خوفناک جزیرہ

خوفناک جزیرہ

– قسط:10

سراج انور

پچھلی قسط کا خلاصہ :

جیک کا ارادہ تھا کہ عبدل اور کبڑا چیتن کو ختم کر دیا جائے مگر فیروز کے مشورے پر جان نے دونوں کو معاف کر دیا اور متنبہ کیا کہ آئیندہ دغابازی کرنے سے باز رہیں۔ پھر وہ سب خزانے کی تلاش میں آگے بڑھے۔ عبدل نے جان کے اشارے پر ایک جگہ کو کھودنا جو شروع کیا تو وہاں ایک پوشیدہ زینہ ظاہر ہو گیا۔ وہ سب زینے سے اندر اترے تو ایک طویل سرنگ میں جا پہنچے۔ پھر سرنگ کے اندر ان کا کئی گھنٹے طویل سفر شروع ہوا۔

وہ لوگ بیزار ہو کر واپس لوٹنے ہی والے تھے کہ یکایک سرنگ میں انہیں ایک دروازہ نظر آیا۔ دروازے کے کواڑ شیشم کی لکڑی کے تھے، مگر اتنے مضبوط ہونے کے باوجود بھی جگہ جگہ سے کھوکھلے ہو گئے تھے، جان کے ہاتھ لگاتے ہی دروازہ کھل گیا۔

دروازہ کھلتے ہی ان سب کی آنکھیں چندھیا گئیں ، مشعلوں کی ہلکی سی روشنی ہیروں کے ایک عظیم الشان ڈھیر سے ٹکرا کے سورج کی روشنی کے برابر ہو گئی تھی۔ ہیروں سے نکلتی ہوئی کرنوں نے پورے کمرے کو بقعہ نور بنا دیا تھا۔ پھر جان نے کہا کہ وہ بعد میں آ کر خزانہ حاصل کریں گے، اب اس جزیرے کو تلاش کیا جائے جو ان کی اصل منزل مقصود ہے۔ مگر سرنگ سے واپسی کے سفر میں اچانک ٹارچ بجھا کر عبدل اندھا دھند بھاگ کھڑا ہوا۔

۔۔۔ اب آپ آگے پڑھئے ۔۔۔

” جی فرمائیے۔۔۔” میں نے جلدی سے جواب دیا: “میں آپ کے پیچھے ہوں۔ “

“خبردار، کبڑا جانے نہ پائے۔ “

“بے فکر رہئے، اس کی کمر سے میرے پستول کی نال لگی ہوئی ہے۔ “

“شاباش، مجھے تم سے یہی امید تھی۔ “

اتنا کہہ کر جیک نے بھی اندھیرے میں آگے بھاگنا شروع کر دیا، کیوں کہ جان کو ٹارچ ڈھوندنے اور اسے جلانے میں کافی دیر لگ گئی تھی، ٹارچ جلتے ہی جان نے بھی جیک کا تعاقب کیا، پستول کو کبڑے کی کمر سے لگا کر میں نے بھی اسے آگے بھاگنے پر مجبور دیا۔ اب حالت یہ تھی کہ ہم لگاتار آگے بھاگے جا رہے تھے ۔ مگر عبدل کا کہیں پتہ نہ تھا، ہم اسے نظروں سے اوجھل ہونے نہیں دینا چاہتے تھے ، کیوں کہ ایسے خطرناک دشمن کو آزاد کردینے سے ہماری مہم خطرے میں پڑ سکتی تھی ۔ بھاگتے بھاگتے ہمیں ایک گھنٹہ ہو گیا، مگر عبدل کا پتہ چلنا تھا نہ چلا، جو راستہ پہلے ہم نے آہستہ آہستہ تین گھنٹے میں طے کیا تھا وہی اب بھاگ کر صرف ایک گھنٹہ میں پورا کر لیا۔ جب ہم اس جگہ پہنچے جہاں سے ہم پہلی بار اس سرنگ میں داخل ہوئے تھے، تو ہمیں اچانک رک جانا پڑا۔ کیوںکہ زینہ میں اب مٹی اور پتھر تیزی سے گر رہے تھے، سیڑھیاں ایک حد تک چھپ چکی تھیں۔ اگر ہم چاہتے کہ کسی طرح اچک کر اوپر کھلی ہوا میں پہنچ جائیں تو اب یہ تقریباً ناممکن ہو گیا تھا کیوں کہ اوپر کی زمین کھودنے کے بعد جو زینہ نمودار ہوا تھا اور جس میں ہم پہلی بار داخل ہوئے تھے اب اس زینے میں عبدل اوپر سے مٹی اور پتھر ڈال رہا تھا، وہ چاہتا تھاکہ زینہ ہمیشہ کے لئے بند کر کے ہمیں جیتے جی اس سرنگ میں دفن کر دے۔ ایک حد تک وہ اپنے اس ارادے میں کامیاب بھی ہو چکا تھا ۔ کیوں کہ زینہ اوپر تک مٹی سے لبا لب بھر گیا تھا۔ صرف اتنا سا سوراخ باقی رہ گیا تھا ، جس میں سے عبدل ہمیں اوپر کھڑا ہوا نظر آ رہا تھا۔ ہمیں تو صرف اس کے ہاتھ ہی نظر آ رہے تھے اور ان ہاتھوں میں پھاؤڑا تھا۔ ہم اگر چاہتے کہ کسی طرح گولی چلا دیں ، تو ہماری یہ کوشش بے کار ہی جاتی ، کیوں کہ مٹی وہ اس تیزی سے ڈال رہا تھا کہ ہاتھ کا نشانہ نہیں لیا جا سکتا تھا اور پھر یہ بھی ڈر تھا کہ گولی مٹی میں ادھر ادھر ہی دھنس جائے گی، سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اب کیا کریں، کیوں کہ سوراخ بند ہونے میں اب کوئی کسر نہیں رہ گئی تھی۔ دو تین بار عبدل مٹی ڈالتا تو وہ سوراخ ضرور بند ہو جاتا اور ساتھ ہی ہم سب بھی جیتے جی موت کے مونہہ میں پہنچ جاتے۔

یکایک مجھے ایک ترکیب سوجھی، میں نے جلدی سے جان اور جیک کے کانوں میں وہ ترکیب بتائی اور پھر فوراً چیخا۔

“یہ کیا کر رہے ہو عبدل؟ “

میرا خیال تھا کہ عبدل جواب دینے کے لئے کچھ دیر کے لئے ضرور رک جائے گا، اور یہی ہوا اس نے فوراً جواب دیا۔

“اپنے بجائے اب تمہیں زندہ دفن کر رہا ہوں، جیک چاہتا تھا نا کہ مجھے دفن کرکے اہرام بنا دے، اب میں اس کی قبر پر اہرام بناؤں گا۔ “

“لیکن اس سے تمہیں کیا فائدہ ہوگا؟ “جان نے چلا کر پوچھا، اوراس موقع سے فائدہ اٹھا کر جیک جلدی جلدی زینے کے اندر کی مٹی ہاتھوں میں اٹھا کر سرنگ میں اندر کی طرف ڈالنے لگا ۔ میں اس کا مقصد سجھ گیا ، جیک کو توقع تھی کہ مٹی کم ہونے کے بعد زینہ کے اوپر کی مٹی خود بخود اندر دھنسے گی اور راستہ ضرور کھلے گا۔

“فائدہ؟” عبدل نے ایک بھیانک قہقہہ لگا کر جواب دیا:

“فائدہ یہ ہوگا مسٹر جان کے اوپر سے یہ زمین برابر کر دینے کے بعد آپ لوگ ہمیشہ کے لئے یہاں دفن ہو جائیں گے ۔ انسان کی لاش سڑنے میں دیر ہی کیا لگتی ہے ، مشکل سے ایک یا ڈیڑھ ہفتہ۔ یہ عرصہ میں اوپر انتظار کرتے ہوئے گزار لوں گا ، جب آپ کے ڈھانچے ہی ڈھانچے رہ جائیں گے تو میں پھر اس جگہ کو دوبارہ کھودوں گا ، اور آپ کے ڈھانچوں میں ٹھوکریں مارتا ہوا، خزانے تک پہنچ جاؤں گا پھر کون مجھے اس عظیم خزانے کو حاصل کرنے سے روک سکتا ہے؟ کیوں کیسی ترکیب ہے، سن کر جی خوش ہوگیا نا، آپ میں سے بھلا کسی کو ایسی ترکیب سوجھ سکتی تھی؟ “

میرا پورا جسم یہ سنتے ہی سن ہو گیا ۔ کتنا خوف ناک ارادہ تھا ، اگر خدانخواستہ اس کا یہ ارادہ پورا ہوگیا تو پھر ہمارا خدا ہی حافظ تھا ، یہ سوچ کر میں نے پھر کہا۔

“مگر تمہارا ساتھی، یعنی یہ کبڑا، اس کا کیا ہوگا؟ “

“وہ غدار ہے ، اور اس کی غداری کی یہی سزا ہے جو اب اسے ملے گی ۔ ” اتنا کہہ کر ظالم نے پھر مٹی ڈالنی شروع کردی ، خوف کے مارے میں بری طرح لرز رہا تھا اور کبڑا موت کے ڈر سے سہم کر بار بار چیخیں مار رہا تھا، صرف جان اور جیک سکون سے کھڑے تھے ۔ ہماری سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا کہ اب کیا کریں؟ اس وقت سوائے خدا کے اور ہمیں کوئی نہیں بچا سکتا تھا۔ میری آنکھیں ڈبڈبا آئیں سچے دل سے میں نے خدا سے لو لگائی ۔ اپنے گناہوں سے توبہ کی اور دعا کی کہ یا اللہ صرف تیری ہی ذات ہے جو اس ظالم سے ہمیں چھٹکارا دلا سکتی ہے ، اگر ہماری زندگی باقی ہے تو ہمیں اس قید سے رہائی دلا، دل میں اتنی دعا مانگنے کی دیر تھی کہ اچانک مٹی پڑنی بند ہوگئی ۔ ساتھ ہی بہت چھوٹے سے سوراخ سے ہمیں عبدل کا ہاتھ دکھائی دینا بھی بند ہوگیا تھا ۔ نہ جانے کیا بات تھی جو عبدل اب مٹی نہیں ڈال رہا تھا، حیرت کی بات یہ تھی کہ نہ تو اس کے قدموں کی آواز سنائی دے رہی تھی، اور نہ ہی اس کی اپنی آواز ۔ بڑی حیرت کی بات تھی ۔ جیک لگا تار اپنا کام کئے جا رہا تھا اور پھر آزادی کی امید میں کبڑے نے بھی اس کی مدد کرنی شروع کردی ۔ جلد ہی میں اور جان بھی جیک کے ساتھ اس کام میں شریک ہو گئے ۔ کم از کم پندرہ منٹ میں ہم نے وہ مٹی اندر سرنگ میں پھینک دی ، جس نے پہلے زینہ ڈھک لیا تھا۔ جلدی جلدی ہم سیڑھیاں طے کر کے اوپر پہنچے ، پستول ہم تینوں کے ہاتھوں میں تھے۔ خیال تھاکہ عبدل کہیں چھپا ہوا ہوگا اور ہم اس کی بے خبری میں اسے جا کر پکڑ لیں گے۔ مگر۔۔۔۔

مگر باہر کا منظر دیکھ کر خوشی کے مارے میرے آنسو نکل آئے ، ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے میں نے آسمان کی طرف دیکھا ، میرا دل بڑے خاموش انداز میں خدا کا شکر ادا کر رہا تھا کیوں کہ خدا نے میری دعا سن لی تھی، عبدل زمیں پر چت پڑا ہوا تھا اس کا پورا جسم نیلا پڑ گیا تھا، آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں اور چہرے پر تکلیف کے آثار تھے ، پہلے تو میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ یہ کیا ہوا لیکن جب میری نظر قریب ہی ایک بل میں گھستے ہوئے سانپ پر پڑی تو حقیقت کا پتہ چلا ، ظالم عبدل کو ایک زہریلے سانپ نے ڈس لیا تھا اور وہ زہرا تنا تیز تھا کہ فوراً ہی اپنا اثر بھی کر گیا، اور اب۔۔۔۔ اب عبدل بالکل بے جان تھا۔

ہم نے اسے عبرت کے ساتھ دیکھا، اور تب ہی یہ حقیقت ہم پر ظاہر ہو گئی کہ دنیا میں کوئی شخص کسی پر ظلم کر کے خود آرام سے نہیں رہ سکتا ۔ اسے اس کے ظلم کی سزا ضرور ملتی ہے، جیک نے عبدل کی طرف ذرا بھی توجہ نہ دی اور آگے بڑھ گیا ۔ ہاں البتہ کبڑے نے اسے غور سے دیکھا، اس وقت اس کے چہرے پر دہشت نظر آتی تھی اور سہمے ہوئے انداز میں وہ عبدل کے حشر کو دیکھ رہا تھا ، آخر وہ بھی خاموشی سے ہمارے پاس آ گیا۔

صبح کے گیارہ بج رہے تھے ، دن کا وقت تھا مگر کھنڈروں کی سنسانی بدستور قائم تھی ۔ جان نے سامان باندھتے ہوئے جیک سے پوچھا:

“اس کا۔۔ میرا مطلب ہے عبدل کا اب کیا کریں؟ “

“ایسے ظالم انسان کو دفن مت کیجئے” جیک نے حقارت سے جواب دیا ، بلکہ گدھوں اور کوؤں کو اس کی بوٹیاں نوچ نوچ کر کھانے دیجئے۔۔ اس کا یہی حشر ہونا چاہئے۔ “

اس کے بعد وہ کبڑے سے مخاطب ہوا۔

” اور تم۔۔۔ تم نے اپنے ایک ساتھی کا انجام دیکھ لیا، خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے، اب تم سنبھل کر رہنا کیوں کہ ہم سے غداری کرنے کے بعد یہ لاٹھی تم پر بھی پڑ سکتی ہے ۔ “

کبڑا یہ سنتے ہی گڑگڑانے لگا، ہاتھ جوڑ کر اس نے ہم سے وفادار رہنے کا وعدہ کیا اور پھر خود ہی سامان باندھنے میں ہمارا ہاتھ بٹانے لگا، کوئی ایک گھنٹے کے اندر ہم پھر اپنے نہ ختم ہونے والے سفر کے لئے تیار ہو گئے ۔ اس زمین دوز زینہ کا اوپر کا حصہ ہم نے اس طرح بند کر دیا کہ اب دوسرا کوئی بھی اس مقام کو نہیں پہچان سکتا تھا ، زمین بالکل برابر ہوگئی تھی ، ہاں البتہ جان نے ایک خاص نشانی وہاں ایسی لگا دی تھی کہ صرف ہم لوگ ہی اس جگہ کو پا سکتے تھے کوئی اور نہیں۔

کھنڈرات سے نکلنے کے بعد ہم ایک چٹیل میدان میں پہنچے، اس جگہ کی ہوا سیلی ہوئی تھی ، جان نے ہمیں بتایا کہ اب ہم ہندوستان کے بالکل جنوب میں پہنچ گئے ہیں اور سمندر اب ہم سے زیادہ دور نہیں ہے ۔ ساتھ ہی اس نے یہ بھی بتایا کہ ہو سکتا ہے ہم سمندر کے کسی غیر آباد کنارے پر پہنچیں اگر ایسا ہوا تو پھر ہمیں آبادی تلاش کرنی پڑے گی ۔ یہاں میں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے کپڑے بہت زیادہ پھٹ چکے تھے، میری پتلون جگہ جگہ سے پھٹ رہی تھی۔ ایک پائینچا اوپر تھا تو ایک نیچے، قمیض تو میں نے کبھی کی الگ کر دی تھی ، جنوبی ہند میں چونکہ گرمی کافی ہوتی ہے ، اس لئے کمبل بھی مجھے جسم سے الگ کرنا پڑا۔ اب میرا بدن بالکل ننگا تھا ، آبادی تک پہنچنے کے لئے یہ ضروری تھا کہ میں کمبل ہی سے دوبارہ جسم ڈھانکوں کیوں کہ کمر پر بنا ہوا خزانے کا نقشہ لوگوں کو غلط فہمی میں مبتلا کر سکتاتھا ، اس لئے مجبورا ً اسی حالت میں ہم آگے بڑھتے گئے۔ کپڑے دوسرے ساتھیوں کے بھی تار تار تھے، دور سے دیکھنے پر معلوم ہوتا تھا کہ ہم یا تو مجنوں کے خاندان سے ہیں یا پھر بالکل پاگل ہیں۔ اس وقت واقعی ہم عجیب لگ رہے تھے ، ایک کبڑا، ایک کالا حبشی، ایک ادھیڑ عمر کا امریکن اور ایک نو عمر لڑکا۔ ذرا تصور کیجئے ہم لوگ کیسے نظر آتے ہوں گے اور آبادی کی تلاش بہت ضروری تھی ، کیوں کہ ایک تو وہاں سے کپڑے لینے تھے اور دوسرے کسی تیز رفتار اسٹیمر یا بادبانی کشتی کا انتظام کرنا تھا ۔ بغیر کسی اسٹیمر کے ہم سمندر میں اتنے لمبے سفر پر ہرگز نہ جا سکتے تھے۔

چلتے چلتے شام ہو گئی اور پھر یکایک ہمیں تاڑ کے لمبے لمبے درختوں کا ایک جھنڈ نظر آیا ، اس کے پیچھے گہرا نیلا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا، درختوں کے پاس ہی اونچی اونچی چٹانیں تھیں ، اور ان چٹانوں سے آگے دور تک پانی ہی پانی تھا۔ اپنی زندگی میں سمندر میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔ اس لئے بہت خوش ہوا۔ ہاں جان البتہ خاموش تھا، جلد ہی اس کی اس خاموشی کی وجہ بھی معلوم ہو گئی، کیوں کہ آبادی کے آثار دور دور تک نظر نہ آتے تھے اور ہم ایک بالکل ہی غیر آباد کنارے پر آ گئے تھے ۔ یہ دیکھ کر جان نے کہا۔

“ہمیں راتوں رات کوئی نہ کوئی بستی یا چھوٹی سی بندرگاہ ضرور تلاش کرنی ہے، اگر ایسا نہ ہوا تو ہم کسی مصیبت میں پھنس جائیں گے ۔ فیروز کی ننگی کمر لوگوں کو شبہ میں ڈال دے گی اور میں یہ نہیں چاہتا۔ “

” پھر کیا کیا جائے؟ ” میں نے پوچھا۔

“آبادی کی تلاش، اور کچھ نہیں” جان نے جواب دیا:

“کیوں کہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں ہم اس وقت ہندوستان کے بالکل جنوب میں ، پالام کوٹہ اور کومورن کے درمیان میں ہیں، ساحل ساحل اگر ہم چلتے چلتے جائیں تو یقیناً کومورن تک پہنچ جائیں گے ۔ ہندوستان کے جنوب میں یہی آخری مقام ہے۔ “

رات کا وقت تھا ، آسمان پر تارے جھلملا رہے تھے، جدھر بھی نظر جاتی اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دیتا تھا ، جیسا کہ میں آپ کو پہلے بتا چکا ہوں کہ ہمیں اس وقت کسی بستی کی تلاش تھی، جہاں سے ہم کپڑے اور باربرداری کا سامان لینا چاہتے تھے ، لیکن چونکہ ہم بری طرح تھک چکے تھے اس لئے ایسے سوئے کہ پھر صبح بندروں کے ایک غول نے ہمیں خوں خوں کرکے اٹھایا، ایک بندر میرے سینے پر چڑھا ہوا تھا اور اپنی گلابی پپوٹوں والی آنکھوں سے مجھے غور سے دیکھ رہا تھا ۔ بندروں سے نظر ہٹا کر جیسے ہی میں نے سامنے کی طرف دیکھا ، اچانک گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔

