چلنے والے درخت

چلنے والے درخت

یہ کائنات قدرت کے شاہکاروں / کرشمات سے بھری ہوئی جو انسانی عقل سے ماورا ہیں۔ اسی طرح ہماری کره ارض پر بھی اتنے عجیب و غریب کرشمات ہیں جن کو دیکھ کر ہم خدا کی بنائی ہوئی تخلیق کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور انسانی نفسیات ہے جب وہ کسی چیز کے بارے میں سوچتے ہیں اس پر تحقیق کرتے ہیں یہی انسانی دماغ کا حسن ہے۔چلئے میں آپ کو آج ایک ایسے قدرت کے کرشمہ کے بارے میں بتاتا ہوں جس کے بارے میں پڑھ کر آپ خود سوچنے پر مجبور ہو جائینگے کیا یہ واقعی میں ہو سکتا ہے ۔ ویسے تو ہم قصہ و کہانی اور فلموں میں دیکھا ہے کہ ایک ایسا درخت جو انسانوں اور جانوروں کو نگل جاتا ہے لیکن یہ حقیقت نہیں حالانکہ ایک ایسے درختوں کی نسل ضرور موجود ہے جو ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کر سکتے ہیں ۔ آخر یہ واقعی ہو سکتا ہے؟جی ہاں خدا وند نے ہماری دنیا میں ایک درخت کو تخلیق کیا ہے جو ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتا ہے ۔ یہ درخت وسطی اور جنوبی امریکہ کے برساتی جنگلات میں پایا جاتا ہے۔ اس درخت کو سوکریتیا یا ایکزورانزیا بھی کہا جاتا ہے ۔ پہلی بار ان درختوں کا ذکر 1980 میں ماہر حیاتیات ڈاکٹر بودلے نے کیا تھا ۔ یہ درخت عام درختوں کے مقابلے میں کا منفرد ہوتا ہے جیسا کہ اس کی جڑیں عام درختوں کی طرح زمین کے نیچے نہیں بلکہ زمین کی سطح سے بھی تقریبا دو سے پانچ فٹ اوپر ہوتی ہیں یہ درخت اپنی جڑیں سطح سے اوپر ہونے کی وجہ سے کافی اونچے ہوتے ہیں ۔ ان کی جڑیں روز دو سے تین سینٹی میٹر تک پھیلتی ہیں اور سالانہ تقریبا بیس میٹر تک یہ جڑیں ایک جگہ سے دوسری جگہ تک چلی جاتی ہیں ۔ ماہر حیاتیات کے مطابق یہ درخت ایک جگہ سے دوسری جگہ اس وقت حرکت کرتے جب ان کی جڑوں پر سورج کی روشنی پڑتی ہے اس درخت کی جڑیں اسی سمت میں پھیلانا یا چلنا شروع ہو جاتی ہیں اور وہیں جن جڑوں پر سورج کی روشنی نہیں پڑتی وہ جڑیں مردہ ہو کر ختم ہو جاتی ہیں۔ ماہر حیاتیات کہتے ہیں ہم ان درختوں کو یہ نہیں کہہ سکتے یہ چل رہے ہیں لیکن یہ اپنے روزمره کے عمل کے سبب ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کر سکتے ہیں۔ اس درخت کی انوکھی خاصیت پر آج بھی تحقیق کی جاری ہے کہ یہ حرکت کی خاصیت صرف جڑوں پر سورج کی روشنی سے ہے یا کوئی اور بھی سبب ہو سکتا ہے۔<

