Lucid dreams

Lucid dreams

روشن خواب اس وقت ہوتے ہیں جب خواب دیکھنے والے کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ خواب دیکھ رہے ہیں اور اکثر خواب کے مواد کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ روشن خواب دیکھنے کی صحیح وجوہات ابھی تک پوری طرح سے سمجھ میں نہیں آئی ہیں، لیکنتحقیق بتاتی ہے کہ اس کا تعلق ان سے ہو سکتا ہے:1. دماغ کی کیمسٹری نیورو ٹرانسمیٹر جیسی نوریپائنفرینسیروٹونن اور ایسٹیلکولین خواب دیکھنے میں حصہ ڈال سکتےہیں۔ 2 نیند کا مرحلہ واضح خواب عام طور پر REM نیند کے دورانہوتے ہیں، جب دماغ کی سرگرمی بیدار ہونے کی طرح ہوتی ہے۔3 خود آگاہی خود کی عکاسی ذہن سازی اور حقیقت کی جانچحقیقت کی جانچ کی مشق سے خواب دیکھنے کے امکانات بڑھسکتے ہیں۔4 دماغ کے علاقے پریفرنٹل کورٹیکس عارضی لابس اور بصریپرانتستا جیسے علاقوں میں ایکٹیویشن خواب دیکھنے میں شاملہو سکتی ہے۔5 جینیات کچھ لوگ قدرتی طور پر جینیاتی عوامل کی وجہسے خواب دیکھنے کا زیادہ شکار ہو سکتے ہیں۔6 مشق اور تربیت خوابوں کا جریدہ رکھنا، حقیقت کی جانچکرنا اور مراقبہ جیسی تکنیکیں خوابوں کی تعدد کو بڑھا سکتی ہیں۔7 نیند کا معیار مناسب نیند لینا مستقل نیند کے شیڈول کوبرقرار رکھنا اور نیند کے معیار کو بہتر بنانے سے خواب دیکھنے کےامکانات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔یاد رکھیں روشن خواب دیکھنے میں مشق صبر اور لگن کیضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ روشن خوابوں کو تلاش کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو نیند کا مستقل شیڈول تیار کرنے خوابوں کا جریدہ رکھنے اور حقیقت کی جانچ کی مشق کرکے شروعات کریں