دو خوفناک صورت انسان جو ہتھیاورں سے لیس تھے ہمیں غور سے دیکھ رہے تھے۔

بندر کو سینے سے ہٹا کر میں نے آواز دے کر جان اور جیک کو جگایا ۔ وہ دونوں گھبرا کر آنکھیں ملتے ہوئے اٹھے اور اجنبیوں کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے، جان نے لپک اپنے بستر کے نیچے سے بندوق نکالنی چاہی مگر فوراً ہی اس نے گھبرا کر اپنا ہاتھ کھینچ لیا ، بندوق وہاں نہیں تھی، ہم نے جلدی جلدی اپنے ہتھیار ٹٹولے مگر ان دونوں بھیانک شکل کے آدمیوں کو طنزاً مسکرا تے دیکھ کر سمجھ گئے کہ تمام ہتھیار ان کے قبضے میں چلے گئے ہیں۔

“کون ہو تم؟” جان نے ذرا سخت لہجے میں پوچھا: “آخر اس بد تمیزی کا کیا مطلب ہے؟ “

“زبان سنبھال کر بوڑھے آدمی” ان میں سے ایک نے جس کی مونچھیں کانوں کو چھو رہی تھیں کہا:

“بدتمیز کہنے والے کو ہم اس کی بدتمیزی کا مزا چکھانا اچھی طرح جانتے ہیں۔ “

“کھڑے ہو جاؤ تم چاروں” دوسرے نے جس کے مونہہ پر برص کے سفید داغ تھے اپنی بندوق ہماری سمت کرتے ہوئے کہا۔

“میں پوچھتا ہوں کہ آخر تم ہو کون؟ ” اس بار جیک نے غصیلی آواز میں کہا۔

“ہم تمہارے آقا ہیں اور تم ہمارے غلام، سمجھ گئے؟ “

“کیا بکواس کرتے ہو” جان چلایا: “ہمارے ہتھیار واپس کرو۔ “

“دیکھو بڑے میاں” دوسرے شخص نے کہا۔

“زیادہ اکڑ فوں مت دکھاؤ ، تمہارے ہتھیار کھانے ، پینے کا سامان کاتوسوں کی پیٹیاں اور خچر سب ہمارے قبضے میں ہیں ، ہمیں چار غلاموں کی ضرورت ہے جو ہمارے ساتھ یہاں سے بیس میل مشرق کی طرف سامان اٹھا کر چلیں، اگر مگر کی ضرورت نہیں، آفت سنگھ جو چاہتا ہے حاصل کر لیتا ہے ، اور اس کے معاملات میں کوئی دوسرا دخل نہیں دے سکتا۔ “

یہ سن کر جان نے جیک کو اور پھر جیک نے مجھے دیکھا، در حقیقت یہ معمہ ابھی تک ہماری سمجھ میں نہیں آیا تھا ، ویسے مجھے یہ تو یقین ہو گیا تھا کہ یہ دونوں ڈاکو ہیں مگر ڈاکوؤں کا کام تو صرف لوٹ مار کرنا ہے ، ان دونوں نے ہمارا سامان لوٹ لیا ہے ، پھر اب انہیں اور کیا چاہئے ؟ یہ ہمیں بیس میل مشرق کی طرف کیوں لے کر چلنا چاہتے ہیں؟

“دیکھئے آپ لوگ خواہ کوئی ہوں، مگر میں چاہتا ہوں کہ آرام سے بیٹھ کر ہمیں بتائیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں ، اور ہمارے سامان پر قبضہ کرنے سے آپ کا مقصد کیا ہے ؟ ” جان نے اپنی جگہ سے کھڑے ہو کر ذرا ادب سے کہا۔

“تمہیں بحث کرنے کی بہت بری عادت ہے” پہلے ڈاکو نے کہا:

“اگر تم معلوم کرنا ہی چاہتے ہو تو سنو، ہمیں چار ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو ہمارا سامان ،کیوں کہ تمہارا یہ سامان اب ہمارا ہی ہے ، اٹھا کر ہمارے ساتھ بیس میل آگے پما کوٹی پہاڑ تک چلیں۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں، ہم تمہیں ذرا بھی تکلیف نہیں پہنچائیں گے ، بلکہ الٹا تمہیں مالا مال کر دیں گے ۔ “

“تمہارا اسلحہ ہمارے پاس رہے گا” دوسرے ڈاکو نے کہا

“اور یہ تمہیں اس وقت واپس ملے گا جب کہ ہم اپنا کام پورا کرنے کے بعد واپس چلے جائیں گے۔ “

” اور اگر ہم ایسا نہ کریں تو؟ “جاننے پوچھا۔

” تو پھر تمہیں گولی مار دی جائے گی اور تمہاری لاشیں گدھوں اورکوؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر ہم خود آگے چل پڑیں گے۔ “

کبڑا اتنی دیر میں بیدار ہوچکا تھا ، اور وہ خاموشی سے ان ڈاکوؤں کی باتیں سن رہا تھا ، اپنی جگہ سے کھسک کر وہ جان کے پاس آیا اور سرگوشی سے کہنے لگا:

“فی الحال ان کی باتیں ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے ، مسٹر جان! ہمیں ان سے نپٹنے کے لئے وقت چاہئے ، اور وہ اسی طرح مل سکتا ہے ، کہ ہم ان کا اعتماد حاصل کر لیں اور ان کے ساتھ تھوڑی دور تک ضرور چلیں۔ “

“میرے خیال میں تم ٹھیک کہہ رہے ہو” جان نے اتنا کہہ کر اس کی یہ بات مجھے اور جیک کو سنا دی ، ہم نے بھی اس تجویز کو پسند کیا اور پھر جان نے ان سے کہا۔

“ٹھیک ہے ، حالانکہ ہم کسی اور کام سے شمالی ہند جانا چاہتے تھے مگر اب نہیں جائیں گے ، ہم تمہارا ساتھ دیں گے ۔ “

“جھوٹ مت بولو” برص کے داغ والے ڈاکو نے کہا:

“ہمیں معلوم ہے کہ تم شمالی ہند نہیں جاؤ گے بلکہ وہاں سے آئے ہو، تم کسی خزانے کے چکر میں ہو ، جس کا نقشہ تمہارے اس لڑکے کی کمر پر بنا ہوا ہے ، یہ لڑکا کروٹ کے بل لیٹا ہوا تھا تب ہی ہم نے اس کی ننگی کمر پر یہ نقشہ بنا ہوا دیکھا ہے ، سچ بتاؤ کہ یہ نقشہ کہاں کا ہے؟ “

“یہ نقشہ اسی علاقے کا ہے” جان نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا:

“لیکن ہزار کوشش کے باوجود بھی خزانہ ہمیں نہیں مل سکا۔”

جاری ہے……

خوفناک جزیرہ

خوفناک جزیرہ

– قسط:09

سراج انور

پچھلی قسط کا خلاصہ :

اچانک جان نے منظر پر نمودار ہو کر پستول کے ذریعے عبدل اور کبڑے کو قابو میں کر لیا۔ لیکن عبدل نے چالاکی سے فیروز کو ڈھال بنا لیا اور کبڑے کے ذریعے جان کو ایک درخت سے باندھ دیا۔

اور جب وہ دونوں فیروز کی کمر سے نقشہ کو نقل کر رہے تھے تبھی فیروز نے موقع پا کر انہیں لات رسید کی جس پر بپھر پر عبدل نے فیروز پر گولی چلا دی مگر گولی فیروز کو لگنے کے بجائے عبدل کا ہاتھ زخمی ہو گیا۔ اور اسی وقت جیک ، فیروز اور جان کا مسیحا بن کر ہاتھ میں پستول لیے سامنے آیا اور اس نے دونوں کو عبدل اور کبڑے کے کرتوتوں کی کہانی سنائی۔

۔۔۔ اب آپ آگے پڑھئے ۔۔۔

“آپ بالکل سچ کہہ رہے ہیں، مسٹر جیک” میں نے خوش ہو کر کہا۔

“زلزلہ کے وقت مجھے خود یہی محسوس ہوا تھا کہ زلزلہ صرف ایک خاص حصے میں آیا تھا حالانکہ اسے پورے جنگل میں آنا چاہئے تھا ۔ لیکن مسٹر جیک میں ایک بات آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں۔ “

“پوچھو” جیک نے کبڑے کو دیکھتے ہوئے کہا جو پھر ہلنے کی کوشش کررہا تھا۔

“کبڑے کے وہ ساتھی جن کے بارے میں آپ نے کہا ہے کہ وحشی ہیں اب کہاں ہیں؟ ایسا تو نہیں کہ وہ اس نیولے کی مدد کرنے یہاں آ پہنچیں، تب تو ہم مصیبت میں پھنس جائیں گے۔ “

“نہیں ایسا نہیں ہو سکتا، وہ لوگ اب ادھر نہیں آ سکتے، ایک تو وہ ان سب کھنڈرات کو بہت مقدس خیال کرتے ہیں اس لئے ادھر کا رخ نہیں کر سکتے، دوسرے میں جو اتنے عرصے غائب رہا تو خالی ہاتھ نہیں بیٹھا رہا، کچھ نہ کچھ کر کے ہی آیا ہوں۔ ” جیک نے آہستہ سے جواب دیا۔

“جیک مجھے تم پر فخر ہے ۔” جان نے خوش ہو کر کہا:

“تمہارے بارے میں ہم نے غلط رائے قائم کرلی تھی، معاف کرنا۔ “

جیک نے جواب تو کچھ نہیں دیا بلکہ مسکرانے لگا ، اس کے بعد وہ کبڑے کی طرف مڑا اور خوف ناک آواز میں کہنے لگا:

“چیتن، تم خود ہی بتاؤ کہ تم کون سی موت مرنا پسند کرو گے ۔ اس کا فیصلہ میں تم پر ہی چھوڑتا ہوں۔ “

“مجھے معاف کردو ، میں بالکل بے قصور ہوں، مسٹر جان! مجھے معاف کر دیجئے” کبڑے نے یکایک کہنا شروع کر دیا اور اس کی یہ حات دیکھ کر عبدل نے غصے میں آکر زور سے زمین پر تھوک دیا ۔ گویا ا س نے حقارت ظاہر کی تھی ، کبڑے کی یہ بزدلی اسے پسند نہیں آئی تھی، جیک یہ دیکھ کر زور سے ہنسا اور پھر بولا:

“تمہاری حالت اس وقت عجیب ہے ، ابھی کچھ دیر پہلے تم ایک مظلوم لڑکے کو قتل کرنے والے تھے، اور اب معافی مانگ رہے ہو۔ دنیا کے ظالم لوگ ظلم کرتے وقت یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ایک دن کہیں انہیں بھی معافی مانگنی نہ پڑ جائے ۔ بہر حال تمہیں معاف نہیں کیا جائے گا، میں نے تمہارے بارے میں یہ سوچا ہے کہ جس گڑھے میں تم نے فیروز کو گرایا تھا، اسی جیسے ایک گڑھے میں تمہیں گرا کر اسے اوپر سے مٹی سے ڈھک دیا جائے ۔ “

“نہیں۔۔۔۔” کبڑا خوف کے مارے بری طرح چلایا:

“ایسا غضب مت کرو، مجھے معاف کردو، میں ظالم نہیں ہوں، مجھے ظلم کرنے پر عبدل نے مجبور کیا تھا ، جو سزا دینی ہے اسے دو، میں بالکل بے قصور ہوں ۔ مجھے لالچ نے اندھا کر دیا تھا ، مگر یہ سب کچھ اس بدمعاش عبدل کا کیا دھرا ہے، اسے سزا دو اور مجھے چھوڑ دو۔ “

“او احمق کبڑے چپ رہ” عبدل کافی دیر کی خاموشی کے بعد آخر کار ایک خوف ناک آواز میں بولا:

“موقع ملتے ہی میں تجھے تیری غداری کا ایسا سبق دوں گا کہ تو ہمیشہ یاد رکھے گا۔ “

“اگر تم زندہ رہے ، کیوں کہ میرا ارادہ ہے کہ چیتن کے ساتھ تمہیں بھی زمین میں زندہ دفن کر کے تمہاری قبر پر ایک اہرام بنوا دوں ۔ تم مصری ہو نا ، اس لئے بولو کیا خیال ہے؟ ” جیک نے مسکرا کر کہا۔

“اہرام تیری قبر پر بنے گا حبشی کی اولاد” عبدل نے چیخ کر کہا:

“اس دنیا میں ایسا کوئی جی دار نیہں جو عبدل کو مار سکے ، کیونکہ عبدل اس ہتھیار سے خود کو بچانا جانتا ہے۔ “

اتنا کہتے ہی عبدل نے اپنا وہی چاند نما خنجر لہرا کر جیک کی طرف پھینکا اور پھر جو بھی ہونا تھا وہ ایک سیکنڈ میں ہو گیا ، جیک کے بجائے عبدل زمین پر پڑا تڑپ رہا تھا اور وہ عجیب سا مڑا ہوا خنجر جیک کے ہاتھ میں تھا ۔ عبدل بری طرح چیخ رہا تھا چاند کی اس ہلکی روشنی میں دیکھنے کی اب مجھے کافی عادت ہو گئی تھی، آنکھیں پھاڑ کر جب میں نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ عبدل کی ران سے خون بہہ رہا ہے ۔

“کیوں اب کیوں پڑے سسک رہے ہو؟” جیک نے بے دردی سے کہا:

“بے وقوف آدمی، تم اتنا نہیں جانتے کہ یہ ہتھیار اصل میں ہم افریقی لوگوں کی ایجاد ہے ۔ جب ہم اسے استعمال کرنا جانتے ہیں تو اس سے بچنے کا گُر بھی جانتے ہیں، تم سمجھتے تھے کہ تمہارا یہ ہتھیار مجھے زخمی کرکے تمہارے پاس واپس چلا جائے گا، مگر احمق انسان دیکھ لے کہ اب کیا ہوا؟ تو خود ہی زخمی ہوگیا ہے اور تیرا یہ چاقو تجھے زخمی کر کے اب میرے پاس واپس آ گیا ہے ۔ “

“مجھے معاف کردو جیک۔ ” عبدل نے کراہتے ہوئے کہا: “میں تمہاری چالاکی سے واقف نہ تھا، اب ہم دونوں تم سے اور جان سے معافی مانگتے ہیں، یقین کرو ، اب ہم کبھی غداری نہیں کریں گے ۔ “

“نہیں، تم دونوں کو اب ہمارا ساتھ چھوڑ دینا ہوگا۔ “جان نے بڑی دیر بعد اس گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے سخت لہجے میں کہا۔

“ایسا ظلم مت کیجیے” کبڑے نے عاجزی سے کہا:

“اس طرح تو ہم مرجائیں گے، ہمارے پاس اب کوئی ہتھیار نہیں ہے، ہتھیار کے بغیر ہم کس طرح اس بھیانک جنگل میں واپس جا سکتے ہیں؟ “

میں نے یہ سن کر مسکرا کرکہا “تمہارا جادو پھر کس دن کام آئے گا۔ اپنے جادو کے زور سے ایک بندوق بنالو۔ “

“ٹھیک ہے فیروز، بیٹا اب تم کو میرا مذاق اڑانے کا پورا حق پہنچتا ہے ۔” کبڑے نے سر جھکا کر جواب دیا، وہ واقعی شرمندہ تھا۔

“اچھا ، میں تمہاری یہ درخواست مان لیتا ہوں ، مجھے تم پر رحم آتا ہے، تم اب ہمارے ساتھ ہی رہو گے ، مگر یاد رکھنا اگر آئندہ تم نے ہم سے غداری کی تو انجام اچھا نہ ہوگا۔ “جان نے بندوق اپنے کندھے پر لٹکاتے ہوئے کہا۔

جیک نے اس بات پر بہت زور دیا کہ ان دونوں کو فوراً ختم کر دیا جائے۔ اس کا خیال تھا کہ بچھو ڈنک ضرور مارتا ہے، مگر جان نے اس خیال سے اتفاق نہیں کیا ۔ اور مجبوراً جیک کو جان کی بات ماننی ہی پڑی ۔ اس کے بعد ہم نے عبدل کی مرہم پٹی کی، عبدل واقعی اب شرمندہ تھا اور کبڑے کی بھی کچھ ایسی ہی حالت تھی۔ اس کی نگاہیں نیچی تھیں اور اب وہ مجھ سے نظر ملا کر بات بھی نہ کرتا تھا ۔ اگر سچ پوچھئے تو میں بھی ان دونوں سے خوف زدہ تھا ۔ میں نے دل میں سوچ لیا تھا کہ چاہئے سورج مشرق کے بجائے مغرب سے نکلنے لگے مگر میں ان دونوں بدمعاشوں کا کبھی اعتبار نہ کروں گا۔

رات بغیر کسی خاص واقعے کے آرام سے گزر گئی ۔ وہیں بارہ دری کے قریب ہم نے زمین صاف کر کے دوبارہ بستر بچھا دئیے اور پہلے کی طرح باری باری پہرہ دے کر آرام سے سوتے رہے ۔ صبح ہوئی تو بندروں کے ایک غول نے ہمیں خوں خوں کر کے جگایا۔ بار بار وہ ہمارے قریب آتے اور بھبکی دیتے۔ عجیب عجیب حرکتیں کرتے ، ان کی ان حرکتوں سے میں بہت خوش ہوا ۔ دن بھی خدا نے کیا چیز بنائی ہے۔ ہر قسم کا ڈر اور خوف اس کی روشنی میں ختم ہو جاتا ہے۔ صبح ہوتے ہی ہماری تھکن دور ہو گئی اور ہم نے پھر سے تازگی محسوس کی۔ اب چونکہ عبدل اور کبڑے سے نقشہ کا راز چھپانا ضروری نہ تھا ۔ اس لئے جان اور جیک نے ان دونوں کے سامنے ہی میرا کمبل ہٹا کر خزانہ کا نقشہ دیکھا، نقشے میں دکھائے گئے راستے سے ظاہر ہوتا تھا کہ جس جگہ ہم کھڑے ہیں اس کے شمال مغرب میں پچیس گز کے فاصلے پر ایک زینہ ہے اور یہی زینہ اس مقام پر جاتا ہے جہاں خزانہ موجود ہے ۔ خزانے سے خود کو اس قدر قریب محسوس کر کے ہر ایک کے چہرے پر مسرت کی لہر دوڑ گئی، یکایک سب میں کام کرنے کا جوش پیدا ہو گیا۔ خچروں پر سے ضروری سامان اتارا گیا ۔ عبدل کے ذمے یہ کام لگایا گیا کہ جب جان فاصلہ ناپ کر اسے جگہ بتائے تو وہ فوراً کھدائی شروع کر دے۔ عبدل اب ہمارا ہر حکم ماننے پر مجبور تھا ، اس لئے جان نے جب اسے وہ جگہ بتائی جہاں کھدائی کرنی تھی تو اس نے کدال اور پھاؤڑا لے کر اپنا کام شروع کر دیا۔ کبڑا مٹی ہٹاتا جاتا اور عبدل لگاتار کدال زمین پر چلاتا جاتا ۔ ہم حیرت ، اشتیاق اور تعجب سے اس جگہ کو اس طرح دیکھ رہے تھے جیسے ابھی کوئی عجوبہ دیکھیں گے ۔

