چلنے والے درخت

چلنے والے درخت

یہ کائنات قدرت کے شاہکاروں / کرشمات سے بھری ہوئی جو انسانی عقل سے ماورا ہیں۔ اسی طرح ہماری کره ارض پر بھی اتنے عجیب و غریب کرشمات ہیں جن کو دیکھ کر ہم خدا کی بنائی ہوئی تخلیق کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور انسانی نفسیات ہے جب وہ کسی چیز کے بارے میں سوچتے ہیں اس پر تحقیق کرتے ہیں یہی انسانی دماغ کا حسن ہے۔چلئے میں آپ کو آج ایک ایسے قدرت کے کرشمہ کے بارے میں بتاتا ہوں جس کے بارے میں پڑھ کر آپ خود سوچنے پر مجبور ہو جائینگے کیا یہ واقعی میں ہو سکتا ہے ۔ ویسے تو ہم قصہ و کہانی اور فلموں میں دیکھا ہے کہ ایک ایسا درخت جو انسانوں اور جانوروں کو نگل جاتا ہے لیکن یہ حقیقت نہیں حالانکہ ایک ایسے درختوں کی نسل ضرور موجود ہے جو ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کر سکتے ہیں ۔ آخر یہ واقعی ہو سکتا ہے؟جی ہاں خدا وند نے ہماری دنیا میں ایک درخت کو تخلیق کیا ہے جو ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتا ہے ۔ یہ درخت وسطی اور جنوبی امریکہ کے برساتی جنگلات میں پایا جاتا ہے۔ اس درخت کو سوکریتیا یا ایکزورانزیا بھی کہا جاتا ہے ۔ پہلی بار ان درختوں کا ذکر 1980 میں ماہر حیاتیات ڈاکٹر بودلے نے کیا تھا ۔ یہ درخت عام درختوں کے مقابلے میں کا منفرد ہوتا ہے جیسا کہ اس کی جڑیں عام درختوں کی طرح زمین کے نیچے نہیں بلکہ زمین کی سطح سے بھی تقریبا دو سے پانچ فٹ اوپر ہوتی ہیں یہ درخت اپنی جڑیں سطح سے اوپر ہونے کی وجہ سے کافی اونچے ہوتے ہیں ۔ ان کی جڑیں روز دو سے تین سینٹی میٹر تک پھیلتی ہیں اور سالانہ تقریبا بیس میٹر تک یہ جڑیں ایک جگہ سے دوسری جگہ تک چلی جاتی ہیں ۔ ماہر حیاتیات کے مطابق یہ درخت ایک جگہ سے دوسری جگہ اس وقت حرکت کرتے جب ان کی جڑوں پر سورج کی روشنی پڑتی ہے اس درخت کی جڑیں اسی سمت میں پھیلانا یا چلنا شروع ہو جاتی ہیں اور وہیں جن جڑوں پر سورج کی روشنی نہیں پڑتی وہ جڑیں مردہ ہو کر ختم ہو جاتی ہیں۔ ماہر حیاتیات کہتے ہیں ہم ان درختوں کو یہ نہیں کہہ سکتے یہ چل رہے ہیں لیکن یہ اپنے روزمره کے عمل کے سبب ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کر سکتے ہیں۔ اس درخت کی انوکھی خاصیت پر آج بھی تحقیق کی جاری ہے کہ یہ حرکت کی خاصیت صرف جڑوں پر سورج کی روشنی سے ہے یا کوئی اور بھی سبب ہو سکتا ہے۔<

