پر بندھی رسی کھولو ـــ اس کا منہ پانی کے بہاو کی سمت کرو ـــ کوڑا بوری سے نکل کر بہہ جائیگا اور بوری آزاد ہو کر پانی کو راستہ دے دے گی ـــمولوی حبیب نے اس کا مشورہ مان لیا ـــ اور نالے کے دونوں جانب پاؤں رکھ کر بوری پر جھکا اور بوری کا منہہ کھولنے لگا ـــ اس نے بوری کو ہاتھ لگایا تو اس میں کوئی گول بھاری چیز محسوس کی ـــ مجھے یاد ہے مولوی نے کہا ـــ یہ تربوز ہیں جو کسی نے بوری میں بھر کر بہا دیئے ـــ اس نے بوری نالے میں بہانے والے انجان مجرم کو بے نقطہ سنا دیں ـــ اگلے ہی لمحے بوری کا منہ کھل گیا اور ـــ مولوی حبیب نے چیختے ہوئے چھلانگ لگائی اور دور ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔
ہم نے بھی نالے میں جھانکا ـــ اور چیخ کی وجہ جاننے کی کوشش کی ـــ بوری کھلتے ہی اس میں سے ایک انسانی سر نکل کر پانی کے بہاو کی جانب نالے میں گرا تھا ـــ سر ڈھر سے الگ تھا ـــ ڈھڑ اب بھی بوری کے اندر تھا ــــ اس بوری میں ایک لاش تھی ـــ جو ٹکڑے ٹکڑے تھی۔
جنوبی افغان بستی ــــ سے ملحقہ شریف آباد کی ایک پرانی حویلی میں ایک افغان تاجر اپنی فیملی سمیت کرایہ داری پر آن ٹھہرا تھا ـــ لحیم شحیم ــ بلند قدوقامت ـــ سرخ وسفید رنگ ـــ اس کو باقی مہاجروں سے ممتاز کرتا تھا — اس کے پاس اپنی ایک جیپ تھی ـــ ویسے بھی ان مہاجرین کو پیسوں کی کوئی کمی نہ تھی ـــ یو این او کی امداد ان کے لئے فی فرد 300 ڈالر ماہانہ آتی تھی۔ جس سے انکی بھوک بھی مٹ گئی اور کاروبار بھی شروع ہو گئے۔
حکمت یار خان کا تعلق کابل کے گاوں غرقہ سے تھا۔ ان کے گاوں سے ملحقہ ان کی زمینیں غرقہ ڈیم کے منصوبے میں آ گئیں تھیں جس کی وجہ سے انکو جنوب کی اور نیم پہاڑی علاقے میں اپنے املاک شفٹ کرنا پڑے۔ روس کے حملہ کی وجہ سے اسے بھی اور لوگوں کے ساتھ پاکستان شفٹ ہونا پڑا۔ وہ اپنے قبیلہ کا سردار تھا۔ اس کی آبائی زمینوں پر پوست کاشت کی جاتی تھی ، جس کی عالمی منڈی میں ادوایات کی وجہ سے بہت مانگ تھی۔
موہ خود بھی یورپ سے پڑھ کر آیا تھا اور بیرون ملک بھی اس کے اثاثہ جات موجود تھے۔ ہجرت کی وجہ سے اس کو بمعہ اہل و عیال اپنا گاوں، جائیداد چھوڑنا پڑا۔
مال ہی کی بنا پر وہ بجائے مہاجر کیمپ کے اندر رہتا، ملحقہ شریف آباد میں ایک کرایہ کے گھر میں رہنے لگا۔ اس کی بہت سی اولادیں تھیں۔ اُس کی شادی بہت کم عمری میں ہوئی تھی اس کی بنا پر اس کی اولاد جوان تھی وہ خود بھی اپنی وجاہت کی بنا پر خاصہ جوان لگتا تھا۔ اکثر اوقات وہ اپنی جیپ پر گاوں کے آلے دوالے گھومتا پایا جاتا۔ بنیادی طور پر شریف النفس آدمی تھا۔
اس کی اولادوں میں سب سےبڑی بیٹی گلبانو تھی جو کہتے ہیں کہ اُس وقت ۱۷ سال کی رہی ہو گی۔ جس کو صرف قسمت والوں نے ہی دیکھا تھا۔ وہ اپنے باپ کے ساتھ پردہ میں ہی اکثر اوقات جیپ میں دیکھی جاتی۔
بھلے لوگ تھے جو گاوں کنارے، بہاریوں کے ساتھ ہی رہا کرتے۔ بہاری کالونی میں ایک چھوٹا بازار تھا اور اس میں ڈاکٹر سلیم کا کلینک اس پوری آبادی کا واحد مرکز صحت تھا۔ جہاں کلینک پر ہمہ وقت رش رہتی تھی۔ جہاں گاوں کے لوگ صحت کے معاملات میں وہاں کا رخ کرتے، یہاں کی مہاجر بستی کے لوگ بھی وہیں جاتے۔
گلبانو کو ایک دن نزلہ اور بخار تھا اور وہ اپنی والدہ کے ہمراہ ڈاکٹر سلیم کے کلینک میں گئی، جہاں نواز نے اسے پہلی مرتبہ دیکھا اور فریفتہ ہو گیا۔ گلبانو نے بھی پسندیدگی کی نظر سے دیکھا تو نواز کی بھی ہمت بندھی اور اس نے موقع دیکھ کر اس کو پشتو میں اپنے دل کی بات بھی کہہ دی۔ نواز کو پشتو آتی تھی۔
نواز کا گھر ہمارے گاوں کے مغربی کنارے پر تھا، جہاں کمہار ، ستی اور دھنیال آباد تھے۔ نواز کی فیملی یہاں کی مقامی نہ تھی کچھ عرصہ پہلے سائیں دین محمد اور اس کی بیوی محبوب بیگم نے یہاں جگہ خرید کر اپنا گھر بنایا تھا۔ نواز کے او ر بھائی بھی تھے مشتاق، رفاق، رفاقت، پیرو اور بہنیں بھی تھیں۔
یہ محبت کی کہانی اندر ہی اندر پروان چڑھی جانے کب ملاقاتیں ہوئیں اور عہد و پیمان باندھے گئے۔ پورا گاوں اس سے ناواقف رہا۔
حکمت یار خان کے قبیلے کے لوگ ملحقہ مہاجر بستی میں رہتے تھے، ان میں اس کی خدمت گزار بھی شامل تھے۔ ساتھ اس کے برادری اور لوگ اور ۳ بھائی بھی رہتے تھے
گل بانو کو اب اکثر ڈاکٹر سلیم کے پاس جانا پڑتا تھا۔ کبھی سر درد کے بہانے کبھی کچھ کبھی کچھ۔ نادان عمر میں انسان بہک جاتا ہے _ نواز اور گل بانو کو ایک دوسرے سے ملنے کا یہی ایک موقع ہوتا تھا۔
اسی دوران 2 منٹ کی ملاقات دونوں کے دل میں گھر کر گئیں _ عہد و پیمان ہونے لگے لیکن انجام سے بے خبر۔ نواز نے گل بانو کو ملنے پر مجبور کیا _ لیکن گل بانو اکیلے میں کہیں آ جا نہیں سکتی تھی _ اس لئے کوئی سبیل نہ بنی۔ نواز اب اکثر اس کے گھر کے گرد بھی منڈلاتا پایا جاتا _ شاید گل بانو کا دیدار ہو جائے __ کبھی کبھی وہ ایک دوسرے کو ایسے میں دیکھ بھی لیتے تھے۔
ایک مرتبہ 2 منٹ کی ملاقات میں کلینک پر ہی نواز نے گل بانو سے کہا کہ وہ رات گئے اس کے گھر آئے گا _ وہ کسی طرح دروازہ کھول رکھے _ اس طرح کچھ زیادہ لمحات مل جائیں گے ملاقات کے _ شیطان نے گل بانو کی بھی ہمت بندھائی اور وہ بھی تیار ہو گئی اور اگلی رات کا پلان ترتیب دے دیا گیا۔
اس دن نواز نے حکمت یار خان کی حویلی کی ریکی کی _ وہ اردگرد پر بھی نظر رکھنا چاہتا تھا۔ اسے احساس تھا کہ پکڑے جانے پر اس کی ٹھیک ٹھاک دھلائی ہو سکتی ہے۔ حویلی سے ملحقہ افغان بستی اس کے لئے مصیبت کھڑی کر سکتی ہے۔ سب افغان ایک جیسے تھے _ شکلوں سے انکو الگ الگ پہچاننا مشکل تھا _ ان میں ایک حکمران یار خان ہی تھا جو ہزار لوگوں میں اپنی الگ شناخت رکھتا تھا۔ اس کی وضعدار اور بارعب شخصیت اسے باقی افغانوں سے ممتاز کرتی تھی۔ اس کا رہن سہن قطعا کسی دھاتی جیسا نہیں تھا گو کہ وہ کابل کے ایک پہاڑی گاوں سے آیا تھا۔
کرایہ داری پر لی گئی حویلی کافی بڑی تھی _ جس میں دس کے قریب کمرے رہے ہونگے۔ برآمدہ اور صحن اس کے علاوہ تھا۔ چاردیواری کی دیواریں 8 فٹ سے اونچی نہ تھیں۔ ریکی کر کے نواز اگلی رات جانے کے لئے بے تاب تھا _ جو اس کے زعم میں محبت کے حصول کا ایک طریقہ تھا __ لیکن انجام بخیر نہ ہوا۔
اگلی رات _ وہ چپکے سے اپنے گھر سے نکلا _ آج اس نے بوسکی پہن رکھی تھی زرد تلے سے بنی کھیڑی [زری جوتا] اس نے حال ہی میں لی تھی اور آج وہ بن ٹھن کر گل بانو سے ملنے جا رہا تھا۔ عطر کی پوری شیشی اس نے اپنی بنیان پر انڈیلی تھی _ اس کا سامنے کا ایک دانت اس کو باقی لڑکوں سے ممتاز کرتا تھا _ اس نے سامنے والے دانت پر سونا چڑھا رکھا تھا۔
رات پچھلے پہر وہ افغان بستی پہنچا _ جبکہ گزشتہ کل شام سے ہی ساون اپنی رم جھم میں تھا _ افغان بستی سے ملحقہ حویلی پہنچ کر اس نے ٹارچ بند کر دی جو وہ گھر سے اپنے ساتھ لایا تھا حویلی کے دروازے پر پہنچ کر اس نے آواز سے کوئی مخصوص اشارہ دیا تاکہ گل بانو دروازہ کھول دے اور وہ جھٹ حویلی کے اندر جا کر شرف ملاقات پائے۔ اشارہ ملتے ہی دروازے کی کنڈی گری اور دروازہ ہلکا سا کھل گیا _ اندھیرے نے یہ نہیں بتایا کہ دروازہ کھولنے والا کون تھا _ نواز محبت کی آغوش میں جانے کا گمان رکھے _ دنیا سے بے نیاز _ دھڑکتے دل سے دروازے کھول کر اندر داخل ہوا _ وہ جونہی دروازے سے اندر داخل ہوا بھاری ہاتھوں اور مضبوط بازوں نے اس کو دبوچ لیا۔ اس کے اوسان خطا ہو گئے _ نرم و نازک کے بجائے آہنی ہاتھوں نے اس کا استقبال کیا تھا اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتا _ حویلی کا دروازہ بند کر دیا گیا _ صحن میں پوری افغان بستی کے مرد جمع تھے ایک ہاتھ اس کے منہ پر تھا کہ آواز اب باہر نہ جا سکے _ پھر اس کے منہ پر پٹی باندھ دی گئی _ حویلی کی تمام لائٹس بند کر دی گئیں تھیں۔ حویلی کے داخلی دروازے کے باہر تین عدد ٹرالیاں کھڑیں تھیں جن میں مختصر سامان لدا ہوا تھا __ اس کے علاوہ اسی رات کچھ اور لوڈر گاڑیاں بھی مہاجر بستی میں آئیں تھیں۔