اور سچ بات تو یہ ہے کہ وہ عجوبہ جلد ہی ہمارے دیکھنے میں آ گیا۔ ایک بار عبدل نے جب پوری طاقت سے کدال زمین میں ماری تو وہ ایک خطرناک چیخ مارتے ہوئے زمین میں دھنستا چلا گیا۔ زمین اندر سے کھوکھلی نکلی۔ یہ بات جان کی مرضی کے مطابق تھی اور اس کی یہی خواہش تھی کہ کہیں سے کسی کھوکھلی زمین کا پتہ چلے ، وہ کھوکھلی جگہ اب مل گئی تھی ۔ دراصل یہ زینہ تھا جو اوپر سے بند کر دیا گیا تھا ۔ عبدل نے جب مٹی ہٹائی تو وہ اس زینے کے اندر جا گرا تھا۔ پھر فوراً ہی اس کی آواز آئی کہ اس کے قدموں کے نیچے کچھ سیڑھیاں محسوس ہوتی ہیں ، جلدی جلدی باقی سب مٹی بھی ہٹائی گئی اور اب جو ہم نے غور سے دیکھا تو عبدل ایک زینے کی سیڑھیوں پر کھڑا تھا۔ آگے جاکر یہ سیڑھیاں ختم ہو جاتی تھیں اور وہاں سے ایک زمین دوز راستہ شروع ہو جاتا تھا۔ جان نے یہ دیکھ کر جلدی سے ٹارچ اٹھائی اور ہمیں پیچھے آنے کا اشارہ کر کے خود بھی اس زینے میں اتر گیا، اب ہم خزانے تک پہنچنے والی زمین دوز سرنگ میں داخل ہو رہے تھے۔

سرنگ میں داخل ہوتے ہی ہمیں ایسی بدبو محسوس ہوئی جو کسی جگہ کے ہزاروں سال تک بند رہنے کے باعث پیدا ہو جاتی ہے۔ ہمیں ایسا لگا جیسے کوئی ان دیکھا ہاتھ ہمارا گلا گھونٹ رہا ہے ۔ وہم کے ہم قائل نہیں تھے، جان خود بھی ایک بہت اچھا سائنس داں تھا، اس لئے اس نے بتایا کہ آکسیجن کی کمی کے باعث اس سرنگ میں دم گھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور کوئی خاص بات نہیں ہے۔ ہمیں چاہئے کہ جلدی جلدی مگر لمبے سانس لیں، صدیوں کے بعد یہ دروازہ آج کھلا ہے ، اس لئے ہوا بھی اس میں دیر سے داخل ہوگی۔ ہم نے اس کی ہدایت پر فوراً عمل شروع کر دیا ، جوں جوں ہم سرنگ میں اندر بڑھتے جا رہے تھے اندھیرا اتنا ہی بڑھنے لگا تھا ۔ ٹارچ کی روشنی ناکافی محسوس ہرنے لگی تھی۔ ہمارا قاعدہ تھا کہ ٹارچوں کو زیادہ استعمال نہیں کرتے تھے ۔ ضرورت کے وقت صرف ایک ٹارچ جلاتے اور باقی بند رہنے دیتے، مگر اس جگہ ہم نے مشعلیں جلا لی تھیں۔

ہلکے ہلکے قدم بڑھاتے ہوئے آہستہ آہستہ ہم آگے بڑھتے گئے ۔ سرنگ تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ گھپ اندھیرا ، عجیب قسم کی پراسرار خاموشی ۔ ختم نہ ہونے والی لمبی سرنگ، ہلکی سی سرسراہٹ جو نہ جانے سانپوں کی تھی یا شاید زہریلے جانوروں کی۔ ایک انجان سا خوف دلوں پر طاری تھا۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کریں؟ مجھے اس ماحول اور ایسی خطرناک جگہوں پر چلنے پھرنے کی اب عادت سی ہو گئی تھی ، جیسا کہ آپ کو معلوم ہے میں ایسے بہت سے حادثوں سے دوچار ہو چکا تھا ، اس لئے اب زیادہ ڈر نہیں لگتا تھا۔ دیکھا جائے تو ان حادثوں کی چکی میں پس کر اب میں بے حد نڈر بن چکا تھا۔

آخر کار ایک وقت ایسا آیا جب کہ یہ سرنگ آگے جا کے ہمیں بائیں طر ف مڑتی ہوئی دکھائی دی ، ادھر مڑنے کے بعد ہم اندازاً پندرہ منٹ تک لگاتار چلتے رہے ۔ مگر سرنگ ختم نہ ہوئی۔ عجیب جگہ تھی ہم اس تنگ سرنگ میں چلتے چلتے گھبرا گئے تھے۔ مگر خزانے کی خواہش اتنی تیز تھی کہ واپس لوٹا بھی نہیں جا سکتا تھا ۔ مجبوراً خدا پر بھروسہ کر کے ہم آگے ہی آگے چلتے گئے ۔ میں آپ سے جھوٹ بولنا نہیں چاہتا، یقین مانئے کہ پورے تین گھنٹے تک ہم سرنگ میں اِدھر ادھر بھٹکتے رہے ، کبھی یہ سرنگ دائیں طرف مڑ جاتی اور کبھی بائیں طرف۔ ناامید ہوکر ہم لوگ واپس لوٹنے ہی والے تھے کہ یکایک سرنگ میں ہمیں ایک دروازہ نظر آیا۔ دروازے کے کواڑ شیشم کی لکڑی کے تھے، مگر اتنے مضبوط ہونے کے باوجود بھی جگہ جگہ سے کھوکھلے ہوگئے تھے ۔ ایک موٹی رسی سے دروازے میں مہر لگی ہوئی تھی ، خدا جانے وہ کون سے ہاتھ تھے جنہوں نے اس دروازے پر یہ مہر لگائی ہوگی؟ ہم پانچوں سانس روکے ہوئے حیرت سے اس دروازے کو دیکھ رہے تھے ۔۔ یہ وہ دروازہ تھا جس کے کھلتے ہی ہماری تقدیر بھی کھل جانے والی تھی۔

کچھ اشتیاق اور کچھ خوف کے ملے جلے انداز میں جان نے اس رسی کو ہاتھ لگایا، ہاتھ لگاتے ہی رسی اس طرح جھڑ گئی جیسے مٹی کی بنی ہوئی ہو، پھر جیک نے آہستہ سے دروازہ کو اندر کی طرف دھکیلا ، دروازے کی لکڑی کے اندر ہاتھ یوں داخل ہو گیا جیسے وہ لکڑی نہ ہو بلکہ کاغذ ہو ۔ کبڑے اور عبدل کے چہروں پر بے حد خوف چھایا ہوا تھا، اور اس سناٹے میں ان کی سانسوں کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ دروازہ کھلتے ہی ہماری آنکھیں چندھیا گئیں ، مشعلوں کی ہلکی سی سسکتی ہوئی روشنی ہیروں کے ایک عظیم الشان ڈھیر سے ٹکرا کے سورج کی روشنی کے برابر ہو گئی تھی۔ ہیروں سے نکلتی ہوئی کرنوں نے پورے کمرے کو بقعہ نور بنا دیا تھا۔

ہمیں جیسے سکتہ سا ہو گیا ۔ جہاں کھڑے تھے وہیں کھڑے کے کھڑے رہ گئے ۔ روشنی اتنی تیز تھی کہ ہماری آنکھیں بند ہوئی جا رہی تھیں۔ میں نے کمرے میں ادھر اُدھر نظریں دوڑائیں ۔ جگہ جگہ آئینے لگے ہوئے تھے اور ان آئینوں کے کناروں پر کئی کئی سو قیراط وزنی ہیرے جڑے ہوئے تھے ۔ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ سنگھار کا کمرہ یہی ہے ، ہیروں کے علاوہ سونے کے لاتعداد زیور، ایسے زیور جنہیں آج ہم دیکھ لیں تو دنگ رہ جائیں ۔ وہاں قرینے سے چنے ہوئے تھے۔ خدا جانے اتنے بھاری زیورات صدیوں پرانے زمانے کی عورتیں کس طرح پہنتی ہوں گی !

اس خزانے کی اگر میں تعریف بیان کرنے لگ جاؤں تو میرے خیال میں کئی ہزار صفحے بھی ناکافی ہوں گے ، اس لئے آپ یوں سمجھ لیجئے کہ یہ خزانہ اتنا بڑا تھا ، اتنا بڑا تھا کہ پوری دنیا کے خزانے اس کے آگے ہیچ تھے ۔ اس خزانے کو دیکھ کر ہم کس طرح زندہ رہے یہ ایک معجزہ سے کسی طرح کم نہیں ۔ بس ، میں خزانے کی تعریف میں اتنا ہی کچھ کہہ سکتا ہوں۔

خزانہ دیکھ کر عبدل اور کبڑے چیتن کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، جان نے بڑے ضبط سے کام لیا ۔ حالانکہ اتنی دولت دیکھ کر انسان کو خوشی سے پاگل ہو جانا چاہئے، مگر ایک لمبی سانس لینے کے بعد اس نے کہا۔

“یہ دولت مجھے اپنے لئے نہیں چاہئے، مجھے محل تعمیر نہیں کرنے جو اس خزانے کو پا کر خوشی سے ناچنے لگوں، مجھے تو ان اندھے لڑکوں کی قسمت پر رشک آ رہا ہے جن کی آنکھیں اس خزانے کی مدد سے ٹھیک ہو جائیں گی ، مگر آپ لوگوں نے چوں کہ میرے ساتھ ہمدردی کی ہے ۔ اتنے لمبے اور کٹھن سفر میں میرا ساتھ دیا ہے۔ اس لئے خزانے کا دسواں حصہ آپ سب میں برابر بانٹ دیاجائے گا۔ کیا میری یہ بات آپ کو منظور ہے؟ “

“ہمیں آپ کی ہر بات منظور ہے۔ ” صرف عبدل اور کبڑے نے خوشی سے چلا کر کہا۔

“بس تو اب ہمیں اس خزانے کو اسی طرح چھوڑ دینا چاہئے، اور اپنے اگلے سفر کے لیے روانہ ہو جانا چاہئے ، کیوں کہ وہ سفر اس خزانے سے کہیں زیادہ ضروری ہے ۔ سرنگ کو ہم دوبارہ باہر سے بند کر دیتے ہیں اور تمام اہم نشانات مٹا کر سمندر کی طرف چلتے ہیں، وہاں سے کوئی کشتی لے کر اس جزیرے کی تلاش کرتے ہیں، جو ہماری اصل منزل مقصود ہے ۔ کیا خیال ہے آپ حضرات کا؟ “

جان نے مشعل بجھا کر ٹارچ نکال کر جلا لی۔

“بالکل بجا فرماتے ہیں آپ۔ ” صرف میں نے اور جیک نے جواب دیا، کبڑا اور عبدل دونوں خاموش رہے۔

“بس تو آئیے اب واپس چلیں۔ “

یہ کہہ کر جان واپس مڑا، لیکن عبدل اور کبڑا چیتن بار بار پیچھے مڑ کر خزانے کے ڈھیر کو دیکھتے رہے، دروازہ دوبار ہ بند کرنے کے بعد صرف میں نے ہی یہ محسوس کیا کہ جان کی اس حرکت سے وہ دونوں بدمعاش خوش نہیں ہیں، میں نے ان سے چوکنا رہنے کا تہیہ کر لیا تھا۔ اس لئے اب ان کی ہر بات کو شک کی نظر سے دیکھنے پر مجبور ہو گیا تھا ۔ اب میری یہ حالت تھی کہ بھرے ہوئے پستول پر ہر وقت میرا ہاتھ رہتا تھا، جان اور جیک کی حفاظت اب بہت ضروری تھی، اور مجھے یقین تھا کہ یہ پستول کسی نہ کسی وقت ضرور کام آئے گا ۔ عبدل ہم سے آگے تھا جان اس کے پیچھے اور اس کے بعد ہم سب، جان نے اپنی ٹارچ عبدل کو دے کر کہا کہ وہ اس کی روشنی آگے پھینکتا رہے تاکہ سب آسانی سے سرنگ کا راستہ طے کرتے رہیں۔ میں نے یہ محسوس کیا کہ عبدل سرنگ سے جلد سے جلد نکل جانا چاہتا ہے، اور پھر مجھے جس بات کا خدشہ تھا وہ ہو کے ہی رہی۔

سرنگ ایک بار جیسے ہی دائیں طرف مڑی ، عبدل نے ٹارچ بند کردی۔ اب چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا اور اس کے ساتھ ہی کسی کے اندھا دھند آگے بھاگنے کی آواز آ رہی تھی ۔ جیک نے گھبرا کر جان سے کہا:

“مسٹر جان، یہ کم بخت ضرور دغا کرے گا، جلدی دوسری ٹارچ جلائیے ، اور فیروز۔ تم کہاں ہو؟ “

جاری ہے..

خوفناک جزیرہ

خوفناک جزیرہ

– قسط:08

سراج انور

پچھلی قسط کا خلاصہ :

جان کے ساتھ فیروز اور عبدل نے ان کھنڈرات کے ایک کمرے میں رات بسر کی۔ مگر اسی رات فیروز کی نیند ہوشیار ہوئی تو اس نے دیکھا کہ وہ عبدل اور کبڑا چیتن کی گرفت میں ہے۔ تب فیروز کو پتا چلا کہ عبدل ہی کبڑا چیتن کا باس ہے۔ دونوں کو معلوم ہو چکا تھا کہ خزانے کا نقشہ فیروز کی کمر پر نقل کیا ہوا ہے۔ کمر سے کمبل نہ ہٹانے کی ضد پر عبدل نے کبڑے کو حکم دیا کہ فیروز کا کام تمام کر کے اس کی کمر کی کھال اتار لے۔ تب فیروز نے کبڑے سے لڑ جانے کی ٹھان لی اور جب کبڑا خنجر کے ساتھ اس پر جھکا تو فیروز نے اس کے ہاتھ کو اپنے دانتوں سے کاٹ لیا ۔۔۔ کبڑا بوکھلا کر پیچھے گرا اور یکایک کہیں سے آواز آئی:

“خبردار! فیروز کو چھوڑ دو ورنہ یہ گولی تمہاری کمر کے پار ہو جائے گی۔”

۔۔۔ اب آپ آگے پڑھئے ۔۔۔

“فیروز! تم آگے بڑھ کران دونوں کے ہتھیار نکال لو ، اس کے بعد میں انہیں ان کی غداری کا بڑا اچھا سبق دوں گا۔”

آواز سنتے ہی میرے چہرے پر رونق آگئی، پہلے میں اس آواز کو پہچان نہ سکا تھا۔ بلا شبہ آواز میرے مالک جان کی تھی ۔ یہ سوچ مجھے اور بھی خوشی ہوئی کہ وہ زندہ ہے اور ان ظالموں کے چنگل میں نہیں پھنسا۔

“تم سامنے کیوں نہیں آتے ، بزدلوں کی طرح چھپ کر گولی چلانا چاہتے ہو۔”کبڑے نے چلا کر کہا۔

” اور تم نے تو بڑی بہادری کا کامکیا ہے، ایک ننھے سے لڑکے پر خنجر لے کر پل پرے۔ بزدل کہیں گے ، تمہیں اب تمہاری اس مکاری کی سزا ضرور دوں گا، فیروز کھڑے کیا سوچ رہے ہو ، آگے بڑھ کر ان کے ہتھیار اپنے قبضے میں کیوں نہیں کرتے؟” جان نے دور کسی جگہ سے پکار کر کہا۔

اس کی ہدایت کے مطابق میں آگے بڑھا اور پہلے کبڑے کے ہاتھ سے خنجر لے لیا۔ حیرت کی بات ہے کہ اس نے ذرا بھی مزاحمت نہیں کی۔ یہ کام کر کے میں عبدل کی طرف بڑھا۔ اس وقت اس کا چہرہ غصہ کے باعث سرخ ہورہا تھا۔ اس کا ہتھیار وہی ہلال نما عجیب چاقو تھا جس کے بارے میں میں پہلے لکھ چکا ہوں ۔ کہ وہ اسے گھماکر پھینکتا تھا، اور دشمن کو زخمی کرکے وہ چاقو پھر اس کے پاس واپس آجاتا تھا ۔ چاقو لینے کے لئے جیسے ہی میں اس کے پاس پہنچا، اس نے لپک کر مجھے دبوچ لیا اور پھر میرے پیچھے چھپ کر کہنے لگا۔

” لو مسٹرجان اب چلاؤ گولی ۔ میں تمہاری آواز سے اندازہ کرچکا ہوں کہ تم کس طرف چھپے ہوئے ہو ۔ لو اب چلاؤ گولی ۔ تمہیں اپنا وفادار ملازم اگر پیارا نہیں تو گولی ضرور چلا ؤ کیونکہ وہ اس کے سینے کے پار ضرور ہوجائے گی۔

تھوڑی دیر تک سناٹا رہا ۔ کوئی آواز نہ آئی اور پھر اچانک سامنے کی چٹان میں سے جان نمودار ہوا ۔ اس کے ہاتھ میں اس کی بندوق تھی اور گلے میں کار توسوں کی پیٹی جھول رہی تھی ہلکے ہلکے قدم بڑھاتا ہوا وہ آہستہ آہستہ عبدل کی طرف بڑھ رہا تھا۔ عبدل نے مجھے ابھی تک اپنی ڈھال بنا رکھا تھا ۔ یہ دیکھ کر جان نے کبڑے سے کہا۔

“چیتن تم آگے بڑھ کر عبدل کا خطرناک چاقو اپنے قبضے میں کرلو۔ جلدی کرو تم میرے نشانے کی زد میں ہو۔”

“لیکن آپ یہ بھول رہے ہیں کہ آپ بھی میرے نشانے کی زد میں ہیں، آپ کی پشت میرے پستول کی طرف ہے، جتنی دیر میں آپ مڑیں گے ، میرا پستول آگ اگل دے گا ۔ اور آپ زمین پر لوٹتے نظر آئیں گے، آپ کو شاید وہم تھا کہ میرے پاس صرف خنجر ہی ہے ، لیکن حضور میں اپنے بچاؤ کے لئے پستول رکھنے کا بھی عادی ہوں ۔ جس وقت آپ کے اس ننھے چوہے نے آگے بڑھ کر میرا خنجر لیا تھا تو میں فوراً ہی آہستہ آہستہ اندھیرے میں کھسک گیا تھا ۔ لیکن آپ سمجھتے رہے کہ میں اسی جگہ کھڑا ہوں ، اب میں آپ سے عرض کروں گا کہ آ پ میرے نشانے کی زد میں ہیں اس لئے مہربانی فرماکر آپ اپنی بندوق نیچے ڈال دیجئے ۔”

جان کچھ سوچنے لگا تو کبڑے نے ایک ہوائی فائرنگ کرنے کے بعد کہا،”دیکھ لیجئے میں آپ کو بہکا نہیں رہا۔ اس ہوائی فائر سے آپ پر ظاہر ہوجائے گا کہ میں جھوٹ نہیں بول رہا ہوں ، جلدی کیجئے ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔”

جان نے مجبوراً اپنی بندوق نیچے ڈال دی اور پھر کبڑے نے اسے جو حکم دیااس غریب نے اسے مانا۔ کبڑے نے کہا کہ وہ ایک درخت سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوجائے ، جان نے ایسا ہی کیا ، پھر مجھ سے کہا گیا کہ میں زمین پر اوندھا لیٹ جاؤں، مگر میں نے صاف انکار کردیا ۔ اس پر عبدل نے زور دار ایک گھونسا میرے مونہہ پر رسید کیا۔ یہ گھونسا اتنا سخت تھا کہ میرا ہونٹ پھٹ گیا اور تکلیف کی تاب نہ لاکر میں بے ہوش ہوگیا۔

