وہ پیکر جمال تم ہو

وہ پیکر جمال تم ہو

ایک مرد جب کسی عورت کا عشق اوڑھ لے تو پھر کشا ہوتا ہے

میری زندگی ، میری جاناں سنو۔۔

عشقیہ اظہار کو ارتکاب جرم سمجھنے والوں کے گوش گزار کر دوں کہ۔۔

معشوقہ میں درج ذیل صفات ہوں تو عشق جائز ہو جاتا ہے

تمھارے عشق نے مجھ پر آشکار کیا کہ تم۔۔

دمشق کی حیادار و نرم خو عورت ہو جو لاکھوں میں ایک دلکش دکھائی دیتی ہے

عراقی عورت سی صراحت و کبریائی تمھاری ذات کا حسن ہے

فرانس کی اس عورت کی مثل ہو جو مخاطب کو اپنے تجربے سے جانچ لیتی ہے

چینی عورت سی دانائی ہر قدم پر تمھاری عزت و توقیر بڑھاتی ہے

انگریز عورت سی گہری ہو جو اپنے راز ، اپنا آپ کبھی افشا نہیں کرتی

ہسپانوی عورت کی طرز پر زور آزمائی میں مہارت بھی رکھتی ہو ، نڈر و بے باک بھی ہو

لبنانی عورت کی طرح تحمل و بردباری کا حسیں پیکر ہو تم

تم اس عظیم پاکستانی عورت کا عکس حسیں ہو جو اپنے محبوب کو اپنی نسوانیت کا مہمیز گر ، اپنے عشق
کا اعجاز و اعزاز ، اپنا محافظ ، اور
وضع قطع کے اعتبار سے وجاہت اور مردانگی کا پیکر تسلیم کرتی ہے تب
اسے کامل یقین ہوتا ہے کہ
یہی وہ مرد جو اس کی انوثیت کو پژمردگی سے بچا سکتا ہے

اس اٹوٹ محبت کے باوجود یہ عورت والدین کی عزت ، عظمت ، شان اور وقار کی سربلندی کے لئے تختہ دار تلک تو جا سکتی مگر حد عبور نہیں کرتی۔۔

الغرض مشرق و مغرب کا حسن سمیٹ کر اگر کوئی پیکر تراشا گیا ہے تو۔۔

وہ پیکر جمال تم ہو
وہ پیکر جمال تم ہو

اداس

اداس

نہ کچھ بنا کے ہوئے اور نہ کچھ گنوا کے ہوئے اُداس جب بھی ہوئے تیرے پاس آ کے ہوئے

مسلسل سفر ہے

مسلسل سفر ہے

قیام ہے کسی شعلہ بدن کی بانہوں میں
اور اُس کے بعد مسلسل سفر ہے میرے لئے

عجیب دربدری کا شکار ہوں وانی
کوئی بھی در ہے کہیں اور نہ گھر ہے میرے لئے

مجھے کوئی خوشی نہیں ہوتی تھی

مجھے کوئی خوشی نہیں ہوتی تھی

ہونے کو تو ہوتا تھا لیکن کچھ خاص نہیں ہوتا تھا مجھے
ترے بعد کسی کے مرنے کا بھی احساس نہیں ہوتا تھا مجھے

کچھ کہنے سے پہلے بھی صاحب وہ اتنا سوچا کرتا تھا
کچھ کر بھی اگر جاتا تھا تو وشواس نہیں ہوتا تھا مجھے

جب جب چھٹی ہوتی تھی مجھے وہ پاس بلا لیا کرتی تھی
اور میں اتنا چھوٹا تھا جب، کچھ پاس نہیں ہوتا تھا مجھے

ترے بعد کسی کے ہونے کی مجھے کوئی خوشی نہیں ہوتی تھی
غم بھی کوئی ملتا تھا مجھ کو تو راس نہیں ہوتا تھا مجھے