افغانوں نے پہلے نواز کو حویلی کے اندر برآمدہ کے پلر سے باندھ دیا _ حکمت یار خان نے پوری پلاننگ کر رکھی تھی _ اس کی بیوی جو گل بانو کے ساتھ باہر جاتی تھی نے اسے شک کی بنا پر بتایا تھا کہ وہ گل بانو کی بیماری سے شاکی ہے۔ معاملہ کچھ اور ہے _ اس پر حکمت یار خان نے افغان بستی کے کچھ لڑکوں کو بیوی اور گل بانو کی ریکی پر لگایا _ لڑکوں نے نواز کو بھانپ لیا _ گل بانو پر تھوڑا گھریلو تشدد کیا گیا تو اس نے ساری بات باپ کو بتا دی _ خود کو بے قصور کہا اور نواز کو قصوروار ٹھہرا دیا۔ جس پر افغانوں نے نواز کے قتل کا منصوبہ بنا لیا۔ اسی دوران جب نواز نے حویلی جانے کا قصد کیا اور گل بانو کو اس پر آمادہ کیا تو یہ بات بھی حکمت یار خان کو گل بانو نے بتا دی۔ اس سے افغانوں کو اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں آسانی ہو گئی۔
بتانے والوں نے بتایا کہ نواز کو صحن کے درمیان رسیوں سے باندھ کر لٹایا گیا، اس کی گردن علاحدہ کی گئی پھر اس کے جسم کے اعضاء کاٹے گئے۔ اس کے بعد اس ٹکڑے ٹکڑے لاش کو بوری میں ڈال دیا گیا۔ اور بوری بند لاش حویلی میں رکھ کر تمام شواہد مٹائے گئے۔
اس رات بارش تو ہوئی لیکن اتنی نہیں _ اگلے دن صبح صبح یہ افغان بستی خالی کر دی گئی اور سو میں سے ننانوے لوگ ٹریکٹر ٹرالیوں _ ٹرکوں اور مال بردار گاڑیوں میں بیٹھ کر سامان سمیت یہاں سے شمالی علاقوں میں چلے گئے جبکہ حویلی میں چند لوگ موجود تھے جنکا پلان اگلی رات نکلنے کا تھا _ افغانوں کی اس موومنٹ پر کسی کو کوئی شک نہ گزرا۔ کیونکہ یہ لوگ اکثر ادھر سے ادھر ہوتے رہتے تھے۔
ادھر _ دین محمد کو صبح اپنا بیٹا گھر میں نہ ملا _ اس کو تھوڑا پریشان ہونا چاہئے تھا لیکن اس دور میں اکثر لوگ دو چار دن کے لئے ایسے ہی غائب ہو جاتے _ کوئی اپنے دوستوں کے ہمراہ لاہور چلا جاتا _ کوئی اپنے عزیزوں کے ہاں دوسرے گاوں میں _ کسی کی گمشدگی اس وقت تک کنفرم نہ ہوتی جب تک مہینوں کوئی برآمد نہ ہوتا۔ موبائل اب آئے ہیں کہ بندہ ہر وقت ہی معاشرہ سے بندھا ہوا ہے۔ شام تک دن محمد اور محبوب بیگم بہرحال پریشان ہو گئے _ کیونکہ رات وہ گھر پر ہی تھا جبکہ اس کے بعد گھر والوں سمیت اہل علاقہ کے کسی نے بھی اسے نہ دیکھا تھا۔ شام پڑتے ہی گہرے بادل امنڈ آئے اور مینہ برسنا شروع ہو گیا _ ساتھ تیز ہواوں نے آندھی کو بھی پیغام بھیجا کہ آ جاو _ ظلم ہوا ہے _ سرخ آندھی اس رات آئی تھی_ اور خوب آئی۔
رات گہری ہوئی تو _ آندھی بھی جوبن پر آگئی _ اسی دوران لگی بارش اور طوفان میں دو سائیوں نے حویلی سے باہر قدم رکھا _ ایک آدمی پہلے ہی جیپ سٹارٹ کر کے انکا انتظار کر رہا تھا ان دو سایوں نے ایک بوری اٹھا رکھی تھی جس پر پانی پڑا تو سرخی کیچڑ میں شامل ہو گئی۔ بوری کو جیپ کے پچھلے دروازے کو کھول کر اندر پھینک دیا گیا۔ ایک اور گاڑی اس جیپ کے پیچھے کھڑی تھی _ اس کی بھی ہیڈ لائٹس آن ہو گئیں۔ دونوں گاڑیوں نے شمالی شکریال کا رخ کیا اور کچے راستہ پر چلتیں چلتیں دوسری افغان بستی کے قریب پہنچ گئیں _ آندھی طوفان نے تمام علاقہ مکینوں کو گھروں میں رہنے پر مجبور کر رکھا تھا _ ویسے بھی گاوں میں رات کو چوکیدار کے سوا کوئی باہر نہ نکلتا _ مشرقی گلی سے گزر کر دونوں گاڑیاں رکیں _ دو چار لوگ لگی بارش اور آندھی میں گاڑیوں سے اترے _ جیپ سے بوری نکالی اور برساتی نالے میں پھینک دی۔
اسی دوران _ بجلی زور سے کڑکی _ عرش والے نے شاید ان لوگوں کو خوف دلانا چاہا لیکن _ وہ اپنا کام کر کے گاڑیوں میں بیٹھے _ اور ملحقہ ایکسپریس وے پر گاڑی ڈال کر اپنا رخ شمال کی جانب کر دیا _ انکو کل تک وزیرستان پہنچنا تھا۔
مولوی حبیب کی چیخ نے راز افشاں کر دیا کہ بوری میں لاش ہے _ بجائے خود اہل علاقہ بوری کو نکالتے _ گاوں کے نمبردار اور کونسلر کو بلایا گیا _ ان کی موجودگی میں _ نالے کے اوپر ایک چارپائی رکھی گئی اور بوری کو نکال کر چارپائی پر رکھ دیا گیا _ کچھ ہی گھنٹوں میں وہاں پولیس بھی آگئی _ تمام شہادتیں اور وقوعہ کو نوٹ کیا گیا _ اسی دوران جوان کے والدین کو خبر ہوئی تو ماں بال کھولے چارپائی پر آ کر بیٹھ گئی _ کسی کو کچھ معلوم نہ تھا کہ کیا ہوا، کیسے ہوا اور کیوں ہوا۔ اسی شام جوان کو سپرد خاک کر دیا گیا۔
افغان وزیرستان پناہ گزین ہوئے _ انکے بارے یہ عقد بہت بعد کھلا _ یہ پولیس رپورٹ تھی شاید _ لیکن قاتل پہنچ سے دور تھے _ کچھ نے کہا کہ وہ علاقہ غیر میں ہیں _ لیکن انکا ٹھکانہ کسی کو معلوم نہ تھا _ آندھی نے بہت بین کیا تھا
ختم شد
نوٹ: کہانی کے نام کردار اور جگہ فرضی ہے۔ کسی قسم کی مماثلت اتفاقیہ ہو گی۔
by RH | Sep 26, 2024 | حقیقی کہانیاں, ناولز
تحریر: راجہ نذیراحمد
1985 اگست کی 11 تاریخ راولپنڈی میں ہتھوڑا گروپ مشہور ہوا. اور اس کے بعد اس سیریل کلر کا دائرہ کار پورے ملک میں پھیل گیا۔
ایک خفیہ و اندھے قتلوں کی واردات گلی نمبر 7 ڈھوک کھبہ میں ہوئی۔ جس میں ڈھوک کھبہ کے ایک ہی خاندان کے 9 افراد کو قتل کیا گیا۔ یہ گروپ 3 سال تک راولپنڈی اور پورے پاکستان میں خوف کی علامت رہا لوگوں نے گلی محلوں میں ٹھیکری پہرے شروع کر دیے تھے۔
یہ اگست کا مہینہ تھا، جب ڈھوک کبھہ میں یہ واردات ہوئی۔ میں اس وقت 7 سال کا تھا _ پورے ملک کی مانند ہمارے گاوں میں بھی چوکیدارا کمیٹی تشکیل دی گئی، اباجی کے سوا کوئی بھی اس کمیٹی میں فوجی نہیں تھا اس لئے اس کمپنی کی کمانڈ اباجی نے ہی کی۔
گاوں میں چار ڈھوکیں تھیں _ ہر ڈھوک سے 2 افراد لئے گئے اور آٹھ افراد میں سے چار افراد روزانہ رات چوکیداری پر معمور ہوتے تھے۔ جن کا کام اپنی ڈھوک کے علاوہ دوسری ڈھوک کا صبح تک چکر لگانا اور سیٹی مارنا تھا۔ اگر کہیں خطرہ ہوتا تو اس کا کام ایک فائر کرنا تھا تاکہ گاوں والے اور باقی چوکیدار متوجہ و چوکنے ہو جائیں اور خطرہ سے نبٹا جا سکے۔
گاؤں میں چوکیداری کے علاوہ بھی نوجوانوں کو متحرک کیا گیا کہ چوکنے رہیں اور اپنے اپنے علاقوں پر انجانے اور غیر لوگوں پر نظر رکھیں۔ اس دوران بہت سی کہانیاں سننے کو ملتیں۔
ایک شخص کا بیان ہے کہ چند لوگ گاوں پر مشرقی جنگل کی طرف سے حملہ آور ہوئے تھے۔ انہوں نے کالا لباس پہن رکھا تھا اور وہ سیاہ گھوڑوں پر سوار آئے تھے۔ وہ گاوں کے کنارے اس وقت موجود تھا جب یہ چند لوگ گاوں میں داخل ہونے لگے۔ اس پر اس نے جست لگا کر ان میں سے سب سے آگے والے گھر سوار کو گرایا لیکن حیرت انگیز طور پر وہ گرنے کے باوجود اس شخص کے ہاتھ اس لئے نہیں آیا کیونکہ اس نے کپڑوں پر گریس یا تیل ملا ہوا تھا۔ گھڑ سوار اٹھا گھوڑے پر بیٹھا اور اس شخص کی بہادری کی وجہ سے یہ حملہ آور واپس چلے گئے۔ (لو سانبھو، یہ استاد سریلے خاں تھے)
ایک شخص کا کہنا تھا کہ وہ اپنے گاوں کے جنوبی کنارے پر موجود تھا جہاں سے آگے مکمل میدان 4 کلومیٹر تک پھیلا ہوا تھا اور یہ میدان سرکاری اراضی جنات کی آماجگاہ گاہ تھی۔ یہاں کے چھوٹے چھوٹے مختلف اشکال کے پتھر اس کی غمازی کرتے تھے۔ اس نے ایک جن دیکھا جس جس کا قد 10 فٹ سے زائد تھا اور اس کے ہاتھ میں ہتھوڑا تھا۔ اس شخص نے فائر کر کے اس جن کو بھگا دیا۔ (تینوں لووے مولا، جن تے فائر، انکو کریلے گوشت بہت پسند تھے)
جتنے منہ اتنی باتیں، اصل کردار گاوں کے ان آٹھ جوانوں کا تھا جو چوکیداری کر رہے تھے اس کی وجہ سے چوری چکاری کرنے والے اوباش بھی کنارہ کشی اختیار کر گئے۔ اسی دوران ابو کو اپنی یونٹ کی طرف سے کال آ گئی اور ابو کو واپس ریزرو جانا پڑا۔
پہلا پہل ایسا ہوتا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد فوجیوں کو 2 سال بعد اپنی یونٹ میں واپس 2 ماہ کے لئے جانا پڑتا تھا۔ اس کو ریزرو جانا کہتے تھے۔
ابو کے فوج جانے کے بعد حویلی میں سب سے بڑا جوان بقلم خود میں رہ گیا تھا جبکہ والدہ اور سب سے بڑی ہمشیر رات کو حویلی پر پہرہ دیتیں تھیں۔