جب مجھے ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ کبڑا اپنے خنجر کی دھار پر انگلی پھیر رہا تھا۔ جان اسی طرح درخت سے لگا کھڑا تھا۔ہاں البتہ اب اس کے جسم کو رسیوں کے ذریعے درخت کے تنے سے باندھ دیا گیا تھا۔ عبدل کے ہاتھ میں جلی ہوئی ٹارچ تھی اور اس کی روشنی میری ننگی کمر پر پڑ رہی تھی ۔ اس کے ساتھ ہی وہ ایک کاغذ پر کچھ لکھنے کی کوشش کررہا تھا۔ مگر دوسرے ہاتھ میں ٹارچ ہونے کی وجہ سے اس کا ہاتھ خالی نہ تھا اور وہ نہیں لکھ سکتا تھا۔ آخر اس نے کبڑے کو آواز دی ۔ کبڑا جادوگر خنجر ہاتھ میں لئے میری طرف آیا ۔ میں اسوقت ہوش میں تھا مگر جان بوجھ کر میں نے اپنی آنکھیں بند کررکھی تھیں ، آخر وہ دونوں مجھ پر جھک گئے اور میری کمر سے نقشہ نقل کرنے لگے ۔ بڑی بے بسی کا عالم تھا، میرے ہونٹ سے خون بہہ رہا تھا ۔ پورے جسم کی طاقت آپ ہی آپ ختم ہوتی محسوس ہورہی تھی اور میرا سب سے بڑا رفیق اور ہمدرد جان درخت سے بندھا ہواکھڑا تھا۔

اس مجبوری کو دیکھتے ہوئے میں نے سوچ لیا کہ چاہے جان چلی جائے اپنے بچاؤ کی ایک آخری کوشش اور کروں گا جیسے ہی عبدل اور کبڑا جھک کر نقشے کو دیکھنے لگے ، میں نے لیٹے لیٹے فوراً پلٹا کھایا اور پھر چت ہوتے ہی اپنے دونوں پیر ان کے چہروں پر مارے، وہ دونوں زمین پر کمر کے بل جا گرے اور پھر فوراً ہی اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ مجھے بڑی حیرت سے دیکھ رہے تھے ، کیوں کہ انہیں اب کم از کم مجھ سے یہ توقع نہیں تھی کہ اتنا پٹنے کے باوجود بھی میں ان پر دوبارہ حملہ کروں گا ۔ عبدل کی آنکھوں میں اچانک بے رحمی کے آثار نظر آنے لگے ۔ اس نے فوراً سیدھے ہاتھ سے پستول نکال کر مجھ پر تان لیا اور دوسرے ہاتھ سے ٹارچ کی روشنی مجھ پر ڈال کر کہنے لگا۔

“او کم بخت یہ تجھ پر رحم کرنے کا نتیجہ ہے ۔ اس بے وقوف کبڑے کو تو صرف باتیں بنانی آتی ہیں، یہ کسی کو قتل نہیں کرسکتا ۔ مگر میں تو کرسکتاہوں ۔ اب بہت ہوچکا ، اب مرنے کے لئے تیار ہوجاؤ۔”

“نہیں ، خدا کے لئے نہیں، درخت کی طرف سے جان کی سہمی ہوئی آواز آئی، وہ خود کو آزاد کرنے کی جدو جہد کررہا تھا۔ مگر عبدل نے اس آواز کی طرف ذرا بھی دھیان نہ دیا۔ پستول کی لبلبی دباکر اس نے اچانک مجھ پر فائر کردیا ۔ مگر یہ کیا؟ درحقیقت وہ بڑی ہی عجیب بات تھی جو میں نے دیکھی۔ گولی چلنے کی آواز ضرور سنائی دی تھی مگر میں ابھی تک بالکل محفوظ تھا۔ البتہ عبدل کے چہرے پر تکلیف کے آثار تھے ، پستول اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر دور جا گرا تھا اور اب اس کے ہاتھ سے خون نکل رہا تھا اور وہ اسے دوسرے ہاتھ سے دبائے ہوئے تھا۔ میں نے جلدی سے پلٹ کر جان کی طرف دیکھا کہ ممکن ہے وہ کسی طرح آزاد ہوگیا ہو اورگولی اسی نے چلائی ہو۔ مگر یہ دیکھ کر مجھے اور بھی تعجب ہوا کہ وہ اسی طرح بندھا ہوا کھڑا تھا۔ کبڑا جادوگر چوکنا ہوکر ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا ۔ چاند کی تیز روشنی میں مجھے ان کی ایک ایک حرکت نظر آرہی تھی۔

“تم دونوں برابر برابر کھڑے ہوجاؤ۔ ” اچانک اندھیرے کھنڈر میں سے آواز آئی۔

“تم کون ہو؟ ” عبدل نے لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا۔

” تم دونوں کی موت ، احمقو تمہیں شرم نہیں آتی، جس تھالی میں کھاتے ہو اسی میں چھید کرتے ہو ، اپنے مالک سے غداری کرتے ہو ۔ میں تمہاری ایک ایک رگ سے واقف ہوں، تم جیسا کمینہ شخص شاید ہی اس زمین پر دوسرا کوئی ہو۔ تم اتنے جلاد ہو کہ اپنے مطلب کے لئے ایک معصوم لڑکے کا خون لینے سے بھی باز نہ رہے ۔ تم نے جو جو سوانگ بھرے میں ان سب کی پول کھول دوں گا۔ فیروز،تم کھڑے کیا تک رہے ہو۔ جاؤ جاکر اپنے مالک جان کو آزاد کرو ، اس کے ساتھ ہی اس کمینے عبدل کا پستول بھی اپنے قبضے میں کرلو، کیوں کہ کسی نہ کسی دن یہ اسی پر استعمال کرنے کے کام آئے گا۔”

میں ابھی تعجب سے یہ سب باتیں سن ہی رہا تھا کہ اچانک اندھیرے میں سے کوئی آہستہ آہستہ پستول تانے چاند کی روشنی میں آگیا، اور اب جو میں نے غور سے اسے دیکھا تو حیرت اور خوشی کی ایک چیخ میرے منہ سے نکل گئی ، میرے سامنے جیک کھڑا تھا۔

جیک جو ہمارا سب سے بڑا دشمن تھا ، لیکن جو اس وقت رحمت کا فرشتہ بن کر آیا تھا، سچ بات تو یہ ہے کہ ہم اتنے عجیب و غریب حالت سے دوچار ہوچکے تھے کہ اب کسی نئی بات پر یقین کرتے ہوئے جھجک محسوس ہوتی تھی۔ جیک کو ہم غدار سمجھ رہے تھے لیکن اب وہ ہمارا مددگار بنا ہوا تھا۔ آخر یہ سب کیا تھا؟ اچانک میرے دل میں خیال آیاکہ کہیں یہ ان کی ملی بھگت نہ ہو، مجھ سے ہمدردی جتا کر یہ کوئی کام نہ نکالنا چاہتے ہوں، مگر جب میں نے کبڑے جادوگر اور عبدل کے چہروں کو دیکھا تو اپنا یہ خیال بدلنا پڑا۔ وہ دونوں بڑی نفرت بھری نگاہوں سے جیک کو دیکھ رہے تھے اور جیک بھی انہیں اسی انداز سے دیکھ رہا تھا ۔میں نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر جلدی سے آگے بڑح کر جان کے بندھن کھول کر اسے آزاد کردیا ، آزاد ہوتے ہی اس نے میری پیشانی چوم لی اور بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔

“تم ہندوستانی واقعی قول کے پکے ہوتے ہو، فیرز، تم نے مجھے اب بالکل اپنا بنالیا ہے۔ خدا کی قسم میں نے تم جیسا لڑکا آج تک نہیں دیکھا۔ میں کس طرح تمہارا شکریہ ادا کروں۔ “

جان کی یہ باتیں سن کر میرا سینہ فخر سے تن گیا، میں سوچنے لگا یورپ کے لوگوں کو اپنی تہذیب اور تمدن پر کتنا ناز ہے ؟ وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں وہی سب سے افضل اور تہذیب یافتہ ہیں، لیکن اس وقت انگریز قوم کا ایک شخص مجھے جیسے معمولی اور غریب لڑکے کی کتنی تعریف کررہ اتھا ۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں تھی ، ایک ہندوستانی ہونے کی حیثیت سے کیا مجھے اس پر ناز نہیں کرنا چاہئے تھا؟

جیک کے جبڑوں کی ہڈیاں بار بار دب اور ابھر رہی تھیں، یوں لگتا تھا جیسے اسے دشمنوں پر سخت غصہ ہے اور جیسے انہیں کچا چبا جانا چاہتا ہے۔ جان نے مجھے اپنے سینے سے لگا رکھا تھا اور محبت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ میری کمر تھپتھپا کر اس نے کہا: “بخدا میں تم پر جتنا بھی ناز کروں، کم ہے۔ تم نے آج وہ کام کردکھایا ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کس طرح تمہارا شکریہ ادا کروں۔ “

“شکریے کو تو چھوڑئیے اور پہلے جیک کی مدد کیجئے ۔ میں نے جلدی سے کہا، کہیں یہ دونوں اس پر جھپٹ نہ پڑیں۔ “

“ہاں یہ بات ٹھیک ہے، مگر مجھے بار بار جیک کے اس رویے پر حیرت ہورہی ہے، آخر یہ سب کیا ہے؟ “

“آپ کے ساتھ مجھے بھی حیرت ہے، لیکن یہ باتیں بعد میں ہوں گی، پہلے ہمیں جیک کے پاس پہنچنا چاہئے ۔ “

جان کی بندوق درخت کے قریب ہی پڑی ہوئیت ھی۔ شاید دشمنوں نے بھول سے اپنے قبضے میں نہیں کیا تھا ، ان کا خیال ہوگا کہ ہم دونوں کو مرنا تو ہے ہی، اس لئے بھلا ہم بندوق سے کیا کریں گے ؟اگر انہیں معلوم ہوجاتا کہ آزاد ہوجانے کے بعد بندوق پھر ہمارے قبضے میں آجائے گی تو و ہ ہرگز اسے وہاں نہ رہنے دیتے، مگر اب کیا ہوسکتا تھا ، ا ن کی ہر سوچی ہوئی بات الٹی ہورہی تھی۔

جب ہم جیک کے پاس پہنچے تو وہ کبڑے جادوگر سے کہہ رہا تھا۔

” تم ذلیل انسان! تمہارے حقیقت کیا ہے، میں چاہوں تو تمہیں چٹکیوں میں مسل کر رکھ دوں ۔ مگر میں ہمیشہ خاموش رہا ۔ میں اپنے ساتھی جان کے ساتھ غداری کرنے کی بات سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔ مگر تم دونوں کا شروع ہی سے یہ خیال تھا ، ہم افریقی رنگ کے تو کالے ہوتے ہیں، مگر ہمارے دل کالے نہیں ہوتے ۔ ہمارا خون تمہاری طرح سفید نہیں ہوتا، ہم جس کے ایک بار ہوجاتے ہیں بس ہمیشہ اس کے وفادار رہتے ہیں، تمہیں معلوم ہے کہ میں جان بوجھ کر گونگا کیوں بنا ہوا تھا؟ “

وہ دونوں خاموش رہے تو جیک نے غصے سے چلا کر کہا۔

“جواب دو، جواب کیوں نہیں دیتے۔ “

“ہمیں نہیں معلوم۔ کبڑے نے خوف کے مارے لرزتے ہوئے کہا اور مجھے اس پر بڑی حیرت ہوئی کہ جادوگر ہوکر بھی وہ خوف کے باعث کپکپا رہا ہے۔ میں بتاتا ہوں، جیک نے زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا ۔ سنو۔۔۔۔ اور آپ بھی سنئے مسٹر جان! میں ان دونوں کا پول کھول رہا ہوں، عبدل کو آپ نے اپنا ساتھی بنانے سے پہلے یہ نہیں سوچا کہ آیا یہ شخص وفادار بھی ہے یا نہیں ۔ میں چوں کہ آپ سے وفادار رہنے کا عہد کرچکا تھا اس لئے مجھے سوچنا پڑا کہ جس شخس کو ہم اپنا ساتھی بنارہے ہیں وہ دراصل ہے کیسا؟ میں نے آپ سے نیویارک میں ہی یہ بات کہہ دی تھی کہ عبدل اچھا آدمی نہیں ہے مگر آپ نے اس کا جواب دیا تھا کہ وقت اسے اچھا بنادے گا لیکن اب آپ دیکھ لیجئے کہ وقت نے اسے کتنا برا بنادیا ہے۔ مجھے فیروز کی عقل کی داد دینی پڑتی ہے کہ اس نے شروع ہی سے اس کبڑے پر نظر رکھی۔ یہ بد معاش در اصل نیچ ذات کا ہے ۔ پھر عبدل نے ہندوستان آتے ہی اسے پٹی پڑھائی کہ وہ ایک جادوگر کی سی اداکاری کرے اور ہم لوگوں کے سامنے بار بار اس طرح آئے کہ ہم اس سے ڈر جائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان دونوں کی اسکیم کامیاب رہی اور آپ سچ مچ سہم گئے کیونکہ یہ احمق عجیب عجیب باتیں کرتا تھا۔ فیروز کی عقل مندی سے نقشہ اس کے ہاتھ نہیں لگا تو ایک دن میں نے اسے اپنے خیمے میں بلاکر گفتگو کی ۔ میں نے اسے ہیرے کی ایک انگوٹھی انعام میں دی اور کہا کہ عبدل کی طرح میں بھی آپ کا دشمن ہوں اگر یہ نقشہ عبدل کی بجائے مجھے دے دے تو میں اسے افریقہ لے جاؤں گا اور وہاں سونے کی کانوں کا مالک بنادوں گا ۔ یہی وقت تھا جب فیروز نے مجھے خیمے میں اس سے باتیں کرتے سنا اور مجھ سے بد گمان ہوگیا۔ میں چاہتا بھی یہی تھا کہ آپ مجھ سے بد گمان ہوجائیں اور اس طرح میں آپ کی زیادہ حفاظت کرسکتا تھا، اس کے بعد جو کچھ بھی ہوا وہ سب کچھ آپ کو معلوم ہے ۔ اس کبڑے احمق نے کچھ عجیب و غریب پیش گوئیاں کیں جو سچ ثابت ہوگئیں۔ مگر کس طرح ؟ آپ سنیں گے تو حیرت زدہ رہ جائیں گے ، میں گھوم پھر کر سب معلوم کرچکا ہوں۔ اس جنگل کے مغربی حصے میں ایک ایسی قوم آباد ہے جس تک ابھی تہذیب کا گزر نہیں ہوا، چیتن کی عقل کی داد دینی پڑتی ہے کہ اس نے جادو کے کچھ عجیب سے کرتب دکھاکر اس قوم کو اپنا بنالیا۔ آپ سمجھتے ہیں کہ یہ جادو جانتا ہے ، جادو وادو کچھ نہیں ، بلکہ اسے مداریوں کے سے کچھ شعبدے معلوم ہیں، انہیں دکھاکر یہ دوسروں پر اپنا رعب ڈال دیتا ہے ۔ خبردار چیتن ہلو مت۔ “

جیک نے کبڑے کو برح طرح ڈانٹا کیوں کہ وہ اپنی جگہ سے ہلنے کی کوشش کررہا تھا ۔ کبڑے کے چہرے پر اس وقت زردی چھا رہی تھی اور چاند کی مدھم روشنی میں اس کا چہرہ بھی ستا ہوا نظر آرہا تھا ۔

“اس نے اس وحشی قوم سے ان کے دیوتا بنوائے۔ یہ دیوتا دو بت تھے جو لکڑی اور کاغذ سے بنائے گئے تھے جب آپ سب جنگل کے درمیان سے گزرنے لگے تو یہ بت آپ پر اسی قوم نے گرائے تھے جو جنگل میں چھپی ہوئی تھی۔ کبڑے نے ان لوگوں کو بتایا تھا کہ آپ لوگ انہیں تباہ و برباد کرنے آئے ہیں۔ اگر وہ اپنے دیوتا آپ پر گرا دیں گے تو آپ مرجائیں گے اور وہ قوم زندہ رہے گی ۔ وہ کالے کلوٹے جاہل لوگ اس کی باتوں میں آ گئے اور نتیجہ کے طور پر بت آپ پر گرے، مگر اس بات کا پہلے ہی انتظام کرلیا گیا تھا کہ بت کہیں درخت ہی میں اٹک کر رہ جائیں تاکہ آپ لوگوں پر یہ قلعی نہ کھلے کہ وہ کاغذ اور لکڑی کے بنے ہوئے ہیں ، بلکہ آپ انہیں پتھرہی کا سمجھتے رہیں۔”

جیک کی یہ باتیں میں جان بڑی حیرت سے سنتے رہے، کبڑا چیتن اور عبدل اتنے چالاک ہوں گے ہمیں اس کا ذرا بھی گمان نہ تھا۔ پھر بھی میرے دل میں ایک سوال پیدا ہوا اور آخر میں نے جیک سے پوچھ ہی لیا۔

“اور مسٹر جیک۔۔۔۔۔۔۔وہ زلزلہ؟ ” میں سمجھتا ہوں وہ زلزلہ بھی بالکل مصنوعی تھا؟ “

“بالکل ٹھیک سمجھے فیروز!، جیک نے تعریفی نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا، راتوں رات زمین میں ایک گڑھا کھودا گیا اور اس پر لکڑی کے تختے بچھادئیے گئے اور اوپر سے ان تختوں پر مٹی ڈال دی گئی کبڑے کے آدمیوں نے وہ تختے نیچے سے ہلائے ، زمین پھٹ گئی اور تم ایک خاص گڑھے میں گر گئے ، جو پہلے ہی سے اس مقصد کے لئے تیار کیا گیا تھا۔ کبڑا تمہیں دیکھتا رہا، تمہارے کمبل کے اڑنے سے تمہاری کمر ننگی ہوگئی اور کبڑا تمہارا راز جان گیا۔ “

جاری ہے

خوفناک جزیرہ

خوفناک جزیرہ

– قسط:07

سراج انور

پچھلی قسط کا خلاصہ :

جنگل میں طوفان بڑھتا ہی جا رہا تھا، خوفناک کڑک اور بجلی کی چمک نے ماحول کو اور بھیانک بنا دیا تھا۔ اچانک بڑی ہیبت ناک آواز سنائی دی ایسی آواز جیسے کوئی چیز ٹوٹی ہو، فیروز نے نظر اٹھا کر دیکھا تو پتھر کے بنے ہوئے وہ لمبے لمبے بت جڑ سے اکھڑ کر ان کی طرف ہی گر رہے تھے ، مگر پھر وہ بت ایک لمبے اور مضبوط درخت کے سہارے ان کے سروں کے اوپر جھک کر رک گئے۔

پھر کبڑا دوبارہ نقشہ مانگنے ان کے سامنے آیا اور بولا کہ زلزلہ ابھی ایک گھنٹے کے اندر اندر آئے گا ، مگر اس زلزلے سے آپ لوگوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ۔

اور زلزلہ آ گیا ، چیزیں گھومنے لگیں، بڑے بڑے پتھر اس طرح ہلنے لگے جیسے ربڑ کے بنے ہوئے ہوں۔ کبڑے کی یہ دوسری پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور فیروز اس زلزلے کی وجہ سے ایک اندھے کنویں میں جا گرا۔ مگر عبدل اور جان نے اسے کھڈ سے باہر نکال لیا۔