Deja Vu

Deja Vu


آپ نے کبھی نہ کبھی یہ محسوس کیا ہوگا کہ ہمارے سامنے ہونے والا واقعہ ہماری زندگی میں پہلے بھی رونما ہوچکا ہے۔
یا آپ جو کچھ دیکھ رہے ہیں یا جو کچھ اب بیت رہا ہے یہ آپ پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔
یا پھر آپ نے جو کچھ کہا یا سُنا ہے یہ سب آپ پہلے بھی کہہ اور سن چکے ہیں۔
یا کسی انجان اجنبی جگہ جاکر آپ کو محسوس ہوتا ہو کہ آپ وہاں پہلے بھی جاچکے ہیں، حالانکہ آپ کبھی نہیں گئے ہوتے۔
کیا یہ باتیں ہم نے پہلے سے خواب میں دیکھی ہوتی ہیں یا یہ پہلے سے جان لینے کی ہماری کوئی باطنی صلاحیت ہے یا پھر یہ کوئی واہمہ، ذہنی خلل یا نفسیاتی مرض ہے؟
ماہرینِ نفسیات اور سائنس دان اس پر عرصہ دراز سے تحقیق کر رہے ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔
یونانی مفکر ارسطو سمیت قدیم زمانے کے لوگ اس بات پر یقین کرتے تھے کہ ہماری روح ہماری پیدائش سے قبل بھی کہیں وجود رکھتی تھی اور موت کے بعد بھی اس کا وجود قائم رہتا ہے۔
اس کے علاوہ دورانِ خواب ہماری روح اس جسم کے باہر سفر کرتی ہے، خواب میں سوتے وقت ہماری روحیں گھومتی پھرتی ہیں تو وہ جس جس جگہ جاتی ہیں اور جس جس سے ملتی ہیں جب ہم جاگنے پر وہ دیکھتے ہیں یا ان میں سے کسی سے ملتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ یہ سب ہمارے ساتھ پہلے بھی ہوا ہے۔
1876ء میں فرانسیسی سائنس دان ایمل بوراک Emile Boirac نے اس پراسرار کیفیت پر تحقیق کی اور اس ایک انوکھے احساس اور کیفیت کو “Déjà vu” کا نام دیا جسے اردو میں “ڈیژاوو” لکھا جاتا ہے۔ Déjà کے معنی پہلے سے
قبل اور ابتداء یا مشاہدہ یا دیکھنے کے ھوتے ہیں
Déjà vu is the feeling that one has lived through the present situation before. This is a French phrase that translates literally as “already seen”. Although some interpret déjà vu in a paranormal context, mainstream scientific approaches reject the explanation of déjà vu as “precognition” or “prophecy”
اردو میں اس کے معنی ‘‘پہلے سے دیکھا ہوا’’ ہیں اور انگریزی میں اس کا ترجمہ Already Seen کیا جاتا ہے۔
This is thought to happen when there’s a bit of a miscommunication between two parts of your brain. “Déjà vu is caused by dysfunctional connections between the parts of your brain that play a role in memory recollection and familiarity,” Dr. Khoury explains.
تحقیق کے مطابق ہم میں سے دو تہائی لوگوں کو زندگی میں ایک مرتبہ ڈیژاوُو ضرور ہوتا ہے، تاہم ابھی تک پوری طرح معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ کیفیت ہوتی کیوں ہے۔
1973ء میں شکاگو یونیورسٹی کی National Opinion Research Council کے ایک سروے میں 58 فیصد امریکیوں نے ڈیژاوُو کی کیفیت سے گزرنے کا اقرار کیا، 1986ء کے سروے میں یہ تعداد بڑھ کر67 فیصد ہوگئی ، ایک حالیہ سروے کے مطابق دنیا میں تقریباً 70 فیصد افراد اس کا صورتحال کا سامنا کر چکے ہیں اور اس کے بارے میں اکثر کنفیوز رہتے ہیں۔
امریکی ریاست ڈیلاس میں ساؤتھرن میتھڈسٹ یونیورسٹی، ڈیڈمن کالج میں شعبہ نفسیات کے پروفیسر ایلن براؤن کا کہنا ہے کہ ڈیژاوُو زیادہ تر نوجوانوں کو ہوتا ہے۔ لوگوں کو پہلی مرتبہ ڈیژاوُو کی کیفیت تقریباً چھ، سات برس کی عمر میں ہوتی ہے، تاہم 15 سے 25 سال کی عمر کے دوران یہ زیادہ مرتبہ ہوتا ہے، اور پھر جوں جوں آپ کی عمر بڑھتی جاتی ہے یہ کیفیت کم اور بہت ہو جاتی ہے۔