Deja Vu

Deja Vu


آپ نے کبھی نہ کبھی یہ محسوس کیا ہوگا کہ ہمارے سامنے ہونے والا واقعہ ہماری زندگی میں پہلے بھی رونما ہوچکا ہے۔
یا آپ جو کچھ دیکھ رہے ہیں یا جو کچھ اب بیت رہا ہے یہ آپ پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔
یا پھر آپ نے جو کچھ کہا یا سُنا ہے یہ سب آپ پہلے بھی کہہ اور سن چکے ہیں۔
یا کسی انجان اجنبی جگہ جاکر آپ کو محسوس ہوتا ہو کہ آپ وہاں پہلے بھی جاچکے ہیں، حالانکہ آپ کبھی نہیں گئے ہوتے۔
کیا یہ باتیں ہم نے پہلے سے خواب میں دیکھی ہوتی ہیں یا یہ پہلے سے جان لینے کی ہماری کوئی باطنی صلاحیت ہے یا پھر یہ کوئی واہمہ، ذہنی خلل یا نفسیاتی مرض ہے؟
ماہرینِ نفسیات اور سائنس دان اس پر عرصہ دراز سے تحقیق کر رہے ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔
یونانی مفکر ارسطو سمیت قدیم زمانے کے لوگ اس بات پر یقین کرتے تھے کہ ہماری روح ہماری پیدائش سے قبل بھی کہیں وجود رکھتی تھی اور موت کے بعد بھی اس کا وجود قائم رہتا ہے۔
اس کے علاوہ دورانِ خواب ہماری روح اس جسم کے باہر سفر کرتی ہے، خواب میں سوتے وقت ہماری روحیں گھومتی پھرتی ہیں تو وہ جس جس جگہ جاتی ہیں اور جس جس سے ملتی ہیں جب ہم جاگنے پر وہ دیکھتے ہیں یا ان میں سے کسی سے ملتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ یہ سب ہمارے ساتھ پہلے بھی ہوا ہے۔
1876ء میں فرانسیسی سائنس دان ایمل بوراک Emile Boirac نے اس پراسرار کیفیت پر تحقیق کی اور اس ایک انوکھے احساس اور کیفیت کو “Déjà vu” کا نام دیا جسے اردو میں “ڈیژاوو” لکھا جاتا ہے۔ Déjà کے معنی پہلے سے
قبل اور ابتداء یا مشاہدہ یا دیکھنے کے ھوتے ہیں
Déjà vu is the feeling that one has lived through the present situation before. This is a French phrase that translates literally as “already seen”. Although some interpret déjà vu in a paranormal context, mainstream scientific approaches reject the explanation of déjà vu as “precognition” or “prophecy”
اردو میں اس کے معنی ‘‘پہلے سے دیکھا ہوا’’ ہیں اور انگریزی میں اس کا ترجمہ Already Seen کیا جاتا ہے۔
This is thought to happen when there’s a bit of a miscommunication between two parts of your brain. “Déjà vu is caused by dysfunctional connections between the parts of your brain that play a role in memory recollection and familiarity,” Dr. Khoury explains.
تحقیق کے مطابق ہم میں سے دو تہائی لوگوں کو زندگی میں ایک مرتبہ ڈیژاوُو ضرور ہوتا ہے، تاہم ابھی تک پوری طرح معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ کیفیت ہوتی کیوں ہے۔
1973ء میں شکاگو یونیورسٹی کی National Opinion Research Council کے ایک سروے میں 58 فیصد امریکیوں نے ڈیژاوُو کی کیفیت سے گزرنے کا اقرار کیا، 1986ء کے سروے میں یہ تعداد بڑھ کر67 فیصد ہوگئی ، ایک حالیہ سروے کے مطابق دنیا میں تقریباً 70 فیصد افراد اس کا صورتحال کا سامنا کر چکے ہیں اور اس کے بارے میں اکثر کنفیوز رہتے ہیں۔
امریکی ریاست ڈیلاس میں ساؤتھرن میتھڈسٹ یونیورسٹی، ڈیڈمن کالج میں شعبہ نفسیات کے پروفیسر ایلن براؤن کا کہنا ہے کہ ڈیژاوُو زیادہ تر نوجوانوں کو ہوتا ہے۔ لوگوں کو پہلی مرتبہ ڈیژاوُو کی کیفیت تقریباً چھ، سات برس کی عمر میں ہوتی ہے، تاہم 15 سے 25 سال کی عمر کے دوران یہ زیادہ مرتبہ ہوتا ہے، اور پھر جوں جوں آپ کی عمر بڑھتی جاتی ہے یہ کیفیت کم اور بہت ہو جاتی ہے۔