دوبارہ سفر شروع ہوا اور جنگل کی سرحد نظر آئی اور وہ کھنڈرات بھی نظر آئے جو نقشے کے مطابق ان سے اب کوئی سات فرلانگ کے فاصلے پر نظر آ رہے تھے۔ ان کی پہلی منزل جس کے لئے انہوں نے اتنے پاپڑ بیلے تھے اب ان سے بہت ہی قریب تھی۔۔۔ اب آپ آگے پڑھئے ۔۔۔

اور اس خاموشی میں پرانی طرز کی یہ ٹوٹی پھوٹی عمارت اور بھیانک معلوم ہوتی تھی ۔ ان کھنڈروں کو دیکھنے ہی سے خوف معلوم ہوتا تھا ۔ اب ذرا خود سوچئے کہ اس عمارت کے دروازے میں داخل ہونا کتنی ہمت کا کام تھا؟

آخر یہ ہمت کا کام بھی جان نے ہی انجام دیا جیسے ہی اس نے ٹوٹے ہوئے اونچے سے دروازے میں قدم رکھا الوؤں کا ایک جوڑا ہوُہوُ کی آواز لگاتا ہوا ہمارے سروں پر سے گزر گیا ۔ ان کے پیچھے پیچھے چمگادڑوں کا ایک غول چیختا چلاتا آیا اور ہمارے سروں پر منڈلانے لگا۔ صرف یہی دو جان دار ہمیں وہاں نظر آئے، ورنہ کسی بھی جاندار چیز کا گزر وہاں ناممکن تھا ۔ ہم لوگ تو بہت سخت جان تھے جو کسی نہ کسی طرح اس جگہ تک آ پہنچے تھے۔ میرا اور عبدل کا حلق ڈر کے مارے خشک ہو رہا تھا ، ہم نے فوراً ایک چھاگل سے بہت سارا پانی پی لیا ۔ البتہ جان اسی ہمت اور بہادری کے ساتھ آگے بڑھتا چلا جا رہا تھا۔

شام ہونے والی تھی، الو اور چمگادڑ اب ہزاروں کی تعداد میں کھنڈر کے اوپر منڈلا رہے تھے شاید وہ اپنے اپنے آشیانوں میں جاکر دبکنے کے لئے بے قرار تھے ۔ جان ایک پرانے صحن میں کھڑا ہوا چاروں طرف گھور گھور کر دیکھ رہا تھا ۔ شاید اس کے ذہن میں نقشے میں دکھائی گئی کوئی عمارت تھی جسے وہ تلاش کرنا چاہتا تھا، میرے خیال میں اسے ناامیدی ہوئی ، کیونکہ وہ تھک کر ہمارے پاس آ کھڑا ہوا اور پھر عبدل سے بولا:

“یہ رات اگر ہم لوگ اس سامنے والے کمرے میں بسرکر لیں تو ٹھیک ہے ۔ کیوں کہ رات کو ہم خزانہ ہرگز تلاش نہیں کر سکتے ، ہماری تمام ٹارچوں کی بیٹری بھی اب کمزور ہو گئی ہے ، اس لئے اب سوائے مشعل کے اور کوئی چیز روشنی نہیں دے سکے گی۔ اس پرانے کمرے میں ہم مشعلیں جلا کر آرام سے سو جائیں گے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں ہمیں یہاں کسی قسم کا خطرہ بھی پیش نہ آئے گا۔”

“خطرہ ! خطرہ کیوں پیش نہ آئے گا؟” عبدل نے جلدی سے خوفزدہ لہجے میں کہا:

“آپ دیکھتے نہیں ہیں کہ زمین پر سانپوں کے چلنے کے نشانات صاف دکھائی دے رہے ہیں، میں بھلا ایسی جگہ آرام سے کس طرح سو سکتا ہوں ، جہاں ہر وقت سانپوں کی پھنکاریں سنائی دیتی ہوں اور جہاں زندگی ہر وقت خطرے میں ہو۔”

“لیکن پھر اس کے علاوہ اور کیا بھی کیا جا سکتا ہے۔” میں نے کہا، یہ سن کر عبدل بغلیں جھانکنے لگا ۔ واقعی اس وقت ہم تینوں سخت خطرے میں گھرے ہوئے تھے ۔ ایک خطرہ تو یہی تھا کہ ہم صدیوں پرانے کمرے کی خاک پر کس طرح سوئیں جب کہ اس خاک پر ہر سائز کے سانپوں کے لہرانے کے نشان تھے۔ اگر باہر سوتے ہیں تو اپنی حفاظت کے لئے کچھ نہیں کر سکتے اور فرض کر لیجئے کہ کسی طرح ان دونوں خطروں پر ہم قابو پا بھی لیتے تو تیسرا اور سب سے بڑا خطرہ۔۔۔ یعنی ہمارے دشمن جیک اور وہ کبڑا!

بڑی لمبی بحث کے بعد آخر کار یہ طے پایا کہ ہم اندر ہی سوئیں اور باری باری ایک ایک آدمی کمرے کے دروازے پر پہرہ دیتا رہے۔ ہم نے مل جل کر سوکھے ہوئے پتھوں اور درختوں کی چھال میں چربی ملا کر مشعلیں بنائیں ۔ دو مشعلیں جلا کر ہم نے کمرے کے اندر لگا دیں ۔ اس کے بعد جہاں تک ممکن ہوسکا کمرے کی اچھی طرح صفائی کر ڈالی ۔ سانپوں کے بلوں کو بھی پتھروں سے بند کر دیا ۔ رات ہو چکی تھی۔ عجیب عجیب آوازیں آ رہی تھیں۔ ان آوازوں میں الو کی آواز سب سے ڈراؤنی لگ رہی تھی۔ کبھی کبھی کسی چیز کے سرسرانے کی آواز سنائی دیتی اور پھر سناٹا چھا جاتا۔ نیند کس کم بخت کو آنی تھی۔ بس میں اور جان آنکھیں زبردستی بند کئے پڑے تھے ۔ عبدل بندوق سنبھالے پہرہ دے رہا تھا ۔ پہلے چار گھنٹے جاگنے کی باری اسی کی تھی اس لئے وہ چوکنا ہو کر پہرہ دے رہا تھا۔

آخر نیند آ ہی گئی ، عرصے کی تھکن سوار تھی ۔ مجھے ایسا لگا جیسے سونے سے پہلے میں نے اپنے تمام گھوڑے بیچ دئیے ہوں۔ پھر مجھے عجیب سے ڈراؤنے خواب نظر آنے لگے۔ میں نے دیکھا کہ جیک اپنا تیز دھار والا خنجر لئے مجھے مارنے کے لئے مجھ پر جھکا چلا آ رہا ہے۔ ڈر کر میں نے چیخ ماری، اچانک میری آنکھ کھل گئی ۔ مگر یہ دیکھ کر میرے پورے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی کہ ایک سایہ مجھ پر جھکا ہوا ہے، یہ خواب ہرگز نہ تھا ، اس لئے کہ اس سائے نے ہلکی مگر خوفناک آواز میں مجھ سے کہا:

“خبردار! چپ چاپ میرے ساتھ باہر آ جاؤ ۔ ذرا بھی ہلے تو بندوق کی گولی تمہارا کام تمام کر دے گی۔”

میں نے خیریت اسی میں سمجھی کہ اس آوازکا کہنا مان لوں۔ میں خاموشی سے باہر آ گیا۔ اب اس سائے نے اپنے ہاتھوں میں ایک مشعل بھی لے لی تھی ۔ اس کی روشنی میں جب میں نے اس سائے کو دیکھا تو حیرت کے مارے میری چیخ نکل گئی۔

میرے سامنے عبدل کھڑا تھا۔

جی ہاں عبدل! اس وقت اس کے چہرے پر بھیڑیوں جیسی درندگی برس رہی تھی ۔ اس کو میں نے اس رنگ میں کبھی نہ دیکھا تھا ۔ مجھے بڑا تعجب ہوا کہ آخر اسے اچانک کیا ہو گیا؟

“کیا بات ہوئی عبدل۔۔۔؟” میں نے اس سے پوچھا۔

“مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟”

میری بات کا جواب دئیے بغیر وہ بولا: “میں اگر چاہتا تو تمہیں وہیں کمرے میں ختم کر سکتا تھا ، مگر میں نے ایسا اس لئے نہیں کیا کہ میں تم سے خزانہ کا نقشہ حاصل کرنا چاہتا ہوں ، وہ نقشہ جو اس وقت تمہارے ذہن میں محفوظ رہے۔”

“وہ نقشہ اس کے ذہن میں محفوظ نہیں ہے” کہیں اندھیرے میں سے آواز سنائی دی ۔ میں نے اس طرح آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا اورپھر اندھیرے میں مجھے ایک دوسرا سایہ ہلتا ہوا نظر آیا ۔ غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ میرا سب سے بڑا دشمن کبڑا جادوگر لنگڑاتا ہوا ہماری طرف چلا آ رہا ہے، قریب پہنچ کر اس نے کہا۔

“وہ نقشہ اس کے ذہن میں محفوظ نہیں ہے، بلکہ۔۔۔۔بلکہ۔۔۔ کیوں ننھے چوہے بتا دوں کہ وہ نقشہ کہاں ہے؟”

“تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہے؟” میں نے چلا کر کہا:

“کیا تمہیں یاد نہیں کہ نقشہ تمہارے سامنے ہی ہم نے جلا دیا تھا۔”

” یاد ہے، اچھی طرح یاد ہے” کبڑے نے ہنس کر کہا۔

“مگر جب تم بخار میں مبتلا تھے، مطلب یہ کہ جب تم پر جھوٹا بخار سوار تھا تو تمہارے کمبل کی ایک جھلک نے تمہارا راز فارش کر دیا تھا۔ کہو تو اور تفصیل سے بتاؤں؟”

یہ سنتے ہی میرا خون خشک ہو گیا ، تو یہ منحوس اس راز سے بھی واقف ہے ۔ میرے خدا اب کیا ہوگا ، میں اس جنگل سے کس طرح نکلوں گا، میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ کبڑے کی آواز آئی۔

” یہ کمبل اتار دو پیارے چوہے۔”

اس کے ساتھ ہی وہ دونوں بدمعاش آہستہ آہستہ میری طرف بڑھنے لگے ، اور میرے پورے جسم میں لرزہ پیدا ہونے لگا۔

ذرا میری اس وقت کی حالت کا اندازہ لگائیے۔ جس راز کو میں نے اپنی سمجھ کے مطابق بڑی حفاظت سے اپنی کمر پر چھپایا تھا، اب وہ ظاہر ہو چکا تھا ، اور اس راز سے کون واقف تھا۔۔۔ کبڑا چیتن۔

میرے لئے یہ وقت اس لمبے سفر میں سب سے کٹھن تھا، کیوں کہ اس وقت مجھے دو بڑے بھیانک راز معلوم ہوئے تھے ، پہلا تو یہ کہ کبڑا چیتن نقشے کے راز سے اچھی طرح واقف ہے اور دوسرا یہ کہ عبدل ہمارا سب سے اچھا ساتھی اور سب سے بڑا راز دار ، خود بھی ہمارے دشمنوں میں سے ایک ہے۔ اندازہ لگائیے کہ ہماری اس سے بڑی بدقسمتی اور کون سی ہو سکتی تھی کہ جنہیں ہم نے اپنا سمجھا تھا اب وہی غیر ثابت ہو رہے تھے ، کبڑے کو تو خیر جانے دیجئے اس کا ذکر فضول ہے کیوں کہ وہ شروع ہی سے ہمارا دشمن تھا ، مگر حیرت تو عبدل اور جیک پر ہوتی ہے۔ انہیں کیا ہو گیا؟ سچ ہے سانپ کو چاہے کتنا ہی دودھ پلا کر پالو، مگر وقت آنے پر وہ ڈستا ضرور ہے، عبدل اور جیک دراصل ہماری آستینوں کے سانپ تھے۔

جوں جوں وہ بدمعاش میرے قریب آتے جا رہے تھے ، میں سوچ رہا تھا کہ اب ان سے بچنے کا کیا طریقہ ہو؟ اس وقت سوائے خدا کے اور میرا کوئی مددگار نہیں تھا۔ میں یہ اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ ظالم نقشہ مجھ سے ضرور حاصل کر لیں گے ۔ اور اگر میں نے ذرا بھی انکار کیا تو یہ مجھے قتل کرنے سے بھی نہ چوکیں گے ۔ اپنے انجام کا خیال کر کے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ مجھے یاد آیا کہ جان نے ایک بار مجھ سے کہا تھا۔

“فیروز، میں نقشہ تمہاری کمر پر منتقل نہیں کر سکتا ، کیوں کہ اس طرح تمہاری زندگی خطرے میں پڑ جائے گی ۔ دشمن کوشش کریں گے کہ کسی طرح تمہیں ختم کر دیں اور تمہاری کمر پر سے نقشہ حاصل کر لیں ۔”

یہ الفاظ یاد آتے ہی میرے آنسو نکل آئے۔ کاس میں اس وقت جان کا کہنا مان لیتا اور نقشے کو اپنی کمر پر نقل نہیں کراتا ۔ مجھے یقین ہو گیا کہ موت اب قریب آ گئی ہے۔ یہ ظالم مجھے ہرگز زندہ نہ چھوڑیں گے ۔ نقشہ اگر انہیں مل گیا تو بھلا پھر انہیں میری کیا پروا ہوگی ۔ مجھے یہ بھی یقین تھا کہ جان کو ان دونوں نے مل کر ضرور ختم کر دیا ہے ۔ ورنہ میرے چیخنے چلانے کی آواز سن کر اسے اب تک میری مدد کو آ جانا چاہئے تھا۔

“ہاں تو ننھے چوہے۔” کبڑا ایک چمکدار اور تیز دھار والا خنجر نکال کر اسے میری آنکھوں کے سامنے لہراتے ہوئے بولا۔

“کیوں اب کیا کہتے ہو، تم سمجھتے تھے کہ تم ہمیں بے وقوف بنا رہے ہو، لیکن برخوردار بھلا تم میرے جادو سے کس طرح بچ سکتے تھے ۔ مجھے تمہاری ایک ایک بات معلوم ہوتی رہی ۔ اور تم سمجھتے رہے میں احمق ہوں”

اتنا کہنے کے بعد اس کی آنکھوں میں نفرت پیدا ہو گئی اور بڑی حقارت سے وہ کہنے لگا:

“لیکن موری میں رہنے والے کیڑے تو کیا جانے کہ چیتن کے قبضے میں کیا ہے؟ وہ سب کچھ دیکھ اور سن سکتا ہے تیرے فرشے بھی اس کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتے۔”

“چیتن باتوں میں وقت ضائع نہ کرو کام کی بات کرو ۔”عبدل نے عجیب سے لہجے میں کہا۔

یہ لہجہ سن کر مجھے اور تعجب ہوا ۔ کیوںکہ میں نے محسوس کیاکہ اس لہجے میں حکم چھپا ہوا تھا اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ عبدل کبڑے جادوگر کا آقا ہے اور پھر فوراً ہی میرے اس خیال کی تصدیق ہو گئی کیونکہ اتنا سنتے ہی چیتن ادب سے جھکا اور بولا۔

“بہت بہتر، میں اب اسے الٹا لٹا کر نقشہ دو منٹ میں نقل کر ڈالتا ہوں ، آپ ذرا اسے لٹانے میں میری مدد کیجئے۔”

“نقل کرنے کی کیا ضرورت ہے۔” عبدل نے بڑی بے رحمی سے کہا:

“جب ہمیں معلوم ہے کہ خزانہ یہیں کہیں آس پاس دفن ہے تو کیوں کہ اس کی ٹھیک جگہ کا پتہ لگائیں، صرف اتنا دیکھ لو کہ ان کھنڈروں میں آنے کے بعد اب ہمیں کہاں جانا چاہئے ۔ اور اگریہ احمق لڑکا ذرا بھی چوں چرا کرے تو پھر تمہارے اس خنجر کی تیز دھار کس دن کام آئے گی؟”

میرے خدا ! کتنے خوفناک الفاظ تھے ۔ یہ عبدل بول رہا تھا ۔ عبدل جو ان تینوں میں سب سے زیادہ نیک دل انسان نظر آتا تھا ، ذرا سوچئے کہ عبدل جیسا بھولا آدمی جب اچانک اتنا بے رحم بن سکتا ہے تو بھلا جیک کیسا ہوگا، وہ تو صورت ہی سے نہایت ظالم نظر آتاتھا ، پھر بھی مجھے عبدل کی شرافت کا قائل ہونا پڑا جو وہ اس طرح سے پیش آ رہا تھا اگر اس کی جگہ جیک ہوتا تو بغیر کہے سنے وہ پہلے میرے گولی مارتا اور پھر نقشہ نقل کرتا۔

“ہاں تو ننھے چوہے ، اب تم مہربانی کرکے زمین پر اوندھے لیٹ جاؤ، یا اگر تمہیں ننگے جسم زمین پر لیٹنا پسند نہیں تو پھر اپنا یہ کمبل خاموشی سے اتار دو، مجھے صرف اتنا ہی دیکھنا ہے کہ یہاں تک آنے کے بعد ، اب ہمیں کہاں جانا ہے ؟” کبڑے نے بڑی ملاتمت سے کہا۔

“میں نہ تو کمبل اتاروں گا اور نہ زمین پر لیٹوں گا ، میں تمہاری باتوں میں ہرگز نہ آؤں گا۔” میں نے چلا کر کہا۔

“بڑا بہادر ہے بھئی” کبڑے نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا:

“اس مصیبت کے وقت موت کو سامنے دیکھ کر بھی تیرے ماتھے پر بل نہیں ۔ سچ ہے ایسی خطرناک مہم پر تجھ جیسے ہی بہادر لڑکے کی ضرورت تھی، ورنہ جان اگر اسکول میں پڑھنے والے کسی طالب علم کو لے آتا تو وہ تو اب تک کبھی کا ختم ہو چکا ہوتا۔ خیر اگر تجھے وقت سے پہلے مرنا نہیں ہے تو ہمارا کہنا مان لے۔”

“او بے وقوف موت اور زندگی خدا کے اختیار میں ہے، کیا وقت سے پہلے تجھ جیسا کبڑا نیولا مجھے مارے گا، احمق تجھے اتنا معلوم نہیں کہ موت ہمیشہ اپنے وقت پر آتی ہے ۔ وقت سے پہلے کوئی نہیں مرا کرتا ۔ اگر ابھی میرا وقت نہیں آیا ہے تو مجھے سوائے خدا کے اور کوئی نہیں مار سکتا ۔ سمجھا نیولے! ” میں نے بڑی حقارت سے جواب دیا۔

کبڑے کا چہرا یہ نیا خطاب سن کر غصے کے مارے سرخ ہو گیا۔ اس کی آنکھوں سے شعلے نکلنے لگے اور میرے قریب آکر اس نے ایک زور تھپڑ میرے مونہہ پر مار دیا۔ ان سوکھی سی ہڈیوں میں اتنی طاقت تھی یہ میں سوچ بھی نہ سکتا تھا، سچ کہتا ہوں کہ تھپڑ کھاکر میری آنکھوں کے آگے اندھیرا آ گیا، میں زمین پر گرا اور اسے خوفزدہ نظروں سے دیکھنے لگا ۔ غصے کے مارے وہ بری طرح کپکپا رہا تھا:

“مجھ سے مذاق کرتا ہے۔ مجھ سے، کبڑے جادوگر سے، جو خدا کا منظور نظر ہے ، بے وقوف تو اتنا نہیں جانتا کہ اگر میں چاہوں تو تجھے بکری کی طرح زمین پر لٹا کر ابھی ذبح کر ڈالوں ، اور پھر تیری کھال اس تیز خنجر سے اتار کر اپنے پاس رکھ لوں ، پھر تو میرا کیا کرلے گا ، ارے احمق تو سمجھتا ہے کہ ہم تجھ سے ڈر رہے ہیں، جو اس طرح تیری خوشامد کر رہے ہیں، بے وقوف صرف یہ رحم ہے، رحم۔۔۔ مجھے تجھ جیسے خوبصورت اور بہادر لڑکے پر رحم آتا ہے اور کچھ نہیں۔”

“تم پھر وقت ضائع کر رہے ہو چیتن۔” عبدل نے کہا:

“میں اس کم بخت کی ضدی طبیعت سے اچھی طرح واقف ہوں ، تم اب اس کی ایک نہ سنو اور اسے قتل کر کے اس کی کھال اتار کر اپنے پاس رکھ لو۔” عبدل نے پھر اسے حکم دیا۔

اوراس حکم کو سن کر کبڑے کے چہرے سے رحم کے جذبات اچانک غائب ہو گئے ۔ اس کی آنکھوں میں ایک ایسی چمک پیدا ہو گئی جیسی بلی کی آنکھوں میں اپنا شکار دیکھ کر ہوتی ہے ۔ میں تو گرا ہوا تھا ہی، اس لئے اب وہ اپنا خنجر لہراتا ہوا آہستہ آہستہ مجھ پر جھکنے لگا ۔ اس کی آنکھوں میں واقعی مجھے اپنی موت نظر آنے لگی ۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اب یہ مجھے ہرگز نہ چھوڑے گا۔ جی میں آیاکہ لاؤ اس آخری وقت میں اس کم بخت کو کمبل اتارکر نقشہ دکھادوں مگر پھر مجھے اپنا عہد یاد آیا۔ میں ایک شریف ماں باپ کا لڑکا تھا ۔ اور میں نے اپنے مالک جان سے ہمیشہ اس کا وفادار رہنے کا عہد کیا تھا ۔ پھر بھلا ا س وقت یہ عہد کیسے توڑ دیتا؟ ہو سکتا ہے کہ ان کم بختوں نے اسے ختم نہ کیا ہو، اور اگر کسی طرح وہ زندہ بچ نکلا ہو تو اسے یہ جان کر کتنی خوشی ہوگی کہ فیروز مرتے مر گیا مگر اس نے اپنی زندگی میں خزانے کا نقشہ کسی کو نہیں دکھایا۔

میرے اس نیک جذبے نے مجھ میں اچانک جوش پیدا کر دیا ، بزدلوں کی طرح مجھے مرنا پسند نہ تھا اس لئے کبڑا جادوگر جیسے ہی اپنا خنجر تان کر میرے اوپر آیا میں نے زور کی ایک لات اس کے رسید کی ۔ لات اس کے مونہہ پر پڑی، اور وہ بری طرح پیچھے گرا ، خوش قسمتی سے اس کا سر ایک نوکیلے پتھر پر پڑا ، اس کے منہ سے ایک چیخ نکلی ۔ یقیناً اس کے چوٹ لگی تھی ۔ مگر پھرتیلا کم بخت اتنا تھا کہ چوٹ کا خیال نہ کرتے ہوئے فوراً پھر کھڑا ہو گیا ۔ اب میں نے غور سے دیکھا تو پتہ چلا کہ اس کی کنپٹی سے خون نکل رہا ہے ، اس وقت وہ بالکل زخمی شیر لگ رہاتھا ، اوردوسرے حملے کی تیاری کر رہا تھا۔ غصے کے مارے اس کی آنکھیں ابل رہی تھیں چہرہ اور بھیانک ہوگیا تھا اور کمرکا کب جلدی جلدی ہل رہا تھا ۔ چاقو مضبوطی سے ہاتھ میں تھام کر وہ مینڈک کی طرح اچھل کر مجھ پر آیا۔ میں تھا تو ایک چھوٹا سا لڑکا مگر اس وقت میں نے اس سے مقابلہ کرنے کی ٹھان لی تھی۔ سچ بات تو یہ ہے کہ اب اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ بھی نہ تھا۔ حالانکہ میں جانتا تھا کہ اس خطرناک کبڑے سے جیتنا بالکل ناممکن ہے ، مگر آخری وقت میں تو ایک معمولی سا بکرا بھی قصائی کے سینگ مار دیتا ہے ، میں تو پھر انسان تھا اس لئے جیسے ہی وہ مجھ پر آکر گرا میں نے زور سے اس کے خنجر والے ہاتھ میں کاٹ کھایا وہ تلملایا تو بے شک مگراس نے اپنے ہاتھ سے خنجر نہ چھوڑا ۔ اس نے خنجر والا ہاتھ پھر بلند کیا اور چاہتا ہی تھا کہ اس چمکتے ہوئے خنجر کو میرے سینے میں اتار دے کہ یکایک کہیں سے آواز آئی:

“خبردار! فیروز کو چھوڑ دو ورنہ یہ گولی تمہاری کمر کے پار ہو جائے گی۔”

کبڑا بے شک جادوگر سہی جیسا کہ وہ خود کہتا تھا مگر گولی کے آگے بھلا کون جی دار ٹھہر سکتا ہے ، اس کا اونچا اٹھا ہوا ہاتھ وہیں ہوا میں اٹھا ہوا رہ گیا۔ گھبرا کر اس نے مجھے چھوڑ دیا۔ اور جلدی سے الگ کھڑا ہوکر ادھر ادھر دیکھنے لگا، میں بھی جلدی سے کمبل کو اپنے جسم سے لپیٹ کر اٹھ گیا ۔ عبدل حیرانی سے ہر طرف دیکھ رہا تھا ، اس کے چہرے سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس وقت بری طرح سہما ہوا ہے ۔ میں نے بھی غور سے ہر سمت دیکھا ، مگر اپنے محسن کو کہیں نہ پا کر بے حد حیرت ہوئی ۔ میرا خیال تھا کہ وہ ہم دونوں کے پیچھے ہی کہیں پستول تانے کھڑا ہوگا، مگر وہ کہیں نہ تھا ، میں ابھی ان باتوں پر غور کر ہی رہا تھا کہ……

جاری ہے..

خوفناک جزیرہ

خوفناک جزیرہ

– قسط:06

سراج انور

پچھلی قسط کا خلاصہ :

فیروز کے بتانے پر جان نے دیکھا کہ گونگا جیک خیمے میں کبڑے جادوگر سے باتیں کر رہا تھا۔ جیک جس انداز سے اس سے باتیں کر رہا تھا ، اسے دیکھ کر یہ محسوس ہوتا تھا کہ اس کا اثر کبڑے پر بہت زیادہ ہے۔ سامان کو ایک نظر دیکھنے کے بعد ان لوگوں نے اپنا سفر پھر شروع کیا۔ جنگل پھر بہت گھنا ہونے لگا تھا اور قدم قدم پر مشکلات سے واسطہ پڑ رہا تھا۔ جیک سب سے زیادہ طاقتور تھا، اس لئے وہی درختوں کو کاٹ کاٹ کر پھینکتا تھا ۔ دشوار گزار اور گھنے جنگل کے درختوں اور کانٹے دار پودوں سے رگڑ کھانے کے بعد خچروں کے جسموں پر بھی جگہ جگہ خراشیں آ گئی تھیں ۔ فیروز اور جان کو ان کی بھی فکر تھی ، کیونکہ اس خطرناک سفر میں خچر ہی ان کے لئے سب سے بڑا سرمایہ تھے ، راستے کی دشواریوں کا اندازہ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ آدھے میل کا یہ فاصلہ ان لوگوں نے پورے ایک دن میں طے کیا۔ صبح انہوں نے سفر شروع کیا تھا اور اب شام ہونے والی تھی۔ اور پھر جیک اچانک غائب ہو گیا۔۔۔۔ اب آپ آگے پڑھئے ۔۔۔

جیک ہماری نظروں میں پہلے ہی کچھ اچھا نہ تھا، اب اس کے اس طرح کہیں چھپ جانے سے وہ پہلے سے بھی زیادہ برا نظر آنے لگا ۔ عبدل نے سرگوشی کرتے ہوئے جان سے کہا۔

“میرے خیال میں وہ ضرور اس کبڑے جادوگر کے پاس گیا ہے ، آخر اس کبڑے کی کہی ہوئی باتیں پوری بھی تو ہوں گی ، پتھر کے بتوں کا ہم پر گرنا، بڑے بڑے درختوں کا ہمیں کچل دینا، اور زلزلے کا آنا، آخر یہ سب کب ہوگا؟”

“ابھی اور اسی وقت” میں نے آہستہ سے کہا۔

“کیا مطلب۔۔۔” جان نے حیرت سے کہا۔

“وہ دیکھئے، اس بڑے درخت کی آڑ سے وہ دونوں پتھر کے لمبے بت نظر آ رہے ہیں۔”

جان نے غور سے دیکھا تو واقعی اسے بہت حیرت ہوئی کیونکہ وہ بت ہم سے کوئی بیس قدم کے فاصلے پر ہوں گے ، بڑی ڈراؤنی شکلوں والے یہ قد آدم بت اتنے لمبے تھے کہ اگر وہ گرتے تو ہم پر ضرور آتے، ہم چونکہ ایک قسم کے پنجرے میں بند تھے، (درختوں کے اس جھنڈ کو میں پنجرہ ہی کہہ سکتا ہوں۔) اس لئے فوراً بھاگ بھی نہیں سکتے تھے کبڑے کی پیش گوئی بالکل صحیح ثابت ہونے والی تھی۔

یکایک چند ہی لمحوں کے اندر درختوں کی سائیں سائیں تیز ہو گئی، میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ جنگل بہت گھنا تھا ، اس لئے آسمان تو نظر نہ آتا تھا، البتہ درختوں کے بری طرح ہلنے سے اور پتوں کے لگاتار بڑھتے ہوئے شور سے ہم یہ سمجھ گئے کہ طوفان آ گیا ہے ۔ بڑی سخت ہوا چلنے لگی۔ یہ ہوا آہستہ آہستہ بڑھتی ہی جا رہی تھی، جو درخت کمزور تھے وہ دہرے ہوکر زمین سے لگنے لگے ، بعض دفعہ تو ایسا محسوس ہوتا کہ درخت ہم پر اب گرا اور اب گرا۔ جان نے مجھے اچھی طرح کمبل اوڑھا دیا، اسے ڈر تھا کہ کہیں کمبل ہی ہوا میں نہ اڑ جائے ۔ درختوں کے پتوں پر اب نئے قسم کا شور پیدا ہو گیا ۔ میں سمجھ گیا کہ بارش بھی شروع ہو گئی ہے ، میرے خیال کی تصدیق کڑک اور چمک نے فوراً ہی کر دی ،جان نے عبدل کو آواز دی کہ وہ خچروں کو درختوں سے باندھ دے۔ مگر اچانک یہ معلوم کرکے بڑی ناامیدی ہوئی کہ عبدل بھی غائب ہے ۔ جان کو بڑی حیرت ہوئی ، مجبوراً اس غریب نے خود ہی خچروں کو باندھا اور جب وہ واپس آ رہا تھا تو اچانک درختوں کے درمیان سے کوئی چیز زمین پر کودی۔

یہ عبدل تھا، جان کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ جیک کو تلاش کرنے گیا تھا۔ مگر جیک اسے کہیں نہ ملا ، ہوا اب اتنی تیز ہو گئی تھی کہ عبدل کی باتیں بھی مشکل سے ہی سنائی دیتی تھیں۔ آخر ہم تینوں ایک جگہ ایک دوسرے کو پکڑ کر بیٹھ گئے، کیوں کہ اگر نہ بیٹھتے تو ہوا ہمیں ضرور الگ الگ کر دیتی۔

طوفان بڑھتا ہی جارہا تھا، خوفناک کڑک اور بجلی کی چمک نے ماحول کو اور بھیانک بنا دیا تھا۔ درختوں نے ایسا شور مچا رکھا تھا کہ بس توبہ ہی بھلی۔ اچانک مجھے بڑی ہیبت ناک آواز سنائی دی ایسی آواز جیسے کوئی چیز ٹوٹی ہو، نظر اٹھا کر دیکھا تو پتھر کے بنے ہوئے وہ لمبے لمبے بت جڑ سے اکھڑ کر ہماری طرف ہی گر رہے تھے ، اگر وہ ہم پر گرتے تو یقیناً ہمیں پیس کر سرمہ بنا دیتے ، خوف کے مارے میں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور انتظار کرنے لگا کہ بت کب نیچے گرتے ہیں۔

خوف کے مارے میری آنکھیں بند تھیں اور دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ بت مجھ پر گرنے ہی والے ہیں، مگر ایسا نہ ہوا ۔ پتھر کے ان لمبے بتوں کے گرنے سے ذرا سی بھی آواز پیدا نہ ہوئی۔ یہ بڑی حیرت کی بات تھی ۔ میں نے فوراً آنکھیں کھول دیں ، آپ میری حیرت کا اندازہ کرسکتے ہیں ، جب میں نے دیکھا کہ بت ایک لمبے اور مضبوط درخت کے سہارے ہمارے سروں کے اوپر جھکے ہوئے تھے۔ اگر وہ درخت نہ ہوتا تو ہم لوگوں کا پس جانا یقینی تھا۔

اچانک ہوا کا وہ طوفان، وہ کڑک اور چمک سب ختم ہو گئی، بس کبھی کبھی بھیگے ہوئے پتوں سے پانی کے قطروں کے نیچے ٹپکنے کی آواز آ رہی تھی ورنہ ہر طر ف سناٹا تھا ، ہمارے دل ابھی تک قابو میں نہ آئے تھے ۔ سب درخت کے نیچے دبکے ہوئے بیٹھے تھے ، ہوش اس وقت آیا جب خچروں کے ہنہنانے کی آوازیں ہمارے کانوں میں پڑیں۔ جان نے چیخ کر کہا:

“ارے، بچارے خچروں پر ایک درخت آ گرا۔”

یہ سنتے ہی ہم تینوں اٹھ کر تیزی سے خچروں کی طرف بھاگے، کیوں کہ میں یہ پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ اس خطرناک سفر میں یہ خچر ہمارا سب سے بڑا سرمایہ تھے، جا کر دیکھا تو خچروں کو اتنا زیادہ نقصان نہ پہنچا تھا ۔ دوسرے جو درخت ٹوٹ کر ان پر گرا تھا وہ کچھ اتنا زیادہ وزنی بھی نہیں تھا۔

جان نے خچروں کو تھپکتے ہوئے کہا:

“ہمیں اپنا سفر پھر شروع کر دینا چاہئے، ہمیں خزانہ تلاش کرنا ہے ۔ خزانہ گو اسی جنگل میں کہیں چھپا ہوا ہے ، مگر ہمیں اس کا صحیح مقام نہیں معلوم۔ صرف کوئی غیبی طاقت ہی ہماری مدد کر سکتی ہے ، ورنہ اگر ہم برسوں تک بھی یہاں سر کھپائیں تو اسے نہیں پا سکتے ، چلو جلدی کرو۔ اب اس کام میں دیر اچھی نہیں۔”

یہاں میں پڑھنے والوں کی ایک غلط فہمی دور کر دوں ، جان بار بار یہی کہہ رہا تھا کہ اسے خزانے کی اصل جگہ کا پتہ نہیں ہے ، مگر در حقیقت ایسا نہیں تھا۔ وہ نقشہ جو میری کمر پر بنا ہوا تھا اس میں وہ جگہ صاف طور پر دکھائی گئی تھی، جہاں خزانہ دفن تھا ۔ ایک بہت ہی گھنے اور دشوار گزار جنگل کے بعد پرانے زمانے کے کچھ زمین دوز کھنڈرات میں ایک خاص مقام پر وہ خزانہ دفن تھا ۔ ہم کو یقین تھا کہ ایک یا دو دن کے اندر اندر ہم ان کھنڈرات تک ضرور پہنچ جائیں گے ۔ مگر یہ جان کی عقل مندی تھی کہ وہ جان بوجھ کر سب کے سامنے جھوٹ بول رہا تھا ۔ وہ جانتا تھا کہ دشمن ہمارے پیچھے پیچھے آ رہے ہیں ۔ اس لئے اس کی زبان سے کوئی غلط بات نہیں نکلنی چاہئے ۔ جان کی زبان سے ابھی یہ فقرے ادا ہوئے ہی تھے کہ اچانک ایک بہت بڑی چٹان کی اوٹ میں سے وہ چیز نمودار ہوئی جسے دیکھتے ہی نفرت کا ایک دریا میرے سینے میں لہریں مارنے لگتا تھا ، اورجو اس وقت میرا سب سے بڑا دشمن تھا، یعنی کبڑا چیتن۔

“آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں مسٹر جان۔” اس منحوس نے اپنی اسی زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ کہنا شروع کیا:

“واقعی اس طرح خزانہ آپ کو کبھی نہیں مل سکتا ۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ اسے پھر ایک کاغذ پر نقل کر دیں تاکہ ہم سب ایک ساتھ اس میں دماغ لڑائیں۔”

“ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔” میں نے چلا کر کہا “یہ ناممکن ہے ۔”

“ارے ننھے چوہے، یہ تم بولے تھے، کیا بات ہے بخار میں پھنکنے کے باوجود بھی تمہاری آواز اتنی کراری نکل رہی ہے؟ خیر کوئی بات نہیں تم لوگ اگر نقشہ نہیں دینا چاہتے تو نہ سہی، تمہاری مرضی۔ مجھے پہلے ہی معلوم ہو چکا تھا کہ تمہاری یہ خواہش نہیں ہے ۔”

“کس سے معلوم ہوا تھا؟ کیا جیک سے؟” جان نے پوچھا۔

“چلئے اب میں مان لیتا ہوں کہ جیک میرا آقا ہے ، اور میں اس کے لئے کام کر رہا ہوں ۔ کیا فائدہ یہ بات چھپانے سے ، جب کہ آپ کا ننھا چوہا پہلے ہی سب کچھ جان چکا ہے ۔ جیک سے مجھے سب باتیں معلوم ہوتی رہتی ہیں۔ مگر اب آپ کہئے کہ کیا آپ میرے جادو کے قائل ہوئے یا نہیں ؟ بت آپ پر گرنے والے تھے مگر آپ بچ گئے ، اب زلزلہ بھی آئے گا ، میں نے آپ سے پہلے کہا تھا کہ تین دن بعد ایسا ہوگا، مگر اب یہ دوسری پیش گوئی کرتا ہوں کہ وہ زلزلہ ابھی ایک گھنٹے کے اندر اندر آئے گا ، مگر اس زلزلے سے آپ لوگوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ۔ اب میں چلتا ہوں ، اور ساتھ ہی یہ بات بھی آپ لوگوں کو بتا دیتا ہوں کہ جیک اب آپ کے پاس نہیں آئے گا، ہم دونوں اب اسی وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گے جب کہ آپ خزانہ پا چکے ہوں گے۔”

اتنا کہہ کر وہ طنزیہ انداز میں تھوڑا سا جھکا اس کی کمر کا کب دیکھ کر مجھے متلی ہونے لگی، اپنی تیز اور چیل جیسی آنکھوں سے ہمیں دیکھنے کے بعد وہ پھر جھاڑیوں میں غائب ہو گیا ۔ کبڑا دراصل جو بات بھی کہہ رہا تھا میرے خیال میں بالکل ٹھیک تھی ، دیکھا جائے تو اس کی پیش گوئیاں حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی تھیں، میرا دل چاہتا تھا کہ اسے فوراً قتل کر دوں ، مگر قتل کا نام لینا تو آسان ہے اور یہ کام کرنا بہت مشکل ، مجھ جیسے کمزور لڑکے سے یہ کام کسی طرح بھی نہ ہو سکتا تھا ، دوسرے میں اور جان دونوں خون خرابے سے بہت دور بھاگتے تھے ، خواہ مخواہ کسی کی جان لینا کوئی بہادری نہیں ہے اگر ہمیں کسی سے کوئی تکلیف پہنچتی بھی ہے تو اس سے بدلہ لینا خدا کا کام ہے ، ہمارا نہیں۔