اسی دوران راولپنڈی میں ایک اور قتل ہوا جو کلہاڑی یا ہتھوڑے کے وار سے کیا گیا۔ یہ بھی اندھا قتل تھا اور وجہ نامعلوم تھی۔ اس لئے علاقہ بھر میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ خبروں کا واحد ذریعہ اخبارات تھے جبکہ PTV پر راوی امن لکھ رہا تھا۔ اخبارات کی مدد سے یہ بھی معلومات مل رہیں تھی کہ کراچی میں بڑے پیمانے پر ہتھوڑا گروپ متحرک ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر لوگ قتل ہو رہے ہیں۔اب اس نادیدہ گروپ کے متعلق افواہیں مشہور ہوئیں
کوئی کہتا یہ روس کے بھیجے ایجنٹ ہیں جو ہتھوڑے سے قتل کر رہے ہیں (افغانستان روس کی جنگ عروج پر تھی اور پاکستان افغانوں کو مدد فراہم کر رہا تھا)
کوئی کہتا یہ افغانی ہی ہیں جو جنگ کی وجہ سے نفسیاتی مریض بن چکے ہیں اس لئے یہ قتل و غارت بلا وجہ کر رہے ہیں۔
کوئی کہتا جو کروا رہا ہے انڈیا کروا رہا ہے
کوئی کہتا یہ امریکہ کی کوئی چال ہے۔
ایک رات 🌙 ہماری حویلی کے جنوب مشرقی جانب کچھ کھٹ پٹ ہوئی تو والدہ مرحومہ ابو کی ملکیت دو نالی بندوق لیکر چھت پر چلی گئیں اور حویلی کے چاروں اور نظر دوڑائی۔ جنوبی جانب چھاچھیوں کا ایک گھر تھا جبکہ اس سے آگے دو گھر کاسبیوں کے تھے۔ وہاں ہل چل ہو رہی تھی لیکن رات گہری ہونے کے سبب یہ معلوم نہ تھا کہ انسان ہے یا جانور۔ جیسے کوئی سرگوشیوں میں بات کر رہا ہو۔ ماں جی نے چوبارے کی فصیل کے سوراخ میں بندوق اس جانب لوڈ کر کے للکارا کہ کون ہے بولے اپنا تعارف دے ورنہ گولی چلا دی جائے گی۔ للکارنے پر چند ساعت خاموشی ہوئی پھر سرگوشیاں ابھرنے لگیں۔ امی جان تھوڑی حیران ہوئیں کہ للکارنے کے جواب میں جو کوئی بھی تھا یا تو اسے بھاگ جانا چاہئے تھا یا خاموش ہو جانا چاہئے تھا جبکہ دو منٹ بھی خاموشی نہ رہی اور پھر سرگوشیاں۔ ماں جی نے ہوائی فائر کر دیا بجائے اس جانب فائر کرنے کے۔ جس فائر کی آواز سنتے ہیں وہاں سے کچھ جانور نکل کر مشرقی جانب میدان اور جھاڑیوں کی طرف بھاگے۔ یہ سوروں کا غول تھا جو ہمارے پڑوس میں پڑے کاسویوں کے بھوسے سے اپنا رزق کھا رہے تھے اور رات کی خاموشی میں سر سر کی آواز سرگوشی محسوس ہو رہی تھی۔ فائر کی آواز نے پورے گاون کو متوجہ کیا۔ چوکیداروں نے فوری ہماری حویلی کا رخ کیا۔ ہمارے پڑوس کا میدان و جھاڑیاں ہمارے چھت کے برابر تھیں اور پڑوس سے ہی یہ زمیں یک مشت اتنی گہرائی میں آجاتی کہ پڑوس کی راہداری شروع ہوتی۔ دو گھر سوار اس میدان سے آتے دکھائی دیئے جو سیدھا ہی ہماری حویلی کی جانب آرہے تھے۔ شاید اندھیری رات کے فائر نے انکو سمت کا سہی تعین کر دیا تھا۔ میدان کے کنارے پہنچ کر ان لوگوں نے ٹارچ کا رخ نیچے آباد تین گھروں اور ہماری حویلی کے چھتوں پر کیا، ماں جی مرحومہ ان کی جانب فصیل کی اوڑھ میں بیٹھ گئیں اور بندوق کی نالی کا رخ ان کی جانب کر دیا۔ کیونکہ اندھیرے کی بنا پر یہ تعین کرنا ممکن نہیں تھا کہ آنے والے اپنے ہیں یا چور آچکے۔
ان میں سے ایک نے ٹارچ کی روشنی میں منڈیر کے سوراخ سے دوڑائی بندوق کا بیرل دیکھ لیا وہ فورا زمین پر لیٹ کر چلا اٹھا۔ فلاں خاں نیچے لیٹ دشمن ہے۔
مٹی کی ایک ڈھیری کی اوڑھ لیتے ہوئے اس نے اپنا نام بآواز بلند بتایا اور للکارا کہ جو کوئی بھی صوبیدار اسحاق خان کی چھت پر موجود ہے یا تو اپنا تعارف بآواز بلند کرائے بصورت دیگر اس کو گاوں سے نکلنے نہیں دیا جائیگا اور ممکنہ طور پر جاں سے مار دیا جائیگا۔ اسکا نام سن کر ماں جی نے آواز دی کہ بھائی میں تمہاری بہن ہوں اور ماں جی بیرل اٹھا کر کھڑی ہو گئیں۔ آنے والا ماں جی کا بھائی تھا۔ یہ دونوں گھوم کر جتنی دیر گیٹ پر پہنچے چار 4 لوگ اور بھی حویلی پہنچ چکے تھے۔ سب نے مل کر والدہ محترمہ سے قصہ پوچھا والدہ نے بتایا کہ فلان جانب سے سور تھے جو پہچانے نہیں گئے اس لئے ہوائی فائر کرنا پڑا۔
ڈیرہ سے نوکر بھی آ گئے جن کو ڈانٹا گیا کہ وہ حویلی کا خیال رکھنے میں ناکام ہو رہے ہیں اس بات کو صوبیدار صاحب تک پہنچایا جائیگا۔
دن گزرتے گئے اور کبھی کبھی خبر آتی کہ آج فلاں علاقہ میں ہتھوڑا گروپ نے حملہ کیا آج فلاں جگہ کیا _ لیکن مصدقہ خبریں اس میں کم ہی ہوتیں زیادہ تر افواہ ہی ہوتی۔ تین سال بعد ہمارے اپنے علاقہ میں فقیروں کا جوان لڑکا ہتھوڑوں کی ضرب سے ہلاک کیا گیا۔ اس رات سرخ آندھی آئی تھی __ یہ آخری واردات تھی جو میرے علم میں مصدقہ ہے۔ لیکن اس شخص کو ہتھوڑا گروپ نے قتل نہیں کیا تھا۔
پنڈی کی تاریخ کا یہ باب بھی ابھی تک حل طلب ہے کہ ہتھوڑا گروپ کون تھا کہاں تھا کیوں تھا؟؟؟؟؟
اسی دوران خبر آئی کہ پولیس نے ایک 90 سالہ شخص کو گرفتار کیا ہے جو یہیں ڈھوک کھبہ کا رہائشی ہے اسکا نام محمد خان بتایا گیااور اس نے اقرار جرم کر لیا ہے۔ لیکن یہ شخص بھی بعد ازاں 2 سال بعد رہا کر دیا گیا۔
نوٹ: گزشتہ قسط میں میں نے تاریخ 86 کی لکھی لیکن ہمارے بزرگوں اور صاحب علم لوگوں کے مطابق یہ واقعہ11 اگست 1985 مئی کا ہے۔ اس کو مئی 85ء ہی تصور کیا جائ
by Abdul Muneeb | Apr 18, 2024 | ڈراؤنی کہانیاں, ناولز
قسط 24
آخری قسط
تحریر سراج انور
پچھلی قسط کا خلاصہ :
اس خوفناک جزیرے کی عجیب و غریب مخلوق دیوزاد مکھی کو ختم کرنے کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے فیروز مکھی کے راستے میں کھڑا ہو گیا تھا۔ اور اوپر سے جان اور جیک نے لرزتی چٹان کو دھکے دے کر نیچے لڑھکا دیا جو ٹھیک مکھی کے پیٹ پر جا گری۔ مکھی کا پیٹ پھٹتے ہی پیٹ میں سے گرم گرم لاوا نکل کر ہر طرف بہنے لگا جس طرف بھی لاوا گیا، اس نے ہر چیز کو جلا کر خاک کر دیا۔ فیروز زمین پر گر کر بےہوش ہو چکا تھا اور لاوا بہتے بہتے فیروز کے قریب پہنچنے والا تھا کہ ملاح نے بہادری اور تیزرفتاری سے دوڑتے ہوئے جا کر فیروز کو بچا لیا۔
اب سوال یہ تھا کہ مکھی کی آنکھیں کس طرح نکالی جائیں۔۔۔؟!
۔۔۔ اب آپ آگے پڑھئے ۔۔۔
“۔۔۔ ترکیب عمدہ تھی اس لئے ہم نے اس پر فوراً عمل کیا اور نتیجہ کے طور پر ہم نے مکھی کا سر اپنی طرف کھینچ لیا۔ جب سر ہمارے قریب آ گیا تو ہم نے اس کی آنکھوں کو غور سے دیکھا۔ آنکھیں کیا تھیں۔ دو بہت بڑے بڑے گول نگینے سے تھے اور ان نگینوں میں ہزاروں رنگ نظر آتے تھے، کسی طرف سے بھی دیکھنے کے بعد یہ رنگ پلٹنے لگتے تھے۔ بڑی دیر تک ہم ان شیشوں کو حیرت سے دیکھتے رہے اور پھر ملاح نے ایک تیز خنجر سے وہ قیمتی آنکھیں سر میں سے نکال لیں۔ ان آنکھوں کو حفاظت سے اپنے ساتھ لے کر ہم جلدی جلدی آگے بڑھے۔
ملاح پانی کے اس ذخیرے کے قریب رک گیا جو پہلے ہمیں گرم لگا تھا مگر پینے کے لائق تھا۔ جب میں نے پوچھا کہ وہ کیوں رک گیا ہے؟
تو اس نے کہا کہ جتنی جلدی ہو سکے ہم جہاز میں سے پانی کے ڈرمز لے کر آئیں تاکہ پینے کا پانی یہاں سے جمع کر سکیں۔ مزے کی بات تو یہ ہے فیروز، کہ جس ملاح پر ہم پہلے حکم چلایا کرتے تھے، اب وہی خود ہم پر حکم چلا رہا تھا اور ہم بغیر چوں چرا کئے اس کی ہر بات مان رہے تھے۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ہمارا محسن تھا اور اس نے کچھ دیر پہلے ہماری جانیں بچائی تھیں۔
خیر ہم جلدی جلدی پہاڑ پر چڑھے، جہاز میں سے دو ڈرم نکالے میں نے جھانک کر تمہیں دیکھا، تم اس وقت تک بےہوش پڑے ہوئے تھے۔ یہ سمجھ کر کہ تم جلد ہوش میں نہ آؤ گے، ہم ڈرمز لے کر پہاڑ سے نیچے آئے، ملاح نے ڈرمز میں پانی بھرا اور پھر ایک ڈرم اپنے کندھے پر رکھ کر وہ پہاڑ پر چڑھنے لگا۔ قصہ مختصر یہ کہ اس طرح ہم نے زیادہ سے زیادہ ڈرام پانی سے بھر لئے۔ جس وقت ملاح آخری ڈرم لے کر پہاڑ پر چڑھ رہا تھا، یکایک زمین زور سے ہلی اور نہ جانے کیا بات ہوئی کہ ہمارے دیکھتے دیکھتے اچانک جزیرہ ڈانواں ڈول ہونے لگا۔ پہاڑ پر چڑھتے چڑھتے ہم نے غور سے جزیرے کی زمین کو دیکھا تو بہت اچنبھا ہوا۔ بپھرتے ہوئے سمندر کا پانی آہستہ آہستہ زمین کی طرف بڑھ رہا تھا۔ مطلب یہ کہ جزیرہ ڈوب رہا تھا!”