What is Hypnotism

What is Hypnotism

ہنوس (Hypnos) نیند کے یونانی دیوتا کا نام تھا۔ اس لئے وہ جو نیند پیدا کرے اسے بمپومز (Hypnosis) کہا گیا۔ جبکہ عام طور پر اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ وہ مہارت جس سے دوسروں کے ذہن اور جسم پر اثر انداز ہو کر اسے سلا دیا وہ . جائے یا اس حد تک اس میں غنودگی پیدا کر دی جائے کہ وہ اپنی قوت ارادی تقریبا کھو بیٹے ہندی میں اسے ولی کون و دیا (Vishikiyan Vidya) کہا جاتا ہے اور اس سے مراد وہ علم ہے جس سے دوسروں کو اپنے مکمل کنٹرول میں کر لیا جاتا ہے۔ اس علم کی نیاد ابتدائی طور پر ہندوستان میں اپنی ذہنی قوت کو مرتکز کرنے کے لئے رکھی گئی تھی اور کہ دوسروں پر اثر انداز ہونے کے لئے۔ ہندوستان میں پریکٹس کرنے والوں نے س علم کو اپنی ذہنی صلاحیت بڑھانے اور سوچ کو مرتکز (Concentrate) کرنے کے ہیں جس لئے ہی استعمال کیا۔ انہوں نے اس کو ایسے تصور کیا کہ یہ خدا کا ایک ایسا تحفہ – سے وہ انسانوں کو سمجھ اور پہچان سکتے ہیں۔ ہندو جوگیوں نے اس علم کو فروغ دیتے ہوئے اس کو اپنی ذات کو پہچاننے کے لئے استعمال کیا۔ انہوں نے اس کو اپنے اندر کے انسان اور روح کو اور پوشیدہ رازوں کو پہچاننے کے لئے استعمال کیا اور اپنے آپ کو مکمل طور پر رب کائنات کی تابعداری میں وقف کر دیا۔ ہندوستانی عالم ہمیشہ یہی یقین رکھتے رہے کہ جسم سے دماغ کی طاقت زیادہ ہے اور تو بیچ یہ دی کہ کیا یہی چیز نہیں ہے جس نے انسانوں کو جانوروں سے افضل درجہ دیا۔ انہوں نے دیکھا کہ کیسے ہاتھی کو ایک چھوٹا سا نو کیلا آلہ کنٹرول کر لیتا ہے۔ اور خوفناک شیر کو صرف اک چھوٹے سے خنجر سے مارا جا سکتا ہے۔ ہم نے جو اپنی کہانیوں میں کئی دفعہ یہ بھی پڑھا ہے کہ بہت کیسے جوگی بزرگ جنگلوں میں گئے اور جب واپس آئے تو ان کی دینی طاقت ؟ بڑھ چکی تھی۔ آخر یہ کیسے انہوں نے حاصل کر لی کیونکہ جنگل میں تو ایسا کچھ نہیں تھا کہ جو ان کی اس سلسلے میں مدد کرتا۔ جنگل میں کوئی استاد تھا نہ کوئی سامان اور نہ کوئی دوسرا ذریعہ حقیقت میں وہ ایسا کرتے تھے کہ اپنی مذہبی قوت کو مرتکز کرنے کی صلاحیت بڑھا لیتے تھے۔ وہ کسی درخت کے نیچے بیٹھ جاتے اور گھنٹوں کسی ایک خاص نقطے کو گھورتے رہتے اس سے وہ اپنے دماغ کو ٹریننگ دیتے تھے کہ جو ذہن کہے گا وہی کرنا پڑے گا۔ ہم میں جس چیز کی کمی ہے وہ صرف یہ ہے کہ ہم کسی چیز پر اپنی زہنی طاقت کو مرتکز نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے ہم صورت حال کو صیح طور پر جانچنے اور پرکھنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اگر ہم یہ صلاحیت حاصل کر لیتے ہیں تو کسی بھی ایسی چیز پر نقل کر سکتے ہیں جس کو ہمارا دماغ چنے ۔ اس لئے ہندوستانی سوچ میں ذہنی قوت کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔لیکن اس کے برعکس مغرب بیرونی عناصر کو زیادہ ترجیح دیتا ہے۔ انہوں نے کبھی بھی روح اور جسم کے پیچیدہ سوالات کے جوابات معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے کبھی یہ سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ جسم اور روح پیدا کیسے ہوتے ہیں اور نہ انہوں نے انسان کے اردگرد موجود حلقے کو وسعت دینے کی ضرورت محسوس کی۔ وہ صرف ریت و روایات، کھانے پینے کی عادات اور مہذب ہونے اور شائستگی کو ہی فروغ دیتے رہے۔ بے شک و شبہ مغرب میں صرف یہ ہی خیال کیا جاتا تھا کہ انسان صرف وہ ہی بن سکتا ہے جس کا وہ خود ارادہ کرے۔ وہ یقین کرتے ہیں کہ انسان کا روح سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی کچھ اس سے لینا دینا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انسان کی ذہنی قوت سکڑ گئی۔ جب اس نے اپنی عملداری میں کم محسوس کی تو انہوں نے اپنی بادشاہت بڑھانے کے لئے دوسروں پر حاوی ہونے کی کوششیں شروع کر دیں۔ لیکن جلد ہی انہیں احساس ہو گیا کہ اس طرح کی بنیادی چیزوں سے ذہنی سکون حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ جس کے باعث اب وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ظاہرانہ ٹھاٹھ باٹھ اور شائستگی سے سکون حاصل نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی یہ طاقت کے ظالمانہ استعمال سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح اب مغرب میں پہلی دفعہ یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ یہ صرف دماغ ہی ہے جو وقت اور جگہ کا صیح احاطہ کر سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ دماغ ہی ہے جو انسان کو ودیعت ہوتی ہے اور اس کی یہ بہتر طاقت اس کے عمل کو کنٹرول کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے آدمی ہنستا اور آہ و زاری کر پاتا ہے اور وہ باتیں بھی کر جاتا ہے جن کی بنیاد فی الوقت نظر نہیں آتی۔ اپنے مشاہدات سے کئی دفعہ وہ ایسی باتیں بھی کر جاتا ہے جن میں آنے والے واقعات کی جھلک ہوتی ہے، جن کو اب مغرب بھی ماننے لگا ہے۔ لیکن یہ خوبی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان اپنی دینی قوت کو مرتکز کر پاتا ہے، جس سے اس کا باطن بیدار ہوتا ہے، جس میں وقت کا ادراک کرنے کی حس ہوتی ہے۔ سائنس میں ابھی تک کسی ایسی طاقت کا نہ تو کوئی ثبوت دیا جا سکا ہے اور نہ اس کی توجیح لیکن مشرق میں یہ سب گتھیاں بہت پہلے سلجھائی جا چکی ہیں اور پنڈتوں جوتشیوں اور صوفیوں پر یہ سب چیزیں آشکارا ہیں۔ لیکن ان سب مشاہدات اور تجزیات کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایسے الفاظ میں لکھ دیتے ہیں جن کو سمجھنا مشکل ہے۔ ترجمہ کرنے میں یا تو ان کے معنی تبدیل ہو جاتے ہیں یا وہ سمجھ میں نہیں آتے۔ ہم کچھ ابتدائی کوششیں کر کے نتیجہ تو اخذ کر لیتے ہیں لیکن ان کی درمیانی کڑیاں غائب ہی رہتی ہیں۔ جیسے جیسے ان نیک اور پارسا لوگوں نے دماغ اور انسانی نفسیات کا مطالعہ کیا ان کو خوشگوار حیرت ہوئی کہ دماغ کے دو حصے ہیں ایک وہ جو بظاہر نظر آتا ہے اور دوسرا دماغ کا اندرونی حصہ ، یعنی شعور اور لاشعور ہمارا باہر والا دماغ یعنی شعور ہر لمحے دنیاوی حالات و واقعات کا جائزہ لے رہا ہوتا ہے اور جب یہ کام نہیں کر رہا ہوتا یعنی انسان سو رہا ہو اور دماغ حالات و واقعات کا جائزہ نہ لے سکے تو اندر والا دماغ یعنی لاشعور بہت تیزی سے کام کرنے لگتا ہے۔ اگر چہ ایسا ہر ہرگز نہیں ہے کہ لاشعور اس وقت کام نہیں کر رہا ہوتا جب انسان جاگ رہا ہوتا ہے، ہو لیکن ہمیں لاشعور کے کام کرنے کا اس وقت زیادہ احساس نہیں ہو پاتا بالکل اسی طرح لاشعور کے اس وقت زیادہ احساس اسی طرح یہ تھے کہ دن کی روشنی میں ہے کام کا احساس ہوتا ہے جس وجہ سے ہم جیسے کہ دن کی روشنی میں ہم ستارے نہیں دیکھ پاتے۔ اسی طرح جب ہم سو رہے ہوتے ہیں تو ہمیں لاشعور کے کام کرنے کا احساس ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہم خواب دیکھتے ہیں۔ ایسے وقت لاشعور کی اڑان اتنی اونچی چلی جاتی ہے کہ وہ ایسی چیزیں بھی ہیں تو سوالات کا وہ دیکھ لیا ہے جن کو ہم نے پہلے بھی نہیں دیکھا ہوتا۔ کبھی بھی وہ ایسے واقعات بھی دیکھ لیتا ہے جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا ۔ یہ وہ حالت ہوتی ہے جس کو خواب کہتے ہیں اور ان کا کچھ حصہ تو وہ ہوتا ہے جو واقعات گزر چکے ہوتے ہیں اور کچھ وہ ہوتے ہیں جو بیتے تو نہیں ہوتے لیکن ہمارے شعور میں موجود واقعات کا تسلسل ہوتے ہیں۔ ایسے میں دماغ کی وہ حس آنے والے واقعات کا سامنا کرا دیتی ہے۔ یوں لاشعور کا کردار بہت اہم ہو جاتا ہے کیونکہ لاشعور کو ماضی اور مستقبل کی جھلکیاں دیکھنے میں بالکل وقت نہیں ہوتی ۔ کئی دفعہ وہ ایسے واقعات بھی دیکھ لیتا ہے جو کبھی آنکھوں کے سامنے سے گزرے ہی نہیں ہوتے۔ لیے کئی واقعات ہمیں انسانی تاریخ میں رقم مل جاتے ہیں۔ ایک دفاعی امریکہ کے صدر ابراہم لنکن نے خواب دیکھا کہ ان کا قتل ہو گیا ہے۔ اس کی لاش وائٹ ہاؤس میں پڑی ہے جس پر سفید کپڑا پڑا ہوا ہے اور اس کی بیوی اور خاندان کے افراد اس کی موت پر سوگ منا رہے ہیں۔ خواب میں اس نے اپنے قاتل کو بھی دیکھا اور یہ نوٹ کیا کہ جس وقت قتل ہو رہا تھا وہ وائٹ ہاؤس کے ایک کمرے سے نکلا تھا۔ پہلے وہ ایک جگہ رکا اور پھر لنکن کی طرف آیا اور جیسا کہ لنکن نے خواب میں دیکھا کہ وہ فوراً ہی مر گیا۔یہ خوفناک خواب دیکھ کر لنکن فورا ہی جاگ گیا اور دیکھا کہ وہ پسینے میں بھیگا ہوا تھا۔ پھر بھی اس نے بہت احتیاط سے جو بھی باتیں خواب میں دیکھی تھیں اپنی ڈائری میں لکھ لیں۔ اس نے یہ تمام باتیں جو خواب میں دیکھی تھیں اپنی بیوی کو بھی بتائیں بشمول وقت، تاریخ اور جگہ کہ جب اس نے اپنے آپ کو قتل ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ آپ کو شاید یقین نہ آئے لیکن تمام تر احتیاطوں کے باوجود لیکن اپنی موت سے نہ بچ سکا جو بالکل اسی انداز میں آئی جیسا کہ اس نے خواب میں دیکھا تھا۔یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس سے ان لوگوں کو بھی جو ہر بات کی تو بیچ چاہتے ہیں یقین کرنا پڑا کہ لاشعور کتنی عجیب اور حیران کن حد تک کارکردگی کا اہل ہے۔ مغربی ماہر نفسیات نے ان واقعات کو تفصیل میں لانے کے بعد ان کا سراغ لگانے کی کوششیں شروع کر دیں کہ اس قسم کے واقعات کیسے اور کیوں ہوتے ہیں۔ اسی سراغ اور سائنسی ریسرچ کا نتیجہ آخرکار مسمریزم اور ہپناٹزم کی شکل میں سامنے آیا۔ ہپناٹزم کی تعریف عام طور پر یہ کی جاتی ہے کہ یہ وہ عمل ہے جس سے دوسروں پر مصنوعی نیند طاری کر دی جاتی ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہ ایسی پیدا کردہ مصنوعی حالت ہے جسمیں معمول کے دماغ کا کچھ حصہ کام کر رہا ہوتا ہے۔ اس لئے ہپناٹزم سے مراد وہ نیند ہے جو ایک ہپناٹزم کرنے والا اپنے معمول میں پیدا کرتا ہے جس میں معمول اپنے باہر والی دنیا سے بے خبر ہو جاتا ہے لیکن وہ تمام کام کرتا ہے جس کا حکم ہپناٹائز کرنے والا اپنے معمول کو دیتا ہے یعنی یہ وہ طریقہ ہے جس میں ایک آدمی دوسرے کی اس طرح مدد کرتا ہے کہ وہ باہر کی حقیقتوں سے نکل آئے اور اس کی رہنمائی میں وہ گہرائی میں جا کر خیالات کو جذب اور مرتکز کر سکے اور اس عمل کے دوران معمول کو ہپناٹائز کرنے والا جو بھی ہدایت دیتا ہے وہ اپنے خیالات کو اسی کے مطابق مرکوز کر لیتا ہے اور یہ معمول کی وہ حالت ہے جس میں وہ اپنی توجہ اپنے خیالات و واقعات کو صرف ہپناٹائز کرنے والے شخص کے کہنے کے مطابق ہی رکھتا ہے۔ نیند میں خیالات کو مکمل مرتکز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ حقیقت میں ہم سب روز مرہ زندگی میں کبھی نہ کبھی اس کا سامنا ضرور کرتے ہیں۔ جب کبھی ہم اپنے خیالات میں گم ہوتے ہیں یا بہت زیادہ پسندیدہ ٹیلیویژن پروگرام دیکھ رہے ہوں تو باہر کے حالات کو بھول جاتے ہیں۔ بے شک ہم سن بھی رہے ہوتے ہیں اور دیکھ بھی رہے ہوتے ہیں لیکن اس حالت میں ہمیں اگر کوئی آواز بھی دے تو سنائی نہیں دیتی۔