ایسے واقعات کا مشاہدہ زیادہ تر خواتین کو ہوتا ہے کیونکہ خواتین زیادہ receptive ہوتی ہیں یعنی ان میں روزمرہ کے واقعات کو جذب کرنے کی صلاحیت اور خفیف سے خفیف تر اشارہ اور بات سمجھنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ اس لئے خواتین کو اس قسم کے تجربات زیادہ ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں خواتین کی چھٹی حس زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ نیلوفر احمد اپنے ایک مضمون خواب اور روحانیت (Dreams and Spirituality) میں خواب کے بارے میں لکھتی ہیں کہ سگمنڈ فرایڈ نے اپنی کتاب، ‘دی انٹرپریٹیشن آف ڈریمس ‘ میں نفسی تجزیہ کا نظریہ اس تمہید پر مبنی ہے کہ دبے ہوئے جارحانہ اور جنسی ردعمل کو ہوش مند دماغ میں علامتوں کے ذریعہ باہر نکلنے کا ایک راستہ مل جاتا ہے اور اس طرح ایک خواب کی تکمیل ہو تی ہے۔ انہوں نے خواب اور پاگلپن کے درمیان بھی ایک تعلق قائم کیا ہے۔ ان کی اس خوابوں نظریاتی تشریح نے کافی مقبولیت حاصل کی ۔ کارل جی جنگ، فرایڈ سے الگ ہوگئے اور سائیکو انالیٹک سوسائٹی سے ناطہ توڑ لیا اور نفسیات پر اور زیادہ انسانی نقطہ نظر سے غور کرنا شروع کیا۔ ان کے مطابق خواب شفا یابی کے قدرتی عمل کا ایک ایسا حصہ ہے جو ہمارے تخیل اور روح سے رابطہ قائم کرتا ہے۔ اور انہوں نے دیو مالا کے ذریعے خواب کے معنی کا جائزہ لیا۔
تاہم، جب ایک شخص قرآن اور حدیث پر نظر ڈالتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ خواب، مسلم عقیدے کا ایک سنجیدہ حصہ ہیں۔ ایسا گمان کیا جاتا ہے کہ نیند کے دوران روح جسم کو عارضی طور پر چھوڑ دیتی ہے اور مختلف دائروں میں گھومتی رہتی ہے۔ جس کے تجربات خواب کی شکل میں جسم دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اور جو کبھی کبھی نامعلوم چیزوں کی اطلاعات آپ تک پہونچا تی ہے ۔ روح جس قدر ہ بلند ہو گی اتنا ہی اس کے روحانی تجربے کا دائرہ اعلی ہوگا۔
سورۃ الانعام میں قرآن فرماتا ہے کہ، “اور وہی ہے جو رات کے وقت تمہاری روحیں قبض فرما لیتا ہے اور جو کچھ تم دن کے وقت کماتے ہو وہ جانتا ہے پھر وہ تمہیں دن میں اٹھا دیتا ہے تاکہ (تمہاری زندگی کی) معینّہ میعاد پوری کر دی جائے “(6:60)۔ سورۃ الزمر کہتی ہے کہ، ” اللہ جانوں کو اُن کی موت کے وقت قبض کر لیتا ہے اور اُن (جانوں) کو جنہیں موت نہیں آئی ہے اُن کی نیند کی حالت میں، پھر اُن کو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم صادر ہو چکا ہو اور دوسری (جانوں) کو مقرّرہ وقت تک چھوڑے رکھتا ہے”(39:42) ۔
اسلامی نظریہ کے مطابق روح نیند کی حالت میں جسم کا ساتھ چھوڑ جاتی ہے، لیکن اس سے اتنی قریب ہوتی ہے کہ، ذرا سا بھی حرکت ہونے پر، یہ اس میں واپس داخل ہو جاتی ہے۔
جب خدا کسی شخص کی موت کا حکم صادر فرماتا ہے تو روح اس میں مستقل طور پر رہتی ہے اور جس سے جسمانی موت ہو جاتی ہے لیکن روح ہمیشہ زندہ رہتی ہے
اگر مذہبی طور پر دیکھیں تو قرآن مجید میں اس کا ذکر موجود ہے۔ پارہ 24، سورۃ الزمر میں فرمایا گیا ہے :
اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَo
(الزمر، 39 : 42)
اللہ جانوں کو اُن کی موت کے وقت قبض کر لیتا ہے اور اُن (جانوں) کو جنہیں موت نہیں آئی ہے اُن کی نیند کی حالت میں، پھر اُن کو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم صادر ہو چکا ہو اور دوسری (جانوں) کو مقرّرہ وقت تک چھوڑے رکھتا ہے۔ بے شک اس میں اُن لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیںo
روح کی اقسام
روح کی دو اقسام ہیں :
حیوانی
سیرانی
حیوانی :
جو نیند کی حالت میں بھی موجود رہتی ہے، اس لیے انسان زندہ رہتا ہے، اگر یہ چلی جائے تو انسان مر جاتا ہے، جسم سے فقط رابطہ توڑا جاتا ہے۔
سیرانی :
نیند کے وقت یہ نکل جاتی ہے، سیر کرتی رہتی ہے، پھر انسان خواب میں جو کچھ دیکھتا ہے، وہ اس روح کی وجہ سے دیکھتا ہے، جو گھومتی پھرتی رہتی ہے، انسان جب نیند سے بیدار ہوتا ہے تو یہ روح بھی واپس آ جاتی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
A 2008 study found that déjà vu experiences are unlikely to be pathological dissociative experiences. Some research has looked into genetics when considering déjà vu. Although there is not currently a gene associated with déjà vu, the LGI1 gene on chromosome 10 is being studied for a possible link.