“وقت سے پہلے ہی ڈوب رہا تھا۔؟” میں نے حیرت سے دریافت کیا۔
“ہاں فیروز! وقت سے پہلے ہی، اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ سب اس خوف ناک مکھی کے اچانک مر جانے سے ہوا تھا۔” جان نے تمباکو کے لمبے کش لگانے کے بعد کہا۔
“جب جزیرہ سمندر میں ڈوبنے لگا تو اس کے ساتھ ہی ہمارا جہاز بھی آہستہ آہستہ نیچے آنے لگا۔ جہاز ابھی تک پہاڑ کی چوٹی پر ٹکا ہوا تھا۔ جب یہ پہاڑ بھی سمندر میں ڈوب گیا تو ہمارا جہاز بھی آپ ہی آپ پانی کی سطح سے لگ گیا۔ ہم تینوں نے مل کر جلدی جلدی بادبان کھولے اور لمبے لمبے بانسوں کی مدد سے جہاز کو پہاڑ کی چوٹی سے دور ہٹا دیا۔ ہم چوٹی سے بانس لگا کر زور لگاتے اور جہاز اپنی جگہ سے تھوڑا کھسک جاتا اور آخرکار اس طریقے سے جہاز چوٹی سے ہٹ کر پورا کا پورا پانی میں آ گیا۔۔۔ کوشش ہم نے یہی کی کہ جلد سے جلد اس موت کے جزیرے سے دور چلے جائیں اور اس میں کامیاب بھی ہو گئے۔ راستے میں ہم نے تمہاری مرہم پٹی کی اور اگلے دن سورج کی پہلی کرن کو مکھی کی آنکھوں سے گزار کر یہ سونا اور ہیرے بنائے۔ لو یہ دیکھو۔”
اتنا کہہ کر جان نے مجھے چند ہیرے اور سونے کا ایک ٹکڑا دکھایا۔ اس نے بتایا کہ ہیرے تو چند چھوٹے پتھروں سے بنے ہیں اور سونا ایک ٹوٹے ہوئے چاقو کے پھل سے۔ یہ چیزیں دیکھ کر میری حیرت کی کچھ حد نہ رہی۔ اب تک تو میں یہی سمجھتا رہا تھا کہ مکھی کی آنکھوں والی کہانی میں کچھ سچائی نہیں ہے۔ ولیم نے کتاب میں جو کچھ لکھا ہے وہ بالکل جھوٹ ہے، مگر حقیقت میرے سامنے تھی اور اب میں اسے کسی بھی طرح نہیں جھٹلا سکتا تھا !
آپ کو یہ بتانا تو اب بالکل بےکار سا لگتا ہے کہ ہم لوگ کس طرح ہندوستان کے ساحل کومورن تک پہنچے۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ ہزاروں مشکلیں جھیلتے، طوفانوں سے لڑتے، نت نئی بلاؤں کا مقابلہ کرتے آخرکار دس ماہ بعد کومورن پر اترے۔ تب ہمیں اتنی خوشی ہوئی کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ کپڑے اتنے پھٹے ہوئے تھے کہ ہم اس حالت میں بستی کے اندر نہیں جا سکتے تھے۔ مجبوراً ملاح کو بھیجا۔ وہ ہمارے لئے سونے کی ایک چھوٹی سی ڈلی کے بدلے ایسا لباس لے آیا ہے جسے پہن کر ہم انسان نظر آنے لگے (یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ سونے کی ڈلی دراصل مکھی کی آنکھوں ہی کا کرشمہ تھی)۔
چند دن اسی بستی میں آرام کرنے کے بعد ہم نے اپنے گھوڑے لئے اور ساتھ ہی بستی سے چند بڑے بڑے مضبوط تھیلے بھی خرید لئے، اس کے بعد ہم اس مقام کی طرف روانہ ہوئے جہاں اب سے کافی دن پہلے خزانہ دریافت کیا تھا۔ چوں کہ اب ہم تازہ دم تھے اس لئے جلد ہی اس خوف ناک جنگل میں داخل ہو گئے۔ جہاں دوبارہ داخل ہونے کی تمنا ہم میں سے کسی کو نہ تھی۔ کیونکہ اس جنگل میں ہمارے ساتھ بڑے عجیب حادثے پیش آ چکے تھے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو یہ لکھتے ہوئے میرا دل اب بھی کانپ رہا ہے کہ خزانے کے زمین دوز دروازے کے اوپر ہی ایک انسانی ڈھانچہ مونہہ کھولے، بڑی بے بسی کی حالت میں پڑا ہوا ملا اور وہ ڈھانچہ عبدل کے سوائے اور کسی کا نہیں تھا۔۔۔!
وہ انسان جو کبھی بڑھ چڑھ کر باتیں بناتا تھا اب مٹھی بھر خاک اور سوکھی ہوئی ہڈیوں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ کیسی عبرت کا مقام تھا! جیک اور ملاح نے مل کر وہ زمین پھر کھودی، راستہ دوبارہ صاف کیا اور ہم نے وہ خزانہ ایک بار پھر حاصل کر لیا۔ ہمارے دل خوشی سے پر تھے۔ بوریاں تو موجود تھیں ہی اس لئے خزانہ بوریوں میں بھرنے کے بعد ہم واپس کومورن پہنچ گئے۔ یہاں ہم نے اپنے گھوڑے بیچ دیئے اور دو ملاح اور حاصل کئے۔ ہمارے ساتھ جو ملاح تھا اس نے ہم سے درخواست کی تھی کہ اب وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ ہی رہنا چاہتا ہے چوں کہ اس نے ہماری مدد بھی بہت کی تھی اس لئے ہم نے اس کی یہ التجا قبول کر لی۔
کومورن سے روانہ ہونے پر جان کو ایک عجیب و غریب بیماری لاحق ہو گئی۔ شاید سمندر میں زیادہ عرصے تک رہنے کی وجہ تھی یا پھر اس کا بڑھاپا۔ اس بیماری کے باعث وہ کافی کمزور ہو گیا تھا۔ کیوں کہ خشکی کا راستہ بہت مشکل اور تکلیف دہ تھا اس لئے ہم نے جان بوجھ کر سمندری راستہ اختیار کیا تھا۔ خیال یہ تھا کہ اس بات کا فیصلہ کرنے کے لئے کہ آئندہ ہمیں کیا کرنا ہو گا، ہم بمبئی پہنچ کر ہی سوچیں گے۔ اور پھر وہیں اس کا فیصلہ کریں گے اور سوچیں گے کہ خزانے کا کیا کیا جائے؟
مختصر یہ کہ بمبئی پہنچنے کے بعد ہم ایک ہوٹل میں مقیم ہو گئے۔ قسمت کی خوبی دیکھئے کہ میں پہلے دلی کے ایک ہوٹل میں بیرا تھا مگر اب بمبئی کے ایک عالیشان ہوٹل میں کسی بگڑے ہوئے رئیس کی طرح بڑے کروفر سے رہ رہا تھا۔ یہاں آ کر ہم نے خزانے کے کئی حصے کئے۔ حکومت کو اس کا حصہ دینے کے بعد بھی ہمارے پاس اتنا بچا تھا کہ ہماری ہزار پشتیں بھی اپنی زندگیاں آرام سے گزار سکتیں تھیں۔ جان اور جیک نے فیصلہ کیا کہ چند ہفتے وہ اسی ہوٹل میں مقیم رہیں گے، پھر اس کے بعد امریکا جانے کا پروگرام بنائیں گے۔ ہم اب غریبوں اور محتاجوں کی بھی اتنی مدد کر رہے تھے کہ ہر طرف ہمارا شہرہ ہو گیا، بڑے بڑے لوگ ہم سے ملنے آنے لگے۔ میں خوب سمجھ رہا تھا کہ یہ لوگ ہم سے ملنے نہیں بلکہ ہماری بے شمار دولت سے ملنے آ رہے ہیں۔
ایک دن کا ذکر ہے کہ میں اور جان ہوٹل کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ہمارا بیرا آیا اور میرے سامنے ادب سے جھک کر کہنے لگا :
“جناب آپ سے ایک شخص ملنا چاہتا ہے۔ حکم دیں تو یہیں بلا لوں۔”
میں نے جواب طلب نظروں سے جان کو دیکھا اور ان نظروں کا مطلب سمجھ کر جان نے بیرے سے کہا۔
“نہیں۔ ہم فیروز کے کمرے میں چلتے ہیں، وہیں بلا لاؤ۔”
بیرا سر جھکا کر واپس چلا گیا اور پھر ہم دونوں بھی اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گئے، جیک شاید کہیں گیا ہوا تھا۔ اس لئے وہ ہماری ہونے والی گفتگو میں شامل نہ ہو سکا۔ ہم ابھی اپنے کمرے میں آ کر بیٹھے بھی نہیں تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ جان کے “کم ان” کہنے پر دروازہ کھلا اور بیرا ایک ادھیڑ عمر شخص کو اپنے ساتھ لئے ہوئے اندر داخل ہوا۔ بغیر کسی سلام و دعا کے وہ شخص بڑی تیزی سے میری طرف ہاتھ پھیلا کر بڑھا۔ اور پھر “میرے بچے” کہہ کر مجھ سے زبردستی لپٹ گیا۔ میں نے بڑی مشکل سے خود کو چھڑایا اور پھر اس سے بولا:
“آپ کون ہیں اور کیوں مجھ سے بغل گیر ہو رہے ہیں؟”
“مجھے معلوم تھا میرے بچے کہ تم مجھے نہیں پہچانو گے۔ ارے میاں میں جمال ہو جمال۔ تمہارا چچا۔”
حیرت کا ایک شدید حملہ مجھ پر ہوا۔ خود جان کی بھی یہی حالت تھی۔ شاید وہ اس اجنبی کی گفتگو سمجھ گیا تھا۔ جیسا کہ میں آپ کو پہلے بتا آیا ہوں وہ دنیا کی تقریباً سب ہی زبانیں تھوڑی تھوڑی ضرور جانتا تھا۔
“چچا۔۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں جناب، کیا واقعی آپ فیروز کے چچا ہیں؟” اس نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں پوچھا۔
جان کی زبانی اتنا سنتے ہی وہ شخص زار و قطار رونے لگا۔ ہم اس کی شکل تکے جاتے تھے اور وہ روئے جاتا تھا، کافی دیر تک یہ ڈرامہ ہوتا رہا۔ آخر مجھے خود ہی اس کو خاموش کرنا پڑا۔ میں نے کہا:
“تعجب ہے کہ مجھے آج تک معلوم نہ سکا کہ میرا کوئی چچا بھی ہے؟ جس وقت میں روٹی کے دو ٹکڑوں کو محتاج تھا اور ایک ہوٹل میں بیراگری کر رہا تھا اس وقت آپ کہاں تھے؟”
“آہ فیروز، میرے بیٹے۔ میرے دل پر چرکے مت لگاؤ۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ تم پر کیا بیتی ہے؟ میں جاپان گیا ہوا تھا۔” اس شخص نے پھر مجھے گلے لگانے کی کوشش کی مگر میں پیچھے ہٹ گیا۔ اور اسے تیز نظروں سے گھورتے ہوئے بولا۔
“چلئے مان لیتا ہوں کہ ایسا ہی ہے۔ مگر اب آپ میرے پاس کیا لینے آئے ہیں؟”
“کیا لینے آیا ہوں؟” اس نے حیرت سے کہا : “بیٹا تمہیں اپنے ساتھ لے جانے آیا ہوں!”