گو یہ اپنی طور پر کم ہونے کی حالت کچھ دیر ہی رہتی ہے اور پھر ہم حقیقت کی دنیا میں واپس آ جاتے ہیں۔ لیکن عارضی طور پر کم ہونے کی اس حالت کو ہم ہپناٹزم کی حالت سے دے سکتے ہیں۔ کبھی لوگ حالات و واقعات کو اتنا تکلیف دہ پاتے ہیں کو اپنے حالات اور ذہنوں وغیرہ سے تنگ آ کر ان سے اپنے آپ کو کونی طور پر باہر لانا چاہتے ہیں۔لیکن یہ وہ حالت ہے جس میں معمول ہپناٹائز کرنے والے کے احکامات کو بغیر کسی ہچکچاہٹ اور سوچے بغیر کہ اس کے اثرات کیا ہوں گے قبول کرتا ہے۔ اس حالت میں پچھلی کی طرح تمام احکامات کی تعمیل کرتا ہے اور بالکل اسی طرح کرتا ہے جیسے کرنے کو اسے کہا جاتا ہے۔ معمول ایک قسم کا ہپناٹائز کرنے والے شخص کے دماغ ز کا حصہ بن جاتا ہے اسی طرح سنتا ہے اسی طرح سوچتا ہے وہی کرتا ہے جو ہپناٹائزر اسے کہتا ہے۔ یہ سکتہ کی وہ کیفیت ہے جس میں ہوتا تو وہ بے ہوش ہے لیکن جسم کام کر رہا ہوتا ہے۔ ہپناٹائز کرنے والا اس حالت میں چاہے تو اس کا درد بھی دور کر سکتا ہے یا درد میں مبتلا کر سکتا ہے۔ وہ معمول کو کہہ کر کوئی کام کروا بھی سکتا ہے اور اسے کوئی کام کرنے سے روک بھی سکتا ہے۔ معمول ہپناٹائز کرنے والے کے ہاتھ میں صرف کوئی اوزار یا کوئی کھلونا بن کر رہ جاتا ہے۔یہی وہ وجہ ہے جس کے لئے ہپناٹزم پر اکثر تنقید کی جاتی ہے لیکن دوسرے علوم کی طرح اس سے نیک اور برے دونوں کام لئے جا سکتے ہیں۔ ایک ماہر نفسیات اسے استعمال کر سکتا ہے کہ اس مریض کی کھوئی ہوئی یادداشت واپس آ جائے۔ ایک ڈاکٹر اس کو درد اور دوسری بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کر سکتا ہے ایک مجرم ہپناٹائزر اس کو اپنے غلط مقاصد کے لیے بھی استعمال کر سکتا ہے جس میں صرف اس کا اپنا فائدہ ہی ہو لیکن ایسے لوگ بھی موجود ہیں کہ ایک معمول کو جب ایسے کام کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی جو اس کی مرضی کے خلاف تھا تو وہ ٹرانس سے باہر آگئے اور وہ کام کرنے سے انکار کر دیا۔ سوائے بہت گہری نیند کے Deepest) (Trance – باقی صورتوں میں ایک حد تک ہی معمول ( مرد یا عورت ) کو اس کی مرضی کے خلاف کام کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے اور وہ اس حد سے آگے نہیں جائیں گے۔ اس لیے یہ نظریہ کہ اپنا نائز کرنے والا اپنے معمول سے ہر کام کروا سکتا ہے چاہے وہ کام کتنا ہی غلط کیوں نہ ہو غلط فہمی پر مشتمل نظر آتا ہے۔اگر چہ کئی دفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ بہت مضبوط ہپناٹسٹ نے ایک کمزور ارادے کے شخص کو کنٹرول کر لیا لیکن فی الوقت جب آگاہی کے ایسے مختلف طریقے مود ہیں جن سے ذہن کو مضبوط کیا جا سکتا ہے ایسا ممکن نہیں ۔ وہ دن چلے گئے جب اس علم کو کچھ جاننے والے عام لوگوں کو بے وقوف بنا کر ان کا استحصال کرتے تھے۔ اس علم کے نام پر اب فراڈ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے برخلاف کئی ملکوں کی پولیس اسے عادی مجرموں سے اقبال جرم کرانے کے لیے بھی استعمال کرتی ہے۔ ہپناٹزم ایک فطری عمل ہے جس میں ہپناٹزم کا ماہر دوسرے شخص کی مدد کرتا ہے کہ وہ ہپناٹائز نیند کی حالت حاصل کر لے۔ وہ صرف رہنمائی کرتا ہے جب کہ اصل کام معمول خود کرتا ہے۔ ہپناٹائز کرنے والا اس صورت میں کچھ بھی نہیں کر سکتا اگر معمول کسی کام کو کرنے کے لئے آمادہ نہ ہو۔ ہپناٹسٹ اپنے علم کا ماہر ہوتا جبکہ ہم اس کے بارے میں زیادہ علم نہیں رکھتے لیکن پریکٹس کے بعد ہم اپنی رہنمائی خود کر سکتے ہیں اور ہپناٹائز کرنے کے مقاصد حاصل کرنے کے لئے مدد کر سکتے ہیں۔ اس مرحلے پر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو ہپناٹزم کی نیند ہے وہ دینی اس کمزوری کی حالت نہیں ہے۔ آئیں پہلے یہ وضاحت کر لیں کہ ہماری دینی قابلیت ہے کیا ؟ وہ عام طور پر لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو ذہنی طور پر صرف 1 کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں اور دوسرے وہ جو اپنی زہنی صلاحیت کو مرتکز کر سکتے ہیں۔ پہلی قسم کے لوگ ہر کام کر سکتے ہیں لیکن مکمل ماہر کسی کام کے نہیں ہوتے۔ وہ جہاں کہیں بھی جاتے ہیں حالات کا فوراً اور اک کر لیتے ہیں۔ فطرتی طور پر وہ باہر کی طرف دیکھنے والے (Extrovert) ہوتے ہیں۔ جیسے ہی وہ آپ کے ڈرائنگ روم میں داخل ہوں گے وہ آپ کے مرتبے کا اندازہ لگا لیں گے جس میں صوفہ، قالین اور دوسری وہاں موجودہ چیزیں مدد کرتی ہیں۔ آپ جب آ کر ان کو اپنا تعارف کرائیں

