افق پہ دھندلا سا چاند

افق پہ دھندلا سا چاند

حالات کے افق پہ دھندلا سا چھایا ہے
ہر سمت بے یقینی کا موسم دکھایا ہے

چپ چاپ ہیں فضائیں، خاموش ہے جہاں بھی
اندیشوں نے دلوں پہ پہرا بٹھایا ہے

وقت کے ہاتھ میں بھی زنجیریں سی پڑی ہیں
خوابوں کے قافلوں نے رستہ گنوایا ہے

ہر سوچ کے دریچے پہ تالے ہیں سوالوں کے
حقیقتوں نے دھوکے کا نقشہ بنایا ہے

یہ دور ظلمتوں کا، کب روشنی دکھائے؟
امید کا چراغ بھی کس موڑ آیا ہے

دنیا کے فیصلوں میں وفا کم نظر آئی
ہر شخص نے یہاں پر خود کو ستایا ہے

نہ کوئی چارہ گر ہے، نہ کوئی راہبر ہے
دل نے ہر اک قدم پہ صدمہ اٹھایا ہے

آنکھوں میں روشنی تھی، اب خواب جل چکے ہیں
یہ وقت کس مقام پہ ہم کو لے آیا ہے

تقدیر کے اندھیروں میں رستے ہوئے سوال
ہر حال میں نصیب نے بس امتحان پایا ہے

پھر بھی امید باقی ہے دل کے دریچوں میں
منیب دکھوں کے درمیاں بھی چراغ جلایا ہے

خوشبو نے انگڑائی لی ہے

خوشبو نے انگڑائی لی ہے

بدلا ہے موسم، خوشبو نے انگڑائی لی ہے

ہوا نے پھر سے دل میں اک لہر چلا لی ہے

بادل سے بھیگے خواب، آنکھوں میں سمائے ہیں

بارش کی بوندوں نے پھر یاد جگا لی ہے

سرد ہوا میں بھی کچھ گرمی کا احساس ہوا

شاید کہیں دل نے پھر چاہت چھپا لی ہے

پیڑوں کی شاخوں پہ پھر پھول کھلنے لگے ہیں

خوابوں نے پھر سے کوئی تصویر بنا لی ہے

یہ موسمِ بہار ہے، دلوں کو جو چھو جائے

فضا نے بھی ہر رنگ میں خوشبو سجا لی ہے

سخن میں خوشبو

سخن میں خوشبو

سخن میں خوشبو، جذبوں کی بات ہوتی ہے

یہ دل کی حالت کی کچھ خاص بات ہوتی ہے

کبھی غموں کا سفر، کبھی خوشی کا نش

ہر ایک لفظ اک احساس بات ہوتی ہے

کہیں پہ درد کا دریا، کہیں مسرت کا ہار

سخن میں چاہتوں کی یوں برسات ہوتی ہے

یہ حرف دل سے نکلیں، جاں میں اتر جائیں

سخن کی نرمی میں کچھ نرم بات ہوتی ہے

جو دل سے کہہ دو بات، وہ دل میں رہتی ہے

سخن کی چاشنی میں اک کائنات ہوتی ہے

سرد راتوں میں چُپ کے جیسی چادر ہے

سرد راتوں میں چُپ کے جیسی چادر ہے

غزل:

سرد راتوں میں چُپ کے جیسی چادر ہے
خاموشی میں عجب سی اِک لَہر ہے

چاندنی برف کی چمک جیسی ہے
دل میں بھی جیسے کچھ کہانی گہر ہے

ہاتھ سُونے ہیں، دِل بھی خالی سا ہے
اس ہواؤں میں کوئی کس قدر ہے

خواب آنکھوں میں سرد موسم سے
جاگتی سوچ میں مگر اک سفر ہے

دھند میں لپٹے ہیں راستے سارے
دور منظر پہ بے یقیں سا اثر ہے

یوں لگا، جیسے بات ہو کوئی
خاموشی کا بھی اک اپنا ہنر ہے

ہاتھ جیبوں میں، دل پریشاں سا ہے
یاد کا رنگ بھی اب مدھم تر ہے

سرد جھونکوں میں دل کی حالت ہے
آس کی شمع اب بھی روشن مگر ہے

پھول سوکھے ہیں، رنگ ماند پڑے
یوں لگا جیسے وقت خود بے خبر ہے

جاگتی آنکھوں میں فقط یہ خواب
منیب ایک چہرہ اب بھی دل کا نگر ہے

محبت اک خواب سی

محبت اک خواب سی

محبت ایک خواب سی، جو دل میں جاگتی ہے

خوابوں کی طرح یہ، دھیرے دھیرے بانٹتی ہے

اک پل کی خوشبو ہے، جو ہردم مہکتی ہے

دل کی گلیوں میں یہ، خاموشی سے بہکتی ہے

نہ لفظوں میں سمائے یہ، نہ آنکھوں میں دکھے

خاموش لمس جیسے، دھڑکنوں میں چھپے

یہ چاند کی کرن ہے، راتوں کو جگاتی ہے

تاریک سفر میں یہ، روشنی بناتی ہے

محبت وہ دعا ہے، جو دل سے نکلتی ہے

یہ زندگی کی راہ، ہر موڑ پہ ملتی ہے

خوابوں کے نگر میں، یہ

رقص کرتی رہتی ہے

محبت وہ کہانی ہے، جو صدیوں تک چلتی ہے

عشقیہ اظہار

عشقیہ اظہار

مرشد تم گواہ رہنا۔۔اک روز قلبی صداقتیں اور سچی پکار بر آئے گیاور تماپنے دل کے مخملی پردوں کے پیچھے چھپے عشقیہ اظہار میں عار محسوس نہیں کرو گی۔۔عالم ارواح سے اب تلک ہماری روحیں ریگ صحراوں میں بھٹک چکیںخوابوں کے منظر جو اب سچ ہوئے تو پھر خوف کیوں؟خوب غور سے مری کتاب عشق کے صفحہ اول پر نظر ڈالوجہاں تم نقش ہوجہاں تم عزت و اجلال ہواور باقی۔۔سب اوراق اب بوسیدہ ہوئےسب حروف مٹ گئے۔۔بادلوں نے اپنی انگلیوں سے چاند کے روشن ماتھے سے پردہ ہٹا کر میری آنکھوں کو روشن کیاگرد کے سب حجاب جھڑنے میں صدیاں لگیںخیر ہےجو ہو گیا سو ہو گیا۔۔آج اور آنے والے سب کل سچے ہیںیہ وعدہ رہایہ وعدہ رہامرشد تم گواہ رہنا۔۔سب عارضی پتھراوراپنے ہاتھوں سے تراشے بت ، دل کے مندر سے اٹھا کر پھینک چکا ہوںمجھے اک شمع تھی درکار جو میری روح کی غاروں میں اجالے کا سبب بنتی۔۔سو اب وہ ہے زمینی چاند ہے وہمگر اپنے حسن سے آسماں کے چاند کو گرہن لگاتی ہےعجب ہے اس کی مسکراہٹگلوں کو رشک کرنے پر مجبور کرتی ہے کہہم سا حسن اور خوشبو اسے کیسے میسر ہےبشر ہو کر جو حوروں کو بھی شرما دےپری پیکر ، سرتاپا قیامت ہےجس کی ہے ، اسے اس کا لمس مبارک ہوسنو ! میں ہی وہ خوش بخت ہوںکہجس کی تپسیاوں کا ثمر یہ گل ہےمرشد تم گواہ رہنا