آواز

آواز

سنو۔۔
روح کے درد عبث شل ہو چکے تھے
قلب آشفتہ
آنکھوں تلے سیاہ داغ
پلکوں پر جال عنکبوت
پھر
اک آواز کی روشنی میری رگوں میں پیوست ہوئی
گویا
سماعتوں میں شبنمی قطرے
شفا بن کر اتر گئے
اب
اس آواز کو تراش کر
معطر مجسم میں لکھوں گا
تب
بٹھا کر سامنے
نازک ہونٹوں پر رقصاں مسکراہٹ کو جادو ہی لکھوں گا
لب و لہجے کو خوشبو
اور
اس خوشبو کو گل طاؤس
گل لالہ
اور گل تسبح میں لکھوں گا
دراز گیسوؤں کو سائباں
ضو فشاں آنکھوں کو جام حیات لکھوں گا
لبوں کو پنکھڑی گلاب
ستواں ناک کو بہار
اور
مرمریں گال خوشبو بھرا گلاب لکھوں گا
آخر کار
اس پیکر جمال سے اٹھتی مہک کو سمیٹ کر نقرئی گلدان لکھوں گا
ہو جب لب کشا
تو انداز تکلم کو سمپورن راگ لکھوں گا
جب اتروں جھیل آنکھوں میں
ان ساعتوں کو قوس قزح کا رنگ لکھوں گا
جب کھنکنا کر ہنس پڑے وہ
تو
اسے مترنم جھرنوں کی لیکار لکھوں گا

عشق نامہ

عشق نامہ

پیکر تراشی گرچہ میرا منصب نہیں
میں تو بس اپنے قلبی احساسات و کیفیات کی تصویر کشی کرنے کا مکلف ہوں
آج میں اک حور شمائل سے اپنی اٹوٹ محبت کی سچی داستان رقم کرنے جا رہا ہوں
جو ہم دونوں کے معاملات مہر و محبت اور واردات عشق کی لازوال و معطر روداد ہے۔۔
جب لفظوں میں نغمگی
ساز
سوز
جذبات
خلوص
اور
سچائی کی آمیزش ہو جاتی ہے تو اک پاکیزہ جذبہ۔۔۔
محبت۔۔معرض وجود میں آتا ہے۔۔

محبت وہ نور و تجلیات کی بارش ہے جو دل کے ویرانوں میں بہار بن کر برستی ہے۔۔
ہمہ وقت محبوب کی چاہت کے راگ معجزاتی طور پر سنائی دینے لگتے ہیں۔۔

پھر دوجسم ایک جان ہو کر تیز و تند ہواوں میں اڑان کا لطف اٹھاتے ہیں۔۔
دنیا سے بے خبر صنم کی پرستش
اور
اک دوجے کی مسحور کن آواز سے بکھرے پھولوں سے روح کی تراوٹ کا سامان کرتے ہیں۔۔

آج میرے دل میں خیال آیا کہ وہ اپنی محبت کو راز رکھنا چاہے تو اسے حق ہے
مگر
میں اپنی ازلی و ابدی محبت کے لطیف جذبے و محسوسات کو سپرد قلم کر ہی دوں۔۔۔

میرے باطن میں پوشیدہ محبوب کے جمال کا احساس اک ایسی جھلملاتی شمع کی مثل روشن ہے
جس کی کرنیں میرے دل کو منور کر چکی ہیں۔۔۔
یہی وجہ ہے کہ میری سوچ
فکر
علم
ادب
فن
اور
شاہکار تحریروں میں وہی جلوہ گر رہتی ہے۔

اس کے خدو خال پر کیا لکھوں
کہ حسن کا بیکراں سمندر ہے
جس کی زلفوں سے میئسر ہے مجھے چاندنی سی ٹھنڈک
آنکھیں اس کی مہ کے پیالوں جیسی
اور
سیف الملوک جھیل کا اک عکس حسیں ہو جیسے
ہونٹ ایسے کہ جنھیں دیکھ کر پنکھڑی گلاب کی بھی شرماتی ہے
شبنمی وجود
تتلیوں کا رنگ جس کا پیراہن
اور
جسے پریاں بھی ہوائی بوسے دیں۔۔