گے وہ پہلے ہی بہت کچھ آپ کے بارے میں جان چکے ہوں گے۔ وہ کئی چیزوں کے بارے میں نہیں جانتے ہوں گے لیکن اپنے کام کے ماہر ہوں گے۔ وہ آپ کو 39 قسم کے پودوں کے بارے میں بتا سکتے ہیں اور آپ کو یہ باور کرانے کی کوشش کریں گے کہ ان کا علم اور تجربہ بہت وسیع ہے اور وہ ہر چیز کو بہت تفصیل میں جا کر دیکھتے (Pipevision) ہیں۔ اس سلسلے میں بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ اس سلسلے میں دو بھائیوں کی مثال دی جاسکتی ہے جو شکاری تھے ہر وقت تیر کمان ہاتھ میں لئے تیر کمان میں چڑھاتے ہوئے رہتے ایک دن اُن میں سے ایک بھائی کو اُن کے استاد نے کہا کہ کیا آپ وہ درخت دیکھ سکتے ہو اور اس کے گرد کا علاقہ ؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں میں دیکھ سکتا ہوں اور پھر کہا کہ میں آپ کو دیکھ رہا ہوں ۔ بھائی کو، اپنے جسم کو، وہ درخت اور اس پر بیٹھا ہوا پرندہ۔ پھر استاد نے دوسرے بھائی سے پوچھا کہ آپ درخت پر کیا دیکھ سکتے ہو؟ کون سا درخت جناب! دوسرے بھائی نے پوچھا اور پھر کہا کہ اس پرندے کے دھندلے عکس کے علاوہ تو کچھ نظر نہیں آ رہا۔ جو میں بالکل صاف دیکھ سکتا ہوں وہ اس پرندے کی آنکھ ہے اور جب استاد نے حکم دیا دوسرا بھائی اس پرندے کی آنکھ کا درست نشانہ لگانے میں کامیاب ہو گیا۔ استاد نے نشانہ لگانے کے لئے پہلے بھائی کو کہا ہی نہیں کیونکہ اسے یقین تھا کہ وہ اس میں ناکام ہو جائے گا۔ یہاں پہلا بھائی اس پہلی قسم کے لوگوں سے تعلق رکھتا تھا جیسا کہ پہلے وضاحت سے بتایا جا چکا ہے جبکہ دوسرے شاگرد کا تجربہ بہت وسیع تھا اور وہ عمل پر یقین رکھتا تھا۔ ہپناٹزم کی اصطلاح میں یہ دوسری قسم کے لوگ زیادہ آسانی سے ہپناٹائر ہو جاتے ہیں۔ یعنی عملی مشاہدہ کرنے والے اور اپنے مشاہدے میں ہی رہنے والے حالانکہ ہپناٹائز حالت کو ایک قسم کی نیند ہی کہا جاتا ہے لیکن حقیقت میں یہ نیند نہیں ہوتی۔ اس کے برخلاف یہ تو آگاہی اور جاگنے کی وہ حالت ہے جس میں روح کی غیر مرئی طاقت بھی شامل ہو جاتی ہے۔ بظاہر معمول اس میں سویا ہوا نظر آتا ہے لیکن اندرونی طور پر وہ زیادہ جاگ رہا ہوتا اور زیادہ چست ہوتا ہے۔ انسانی ذہن کے کام کرنے کے طریقے کو جاننے کے لئے علم نفسیات کے بہت زیادہ مشاہدے کی ضرورت ہے۔ صدیوں سے یہ جانا جاتا ہے کہ لاشعور (Sub Conscious Mind)کبھی بھی نہیں بھولتا شعوری (Conscious Mind) طور پر ذہن جو تاثرات لیتا ہےوہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مٹتے جاتے ہیں جبکہ لاشعور اپنے مشاہدات مستقبل میں استعمال کے لئے ہمیشہ محفوظ رکھتا ہے۔ اس کی واضح مثال وہ اوائل عمری کی یادداشت ہوتی ہے جو کبھی ذہن سے نہیں نکلتی اور اکثر اوقات عصر حاضر کے ماڈرن لوگوں ، روایات پسند اور توجیح پسند لوگوں کے درمیان گرما گرم بحث کا موضوع بھی بن جاتی ہے۔ کچھ تو بیچ پسند یہ بھی کہتے ہیں کہ لاشعور میں جو یاداشتیں ہوتی ہیں وہ اس وقت سے ہوتی ہیں جب بچہ ابھی ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے۔ اس چیز کا کوئی ٹھیٹ جس سے یہ بات ثابت یا جھٹلائی جا سکے موجود نہیں ۔ ہم کبھی کبھار ایسے لوگوں سے بھی ملتے ہیں جو کہتے ہیں کہ کچھ اجنبی جگہیں ہمیں ایسے لگتی ہیں جیسے پہلے بھی ان جگہوں پر آئے ہوئے ہیں اور یہ جگہیں ہمیشہ دریا یا ندی کے نزدیک ہوتی ہیں۔ تو بیچ پسند یہ کہتے ہیں کہ جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو وہ ایک پانی کے تھیلے میں ہوتا ہے : اس لئے یہ بات اس وقت سے لاشعور میں بیٹھ جاتی ہے جب کہ بچہ ماں کے پیٹ میں تھا اور وہ بڑا ہو کر پانی بہنے والی چیزوں یعنی ندی یا دریا کے پاس جاتا ہے تو اس کالا شعور ان کو ایسے محسوس کراتا ہے جیسے وہ جگہ اس کی جانی پہچانی ہے۔ ان کی اس بات سے یہ چیز بھی ثابت ہوتی ہے کہ لاشعور اس وقت کی یادداشت بھی محفوظ رکھتا ہے جب کہ وہ ماں کے پیٹ میں تھا اور پوری طرح ذہن بن بھی نہیں پایا تھا۔لاشعور (Sub Consious) کے پاس کچھ ایسی زیادہ یادداشت اور چیزوں کو سمجھنے کی طاقت ہوتی ہے جس کا تجزیہ اور توجیح مکن نہیں۔ لاشعور کو وقت اور جگہ کی قید بھی نہیں ہوتی۔ وہ ماضی اور مستقبل دونوں میں جھانک سکتا ہے اس لئے کبھی کبھی ایسی غیر معمولی مستقبل بینی بھی کر لیتا ہے جیسے کہ اس نے صدر لنکن کے سلسلے میں کی۔ ہپناٹائز کرنے والا اس طاقت کا استعمال کرتا ہے معمول کو اس چیز کا احساس دلائے بغیر کہ اس کا لاشعور استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس لئے صبر ، قوت، ارادہ اور لگا تار کوشش ہپناٹزم کی بنیادی ضروریات میں سے ہیں جس سے اس کی پوشیدہ طاقتیں ظاہر ہو جاتیں جاتا ہے جو وہ چاہتا ہے اور اس کے عمل سے اس کی زندگی بہت زیادہ بہتر ہو جاتی ہے۔ اگر چہ ہپناٹزم کا معجزانہ استعمال چاہے یہ اچھائی کے لئے ہو یا برائی کے لئے ہپناٹزم حاضر میں انسانی علم نے بہت زیادہ بہت پرانے زمانے سے کیا جا رہا ہے۔ عصر حاضر :وسعت اختیار کر لی ہے لیکن پھر بھی ہپناٹزم کا خزانہ، جادو اور مقناطیسیت کے بہت سے پہلو ابھی بھی دریافت ہونے باقی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ صرف علم پر منحصر نہیں ہے اس کے لیے موزوں حس، تجربے اور گہرے مشاہدے کی ضرورت ہے ہپناٹزم روح کی جسم پر حکمرانی قائم کرتا ہے۔ اندرونی صلاحیت پر عمل کرنے کی قابلیت اور انسان میں موجود مقناطیسیت کو بڑھاتا ہے۔ اس لئے ہپناٹزم نفسیات کا وہ عمل ہے جس میں بہت زیادہ کمال چاہئے۔لیکن اس قسم کے علوم میں ان پر مضبوط یقین کا ہونا ضروری ہے اور یہ وہ چیز ہے جو ہپناٹزم کو بنیاد فراہم کرتا ہے۔