“جی شکریہ۔ تکلیف کی ضرورت نہیں، مجھے آپ کے ساتھ نہیں جانا۔ لہذا اب آپ تشریف لے جا سکتے ہیں!”
“مگر بیٹا۔ آخر تمہیں ۔۔۔”
وہ شخص اتنا ہی کہنے پایا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ جان نے فون اٹھایا اور پھر آپریٹر کی بات سن کر بولا: “انہیں بھی بھیج دیجئے۔”
“کون ہے؟” میں نے جان سے پوچھا۔
“دیکھتے جاؤ کیا ہوتا ہے۔ اس کا نام دنیا ہے۔ فیروز! تمہارے ایک دوسرے چچا آ رہے ہیں۔”
میں ابھی حیرت سے جان کو دیکھ ہی رہا تھا کہ دروازہ کھلا اور ایک نوجوان آدمی، بہترین سوٹ پہنے اندر داخل ہوا۔ مجھے دور سے ہی انگریزی ملی اردو میں بولا۔
“ہیلو ڈیر فیروز۔ ہاؤ ڈو یو ڈو۔ تم کیسے ہو؟ میٹ می۔ آئی آیم یؤر انکل۔”
میں جان کو دیکھ کر مسکرایا اور پھر جان نے انگریزی میں ہی ان حضرت سے کہا۔
“آپ فیروز کے چچا ہیں۔۔۔؟”
“یقیناً۔ میں ہی فیروز کا چچا ہوں۔”
“مگر کون سے چچا ہیں؟ پہلے، دوسرے، تیسرے یا چوتھے۔؟”
“کیا مطلب؟” انہوں نے چونک کر پوچھا “جنٹلمین! ہم صرف دو بھائی ہیں۔ وہ مجھ سے بڑے تھے اور میں چھوٹا۔”
“خوب! تو پھر آپ انہیں بھی پہچانئے۔”
جان نے پہلے آنے والے میرے ‘چچا’ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا “یہ بھی فیروز کو اپنا بھتیجا کہتے ہیں!”
“واہ جناب، یہ اچھی رہی۔ یہ کوئی طریقہ ہے۔ فیروز میرا بھتیجا ہے، کمال ہے کہ اب دوسرے لوگ بھی اس کے چچا بن کر آنے لگے۔!”
اتنا کہہ کر وہ صاحب میرے پہلے “چچا” سے لڑنے لگے۔ ہم دونوں خاموش بیٹھے ان کی نوک جھونک دیکھتے رہے اور جب یہ لڑائی بڑھتی ہی گئی تو میں نے اکتا کر ان سے کہا:
“خاموش رہئے، صاحبان! لڑئیے مت اور براہ کرم فوراً یہاں سے تشریف لے جائیے، میں ایک یتیم لڑکا ہوں اور جہاں تک مجھے معلوم ہے میرا کوئی چچا نہیں ہے، اس لئے آپ دونوں یہاں سے فوراً نکل جائیے۔”
وہ دونوں حیرت سے میرا مونہہ تکنے لگے۔ انہوں نے کچھ کہنے کے لئے مونہہ کھولا ہی تھا کہ جان نے انہیں ڈانٹ دیا اور وہ لرزتے کانپتے باہر چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد جان سوچ میں پڑ گیا۔ آخر کچھ دیر بعد بولا:
“یہ تو بڑی مصیبت ہوئی فیروز۔ اس طرح تو روزانہ کوئی نہ کوئی تمہارا چچا یا ماموں بن کر آنے لگے گا۔ آخر ایسے لوگوں سے ہم کس طرح نجات حاصل کریں گے۔ ویسے ایک بات ہے فیروز۔۔۔!”
“فرمائیے کون سی؟”
“تم نے تو آج تک مجھے بھی اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا کہ تم کون ہو، اور تمہارے والدین کون تھے، ان کا پیشہ کیا تھا؟”
“والدہ کے بارے میں تو میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔” میں نے سوچتے ہوئے کہنا شروع کیا:
“میں بہت چھوٹا سا تھا جب کہ ان کا انتقال ہو گیا تھا۔۔۔ ہاں بس مجھے اتنا یاد ہے کہ تین یا چار سال کی عمر تک میں ایک بہت بڑے اور صاف ستھرے مکان میں رہتا تھا۔ ایک عورت تھی جو شاید میری آیا تھی۔ وہ مجھے بڑے لاڈ و پیار سے رکھتی تھی اور مجھے میرے والد کے قصے مزے لے لے کر سناتی تھی۔”
“والد کے قصے!” جان نے حیرت سے کہا “اس کا مطلب ہوا کہ تم نے اپنے والد کو نہیں دیکھا؟”
“جی ہاں یہی سمجھئے۔ صرف دو تین بار دیکھا تھا۔ پانچ چھ سال کی عمر میں ایسی باتیں یاد کسے رہتی ہیں۔ میری عمر اتنی ہی تھی۔ ہلکا سا نقشہ میرے ذہن میں محفوظ ہے۔ وہ ایک لمبے تڑنگے آدمی تھے اور ان کی مونچھیں بھی تھیں۔ شاید وہی میرے والد ہوں گے۔”
“پھر وہ کہاں گئے۔۔۔؟” جان نے جلدی سے پوچھا۔
“پتہ نہیں کہاں گئے، میں کہہ نہیں سکتا۔”
“تو تم دلی کے ہوٹل میں کس طرح ملازم ہوئے؟”
“مجھے اتنا یاد ہے کہ اس بوڑھی عورت نے مجھے ایک گھر میں بھیج دیا تھا۔ جہاں بچے ہی بچے تھے۔ ان بچوں کے ماں باپ بھی نہیں تھے۔ اس وقت تو مجھے معلوم نہ تھا کہ اس گھر کو کیا کہتے تھے، ہاں مگر اب میں جانتا ہوں کہ وہ یتیم خانہ تھا اور اسی یتیم خانے سے بعد میں مجھے دلی کے اس ہوٹل میں بیرا بنا کر بھیج دیا گیا۔ بس یہی میری کہانی ہے۔”
اتنا کہہ کر میں افسردہ ہو گیا۔ دل میں عجیب عبجیب خیالات آنے لگے۔ ماں اور باپ جنہیں میں نے بہت ہی کم دیکھا تھا مجھے یاد آ گئے۔ دل سے ایک ہوک سی اٹھی اور آپ ہی آپ میری آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں۔ میں پھر اتنا بے تاب ہوا کہ مونہہ چھپا کر بری طرح رونے لگا۔ یہ دیکھ کر جان نے جلدی سے اٹھ کر مجھے اپنے سینے سے لگا لیا۔ میرے آنسو پونچھے اور کہنے لگا۔
“گھبراؤ مت فیروز! میرے بیٹے، میں کل بمبئی کے سب یتیم خانوں میں جاؤں گا۔ اور خدا نے چاہا تو تمہارے والد کے بارے میں بہت کچھ پوچھ کر آؤں گا۔ تم اپنا دل چھوٹا مت کرو اور آرام کرو۔”
آرام تو اب مجھے کرنا ہی تھا۔ کیوں کہ اب میں اتنا دولت مند تھا کہ میری پوری زندگی عیش و آرام میں گزر سکتی تھی۔ مگر جسے سکون کہتے ہیں، وہ مجھے میسر نہیں تھا۔ لوگوں کے کہنے سے بار بار یہ بات دل میں کھٹکتی تھی کہ آخر میں کون ہوں؟
میرے ماں باپ کون تھے؟
میرے والد زندہ ہیں یا مر گئے؟
ہر وقت بس میں یہی بیٹھا ہوا سوچتا رہتا۔ بہت سے لوگ مجھ سے ملنے آئے، مگر میں نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا۔ مجھے یقین تھا کہ ان میں سے بیشتر میرے چچا، ماموں، بھائی یا دور کے رشتے کے عزیز ہوں گے۔ کچھ چندہ مانگنے آئے ہوں گے اور کچھ مجھے اپنے کلب کا ممبر بنانے۔ زندگی اسی طرح گزر رہی تھی کہ ایک دن جان ایک بوڑھی عورت کو اپنے ساتھ لئے ہوئے میرے کمرے میں آیا۔ عورت لاٹھی ٹیک کر چل رہی تھی۔ اس کی کمر جھکی ہوئی تھی اور وہ بہت زیادہ عمر رسیدہ تھی۔
“فیروز! یتیم خانوں میں پوچھ گچھ کے بعد میں نے تہماری آیا کو ڈھونڈ نکالا ہے۔ دیکھو یہی تمہاری وہ آیا ہیں جو تمہیں بچپن میں بہت پیار کرتی تھیں؟ آؤ ان سے ملو۔”
“فیروز بیٹا! تو کہاں ہے۔ میرے پاس آ، مجھے بہت کم دکھائی دیتا ہے میرے لال۔” عورت نے لرزتی آواز میں کہا۔
لفظ تو سن کر ہی میں سمجھ گیا کہ درحقیقت وہ میری آیا ہے۔ خوشی کے مارے کپکپاتا ہوا میں اس کے پاس پہنچا۔ میری شکل خوب غور سے دیکھنے کے بعد اس نے مجھے اپنے سینے سے لگا لیا اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔
“میرے چاند! میں نے تجھ پر کتنے ظلم ڈھائے ہیں۔ ہائے، میں بھی کتنی کمبخت ہوں کہ تجھے پال نہ سکی۔ مجھ نصیبوں جلی نے تجھے یتیم خانے میں داخل کرا دیا۔ مگر بیٹے اللہ گواہ ہے کہ میرے پاس کھانے کے لئے ایک دانہ بھی نہ تھا۔ تو میرے پاس رہتا تو فاقوں سے مر جاتا میرے بچے۔۔۔!”