میرا محبوب تو بس ایسا ہے

انمٹ محبت پر مختصر تحریر جس کا ایک ایک لفظ چاندنی سے دھلا ہے۔۔۔

پریمکا اور آنکھیں

پریمکا اور آنکھیں

میں روشنائی کی دوات میں ڈوبا ہوا پریمی جب ہزاروں میل کی مسافت پر تشریف فرما اپنی پریمکا کی آنکھوں کی بارگاہ میں ممتاز حضوری کا شرف حاصل کرتا ہوں تو وجدانی کیف سے سرشار ہو کر ان طلسماتی آنکھوں پر معطر قصیدہ لکھنے کا قصد کرتا ہوں
اور
سفید کاغذ پر ان روش چراغوں کی لو منعکس کرتے ہوئے نفس کی گہرائیوں میں اتر کر سوچتا ہوں کہ۔۔
پریم ہی وہ پاوتر جذبہ ہے جو نہ صرف روح سے کذب کو نوچ کر پھینک دیتا ہے بلکہ۔۔
پریم وہ پاوترتا ہے جو شعلوں کا روپ دھار کر روح کے اندھیروں کو اجالوں میں بدلتی ہے اور پھر دل شفاف موتیوں کی مثل چمکتا دکھائی دیتا ہے

سنو جانان ! تمھاری دلکش ، دلنشیں اور نشیلی آنکھیں میری کفایت نفسی کی ضامن بن کر جب مجھ پر اسرار کے در کھولتی ہیں تب کچھ ابہام نہیں رہتا
اور
یوں میں تمھاری شراب آنکھوں کا جام حلق سے اتار کر انھیں جام حیات لکھتا ہوں۔۔

معصوم آنکھیں
جن میں بانکپن رقص کرتا ہے
گہرا سمندر
شہد سی مٹھاس جس میں ہے
محبت کا قرار
شفا کا نسخہ
محبت کا گمان آنکھیں
میرا آئینہ بھی ہیں

مے کا پیالہ
نشے میں غرقان یہ آنکھیں
رہزن ہیں
مرے دل پہ قابض ہیں
تیری یہ نیم باز آنکھیں

حیا کا حسن
شرم سے جھکی جھکی آنکھیں
سراپا حجاب
میرے دل کی کتاب آنکھیں

کوئی پوچھے
تو بتلا دوں
یہ ہیں سیف الملوک جھیل سی آنکھیں
مترنم آبشار جیسی ہیں

گلاب چہرے پر نقاب
حسن یار کرے کمال
چمکتی آنکھوں کا جمال

شرح حیات
جادوئی حصار
نور جمال
مہکتا اک گلاب

آنکھ وہ جھپکے
تو
سحر ہو جائے

موند لے گر آنکھ
دل پر چھائے کالی گھٹا
کواڑ کھولے
پلکوں کو جنبش دے
سکوں
میرے دل کو تب آئے

سنو جانان !
تمھاری حسین آنکھیں تو

حضور آنکھیں
جناب آنکھیں
سوال آنکھیں
جواب آنکھیں
شوق وصال آنکھیں

روح پرور ہیں
مصوری کا کمال آنکھیں
میری زندگی بھی ہیں

تعلق

تعلق

میں آدھا تیرے پاس آیا ہوں

آدھا وہیں رہ گیا

ہوں میں ایسا تعلق ہوں

جو بنتے بنتے کہیں رہ گیا ہوں

شہزاد سلیم

تری اک نظر کے سوا

تری اک نظر کے سوا

میں آ رہا ہوں تری سمت اور کچھ بھی نہیں
امید تجھ سے مجھے تیری اک نظر کے سوا

مری اِن آنکھوں نے کیا کچھ نہیں ہے دیکھا مگر
نہیں ہے دیدنی شے کوئی تجھ کمر کے سوا

وہم کے سائے دل پہ

وہم کے سائے دل پہ

وہم کے سائے دل پہ چھائے ہوئے ہیں
خواب سب جیسے دھندلائے ہوئے ہیں

ہر اک قدم پر ہے بے یقینی کا عالم
راستے خود سے گھبرائے ہوئے ہیں

حقیقتوں کا عکس ہے یا کوئی فریب
آنکھوں میں منظر لرزائے ہوئے ہیں

سوچوں کے در پہ دستک دے رہی ہے
باتیں جو دل میں دبائے ہوئے ہیں

کبھی خوشی کا گمان ہوتا ہے
دکھ بھی ساتھ مسکرائے ہوئے ہیں

وہم کا پردہ اتارے تو جانیں منیب
ہم جو خود کو چھپائے ہوئے ہیں