ایسے واقعات کا مشاہدہ زیادہ تر خواتین کو ہوتا ہے کیونکہ خواتین زیادہ receptive ہوتی ہیں یعنی ان میں روزمرہ کے واقعات کو جذب کرنے کی صلاحیت اور خفیف سے خفیف تر اشارہ اور بات سمجھنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ اس لئے خواتین کو اس قسم کے تجربات زیادہ ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں خواتین کی چھٹی حس زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ نیلوفر احمد اپنے ایک مضمون خواب اور روحانیت (Dreams and Spirituality) میں خواب کے بارے میں لکھتی ہیں کہ سگمنڈ فرایڈ نے اپنی کتاب، ‘دی انٹرپریٹیشن آف ڈریمس ‘ میں نفسی تجزیہ کا نظریہ اس تمہید پر مبنی ہے کہ دبے ہوئے جارحانہ اور جنسی ردعمل کو ہوش مند دماغ میں علامتوں کے ذریعہ باہر نکلنے کا ایک راستہ مل جاتا ہے اور اس طرح ایک خواب کی تکمیل ہو تی ہے۔ انہوں نے خواب اور پاگلپن کے درمیان بھی ایک تعلق قائم کیا ہے۔ ان کی اس خوابوں نظریاتی تشریح نے کافی مقبولیت حاصل کی ۔ کارل جی جنگ، فرایڈ سے الگ ہوگئے اور سائیکو انالیٹک سوسائٹی سے ناطہ توڑ لیا اور نفسیات پر اور زیادہ انسانی نقطہ نظر سے غور کرنا شروع کیا۔ ان کے مطابق خواب شفا یابی کے قدرتی عمل کا ایک ایسا حصہ ہے جو ہمارے تخیل اور روح سے رابطہ قائم کرتا ہے۔ اور انہوں نے دیو مالا کے ذریعے خواب کے معنی کا جائزہ لیا۔
تاہم، جب ایک شخص قرآن اور حدیث پر نظر ڈالتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ خواب، مسلم عقیدے کا ایک سنجیدہ حصہ ہیں۔ ایسا گمان کیا جاتا ہے کہ نیند کے دوران روح جسم کو عارضی طور پر چھوڑ دیتی ہے اور مختلف دائروں میں گھومتی رہتی ہے۔ جس کے تجربات خواب کی شکل میں جسم دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اور جو کبھی کبھی نامعلوم چیزوں کی اطلاعات آپ تک پہونچا تی ہے ۔ روح جس قدر ہ بلند ہو گی اتنا ہی اس کے روحانی تجربے کا دائرہ اعلی ہوگا۔
سورۃ الانعام میں قرآن فرماتا ہے کہ، “اور وہی ہے جو رات کے وقت تمہاری روحیں قبض فرما لیتا ہے اور جو کچھ تم دن کے وقت کماتے ہو وہ جانتا ہے پھر وہ تمہیں دن میں اٹھا دیتا ہے تاکہ (تمہاری زندگی کی) معینّہ میعاد پوری کر دی جائے “(6:60)۔ سورۃ الزمر کہتی ہے کہ، ” اللہ جانوں کو اُن کی موت کے وقت قبض کر لیتا ہے اور اُن (جانوں) کو جنہیں موت نہیں آئی ہے اُن کی نیند کی حالت میں، پھر اُن کو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم صادر ہو چکا ہو اور دوسری (جانوں) کو مقرّرہ وقت تک چھوڑے رکھتا ہے”(39:42) ۔
اسلامی نظریہ کے مطابق روح نیند کی حالت میں جسم کا ساتھ چھوڑ جاتی ہے، لیکن اس سے اتنی قریب ہوتی ہے کہ، ذرا سا بھی حرکت ہونے پر، یہ اس میں واپس داخل ہو جاتی ہے۔
جب خدا کسی شخص کی موت کا حکم صادر فرماتا ہے تو روح اس میں مستقل طور پر رہتی ہے اور جس سے جسمانی موت ہو جاتی ہے لیکن روح ہمیشہ زندہ رہتی ہے
اگر مذہبی طور پر دیکھیں تو قرآن مجید میں اس کا ذکر موجود ہے۔ پارہ 24، سورۃ الزمر میں فرمایا گیا ہے :
اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَo
(الزمر، 39 : 42)
اللہ جانوں کو اُن کی موت کے وقت قبض کر لیتا ہے اور اُن (جانوں) کو جنہیں موت نہیں آئی ہے اُن کی نیند کی حالت میں، پھر اُن کو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم صادر ہو چکا ہو اور دوسری (جانوں) کو مقرّرہ وقت تک چھوڑے رکھتا ہے۔ بے شک اس میں اُن لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیںo
روح کی اقسام
روح کی دو اقسام ہیں :
حیوانی
سیرانی
حیوانی :
جو نیند کی حالت میں بھی موجود رہتی ہے، اس لیے انسان زندہ رہتا ہے، اگر یہ چلی جائے تو انسان مر جاتا ہے، جسم سے فقط رابطہ توڑا جاتا ہے۔
سیرانی :
نیند کے وقت یہ نکل جاتی ہے، سیر کرتی رہتی ہے، پھر انسان خواب میں جو کچھ دیکھتا ہے، وہ اس روح کی وجہ سے دیکھتا ہے، جو گھومتی پھرتی رہتی ہے، انسان جب نیند سے بیدار ہوتا ہے تو یہ روح بھی واپس آ جاتی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
A 2008 study found that déjà vu experiences are unlikely to be pathological dissociative experiences. Some research has looked into genetics when considering déjà vu. Although there is not currently a gene associated with déjà vu, the LGI1 gene on chromosome 10 is being studied for a possible link.