Writer: Jiya Tu

Mountains

Mountains

New mountains are born every year! Do you think mountains are static and always in the same place? You are wrong! Every year new mountains are formed on the earth and old mountains keep increasing in height. All this is caused by the movement of plate tectonics. Plates beneath the Earth’s surface collide with each other, creating new mountains. One of the world’s largest mountain ranges, the Himalayas, is rising a few millimeters every year! So when you look at a mountain, remember that these mountains are also “alive” and constantly growing. Knowing that everything in our world is moving, even mountains, is truly amazing!

photographer:Moazam Ali

The Magnificent Bathing Culture of Ancient Rome

The Magnificent Bathing Culture of Ancient Rome

The Baths of Caracalla, located in Rome, stand as one of the most splendid public baths of ancient Rome. Here, one can sense that the people of antiquity came to relax and enjoy life.

Historical Background of the Baths of Caracalla

Constructed in 216 AD by the Roman Emperor Caracalla, these baths served not only for bathing but also as a social and recreational hub. Ancient Romans would bathe, exercise, read, socialize, and even engage in business activities within these walls.

Remarkable Architecture

Upon entering the Baths of Caracalla, one’s gaze is immediately drawn to the magnificent architectural remnants. Although many sections have succumbed to the ravages of time over the millennia, the grandeur of that era remains palpable. The baths are divided into pools of cold, warm, and hot water, each expansive and exquisite. Additionally, there were rooms designated for exercise and study, where individuals engaged in both physical and mental pursuits.

Beautiful Mosaic Floors

The floors of the baths are adorned with numerous mosaics, featuring intricate designs and vibrant colors. These mosaics are not only aesthetically pleasing but also showcase the craftsmanship of ancient Roman artisans.

ملکوں ملکوں دیکھا چاند ( سفر نامہ)

ملکوں ملکوں دیکھا چاند ( سفر نامہ)

زیرِ تبصرہ کتاب:- ملکوں ملکوں دیکھا چاند ( سفر نامہ)