اتنا کہہ کر وہ پھر رونے لگی۔ میں خود بھی اس سے لپٹ کر رو رہا تھا۔ جب ہم دونوں کے دلوں کا بوجھ ہلکا ہوا تو جان نے عورت سے کہا۔
“اماں۔۔۔ اب تو تم نے پہچان لیا کہ یہ فیروز ہے۔ تم راستے میں کہتی تھیں کہ اس کے سینے پر ایک کالا داغ ہے، میں دیکھ چکا ہوں کہ وہ داغ واقعی اس کے سینے پر ہے۔ فیروز تم انہیں وہ داغ بھی دکھا دو۔”
میں نے سینہ کھول کر آیا کو وہ داغ دکھایا تو وہ پھر مجھ سے لپٹ کر رونے لگی۔ جان کے بار بار یہ کہنے پر کہ وہ میرے والد کے بارے میں بتائے، بڑھیا نے کہنا شروع کیا:
“فیروز کسی معمولی خاندان سے نہیں ہے صاحب، بلکہ اس کی رگوں میں نوابی خون دوڑ رہا ہے۔ اس کے دادا نواب تھے اور کلکتہ میں ان کی بہت بڑی جائداد تھی۔ اس کے والد بہت پڑھے لکھے آدمی تھے انہوں نے امریکہ میں ڈاکٹری کی تعلیم پائی تھی اور بڑے عرصے کے بعد بمبئی لوٹے تھے۔ بمبئی ہی میں ان کی شادی ایک بوہرے سیٹھ کی لڑکی سے ہوئی۔ شادی کے بعد ہی جنگ شروع ہو گئی۔ اس کے والد بہت بڑے سرجن تھے اس لئے انہیں بھی لڑائی پر جانا پڑا۔ تب ہی فیروز پیدا ہوا۔ اس کی پیدائش کے دو مہینے کے بعد اس کی ماں ایک بیماری میں مر گئی۔ اور ننھے فیروز کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے گئی۔ تب میں نے اسے پالا پوسا اس کے والد صرف دو بار اسے دیکھنے آئے تھے، اور پھر ان کا پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں گئے۔ میں سمجھتی ہوں کہ وہ جنگ میں کام آ گئے ہوں گے۔”
یہ خبر سن کے میرے دل کو ایک دھچکا لگا۔ مگر یہ انکشاف میرے لئے خوشی کا باعث تھا کہ میں ایک اعلی خاندان سے تعلق رکھتا ہوں۔ بڑھیا نے سانس لے کر پھر کہنا شروع کیا۔
“میں اتنی بے وقوف تھی کہ میں نے قانون کی مدد لئے بغیر فیروز کو گھبرا کر یتیم خانے میں داخل کرا دیا۔ میں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ وہ ایک بہت بڑی جائداد کا مالک ہے اور اسے یتیم خانے میں داخل ہونے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، میں تو بس اپنی غریبی سے عاجز تھی۔ پریشان تھی اسی لئے یہ عجیب کام کر بیٹھی۔”
“مگر اماں، فیروز کے والد کا نام کیا تھا۔ یہ تم نے نہیں بتایا؟”
“کرنل پرویز تھا ان کا نام۔ وہ بہت خوب صورت اور بہادر ۔۔۔”
“کرنل پرویز۔۔۔!” جان نے چونک کر کہا:
“اور تم نے کہا ہے کہ انہوں نے امریکہ میں تعلیم حاصل کی تھی؟”
“جی ہاں۔ میں کیا بتاؤں کتنے اچھے آدمی تھے وہ۔”
“فیروز۔۔۔۔!” جان نے اپنے دونوں ہاتھ میری طرف پھیلاتے ہوئے کہا :
“فیروز میرے بچے، تمہارے نقلی چچا تو تمہیں بہت سے ملے مگر اب اپنے اصلی چچا سے بھی مل لو۔”
“کیا مطلب یہ۔۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟” میں نے تعجب سے کہا۔
“کاش مجھے پہلے سے معلوم ہوتا! مگر خدا کی مرضی بھی یہی تھی۔ میرے بیٹے، تمہارے والد کو میں نے اچھی طرح دیکھا ہے۔ کیوں کہ وہ میرے ساتھ ہی کالج میں پڑھتے رہے ہیں۔ آؤ میرے سینے سے لگ جاؤ۔”
میں حیرت سے ایک ایک کو دیکھ رہا تھا۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ کیا قصہ ہے۔ جان نے مجھے گلے لگانے کے بعد سب باتیں تفصیل سے بتائیں۔۔۔
والد صاحب کے بارے میں ہر چھوٹی سے چھوٹی بات تک مجھے بتائی۔ اس نے بتایا کہ والد کافی عرصے تک واشنگٹن کے ایک کالج میں اس کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے رہے تھے اور دونوں بہت ہی اچھے دوست تھے۔ جان نے مجھ سے وعدہ کیا کہ اس کے پاس والد کی جو تصویریں ہیں ان میں سے بہت سی وہ مجھے بھیج دے گا۔ آخر میں اس نے کہا:
“مجھے فخر ہے فیروز کہ تم ایک بہت اچھے خاندان سے ہو۔ پہلے تمہاری باتیں سن سن کر میں حیرت کیا کرتا تھا کہ ایک معمولی سا لڑکا آخر کس طرح ایسی عقل مندی کی باتیں کر سکتا ہے! مگر مجھے اب کوئی حیرت نہیں ہے۔ تم اس باپ کے بیٹے ہو جو کالج میں ہمیشہ اول آیا کرتا تھا، جو بے حد بہادر اور ذہین تھا اور اس کی یہ ذہانت اور بہادری ہی تمہارے اندر پائی جاتی ہے۔”
یہ ہے وہ عجیب و غریب داستان جسے پڑھتے ہوئے کئی بار آپ نے اپنے دل میں کہا ہوگا کہ یہ نا ممکن ہے۔۔۔!
مگر یہ حقیقت ہے اور مجھ پر بیتی ہے۔ ان واقعات کو بیتے ہوئے اب عرصہ ہو گیا ہے۔ اس وقت میں اپنے عالیشان کمرے میں بیٹھا ہوا یہ کہانی لکھ رہا ہوں۔ میری بیوی دوسرے کمرے میں بیٹھی ہوئی میری ننھی سی بچی کے لئے اونی سوئٹر بن رہی ہے۔۔۔ میرے دادا اور میرے والد کی جتنی بھی جائداد تھی اس کا اب میں تنہا مالک ہوں۔ اس کے ساتھ ہی میری اپنی ایک جہاز کمپنی بھی ہے، میرے جہاز دور دراز کے ملکوں میں آتے جاتے ہیں۔ یہی اب میرا کاروبار ہے اور خدا کا شکر ہے کہ میری ایمان داری کی بدولت یہ کام خوب چل رہا ہے، جہاں تک میں سمجھتا ہوں مجھے یہ عزت صرف اس وجہ سے ملی ہے کہ میں ہمیشہ دوسروں کا وفادار رہا۔ میں نے کبھی لالچ اور بے ایمانی نہیں کی۔
جان کے بارے میں مجھے اتنا اور بتانا ہے کہ مکھی کی آنکھیں حفاظت سے بند کر کے وہ انہیں اپنے ساتھ امریکہ لے گیا۔ رہے جیک اور ملاح، تو جیک تو جان کے ساتھ ہی امریکہ چلا گیا تھا۔ ملاح جس کا نام کرشنا سوامی ہے، اب میرے ساتھ ہی ہے اور میرے کام کو چلاتا ہے، ایک طرح سے وہ میرے کام میں میرا سب سے بڑا مددگار بنا ہوا ہے۔
جان آج کل واشنگٹن میں اندھے بچوں اور بیواؤں کا ایک اسکول چلا رہا ہے۔ اس خوف ناک مکھی کی آنکھوں کی مدد سے اس نے بہتیرے بچوں کی آنکھوں کو روشنی عطا کی ہے، اور ہزاروں بیواؤں کی مالی امداد بھی کی ہے۔ اب بھی اس کے خط میرے پاس آتے رہتے ہیں اور ان خطوں کو پڑھ کر ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دنیا میں صرف مجھ سے، میری بیوی زرینہ اور بچی نجمہ سے محبت کرتا ہے۔ کئی بار وہ بذریعہ ہوائی جہاز امریکہ سے بمبئی آیا اور مجھ سے مل کر گیا۔ اس سے بچھڑتے وقت مجھے ہمیشہ ایسا محسوس ہوا جیسے میں اپنے حقیقی باپ سے جدا ہو رہا ہوں!
ایک خوش خبری اور سنئے۔ چند دن پہلے ہی مجھے جان کا خط ملا ہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ اس نے اپنی تمام دولت میری ننھی نجمہ کے نام لکھ دی ہے۔ میرے نام اس لئے نہیں لکھی کہ اب اسے مجھ سے زیادہ میری بچی نجمہ پیاری ہے۔
مجھے اب دنیا میں کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ میری محنت، ہمت اور وفاداری نے مجھے وہ کچھ دے دیا جو شاید کسی شہنشاہ کو بھی نہ ملا ہوگا۔ دولت، عزت، شہرت اور دنیا بھر کے عیش و آرام۔۔۔ مجھ سے زیادہ خوش نصیب شاید ہی اس دنیا میں کوئی ہو!
میرے حیرت انگیز، خوفناک اور طویل سفر نے مجھے یہی سبق دیا ہے کہ اگر ہم مصیبتوں سے نہ گبھرائیں، ہر حال میں خدا سے لو لگائے رکھیں، ڈر اور خوف کو دل کے قریب بھی نہ آنے دیں۔ ہمت، ایمان داری اور محنت سے ہر کام کریں تو خدا ہماری مدد ضرور کرے گا اور ہم ایک ایسے درجے پر پہنچ جائیں گے کہ دنیا رشک کرے گی۔ میری مثال آپ کے سامنے موجود ہے۔
اچھا اب اجازت چاہوں گا۔ دوسرے کمرے سے زرینہ مجھے سوئٹر کا نمونہ پسند کرنے کے لئے بلا رہی ہے اور میں دو گھنٹے سے یہی کہہ رہا ہوں کہ بس ایک منٹ میں آیا۔
اب چلتا ہوں، خدا حافظ
by Abdul Muneeb | Apr 18, 2024 | ڈراؤنی کہانیاں, ناولز
قسط:23
سراج انور
پچھلی قسط کا خلاصہ :
جیک اور اس کی ٹیم نے دیوزاد خوفناک مکھی کی پناہ گاہ ڈھونڈ لی تھی اور اب وہ لوگ اس مکھی کو ختم کرنے کا منصوبہ بنانے لگے۔ منصوبے کے ایک حصے کے طور پر جیک کی ہدایت پر ان لوگوں نے کاہی کے علاقے میں جگہ جگہ آگ لگا دی جس سے شام کے وقت کاہی کھانے والے پرندے آگ کے سبب ان چٹانوں پر اتر نہ سکے اور کاہی کھائے بغیر وہ تمام چیختے چلاتے لوٹ گئے۔چونکہ خوفناک مکھی انہی کاہی کھا کر مدہوش ہوئے پرندوں کا شکار کرنے رات کے وقت اپنے ٹھکانے سے باہر نکلتی تھی ، اور اس بار جب وہ باہر نکلی تو اسے ایک بھی پرندہ نظر نہ آیا ۔۔۔
۔۔۔ اب آپ آگے پڑھئے ۔۔۔
روشنی اتنی تیز تھی کہ ہم ایک ایک چیز صاف طور پر دیکھ سکتے تھے۔ پیروں کے بعد ایک لمبی سی سونڈ دکھائی دی، اسی سونڈ میں سے وہ تیز شعلہ بار بار نکل رہا تھا۔ شعلہ اندازً اس کی ناک سے پندرہ گز دور تک پہنچتا تھا اس خطرناک مکھی کے پیر آگے جا کر ایک پنجہ سا بن جاتے تھے۔۔۔ بالکل کبوتر کے پیروں کی طرح اور اپنے اسی پنجے کو دلدلی زمین میں گاڑتی ہوئی وہ آہستہ آہستہ اوپر آ رہی تھی۔ جلد ہی ہمیں اس کا سر بھی نظر آ گیا، کیا بتاؤں کہ یہ سر کتنا بڑا تھا! دہلی کی جامع مسجد کے پہلو والے گنبد سے بس ذرا سا ہی چھوٹا ہو گا۔ اس سر میں اس کی دو لمبوتری آنکھیں خون کی طرح سرخ نظر آتی تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے آنکھوں کی جگہ دو بڑے انگارے جڑے ہوئے ہوں۔ ہم لوگ چٹان کی اوٹ میں دبکے ہوئے خاموشی سے اسے دیکھ رہے تھے اور اب وہ پوری طرح غار سے باہر آ چکی تھی!