Writer: Jiya Tu

Mountains

Mountains

New mountains are born every year! Do you think mountains are static and always in the same place? You are wrong! Every year new mountains are formed on the earth and old mountains keep increasing in height. All this is caused by the movement of plate tectonics. Plates beneath the Earth’s surface collide with each other, creating new mountains. One of the world’s largest mountain ranges, the Himalayas, is rising a few millimeters every year! So when you look at a mountain, remember that these mountains are also “alive” and constantly growing. Knowing that everything in our world is moving, even mountains, is truly amazing!

photographer:Moazam Ali

The Magnificent Bathing Culture of Ancient Rome

The Magnificent Bathing Culture of Ancient Rome

The Baths of Caracalla, located in Rome, stand as one of the most splendid public baths of ancient Rome. Here, one can sense that the people of antiquity came to relax and enjoy life.

Historical Background of the Baths of Caracalla

Constructed in 216 AD by the Roman Emperor Caracalla, these baths served not only for bathing but also as a social and recreational hub. Ancient Romans would bathe, exercise, read, socialize, and even engage in business activities within these walls.

Remarkable Architecture

Upon entering the Baths of Caracalla, one’s gaze is immediately drawn to the magnificent architectural remnants. Although many sections have succumbed to the ravages of time over the millennia, the grandeur of that era remains palpable. The baths are divided into pools of cold, warm, and hot water, each expansive and exquisite. Additionally, there were rooms designated for exercise and study, where individuals engaged in both physical and mental pursuits.

Beautiful Mosaic Floors

The floors of the baths are adorned with numerous mosaics, featuring intricate designs and vibrant colors. These mosaics are not only aesthetically pleasing but also showcase the craftsmanship of ancient Roman artisans.