Deja Vu

Deja Vu


آپ نے کبھی نہ کبھی یہ محسوس کیا ہوگا کہ ہمارے سامنے ہونے والا واقعہ ہماری زندگی میں پہلے بھی رونما ہوچکا ہے۔
یا آپ جو کچھ دیکھ رہے ہیں یا جو کچھ اب بیت رہا ہے یہ آپ پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔
یا پھر آپ نے جو کچھ کہا یا سُنا ہے یہ سب آپ پہلے بھی کہہ اور سن چکے ہیں۔
یا کسی انجان اجنبی جگہ جاکر آپ کو محسوس ہوتا ہو کہ آپ وہاں پہلے بھی جاچکے ہیں، حالانکہ آپ کبھی نہیں گئے ہوتے۔
کیا یہ باتیں ہم نے پہلے سے خواب میں دیکھی ہوتی ہیں یا یہ پہلے سے جان لینے کی ہماری کوئی باطنی صلاحیت ہے یا پھر یہ کوئی واہمہ، ذہنی خلل یا نفسیاتی مرض ہے؟
ماہرینِ نفسیات اور سائنس دان اس پر عرصہ دراز سے تحقیق کر رہے ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔
یونانی مفکر ارسطو سمیت قدیم زمانے کے لوگ اس بات پر یقین کرتے تھے کہ ہماری روح ہماری پیدائش سے قبل بھی کہیں وجود رکھتی تھی اور موت کے بعد بھی اس کا وجود قائم رہتا ہے۔
اس کے علاوہ دورانِ خواب ہماری روح اس جسم کے باہر سفر کرتی ہے، خواب میں سوتے وقت ہماری روحیں گھومتی پھرتی ہیں تو وہ جس جس جگہ جاتی ہیں اور جس جس سے ملتی ہیں جب ہم جاگنے پر وہ دیکھتے ہیں یا ان میں سے کسی سے ملتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ یہ سب ہمارے ساتھ پہلے بھی ہوا ہے۔
1876ء میں فرانسیسی سائنس دان ایمل بوراک Emile Boirac نے اس پراسرار کیفیت پر تحقیق کی اور اس ایک انوکھے احساس اور کیفیت کو “Déjà vu” کا نام دیا جسے اردو میں “ڈیژاوو” لکھا جاتا ہے۔ Déjà کے معنی پہلے سے
قبل اور ابتداء یا مشاہدہ یا دیکھنے کے ھوتے ہیں
Déjà vu is the feeling that one has lived through the present situation before. This is a French phrase that translates literally as “already seen”. Although some interpret déjà vu in a paranormal context, mainstream scientific approaches reject the explanation of déjà vu as “precognition” or “prophecy”
اردو میں اس کے معنی ‘‘پہلے سے دیکھا ہوا’’ ہیں اور انگریزی میں اس کا ترجمہ Already Seen کیا جاتا ہے۔
This is thought to happen when there’s a bit of a miscommunication between two parts of your brain. “Déjà vu is caused by dysfunctional connections between the parts of your brain that play a role in memory recollection and familiarity,” Dr. Khoury explains.
تحقیق کے مطابق ہم میں سے دو تہائی لوگوں کو زندگی میں ایک مرتبہ ڈیژاوُو ضرور ہوتا ہے، تاہم ابھی تک پوری طرح معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ کیفیت ہوتی کیوں ہے۔
1973ء میں شکاگو یونیورسٹی کی National Opinion Research Council کے ایک سروے میں 58 فیصد امریکیوں نے ڈیژاوُو کی کیفیت سے گزرنے کا اقرار کیا، 1986ء کے سروے میں یہ تعداد بڑھ کر67 فیصد ہوگئی ، ایک حالیہ سروے کے مطابق دنیا میں تقریباً 70 فیصد افراد اس کا صورتحال کا سامنا کر چکے ہیں اور اس کے بارے میں اکثر کنفیوز رہتے ہیں۔
امریکی ریاست ڈیلاس میں ساؤتھرن میتھڈسٹ یونیورسٹی، ڈیڈمن کالج میں شعبہ نفسیات کے پروفیسر ایلن براؤن کا کہنا ہے کہ ڈیژاوُو زیادہ تر نوجوانوں کو ہوتا ہے۔ لوگوں کو پہلی مرتبہ ڈیژاوُو کی کیفیت تقریباً چھ، سات برس کی عمر میں ہوتی ہے، تاہم 15 سے 25 سال کی عمر کے دوران یہ زیادہ مرتبہ ہوتا ہے، اور پھر جوں جوں آپ کی عمر بڑھتی جاتی ہے یہ کیفیت کم اور بہت ہو جاتی ہے۔