مصنف:- طارق محمود مرزا صاحب

پبلیشر:- سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور

“ملکوں ملکوں دیکھا چاند” طارق محمود مرزا صاحب کا ایک دل چسپ ، سحر انگیز اور معلومات سے پھرپور سفر نامہ ہے جس کے 332 صفحات میں شمالی یورپ کے حصّے اسکینڈے نیوین کے چار ممالک (ڈنمارک ، ناروے ، سویڈن اور فن لینڈ) اور ایک عرب دنیا کے خوب صورت اور دل کو بھا جانے والے ملک قطر کی سیرو سیاحت ، تاریخ و ثقافت ، وہاں کے لوگوں کی ترقی و خوشحالی کا راز ، عوام کے رہن سہن کا انداز ، وہاں کی حکومتوں کا اپنی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کیے گئے اقدامات ، وہاں رہنے والے پاکستانیوں کے حالات ، ان کی ادبی خدمات ، ادب سے لگاؤ رکھنے والے افراد سے ملاقات ، ان ملکوں میں اسٹوڈنٹ ویزے پر جانے والے طلباء کو درپیش مسائل ، محنت ، مزدوری کرنے پاکستانیوں کے سخت حالات اور پھر ان کے وہاں سیٹل ہونے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو دل فریب اور دل نشیں الفاظ میں یوں پیش کیا گیا ہے کہ گمان ہوتا ہے قاری مصنف کی قلم کی بدولت تصور کی دنیا میں کھوکر ان ممالک کے یہ سب واقعات و حالات ، احوالِ ملاقات اور خوب صورت مقامات کی سیر و سیاحت سے محظوظ ہورہا ہے۔

میرا اس خوب صورت اور بہترین سفر نامے سے تعارف اس وقت ہوا جب میرے ایک بزرگ دوست محترم محمد انجم بوٹا صاحب ( مصنف میاں چنوں سے ملائیشیا تک) نے اس کا بہترین اور دل کو چھو جانے والا اقتباس اپنی فیس بُک وال پر شیئر کیا تھا جس میں انہوں نے آسٹریلین حکومت کی طرف سے عوام کو پہنچائی جانے والی آسانیوں اور سہولیات کا ذکرِ خاص کیا تھا ، اس شیئر کیے گئے پیرا گراف نے دل پر ایسی تاثیر چھوڑی کہ اسے منگوائے بغیر رہ نہ سکا ۔

عید الفطر کی تعطیلات پر گھر آیا تو میری لائبریری میں موجود اس کتاب کے پرکشش سرورق نے مُجھے اپنی طرف کھینچ لیا اور پھر میں اس کی سادہ اور سلیس نثر کے سحر میں اس قدر مسحور ہوا کہ آخری صفحہ پر پہنچنے کا احساس تک نہ ہوا حالانکہ میں اس کی سطور سے اپنے دل و دماغ کو آہستہ آہستہ وابستہ کررہا تھا کیوں کہ دل چسپی کی وجہ سے اس کے جلد اختتام کا خوف کھائے جا رہا تھا مگر آج وہ دن آگیا اور میں اس کے آخری لفظ پر پہنچ گیا ۔

اس سفر نامے کے آخری صفحے تک پہنچتے پہنچتے قاری پر طاری ہونے والا سحر حقیقی ہے جس میں وہ مصنف کے سفر شروع ہونے سے لے کر اختتام تک مبتلا رہتا ہے ۔

طارق محمود مرزا صاحب ، اسکینڈے نیوین ممالک میں واقع سر سبز و شاداب پہاڑوں ، بل کھاتے پرسکون سمندروں، سمندروں اور دریاؤں میں تیرتے بحری جہازوں ، کشتیوں ، آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہوئی عمارتوں، انٹرنیشنل ایئرپورٹوں کی اندرونی و بیرونی کہانیوں ، مسافروں کے حالات و واقعات ، سیاحوں کی سیرو سیاحت ، ان کو پیش آنے والی مشکلات، اسلام کی تبلیغ و اشاعت، خوب صورت مسجدوں کے اندرونی و بیرونی نقشں و نگار کی اپنے قلم کی نوک سے ایسی پُرکشش اور دل فریب منظر نگاری کرتے ہیں کہ قاری اپنی جگہ پر بیٹھ کر ان نظاروں سے لطف اندوز ہوتا ہے ، اس سفر نامے کی بدولت قاری یہ جان کر حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ ان ممالک کے حکمران اپنے ملک و قوم کی فلاح و بہبود، خوشحالی و ترقی اور خوب صورتی کے لیے کس قدر مُخلص ہیں اور وہ خود یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ہمارے ملک و قوم کے آج جو حالات ہیں ان کا اصل زمہ دار کون ہے ؟