کبڑے کے جانے کے بعد جان نے عبدل سے کہا کہ وہ خچروں کو ہانکے، مجھ سے کہا گیا کہ میں کسی بھی خچر پر بیٹھ جاؤں ، کیوں کہ میری طبیعت “ٹھیک” نہیں ہے، جان کا کہنا مان کر میں فوراً خچر پر جا بیٹھا اور کمبل کو اچھی طرح اپنے جسم سے لپیٹ لیا۔

اب ہمار ا سفر پھر شروع ہوا ، جنگل میں درخت آپس میں اس طرح مل گئے تھے جیسے طوطے کے پنجرے کے تار آپس میں ملے ہوتے ہیں۔ میں بیان نہیں کر سکتا کہ کتنی مصیبتوں اور تکلیفوں کے بعد ہم اس گھنے جنگل میں آگے بڑھے، قدم قدم پر مشکلات پڑتی تھیں، بارش کی وجہ سے جگہ جگہ چھوٹے سے تالاب بن گئے تھے ، اور کوئی راستہ تو تھا نہیں اس لئے مجبوراً ہمین ان تالابوں ہی میں گھسنا پڑتا تھا، بعض گڑھے تو اتنے گہرے تھے کہ ہم کمر تک پانی میں دھنس جاتے ، جب ایک دوسرے کو پکڑ کر باہر کھینچتے تب اس مصیبت سے چھٹکارا ہوتا، بعض دفعہ تو میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے کہ یا خدا میں یہ کس مصیبت میں پھنس گیا ۔ اپنے ہوٹل میں اگر اسی طرح بیرا گیری کر رہا ہوتا تو آج ان تکلیفوں میں نہیں گھرا ہوا ہوتا مگر اب گزری ہوئی باتوں کو یاد کرکے رونا بے کار تھا۔ اب تو مجھے یہ سوچنا تھا کہ آگے چل کر مجھے کیا کرنا چاہئے۔

کوئی دو گھنٹوں کے بعد ہم ایک چھوٹے سے راستے سے گزر رہے تھے کہ میں یکایک خچر کی کمر سے نیچے گر پڑا ۔ گرتے گرتے میں نے دیکھا کہ درخت بڑے زور سے ہل رہے ہیں، زمین اس طرح ہچکولے لے رہی ہے جیسے وہ زمین نہ ہو کوئی دریا ہو، ساتھ ہی بڑے زور کی گڑ گڑاہٹ اور چٹانوں کے آپس میں ٹکرانے کا شور بھی سنائی دیا۔

چیزیں گھومنے لگیں، بڑے بڑے پتھر اس طرح ہلنے لگے جیسے ربڑ کے بنے ہوئے ہوں۔ میں سمجھ گیا کہ کبڑے کی یہ دوسری پیش گوئی ہے جو سچ ثابت ہو رہی ہے ۔ جان اور عبدل بھی خوفزدہ نظروں سے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے ، عبدل ایک زور دار چیخ مار کر ایک بڑے درخت کے تنے سے جا کر لپٹ گیا ۔ اچانک مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میرے پنجے کی زمین سرکتی جا رہی ہے اور پھر یوں لگا جیسے میں کنویں میں گرتا جا رہا ہوں ۔ دھائیں سے ایک آواز آئی اور تکلیف کی وجہ سے میں نے زور کی ایک چیخ ماری۔ میرے سارے جسم میں بہت درد ہو رہا تھا ۔ جب میرے ہوش و حواس درست ہوئے تو میں نے دیکھا کہ میں ایک اندھیرے کنویں میں پڑا ہوا ہوں۔ زمین سے یہ کنواں کوئی پندرہ فٹ نیچے ہوگا۔ مجھے خیال آیا کہ شاید زلزلے کی وجہ سے زمین پھٹ گئی ہوگی اور یہ کنواں نما گڑھے زمین میں پیدا ہوا ہوگا ۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ میں کسی گہرے کھڈے میں نہیں گرا اور زلزلے کے بعد اوپر زمین کی سطح برابر نہیں ہوئی ، کیوں کہ اگر ایسا ہوجاتا تو پھر جیتے جی میں ایک اندھیری قبر میں ہمیشہ کے لئے دفن ہو جاتا ۔ زمین کے جھٹکے اب ختم ہوگئے تھے ۔ اس لئے میں کمبل جھاڑ کر اٹھا اور چیخ چیخ کر جان کو آوازیں دینے لگا۔ شکر ہے کہ جان نے میری آواز سن لی۔ وہ دوڑ کر ایک رسہ لایا اور پھر اس رسے کی مدد سے اس نے مجھے باہر نکالا ۔ باہر نکل کر میں نے ایک عجیب بات دیکھی ۔ جس حصے میں ہم لوگ کھڑے ہوئے تھے زلزلہ صرف وہیں آیا تھا ۔ ورنہ دور دور تک دکھائی دینے والے درخت اور چٹانیں اسی طرح کھڑی تھیں یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی اور سچ تو یہ ہے کہ میں نے اس پر زیادہ غور کرنا مناسب بھی نہیں سمجھا کیوں کہ کہ اب میں کبڑے اور اس کے جادو سے پوری طرح مرعوب ہو چکا تھا۔

اب مجھے معلوم ہوا کہ کبڑا جو کچھ کہتا ہے بالکل سچ کہتا ہے ۔ اور درحقیقت وہ بڑی پراسرار قوتوں کا مالک ہے ۔ میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اب اس سے الجھنا ٹھیک نہیں ۔ اب میں اس کی کسی بات کا مذاق نہیں اڑاؤں گا ، اور کوشش کروں گا کہ اس کا ادب کروں، آپ میری اس داستان کو پڑھ رہے ہیں، ممکن ہے یہاں آ کر یہ سوچیں کہ میں بزدل تھا جو اس قسم کی باتیں سوچ رہا تھا ۔ ٹھیک ہے آپ بے شک میرے بارے میں یہ رائے قائم کیجئے، مگر میں پوچھتا ہوں کہ اگر ایسے موقع پر میری جگہ آپ ہوتے تو کیا کرتے؟ یقیناً آپ بھی یہی کرتے اس لئے میں بھی ایسا سوچنے میں حق بجانب تھا۔

خچروں پر سے زلزلے کی وجہ سے سامان نیچے گر گیا تھا۔ ہم تینوں نے مل کر وہ سامان پھر سے ان کی کمر پر لادا۔ اور پھر دوبارہ اپنا سفر شروع کیا۔ کیونکہ اب تو صرف یہ سفر ہی ہمارے لیے ضروری ہو کر رہ گیا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ یہ سفر ہی اب اپنی تقدیر ہے۔ ہماری ٹانگیں ابھی تک لرز رہی تھیں ، یوں لگتا تھا جیسے ہمارے جسم میں ابھی تک زلزلے کے آثار باقی ہیں۔ اپنے خیالوں میں گم میں آگے ہی آگے بڑھتا چلا جا رہا تھا ۔ بار بار میرا دل چاہتا تھا کہ کہیں سے کبڑا نمودار ہو جائے اور میں اس کے سامنے اپنا سر جھکا دوں ۔ وہ اتنی بڑی شخصیت تھی اور افسوس میں آج تک اس کا مذاق اڑاتا رہا ۔ شاید میں اپنے اس خیال کو جان پر ظاہر کر ہی دیتا اگر مجھے اس کی آواز سنائی نہ دیتی۔ وہ مجھے جلدی جلدی آگے آنے کے لئے کہہ رہا تھا ۔ میں جب وہاں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ جان کے چہرے پر خوشی کے آثار پیدا تھے اور وہ ٹکٹکی باندھے سامنے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے بھی اس طرف جب نظر ڈالی تو خوشی کے مارے میرا جسم بھی کپکپانے لگا۔ کیوں کہ سامنے ہی اس گھنے جنگل کی آخری سرحد نظر آ رہی تھی، سورج کی روشنی اب تیز نظر آنے لگی تھی ۔

اندھیرا ختم ہوگیا تھا ، اور آدھے فرلانگ کے فاصلے پر جنگل ختم ہوتا دکھائی دیتا تھا ، مگر ایک چیز جس نے میری اور شاید جان کی بھی خوشی کو دوبالا کر دیا تھا (اف! اس کا نام لکھتے ہوئے بھی میرے ہاتھ خوشی کے مارے لرز رہے ہیں۔) وہ کھنڈرات تھے جو نقشے کے مطابق ہم سے اب کوئی سات فرلانگ کے فاصلے پر نظر آ رہے تھے۔ ہماری پہلی منزل جس کے لئے ہم نے اتنے پاپڑ بیلے تھے اب ہم سے کتنی قریب تھی!

جان نے مجھے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا۔ میں اس اشارے کو فوراً سمجھ گیا کیوں کہ اس سے پہلے بھی ایسے ہی بہت سے اشاروں کو میں نے سمجھا تھا اور اس اشارے کا مطلب تھا کہ مجھے رفع حاجت کا بہانا کرنا چاہئے ۔ پہلے بھی جب میں نے ایسے بہانے کئے تھے تو جان مجھے پکڑ کر عبدل اور جیک کی نظروں سے بچاتا ہوا دور جنگل میں لے جاتا تھا اور دہاں کمبل اتار کر خوب غور سے میرے بدن کو دیکھتا۔ خزانے کی بابت ایک ایک بات کو تفصیل سے نوٹ کرتا ، مجھ سے مشورہ کرتا اور پھر ہم دونوں واپس آ جاتے ۔ مگر جب واپس آتے توہمارے دماغ خزانے کو ڈھونڈ نکالنے کے حل سے بہت قریب ہوتے اور مزے کی بات یہ کہ ہمارے دشمن ہمارے ان ارادوں سے بالکل واقف نہ ہوتے ۔

اس وقت بھی وہ مجھے جنگل میں ایک طرف لے گیا، اور پھر میرے جسم سے کمبل اتار کر خزانے کے نقشے کو اچھی طرح دیکھا ۔ نقشہ دیکھ کر اس نے مجھے بتایا کہ اگر خدا نے ہماری مدد کی تو ہم آج رات ہی خزانہ پا لیں گے ۔ کھنڈرات اب نظر آ ہی رہے ہیں ، بس اب صرف زمین دوز بارہ دری تلاش کرنے کے بعد سنگھار کا کمرہ تلاش کرنا ہے۔

آج سے ہزاروں سال پہلے نامعلوم اور گمنام قوم کے یہ محلات اب جس حالت میں کھڑے تھے اسے دیکھ کر دراصل آنکھوں میں آنسو آنے چاہئے تھے مگر ہمارے دل خوشی سے پر تھے ، کیوں کہ ان ہی تباہ شدہ محلوں میں ہمارے لئے وہ کچھ موجود تھا جس کی خواہش ہر انسان کو ہوا کرتی ہے یعنی دولت۔۔۔ لازوال دولت۔

خیر میں بے کار کی باتوں سے یہ صفحہ نہیں بھرنا چاہتا ، مختصر یہ کہ ہم لوگ سہ پہر سے پہلے ان کھنڈرات کے پاس پہنچ ہی گئے ۔ اب ہمیں پہلے کی طرح درخت پھلانگ پھلانگ کر راستہ طے نہیں کرنا پڑا۔ بلکہ صاف میدان میں ہم اپنے خچروں پر سوار ہوکر آئے۔ عبدل ہم سے پیچھے تھا۔ میں بیچ میں اور جان سب سے آگے، احتیاطاً ہم نے اپنے پستول نکال کر ہاتھوں میں لے لئے۔ مانا کہ یہ کھنڈر ہزاروں سال سے ویران پڑے ہوئے تھے مگر کون جانے کہ ان کے اندر ہمارے دشمن پہلے ہی سے جا کر چھپ گئے ہوں!

کھنڈر کی عمارت کبھی اتنی زیادہ اونچی ہوگی کہ یقیناً آسمان سے باتیں کرتی ہوگی مگر اب صرف اس کی دیواریں نظر آتی تھیں۔ اور چھت غائب تھی ۔ یہ دیواریں بھی جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھیں اور ان کی دراڑوں میں اب گھاس اگ رہی تھی ، کاہی ان پر اتنی جمی ہوئی تھی کہ اگر کوئی ان پر چڑھنے کی کوشش کرتا تو یقیناً نیچے آ گرتا۔ چاروں سمت نحوست منڈلاتی محسوس ہو رہی تھی ، بالکل

جاری ہے….

خوفناک جزیرہ

خوفناک جزیرہ

– قسط…05

سراج انور

پچھلی قسط کا خلاصہ :

جنگل کی اندھیری رات میں فیروز کے مشورے کے مطابق جان نے خزانے کا مکمل نقشہ نہ مٹنے والی روشنائی سے فیروز کی کمر پر نقش کر دیا۔ اس کے بعد وہ دونوں جب واپس لوٹے تو جان کے خیمے کی تمام چیزیں تتر بتر تھیں، یوں لگ رہا تھا کہ کسی نے تمام خیمے کی تلاشی لی ہو۔ اور تلاشی لینے والا کبڑا جادوگر چیتن ہی تھا جو اسی وقت بغیر کسی ہتھیار کے جان اور فیروز کے سامنے آیا اور اس نے دوبارہ نقشہ حوالے کرنے کی مانگ کی۔

فیروز نے اپنے پستول کا رخ کبڑے کی طرف کر کے کہا کہ نقشہ اس نے اور جان نے زبانی یاد کر لیا ہے ۔۔۔ پھر یہ کہنے کے ساتھ ہی جان نے کبڑے کی نظروں کے سامنے نقشے کو آگ لگا دی اور نقشہ جل کر راکھ ہو گیا۔ کبڑا غصے کے مارے بری طرح کپکپا رہا تھا، اس نے فیروز کو دھمکی دی کہ وہ پچھتائے گا۔۔۔ اب آپ آگے پڑھئے ۔۔۔

“چھوڑئیے، اس پچھتانے کو، اگرہماری قسمت میں پچھتانا ہی لکھا ہے تو پچھتا لیں گے، مگر اب آپ یہاں سے تشریف لے جائیے کیوں کہ مجھے سخت نیند آرہی ہے ، اور اب میں آرام کرنا چاہتا ہوں۔”

“میں چلا جاؤں؟ ہاہاہا۔۔۔” کبڑا ہنسی کے مارے پھر دوہرا ہو گیا۔

“ضرور چلاجاؤں گا ننھے چوہے۔۔۔ تمہاری قسمت کا حال بتا کر جاؤں گا۔ یہ بتا کر جاؤں گا کہ آگے تمہاری تقدیر میں کیا ہونا لکھا ہے ، جو کچھ میں کہوں اسے کان کھول کر سن لو۔ اور جب میں چلا جاؤں تو تنہائی میں میری ان کہی باتوں پر خوب غورکرنا، نہیں نہیں میری بات کاٹنے کی کوشش نہ کرو، اور اب سنو کہ آئندہ تمہارے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے ؟ یہاں سے آگے بڑھنے پر کل تمہیں ایک میل کے اندر جنگل میں دو بڑے بڑے پتھر کے بت نظر آئیں گے، تم اپنے آپ کو ان سے خواہ کتنا ہی بچاؤ، مگر وہ تم پر ضرورگریں گے۔ اچانک طوفان آئے گا، درخت ٹوٹ ٹوٹ کر زمین پر گریں گے اور بڑی تیز ہوا چلے گی ، ایسے وقت وہ بت تم پر گر جائیں گے، مگر تم ان سے میرے جادو کی وجہ سے بچ جاؤ گے ، اس کے بعد تیسرے دن تم ایک پہاڑی راستے سے گزر رہے ہوں گے کہ اچانک زلزلہ آئے گا اور زمین پھٹ جائے گی، تم اس زمین میں دھسنے لگو گے مگر میرا جادو تم کو بچا لے گا۔ میرے تم پر یہ دو احسان ہوں گے اور میں ان احسانوں کے بدلے میں یہ چاہوں گاکہ تم خزانے کا وہ نقشہ جو اب تمہارے ذہنوں میں محفوظ ہے دوبارہ کاغذ پر اتار دو، میں تمہیں دو دن کا یہ وقت اس لئے دے رہا ہوں کہ تم میری طاقت سے واقف ہو جاؤ، میری عزت کرو اور میرا کہا مان لو۔ بس مجھے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہنا، اب میں جاتا ہوں، تم سے پرسوں ملاقات ہوگی، اور وہ ملاقات ایسی ہوگی کہ میرا رعب تم پر طاری ہو چکا ہوگا اور تم میری بات ماننے کے لئے بے قرار ہوں گے۔”

اتنا کہہ کر وہ جلدی سے مڑا اور بغیر پیچھے دیکھے فوراً خیمے کا پردہ اٹھا کر باہر چلا گیا ، میں نے اب جان کو دیکھا وہ کچھ سوچ رہا تھا ، کہ جو کچھ کبڑے نے کہا ہے اس پر یقین کیا جائے یا نہیں؟

“آپ کچھ سوچئے نہیں۔” میں نے جان سے کہا:

“میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ محض ہمیں خوفزدہ کر کے ہم سے وہ نقشہ دوبارہ بنوانا چاہتا ہے ۔ مگر میں اس کی چالوں سے اچھی طرح واقف ہو چکا ہوں اور خو ب سمجھتا ہوں کہ اس کو اکسانے والا کون ہے ، وہ کس کے کہنے پر یوں ہمیں بار بار آ کر ڈراتا ہے ۔”

“کس کے کہنے پر ڈراتا ہے؟َ” جان نے حیرت سے دریافت کیا۔

میں نے پہلے خیمے کا پردہ اٹھا کر یہ اطمینان کر لیا کہ کبڑا آس پاس کہیں ہے تو نہیںِ پھر میں نے جان کے قریب جا کر آہستہ سے اسے وہ وقت یاد دلایا جب کہ وہ نقشہ میری کمر پر بنانے کے بعد واپس خیمے میں آیا تھا اور میں نے جیک کے خیمے میں ایک شخص کو دیکھ کر بہت تعجب کیا تھا۔ بلکہ سب سے زیادہ تعجب اس بات کا ہوا تھا کہ جو شخص بہت کم بولا کرتا تھا اور جسے ہم اب تک گونگا سمجھتے رہے تھے، وہ چپکے چپکے دوسروں سے باتیں کرنے کا عادی ہے ۔ آپ شاید نہیں سمجھے۔

خیمے میں گونگا جیک کبڑے جادوگر سے باتیں کر رہا تھا۔

اگر کوئی بم پھٹ جاتا تو جان کو اتنی حیرت نہ ہوتی جتنی یہ سن کر ہوئی کہ جیک، جسے وہ سمجھتا تھا کہ اس کا دایاں بازو اور برے وقت میں کام آنے والا بہادر ساتھی ہے ، اپنی مطلب براری یا اپنی کسی مصلحت کی وجہ سے کبڑے چیتن سے ساز باز رکھتا ہے۔ آخر اس میں اس کی کیا مصلحت تھی ؟ سچ پوچھئے تو مصلحت بھی اس کے سوا اور کیا ہوگی کہ اس طرح وہ کبڑے جادوگر کو ہماری خبریں پہنچاتا رہے ، بلکہ میں تو کہوں گا کہ جیک اور کبڑا دراصل ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے تھے۔ جیک جس انداز سے اس سے رات کو خیمے میں باتیں کر رہا تھا ، اسے دیکھ کر یہ محسوس ہوتا تھا کہ اس کا اثر کبڑے پر بہت زیادہ ہے ، میرے مالک جان کا خیال تھا کہ جیک ہمارا ایسا دشمن تھا جو ہر وقت ہمارے ساتھ رہ کر ہمارے دلوں کا بھید معلوم کرنا چاہتا تھا ، اور موقع ملنے پر ہمیں قتل بھی کر سکتا تھا۔ ایسے دغا باز انسان سے اب ہوشیار رہنے کا وقت آ گیا تھا۔