ایسے واقعات کا مشاہدہ زیادہ تر خواتین کو ہوتا ہے کیونکہ خواتین زیادہ receptive ہوتی ہیں یعنی ان میں روزمرہ کے واقعات کو جذب کرنے کی صلاحیت اور خفیف سے خفیف تر اشارہ اور بات سمجھنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ اس لئے خواتین کو اس قسم کے تجربات زیادہ ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں خواتین کی چھٹی حس زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ نیلوفر احمد اپنے ایک مضمون خواب اور روحانیت (Dreams and Spirituality) میں خواب کے بارے میں لکھتی ہیں کہ سگمنڈ فرایڈ نے اپنی کتاب، ‘دی انٹرپریٹیشن آف ڈریمس ‘ میں نفسی تجزیہ کا نظریہ اس تمہید پر مبنی ہے کہ دبے ہوئے جارحانہ اور جنسی ردعمل کو ہوش مند دماغ میں علامتوں کے ذریعہ باہر نکلنے کا ایک راستہ مل جاتا ہے اور اس طرح ایک خواب کی تکمیل ہو تی ہے۔ انہوں نے خواب اور پاگلپن کے درمیان بھی ایک تعلق قائم کیا ہے۔ ان کی اس خوابوں نظریاتی تشریح نے کافی مقبولیت حاصل کی ۔ کارل جی جنگ، فرایڈ سے الگ ہوگئے اور سائیکو انالیٹک سوسائٹی سے ناطہ توڑ لیا اور نفسیات پر اور زیادہ انسانی نقطہ نظر سے غور کرنا شروع کیا۔ ان کے مطابق خواب شفا یابی کے قدرتی عمل کا ایک ایسا حصہ ہے جو ہمارے تخیل اور روح سے رابطہ قائم کرتا ہے۔ اور انہوں نے دیو مالا کے ذریعے خواب کے معنی کا جائزہ لیا۔
تاہم، جب ایک شخص قرآن اور حدیث پر نظر ڈالتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ خواب، مسلم عقیدے کا ایک سنجیدہ حصہ ہیں۔ ایسا گمان کیا جاتا ہے کہ نیند کے دوران روح جسم کو عارضی طور پر چھوڑ دیتی ہے اور مختلف دائروں میں گھومتی رہتی ہے۔ جس کے تجربات خواب کی شکل میں جسم دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اور جو کبھی کبھی نامعلوم چیزوں کی اطلاعات آپ تک پہونچا تی ہے ۔ روح جس قدر ہ بلند ہو گی اتنا ہی اس کے روحانی تجربے کا دائرہ اعلی ہوگا۔
سورۃ الانعام میں قرآن فرماتا ہے کہ، “اور وہی ہے جو رات کے وقت تمہاری روحیں قبض فرما لیتا ہے اور جو کچھ تم دن کے وقت کماتے ہو وہ جانتا ہے پھر وہ تمہیں دن میں اٹھا دیتا ہے تاکہ (تمہاری زندگی کی) معینّہ میعاد پوری کر دی جائے “(6:60)۔ سورۃ الزمر کہتی ہے کہ، ” اللہ جانوں کو اُن کی موت کے وقت قبض کر لیتا ہے اور اُن (جانوں) کو جنہیں موت نہیں آئی ہے اُن کی نیند کی حالت میں، پھر اُن کو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم صادر ہو چکا ہو اور دوسری (جانوں) کو مقرّرہ وقت تک چھوڑے رکھتا ہے”(39:42) ۔
اسلامی نظریہ کے مطابق روح نیند کی حالت میں جسم کا ساتھ چھوڑ جاتی ہے، لیکن اس سے اتنی قریب ہوتی ہے کہ، ذرا سا بھی حرکت ہونے پر، یہ اس میں واپس داخل ہو جاتی ہے۔
جب خدا کسی شخص کی موت کا حکم صادر فرماتا ہے تو روح اس میں مستقل طور پر رہتی ہے اور جس سے جسمانی موت ہو جاتی ہے لیکن روح ہمیشہ زندہ رہتی ہے
اگر مذہبی طور پر دیکھیں تو قرآن مجید میں اس کا ذکر موجود ہے۔ پارہ 24، سورۃ الزمر میں فرمایا گیا ہے :
اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَo
(الزمر، 39 : 42)
اللہ جانوں کو اُن کی موت کے وقت قبض کر لیتا ہے اور اُن (جانوں) کو جنہیں موت نہیں آئی ہے اُن کی نیند کی حالت میں، پھر اُن کو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم صادر ہو چکا ہو اور دوسری (جانوں) کو مقرّرہ وقت تک چھوڑے رکھتا ہے۔ بے شک اس میں اُن لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیںo
روح کی اقسام
روح کی دو اقسام ہیں :
حیوانی
سیرانی
حیوانی :
جو نیند کی حالت میں بھی موجود رہتی ہے، اس لیے انسان زندہ رہتا ہے، اگر یہ چلی جائے تو انسان مر جاتا ہے، جسم سے فقط رابطہ توڑا جاتا ہے۔
سیرانی :
نیند کے وقت یہ نکل جاتی ہے، سیر کرتی رہتی ہے، پھر انسان خواب میں جو کچھ دیکھتا ہے، وہ اس روح کی وجہ سے دیکھتا ہے، جو گھومتی پھرتی رہتی ہے، انسان جب نیند سے بیدار ہوتا ہے تو یہ روح بھی واپس آ جاتی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
A 2008 study found that déjà vu experiences are unlikely to be pathological dissociative experiences. Some research has looked into genetics when considering déjà vu. Although there is not currently a gene associated with déjà vu, the LGI1 gene on chromosome 10 is being studied for a possible link.