یہ سفر نامہ قاری کو مغربی معاشرے میں رہنے والے افراد کی سادہ اور پُرسکون زندگی سے روشناس کرواتا ہے ، ان کے سادہ گھروں کی تعمیر و زنیت ، ڈیری فارموں اور کھیتوں میں کام کرنے والے کسانوں کی قابلِ رشک حالات کو سادہ الفاظ میں بیان کیا گیا ہے تاکہ پڑھنے والے کے دل سے مغربی مرعوبیت ختم ہو ، شمالی یورپ کے ان ممالک میں پبلک ٹرانسپورٹ کی اہمیت اور ضرورت کے مطابق وسائل کے استعمال کی اہمیت کو قاری کے سامنے نمایاں کیا گیا ہے تاکہ وہ مسائل میں گھری اپنی زندگی کو خود آسان بنا سکے ، ڈنمارک ، ناروے ،سویڈن اور فن لینڈ جیسے ممالک میں ویسے تو بہت کچھ مشترک ہے مگر وہاں موجود سر سبز درخت ، گھنے جنگلات اور گاڑیوں میں ڈیزل انجن کے استعمال سے احتیاط برتنے کی بدولت جو پرسکون اور ماحول دوست صاف شفاف فضا پیدا ہوئی ہے اس کے وہاں کے لوگوں پر پڑنے والے صحت مند اثرات سے قاری کوآگاہ کیا گیا ہے تاکہ وہ اپنے اردگرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے قابل ہو سکے اور اس کے لیے عملی طور پر کوشش کرے ۔

مصنف آخر میں قطر کی سیرو سیاحت کے لیے نکلتا ہے تو وہاں کی بلند و بالا عمارتیں اور سر سبز زمین کو دیکھ کر قطر کی حکومت کو داد دیتا ہے اور لکھتا ہے کہ ریتلے صحرا کو سر سبز میدان میں بدلنا مکمل طور پر مصنوعی ہے کیوں وہاں پر مٹی ، گھاس ، پھول سب کچھ دوسرے ممالک سے لائے گئے ہیں جو قطر کی خوب صورتی میں بے پناہ اضافہ کرتے ہیں ، میرے لیے سب سے زیادہ حیران کن معلومات یہ تھی کہ 2021 ء تک قطر میں رہنے والے اصل قطریوں کی آبادی صرف اڑھائی لاکھ ہے جب کہ اس ملک کی کل ابادی ستائیس لاکھ ہے باقی سب دوسرے ممالک سے یہاں آکر آباد ہوئے ہیں ۔

آخر میں مصنف عرب ملکوں میں خاص طور پر قطر میں مزدوری کی غرض سے جانے والے پاکستانیوں کی مشکلات کو قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں جسے پڑھتے ہوئے میرے تو کم از کم آنسو جھلک پڑے ۔ یہ کتاب یقناً پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔

سرو سیاحت کا ذوق اور تاریخ سے شغف رکھنے والے دوستوں کو یہ سفر نامہ ضرور پڑھنا چاہیے کیوں کہ یہ صرف ایک سفر کی روداد ہی نہیں بلکہ شمالی یورپ سے متعلقہ معلومات کا ذخیرہ بھی ہے۔

پہلی جھلک یورپ کی

پہلی جھلک یورپ کی

کتاب تعارف

کتاب:- “پہلی جھلک یورپ کی” ( سفر نامہ)

دیکھ لے اس چمن دہر کو دل بھر کے نظیرؔ

پھر ترا کاہے کو اس باغ میں آنا ہوگا

نظیرؔ اکبرآبادی

چند روز پہلے ”کتاب نامہ‘‘ کے مدیر، میرے عزیز دوست محترم ثاقب بٹ نے ایک خوب صورت اور دل چسپ سفر نامہ پر مشتمل کتاب ”پہلی جھلک یورپ کی‘‘ ارسال کی جسے پڑھ کر یورپ کے چھ ممالک کی سیر سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا اور بہت سی نئی تاریخی باتوں کا علم ہوا۔