اس کا جسم بہت لمبا تھا۔ خیال تو یہ تھا کہ ہاتھی سے بڑی ہو گی، مگر اب جب آنکھوں سے دیکھا تو حقیقت کھلی وہ دراصل وھیل مچھلی سے بھی لمبی تھی۔ اس کے جسم میں آگ دہک رہی تھی، کیوں کہ جسم بالکل سرخ تھا۔ خدا کی قدرت کی کیا تعریف کی جائے! کیسے کیسے جانور اس نے دنیا میں پیدا کر دیئے ہیں! غار سے باہر آنے کے بعد مکھی نے وہی تیز سیٹی جیسی آواز نکالنی شروع کر دی اور کچھ دیر کے لئے آرام کرنے لگی۔ آپ نے ہوائی اڈے پر کسی ہوائی جہاز کو اڑنے سے پہلے ضرور دیکھا ہو گا۔ وہ پہلے ایک جگہ کھڑا رہ کر سیٹی کی سی آواز نکالتا ہے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد اڑتا ہے۔ یہی حال اس مکھی کا تھا مگر ہمیں ابھی معلوم نہ ہو سکا تھا کہ وہ اڑتی بھی ہے یا نہیں۔ اس کے دو بہت بڑے پر نظر تو آ رہے تھے۔ مگر ابھی تک ہم نے اسے ان پروں سے کام لیتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ اچانک کچھ دیر بعد اس میں حرکت ہوئی۔ سیٹی کی آواز اور تیز ہو گئی اور پھر اس کے دونوں بڑے پر تیزی سے ہلنے لگے۔ پروں کے ہلنے کے ساتھ ہی آس پاس کے درخت بری طرح لرزنے لگے، مٹی اڑنے لگی، ایسا لگتا تھا جیسے طوفان آ گیا ہو۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے وہ ہوا میں بلند ہو کر اڑنے لگی۔ مگر وہ زیادہ اونچی نہیں اڑ رہی تھی۔ مشکل سے زمین سے کوئی پانچ گز اونچی ہو گی اور بس۔!
یہ دیکھ کر ہم نے خدا کا شکر ادا کیا کہ ہم جس پہاڑ پر کھڑے ہوئے تھے وہ کافی اونچا تھا۔ اگر نیچا ہوتا تو ہم مکھی کی تیز نظروں سے ہر گز نہ بچ سکتے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ وہ اڑتی ہوئی ان دو پہاڑوں ہی کی طرف آ رہی تھی۔ جلدی سے ہم پہاڑ کی چوٹی پر ٹکی ہوئی چٹان کے نیچے دبک گئے اور اور مکھی دو پہاڑوں کے درمیان سے گرزتی ہوئی اس طرف جانے لگی جہاں ہم نے آگ لگائی تھی مکھی کے اس طرف جاتے ہی جان نے گھبرا کر کہا۔
“بس اب عمل کا وقت آ گیا ہے۔ وہ دوڑ کا مقابلہ میں نے اسی وقت کے لئے کرایا تھا۔ بد قسمتی سے فیروز اس مقابلے میں اول آیا تھا۔ مگر فیروز کو موت کے مونہہ میں جھونکنا مجھے پسند نہیں۔ وہ بچہ ہے، اسے زندگی گزارنی ہے۔ مگر میں نے اپنی زندگی کے دن پورے کر لئے ہیں، اس لئے میں ہی اب پہاڑ سے نیچے جاتا ہوں۔”
“کیا کہہ رہے ہیں آپ۔ یعنی اس کا مطلب کیا ہے۔۔۔؟” میں نے تعجب سے پوچھا۔
“مطلب۔۔۔ ہاں مطلب بھی مجھے ضرور بتانا چاہئے۔” جان نے کہنا شروع کیا۔ “دیکھو فیروز میں نے دراصل یہ سوچا ہے کہ مکھی جہاں اس وقت گئی ہے وہاں اسے کوئی پرندہ نظر نہ آئے گا۔ وہ بھوکی ہو گی اس لئے سب جگہ کی خاک چھاننے کے بعد مجبورًا وہ واپس اپنے غار میں چلی جائے گی۔ اس مکھی کی خاصیت ہے کہ وہ زیادہ دیر تک سمندر سے اوپر نہیں رہ سکتی۔۔۔ میں نے یہ سوچا ہے کہ میں پہلے پہاڑ کے نیچے اتر کر کھڑا ہو جاتا ہوں۔ ان دونوں پہاڑوں سے کم از کم چالیس گز دور کھڑے ہونے سے یہ فائدہ ہو گا کہ مکھی کے غار سے بھی قریب رہوں گا اور سمندر سے بھی۔ پہاڑ سے نیچے اس کے سامنے کھڑے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے مکھی پہاڑوں کے درمیان سے نہ گزرے تو مجھے دیکھ کر لازمی طور سے وہ پہاڑوں کے بیچ میں سے گزرے گی۔ اب غور سے سنو کہ کرنا کیا ہے۔ مکھی جب اپنے غار یا گھر کی طرف واپس آ رہی ہو گی تو لازمی تھکی ہوئی ہو گی۔ اس لئے ہو سکتا ہے کہ وہ یا تو زمین پر گھسٹتی ہوئی چلے یا زمین سے بہت ہی تھوڑے فاصلے پر اڑے۔ تم لوگوں کا کام یہ ہو گا کہ پہاڑ کی ٹکی ہوئی اس بڑی چٹان کو زور سے ہلانا شروع کر دو۔ اور کوشش یہ کرو کہ جیسے ہی وہ مکھی مجھے دیکھ پہاڑوں کے درمیان آ جائے یہ چٹان اس کے جسم پر جا کر گرے۔ میرے خیال میں یہی طریقہ اسے ختم کرنے کا ہو سکتا ہے۔
یہ سنتے ہی میرے پیروں تلے کی زمین نکل گئی۔ کیوں کہ اس میں تو خطرہ ہی خطرہ تھا!
لیکن اگر ہمارا نشانہ خطا ہو گیا تو؟” جیک نے جلدی سے کہا “مطلب یہ کہ چٹان مکھی پر نہ گری تو۔؟
“تو یہ کہ میں تیز دوڑتا ہوا سمندر میں جا کر گھس جاؤں گا اور تیرتا ہوا اس طرف نکل آؤں گا جہاں ہم نے آگ لگائی ہے۔ جان نے جواب دیا۔
مگر آپ تیز کس طرح دوڑیں گے؟ آپ تو مقابلہ میں پہلے ہی دم توڑ چکے تھے!” جیک نے کہا۔ “نہیں مسٹر جان یہ کام میں کروں گا، میں نیچے جاتا ہوں۔”
“نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔” میں نے چلا کر کہا “انصاف سے کام لیجئے۔ دوڑ میں اول میں آیا تھا، اس لئے یہ معرکہ بھی مجھے ہی سر کرنا ضروری ہے، پھر دوسری بات یہ کہ چٹان آپ تینوں مل کر جلدی ہلا سکیں گے۔ میں ہوں گا تو اس میں وقت لگے کا کیونکہ میں عمر میں کم ہوں اور کم طاقت ور ہوں اس لئے اب میں نیچے جاتا ہوں۔”
اس سے پہلے کہ جان اور جیک مجھے روکتے، میں تیزی سے پہاڑ کی ڈھلان کی طرف بھاگا۔ انہوں نے مجھے بہتیری آوازیں دیں۔ مگر میں نے کسی کی ایک نہ سنی اور نیچے اترتے اترتے پکار کر کہا۔
“مجھے مت روکئے سر۔ بحث میں وقت صرف ہو گا، ایسا نہ ہو کہ وہ مکھی واپس آ جائے۔”
یہ کہہ کر میں جلدی جلدی پہاڑ سے نیچے اترنے لگا اور پھر کچھ ہی دیر بعد میں ان دونوں پہاڑوں سے چالیس گز کی دوری پر کھڑا تھا مجھے وہاں دیکھ کر مجبوراً جان، جیک اور ملاح اس ہلتی ہوئی چٹان پر دونوں ہاتھ رکھ کر کھڑے ہو گئے۔ طوفان بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ سیٹی تیز سے تیز ہوتی جا رہی تھی۔ بڑی ہیبت ناک آوازیں آ رہی تھیں خوف کے مارے میرا رؤاں رؤاں لرز رہا تھا۔ میں کہہ نہیں سکتا کہ میری کیا حالت تھی، پسینے چھوٹے ہوئے تھے اور جسم کپکپا رہا تھا۔ میں نے یہ سوچ لیا تھا کہ اگر عین وقت پر چٹان مکھی کے جسم پر نہ گری تو میرا خاتمہ یقینی ہے۔ مکھی پندرہ گز دور ہی سے مجھے جلا کر خاک کر ڈالے گی۔ یہ سوچتے ہی میں نے ڈبڈبائی آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھا۔ آسمان کی طرف نظر کرتے ہی میرے آنسو بہنے لگے اور میں بے اختیار سجدے میں گر گیا۔ میرا دل خدا تعالی سے خاموش دعا مانگ رہا تھا۔ میں نے ایک لفظ مونہہ سے نہ نکالا، مگر دل دعا مانگتا رہا آنسو بہتے رہے اور پھر اچانک یوں لگا کہ میرا جسم کپکپانا بند ہو گیا ہے۔ دل میں نہ جانے کہاں سے طاقت آ گئی۔ ایسا معلوم ہوا کہ اس وقت اگر سامنے سے ہاتھی بھی آ جائے تو اسے چٹکی سے مسل کر رکھ دوں گا۔! اچانک دھب دھب کی تیز آواز مجھے سنائی دی۔ ساتھ ہی ایسا دھماکا بھی سنائی دیا جس کی وجہ سے زمین لرزنے لگی۔۔۔ میں جلدی سے کھڑا ہو گیا، کیونکہ سامنے دو پہاڑوں کے بیچ میں سے مجھے وہ خوف ناک مکھی زمین پر چلتی ہوئی اپنی طرف آتی دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے پہاڑ کی چوٹی پر نظر اٹھا کر دیکھا تو جان نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ ہوشیار! اور پھر وہ تینوں مل کر چٹان کو ہلانے لگے۔ مکھی ویسے تو آہستہ چل رہی تھی، لیکن کبھی کبھی چلتے چلتے پھدک کر آگے بڑھ آتی تھی۔ چٹان برابر تیزی سے ہل رہی تھی۔۔۔ مکھی قریب آتی جا رہی تھی اور میں نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے، چپ چاپ کھڑا اسے دیکھ رہا تھا اور پھر وہی ہوا جو جان نے کہا تھا۔ مکھی نے مجھے دیکھ کر زور کی پھنکار ماری اور میری طرف تیزی سے بڑھنے لگی۔ میں سینہ تانے اسے گھور رہا تھا۔ چٹان اور زور زور سے ہل رہی تھی۔ میں نے صرف اتنا دیکھا کہ مکھی جیسے ہی پہاڑوں کے بیچ میں پہنچی، اوپر سے چٹان لڑھک کر اس کی طرف گرنے لگی اور مکھی زور سے پھدک کر میری طرف آئی اور پھر۔۔۔۔ پھر مجھے معلوم نہیں کہ کیا ہوا؟ دہشت کی وجہ سے میں بے ہوش ہو کر زمین پر گر گیا۔۔۔!