Writer: Jiya Tu

incubus

incubus

Incubus An incubus is a mythical entity said to be an evil spirit or demon that hovers over a sleeping person, often with the intention of having sex with them. The concept of incubus has existed throughout history in various cultures and religions, including: 1. Medieval European Folklore: Incubi were believed to be demons that preyed on sleeping women. 2. Christian Theology: Incubi were seen as unclean spirits or demons that tempted humans to sin. 3. Ancient Mythology: Entities like the Greek “Ephialtes” or the Hindu “Bhūta” are said to haunt and terrorize humans. Common features associated with incubi include: 1- Malevolent or evil intentions – The ability to change shape or take on different forms – The power to induce nightmares, terror, or paralysis – Attraction to human prey, often for sexual purposes In modern times, the term “incubus” may also refer to: 1. A recurring nightmare or source of terror 2. Symptoms of psychological or emotional distress 3. A metaphor for feelings of suffocation or oppression It is important to note that the concept of incubi is rooted in superstition and folklore, and there is no scientific evidence to support the existence of such entities. But since i belong to the religion of Islam, in many of our traditions, it is called the influence of Jinn, that is, Satan According to medical, temporary paralysis of the human body in this condition is the best practice, if he could move, he could have harmed himself badly.

writer: Jiya Tu

Mountains

Mountains

New mountains are born every year! Do you think mountains are static and always in the same place? You are wrong! Every year new mountains are formed on the earth and old mountains keep increasing in height. All this is caused by the movement of plate tectonics. Plates beneath the Earth’s surface collide with each other, creating new mountains. One of the world’s largest mountain ranges, the Himalayas, is rising a few millimeters every year! So when you look at a mountain, remember that these mountains are also “alive” and constantly growing. Knowing that everything in our world is moving, even mountains, is truly amazing!

photographer:Moazam Ali