سفر نامہ کی روایت اور تاریخ، سفر سے جُڑی ہوئی ہے اور تحریر لکھنے والے کے اسلوب سے ہم وہی کچھ دیکھ سکتے ہیں جو سفرنامہ نگار ہمیں دکھائے گا۔ وہ جتنی سادہ بیانی اور روانی سے کام لے گا، اسی قدر قاری سفر کی لطافتوں سے محظوظ ہو سکیں گے اور اس کتاب کو پڑھتے ہوئے میں بھی بے حد محظوظ ہوا ہوں۔

اس کتاب کے مصنف نامور محقق، دانشور، معلم، افسانہ نویس، سفرنامہ نگار اور ”کتاب نامہ‘‘ کے مدیرِ منتظم حسنین نازشؔ دیدہء بینا رکھتے ہیں۔ جہانوں کے اندر نئے جہانوں کی کھوج لگانے اور ایک خاص نُقطہ نظر سے موتی چننے کے بعد ان کو لڑی میں پرو کر سفرنامہ بنا دینے کے ہنر سے شناسا بھی ہیں۔ علم و ادب سے تعلق رکھتے ہیں اور ساتھ ہی سیاحت کا مشغلہ اپنائے ہوئے ہیں جس کی بدولت دنیا کی سیر کرنے میں مگن رہتے ہیں اور اس وقت بھی امریکا میں موجود ہیں اور ہمیں ”امریکا ڈائری‘‘ سے مستفید کر رہے ہیں.

حسنین نازشؔ کے یورپ کے سفر نامے پر مشتمل زیر تبصرہ کتاب ”پہلی جھلک یورپ کی‘‘، مثال پبلیشرز، فیصل آباد بہت اہتمام نے شائع کی ہے جو 263 صفحات پر مشتمل ہے۔ سرورق سمیت کتاب کی تزئین بہت عمدہ انداز میں کی گئی ہے۔ عمدہ معیار کا صفحہ استعمال کیا گیا ہے جس سے کتاب میں موجود لکھت میں مزید نکھار پیدا ہوگیا ہے۔

جناب حسنین نازشؔ یورپ کے مختلف ممالک میں گھومنے پھرنے کے لیے اپنے ایک دوست زاہد زمان کے ہمراہ نکلتے ہیں. وہ اپنے اس سفر نامے میں ان ممالک کے مشاہدات، واقعات اور تجربات کو تحریر میں لاتے ہیں، ساتھ ہی اس سفر کے دوران پیدا ہونے والی قلبی کیفیات واحساسات کوبھی سادہ اور آسان الفاظ میں بیان کرتے ہیں. گمان ہوتا ہے کہ قاری خود ان کے ساتھ گھوم کر وہ مناظر دیکھ رہا ہے جو مصنف زیرِ تحریر لاتا ہے۔ ان کی مزاجی کیفیت، قوتِ مشاہدہ اور اندازِ تحریر قاری کو بیٹھے بیٹھے یورپ کی سیر کروا دیتی ہے۔

سفر نامہ ”پہلی جھلک یورپ کی‘‘ میں قاری جہاں نیدر لینڈز، جرمنی، آسٹریا، سوئٹزر لینڈ، فرانس اور بلجئیم میں موجود مشہور سیاحتی مقامات کی سیر سے لطف اندوز ہوتا ہے وہیں مصنف ان جگہوں کی تاریخی اہمیت سے بھی روشناس کرواتے ہیں جس سے بہت ہی کم لوگ واقف ہوتے ہیں. وہ سفر کے دوران اور ان ممالک میں پیش آنے والے واقعات، مختلف سیاحوں اور مقامی لوگوں سے ہونے والی ملاقاتیں اور وہاں مشاہدے میں آنے والی سیاحتی جگہوں کی تاریخی اہمیت کو دلچسپ اور دلفریب انداز میں پیش کرتے ہیں، جن میں ایمسٹرڈیم کی سائیکلنگ کا مشاہدہ، ہاسٹل کے چھوٹے سے کمرے میں کئی لوگوں کے ساتھ قیام اور دوست کے نیند میں خراٹے مزاحیہ انداز میں بیان کرتے ہیں. ایمسٹرڈیم کے بازارِ حسن میں رات کی رنگینیوں میں مگن سیاحوں کے عجیب و غریب حرکات و حالات اور وہیں موجود خوب صورت اور دل نشین ”ایناہ‘‘ سے پہلی اور پھر دوسری ملاقات کا قصہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے. وہاں جنس کا عجائب گھر، پھولوں کی سب سے بڑی منڈی کی سیر، جنتی اور چکیوں والے گاؤں کا تذکرہ جو آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو سکون دیتا ہے۔