ایسا نہیں تیرے بعد کوئی دھوکہ نہیں دیتا تھا مجھ کو
ہاں یہ ہے کہ تیرے بعد مگر احساس نہیں ہوتا تھا مجھے

ترکِ محبت

ترکِ محبت

بھلے ہی جسم کو زخموں سے بھر دیا جائے
ارادہ ترکِ محبت کا کیوں کیا جائے

شریکِ جرم نہیں ہوں مگر یہ ڈر ہے مجھے
کہ ہمنوائی میں مجھ کو نہ دھر لیا جائے

کہا تھا کس نے کہ دیجے جنوں کا درس مجھے
ہُوا ہوں چاک گریباں تو اب سیا جائے

پیالہ ہاتھ میں لینا ہی مے گساری ہے
بھلے ہی اُس سے نہ اک گھونٹ بھی پیا جائے

جہاں پہ آ کے سبھی رہ تمام ہوتے ہیں
سفر شروع وہیں سے نہ کیوں کیا جائے

جو وجہِ زیست تھی وہ اب تو جا چکی وانی
تو کس کے رحم و عنایت پہ اب جیا جائے

بھلے ہی جسم کو زخموں سے بھر دیا جائے
ارادہ ترکِ محبت کا کیوں کیا جائے

شریکِ جرم نہیں ہوں مگر یہ ڈر ہے مجھے
کہ ہمنوائی میں مجھ کو نہ دھر لیا جائے

کہا تھا کس نے کہ دیجے جنوں کا درس مجھے
ہُوا ہوں چاک گریباں تو اب سیا جائے

پیالہ ہاتھ میں لینا ہی مے گساری ہے
بھلے ہی اُس سے نہ اک گھونٹ بھی پیا جائے

جہاں پہ آ کے سبھی رہ تمام ہوتے ہیں
سفر شروع وہیں سے نہ کیوں کیا جائے

جو وجہِ زیست تھی وہ اب تو جا چکی وانی
تو کس کے رحم و عنایت پہ اب جیا جائے

ورنہ کیا کیا نہیں کہ تم سے کہیں

ورنہ کیا کیا نہیں کہ تم سے کہیں

ورنہ کیا کیا نہیں کہ تم سے کہیں
وہ ہمارا نہیں کہ تم سے کہیں

یہ بھی اچھا نہیں کہ چپ بیٹھیں
یہ بھی اچھا نہیں کہ تم سے کہیں

بات یہ ہے کہ کچھ دنوں سے چین
ہم کو آتا نہیں کہ تم سے کہیں

لاکھ چاہے گا دل کہیں تم سے
ہم سے ہوگا نہیں کہ تم سے کہیں

جو خلا ہے تمہارے بعد کا دوست
اب بھرے گا نہیں کہ تم سے کہیں

ہم کو جانا ہے اک سفر پر اور
لوٹ آنا نہیں کہ تم سے کہیں

عشق ہے تم سے مانتے ہیں ہم
دل دوانہ نہیں کہ تم سے کہیں

ہم نے اب کے یہیں پہ رہنا ہے
بھاگ جانا نہیں کہ تم سے کہیں

نام پر اُس کے یہ ہمارا دل
اب دھڑکتا نہیں کہ تم سے کہیں

راس آتا ہے ہم کو رقصِ جنوں
راس لیلا نہیں کہ تم سے کہیں

دیکھتے ہیں تمہارے خالی کان
اور جھمکا نہیں کہ تم سے کہیں

کچھ دنوں سے ہمارے من میں بھی
کچھ بھی ہوتا نہیں کہ تم سے کہیں

تم سے کہنا ہمارے حق میں کبھی
کام آتا نہیں کہ تم سے کہیں

حالِ دل کہنا تم سے لازم ہے
کار فرما نہیں کہ تم سے کہیں

چاہتے ہیں کئی طرح سے تمہیں
ایک رشتہ نہیں کہ تم سے کہیں

درد ہوتا ہے ہم کو بھی وانی
لیکن اتنا نہیں کہ تم سے کہیں