رات اب بہت زیادہ ہو گئی تھی، ہوا میں ہلکی ہلکی نمی بھی پیدا ہونے لگی تھی، مچھر اتنے تھے کہ ہمیں کسی صورت سے بھی نیند نہیں آ رہی تھی۔ نیند کا نہ آنا ہی ہمارے لئے بہتر تھا کیوں کہ دشمن اب ہماری تاک میں تھے اور کسی وقت بھی ہم پر وار کر سکتے تھے۔ مگر وہ جو کسی نے کہا ہے نا کہ نیند تو سولی پر بھی آ جاتی ہے، تو ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوا۔ بستروں پر لیٹتے ہی ہم ایسے سوئے کہ پھر صبح سورج کی پہلی کرن نے ہی ہمیں جگایا ۔ میں نے اس سفر میں ایک خاص بات کو اپنی عادت بنا لیا تھا اور وہ بات یہ تھی کہ سونے کے بعد جب میں جاگتا تو بغیر ہلے جلے آنکھیں پہلے ہلکی سی کھولتا تاکہ اگر کوئی خطرہ آس پاس ہو تو اسے محسوس کر لوں۔

میری یہ عادت اس وقت بہت کام دے گئی، جیسے ہی میں نے آنکھیں ہلکی سی کھولیں تو مجھے پلکوں کی چلمن سے دروازے میں ایک دبلا پتلا سایہ کھڑا نظر آیا۔ میں نے جلدی سے آنکھیں بند کر لیں ۔ اب میں صرف آہٹ سن رہا تھا ۔ قدموں کی چاپ آہستہ آہستہ میرے قریب آنے لگی۔ پھر کوئی میرے پہلو میں آ کر بیٹھ گیا ، شاید اس نے جھک کر میری شکل کو دیکھا کیوں کہ اس کا گرم سانس میرے گالوں کو چھو رہا تھا ، اور پھر یکایک مجھے ایک آواز سنائی دی ۔

“فیروز ! بنو مت، میں جانتا ہوں تم جاگ رہے ہو، خدا کے لئے اٹھو اور میری بات سنو۔”

میں نے اطمینان کا لمبا سانس لیا اور آہستہ سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ کیوں کہ یہ عبدل کی آواز تھی ، اور جہاں تک مجھے یقین تھا عبدل ایسا آدمی نہیں تھا جس سے مجھے یا جان کو ڈر لگتا ۔ لیکن خطرے کے وقت غیروں سے تو کیا ا پنوں سے بھی خدشہ ہوتا ہے ، کہ کوئی غلط قدم نہ اٹھا بیٹھیں ۔ اس لئے میں مجبور تھا کہ عبدل کو بھی شک کی نظروں سے دیکھوں۔ میں نے لیٹے ہی لیٹے اپنے پستول پر ہاتھ رکھ کر کہا :

“کیا بات ہے ، آپ اس طرح چوری چھپے ہمارے خیمے میں کیوں آئے ہیں؟”

“فیروز! میری بات سنو” عبدل نے میرے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا:

“مجھے یقین ہے کہ تم بہت بہادر اور نڈر لڑکے ہو، مگر میں ایک خطرے سے آگاہ کرنے آیا ہوں۔”

“خطرہ۔۔۔ کیا خطرہ؟” میرے ساتھ ہی جان بھی یکایک ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔

“مسٹر جان، تم آرام سے پڑے سوتے ہو لیکن تمہیں کچھ بھی معلوم نہیں کہ یہاں کیا کچھ ہونے والا ہے ؟ ہم تینوں اس وقت سخت خطرے میں گھرے ہوئے ہیں، فیروز جاگ رہا تھا۔ اس لئے میں نے اسے ہی بتانا مناسب سمجھا۔ میں تم سے ایک راز کی بات کہنا چاہتا ہوں ، اور وہ یہ ہے۔۔۔ “

اتنا کہہ کر اس نے ادھر اُدھر دیکھا ، پھر خیمے کے پردوں سے کان لگا کر باہر کے ماحول کا اندازہ لگایا ، جب کوئی آہٹ سنائی نہ دی تو اس نے مطمئن انداز میں گردن ہلائی اور پھر ہمارے پاس آ کر کہنے لگا۔

“اور وہ راز یہ ہے کہ ہمیں جیک سے ہوشیار رہنا ہوگا ، ہم سمجھتے ہیں کہ وہ خاموش رہنے والا آدمی بہت معصوم ہے ، نہیں بلکہ وہ کبڑے جاودگر کا آقا ہے۔ اس نے کبڑے کو ہمارے پیچھے خزانے کا وہ نقشہ حاصل کرنے کے لئے لگا رکھا ہے ۔”

اس سے پہلے کہ جان کچھ بولتا میں نے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ پیدا کر کے کہا۔

“ارے! یہ ۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟”

“بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں، حقیقت یہی ہے ، میں نے ابھی ان دونوں کو آپس میں باتیں کرنے سنا ہے۔” عبدل نے دانت پیس کر جواب دیا۔

میں نے پھر حیرت ظاہر کی ، میں چاہتا یہ تھا کہ اگر عبدل بھی دشمنوں کے ساتھ ہے تو ہمیں خود اسے یہ نہیں بتانا چاہئے کہ ہم ان کے راز سے واقف ہو گئے ہیں ۔ اس طرح وہ ہمارے اور دشمن ہو جائیں گے ، مگر مجھے جلد ہی معلوم ہوگیا کہ عبدل ایسا نہیں ہے ، کیوں کہ اس کی آنکھوں میں سچ کی چمک تھی ، اور اس کے لہجے کی گھبراہٹ سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ ہمارا وفادار ہے۔ یہ اندازہ لگانے کے بعد میں نے جان سے کہا:

“جان صاحب ، عبدل ٹھیک کہہ رہے ہیں، آپ انہیں بتا دیجئے کہ ہمیں یہ بات پہلے ہی سے معلوم ہے اور اب ہم جلدی یہاں سے کوچ کر دیتے ہیں۔”

جان نے پھر مختصراً تمام باتیں عبدل کو بتائیں مگر میں اس موقع پر اس کی تعریف کئے نہیں رہ سکتا کہ احتیاطاً اس نے نقشے کا میری کمر پر نقل ہو جانے والا راز اب بھی عبدل سے چھپایا ۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس نے پہلی بار یہ کام عقل مندی کا کیا تھا۔ عبدل لاکھ اپنا ہی آدمی سہی مگر اپنوں کو غیر بنتے کیا دیر لگتی ہے ؟ جیک کی مثال ہمارے سامنے تھی!

عبدل نے جب سب باتیں سن لیں تو اس نے بھی یہی رائے دی کہ اب جلد سے جلد یہاں سے روانہ ہو جانا چاہئے ۔ میں نے غور سے عبدل کا چہرہ دیکھا ، تو اندازہ ہوا کہ اس وقت وہ سخت غصے میں ہے، بار بار اپنے چمڑے کے تھیلے میں سے اپنا وہی خاص قسم کا کمان جیسا ہتھیار نکال کر اس کی دھار پر انگلی پھیر کر دیکھتا تھا ۔ جان اس کے ارادے کو بھانپ کر بولا۔

“خبردا ر عبدل، خواہ مخواہ کسی سے انتقام لینے کی کوشش نہ کرنا۔ ہم یہاں خون بہانے نہیں آئے ، بلکہ خزانے کو اور اس مکھی کو تلاش کرنے آئے ہیں جس کے سامنے ساری دنیا کے خزانے ہیچ ہیں۔ سمجھے۔”

“میں سمجھ تو گیا مسٹر جان! مگر۔” عبدل نے وہ ہتھیار اپنے تھیلے میں رکھنے کے بعد کہا:

“مگر میں جیک کو اس کی اس غداری کی سزا ضرور دوں گا۔”

“نہیں ایسا ہرگز نہ ہونا چاہئے۔” جان نے کہا۔

“خیر آپ کہتے ہیں تو میں اپنے غصے پر قابو پانے کی پوری کوشش کروں گا ۔ خدا کرے کہ میں اپنے ارادے میں کامیاب رہوں ۔”

اتنا کہنے کے بعد وہ ہمارے خیمے سے باہر نکل گیا۔

سورج نے جو اجالا پورے جنگل میں پھیلایا تھا، اس نے ہمارے دلوں کو ڈھارس دی ۔ کیوں کہ یہی جنگل رات کو بہت بھیانک نظر آ رہا تھا ، اور اب دن میں اس کی ہیبت ایک حد تک کم ہو گئی تھی، جو لمبے لمبے درخت رات کو دیوؤں کی طرح نظر آتے تھے ، اب صبح کے اجالے میں اتنے بھیانک دکھائی نہ دیتے تھے ۔۔۔ ہم مل جل کر اپنا سامان باندھ چکے تھے اور اب یہ سامان خچروں پر لادنا باقی تھا، جیک ہم سب سے الگ تھلگ ایک بڑے پتھر پر بیٹھا ہوا اپنا پستول صاف کر رہا تھا ۔ میرے ان تینوں مالکوں کے رویے میں اب عجیب و غریب تبدیلی آ چکی تھی ، جان اور عبدل تو اب مجھے نوکر کے بجائے اپنا ساتھی سمجھتے تھے ، ہاں البتہ جیک کی آنکھوں میں میں نے ہمیشہ بے رحمی جھلکتی دیکھی تھی۔ جب بھی وہ مجھے دیکھتا بڑی خطرناک اور غصیلی نظروں سے دیکھتا ۔ پہلے تو میں ان نظروں سے مرعوب ہو جایا کرتا تھا مگر اب میں بھی ان نگاہوں میں نگاہ ڈال کر دیکھا کرتا ۔ اور تب جیک مجھے بڑی حیرت سے بار بار دیکھتا۔

اب ہم سب تیار ہو چکے تھے ، سامان کو ایک نظر دیکھنے کے بعد ہم نے اپنا سفر پھر شروع کیا۔ جنگل پھر بہت گھنا ہونے لگا تھا اور قدم قدم پر مشکلات سے واسطہ پڑ رہا تھا ۔ خچروں کے لئے راستہ بنانے کی خاطر ہمیں تیز دھار والے خنجروں سے راستے کے جھاڑ و جھنکار اور بل کھاتی ہوئی بیلیں صاف کرنی پڑتی تھیں۔ یہ بات لکھنے کو تو میں نے صرف دو لفظوں میں لکھ دی ہے ، لیکن اس کام کو کرنے کے لئے ہمیں جتنی محنت کرنا پڑی، وہ بس ہمارا ہی دل جانتا ہے ۔ ہمارے جسم لہو لہان ہو گئے تھے، کپڑے جگہ جگہ سے پھٹ گئے تھے اور ٹانگوں سے خون بہہ بہہ کر ہمارے جوتوں میں جم گیا تھا ۔ اس سفر میں تھکے ہوئے جسم کو آرام دینے کی خاطر میرے علاوہ باقی سبھی لوگ جنگل کے درمیان ملنے والے چھوٹے چھوٹے تالابوں میں کئی بار نہائے تھے ، جی چاہتے ہوئے بھی میں جان بوجھ کر نہیں نہایا تھا ، میری کمر پر جو نقشہ بنا ہوا تھا اس کے گھل جانے کا تو ڈر تھا نہیں مجھے، ہاں البتہ قمیض اتارنے سے میری کمر ننگی ہو جاتی اور نقشہ سب کی نظروں میں آ جاتا ۔ میں یہ کسی صورت سے نہیں چاہتا تھا ، خیر یہ تو اس وقت کی بات تھی جب کہ سب لوگوں نے نہانے کی خواہش ظاہر کی تھی ، مگر اب جب کہ میری قمیض بھی تار تار ہونے لگی تھی۔ زخموں سے میں چور چور تھا اور مجھے اپنی بھی خبر نہ تھی، فرض کر لیجئے اگر ایسے موقع پر قمیض میں سے وہ نقشہ دشمنوں کو نظر آ جاتا تو۔۔۔۔!

جگہ جگہ درختوں سے کمر لگا کر میں بظاہر سستانے کے لئے کھڑا ہو جاتا لیکن دراصل ایسا کر کے میں دوسروں سے اپنی کمر کو چھپاتا تھا۔ اس کے علاوہ کوشش کرتا کہ سب سے پیچھے چلوں۔ مگر ایسا کرنے کے باوجود بھی دل مطمئن نہ تھا ۔ کون جانے کب راز کھل جائے ، آخر اچانک مجھے ایک ترکیب سوجھ ہی گئی۔

میں نے اپ نے چہرے پر یکایک ایسا اثر پیدا کر لیا جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ میں بہت تکلیف میں ہوں، آنکھیں اس انداز سے کھول لیں جیسے میں بے ہوش ہونے والا ہوں ، ہلکی ہلکی سی ہائے ہائے کی آواز بھی نکالنی شروع کر دی، اس ہائے ہائے نے سب کو میری طرف متوجہ کرلیا۔ جان دوڑ کر میرے پاس آیا اور گھبرا کر پوچھنے لگا۔

” کیا بات ہے فیروز، کیا ہوا، تم کراہ کیوں رہے ہو؟”

“مجھے۔۔۔ مجھے بخار سا محسوس ہو رہا ہے ۔” میں نے کراہتے ہوئے جواب دیا:

“جلدی سے کوئی کمبل اڑھا دیجئے۔”

یہ سن کر جان فوراً خچروں کی طرف دوڑا ، عبدل اور جیک بھی سامان میں سے کمبل تلاش کرنے لگے ۔ درخت کے تنے سے ٹیک لگاتے ہوئے میں دل ہی دل میں ہنس رہا تھا ۔ جیک میرا دشمن بھی اس وقت مجھے بچانے کی فکر میں تھا، میں اچھی طرح جانتا تھا کہ اسے میری جان اتنی عزیز نہیں ہے ، جتنا کہ نقشہ، نقشہ چونکہ اس کے خیال میں میرے ذہن میں محفوظ تھا، اس لئے وہ مجھے بچانے کی کوشش کرنا ضروری سمجھتا تھا۔

سامان میں سے سب سے پہلے کمبل جان ہی نے نکالا اور پھر دوڑ کر میری طرف آیا، جلدی سے اس نے مجھے کمبل اڑھادیا اور مجھے سہارا دے کر آگے آگے چلنے لگا ۔ باقی لوگ ہمارے پیچھے پیچھے آنے لگے راستے میں جان نے بہت ہلکی سی آواز میں مجھ سے کہنا شروع کیا۔

“شاباش فیروز۔۔۔ اتنی سی عمر میں تم ایسی عقل مندی کی باتیں کر کے مجھے حیرت میں ڈال دیتے ہو، سچ بات تو یہ کہ راستے بھر میں بھی یہی سوچتا ہوا آیا تھا کہ اب جب کہ تمہاری قمیض پھٹ چکی ہے ، خزانے کے نقشے کی حفاظت کا انتظام کیا ہونا چاہئے؟ میں تمہاری اس ہوشیاری کی داد نہیں دے سکتا جو تم نے ابھی کی ہے۔۔۔ شاباش۔”

میں نے مسکرا کر جواب دیا:

“اور مجھے خود بھی آپ کے اس طرح سے یہ بات جان لینے کی تعریف کرنا پڑتی ہے، آپ نے بھی خوب پہچانا کہ میری اس ادا کاری کا مطلب کیا ہے؟”

“خیر یہ تو ہوا ۔” جان نے کہا:

“اب کوشش یہ کرو کہ جب تک تمہارے لئے کپڑے مہیا نہ ہو جائیں، تم اسی طرح اداکاری کرتے رہو، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، وہ خزانہ اسی جنگل میں کہیں چھپا ہوا ہے ۔ نقشے میں صرف جنگل ظاہر کیا گیا ہے۔ خزانے کی اصل جگہ نہیں دکھائی گئی، وہ جگہ ہمیں خود تلاش کرنی پڑے گی ۔ لیکن ان دشمنوں کی موجودگی میں یہ کام بہت مشکل نظر آتا ہے ۔ ہم جس جگہ بھی جائیں گے یہ لوگ ہمارے پیچھے پیچھے ضرور آئیں گے ۔”

بات واقعی معقول تھی ۔ لیکن اب اس کے علاوہ چارہ بھی کیا تھا ۔۔۔ ہمیں دشمنوں کی موجودگی ہی میں سب کام پورا کرنا پڑا تھا۔ جنگل کا راستہ ، اگر ہم اسے راستہ کہیں تو بہت ہی دشوار ہونے لگا تھا ، ہم لوگ اب شاخوں پر چڑھ کر اور دوسری طرف کود کود کر راستہ طے کر رہے تھے ۔ خچر چوں کہ ایسے گھنے درختوں کو پھلانگ نہیں سکتے تھے ، اس لئے ان کے لئے ہمیں راستہ ضرور صاف کرنا پڑتا تھا ۔ جیک ہم سب میں سب سے زیادہ طاقتور تھا، اس لئے وہی درختوں کو کاٹ کاٹ کر پھینکتا تھا ۔ دشوار گزار اور گھنے جنگل کے درختوں اور کانٹے دار پودوں سے رگڑ کھانے کے بعد خچروں کے جسموں پر بھی جگہ جگہ خراشیں آ گئی تھیں ۔ ہمیں ان کی بھی فکر تھی ، کیونکہ اس خطرناک سفر میں خچر ہی ہمارے لئے سب سے بڑا سرمایہ تھے ، راستے کی دشواریوں کا اندازہ میری یہ داستان پڑھنے والے اس بات سے کر سکتے ہیں کہ آدھے میل کا یہ فاصلہ ہم لوگوں نے پورے ایک دن میں طے کیا۔ صبح ہم نے سفر شروع کیا تھا اور اب شام ہونے والی تھی۔ یہ حالت دیکھ کر جان نے عبدل سے کہا۔

“میرے خیال میں ہمیں جلد از جلد اس جنگل کو پار کر لینا چاہئے ، ایسا نہ ہو کہ رات ہو جائے اور ہم یہیں پھنسے کے پھنسے رہ جائیں۔”

“مگر جس رفتار سے ہم چل رہے ہیں، اس طرح تو ہم یہ جنگل دو دن میں بھی پار نہیں کر سکتے۔”عبدل نے جواب دیا۔

جان کچھ دیر تک سر جھکائے سوچتا رہا اور پھر بولا۔

“عبدل !میرے خیال میں بہتر ہوگا اگر تم جیک سے بھی دریافت کر لو۔ وہ گونگا تو خیر بنا ہوا ہے مگر گردن ہلاکر جواب تو دے سکتا ہے ۔”

عبدل بھی اس رائے کو مانتے ہوئے جیک کی طرف مڑا ، مگر یہ دیکھ کر اسے بڑی حیرت ہوئی کہ جیک وہاں نہیں تھا۔ ہم نے درختوں کے تنوں کی اوٹ سے جھانک کر دور دور تک اسے دیکھا مگر اب صرف اس کا خچر کھڑا ہوا زمین پر اپنے پیر مار رہا تھا اور جیک اس پر سوار نہ تھا۔

فوراً ہی ہمیں خطرے کا احساس ہوا

جاری ہے…