کتاب میں جرمن شہر میونخ کے محل سرائے کی سیر کے ساتھ یہودیوں کے دشمن ہٹلر سے ملاقات بھی کروائی جاتی ہے، ہٹلر سے ملاقات پڑھتے ہوئے بہت سی معلومات میں اضافے ہوتا ہے، پھر مصنف فرانس پہنچ کر رومانوی دریائے سین کے کناروں پر محبت کے جذبات میں کھو جاتے ہیں. فتح کی محراب، لوور میوزیم کی تعمیر، تاریخ اور اس میں موجود حیرت انگیز فن پاروں کو خوب صورتی سے متعارف کرواتے ہیں. نپولین کے مزار پر جاکر ہمیں اس کی عشق کی داستان سے لے کر سپہ سالار اور پھر فرانس کا حکمران بننے تک کا پورا سفر دل چسپ حقائق کے ساتھ سناتے ہیں. بلجئیم میں پہنچ کر بین الاقوامی سیاحتی مرکز ”اٹومیم‘‘ کی سیر کروانے کے ساتھ ساتھ اس کی تاریخ سے روشناس کرواتے ہیں. پھر آخر میں ”واٹر لُو کے میدان‘‘ میں لے جا کر نپولین کی آخری جنگ کروا دیتے ہیں اور نپولین کو قید کرواکر خود مصنف خوب صورت یادوں اور تحائف کے ساتھ وطن واپس لوٹ آتے ہیں۔ اس سارے سفر میں، اس کتاب کے ذریعے مَیں مصنف کا ہم سفر رہا ہوں. بلاشبہ یہ سب پڑھتے ہوئے مجھ پر ایسا سحر طاری ہوا تھا کہ کتاب کے مکمل ہونے کا احساس تک نہ ہوا ۔

کتاب میں شامل ڈاکٹر صبا جاوید، ڈاکٹر محمد امتیاز، پروفیسر محمد اکبر خان، مدیر ”کتاب نامہ‘‘ ثاقب محمود بٹ، نامور ادیب و شاعر نسیم سحر اور ڈاکٹر مقصود جعفری کی معلوماتی اور تعارفی تحاریر نے اس سفرنامہ کو چار چاند لگا دیے ہیں.

حسنین نازشؔ کے اس سفرنامہ “پہلی جھلک یورپ کی ” کی خاصیت یہ ہے کہ اس کے مطالعہ سے قاری کو اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی اور وہ اس میں دلچسپی لیتے ہوئے ایک دو نشست میں ہی اسے آخر تک پڑھنے پر مجبور ہر جاتا ہے. اس کی بالخصوص وجہ مصنف کا اندازِ تحریر ہے کہ وہ قاری کو بوریت محسوس کروائے بغیر تمام تاریخی اور سیاحتی شہروں کا احوال بہترین انداز میں بیان کرتے ہوئے کتاب مکمل کرلیتے ہیں.

المختصر میں سفرنامہ نگار کو داد دیتا ہوں کہ انہوں نے اس سفرنامے کو بہتر انداز میں پیش کرنے کا بھرپور جتن کیا اور کامیاب بھی ہوئے۔ نفیس طرزِ تحریر سے مزین اس سفرنامہ کی زبان عام فہم ہے کہ ہر کوئی اس کو بآسانی پڑھ کر لطف اندوز ہوسکتا ہے۔ علاوہ ازیں علمی، ادبی اور معلوماتی لحاظ سے بھی یہ سفرنامہ ایک مکمل معلوماتی کتاب ہے جس کی اشاعت پر مصنف سمیت ناشر داد کے مستحق ہیں.

حسنین نازشؔ کا یہ سفرنامہ ”پہلی جھلک یورپ کی‘‘ ضرور پڑھیے کیوں کہ:

”ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں‘‘