جب مجھے ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ میں اپنے بادبانی جہاز کے ڈیک پر چت لیٹا ہوا ہوں۔ چمکیلی دھوپ نکل رہی ہے۔ ہر طرف سکون سا ہے اور جان مجھ پر جھکا ہوا غور سے مجھے دیکھ رہا ہے، مجھے ہوش میں آتے دیکھ کر اس نے خدا کا شکر ادا کیا اور پھر جیک کو آواز دی۔ جیک اندر کیبن میں سے دوڑتا ہوا آیا اور میرے قریب بیٹھ کر میرے سر کو سہلانے لگا اس کی آنکھوں میں خوشی کی چمک تھی۔ جب اس نے میرے سر کو سہلایا تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے سر میں پٹی بندھی ہوئی ہے اور سر میں ہلکی سی تکلیف بھی محسوس ہو رہی ہے۔ یہ اندازہ لگا کر میں نے بڑی کمزور آواز میں پوچھا۔
“میرے سر پر پٹی کیوں بندھی ہوئی ہے۔۔۔ مجھے کیا ہوا؟”
“گھبراؤ مت فیروز۔” جان نے میرا سر تھپتھپا کر جواب دیا۔ “اب تم بالکل ٹھیک ہو۔ بات یہ ہے کہ تم گر گئے تھے اور تمہارا سر ایک پتھر سے ٹکرایا تھا۔ گرتے ہی تم بے ہوش بھی ہو گئے تھے اور پورے تیس گھنٹے تک بے ہوش رہے۔ آج تم ہوش میں آئے ہو، خدا کا شکر ہے کہ اب تم بالکل ٹھیک ہو جاؤ گے۔ تمہارے دماغ کو گرمی پہنچانے کی ضرورت تھی اس لئے ہم نے تمہیں دھوپ میں لٹا رکھا ہے۔”
“اوہ! یہ بات ہے۔” میں نے کمزور آواز میں کہا۔ اچانک مجھے وہ دیوزاد مکھی یاد آ گئی۔ خوف کے باعث میرا جسم لرزنے لگا اور میں خوف زدہ آواز میں چلایا “مکھی۔ وہ مکھی کہاں ہے۔؟”
جیک نے جان کو معنی خیز نظروں سے دیکھنے کے بعد کہا “فیروز اپنے دماغ پر زور مت ڈالو۔ فی الحال اتنا سمجھ لو کہ تم مکھی کے حملے سے بچ گئے ہو۔ جب تم بالکل تندرست ہو جاؤ گے تو ہم تمہیں ایک ایک بات بتا دیں گے۔”
میں چوں کہ سب حال جاننے کے لئے بہت بےتاب تھا اس لئے میں نے جلدی سے کہا “نہیں نہیں اب میں بالکل ٹھیک ہوں۔ خدا کے لئے مجھے سب کچھ بتائیے آخر یہ ماجرہ کیا ہے؟ وہ جزیرہ کہاں گیا۔ وہ مکھی کیا ہوئی اور اب ہم کہاں جا رہے ہیں؟”
جان نے جواب دیا “اچھا تو پھر تم اندر چل کر لیٹ جاؤ۔ ہلو جلو مت اور بولو بھی کم۔ تب میں تمہیں پوری باتیں سناؤں گا۔”
میں نے اس کی بات مانتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کی۔ ان دونوں نے مجھے سہارا دیا اور پھر اندر کیبن میں لے جا کر میرے بستر پر لٹا دیا۔ اس کے بعد جان نے اپنا پائپ سلگایا اور دھواں چھت کی طرف چھوڑتے ہوئے کہنے لگا۔
“باتیں بڑی عجیب ہیں فیروز! مختصراً تمہیں بتاتا ہوں۔ جب تم ہمارا کہنا نہ مانتے ہوئے پہاڑ سے نیچے اترنے لگے تو مجھے بڑی گھبراہٹ ہوئی۔ پہاڑ پر کاہی جمی ہوئی تھی اور ہر لمحہ تہمارے نیچے پھسل جانے کا خطرہ تھا، مگر اس سے بھی بڑا خطرہ وہ تھا جس سے مقابلہ کرنے کے لئے تم نیچے جا رہے تھے۔ ہمارے دلوں کی عجیب حالت تھی۔ ہمارے سامنے تم موت کے مونہہ میں جا رہے تھے اور ہم کچھ نہ کر سکتے تھے، اتنا وقت ہی نہیں تھا کہ ہم تمہیں زبردستی اوپر کھینچ کر لاتے۔ مکھی آہستہ آہستہ پہاڑ کی طرف بڑھتی آ رہی تھی۔ میں دل ہی دل میں خود کو ملامت کر رہا تھا کہ بڑا بہادر ہوں! خود تو جان بچا کر پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا ہوں اور ایک چھوٹا سا لڑکا موت سے ٹکر لینے نیچے جا رہا ہے۔ مگر وقت اتنا نازک تھا کہ سوچنے سمجھنے کی نہیں بلکہ عمل کی ضرورت تھی۔ آخر مجبور ہو کر ہم عمل کے لئے تیار ہو گئے۔ جب ہم نے دیکھا کہ تم پہاڑوں سے کافی دور جا کر مکھی کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو گئے ہو، تو ہم تینوں نے اس چٹان کو ہلانا شروع کر دیا۔۔۔ جو چٹان انگلی لگانے سے ہلنے لگی تھی وہ اب ہم تینوں کے زور لگانے سے بری طرح ہلنے لگی۔ مکھی پھنکاریں مارتی ہوئی تہماری طرف بڑھتی چلی آ رہی تھی۔ چوں کہ وہ بہت زیادہ تھکی ہوئی اور شاید بھوکی بھی تھی۔ اس لئے ہوا میں اڑ نہیں سکتی تھی۔ اگر خدانخواستہ اڑنے لگتی تو پھر ہمارا خدا ہی حافظ تھا۔ اس نے صرف تمہیں ہی دیکھا تھا اس لئے تمہاری ہی طرف بڑھنے لگی۔ ہم لوگوں کے ہاتھ پاؤں کا دم سا نکل رہا تھا۔۔۔ سوچ رہے تھے کہ اگر چٹان بر وقت اس پر جا کر نہ گری تو ہم تم سے ہاتھ دھو لیں گے۔ کیوں کہ مکھی کے قریب آ جانے کے بعد تم تیزی سے سمندر کی طرف نہیں بھاگ سکتے تھے لہذا مکھی اپنے شکار کو بھاگتے دیکھ کر ایک زوردار حملہ ضرور کرتی۔ خیر ہم چٹان کو ہلاتے رہے اور جب وہ دیوزاد مکھی دونوں پہاڑوں کے درمیان میں پہنچ گئی۔ تو ہم نے چٹان زور لگا کر گرا دی۔ ہماری خوش قسمتی تھی اور خدا کا کرم کہ چٹان بالکل اس کے پیٹ پر جا کر گری۔ بڑے زور کے چھپاکے اڑے۔ اور اس کے پیٹ میں سے گرم گرم لاوا نکل کر ہر طرف بہنے لگا جس طرف بھی لاوا گیا، اس نے ہر چیز کو جلا کر خاک کر دیا۔ چھوٹی چھوٹی چٹانیں تو اس لاوے میں اس طرح پگھل گئیں، جیسے چینی پانی میں گھل جاتی ہے۔ مکھی مر رہی تھی اور وہ اپنی دم زور زور سے زمین پر پٹخ رہی تھی۔ اس کی ناک سے نکلنے والے شعلے اب مدہم ہوتے جا رہے تھے اور لاوا بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ ہم نے تمہیں بے ہوش ہو کر زمین پر گرتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ اور اب ہمیں یہ خدشہ ہونے لگا تھا کہ لاوا کہیں بڑھتے بڑھتے تم تک نہ پہنچ جائے! سچ بات تو یہ ہے کہ اس موقع پر میں ملاح کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہ ایک لفظ کہے بغیر تیزی سے پہاڑ کے نیچے اترنے لگا۔ جب وہ پہاڑ کے نیچے پہنچ گیا تو ہم نے دیکھا کہ لاوا آہستہ آہستہ پہاڑ کو چاروں طرف سے گھیر رہا ہے۔ مگر اس سے پہلے کہ لاوا پہاڑ کو گھیرتا ملاح ایک چھلانگ لگا کر لاوے کے اوپر سے گزر گیا اور پھر چٹانوں کی آڑ لیتا ہوا دوڑ کر تم تک پہنچ گیا۔ لاوا آہستہ آہستہ تمہاری طرف بڑھ رہا تھا۔ اس نے جلدی سے تمہیں اٹھا کر اپنے کاندھے پر ڈالا اور دوڑتا ہوا اس طرف پہنچنے کی کوشش کرنے لگا جہاں لاوا ابھی تک نہیں آیا تھا۔ تمہیں لاوے سے بچاتا ہوا آخرکار وہ وہاں پہنچ گیا جہاں ہم نے پہلے پہل ایک غار میں رات گزاری تھی۔ لاوا اس مقام تک کسی صورت سے بھی نہیں پہنچ سکتا تھا۔”
“اور آپ پہاڑ سے کس طرح نیچے اترے؟” میں نے ایک ٹھنڈا سانس لینے کے بعد پوچھا۔
“ہم دونوں پہاڑ پر کھڑے مکھی کو اپنا سر زمین پر پٹختے دیکھتے رہے۔ سورج پوری طرح آسمان پر نکل کر چمک رہا تھا اور ہم کھڑے سوچ رہے تھے کہ اب کیا کریں؟ کوئی چھ گھنٹے اسی طرح کھڑے کھڑے گزر گئے۔ آخرکار کافی دیر کے بعد ہمیں ملاح کی شکل دکھائی دی۔ وہ اپنے ساتھ موٹے موٹے رسے لئے ہوئے آ رہا تھا۔ ہمیں یقین ہو گیا کہ ملاح لازمی طور پر اپنے جہاز میں پہنچا ہو گا اور وہیں سے یہ رسے نکال کر لایا ہو گا۔ اس نے ہمیں نیچے اترنے کا اشارہ کیا۔ جب ہم پہاڑ کے نیچے پہنچ گئے تو ہم نے دیکھا کہ کسی صورت سے بھی ہم زمین پر قدم نہیں رکھ سکتے تھے۔ لاوے نے پہاڑ کو ہر طرف سے گھیر رکھا تھا اور اس میں سے بلبلے اور بھاپ اٹھ رہی تھی! یہ دیکھ کر ملاح نے دور سے چلا کر کہا کہ وہ رسہ ہماری طرف پھینکتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ رسے کا ایک سرا پہاڑ پر اگے کسی درخت سے باندھ دیں۔ ہم نے ایسا ہی کیا اور ملاح نے بھی رسے کا دوسرا سرا پہاڑ سے کافی فاصلے پر اگے ہوئے ایک دوسرے درخت سے باندھ دیا۔ اس کے بعد اس نے ہم سے کہا کہ رسے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر لٹکتے ہوئے ہم آگ کا یہ دریا پار کریں۔
آخر ہمیں اس کا کہنا ماننا ہی پڑا کیوں کہ اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ بھی نہیں تھا۔ ہمارے نیچے گرم گرم لاوا ابل رہا تھا اور ہم اس کے اوپر رسے سے لٹکتے ہوئے گزر رہے تھے۔ مختصر یہ کہ ملاح کی عقل مندی سے ہم نے اس لاوے کے دریا سے نجات پائی۔ ملاح کے پاس پہنچے تو اس نے مجھ سے کہا کہ وہ تمہیں جہاز کے اندر کیبن میں چھوڑ آیا ہے۔ غار اسے محفوظ معلوم نہیں ہوا ساتھ ہی وہ مکھی کا سر کاٹنے کے لئے کلہاڑا بھی لیتا آیا ہے۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ مکھی کا گنبد نما سر کس طرح کٹے گا جب کہ لاوا اس کے چاروں طرف کھول رہا تھا؟ تو اس نے ایک بڑی اچھی ترکیب بتائی اس نے کہا کہ وہ دوسرے رسے کا ایک پھندا سا بنائے گا۔ پہلا رسہ تو دونوں درختوں سے بندھا ہوا تھا اور وہ کسی صورت سے نہیں کھل سکتا تھا۔ کیوں کہ اسے کھولنے کے لئے ہمیں پھر پہاڑ پر جانا پڑتا۔ اس لئے اس دوسرے رسے کا پھندا دور کھڑے کھڑے وہ مکھی کے سر کی طرف پھینکے گا پھندا اگر مکھی کے سر پر اٹھے ہوئے دو سینگوں میں جا کر پھنس گیا تو وہ ہم دونوں کی مدد سے زور لگا کر مکھی کو اپنی طرف کھینچ لے گا
جاری ہے….